سیاسی

سابق صدر مملکت و پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نےکہا ہے کہ فارم 47 والی اس حکومت کے پاس مینڈیٹ کم ہے، اگر یہ حکومت چلتی رہی تو حالات خراب ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کی اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی جیل میں صحت اور موڈ دونوں اچھا ہے، مسائل کا حل بات چیت میں ہی ہے اور بات چیت کیلئے اپنی کوشش کرتے رہیں گے اور رابطے کیلئے پل کا کردار ادا کرتے رہیں گے، ہم ناکام تب ہوں گی جب ناکامی مان لیں گے۔ رہنما پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں فارم 47 والی حکومت ہے، اس فارم 47 والی حکومت کے پاس مینڈیٹ بھی کم ہے، اگر یہ حکومت چلتی رہی تو حالات خراب ہوں گے۔ سابق صدر عارف علوی نے کہا کہ کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹا کر فالس حکومت بنائی گئی،، پاکستان میں فارم 47 کی حکومت بنائی گئی،،پولیس کے منہ کو جو خون لگا دیا گیا ہے مستقبل میں اگر کوئی درست حکومت آتی ہے تو انہیں لگام دینا مشکل ہوگا،، حالات تباہی کیجانب جا رہے ہیں۔۔ عارف علوی نے مزید کہا کہ فوج اپنی ہے اور ہم نے ہمیشہ اپنی فوج کا دفاع کیا ہے، سوشل میڈیا سے افواہیں پھیلتی ہیں مگر دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں سوشل میڈیا کو بند کردیا گیا ہے، میڈیا اب آزاد ہوگیا ہے لوگوں کو پتا چل رہا ہے کہ دنیا میں اس وقت کیا ہورہا ہے۔ سابق صدر مملکت کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کاروں کے وفد کی پاکستان آمد خوش آئند ہے، اس دورے سے پاکستان کو فائدہ پہنچے گا، پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے نئی سیاسی جماعت میں شامل ہونے والے ممکنہ رہنماؤں کے ناموں کے حوالے سے اہم انکشاف کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر خزانہ اور ن لیگ کے سابق رہنما مفتاح اسماعیل نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں خصوصی گفتگو کی، اس موقع پر میزبان شہزاد اقبال نے ان سے نئی سیاسی جماعت کے قیام اور اس میں شامل ممکنہ سیاستدانوں کے ناموں کے حوالے سے سوال کیا۔ مفتاح اسماعیل نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ جمعرات یا جمعہ تک ہم نے نئی پارٹی کے آئین ، 2 لاکھ روپے چیک اور 2،3 ہزار دستخط اور شناختی کارڈ کی کاپیاں الیکشن کمیشن میں نئی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے جمع کروادیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل پارٹی کے نئے نام کے حوالے سے معاملات بھی حل کرلیے جائیں گے،ہم اس سے قبل ایک اہم اجلاس کرچکے ہیں، جبکہ متعدد ورچوئل اجلاس بھی ہمارے ہوچکے ہیں،19 تاریخ کو کراچی میں اجلاس ہوگا جبکہ 22 تاریخ کو کوئٹہ میں اجلاس ہوگا، ان اجلاسوں میں سندھ و بلوچستان کے لوگ شامل ہوں گے، اس کے بعد پارٹی کو باقاعدہ طور پر لانچ کیا جائے گا۔ پارٹی میں شامل رہنماؤں کے ناموں سے متعلق سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ لاہور سے ضعیم قادری، جاوید عباسی، سردار مہتاب عباسی، کراچی سے معیز جعفری اور دیگرایسے لوگ شامل ہیں،ہم نے کوشش کی ہے کہ پرانے سیاستدانوں کے ساتھ نئے چہروں کو سامنے لایا جائے، یہ ایسے لوگ ہیں جو سیاست سے تعلق نہیں رکھتے مگر پروفیشنل ہیں، پڑھے لکھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ملک جس ڈگر پر چل رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔
وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان اگر غیر مشروط طور پر گریٹر ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں تو مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی ایک حقیقت ہیں، اسی طرح عمران خان کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ نواز شریف اور آصف زرداری بھی ایک حقیقت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریٹر ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں، نواز شریف تیار ہیں، عمران خان اور پی ٹی آئی ایک حقیقت ہیں، لیکن دوسروں کو بھی حقیقت مانیں، اداروں کو گریٹر ڈائیلاگ کا حصہ ہونا چاہیے۔ مذاکرات کے سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات سیاسی ہیں تو اس میں سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی، اگر گریٹر ڈائیلاگ ہونا ہے تواس میں ادارے بھی شامل ہوں گے، بات تب ہی بنے گی جب ادارے شامل ہوں گے،تاہم مذاکرات جب بھی ہوں گے غیر مشروط ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج عمران خان کہہ دیں کہ وہ غیر مشروط طور پر گریٹر ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں تو پھر ان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مشیر راناثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اگر اتفاق رائے پیدا ہوجائے تو کوئی بھی عمل مشکل نہیں ہوتا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا نے واضح کیا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنےکے لئے اپنا استحقاق کھوچکی ہے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں پی ٹی آئی کو غیر قانونی جماعت قراردیکر اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنےکا فیصلہ کسی بھی وقت ہوسکتاہے اس سلسلے میں موزوں وقت پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا جائے گا۔ رانا ثنا نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے ثابت کیاہے کہ اسے ملک و قوم کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں فرد واحد کا اقتدار اور اسے اپنا ملجیٰ و ماویٰ ثابت کرنا اس کا نصب العین ہے, 9 مئی کے واقعات کے بارے میں کابینہ کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہوچکاہے کہ تحریک انصاف نے نو مئی کے ملک گیر حملوں کے لئے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی اس کا سرغنہ تحریک انصاف کا بانی ہے جس نے اپنے فدائین کو تیار رہنےکا حکم کئی ماہ سے دینا شروع کر رکھا تھا اور وہ انہیں خبردار کرتا رہا کہ وہ بہت جلد انہیں کال دے گا جس کے لئے وہ انتظار کریں۔سابق وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ نو مئی کے حملے اس کال کے تناظر میں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں مسائل اور اختلافات کو طے کرنےکا بہترین اور آزمودہ طریقہ مذاکرات ہوتے ہیں تحریک انصاف سے بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ثابت کرے کہ وہ سیاسی جماعت ہے اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہے,اس کا یہ دعویٰ کہ وہ صرف فوج سے مذاکرات کرے گی ثبوت فراہم کرتاہے کہ تحریک انصاف اور اس کے بانی کا سیاسی رویوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ نےوفاقی دارالحکومت میں ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں جن میں دیگر معاملات کےعلاوہ قومی اسمبلی کے آئندہ ہفتے شروع ہونے والے اجلاس میں اٹھائے جانے والے امور اورقانون سازی کے بارے میں تبادلہ خیال ہورہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انٹرویو کے دوران مزید کہا عمر ان خان کی گرفتاری کے بعد یہ تو پتہ تھا کہ پی ٹی آئی احتجاج کرے گی لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اداروں پر حملے اور دھاوا بول دے گی، حملے کا پتہ ہوتا تو انتظام کچھ اور ہوتا، حکومت سمجھتی تھی کہ پی ٹی آئی والے ویسے ہی احتجاج کریں گے جیسے سیاسی لوگ کرتے ہیں، چوک پر آئیں گے نعرے لگائیں گے، لیکن انہوں نے جو کچھ کیا حکومت اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہونے دیا جاتا تو 30 دن میں فیصلے ہوجاتے کیوں کہ اس حوالے سے اتنے شواہد ہیں کہ کسی قسم کا کوئی ابہام ہے ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا تو مزید تین سال گزر جائیں گے۔ انہوں نے نظام عدل میں اصلاحات پر بھی زور دیا۔ ایک اور پروگرام میں رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات نے ملک میں معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے نو مئی کے ملزمان کے ٹرائل میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا۔ رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ انصاف کی فراہمی میں ناکامی کے لیے ’ملک کا عدالتی نظام اور پاکستان کا آئین ذمہ دار ہے۔
اینکر پرسن عدنان حیدر نے انکشاف کیا ہے کہ شیر افضل مروت نے تین دفعہ سعودی سفیر سے ملاقات کی درخواست کی سعودی سفیر نے مصروفیات کے باعث معذرت کر لی کیونکہ سعودی وفد کے باعث وہ انگیج تھے عدنان حیدر کے مطابق شیر افضل مروت سعودی سفیر سے ملاقات کرکے اپنی پوزیشن کلئیر کرنا چاہتے تھے۔ اس پر نصرت جاوید کی رگ ظرافت پھڑکی اور اینکر عدنان حیدر سے کہا کہ شیرافضل مروت صاحب ان سے محتاط رہئیے، یہ آپکےد شمن عمرایوب خان اور شبلی فراز سے مل گئے ہیں۔ بعدزاں نصرت جاوید نے بھی انکشاف کیا کہ ڈپلومیٹک سرکلز بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ شیرافضل مروت سعودی سفیر سے ملکر اپنی پوزیشن کلئیر کرنا چاہتے تھے اس پر شیر افضل مروت نے ردعمل دیا اور کہا کہ ساری سیاست اور آج کی صحافت جھوٹ پر چلتی ہے۔ میں نے ساتھیوں اور صحافیوں سے اپنے بارے میں اتنے جھوٹ سن رکھے ہیں کہ اگر مجھے کہا جائے کہ میں نواز شریف، بھارتی سفیر اور امریکی سفیر سے ملا ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے من گھڑت جھوٹ سے متعلقہ لوگ اختلاف کا بیج بو رہے ہیں ایک بے شرم صحافی اپنے شو میں بتا رہا تھا کہ میں نے سعودی سفیر سے ملنے کی کوشش کی۔ خان کو اس طرح کے جھوٹ سے آگاہ کیا گیا ہے جس کا مقصد بداعتمادی پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ذلت آمیز زندگی پر باوقار موت کو ترجیح دوں گا اور جو دوست میرے لیے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اسے بند کر دیں۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جس کی مجھے وضاحت کرنی پڑے۔ میں ایسے سیاست دانوں اور صحافیوں کی مذمت کر سکتا ہوں جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کہانیاں گھڑنے میں اتنے گرے ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ مسٹر نصرت جاوید اور نامعلوم صحافی: اگر آپ نے پارٹی میں میرے حریفوں کی طرف سے میرے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر پھیلایا ہے تو خدا آپ کے پورے خاندان کو برباد کرے اور اگر میں نے کبھی سعودی سفارت خانے میں کسی سے ملنے کی کوشش کی تو خدا مجھے تباہ کرے۔ . واضح رہے کہ شیر افضل مروت نے کہا تھا کہ رجیم چینج آپریشن میں سعودی عرب بھی ملوث تھا، سعودی عرب اور امریکا کے تعاون سے رجیم چینج آپریشن ہوا، پاکستان میں جتنی بھی سرمایہ کاری آرہی ہے وہ اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اظہار لاتعلقی کے بعد شیر افضل مروت نے بھی اپنے بیان کی وضاحت جاری کی اور کہا کہ عمران خان نے سعودی عرب سے متعلق بیان پر میری سرزنش کی
مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے 9 مئی واقعات کے حوالے سے نگراں حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے 9 مئی کی تحقیقاتی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور کہا کہ یہ رپورٹ دیگر روایتی رپورٹس کی طرح بس ایک دستاویز ہے۔ ایک نجی شو سے بھی بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے نگران حکومت کی بنایی گئی انکوائری رپورٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ملی کہ جس کے ذریعے کہا جا سکے کہ جو 9 مئی کے ذمہ دار ہیں ان کیخلاف واقعی بڑے زبردست ثبوت ہیں، اس رپورٹ کو اس لیول پہ ویلیو نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی رپورٹس میں واقعات کے ملوث کرداروں کی واضح اور براہ راست نشاندہی نہیں کی جاتی، 9 مئی کے حوالے سے کسی رپورٹ یا بات چیت کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ ایک مجرمانہ فعل تھا اور اس میں مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے، مجرمانہ ٹرائل ہونا چاہیے۔ مشیر برائے سیاسی امور نے مزید کہا کہ آج ہونے والا وفاقی کابینہ اجلاس خصوصی طور پر 9 مئی واقعات کی مذمت کیلئے تھا،اس مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کو اب تک سزا نہیں ہوئی، تحقیقات ہونی چاہیے اور تحقیقات کے بعد جو بے گناہ ہوں وہ گھر جائیں جبکہ ذمہ داروں کو سزا ملے ، پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے ، امریکہ کی تازہ ترین مثال سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولیات کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولیات پر اعتراض نہیں ہیں، جب کسی کو جیل میں رکھنا مقصود ہے تواسے جیل میں ہی رکھا جانا کافی ہے۔
مغوی سیشن جج کی آزادی میں شیر افضل مروت کا کیا کردار تھا؟ شیرافضل مروت نے حقیقت بتادی سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت کی رہائی میں شیر افصل مروت کا کیا کردار تھا, صحافی کے سوال پر پی ٹی آئی رہنما نے حقیقت بتادی,انہوں نے کہا کہ سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت ان کے قبیلے کہ ہیں تو انہوں نے جنوبی وزیرستان کے ایم این اے جو اس مقام پر رہتے ہیں جہاں مغوی لے جائے جاتے ہیں ان سے کہا تھا کہ سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت کا پتا لگائیں تو انہوں نے بتایا کہ سیشن جج کو اس مقام پر ابھی لے جایا نہیں گیا ہے, اس بات کے پندرہ منٹ بعد سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت کی رہائی کی اطلاع آگئی بس اتنا ہی کردار تھا میرا. شیر افضل مروت کے بیان پر صحافی افتخار فردوس نے ٹویٹ کیا کہ میں نے کہا تھا کہ شیر افضل مروت کا جج کی رہائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن آپ نے اصرار کیا کہ رہائی کے پیچھے وہ ہے۔ کبھی ہم غریب صحافیوں کے بھی مان لیا کریں۔ یہ 7 کروڑ تاوان تھا جو ادا کیا گیا۔ سینئر صحافی اعزاز سید نے دعویٰ کیا تھا کہ سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت کے اغوا کیے جانے اور ان کی رہائی کیلئے کروڑوں روپے دیئے گئے ہیں۔جج کی رہائی کے لیے خیبرپختونخوا حکومت نے پانچ کروڑ روپے دیئے جب کہ دیگر ذرائع کے مطابق 7 کروڑ کی ادائیگی کی گئی تاہم خیبرپختونخوا حکومت نے اس دعوے کی تردید کی ۔ اعزازسید نے پروگرام ’ٹاک شاک‘ میں بتایا تھا کہ جج کی رہائی کے لیے خیبرپختونخوا نے 5 کروڑ روپے ادا کیے ہیں اور اس میں مرکزی کردار شیر افضل مروت نے ادا کیا۔دوسری جانب پولیس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جج کو آپریشن کے ذریعے رہا کرایا گیا۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف علی نے بتایا تھا کہ صوبائی حکومت نے جج شاکر اللہ مروت کی بازیابی کے لیے کوئی تاوان ادا نہیں کیا ہے، تاوان کی ادائیگی سے متعلق چلنے والے بے بنیادافواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔انہوں نے مزید بتایاکہ جج شاکر اللہ مروت کی بازیابی حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ سیشن جج وزیرستان کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم سے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور جج کے سیکیورٹی گارڈ کو رہا کر کے ان کی گاڑی کو نذر آتش کردیا تھا۔ دو روز بعد مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت کو بازیاب کرانے کی اطلاع دی۔انہوں نے کہا تھا کہ جج شاکر اللہ مروت کو بحفاظت ان کے گھرپہنچا دیا ہے۔
عمران خان سے ملاقات نہ ہونے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے روئیے سے شیرافضل مروت دلبرداشتہ۔۔احتجاجاً پارٹی کے اندر اپنے مخالفین کیساتھ کام نہ کرنے کا اعلان شیر افضل مروت کی آج بھی عمران خان سے ملاقات نہ ہوسکی، شیر افضل مروت نے کہا، شبلی فراز اور عمر ایوب نےملاقات نہیں کرنے دی، جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا، عمران خان آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتے ہیں، آج آیا تو جیل سپرنٹنڈنٹ نے ملاقات نہیں کرائی شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ شبلی فراز اور عمرایوب نے عمران خان کو کہا کہ سعودی سفیر کا پیغام ہے اگر شیر افضل مروت کمیٹی کا چیئرمین بنا تو ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ شیر افضل مروت کا احتجاجاً پارٹی کے اندر اپنے مخالفین کیساتھ کام نہ کرنے کا اعلان، کہا کہ پی ٹی آئی کی خدمت کا یہ صلہ ہے کہ سوشل میڈیا میرے خلاف شکایت کرے، میرے بھائی کو اچانک ڈی نوٹیفائی کیا، نہیں رکھنا تھا تو بتا دیتے استعفیٰ دے دیتا، انکا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا قومی اسمبلی سے استعفیٰ دو تو آنکھیں بند کرکے دوں گا، تب احتجاج کیلئے آوں گا جب عمران خان ذمہ داری دیں گے۔۔۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کیلئے نکلا تھا، آزادی کیلئے نکلا تھا، ہر معاملے میں عمران خان کو گمراہ کیا گیا، میں جس ایجنڈے کیلئے نکلا تھا آج وہ ایجنڈہ ختم ہوگیا، یہ لوگ آئیں اور احتجاج کریں میں ان کی پیروی کروں گا، یہ اپنا بیان دیدیں پھر میں ان کا کچا چٹھا کھولوں گا، ملاقات میں رکاوٹ جیل حکام ڈال سکتے ہیں جو اوپر ہیں وہ بھی ڈال سکتے ہیں،
سانحہ 9 مئی کے بعد ملک بھر میں 105 ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا, فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کی آئینی و قانونی حیثیت پر بحث جاری ہے جبکہ ان ملزمان کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے,ملٹری کورٹس میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے ٹرائل کیسے کیے گئے اور ان ٹرائلز کے ملزمان کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے 4 ملزمان کی نمائندہ وکیل خدیجہ صدیقی سے خصوصی نے تفصیل بتادی۔ خدیجہ صدیقی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بتایا ملٹری کورٹس عام عدالتوں سے مختلف ہیں، عام عدالتوں میں ایک جج ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک سٹینوگرافر ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ ٹائپ کر رہا ہوتا ہے، لیکن فوجی عدالتوں میں ایسا کچھ نہیں ہے,انہوں نے بتایا فوجی عدالت میں ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا ہے وہاں لیفٹینیٹ کرنل اور میجر رینک کے افسران موجود ہوتے ہیں۔ خدیجہ صدیقی نے مزید بتایا یہ عدالتیں ٹرائل کے دوران فوجداری مقدمات کے قانون شہادت اور ٹرائل کے طریقے کار سے بے خبر ہیں یا انہیں فرق نہیں پڑتا، ’شہادت کیسے ریکارڈ ہورہی ہے؟ شہادت ریکارڈ کرنے کا قانون کیا ہے؟ وہاں اس کی پرواہ نہیں کی جاتی، ہاتھ سے شہادت ریکارد کی جاتی ہے، عدالت میں جیگ برانچ کا بھی ایک رکن موجود ہوتا ہے جسے فوجی قوانین کا علم ہوتا ہے لیکن وہ پریکٹسنگ وکیل نہیں ہوتا، عدالت کو ایک لیفٹینیٹ کرنل کنڈکٹ کر رہا ہوتا ہے۔ وکیل خدیجہ صدیقی کے مطابق یہ ٹرائل بند کمرے میں ہوتے ہیں، آئین کے مطابق آزاد اور شفاف ٹرائل ہونا ضروری ہیں لیکن یہاں جن لوگوں نے مقدمات بنائے ہوتے ہیں وہی اپنے گواہان پیش کر کے فیصلے کر رہے ہیں اس لیے انہیں آزاد اور شفاف ٹرائل نہیں کہا جاسکتا۔ خدیجہ صدیقی کے مطابق فوجی عدالت میں ایک ملزم کو صرف ایک وکیل کی اجازت ہوتی ہے اور ساتھ میں کوئی معاون وکیل بھی داخل نہیں ہوسکتا، حتٰی کہ بہت سے ملزمان کے وکیل نہیں ہوتے اور انہیں جو وکیل فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی آرمی آفیسر ہی ہوتا ہے جب کہ 9 مئی کے ملزمان میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کو وکیل نہیں دیا گیا۔ عدال خدیجہ صدیقی نے کہا کہ و ہ عدالت میں واحد خاتون وکیل تھی، میرے ساتھ ان کا رویہ اچھا تھا، مجھے پرسکون رکھا لیکن جس طریقہ کار کے تحت ٹرائل ہوتا ہے وہ بالکل غلط ہے اور خلاف قانون ہے۔ وہاں یہ سوچ ہے کہ اس کی ویڈیو آگئی ہے تو بس ٹرائل کریں اور سزا دیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’پہلے دن فوجی عدالت میں تھوڑا عجیب لگا کیوںکہ وہاں کالا کوٹ پہنے وکیل یا جج نہیں تھے بلکہ باوردی فوجی افسران تھے، لیکن پھر مجھے عادت ہوگئی۔ قیدیوں سے متعلق سوال کے جواب میں خدیجہ صدیقی نے کہا کہ کوٹ لکھپت جیل میں اور فوج کی تحویل میں قید ملزمان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام قیدی کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن فوج کی تحویل میں لوگوں کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ خدیجہ صدیقی کے مطابق ان ملزمان کو روزانہ کی بنیاد پر ایک چھوٹے سے اندھیرے کمرے میں رکھا جاتا تھا جہاں 12، 12 گھنٹے تک تفتیش جاری رکھی جاتی، اس دوران ملزمان نے خود پر تشدد کی بھی شکایات کی ہیں، ملزمان بتاتے ہیں کہ ابتدائی 2 ماہ میں انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ابتدا میں ملزمان پر اعترافی بیان کے لیے ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا۔ ایک ملزم کو جب ہر طرح سے ٹارچر کیا گیا لیکن وہ اعترافی بیان دینے کے لیے رضا مند نہ ہوا تو جب اس کے سامنے ناخن نکالنے والی مشین لائی گئی تو پھر وہ اعترافی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے تیار ہو گیا۔ خدیجہ صدیقی کے مطابق لاہور میں فوجی عدالتوں کا سامنا کرنے والے 28 ملزمان تھے اور سب نے اعترافی بیان دے دیا اور سب کے بیانات تقریباً ملتے جلتے ہی تھے۔ ابتدائی طور پرجب 2 جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان ملزمان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے جب ان کے جسم پر جسمانی تشدد کے نشانات دیکھے تو انہوں نے اعترافی بیان ریکارڈ کرنے سے ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کوٹ لکھپت میں حالات مختلف ہیں، وہاں فیملیز سے ملاقات کی اجازت ہے لیکن یہاں تو ابدتدائی 2 ماہ تک ملزمان کا کچھ پتا ہی نہیں تھا، یہ بھی نوٹ ہوا ہےکہ فوج کی تحویل میں ملزمان کا وزن کم ہوا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسان نیازی کا 25 کلو تک وزن کم ہوا ہے لیکن جب سے اعترافی بیان لیا گیا ہے اس کے بعد اب تشدد نہیں کیا جاتا اب کچھ بہتر طریقے سے رکھا جارہا ہے۔‘ حسان نیازی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں خدیجہ صدیقی نے بتایا کہ ’حسان نیازی کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا کہ وہ عمران خان کا بھانجا ہے ان پر اس بات کا کیس بنایا گیا ہے کہ وہ ایک ممنوعہ علاقے میں گئے۔ کیسے جیو فنسگ سے 10 ہزار لوگوں میں سے 28 لوگوں کو الگ کر دیا گیا اور پھر ان کو فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔؟‘ انہوں نے کہا کہ ’حسان نیازی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے تاکہ ایک مثال بنائی جاسکے لیکن حسان نیازی گزشتہ سال 9 مئی کو جس مؤقف پر کھڑے تھے وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔ فوج کے ردعمل کے بعد وفاقی حکومت کا سانحہ نو مئی کے کرداروں کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا, وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاوس میں ہو گا۔وزیراعظم وفاقی کابینہ کے فورم سے نو مئی واقعہ پر خصوصی پیغام دیں گے. کابینہ اجلاس می‍ں نو مئی واقعہ کی مذمت کی جائے گی۔ شہداء سے اظہار یکجہتی کیجائے گی۔ وفاقی کابینہ اجلاس میں نو مئی کو سیاہ دن قرار دیا جائے گا, وفاقی کابینہ نو مئی کو پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری رویوں کے فروغ پر زور دے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس کے دوران مداخلت اور نوک جھونک جسٹس اطہر من اللہ نے صدر سپریم کورٹ بار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا "76 سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے ! ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟سچ کیوں نہیں بولتے؟ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے" ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہاں انٹریپٹ کروں گا، پلیز کیس آگے بڑھائیں۔ صدر سپریم کورٹ بار بولے "مائی لارڈ سچ کہیں اور سے آنا چاہیے ! آپ یہاں پر بیٹھ کر تسلیم کر رہے ہیں آپ شریک جرم ہیں" اِس پر روسٹرم پر موجود صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن شہزاد شوکت کا موقف تھا کہ اگر آپ ایسا کہیں گے تو آپ (جھوٹ میں ملوث ہونے کا ) اعتراف کر رہے ہونگے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا "صدر صاحب آپ یہ کہیں کہ پھر آپکو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے ! معزرت چاہتا ہوں لیکن میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا ! دو ٹوک انداز میں یہ کہنا چاہتا ہوں ! اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے ! کوئی ایسا کہے تو ایسی باتیں کرنیوالے (جج) کو یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے" ۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے " یہ میں نہیں کہہ رہا یہ بات اٹارنی جنرل صاحب نے بھی کہی ہے"
سینئر صحافی و تجزیہ کار کاشف عباسی نے آج ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر رردعمل دیتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کردیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام آ ف دی ریکارڈ کے میزبان کاشف عباسی نے آج ترجمان پاک فوج کی پریس بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کی جانے والی باتوں پراپنا ردعمل دیا۔ کاشف عباسی نے کہا کہ آج ہونے والی پریس بریفنگ میں ترجمان پاک فوج کے تقریبا تمام سیاسی معاملات پر بھی کھل کر گفتگو کی، 9 مئی کا ذکر ہوا ، اظہار رائے کی آزادی، 8فروری کے انتخابات کے حوالے سے اور پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کھل کر بات ہوئی۔ کاشف عباسی نے کہا کہ بریفنگ کےد وران جب 9 مئی کی بات شروع ہوئی تو فوٹیجز چلنا شروع ہوگئی جس سےثابت ہوا کہ آج 9 مئی پر بات ہونی ہے یہ پہلے سے طے تھا، آج ریاست نے 9 مئی کے واقعات پر اپنی پوزیشن واضح کی، 9 مئی میں ملوث افراد کو سزا دیئےجانے والوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی، کسی کے گھر میں گھسنا ، چاہے وہ کسی کا بھی گھر ہے درست نہیں ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ریاست بدلہ نہیں لیا کرتی، انصاف کیا کرتی ہے اور انصاف کے تقاضے پورےکرتی ہے، 9مئی کے واقعات میں بہت سے لوگ گرفتار ہیں، ان میں بہت سے معصوم بھی ہوں گے، ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انصاف کرنا ہے یا نہیں، ایسے واقعات کسی کے ساتھ بھی ہوں اس پر انصاف ہونا چاہیے۔ کاشف عباسی نے کہا کہ بہت سے لوگ ایسےہیں جن پر بیک وقت 6 مختلف شہروں میں موجودگی کا الزام ہے، شاہ محمود قریشی پر لاہور، ملتان، راولپنڈی اور میانوالی میں ایف آئی آرز ہیں، ایسے لوگ ہیں جن پر ایک وقت میں 40، 40 مقدمات درج ہیں، وہ کوئی چھلاوے نہیں ھے کہ ایک ساتھ 6 سے 7 مقامات پر موجود تھے، 9 مئی کے واقعہ پر سیاسی محاذ آرائی نہیں ہونی چاہیے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جان مال و آبروکے تحفظ کی بات کی گئی، 9 مئی کے واقعات کے بعداور اس سے قبل جس طرح پولیس نے لوگوں نے گھروں میں گھس کر جان مال و آبرو، چادر و چار دیواری کو جس طرح پامال کیا گیا،متعدد داستانیں بھری پڑی ہیں جن میں ایک سال میں ایک سیاسی جماعت کے سیاستدانوں کے ساتھ ہونے مظالم کی تفصیلات بھری پڑی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترجمان پاک فوج سے 8 فروری کے انتخابات سے متعق سوال بھی پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ حقائق سے بات کریں۔ کاشف عباسی نے کہا کہ آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس چلے جائیں ہر سیاسی جماعت ایک ہی بات کرے گی کہ ملکی تاریخ میں ایک بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے، جب ان سیاسی دانوں سے ذمہ داروں سے متعلق سوال پوچھا جائے تو سب کا اشارہ ایک ہی طرف جاتا ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار بینظیر شاہ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھانے کی خبروں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی، قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس دوتہائی سے زیادہ ہی اکثریت ہے تاہم سینٹ میں ان کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے سینٹ میں 12 ووٹوں کی ضرورت ہے جس کیلئے انہیں جے یو آئی ف اور آزاد سینیٹر کی حمایت لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف سے بھی ووٹ لینے پڑیں گے۔ ججز کے ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھانے اور چیف جسٹس کے فکس ٹینور بارے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے پیچھے سوچ کیا؟ ایسی کون سی ضرورت ہے جس کیلئے چیف جسٹس کے فکس ٹینور کی ضرورت ہے؟ چیف آف آرمی سٹاف یا وزیراعظم کے فکس ٹینور کی بات تو پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے کی جاتی ہے لیکن چیف جسٹس نے ایسا کون سا ایڈمنسٹریٹو کام کرنا ہے جس کیلئے فکس ٹینور کی ضرورت پڑے گی؟ انہوں نے کہا کہ اب تک حکومت کی طرف سے اس معاملے پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا کہ یہ تجویز کس وجہ سے دی جا رہی ہے یا اس کے پیچھے سوچ کیا ہے؟ عدلیہ کے حوالے سے بڑے معاملات جن میں مداخلت یا عوام کی عام شکایت ہے کہ سپریم کورٹ میں سال ہا سال کیس چلتے رہتے ہیں، شنوائی نہیں ہوتی! چیف جسٹس کے فکس ٹینور سے یہ معاملات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟ بینظیر شاہ کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی یہ تجویز سنی گئی تھی، 2019ء میں بھی تحریک انصاف کے دوراقتدار میں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے کچھ ایم این ایز پرائیویٹ ممبرز بل لائے تھے تب میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت مسلم لیگ ن اس کے حق میں نہیں تھی کیونکہ اس وقت چیف جسٹس جسٹس کھوسہ تھے جن سے ان کو بہت سی شکایات تھیں! مسلم لیگ ن نہیں چاہتی تھی کہ جسٹس کھوسہ کی ریٹائرمنٹ ایج بڑھائی جائے یا وہ 2 سے 3 سال مزید چیف جسٹس رہیں، سوال یہ ہے کہ تب اس بل کے خلاف کیوں تھے اور اب حق میں کیوں ہیں؟ ہمارے ہاں پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ نوجوانوں کو حکومتی اداروں میں لائیں! اگر چیف جسٹس کا 3 سال کیلئے فکس ٹینور کر دیا جائے تو بہت سے نوجوان وکلاء کو بہت انتظار کرنا پڑے گا۔ ججز کی تعیناتی کے حوالے سے کہا کہ جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں بھی اس حوالے سے بحث کا آغاز ہوا تھا اور انہوں نے اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن کی آڈیو بھی پبلک کر دی تھی جس میں کہا گیا تھا اس معاملے میں ٹرانسپیرنسی ہونی چاہیے، حکومت کو یہ معاملہ بھی دیکھنا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کی آڈیو پبلک ہونی چاہیے تاکہ پتا چلے کہ ججز تقرری کے لیے فیصلے کیسے ہوتے ہیں؟
پنجاب اور اسلام آباد میں ‏میٹرو بس کے ٹوکن کیوں ختم کیے گئے؟ کہانی سامنے آگئی, صحافی فرحان نے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ ایکس پر لکھا کہ میٹرو بس سروس کے یہ نئے ٹوکن، کرپشن کی دکان کھولنے کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتے ہیں,غور کیجیے، بغیر سیریل نمبر کے، یہ ٹکٹ کتنے پرنٹ ہوئے، کوئی نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کہا جائے کہ ان ٹکٹوں کی اتنی گڈیاں پرنٹ ہوئی تھیں تو آڈٹ کا بس یہی ایک طریقہ ہو گا۔اس میں سب سے بڑی قباحت کاغذی ٹکٹ کا بار بار پرنٹ ہونا ہے۔ انہوں نے مزید کہا آپ نے جب پلاسٹک کے سکے بنوا لیے تھے جو کہ کئی سالوں سے چل رہے تھے اور کمپیوٹرائزڈ بھی تھے، جن کا ریکارڈ بھی تھا کہ کتنے ٹکٹ سیل ہوئے، اور آڈٹ بھی ممکن تھا اب ان کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اب ان پرانے سکوں کا کیا ہو گا؟ فرحان خان نے لکھا پہلے ٹکٹ کاؤنٹر سے پلاسٹک کا سکہ ملنے سے پہلے اس کی کمپوٹرائزڈ مشین میں انٹری ہوتی تھی۔ پھر وہ سکہ پلیٹ فارم پر داخلے کے لیے مشین پر رکھا جاتا تھا تو مشین دیکھ لیتی تھی کہ یہ سکہ اصل ہے، ہمارے سسٹم میں اس کا اندراج ہے اور لینے والے نے پیسے دیے، تب جا کر کسی کے لیے میٹرو بس میں سفر کرنا ممکن ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا اب کاغذی ٹکٹ کی کوئی انٹری نہیں ہے، پلیٹ فارم پر چڑھتے وقت ایک صاحب ٹکٹ دیکھ کر داخلہ کی اجازت دیتے ہیں۔ اور واپسی پر ایک اور صاحب ٹکٹ واپس لیتے ہیں۔ واپس دیے گئے ٹکٹس کیونکہ کمپوٹرائزڈ نہیں ہیں، ان کے سیریل نمبرز بھی نہیں ہیں تو دوبارہ استعمال ہو سکتے ہیں۔کمپیوٹر انجینیئر ہونے کے ناطے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کرپشن کی غضب کہانی شروع ہو رہی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کہتے ہیں پی ٹی آئی والے جس اسمبلی کو جعلی کہتے ہیں اسی اسمبلی میں آکر بیٹھتے ہیں،انتخابی عمل کو اصلاحات کے ذریعہ ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے، نواز شریف کو نااہل کرنا پاکستان کے ساتھ زیادتی تھی،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کو دینا کہیں لکھا ہوا نہیں ہے، 2008میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں طے ہوا تھا کہ پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن کو دیں گے۔2017ء میں سازش کے ذریعہ نواز شریف کو نااہل کیا گیا، انہوں نے کہا انتخابی عمل کو اصلاحات کے ذریعہ ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے، حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے کیلئے تیار ہوں، پی ٹی آئی کے ارکان کو اب سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے ڈیل کریں گے،پیپلز پارٹی جس طرح حکومت کے ساتھ چل رہی ہے آئندہ بھی چلے گی، شاہد خاقان عباسی کو اتنا کچھ دیا گیا اس کے بعد ان کی ناراضی نہیں بنتی تھی، سابق چیئرمین نیب کا احتساب ہونا چاہئے۔ جیوکے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا اللہ تعالیٰ نے نواز شریف کیلئے بہت بہترکیا ہوگا، نواز شریف کیلئے آنے والے دنوں میں بہت اچھا ہوگا، پارٹی میں سب کی خواہش اور کوشش تھی کہ نواز شریف وزیراعظم بنیں، نواز شریف کے پاس چوائس تھی لیکن انہوں نے وزیراعظم بننا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم کیلئے نواز شریف نے ہی نامزد کیا، ہمیں امید تھی کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے، ایاز صادق نے کہا نواز شریف کے ادوار میں معیشت اور دیگر شعبوں میں بے تحاشا کام کیا، 2017ء میں سازش کے ذریعہ نواز شریف کو نااہل کیا گیا، نواز شریف کو نااہل کرنا پاکستان کے ساتھ زیادتی تھی۔ سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ شہباز شریف خود نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہیں، شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے والا بھی نواز شریف گروپ ہی ہوتا ہے، اسپیکر نے کہا شہباز شریف کے لیڈر بھی نواز شریف ہی ہیں پارٹی میں کوئی گروپنگ نہیں ہے، ملک میں کوئی لیڈر بھی نواز شریف جیسا ویژن نہیں رکھتا ہے، نواز شریف ملک کی خاطر اکٹھے بیٹھ کر بات چیت کے ذریعہ معاملات حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، نواز شریف کلیئر ہیں کون ان کا دوست ہے کون نہیں ہے لیکن اظہار بہت محتاط ہو کر کرتے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ قومی اسمبلی اس وقت مکمل خودمختاری کے ساتھ کام کررہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف ہمیں نہیں بتاتے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا، بطور اسپیکر قومی اسمبلی حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے مشورہ کرتا ہوں،پی ٹی آئی والے جس اسمبلی کو جعلی کہتے ہیں اسی اسمبلی میں آکر بیٹھتے ہیں،انتخابی عمل کو اصلاحات کے ذریعہ ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی انتخابات پر جیوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی نہیں مانے گی۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف مسلم لیگ ن کی صدارت کی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالیں گے جبکہ ن لیگ کے رہنما سعد رفیق کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنائے جانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ذرائع کے مطابق سیکرٹری جنرل کی تجویز مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پیش کی جائے گی، اس حوالے سے حتمی فیصلہ بھی جنرل کونسل کے اجلاس میں کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کا جنرل کونسل کا اجلاس 11 مئی کو لاہور میں ہو گا، جنرل کونسل اجلاس میں نواز شریف کو ن لیگ کا صدر بنایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق احسن اقبال نے پی ڈی ایم حکومت کے دوران بھی پارٹی قیادت کو سیکرٹری جنرل کا عہدہ چھوڑنے کا کہا تھا۔
انوارالحق کاکڑ نے گندم کی درآمد کے اپنے فیصلے کو درست قرار دیدیا۔۔ انکا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے عوام کو فائدہ پہنچا، ہمیں موردالزام نہ ٹھہرایا جائے سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ گندم کی درآمد پرمجھے مجرم ثابت کیا جارہا ہے۔فیصلے سے عوام کو فائدہ ملا ۔ ہمیں موردِ الزام ٹھہرانے والے سیاست کررہے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے اپنے دورحکومت میں بلیک میں کھاد خریدنے کا اعتراف بھی کیا۔ نجی چینل کے پروگرام مدمقابل میں گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وفاق نے صوبوں کی ڈیمانڈ پر ایک ملین ٹن گندم خریداری کی اجازت دی ۔گندم حکومت نے نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر نے امپورٹ کی۔ گزشتہ برس اگست اور ستمبر میں پرائیویٹ سیکٹر1.2ملین ٹن گندم امپورٹ کر چکا تھا۔تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو کریں کس نے روکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی بھی غلط فیصلہ نہیں کیا تھا۔ یہ کوئی ٹماٹر نہیں جو خراب ہو جائیں گے، گندم کو تین سال تک محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ فری ٹریڈ کیلئے اسٹیٹ بینک نےاجازت دی ہوئی ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جو آٹا لوگوں کو 100روپے ملتا تھا اب 60روپے کلو مل رہا ہے۔ہم نے کوئی بھی غلط فیصلہ نہیں کیا۔ تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو کریں کس نے روکا ہے؟ سابق (پی ڈی ایم) حکومت نے کسانوں کو سپورٹ پرائس مقرر کر کے کمٹمنٹ دی تھی وہ اب پوری کرے۔گندم خریدے۔بحران ختم ہو جائے گا۔ گندم معاملے سے نگراں دور کا کوئی تعلق نہیں ۔انٹرنیشنل مارکیٹ میں گندم سستی ہوئی تو پرائیویٹ سیکٹر نے گندم خرید کر فائدہ اٹھایا۔ہم نے کوئی بھی غلط فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ماضی میں 75 ارب روپے کی گندم خریدی گئی جو خراب ہوگئی تھی۔ خراب ہونے والی گندم پر اب بھی انکوائری چل رہی ہے۔جب ریفارمز کی جاتی ہیں تو تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے۔ یادرہے کہ انوارالحق کاکڑ خود سیبوں کے کاشتکار ہیں، جب ان سے سوال کیا تھا کہ آپکی سیب کی فصل پک کر تیار ہوگئی ہے اسی دوران باہر سے دھڑا دھڑ سیب منگوالئے جائیں تو آپ کو کیسا لگے گا جس پر کاکڑ نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یہ کمپیٹیشن کا زمانہ ہے۔
لیگی رہنما دانیال عزیز نے بڑا انکشاف کردیا،انہوں نے کہا ‏گندم کی امپورٹ کافیصلہ نگران حکومت کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا تھا۔ دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ یہ جو جھوٹ ہے کہ سب کچھ نگران حکومت کی وجہ سے ہے یہ جھوٹ اب نہیں بکے گا، وفاقی حکومت اگست میں ختم ہوئی تھی اور کابینہ بنتے بنتے کچھ دن لگ جاتے ہیں۔ دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ 23جولائی2023کو وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے ای سی سی کی میٹنگ میں امپورٹ کی اجازت دی اورامپورٹ کی حد بھی مقرر نہیں کی اور ڈیوٹی فری کی اجازت دی اور پہلی شپمنٹ نگران حکومت کے دور میں ہی آئی۔ دانیال عزیز نے مزید انکشاف کیا کہ موجودہ حکومت کی مارچ میں میٹنگ ہوئی جس میں مزید6لاکھ ٹن امپورٹ کی گئی. واضح رہے کہ گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات کرنے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں اہم ترین انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم درآمد کرنے کے لیے ایک منظم منصوبے کے تحت نجی شعبے کو کھلی چھوٹ دی گئی جس نے اضافی گندم درآمد کر کے قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ وزارت خزانہ کی سفارش پر نگران حکومت کے دور میں نجی شعبہ کو مقررہ حد کے بجائے کھلی چھوٹ دے دی گئی۔
سابق وزیراعظم ورہنما مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام "روبرو" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کو جسٹس (ر) جاوید اقبال پچھلے 13 برسوں سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کو ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کو ڈھونڈنے کیلئے رکھا ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سب دبائو میں آکر کیا۔ جاوید اقبال اس کے باوجود آج بھی لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ ہے اور کسی میں ہمت نہیں کے اسے عہدے سے ہٹائے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 16 سالوں سے سندھ میں ان کی حکومت قائم ہے، ان کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ان کے صوبے میں امن قائم ہو گیا ہے۔ ہمارا نظام بالکل ناکام ہو چکا ہے، نظام بدلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، شخصیات پر بھروسہ کرنا ہماری ناکامی کی دلیل ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پولیس ہمیشہ سے ہی مقامی ہوتی ہے، مقدمات صرف اور صرف سیاستدانوں کو پکڑنے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں، ملک کی بہترین شخصیات کو ملزم میں تبدیل کر دیا اور ایسے تماشوں پر کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عمران خان نے مجھ پر دبائو ڈالنے کیلئے مقدمہ بنوایا، میں تو آج بھی یہ کہتا ہوں کہ مجھے بری کرنے کے بجائے مجھ پر کیس چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت سٹیل مل خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو ضرور خریدے، سندھ حکومت کو 2015 میں کہا تھا کہ سٹیل مل ایک روپے میں خرید لے۔ سابق وزیر خزانہ نے اس وقت سندھ حکومت کو خط بھی لکھا تھا، مفتاح اسماعیل نے بھی کہا تھا کہ میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو ایک روپے میں دے دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن میں واپسی اب ناممکن ہے تاہم اگر مجھ میاں نوازشریف نے ٹیلیفون کیا تو ان سے ملنے چلا جائوں گا۔ آئین پاکستان میں ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ موجود ہی نہیں ہے اور ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں پچھلے 3 برسوں میں مکمل طور پر ثابت ناکام ہوئی ہیں۔
سربراہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے مذاکرات کے لیے عمران خان کی 4 شرائط واضح کردیں,سربراہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا پی اےسی کےعہدے کےلیے میں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ میں نے کسی کمیٹی کےممبر بننےکےلیے اپنا نام دیا۔ صاحبزادہ حامدرضا کا کہنا تھا کہ اسپیکر سے بھی میں نےاپنے عہدے کےلیے کوئی بات نہیں کی، اگر مجھے پی اےسی کا عہدہ چاہیے ہو تو خود عمران خان سےمانگ سکتا ہوں، عمران خان سے چیئرمین پی اےسی کا عہدہ مانگتا تو وہ انکار نہ کرتے۔ حکومت کی جانب سے مذکرات کی پیشکش پر سربراہ سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں مذاکرات کا حامی نہیں ہوں، کارکنان جیلوں میں ، لوگوں کی چادرچاردیواری کاتقدس مذاکرات کیلئےپامال نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مذاکرات کےلیے اپنی جانیں قربان نہیں کیں، پی ٹی آئی کا موقف اتنا مضبوط ہے اس لیے حکومت مذاکرات کی بات کرتی ہے۔ انھوں نے بتایا میرے سامنے عمران خان نے مذاکرات کیلئے 3شرائط رکھی تھیں ، کارکنان کی رہائی، مینڈیٹ واپس اور 9مئی کی جوڈیشل انکوائری شرائط ہیں، ان شرائط پرعمل درآمد یقین دہانی کہیں سے بھی لے جاسکتا لیکن میرا ذاتی خیال ہے حکومت کوشرائط پرعمل درآمدکی یقین دہانی کرانی چاہیے. حامدرضا کا کہنا تھا کہ چوتھا مطالبہ عمران خان کی رہائی ہے جو کارکنان کی طرف سے ہے، ان 4 شرائط کی بنیاد پر کوئی مذاکرات کرتا ہے تو پھر ہم تیار ہیں، جب تک 4 شرائط پر عمل نہیں ہوتا میں مذاکرات کا حامی نہیں ہوں۔ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے کہا اگر کوئی ذاتی حیثیت میں حکومتی اراکین سےملتا ہے تو یہ پاٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہے، منگل بدھ کو حکومت کو کمیٹیوں سےمتعلق نام دینےہیں تاہم ابھی تک کسی بھی کمیٹی چیئرمین شپ کےلیے نام فائنل نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی ممبران اور چیئرمین شپ سےمتعلق عمران خان فیصلہ کریں گے، ارکان کے نام میرے لیٹر ہیڈ سے اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس جائےگا، میرے پاس ابھی تک کسی کمیٹی ارکان ،چیئرمین کا نام نہیں ملا۔ صاحبزادہ حامدرضا نے مزید بتایا کہ چیئرمین پی اےسی کےامیدواروں میں میرانام بھی ہے، عمران خان نے چیئرمین پی اے سی کےلیے میرانام دیا ہے لیکن میں نےکہا جب تک بانی کے ساتھ ملاقات نہیں ہوتی عہدہ نہیں لوں گا، امید ہےآئندہ بدھ جمعرات تک عمران خان سےملاقات ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف نے کئی ماہ کی الجھن اور قیاس آرائیوں کے بعد بالآخر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور پارلیمانی اپوزیشن رہنماؤں عمر ایوب اور شبلی فراز کو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے نامزد کردیا۔ عمران خان اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پیر کو 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس کی سماعت کے بعد اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے ناموں کی تصدیق کی,جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تو عمران خان نے کہا کہ میں نے علی امین، عمر ایوب اور شبلی فراز کو ان مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔ جواباً عمران خان بولے کہ پی اے سی چیئر مین شپ پر مشاورت کے بعد جواب دوں گا,صحافی نے کہا کہ اس کا مطلب شیر افضل مروت کا نام واپس لے لیا گیا ہے، کون سا نیا نام تجویز کیا ہے؟جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی نام فائنل نہیں منگل تک نام فائنل کرلیں گے۔ صحافی نے کہا کہ آپ کسی کو نامزد کرتے ہیں پارٹی لیڈر شپ اس نام کو نہیں مانتی، پارٹی میں کیا چل رہا ہے۔جس پر عمران خان نے بتایا کہ ہم نے شیر افضل مروت کا نام دیا تھا لیکن ابھی اس معاملے پر مزید مشاورت کررہے ہیں۔عمران خان نے عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ٹاک پر پابندی لگا کر میرے بنیادی حقوق ختم کردیئے گئے ہیں، میں اداروں کو کیسے نقصان پہنچا سکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ہماری پٹیشن زیرِ التوا ہیں جن پر سماعت نہیں کی جارہی۔
سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف 3 دن پہلے 5 روزہ دورے پر چین کے لیے روانہ ہوئے تھے اور پارٹی ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ یہ دورہ ذاتی نوعیت ہے جس میں وہ وہاں پر اپنا طبی معائنہ بھی کروائیں گے۔ نوازشریف کے چین میں دورے کے دوران پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے چائنیز کمپنیز کے مالکان سے بھی ملاقاتیں طے تھیں۔ نوازشریف کی چین یاترا کے حوالے سے نجی ٹی وی چینل پبلک نیوز کے پروگرام میں سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید نے نیا انکشاف کر دیا۔ نصرت جاوید نے بتایا کہ نوازشریف کے ساتھ دورہ چین میں ان کے نواسے جنید صفدر ان کے ساتھ ہیں اور ان کے وہاں پہنچنے پر پاکستانی سفارتخانے کا کوئی نچلی سطح کا سفارتکار بھی انہیں ملنے نہیں آیا۔ نوازشریف پاکستان کے ایک شہری کے طور پر وہاں گئے ہیں اور چائنا کی 3 بڑی سٹیل ملز کا دورہ کر چکے ہیں، میرے خیال میں وہ جنید صفدر کی کاروبار کیلئے تربیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے کوئی پروٹوکول طلب بھی نہیں کیا تھا، مجھے بتانے والوں نے بتایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آج چائنا کے سرکار یحکام ان کے ساتھ رابطہ کریں لیکن یہ بات یقینی نہیں ہے۔ نوازشریف کے ساتھ چائنہ کے دورے میں آفیشل حکام کے علاوہ مسلم لیگ ن کا بھی کوئی عہدیدار ساتھ نہیں گیا۔ نصرت جاوید نے مزید کہا کہ نوازشریف کو چکما دے کر شہبازشریف کو وطن بلایا کہ آئیں آپ کو وزیراعظم بنانا ہے! اسحاق ڈار نے بتایا کہ نوازشریف نے خود کہا میں پرائیویٹ وزٹ پر چائنا جا رہا ہوں کسی کی دعوت پر نہیں جا رہا۔ اسحاق ڈار کو مشورہ دیا گیا کہ نوازشریف کے چائنا جانے کی بات ہوئی تو انہیں کہا گیا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چائنہ میں انہیں کوئی سرکاری حکام ملنا چاہیں تو آپ ان کے ساتھ چلے جائیں۔ اسحاق ڈار کو یقین تھا کہ جب وہ نوازشریف سے بات کریں گے تو وہ انہیں بھی ساتھ لے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ میں ذاتی دورے پر جا رہا ہے آپ کی ساتھ ضرورت نہیں ہے۔ ایران کے صدر کے دورے سے قبل سفارتکارانہ زبان میں یہ بات ایرانی سفارتکاروں کو بھی پہنچائی گئی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ جب آپ پاکستان میں آئیں تو شاید ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار یہاں پر موجود نہ ہوں۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے عمران خان کی سزائیں معطل ہورہی ہیں وہ واضح طور پر سہولت کاری ہے۔ جاوید لطیف نے ہم نیوز کے پروگرام"اپ فرنٹ ود مونا عالم" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست کو انصاف نہی مل رہا تو میں کہاں کھڑا ہوں؟ ریاست اپنے ریاستی اداروں کو انصاف نہیں دے سکی اور جیل میں موجود قیدی کو چھینک آنے پر بھی نوٹس لے لیا جاتا ہے، عمران خان کی سزائیں جس طرح معطل کی جارہی ہیں وہ سہولت کاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے آج بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے اثرات نظر آتے ہیں، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جیل میں موجود شخص پاکستان کا دشمن ہے، جب یہ فیصلہ ہوجائے گا تو کسی سے مذاکرات کرنا آسان ہوجائےگا، ہم نے کچھ اسپیس دینی ہے اور کچھ اسپیس لینی بھی ہے، سیاسی جماعتوں کے اکابرین ملک دشمن نہیں ہوتے، یہ اکابرین جیل جاتے ہیں اور جیل بھیجنے والے مذاکرات بھی کرتے ہیں۔ رہنما ن لیگ نے اپنی پارٹی میں اختلافات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے اختلافات پارٹی کے اندر ہی حل ہونے چاہیے۔

Back
Top