سیاسی

سابق وفاقی وزیر وسینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف نے ارینجمنٹ کے تحت حکومت لینے کا اعتراف کر لیا۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ میں پہلے بھی کہتا آیا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں اور اعتراف کر رہا ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت ایک ارینجمنٹ کے تحت دی گئی ہے اور ہم نے مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی گردن پیش کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میاں نوازشریف خاموش کیوں ہیں؟ اور ساری سیاست قیدی نمبر 804 کے گرد کیوں ہو رہی ہے؟ ووٹ بینک میں پی ٹی آئی یا ن لیگ میں کوئی آگے ہے پیچھے مگر ایک فرق ہے کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ ہمیں ویسے ہی ہمیں چور یا ڈاکو اسی طرح کہہ رہے ہیں جیسے ان کی ضرورت ہے یا 2014ء میں یہاں کے لوگوں کی ضرورت تھی! میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ یہ ہماری حکومت نہیں ہے، یہ ان کی حکومت ہے جنہوں نے یہ ارینجمنٹ کیا ہے، اس ارینجمنٹ میں مجھے سادہ اکثریت نہیں لینے دی گئی۔ میں ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ خدا گواہ ہے جس طرح پک اینڈ چوز ہوا،یہ تمیز ہی ختم ہو گئی تھی کہ کونسی جماعت آگے ہے یا پیچھے؟ یہاں بہت کچھ ہوا ہے۔ پروگرام اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ آپ کہہ دیں کہ ن لیگ اس الیکشن میں 40سیٹیں جیتی ہیں جس پر میاں جاوید لطیف نے کہا آپ بتائیں کہ کیا ان انتخابات میں تحریک انصاف کی سہولت کاری نہیں کی گئی؟ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میاں نوازشریف کی جیت کو انہیں لوگوں نے مشکوک بنایا جنہوں نے میرے حلقے میں فارم 45 اور فارم 47 بدلے۔ کاشف عباسی نے پوچھا آپ کو کوئی شک یا ڈر نہیں ہے اور آپ جیتے ہوئے ہیں تو ٹربیونلز میں سٹنگ جج کی جگہ ریٹائرڈ جج لانے کی قانون سازی کیوں کی؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خلاف ریفرنسز کیوں دائر کیے جا رہے ہیں؟ NA-114 اور NA-115 کے حلقے کھول کر دیکھ لیں آپ کو پتا لگ جائے گا کہ ملک بھر میں کیسے پک اینڈ چوز کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پاکستان میں 35 سال تک جو مصیبتیں سہیں، جو زیادتیاں ان سے کی گئیں، پاکستان کے مفاد میں وہ خاموش رہے، زبان نہیں کھولی۔ پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ نوازشریف کو خاموشی توڑ کر بتانا چاہیے کہ پاکستان میں کون سے ممالک مداخلت کرتے رہے، پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کیلئے کون سے ممالک فنڈنگ کرتے رہے اور کس کس نے یہاں کندھے پیش کیے۔ نوازشریف کو بتانا چاہیے کہ انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے کیا فیصلے لیے جاتے رہے ہیں؟ اور طاقتور لوگوں نے اپنی ایک بوٹی کھانے کے لیے پوری گائے کس طرح ذبح کی؟ اس کے بعد انتخابات کروا لیں۔ میرے بولنے سے فرق نہیں پڑے گا جب تک کہ آپ دنیا کو نہیں بتائیں گے کہ سی پیک کی وجہ سے نوازشریف کو سزا کون سے قوتوں نے دلوائی اور انہیں حکومت سے نکلوایا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو تاحیات نااہل کرنے کا بینیفیشری عمران خان تھا جس پر کاشف عباسی نے کہا کا پہلا حصہ اسے بنا لیں، نو کانفیڈنس کا بینیفیشری نوازشریف ہے اسے انویسٹی گیشن کا دوسرا حصہ بنا لیں اور اگلے حصے میں یہ کر لیں کہ آپ نے کیا ڈیلز بنائیں؟ فارم 47 کی حکومت کس نے بنائی؟ عمران خان کی سزا کا بھی بتائیں کہ کس نے کروائی؟
مذہبی امور وسمندر پار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے خبررساں ادارے وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہے کہ چلے گی یا نہیں، اس وقت صورتحال مخدوش ہے تاہم حکومت چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ حکومتوں نے اپنی مدت پوری بھی کی حالانکہ پہلے مہینے ہی چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی تھیں کہ یہ حکومت نہیں چلے گی، یہاں مسئلہ سمت کے تعین کا ہے کہ جانا کس طرف ہے۔ چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفاد میں کسی آئینی ترمیم کے حق میں اپوزیشن ووٹ نہیں ڈالتی تو ان کا محاسبہ خود عوام کرے گی، عمران خان کی رہائی عدالتی فیصلے سے مشروط ہے تاہم اندر رہیں یا باہر آجائیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عمران خان ساڑھے 3 سال اقتدار میں رہے کیا تبدیلی آئی؟ وہ بھی باقی سیاستدانوں کے جیسے ہی ہیں، پی ٹی آئی کی نفسیات وسیاسی حکمت عملی کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر وقت اپنے فالوور کو امید دلائے رکھتی ہے، کوئی تصویر بنا کے رکھتی ہے، آج کل کہا جا رہا ہے عمران خان آج نہیں تو کل جیل سے باہر ہونگے اور سب کچھ بدل جائیگا۔ وفاق اور خیبرپختونخوا میں کشمکش بارے سوال پر کہا علی امین گنڈاپور ہر اجلاس میں ساتھ ہوتے ہیں، ان کی وزیر داخلہ سے بھی ملاقات ہوئی جو خوش آئند ہے، ملک کیلئے بدترین سیاسی مخالف سے بھی بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کے ساتھ مذاکرات پر پی ٹی آئی نے مثبت جواب دیا تاہم پھر ان کے قائدین کی طرف سے مختلف بیانات سامنے آتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہاں فیصلہ سازی کے عمل میں یکسوئی نہیں، انہیں اس معاملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، پہلے آپس میں طے کریں پھر آگے بات کریں۔ چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کی ضمانت پر رہائی میں ہم نے کوئی شرائط نہیں رکھیں، ان کے خاندان کی طرف سے کہا گیا کہ چوہدری شجاعت ان کو کچھ آفر کرتے رہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری شجاعت کے ہمراہ 6 سے 7 دفعہ چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی تاہم کبھی کوئی پیشکش نہیں کی، ایسی باتیں بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ تعلق سیاست سے بڑھ کر ہے، ان کا دل احترام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی میں محسن نقوی کے کردار بارے سوال پر کہا صرف اتنا کہوں گا کہ انہوں نے کبھی پرویز الٰہی کا برا نہیں چاہا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی اہلیہ الزام لگاتے رہے ہیں لیکن محسن نقوی یا چوہدری شجاعت نے کبھی ان کا برا نہیں چاہا۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی جوائن کرنے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن تجزیہ دے سکتا ہوں کہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے، مقبولیت کی لہر تھی اور وہ بھی اس رحجان کا حصہ بن گئے۔ تحریک انصاف کا حصہ بننے سے آپ کا سارا کیا کرایا دھل جاتا ہے، اس جماعت کے فالوور ہیں تو آپ محب وطن بھی ہیں اور جنتی بھی! انہوں نے کہا کہ یقین کریں امریکہ میں قرارداد منظور کروایا بڑا کام نہیں، آپ لابئیسٹ ہائر کریں اور جو مرضی پاس کروا لیں، تحریک انصاف نے وہاں بہت کام کیا ہے، امریکہ کیخلاف بیانیہ بنایا اور حمایت بھی وہی سے مل رہی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے جس شخص نے خط لہرا کر کہا امریکہ نے میری حکومت گرائی اسے بچانے امریکہ آرہا ہے، لوگوں کو سوال اٹھانا چاہیے۔ چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے بات چیت ہوتی رہتی ہے تاہم میاں نوازشریف سے براہ راست تو نہیں البتہ بالواسطہ بات ہو جاتی ہے ! وزیراعظم شہبازشریف سے بھی بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ہر پاکستانی شہری کی طرح وہ بھی فکرمند ہیں تاہم پرفارمنس ہی واحد راستہ ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے!
مقدس گائے کیلئے بڑے قصائیوں کی ضرورت ہوتی ہے، بجٹ غلطیوں کے ذمہ دار محمد اورنگزیب نہیں ہیں،مفتاح اسماعیل سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ یہاں سب مقدس گائیں ہیں، ان مقدس گائیوں کیلئے بڑے قصائی کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے آج نیوز کے پروگرام"اسپاٹ لائٹ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، نئےمالی سال کے منظور کردہ بجٹ اور معاشی صورتحال پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں ان کے مرتکب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نہیں ہوسکتے، اگر قوم سے قربانی مانگی جارہی ہے تو پی ایس ڈی پی پر اتنا خرچ کرنے بھی ضرورت نہیں تھی، فنانس منسٹری یا وزیر خزانہ کی سنی جاتی تو وہ این ایف سی ایوارڈ کی بات کرتے، صوبوں کے پیسے کم کرتے ، زراعت و پراپٹری ٹیکس بھی صوبوں سے وفاق کو منتقل کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالات اتنے خراب ہیں تو ہمیں نظر آنا چاہیے کہ وفاق ور صوبوں نے کوئی حصہ ڈالا ہے،بجٹ میں بہت سی چیزیں آئی ایم ایف کی شرائط کے علاوہ ہیں جو فضول میں ڈالی گئی ہیں،مجھے نہیں لگتا کہ یہ بجٹ پورا سال برقرار رہے گا، اس بجٹ میں بہت سے ایسے سقم ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت پڑے گی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آپ بجٹ کے کسی بھی حصے کو نہیں چھیڑ سکتے، اگر دفاع معلومات نہیں دیتا تو ریلوے والے بھی نہیں دیتے، جب نااہلی کی وجہ سے دنیا نے قرض دینا بند کیا تو آئی ایم ایف نے کہا کہ ہم قرض دیتے ہیں آپ اپنی نااہلی عوام پر منتقل کردو، بچوں کے دودھ اور دل کے مریض کے اسٹنٹ پر ٹیکس لگایا جارہا ہے ، دوسری طرف اراکین اسمبلی کے پروجیکٹس پر 500 ارب روپیہ خرچ کیا جارہا ہے ،کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ چاروں صوبوں اور وفاق کی حکومتیں اپنے اخراجات پر 30ہزار ارب روپیہ خرچ کرتی ہیں، یہ ہماری قومی آمدن کے 25 فیصد کے برابر ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل سے باہر آئیں گے یا نہیں, اس حوالے سے کہا جارہاہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر باہر نہیں آسکیں گے۔ جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے واضح کیا کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی مرضی نہیں ہوگی, عمران خان باہر نہیں آسکیں گے، عدلیہ کا پاور کوریڈورز سے ٹکراؤ ملک اور عدلیہ کیلئے مفید نہیں ہوگا۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اب جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کیلئے سنجیدہ اپروچ یہی ہوگی کہ سیاسی اتفاق رائے کی طرف جایا جائے، محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کیلئے بڑا ریلیف ثابت ہوسکتے ہیں، عمران خان اگر محمود خان اچکزئی پر اعتماد کریں تو شاید جلد راستہ نکل سکتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت عمران خان کی وفادار ہے، ہر فیصلہ کی اپروول عمران خان سے لیتے ہیں، خان کی طرف دیکھتے ہیں، بھٹو صاحب جب جیل میں تھے تو اسی طرح 2 گروپ تھے ایک کہتا تھا جیل کی دیواریں توڑ دو، دوسرا گروپ پارٹی کو بچاتا تھا۔ سہیل وڑائچ نے کہا اسد قیصر، عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر خان کی آپس میں بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے، تینوں رہنما عمران خان کے وفادار ہیں اور انتہاپسندی کی طرف بھی نہیں جانا چاہتے، یہ لوگ کوئی فیصلہ خود نہیں کرتے بلکہ ہر کام کی عمران خان سے اجازت لیتے ہیں۔ دوسری طرف پارٹی میں ایسے لوگ مضطرب اور بے چین ہیں جو اسمبلیوں سے باہر ہیں یا جیلوں میں رہے ہیں، یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی میں جاکر بیٹھ جانے والے لوگ کمپرومائزڈ ہوگئے ہیں، پارٹی اختلافات میں فیصلہ کن حیثیت عمران خان کو حاصل ہے، عمران خان پارٹی میں کسی کو زیرو کردیں تو کوئی سسٹم بھی اسے ہیرو نہیں بناسکے گا۔ ذرائع کی خبر کے مطابق عمران خان کی ہدایت پرا یک 7 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو پارٹی میں سابقہ رہنماؤں کی واپسی کا فیصلہ کرے گی,ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کی رہائی تک کسی بھی سابق رہنما کی پارٹی میں واپسی کو روک دیا گیا ہے۔
فیصل واوڈا، فواد چوہدری،عمران اسماعیل تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے حوالے سے ایک پیج پر تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے حوالے سے ایک پیج پر فیصل واوڈا، عمران اسماعیل اور فوادچوہدری ایک پیج پر ہیں۔ عمران اسماعیل اور فیصل واوڈا 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے علیحدہ ہوگئے تھے مگر 8 فروری الیکشن کے بعد دوبارہ تحریک انصاف میں آنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ فیصل واوڈا بھی تحریک انصاف کو خیرآباد کہہ چکے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اکثر وبیشتر عمران خان کے خلاف بیانات اور پیشنگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کچھ روز قبل ایک غیرملکی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی ناقص حکمت عملی کے باعث عمران خان اور بشری بی بی ابھی تک جیل میں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ حکومت آئینی، سیاسی جنگ ہار چکی ہے،تحریک انصاف کی کمزور حکمت عملی کے باعث یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، تحریک انصاف کو پہلے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہوگا تب مذاکرات کی بات کریں۔ عمران اسماعیل نے کہا کہ پہلے ہی کہا تھا کہ یہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نا ابل ہے- ان کے کسی ایکشن سے یہ معلوم نہیں ہوتا کے یہ خان کی رہائی کے لیے کسی جدوجہد کا ارادہ بھی رکھتے ہیں- فکر صرف یہ ہے کے خان جیل رہے اور میری لیڈری بچ جائے فیصل واوڈا نے بھی کہا کہ عمران خان جیل سے اپنی پارٹی کے طرز عمل کی وجہ سے نہیں آئیں گے کیونکہ لیڈرشپ چاہتی ہے کہ عمران خان جیل میں ہی رہیں اور انکی سیاست چلتی رہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ جلد باہر آئیں گے۔ پی ٹی آئی کی پارٹی اور ممبران دھڑوں میں بٹ گئے ہیں اور پارٹی کا طرزعمل عمران خان کو مزید جیل میں ہی رکھے گا کیونکہ جب تک عمران خان جیل میں رہیں گے ان کی سیاست چلتی رہے گی۔ ایک اور شو میں فیصل واوڈا نے کہا کہ پی ٹی آئی والے چاہتے ہیں کہ ابھی عمران خان جیل میں رہے اور وہ ان کی مقبولیت کافائدہ اٹھائیں علی امین نے بیان دینے کے بعد کہاں کہاں رابطہ کیا اور کیا کیا تسلیاں دیں اور علی امین نےکہا کہ میں نے عمران خان کو مطمئن کرنےکیلئے بیان دیا فیصل واوڈا سینیٹر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا کہ "اگر کوئی معجزہ ہوجائے اور عمران خان جیل سے باہر آجائیں تو یہ عمران خان کے موجودہ قریبی لوگوں میں سے ایک بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آئے گا۔" -
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام روبرو میں سابق وزیراعظم ونئی سیاسی جماعت عوام پاکستان کے کنوینر شاہد خاقان عباسی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجٹ میں کچھ بھی نیا نہیں تھا، آج سے بیس سال پہلے بھی بجٹ ایسا ہی تھا، اصلاحات ہونے تک ملک کے حالات درست نہیں ہو سکتے۔ موجودہ بجٹ میں پاکستانی عوام پر 4 ارب ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں اس کے باوجود خسارے میں 6 ہزار ارب روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ ہو گیا ہے حالانکہ ان اخراجات میں کمی آنی چاہیے تھی، گزشتی حکومت بھی جاتے جاتے 2 اضافی ڈویژن بنا گئی اور سن رہے ہیں کہ اب ایک ڈویژن یہ بھی بنا رہے ہیں تو اخراجات کیسے کم ہوں گے؟ اصلاحات میں رکاوٹ کی وجہ ان میں فیصلے کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، آج اصلاحات نہ ہوئیں تو حالات مزید بدتر ہوتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے نجکاری کے باوجود اس پر 5، 6 سو ارب روپے قرضے پر سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ مخصوص نشستوں کے کیس پر بات کرتے ہوئے کہا مجھے انصاف کے نظام پر شک وشبہ پیدا ہو گیا ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے فیصلہ کرنا چاہیے، آئین پاکستان میں واضح ہے کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ تو اس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟ آپریشن عزم استحکام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک واضح نہیں کہ اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ آج میڈیا نے بتایا کہ یہ کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ ماضی میں ہونے والے آپریشن بہت وسیع تھے، آپریشن ضرب عضب میں آپ کو اندازہ ہے کہ ہمارے کتنے جوان شہید ہوئے؟ آپریشن ردالفساد بھی اسی سطح کا آپریشن تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر آپریشن عزم استحکام کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ بہت وسیع علاقے پر ٹی ٹی پی کا قبضہ تھا جو ختم کر کے حکومتی رٹ بحال کروائی گئی اور انہیں دھکیلنے کے بعد فاٹا کو آپ نے خیبرپختونخوا کا حصہ بنا دیا۔ فاٹا بارے فیصلہ ہوا کہ اسکی ترقی پر سالانہ 100 ارب خرچ ہونگے جس میں سے وفاق 50 ارب دے گا اور باقی صوبے شیئر کرینگے، یہاں پر حکومتی نظام بنانے کے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملکی سکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں کھیلنی چاہیے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، انہیں اگر وہاں مسئلہ نظر نہیں آتا تو گورنر دی آئی خان سے ہیں وہ رات کو ذرا پشاور سے چلیں اور اپنے گھر جا کر دکھائیں اور بتائیں کہ آپریشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟ حکومت کو پارلیمنٹ میں بحث کرانی چاہیے، چاہے ان کیمرا بریفنگ دیں کہ کر کیا رہے ہیں؟ سب کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے حالات تشویشناک ہیں کیونکہ وہاں کے شہریوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ عوام پاکستان پارٹی بارے بات کرتے ہوئے کہا پارٹی میں 17 بانی اراکین ہیں جن میں سینیٹر جاوید عباسی، رانا زاہد توصیف، سردار مہتاب، سابق ایم این اے کراچی صلاح الدین اور کچھ سیاسی وغیرسیاسی لوگ شامل ہیں تاہم فی الحال مصطفی نواز کھوکھر پارٹی میں نہیں ہیں، ان کے کچھ سیاسی مسائل ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سے نیب کا کوئی تعلق نہیں، سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ شہزاد اکبر گالیاں دے کر کہتے تھے کہ لوگوں پر کیس بنائو۔ شہزاد اکبر دن میں متعدد بار چیئرمین نیب سے رابطہ کرتے اور ہر کیس مانیٹر کرتے تھے، پی ٹی آئی حکومت نے احتساب کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔
سابق کرکٹر و سابق چیئرمین پی سی بی اور کمنٹیٹر رمیز راجا نے ماضی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ شیئر کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق رمیز راجا نے ایک پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اس دور کا ایک واقعہ شیئر کیا جب جنرل ضیاء الحق ملک کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ رمیز راجا نے کہا کہ گوجرانولہ کے ایک اسٹیڈیم میں چار روزہ فرسٹ کلاس میچ جاری تھا، میچ کے شروع میں اسٹیڈیم میں عوام کی تعداد ناہونے کے برابر تھی، پھر اچانک گراؤنڈ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ داخل ہوئے۔ سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ کچھ پولیس والے بھی گراونڈ میں داخل ہوئے اور ایک افسر نے پچ پر لگی ہوئی وکٹس اکھاڑنے کی ہدایات جاری کردیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے میچ روک کر پچ سے وکٹس اکھاڑیں ، جب میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے تو بتایا گیا کہ ایک قیدی کو سزا کے طور پر کوڑے مارے جانے ہیں۔ رمیز راجا نے کہا کہ اس کے بعد ایک قیدی کو لایا گیا جبکہ ایک شخص نے حارث رؤف کی طرح بھاگتے ہوئے اس قیدی پر کوڑے برسائے، کوڑے کھانے کے بعد قیدی نے عوام کی طرف ہاتھ ہلایا جیسے وہ کوئی بہت بڑا ہیرو ہے۔ کمنٹیٹر نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد پولیس قیدی کو لے کر وہاں سے چلی گئی جبکہ عوام نے بھی گراؤنڈ خالی کردیا، یہ میری زندگی کا ایک تاریخی واقعہ یے۔
گزشتہ دنوں عدت کیس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مفتی تقی عثمانی کے عدت میں نکاح کے حوالے سے شرعی فیصلے کا حوالہ دیا۔ جج افضل مجوکا کی عدالت میں دلائل دیتے ہوئے سلمان کرام راجہ نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے فیصلے میں عدالت نے عورت پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی تھی ، عدالت نے اس بنیاد پر مقدمہ ختم کر دیا تھا کہ 39 دن گزر چکے تھے ۔ سلمان اکرم راجہ نے انکشاف کیا کہ مفتی تقی عثمانی ، پیر کرم شاہ الازہری اور محمد رفیق تارڑ نے یہ فیصلہ لکھا تھا ، مفتی تقی عثمانی دیوبندی مکتبہ فکر کے اعلی پائے کے عالم ہیں جبکہ پیر کرم شاہ الازہری بریلوی مکتبہ فکر کے اعلی پائے کے عالم دین تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تیسرے ممبر رفیق تارڑ تھے جو بعد میں صدر بھی بنے ۔ بشریٰ بی بی کے وکیل نے سلمان اکرم راجہ نے راشدہ اختر کیس کا حوالہ دے دیا اور کہا کہ قرانی احکامات میں بھی نوے دن کا ذکر نہیں بلکہ تین ماہواریوں کے پیریڈ کی بات کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے عدت کے نکاح کا ایشو کھڑا ہوا ہے مفتی تقی عثمانی نے ایک بار پھر اس پر کوئی بیان نہیں دیا جس پر تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین نے حیرانی کا اظہار کیا۔ عمران خان کے قانونی ٹیم کے رکن نعیم حیدر پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے فیڈرل شریعت کورٹ کے جج کے طور پر فیصلہ دیا کہ 39 دن بعد ہونے والا نکاح شرعی طور پر درست قرار پائے گا۔ بینچ حضرت پیر کرم شاہ ، صدر محمد رفیق تارڑ بھی شامل تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو اس اہم شرعی مسئلے پر آج بھی بولنا چاہیے لیکن پتہ نہیں کیوں چپ ہیں کیا مجبوری ہے 2 فروری کو فیصلہ آیا آج 22 جون ہے مفتی تقی عثمانی کا کوئی بیان نہیں آیا
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کو بجٹ کی منظوری میں تعاون کرنےکی یقین دہانی کرادی ، بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کیا مگر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور نہ ہوچکے جس کے بعد بات کمیٹیوں میں چلی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات ہونے والی ملاقات میں پیپلز پارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت اور پنجاب میں پاور شیئرنگ پر بھی بات چیت کی گئی۔ دوران ملاقات بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی بجٹ اور دیگر امور پر شکایتوں کے انبار لگادیے۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے شکوہ کیا کہ حکومت کسی فیصلہ سازی میں ہمیں اعتماد میں نہیں لے رہی۔ سندھ کے مختلف منصوبوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروادی جس پر پی پی قیادت مطمئن نہیں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات میں ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، رانا ثناء اللّٰہ، عطا تارڑ اور علی پرویز ملک بھی موجود تھے,پیپلز پارٹی بجٹ میں مشاورت نہ کرنے پر مسلم لیگ ن کی حکومت سے ناراض تھی، 12 جون کو بجٹ اجلاس میں بلاول نے شرکت نہیں کی تھی، پیپلز پارٹی کے چند ارکان ہی علامتی طور پر ایوان میں آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے شکوہ کیا کہ حکومت کسی فیصلہ سازی میں ہمیں اعتماد میں نہیں لےرہی اور سندھ کےمختلف منصوبوں میں وفاقی حکومت سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کررہوزیر اعظم ہاؤس پہنچے تھے، ان کے ہمراہ پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف، شیری رحمان اور خورشید شاہ بھی وزیراعظم ہاؤس پہنچے تھے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر خزانہ محمداورنگزیب، وزیر اطلاعات عطاتارڑ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق بھی وزیراعظم ہاؤس پہنچے تھے,ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اوربلاول بھٹو کے درمیان ملاقات 4 بجے متوقع تھی جو تاخیر کا شکار ہوئی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نےبجٹ،ہتک عزت بل پر پیپلزپارٹی کےفکسڈمیچ سےپردہ اٹھادیا,نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہتک عزت بل پر پیپلزپارٹی ہم سےملی ہوئی تھی گورنرطےکرکےباہرگئے،بجٹ بھی انکی مرضی سےبنا، انہوں نے کہا یہ ماسی ویہڑہ نہیں آپ عہدے بھی لیں اوراسٹیک ہولڈر بھی نہیں،اتحادی پیپلزپارٹی کی مجبوری ہے ن لیگ کی نہیں،ایسےکشتی پارنہیں چڑھ سکتی، پیپلزپارٹی کوجب موقع ملاوہ ضائع نہ کرےگی. ان کا مزید کہنا تھا کہ فضل الرحمان،محموداچکزئی کچھ توانکے اصول ہونےچاہیے،جس طرح عمران خان نےانکی نقلیں اتاریں،جو کچھ کہا،کم ازکم اس سےپہلےمعافی تومنگوا لیتے،دونوں اسکی جھولی میں جاکربیٹھ گئے،مولانا کو یہودی ایجنٹ والی بات پر کھڑا رہنا چاہیےتھا،یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیاسی بات تھی انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو جیل سےباہر اتا نہیں دیکھ رہا،چاہےجتنی مرضی انکی سہولت کاری ہوجائے لیکن وہ کسی صورت بھی باہر نہیں ائیں گے،ابھی تو توشہ خانہ 2 عمران خان کےلیےبڑا سرپرائز ہوگا، انہوں نے کہا کہ محسن نقوی اب فیصلہ کرلیں،یا تووزارت داخلہ رکھ لیں یا چیرمین پی سی بی بنیں،انکو چاہیےکہ یہ ہمارےشہداٗ کےمتعلق بتائیں اورحکومت کا دفاع کریں، پوری کرکٹ ٹیم ہی سفارشی تھی،کوئی جذبہ نہیں ماسوائےنسیم شاہ کے۔یہ صرف ماڈلنگ کرسکتےہیں،اعظم خان تورسہ کشی کی ٹیم میں ہوناچاہیے ہتک عزت بل 2024 بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہوگا، پھیلائی جانے والی جھوٹی،غیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکےگا,یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پربھی بل کا اطلاق ہوگا۔ ذاتی زندگی،عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر بھی کارروائی ہو گی۔ہتک عزت کےکیسز کیلئے ٹربیونل قائم ہوں گے جو کہ 6 ماہ میں فیصلہ کرنےکے پابند ہوں گے۔ہتک عزت بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام پر ہائی کورٹ بینچ کیس سن سکیں گے۔ 8 جون کو قائم مقام گورنر پنجاب ملک احمد خان نے ہتک عزت کا بل منظور کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔24 مئی کو پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر نے پنجاب ہتک عزت بل 2024 کو مزید مشاورت اور نظرثانی کے لیے اسمبلی میں واپس بھیجنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کے تجربے کو بھیانک قرار دیدیا جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں بات چیت کرتے ہوئے سردار سلیم حیدر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کا 16 ماہ کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ انہوں نے کہا پارٹی کے اندر حکومت میں شمولیت کیلئے رائے بہتر نہیں، پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوگی تو ناکامی کا ملبا اٹھانا پڑے گا۔گورنر پنجاب نے کہا کہ ہتکِ عزت بل کے معاملے پر پنجاب حکومت نے دھوکا کیا، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بجٹ کے حوالے سے کچھ معاملات ایسے ہیں جو پیپلز پارٹی کیلئے باعث پریشانی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو سنگین تشویش اور شکایت اس بات پر ہے کہ پنجاب میں اسے سیاسی جگہ نہیں مل رہی حالانکہ جس وقت پیپلز پارٹی نے نون لیگ کی مدد کیلئے حکومت بنانے میں اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق، پیپلز پارٹی پنجاب کی بیوروکریسی بالخصوص ان اضلاع میں تقرریوں میں اپنا حصہ چاہتی ہے جہاں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی موجودگی ہے تاہم مریم نواز سیاستدانوں کی سفارشات پر بیوروکریسی میں تبدیلیاں کرنے کو تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی سے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سول انتظامیہ اور پولیس میں سیاسی مداخلت ناقابل قبول ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے سے نہ صرف نون لیگ کے کئی ارکان صوبائی اسمبلی بے چین ہیں بلکہ یہ صورتحال پنجاب میں موجود پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا مریم نواز پنجاب سے پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قوم اسمبلی کو اپنے اپنے علاقوں میں من پسند افسران رکھنے کی اجازت دیں گی۔ ایک نون لیگی ذریعے کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وزیراعلیٰ ایسی کوئی اجازت دیں گی۔
سینئر اینکرپرسن وتجزیہ کار محمد مالک نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان ماسٹر ٹیکٹیشن ہے، محمود اچکزئی کو سامنے لا کر ایک زبردست چال چلی ہے۔ محمود اچکزئی کے بہت تعلقات ہیں اور وہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے واحد ایسے آدمی ہیں جو آصف علی زرداری، میاں نوازشریف، شہبازشریف سے فون کر کے میٹنگ سیٹ کر سکتے ہیں ، ایسا گوہر خان، علی محمد خان یا شیر افضل مروت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ محمود اچکزئی کے ان سیاسی رہنمائوں کے ساتھ بہت پرانے تعلقات ہیں جس کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے، عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے بھی مشورہ دیا گیا کہ آپ ذمہ دار آدمی ہیں، بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ عمران خان نے بات چیت کرنے کے لیے محمود اچکزئی کو منتخب کر لیا ہے۔ محمود اچکزئی کی کسی بھی سطح پر مذاکرات میں کامیابی ہوئی تو اسے عمران خان کی سٹریٹجک کامیابی سمجھا جائے گا لیکن اگر کوئی بھی ناکامی ہوئی تو اسے محمود اچکزئی کی شخصی کامیابی تصور کیا جائیگا، عمران خان کیلئے یہ ون ون صورتحال ہے۔ عمران خان نے دوسری طرف سپریم کورٹ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات شروع کر دیئے تو ان کی آنکھوں میں بھی وہ اچھے ہو گئے ہیں کہ میں نے آپ کے کہنے پر اپنے سخت رویے میں نرمی اختیار کر لی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے ہر کوئی اپنا پریشر بڑھاتا ہے، عمران خان کہہ رہے تھے کہ سخت بجٹ آئے گا وہ آیا ہے، بجٹ پاس کرنے کا وقت ہے تو یہی پیپلزپارٹی کا بھی بہت سی باتیں منوانے کا بہترین موقع ہے۔ پیپلزپارٹی والے ایک لفظ استعمال کرتے تھے کہ ہمیں ٹیک فار گرانٹڈ لے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جیسا کہیں گے ہم چل پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ بھی فرض کر رکھا تھا کہ بجٹ میں ہر بات پر پیپلزپارٹی مہر لگا دے گی ، ہماری تجاویز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور یہ دو بڑی وجوہات ہیں پیپلزپارٹی کا بھی دبائو بڑھانے کا یہی پوائنٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ اتنا برا ہے کہ اس کے بعد سڑکوں پر آگ لگ جائے؟ میرا نہیں خیال ایسا ہے۔ وزیر خزانہ نے آج پٹرولیم لیوی کے حوالے سے بھی وضاحت دی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ بڑھے گی۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے امیدوار میاں اسلم وہ امیدوار ہیں جنہوں نے 2024 کے الیکشن میں این اے 46سے حصہ لیا اور ہارگئے تھے، انہوں نے بھی تحریک انصاف کے امیدوار سے متعلق کہا کہ انہیں ہرایا گیا گیا ہے لیکن اب جب فارم 45 دینے کی باری آئی تو پیچھے ہٹ گئے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں 11 فروری کوا نہوں نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی واضح جیت کو ہار میں بدل کر لینڈ مافیا کو نوازا گیا۔ این اے 46 میں جماعت اسلامی کے 15000 سے زائد ووٹ فارم 47 میں 2000 سے بھی کم ظاہر کیے گئے۔ انہوں نےمزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن سمجھ لیں، ان چالوں کے سہارے آنے والی حکومت پاکستان کی کمزور ترین حکومت ہوگی۔ ایک طرف تو مصطفیٰ کمال نے فارم 45 الیکشن کمیشن کو فراہم کردئیے ہیں لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی کے میاں اسلم فارم 45 دینے سے انکار کررہے ہیں جس پر صحافی محمد زبیر نے کڑی تنقید کی ہے۔ صحافی محمد زبیر کے مطابق اسلام آباد سے جماعت اسلامی کے میاں اسلم اقبال نے فارم 45 ٹریبیونل میں جمع کروانے سے انکار کر دیا۔۔۔ میاں اسلم اقبال نے انتخابات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت کا اعلان کیا تھا اور فارم 45 دینے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے مزید کہا کہ اگر جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم صاحب اپنی جماعت کی ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں تو اس پر نوٹس لیں ورنہ ماضی کی طرح اسٹیبلیشمنٹ کی بی ٹیم کئ طرح کام کرتے رہیں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ سٹیبلیشمنٹ اور ن لیگ تو نہیں سجھی لیکن عوام جماعت اسلامی کے فارم 45 دینے سے انکار کی وجہ سمجھ چکی ہے
سائفر کیس سے متعلق عمران خان اور اعظم خان کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی اس پر حکومت نے بہت بیانیہ بھی بنایا تھا لیکن "اتنے مضبوط ثبوت کو" عدالت کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا ؟ صحافی ثاقب بشیر نے اسکی وجہ بتادی نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ثاقب بشیر نے کہا کہ مثال کے طور پر میری گفتگو عدالت میں پیش ہونا ہیں، تو عدالت میں سب سے پہلے یہ بتایا جائے گا کہ کس کیمرے یا ڈیوائس سے ریکارڈنگ کی گئی، کیمرہ مین کون تھا، کیمرہ مین کا بیان ریکارڈ کرایا جائے گا، یہ بتائے گا کہ یہ گفتگو کس جگہ ریکارڈ کی گئی ، کتنے بجے کا وقت تھا، کونسا دن تھا۔ ثاقب نشیر نے بتایا کہ یہ ایک پرائیویٹ آڈیو تھی جو غیرقانونی ہے، کسی کی پرائیویٹ گفتگو ٹیپ نہیں ہوسکتی اور یہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوسکتی۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ گفتگو ٹیپ ہوئی ہے۔ دوسری جانب ثاقب بشیر نے کہا کہ سائفر کو عدالت میں پیش نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان نے سازش بارے جو بات کہی تھی وہی سائفر میں بھی لکھی ہو۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن کی مارچ کے مہینے میں عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی خبریں گردش کررہی ہیں، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے مارچ کے مہینے میں ملاقات کرنے والے سیاستدانوں کی ایک فہرست سامنے آئی ہے جس میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے نام شامل ہیں اہم اس فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہےجسے پیپلزپارٹی کے رہنما ندیم افضل چن سے منسوب کیا جارہا ہے۔ یہ نام پی ٹی آئی رہنما ندیم افضل کا تھا جسے کچھ صحافتی حلقوں نے پیپلزپارٹی رہنما ندیم افضل چن قرار دیا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرکے اپنا تجزیہ بھی پیش کرنا شروع کردیا کہ ندیم افضل چن نے عمران خان سے جیل میں حکومت سازی کے معاملے پر مشاورت کیلئے ملاقات کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ندیم افضل چن نے 2022 میں ہی پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ کر دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ صحافی سحرش مان نے کہا کہ ندیم افضل چن نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کی، یہ ملاقات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئی، اس ملاقات میں کیا پیغام اور کیا آفررز دی گئی ہیں؟ اب اس ملاقات کی خبروں کے بعد صحافتی و سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ندیم افضل چن نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کیوں کی؟ تاہم کچھ صحافیوں نے اس معاملے کی حقیقت کھول کر سامنے رکھی جس سے قیاس آرائیوں کادم گھٹ گیا۔ احمد جنجوعہ نے سحرش مان کی ٹویٹ کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ یہ کور کمیٹی کے رکن ندیم افضل عرف بنٹی بھائی ہیں، برائے مہربانی بیان دینے سے قبل تصدیق کرلیا کریں۔ صحافی حسین احمد چوہدری نے یہ فہرست شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا نام جہلم سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی رہنما ندیم افضل بنٹی کا ہے، یہ ندیم افضل چن نہیں ہیں۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود اچکزئی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں لیکن عمران خان مان نہیں رہے,ایک انٹرویو میں محمود اچکزئی نے کہا کہ میرے مشاہدے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے 50 فیصد سے زائد لوگ موجودہ حالات سے خوش نہیں ۔ انہوں نے کہا میں کسی ادارے یا کسی ایک آدمی پر الزام نہیں لگاتا۔ ہمیں بڑے ظرف کے ساتھ اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیئے، ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں، کوئی اسے اچھا سمجھے یا برا لیکن یہ بات ماننی ہو گی کہ عمران خان اس ملک کا سب سے مقبول لیڈر ہے,شہباز شریف اگر اسٹیٹسمین ہیں تو ان کو عمران خان کو رہا کر دینا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے کہاں بھاگنا ہے؟ نواز شریف ، مونا فضل الرحمان اور بلاول ایک کمیٹی بنائیں ، مسئلے کا حل نکل آئے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے لیکن حکام کے پاس سابق وزیراعظم کو غیر معینہ مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے آپشنز موجود ہیں۔ ایک کے بعد ایک کرکے عمران خان کیخلاف مقدمات ختم ہو رہے ہیں جس سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں میں امید پیدا ہوئی ہے کہ پارٹی کے سینئر ترین رہنما چند ہفتوں میں جیل سے باہر آ سکتے ہیں لیکن سرکاری ذرائع کی سوچ اس سے مختلف ہے۔
"دنیا میں بشریٰ بی بی سے زیادہ پاک دامن خاتون کوئی نہیں اور عمران خان دنیا کا زندہ قلندر ہے"، خاور مانیکا اپنے قریبی ساتھی کو بشریٰ بی بی اور عمران خان کے بارے میں کیا کیا بتاتے رہے۔۔۔؟ خاور مانیکا سے متعلق ماضی میں خبریں لانے والے زاہد گشکوری بالآخر بول پڑے صحافی زاہد گشکوری نے انکشاف کیا ہے کہ خاورمانیکا جو عدت میں نکاح کیس لڑرہے ہیں یہ 2017 سے 2024 تک مجھے بتاتے رہے ہیں کہ عمران خان کا 2014 کے بعد سے مانیکا فیملی سے تعلق بنا، عمران خان کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہوا اور وہ اسے مرید کے طور پر لیتے تھے۔ زاہد گشکوری نے کہا کہ خاورمانیکا نے مجھے جو کچھ بتایا وہ میرے لئے حیران کن تھا، خاور مانیکا کہتے تھے کہ میں نے دنیا میں بشریٰ بی بی سے زیادہ پاک دامن خاتون کوئی نہیں اور عمران خان دنیا کا زندہ قلندر ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے طلاق 14 نومبر 2017 کو دی اور میں نے قربانی دی، خاورمانیکا نے مجھے کہا کہ جب یہ شادی ہوئی تو میں نے باقاعدہ مبارکباد دی تھی۔میں نے اپنی مرضی سے طلاق دی
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ سائفر کیس سے متعلق میں غلط ثابت ہوا کہ عمران خان اس کیس میں اپنے طرز عمل کا دفاع نہیں کرپائیں گے۔ اپنے پروگرام میں نصرت جاوید نے کہا کہ میں پہلے دن سے یہ کہتا رہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف جتنے بھی کیسز بنائے گئے ہیں، ان میں سب سے سنگین کیس یہ سائفر کیس ہے،میں نے اپنی زندگی کے 23 سے 24 سال وزارت خارجہ کی نظر کیے ہیں اور اسکی وجہ سے مجھے یہ احساس ہے کہ سائفر کیس کتنا سنگین ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب انٹرسیپٹ نامی ویب سائیٹ جو کہ پی ٹی آئی کی حامی تصور کی جاتی ہے، وہ یہ شائع کر دیتی ہے کہ جو اصلی پیغام آیا تھا وہ یہ تھا، پھر جب امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ انٹرسیپٹ نے جو متن چھاپا ہے کیا اسی طرح کی بات تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ جی اس کے قریب تر یہی بات تھی۔ نصرت جاوید نے کہا کہ ایک بات تو آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ سائفر کی ایک کاپی غائب ہے،حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب اس کیس کا ٹرائل چل رہا تھا تو انٹرسیپٹ والی بات کے اوپر کوئی زور دیا گیا؟ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ سائفر کیس سے متعلق میں غلط ثابت ہوا کہ عمران خان اس کیس میں اپنے طرز عمل کا دفاع نہیں کرپائیں گے۔
عمران خان کو غیر معینہ مدت کیلئے جیل میں رکھنے کے آپشنز، نیب توشہ خانہ دوم ریفرنس دائر کرنے کیلئے درست وقت کا منتظر انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے لیکن حکام کے پاس سابق وزیراعظم کو غیر معینہ مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے آپشنز موجود ہیں,ایک کے بعد ایک کرکے عمران خان کیخلاف مقدمات ختم ہو رہے ہیں جس سے پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں میں امید پیدا ہوئی ہے کہ پارٹی کے سینئر ترین رہنما چند ہفتوں میں جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔ لیکن سرکاری ذرائع کی سوچ اس سے مختلف ہے۔ جس وقت 1971 کے واقعے کے حوالے سے عمران خان کے متنازع ٹوئیٹ نے ایف آئی اے کو عمران خان اور دیگر کیخلاف ایک اور مقدمہ قائم کرنے پر غور کا موقع فراہم کیا ہے وہیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف نیب والے توشہ خانہ ریفرنس دوم دائر کرنے کیلئے درست وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ عدت کیس میں بری ہونے کے باوجود دونوں میاں بیوی سلاخوں کے پیچھے رہیں۔ عمران خان کو چار مختلف کیسز میں عدالت نے سزائیں سنا رکھی ہیں۔ تین مقدمات میں عمران خان اور ان کے ساتھی ملزمان کو یا تو بری کر دیا گیا ہے یا ان کی سزائیں معطل کر دی گئی ہیں۔ اب صرف ایک کیس ہے جس میں عمران خان کی سزا ان کی جیل سے رہائی میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق توشہ خانہ کیس دوم کے حوالے سے نیب کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور اب وہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ریفرنس درست وقت پر دائر کیا جائے گا,نیب کے پہلے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 8 فروری کے انتخابات سے قبل احتساب عدالت نے 14 سال قید کے علاوہ ایک ارب روپے سے زائد جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ لیکن جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو عدالت نے عمران اور ان کی اہلیہ کی سزا معطل کر دی۔ نیب کی مداخلت سے قبل عمران خان کو دو بار اسی توشہ خانہ اسکینڈل سے نقصان ہوا۔ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کو مہنگے تحائف فروخت کرنے سے متعلق حقائق چھپانے کے جرم میں پانچ سال کیلئے قومی اسمبلی سے نااہل قرار دیا تھا چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں فیصلہ سنایا جس کے مطابق غلط بیانی پر عمران خان کیخلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ دیا گیا۔ عمران خان کیخلاف حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم کیخلاف فوجداری مقدمہ اسلام آباد کی سیشن عدالت کو بھجوا دیا، جس نے گزشتہ سال اگست میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی۔ اپیل کے مرحلے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ سزا کو بھی معطل کر دیا۔ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو خصوصی عدالت نے دس دس سال قید کی سزا سنادی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو دونوں کو بری کر دیا۔ عمران خان 9 مئی سے متعلق کئی مقدمات میں سے بری بھی ہو چکے ہیں۔ اس وقت عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا ان کی جیل سے رہائی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس معاملے میں، دونوں کو 8 فروری کے انتخابات سے کچھ دیر قبل سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ ہفتے عمران خان کے ماہرین قانون اور پارٹی مل کر عدت کیس میں دونوں میاں بیوی کی بریت کی امید باندھے بیٹھے تھے لیکن خاور مانیکا کی جانب سے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے پر پہلے سے محفوظ کردہ فیصلے کا اعلان کرنے والے جج نے یہ کیس کسی اور جج کے روبرو پیش کرنے کیلئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست بھیج دی۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے بڑا انکشاف کردیا,سائفر کیس میں عمران خان کی رہائی کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا یہ سب منصوبے کے تحت ہورہا ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں جیل سے کوئی باہر آجائے گا تو نہیں آئے گا باہر، آپ پکڑتے جائیں گے وہ چھوڑتے جائیں گے۔ایک وقت آئے گا سب اپنے کرتوتوں پر ایک ساتھ پکڑے جائیں گے۔ انھوں نے کہا2700 ارب کے مقدمے ہیں لیکن سیاسی (مقدمے )ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک۔ جب تک عدل کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا پاکستان ٹھیک نہیں ہوگا۔میرے حساب سے سنی اتحاد کونسل یا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس میں بہت ساری قانونی پیچیدگیاں ہیں۔نو مئی کے مقابلے میں سائفر انتہائی معمولی مقدمہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ انہوں نے دشمن سے ہماری حفاظت کرنے کی قسم کھائی اور آئین میں کہیں نہیں لکھا وہ دشمن سرحد پر ہوگا یا اندر۔ انہوں نے کہا 21 اکتوبر میری تاریخ پیدائش ہے، آپ 18، 20 اور 21 نمبر اپنے پاس لکھ لیں۔جب ان سے ان نمبر کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی بھی وضاحت دینے سے انکار کردیا لیکن کہا یہ فگر (ہندسے)بڑا ریلیوینٹ (متعلقہ)فگر ہے، یہ آپ کو آگے بڑا کام آئے گا۔عدالتیں آج بھی انصاف کیلئے غریب کیلئے نہیں آرہیں، کسی یتیم بیوہ کیلئے نہیں آرہیں، کسی ریپ کیلئے نہیں آرہیں۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا اداروں کی لڑائی میں نقصان عوام کا ہوتا ہے,جب ہم قوم کو ججوں کے کنڈکٹ کی حقیقت بتاتے ہیں تو کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جو اچھے لوگ ہیں ،ان کی بات ہوگی ۔ جن میں داغ ہے ان کی بھی بات بتائی جائے گی۔ جن کی فائلیں داغدار ہیں، ان کے بارے میں قوم کو بتانا ضروری ہے۔

Back
Top