M.Sami.R
Minister (2k+ posts)
ایک عاشق مزاج گھوڑے کی کہانی
(عطاء الحق قاسمی)
میں جب کسی گھوڑے کو تانگے کے آگے جُتا دیکھتا ہوں تو مجھے اس پر سخت غصہ آتا ہے کہ اتنا طاقت ور اور خوبصورت جانور اپنی یہ تذلیل کیوں برداشت کر رہا ہے۔ میں کئی گدھوں کو بھی ریڑھیوں کے آگے جُتا دیکھتا ہوں لیکن مجھے ”گدھوں“ پر کبھی غصہ نہیں آیا کہ ان کی بے وقوفی تو ضرب المثل بن چکی ہے البتہ ان کی مظلومیت پر ترس ضرور آتا ہے۔ اگر آپ نے جنگلی گھوڑے کو جنگلوں اور کھلے میدانوں میں زقندیں بھرتے دیکھا ہو اور اس کے بعد آپ اسے تانگے کے آگے جُتا دیکھیں تو آپ کے احساسات بھی وہی ہوں گے جو میرے ہیں۔ اس ”جوان رعنا“ کی تذلیل تو ریس کورس میں بھی ہوتی ہے، ایک سُکا سڑا سا جوکی اس کی پیٹھ پر سوار ہوتا ہے جس کے اشارے پر یہ فولادی جانور کسی جواریئے کو جتوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام پاور فل گاڑیاں زیادہ سے زیادہ ”ہارس پاور“ شو کر کے اپنی گاڑی کی قیمت بڑھاتی ہیں اور جنابِ ہارس کو شرم نہیں آتی کہ یہ کسی تانگے کے آگے جُتا پیلے دانتوں والے کسی کوچوان سے چھانٹے کھا رہا ہوتاہے۔
میں اس مسئلے پر بہت عرصے سے غور کرتا چلا آ رہا ہوں کہ گھوڑا یہ ساری ذلتیں کیوں برداشت کرتا ہے۔ تانگے میں یہ جوتا جاتا ہے ، ریس کورس میں اس کی ذلت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ جو کوئی چاہے پلاکی مار کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے اور یہ بغیر کسی حیل و حجت یا احساس ندامت کے فراٹے بھرنے لگتا ہے، ان گھوڑوں میں ”کمی کمین“ بھی ہوتے ہیں اور ان میں بہت ”خاندانی“ گھوڑے بھی شامل ہیں۔ آپ کسی ”گھوڑا پسند“ سے ان کے حسب نسب کی بات کریں وہ آپ کے سامنے ان کا پورا شجرہ رکھ دے گا اور ان کے اپر کلاس ہونے کے اتنے شواہد پیش کرے گا کہ آپ کو اس کے سامنے اپنی اعلیٰ نسبی ہیچ لگنے لگے گی چنانچہ ان لمحوں میں میرا تجسس اور بڑھ جاتا ہے اور میں گھوڑے کی بے غیرتی کی وجوہ ازسرِ نو تلاش کرنے لگتا ہوں تاہم واضح رہے کہ جن گھوڑوں کو میں نے ”کمی کمین“ قرار دیا ہے ، یہ ”گھوڑا پسندوں“ کی رائے ہے جس سے کالم نگار کا متفق ہونا ضروری نہیں کیونکہ گھوڑا کم نسب ہو یا عالی نسب، اس کی طاقت اور خوبصورتی میں بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خیر، طویل عرصے کی سوچ بچار کے بعد میں تقریباً اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گھوڑا بامرِ مجبوری یہ ذلت برداشت کرنے پر تیار ہوا ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے۔ جنگل میں اس کی زندگی یوں تو بہت اچھی تھی، خصوصاً موسمِ بہار میں اسے گھاس وافر تعداد میں میسر ہوتی تھی لیکن باقی موسموں میں اسے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کسی برے موسم میں شہر سے کچھ سفید فام شکاری جنگلوں میں پہنچے، جن گھوڑوں کو مشکلات کے باوجود اپنی آزادی پسند تھی وہ تو ان شکاریوں کے عزائم پہچان کر انہیں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اور جنہیں آزادی سے زیادہ ہری ہری گھاس پسند تھی وہ کھڑے رہے۔ شکاری انہیں شہروں میں لے آئے اور تانگوں کے آگے جوت دیا۔ وہ جو آزادی کے دنوں میں کسی کو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے، اب آنکھوں پر کھوپے چڑھائے سارا دن سواریاں ڈھوتے ہیں۔ انہیں کھانے کو روکھا سوکھا ملتا ہے اور جب ناتوانی کے سبب ان سے تیز نہیں چلا جاتا تو میلا کچیلا کوچوان ان کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔
تاہم یہ میری ذاتی رائے تھی، میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلے پر کسی گھوڑے سے براہِ راست بات کی جائے چنانچہ میں نے ایک گھوڑے کو بڑی مشکل سے رضامند کیا کہ وہ اپنے منہ سے بتائے کہ اسے اپنی آزادی کا یہ سودا کیسا لگا ہے۔ یہ بہت شرمیلے قسم کا گھوڑا تھا، اس نے میرے تجزیئے سے جزوی طور پر اتفاق کیا مگر پھر شرماتے ہوئے کہا ”سر جی! مجھ سے میری آزادی چھیننے والی ایک گھوڑی تھی“ ۔ میں نے پوچھا ”وہ کیسے؟“
بولا”سارے جنگل میں اس کے حسن کی دھویں تھیں اور میرے سمیت تمام گھوڑے اس کے عشق میں بری طرح مبتلا تھے!“ میں نے تجسس سے پوچھا ”پھر کیا ہوا؟“ کہنے لگا ”ہونا کیا تھا، ایک دن تنہائی میں میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا دنیا بہت آگے نکل گئی ہے لیکن ہم ابھی تک جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے یہاں ہمیں ہر طرح کی آزادی ہے، اچھے موسموں میں کھانے پینے کو بھی وافر مقدار میں اشیائے خوردو نوش مل جاتی ہیں، ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں، جنگلوں اور کھلے میدانوں میں زقندیں لگاتے ہیں، کوئی ہمیں روکنے ٹوکنے والا نہیں لیکن یہاں کلچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ نہ راگ رنگ کی محفلیں، نہ ٹی وی چینلز ، نہ تھیٹر، نہ سنیما، یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ تم نے اگر میرے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو میرے ساتھ شہر چلو، وہاں زندگی بہت رنگین ہے“۔
اس کی باتیں میرے دل کو لگیں تاہم میں نے پوچھا ”ہم شہر جائیں گے کیسے؟“ بولی ”شہر میں ایک این جی او والے میرے واقف ہیں ، وہ دو ایک دن میں یہاں آئیں گے، وہ تمہیں پکڑنے کی کوشش کریں گے تم دوسروں کو دکھانے کے لئے تھوڑی بہت مزاحمت کرنا مگر اس مزاحمت میں دولتی شامل نہیں ہونا چاہئے، وہ تمہیں اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے جہاں زندگی کی بہاریں اپنے جوبن پر ہیں، تم جب شہر میں سیٹ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا، میں چلی آؤں گی“ مجھے رومانس سے بھری یہ کہانی بہت تہلکہ خیز لگی، میں نے سوچا میں اس پر فلم بناؤں گا چنانچہ میں نے پوچھا ”پھر کیا ہوا؟“ اس پر عاشق مزاج گھوڑے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور بولا ”ہونا کیا تھا جی، اس قتالہ نے اپنے عاشق دوسرے گھوڑوں کو بھی یہی چکمہ دیا، وہ سب یہاں چلے آئے، اب وہ میری طرح تانگے کے آگے جتے نظر آتے ہیں یا جوئے کے اڈے یعنی ریس کورس میں جوکی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ہم آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کے بدلے میں ہمیں ملا بھی کچھ نہیں!“ مجھے اس بھولے بھالے گھوڑے پر بہت ترس آیا، میں نے پوچھا”اور وہ حسینہ ان دنوں کہاں ہے؟“ اس پر ایک بار پھر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور بولا ”وہ وہیں جنگل میں ہے اور آزاد فضاؤں میں عیش کی زندگی بسر کر رہی ہے!“
مجھے اس کہانی کے انجام نے اداس کر دیا۔ میں نے گھوڑے سے اجازت طلب کی اور ابھی جانے ہی کو تھا کہ اس نے مجھے روکا اور کہا ”جن شکاریوں نے مجھے اور میرے دوسرے ہم جنسوں کو آزادی سے محروم کیا، وہ تمہارے شہروں میں سرگرمِ عمل ہیں، سفید فاموں نے تمہارے جیسے پڑھے لکھے لوگوں میں کروڑوں اربوں روپے تقسیم کئے ہیں تاکہ تمہیں مہذب بنایا جا سکے۔ مہذب ضرور ہونا کہ تہذیب و ثقافت کے بغیر شہر اور جنگل ایک سے ہیں لیکن اپنی آزادی اور خودمختاری سے غافل نہ ہونا۔ یاد رکھنا کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا!“۔
میں اس مسئلے پر بہت عرصے سے غور کرتا چلا آ رہا ہوں کہ گھوڑا یہ ساری ذلتیں کیوں برداشت کرتا ہے۔ تانگے میں یہ جوتا جاتا ہے ، ریس کورس میں اس کی ذلت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ جو کوئی چاہے پلاکی مار کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے اور یہ بغیر کسی حیل و حجت یا احساس ندامت کے فراٹے بھرنے لگتا ہے، ان گھوڑوں میں ”کمی کمین“ بھی ہوتے ہیں اور ان میں بہت ”خاندانی“ گھوڑے بھی شامل ہیں۔ آپ کسی ”گھوڑا پسند“ سے ان کے حسب نسب کی بات کریں وہ آپ کے سامنے ان کا پورا شجرہ رکھ دے گا اور ان کے اپر کلاس ہونے کے اتنے شواہد پیش کرے گا کہ آپ کو اس کے سامنے اپنی اعلیٰ نسبی ہیچ لگنے لگے گی چنانچہ ان لمحوں میں میرا تجسس اور بڑھ جاتا ہے اور میں گھوڑے کی بے غیرتی کی وجوہ ازسرِ نو تلاش کرنے لگتا ہوں تاہم واضح رہے کہ جن گھوڑوں کو میں نے ”کمی کمین“ قرار دیا ہے ، یہ ”گھوڑا پسندوں“ کی رائے ہے جس سے کالم نگار کا متفق ہونا ضروری نہیں کیونکہ گھوڑا کم نسب ہو یا عالی نسب، اس کی طاقت اور خوبصورتی میں بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خیر، طویل عرصے کی سوچ بچار کے بعد میں تقریباً اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گھوڑا بامرِ مجبوری یہ ذلت برداشت کرنے پر تیار ہوا ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے۔ جنگل میں اس کی زندگی یوں تو بہت اچھی تھی، خصوصاً موسمِ بہار میں اسے گھاس وافر تعداد میں میسر ہوتی تھی لیکن باقی موسموں میں اسے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کسی برے موسم میں شہر سے کچھ سفید فام شکاری جنگلوں میں پہنچے، جن گھوڑوں کو مشکلات کے باوجود اپنی آزادی پسند تھی وہ تو ان شکاریوں کے عزائم پہچان کر انہیں دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اور جنہیں آزادی سے زیادہ ہری ہری گھاس پسند تھی وہ کھڑے رہے۔ شکاری انہیں شہروں میں لے آئے اور تانگوں کے آگے جوت دیا۔ وہ جو آزادی کے دنوں میں کسی کو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے، اب آنکھوں پر کھوپے چڑھائے سارا دن سواریاں ڈھوتے ہیں۔ انہیں کھانے کو روکھا سوکھا ملتا ہے اور جب ناتوانی کے سبب ان سے تیز نہیں چلا جاتا تو میلا کچیلا کوچوان ان کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔
تاہم یہ میری ذاتی رائے تھی، میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلے پر کسی گھوڑے سے براہِ راست بات کی جائے چنانچہ میں نے ایک گھوڑے کو بڑی مشکل سے رضامند کیا کہ وہ اپنے منہ سے بتائے کہ اسے اپنی آزادی کا یہ سودا کیسا لگا ہے۔ یہ بہت شرمیلے قسم کا گھوڑا تھا، اس نے میرے تجزیئے سے جزوی طور پر اتفاق کیا مگر پھر شرماتے ہوئے کہا ”سر جی! مجھ سے میری آزادی چھیننے والی ایک گھوڑی تھی“ ۔ میں نے پوچھا ”وہ کیسے؟“
بولا”سارے جنگل میں اس کے حسن کی دھویں تھیں اور میرے سمیت تمام گھوڑے اس کے عشق میں بری طرح مبتلا تھے!“ میں نے تجسس سے پوچھا ”پھر کیا ہوا؟“ کہنے لگا ”ہونا کیا تھا، ایک دن تنہائی میں میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا دنیا بہت آگے نکل گئی ہے لیکن ہم ابھی تک جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے یہاں ہمیں ہر طرح کی آزادی ہے، اچھے موسموں میں کھانے پینے کو بھی وافر مقدار میں اشیائے خوردو نوش مل جاتی ہیں، ہم اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں، جنگلوں اور کھلے میدانوں میں زقندیں لگاتے ہیں، کوئی ہمیں روکنے ٹوکنے والا نہیں لیکن یہاں کلچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ نہ راگ رنگ کی محفلیں، نہ ٹی وی چینلز ، نہ تھیٹر، نہ سنیما، یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ تم نے اگر میرے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو میرے ساتھ شہر چلو، وہاں زندگی بہت رنگین ہے“۔
اس کی باتیں میرے دل کو لگیں تاہم میں نے پوچھا ”ہم شہر جائیں گے کیسے؟“ بولی ”شہر میں ایک این جی او والے میرے واقف ہیں ، وہ دو ایک دن میں یہاں آئیں گے، وہ تمہیں پکڑنے کی کوشش کریں گے تم دوسروں کو دکھانے کے لئے تھوڑی بہت مزاحمت کرنا مگر اس مزاحمت میں دولتی شامل نہیں ہونا چاہئے، وہ تمہیں اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے جہاں زندگی کی بہاریں اپنے جوبن پر ہیں، تم جب شہر میں سیٹ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا، میں چلی آؤں گی“ مجھے رومانس سے بھری یہ کہانی بہت تہلکہ خیز لگی، میں نے سوچا میں اس پر فلم بناؤں گا چنانچہ میں نے پوچھا ”پھر کیا ہوا؟“ اس پر عاشق مزاج گھوڑے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور بولا ”ہونا کیا تھا جی، اس قتالہ نے اپنے عاشق دوسرے گھوڑوں کو بھی یہی چکمہ دیا، وہ سب یہاں چلے آئے، اب وہ میری طرح تانگے کے آگے جتے نظر آتے ہیں یا جوئے کے اڈے یعنی ریس کورس میں جوکی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ہم آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کے بدلے میں ہمیں ملا بھی کچھ نہیں!“ مجھے اس بھولے بھالے گھوڑے پر بہت ترس آیا، میں نے پوچھا”اور وہ حسینہ ان دنوں کہاں ہے؟“ اس پر ایک بار پھر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور بولا ”وہ وہیں جنگل میں ہے اور آزاد فضاؤں میں عیش کی زندگی بسر کر رہی ہے!“
مجھے اس کہانی کے انجام نے اداس کر دیا۔ میں نے گھوڑے سے اجازت طلب کی اور ابھی جانے ہی کو تھا کہ اس نے مجھے روکا اور کہا ”جن شکاریوں نے مجھے اور میرے دوسرے ہم جنسوں کو آزادی سے محروم کیا، وہ تمہارے شہروں میں سرگرمِ عمل ہیں، سفید فاموں نے تمہارے جیسے پڑھے لکھے لوگوں میں کروڑوں اربوں روپے تقسیم کئے ہیں تاکہ تمہیں مہذب بنایا جا سکے۔ مہذب ضرور ہونا کہ تہذیب و ثقافت کے بغیر شہر اور جنگل ایک سے ہیں لیکن اپنی آزادی اور خودمختاری سے غافل نہ ہونا۔ یاد رکھنا کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا!“۔
Source:
ایک عاشق مزاج گھوڑے کی کہانی !-عطاء الحق قاسمی
نوٹ: یہ مضمون معروف مزاح نگار عطاء الحق قاسمی کا طنز و مزاح کا شاہکار ہے، اسے کسی اور تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ شکریہ
- Featured Thumbs
- http://s5.postimg.org/yu088svlz/sad_horse.jpg
Last edited by a moderator: