ایک عاشق مزاج گھوڑے کی کہانی

amir_ali

Chief Minister (5k+ posts)
جب سے میں سپرایڈمنسٹریٹر بنا تھا، فورم کے اقتدار کے بالا خانوں میں سازشوں پر سازشیں ہورہی تھیں، آخر ایک سازش کامیاب ہوئی اور میں ڈی موٹ ہوکر ایڈمنسٹریٹر بن گیا، سازشیں پھر بھی نہ رکھیں، اور آخر مجھے اس عہدے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، خیر آپ فکر نہ کریں، بہت جلد میں پرانی پوسٹ واپس حاصل کرلوں گا۔


سمیع بھائی، بالاخانوں میں تو فیصلے ہوتے ہیں،سازشیں تو آپ کے آس پاس، دوست یار، وفادار بنتے ہیں۔
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)


سمیع بھائی، بالاخانوں میں تو فیصلے ہوتے ہیں،سازشیں تو آپ کے آس پاس، دوست یار، وفادار بنتے ہیں۔

یہ سازش بالا خانے میں ہی تیار ہوئی تھی، کیونکہ سپر ایڈمنسٹر بالا خانے میں ہی بیٹھتا ہے۔
 

Annie

Moderator
ویلکم بیک سمیع
اس وقت دوسری تھریڈ میں بزی ہوں اس لیے لیٹ پہنچی ہوں
جی جناب رہائی مبارک ہو:welcome:
 

shafi3859

Minister (2k+ posts)
de4a1aba9545812381433ab48e3cbb6b.jpg
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
سامی صاحب واپسی تو اچھی بات ہے لیکہن آغاز پھر بھی آپ نے لفظ گھوڑے سے کیا ہے بلکہ صفات بھی بیان کی ہیں ، ایک بات سب دوستوں سے اگر محسوس نہ کریں ، کون سے ممبر اپنے لئے یہ الفاظ برداشت کرے گا ؟؟؟؟؟ پرفیکٹ سے میری بھی اکثر شدید قسم کی گفتگو ہوتی ہے لیکن چند دوستوں سے ہی آخر لڑائی کس وجہ سے ہوتی ہے ، قران میں الله واضح طور پر ایمان والوں کی ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے سے روکتا ہے ، اب پتا نہیں ہم سبق کہاں سے حاصل کریں گے

ایک مضمون میں بھی شئیر کر رہا ہوں ،اس پر سب غور کیجئے ، ہو سکے تو سب الله سے معافی مانگ لیجئے جو معاف کرنے والا ہے
______________________________________________________________________


نامناسب القاب سے منسوب کرنا
(تحقیق و تحریر: پروفیسر محمد عقیل)

کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابل مذمت ہوتا ہے۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث
میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔

جیسا کہ سور ہ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
“اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱)
اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔
برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121 )

اسی طرح ایک اور جگہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )
برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
“جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی”۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )

نامناسب القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم
برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔

شرائط
برےلقب سے موسوم کرنے کے لئے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے۔
۱۔ لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا
۲۔ کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا
۳۔لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو۔

وضاحت:
کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہوجائے تو یہ گناہ سرزد ہوجائے گا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر وتذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو۔ مثال کے طور پر زاہد نے فرحان کو اس کی پستہ قامتی کا احساس دلانے کے لئے اور اسے اذیت پہنچانے کے لئے جملہ کہا” اور بونے صاحب ! کہاں چل دئیے”۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لئے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا۔ مثلا الیاس نےغفار سے کہا ” اور ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے؟” الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے۔

تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو۔ مثال کے طور پر سلمان نے عزیر سے بے تکلفی میں کہا” او کمینے! بات تو مکمل کرنے دے، پھر اپنی کہنا”۔ یہ سن کر عزیر ہنسنے لگا۔ یہاں سلمان نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور عزیر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہورہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے۔

استثنیٰ
ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کردیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا، چھوٹو ، موٹو، کانا، چندا، کلو، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو، گڈو، منا،چنا، بے بی، گڈی، گڑیا،چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے؟
اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا۔خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں۔

دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ جیسے فاروق، صدیق، غنی، قائد اعظم ،علامہ وغیر۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔

القاب کی اقسام
عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں۔
۱۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو، موٹو، ٹھنگو، لمبو، کلو، چٹا، منا، کبڑا، لنگڑا، ٹنٹا ، اندھا، کانا وغیر کہنا۔
۲۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق، فاسق، کافر، بنیاد پرست، یہودی، نصرانی، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں۔
۳۔قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر، مکڑ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا، بھا ئو غیرہ مشہور ہیں۔
۴۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ، بدذات، طوائف، کال گرل، لونڈا، ہیجڑا، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا۔ مثال کے طور پر بھڑوا درحقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا۔

۵۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی، زانی، قاتل، لٹیرا، دہشت گرد،چور وغیرہ
۶۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا، گدھا، سور، الو، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا
۷۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل، بھوت، جن، بدروح وغیرہ کہنا
۸۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور، بدخصلت، لالچی، بخیل، ذلیل، چمچہ، کنجوس،خودغرض ، فضول خرچ، عیاش وغیرہ کہنا۔
۹۔عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی، چچا، ماموں، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں۔
۱۰۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتا فوقتا اس چڑ سے اسے تنگ کرنا
۱۱۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازناجیسے کسی کوموچی ،بھنگی، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا۔

اسباب و تدارک
چونکہ برے القاب سے منسوب کرنا بدگوئی کی ایک قسم ہے اس لئے اس فعل کے اسبا ب و تدارک جاننے کے لئے بدگوئی میں بیان کی گئی تحریر کا مطالعہ کرلیں۔

اسائنمنٹ
صحیح یا غلط بیان کریں:
۱۔ کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں۔
۲۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کے لئے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے۔
۳۔برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے۔
۴۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے۔
۵۔ ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں”۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9)
۶۔ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو! ذرا ادھر تو آ”۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے۔
۷۔نگہت نے رضیہ کی چالاکی کو بیان کرنے کے لئے اسے لومڑی کہا۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
۸۔ غزالہ نے اپنی کزن فرحانہ کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو”۔ فرحانہ سمجھی کہ غزالہ نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی۔ غزالہ کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو غزالہ کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ فرحانہ کا برا ماننا ناحق ہے اورغلط فہمی کی وجہ سے ہے۔
۹۔ ذیشان نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر ” کہہ دیا۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے۔
۱۰۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو” پروفیسر ” کے لقب سے موسوم کردیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے۔



 
Last edited:

SAIT_

Senator (1k+ posts)
خوش آمدید سمی صاحب
آپ ان چند بد نصیبوں میں سے ہیں جنھیں دینوچوڑے کی چھترول کرنے پر قید ہوئی ہے - وگرنہ اس چوڑے کی چھترول تو ہر کوئی ثواب سمجھ کر کرتا ہے-اڈمن کس کس کو بلاک کریں گے-ویبسائٹ کی انتظامیہ کی آجکل یہی سب سے بڑی مشکل لگتی ہے
 

پرفیکٹ سٹرینجر

Chief Minister (5k+ posts)
سامی صاحب واپسی تو اچھی بات ہے لیکہن آغاز پھر بھی آپ نے لفظ گھوڑے سے کیا ہے بلکہ صفات بھی بیان کی ہیں ، ایک بات سب دوستوں سے اگر محسوس نہ کریں ، کون سے ممبر اپنے لئے یہ الفاظ برداشت کرے گا ؟؟؟؟؟ پرفیکٹ سے میری بھی اکثر شدید قسم کی گفتگو ہوتی ہے لیکن چند دوستوں سے ہی آخر لڑائی کس وجہ سے ہوتی ہے ، قران میں الله واضح طور پر ایمان والوں کی ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے سے روکتا ہے ، اب پتا نہیں ہم سبق کہاں سے حاصل کریں گے

ایک مضمون میں بھی شئیر کر رہا ہوں ،اس پر سب غور کیجئے ، ہو سکے تو سب الله سے معافی مانگ لیجئے جو معاف کرنے والا ہے
______________________________________________________________________


نامناسب القاب سے منسوب کرنا
(تحقیق و تحریر: پروفیسر محمد عقیل)

کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابل مذمت ہوتا ہے۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث
میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔

جیسا کہ سور ہ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
“اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱)
اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔
برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121 )

اسی طرح ایک اور جگہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )
برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
“جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی”۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )

نامناسب القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم
برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔

شرائط
برےلقب سے موسوم کرنے کے لئے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے۔
۱۔ لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا
۲۔ کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا
۳۔لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو۔

وضاحت:
کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہوجائے تو یہ گناہ سرزد ہوجائے گا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر وتذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو۔ مثال کے طور پر زاہد نے فرحان کو اس کی پستہ قامتی کا احساس دلانے کے لئے اور اسے اذیت پہنچانے کے لئے جملہ کہا” اور بونے صاحب ! کہاں چل دئیے”۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لئے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا۔ مثلا الیاس نےغفار سے کہا ” اور ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے؟” الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے۔

تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو۔ مثال کے طور پر سلمان نے عزیر سے بے تکلفی میں کہا” او کمینے! بات تو مکمل کرنے دے، پھر اپنی کہنا”۔ یہ سن کر عزیر ہنسنے لگا۔ یہاں سلمان نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور عزیر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہورہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے۔

استثنیٰ
ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کردیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا، چھوٹو ، موٹو، کانا، چندا، کلو، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو، گڈو، منا،چنا، بے بی، گڈی، گڑیا،چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے؟
اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا۔خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں۔

دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ جیسے فاروق، صدیق، غنی، قائد اعظم ،علامہ وغیر۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔

القاب کی اقسام
عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں۔
۱۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو، موٹو، ٹھنگو، لمبو، کلو، چٹا، منا، کبڑا، لنگڑا، ٹنٹا ، اندھا، کانا وغیر کہنا۔
۲۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق، فاسق، کافر، بنیاد پرست، یہودی، نصرانی، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں۔
۳۔قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر، مکڑ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا، بھا ئو غیرہ مشہور ہیں۔
۴۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ، بدذات، طوائف، کال گرل، لونڈا، ہیجڑا، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا۔ مثال کے طور پر بھڑوا درحقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا۔

۵۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی، زانی، قاتل، لٹیرا، دہشت گرد،چور وغیرہ
۶۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا، گدھا، سور، الو، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا
۷۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل، بھوت، جن، بدروح وغیرہ کہنا
۸۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور، بدخصلت، لالچی، بخیل، ذلیل، چمچہ، کنجوس،خودغرض ، فضول خرچ، عیاش وغیرہ کہنا۔
۹۔عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی، چچا، ماموں، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں۔
۱۰۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتا فوقتا اس چڑ سے اسے تنگ کرنا
۱۱۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازناجیسے کسی کوموچی ،بھنگی، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا۔

اسباب و تدارک
چونکہ برے القاب سے منسوب کرنا بدگوئی کی ایک قسم ہے اس لئے اس فعل کے اسبا ب و تدارک جاننے کے لئے بدگوئی میں بیان کی گئی تحریر کا مطالعہ کرلیں۔

اسائنمنٹ
صحیح یا غلط بیان کریں:
۱۔ کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں۔
۲۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کے لئے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے۔
۳۔برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے۔
۴۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے۔
۵۔ ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں”۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9)
۶۔ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو! ذرا ادھر تو آ”۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے۔
۷۔نگہت نے رضیہ کی چالاکی کو بیان کرنے کے لئے اسے لومڑی کہا۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
۸۔ غزالہ نے اپنی کزن فرحانہ کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو”۔ فرحانہ سمجھی کہ غزالہ نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی۔ غزالہ کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو غزالہ کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ فرحانہ کا برا ماننا ناحق ہے اورغلط فہمی کی وجہ سے ہے۔
۹۔ ذیشان نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر ” کہہ دیا۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے۔
۱۰۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو” پروفیسر ” کے لقب سے موسوم کردیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے۔




یہ مسلمانوں کے لئے ہے ۔ پاکستانیوں کے لئے نہی ۔۔۔۔

 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
یہ مسلمانوں کے لئے ہے ۔ پاکستانیوں کے لئے نہی ۔۔۔۔

حق بات تو یہ ہی ہے ، اکثر کو میں نے بھی دیکھا ہے قرآن کے حوالے ، حدیث کے حوالے ، صحابہ کے حوالے ، علماء کے حوالے ، ہماری قوم صرف حوالوں کے لئے رہ گئی ہے ، عمل سے ہم کوسوں دور ، آپ بھی تھوڑا سا اپنے رویئے میں نرمی لے آئیں ، بس اتنا تبصرہ کریں جتنا لیڈر ایک دوسروں سے کرتے ہیں ، تا کہ ایک دوسرے کی دل آزاری نہ ہو ، اس تبصرے کو پڑھ کر لگتا تو یہ ہی ہے سب سوچ میں ہیں ، الله کرے یہ فورم واقعی پڑھے لکھے اور سلجھے لوگوں کا فورم بن جائے ، ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں ، سب ہی اس ملک کی بھلائی اور ترقی چاہتے ہیں ، سب جماعتیں بھی ایسا ہی دعوی کرتی ہیں ،لیکن ہر ایک کا طریقہ الگ ہے لیکن سب ایک منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں ، اس لئے سیاسی جماعتوں پر تنقید ان کی بہتری کے لئے ہوتی ہے نہ کہ بے جا الزمات کے لئے ، اس لئے تنقید کو مثبت انداز میں کرنا اور برداشت کرنا بہتری کا ایک عمل ہے
یہاں اکثر ذاتیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں
 

dildar

MPA (400+ posts)
سمعی صاحب ...واپسی مبارک ہو ..آپ اس فورم کی رونق ہیں ..اور ان خوش نصیبوں میں سے جن کی پوسٹ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتی ہوں ...:)

آپ کے بغیر یہ فورم سونا ہے ...سونا تو خیر اور بہت سے لوگوں کے بغیر بھی ہے ..عاطف غائب ہیں ..طاری کم کم آتے ہیں ..پتا نہیں نخرے اٹھوانا چاہتے ہیں یا واقعی مصروف ہیں
ابھی تو آپ نے مجھے پی ایم میں کہا تھا کہ اچھا ہوا جان چھوٹی اسکو ایک مہینے بند رکھیں تو اچھا ہے:13::13::13: ، لیکن یہاں آپ کچھ اور ہی لکھ رہی ہیں ، میں آپکی پوسٹ ڈھونڈھنے نکلتی ہوں وغیرہ
:biggthumpup:اور ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے اسکی تازہ پوسٹ کے آپشن پر کلک کیا کریں
 

dildar

MPA (400+ posts)
حق بات تو یہ ہی ہے ، اکثر کو میں نے بھی دیکھا ہے قرآن کے حوالے ، حدیث کے حوالے ، صحابہ کے حوالے ، علماء کے حوالے ، ہماری قوم صرف حوالوں کے لئے رہ گئی ہے ، عمل سے ہم کوسوں دور ، آپ بھی تھوڑا سا اپنے رویئے میں نرمی لے آئیں ، بس اتنا تبصرہ کریں جتنا لیڈر ایک دوسروں سے کرتے ہیں ، تا کہ ایک دوسرے کی دل آزاری نہ ہو ، اس تبصرے کو پڑھ کر لگتا تو یہ ہی ہے سب سوچ میں ہیں ، الله کرے یہ فورم واقعی پڑھے لکھے اور سلجھے لوگوں کا فورم بن جائے ، ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں ، سب ہی اس ملک کی بھلائی اور ترقی چاہتے ہیں ، سب جماعتیں بھی ایسا ہی دعوی کرتی ہیں ،لیکن ہر ایک کا طریقہ الگ ہے لیکن سب ایک منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں ، اس لئے سیاسی جماعتوں پر تنقید ان کی بہتری کے لئے ہوتی ہے نہ کہ بے جا الزمات کے لئے ، اس لئے تنقید کو مثبت انداز میں کرنا اور برداشت کرنا بہتری کا ایک عمل ہے
یہاں اکثر ذاتیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں


:pمولوی صاھب ختم پڑھ جاو کھیر پکا کر ٹھنڈی رکھی ہوئی ہے
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

ابھی تو آپ نے مجھے پی ایم میں کہا تھا کہ اچھا ہوا جان چھوٹی اسکو ایک مہینے بند رکھیں تو اچھا ہے:13::13::13: ، لیکن یہاں آپ کچھ اور ہی لکھ رہی ہیں ، میں آپکی پوسٹ ڈھونڈھنے نکلتی ہوں وغیرہ
:biggthumpup:اور ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے اسکی تازہ پوسٹ کے آپشن پر کلک کیا کریں

جو بات پرائویٹ میں ہو اسے کبھی پبلک نہیں کرتے ...ورنہ میرے پاس بھی کافی مواد ہے ...ظاہر ہے گفتگو یک طرفہ تو نہیں تھی ..اور انسان دل کی بات اسی سے ہی کرتا ہے جب دوسرے کے بھی وہی خیالات ہوں .

:biggthumpup:
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)

ابھی تو آپ نے مجھے پی ایم میں کہا تھا کہ اچھا ہوا جان چھوٹی اسکو ایک مہینے بند رکھیں تو اچھا ہے:13::13::13: ، لیکن یہاں آپ کچھ اور ہی لکھ رہی ہیں ، میں آپکی پوسٹ ڈھونڈھنے نکلتی ہوں وغیرہ
:biggthumpup:اور ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے اسکی تازہ پوسٹ کے آپشن پر کلک کیا کریں

جو بات پرائویٹ میں ہو اسے کبھی پبلک نہیں کرتے ...ورنہ میرے پاس بھی کافی مواد ہے ...ظاہر ہے گفتگو یک طرفہ تو نہیں تھی ..اور انسان دل کی بات اسی سے ہی کرتا ہے جب دوسرے کے بھی وہی خیالات ہوں .

:biggthumpup:


،اچھا تو یہ بات ہے نادان جی:13:! اب میں سمجھا کہ آپ گونگلوؤں سے مٹی کیوں جھاڑ رہی تھیں۔