خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
صدر و سی ای او اے آر وائی نیٹ ورک سلمان اقبال نے کہا ہے کہ واضح کہتا ہوں میرے بھائی ارشد کیخلاف ہیہمانہ فعل میں میراکوئی دخل نہیں مجھے دکھ اور صدمہ ہے کہ ارشدشریف کے قتل پر ابھی تک کوئی کمیشن نہیں بنا تحقیقات کے بجائے حکومت پریس کانفرنسز کر کے مجھے سازش کا حصہ بنا رہی ہے۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری بیان میں سلمان اقبال نے کہا کہ میں اپنے بھائی ارشد شریف کے بیہمانہ قتل سے شدید صدمے اور شکستہ دل ہوں اپنی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ارشد کی وفات پورے پاکستان اور عالمی سطح پر صحافت کیلئے بہت بڑا نقصان ہے ارشدشریف کے اہلخانہ اور تمام سوگواران کیساتھ ہوں۔ صدر و سی ای او اےآروائی نیٹ ورک نے کہا کہاپنے کیریئر کے آغاز سے اب تک ہمیشہ اپنے لوگوں کا خیال رکھا جس کے وہ گواہ ہیں پاکستان میں صحافی بننا آسان نہیں میری پوری نیوز ٹیم کو اکثر مختلف خطرات کا سامنا رہتا ہے جسے کم کرنا میرا کام ہے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم نے کئی ساتھیوں کو کھویا۔ سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ میں نےآج تک ان ساتھیوں کےخاندانوں کی کفالت جاری رکھی ہوئی ہے۔ جانتا تھا ارشدشریف کو جن خطرات کا سامنا تھا وہ حقائق پرمبنی تھے ارشد نے حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سے حفاظت کی اپیل کی لیکن حکومت نے تحفظ دینے کے بجائے ارشد کیخلاف بغاوت کے مقدمات کا انبار لگا دیا ارشدکیخلاف متعدد ایف آئی آرز کاٹی گئیں، گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی انتقامی کارروائیوں نے ارشدشریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا بحیثیت دوست اور ساتھی ارشدشریف کے پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کا ساتھ دیا دفتری معمول کے مطابق ہمارے دفتر نے ارشد شریف کیلئے سفری انتظامات کیے دوست ساتھی کی مدد کرنا کب سے جرم ہے؟ سلمان اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے میرے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے حکومت نے مجھے کبھی سونے کا اسمگلر یا اسلحے کا سوداگر سمیت دیگر الزامات لگائے میرے خلاف مہم کا آغاز مریم نواز نے کیا، یہ مہم وزرا نے ابھی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر، ایف آئی اے، پیمرا،ایس ای سی پی کو میرے خلاف ہتھیار بنایا مجھ پر متعدد ایف آئی آرز، وارنٹ گرفتاری اورغداری کے مقدمے بنائے گئے حکومت کی جانب سے صحافیوں پر مقدمات اور ظلم وستم نے تشویش میں ڈال دیا حکومتی اقدامات کی وجہ سے 6 ماہ سے پاکستان نہیں آسکا۔ سلمان اقبال نے حکومتی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ کے ارشدشریف کے قتل سے متعلق مجھ پرالزامات بے بنیاد ہیں وزیرداخلہ مجھ پر لگائے گئے الزامات میرے خلاف منظم مہم کا تسلسل ہیں ارشدشریف کی موت پر حکومت جو سیاست کر رہی ہے وہ ایک مکروہ فعل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھےارشدشریف کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے ن لیگ حکومت میں تحقیقات کی آزادی پر یقین نہیں لیکن ہر سوال کا جواب دوں گا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے زیر نگرانی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔ سلمان اقبال نے یہ بھی کہا ارشدشریف کے قتل کی حقیقت تک پہنچنے والی ایسی ہر تحقیقات میں تعاون کروں گا واقعےکی تہہ تک پہنچا جائے تاکہ ذمہ داروں کوانصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
لاہورمیں میری ملاقات کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، ہم نے آج ریلی کو اس لیے روکا کیوں کہ ہم رات کو سفر نہیں کرنا چاہتے تھے -عمران خان کی لاہور میں مذاکرات کی خبروں پروضاحت عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ان سب کیلئےجو لاہور میں میری ملاقات کی افواہیں پھیلا رہےہیں،ہماری واپسی کی وجہ یہ تھی کہ لاہورقریب تھا، ہم پہلےہی رات کوسفر نہ کرنےکافیصلہ کرچکےتھے۔ پچھلے6 ماہ سےمیرا واحدمطالبہ صاف شفاف انتخابات کےفوری انعقاد کی تاریخ رہی ہے۔اگر مذاکرات ہوئےبھی تو میرا واحدمطالبہ یہی رہے گا
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کیلئے دائر کی گئی درخواست اسلام آباد میں سماعت کیلئے مقرر کردی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق عمران خان کی اس درخواست پر پیر کے روز سماعت کریں گے، سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے گا یا نہیں یہ فیصلہ بھی پیر کے روز ہی سامنے آنے کا امکان ہے۔ عمران خان کی جانب سے دائر اس درخواست میں پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے رجسٹرار آفس کے تمام اعتراضات دور کردیئے ہیں، درخواست میں عمران خان نے عدالت سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور اپنی نااہلی منسوخ کرنے کی استدعا کی ہے۔ واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو نااہل کردینے کا فیصلہ سنایا تھا، اس کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی تھی جس کے بعد متفقہ فیصلہ سامنے آیا، فیصلے کے مطابق عمران خان کو 63 ون کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
رہنما تحریک انصاف سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی شرط انتخابات کا اعلان ہے اگر یہ اعلان ہوتا ہے تو پھر ہم بھی مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں۔ زمان پارک میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فواد چودھری نے کہا کہ ہمارا حکومت کو واضح پیغام ہے کہ اگر وہ اپریل یا مارچ میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کریں تو پھر بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کل شاہدرہ تک پہنچنے کا ٹارگٹ تھا مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا، شاہدرہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ آج ہم شاہدرہ سے آگے بڑھیں گے۔ وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان کی انرجی برقرار ہے، ہم اپنے لوگوں کو تھکانا نہیں چاہتے، ویسے بھی عوام کی انرجی میں کمی نہیں آئی، جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کے گروپس ہمارے پاس آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں وزیرداخلہ راناثنااللہ اور پرویزرشید کے بیانات سے دکھ ہوا ہے۔ قبل ازیں فواد چودھری نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت کی مذاکرات کی دعوت کی خبریں غیر سنجیدہ ہیں، ایک طرف تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، حقیقی آزادی مارچ کی کوریج پر پابندیاں ہیں، غیر سنجیدہ کمیٹی بنانے کی خبریں صرف آزادی مارچ کوانگیج کرنے کے لیے ہیں۔ اب یہ چالاکیاں نہیں چلنی بس انتخابات کی تاریخ دیں۔
لیگی رہنما طلال چوہدری کے بیان پر رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری کا شدید ردعمل سامنے آگیا، انہوں نے ٹویٹ میں لکھا، سب سے زیادہ مایوسی رانا ثنااللہ کے رویے پر ہے،رانا صاحب خود، پرویز رشید ان کے ساتھ کیا ہوا تھا آج یہ لوگ لوگوں کو برہنہ کر کے تشدد کروا رہے ہیں کم از کم ان کو تو اس زیادتی پر واضع ہونا چاہئے تھا۔ میں نے اس وقت بھی اس عمل کی مذمت کی تھی آج بھی ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف کھڑا ہوں۔ جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ گفتگو میں لیگی رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں کو پتا نہیں ننگا ہونے کا کیا شوق ہے، پی ٹی آئی کے جتنے لوگ گرفتار ہوتے ہیں الزام لگا دیتے ہیں ہمیں ننگا کیا گیا۔ طلال چوہدری نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں تشدد کیا گیا لیکن تشدد کے نشان نظر نہیں آتے، جس پر میزبان نے غصے میں کہا کہ پاکستان میں لوگوں کو تشدد کے بعد ننگا ہونے کا شوق نہیں ہے، اور آکر بتانے کا شوق نہیں ہے،اعظم سواتی پچھتر سال کے شخص ہیں ان کے بیوی بچے ہیں، پوتا پوتی ہیں وہ ٹی وی پر آکر کہے گا انہیں ننگا کیا گیا۔ میزبان نے کہا آپ نے بھی اس بات کا مذاق اڑایا،تحقیقات کے بجائے رانا ثنا نے بھی مذاق اڑایا،طلال چوہدری نے کہا شہباز گل پر تشدد کی تحقیقات کیلیے تین میڈیکل بورڈ بنے کہیں تشدد ثابت نہیں ہوا،کون سا دنیا میں تشدد ہے جس کا نشان نہیں ہوتا،میزبان نے کہا مذاق اڑانا غلط ہے ، تشدد کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ عمران خان کو 2 خاص، 3 سانپ کسی اور ڈگر لے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ میں اپنے قائد عمران خان کو سمجھاتا رہا، بتاتا رہا اور نشاندہی کرتا رہا کہ ان کی 26 سال کی سیاسی محنت کو 2خاص، 3 سانپ اور کچھ کیڑے کسی اور ڈگر لے جارہے ہیں۔ فیصل واوڈا کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتحال سے ملک کونقصان ہوا۔ اداروں سے محاذ آرائی ہوئی اور پی ڈی ایم کو فائدہ ہوا۔ ہم سمجھوتے کے بہت قریب تھے۔ جلد ان کے نام سامنے لاؤں گا۔ واضح رہے کہ فیصل واوڈا اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں سنگین نوعیت کے الزامات لگا چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق بہت سے ثبوت ان کے پاس موجود ہیں ان کا فون بھی فرانزک کیلئے حاضر ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سخت شرائط پر نظرثانی کرے، پاکستان سیلاب کی وجہ سے مشکل حالات سے گزر رہا ہے، مشکل حالات میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، عالمی برادری کو اس ضمن میں پاکستان سے اظہار یکجہتی کرنا چاہئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سیلاب بہت بڑا سانحہ ہے، حکومت کو مہنگائی سمیت سیلاب کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی، بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار مون سون کی شدت 400 سے 700 فیصد زیادہ تھی، محدود وسائل کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں، سیلاب سے متاثرہ افراد انفرااسٹرکچر کی بحالی کیلئے تمام ادارے محنت کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا جب حکومت میں آئے تو ملکی معیشت تباہی کے راستے پر گامزن تھی، گزشتہ حکومت کے اقدامات کے باعث مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا، سیلاب کے باعث غریب اضلاع میں مزید غربت بڑھی، جو غریب لوگ بمشکل گزر بسر کر رہے تھے سیلاب نے مزید تباہ کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد ڈینگی، ملیریا ودیگر وبائیں پھوٹنے کا خدشہ ہے، سیلاب کے دوران افواج پاکستان نے امدادی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، سیلاب متاثرین میں 75 ارب روپے کی امدادی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔
عمران خان نے ڈرٹی ہیری پر اپنی پارٹی کے خلاف وفاقی حکومت کے منصوبوں کو انجام پر پہنچانے کا الزام لگایا البتہ حالیہ تقریروں میں مسٹر X کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا ۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ "ڈرٹی ہیری" کون ہے؟ جس کا نام وہ بار بار اپنی تقریروں میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ ڈرٹی ہیری نام کا نام کسی ایسے سکیورٹی اہلکار کے حوالہ کے طور پر متعدد بار استعمال کر چکے ہیں جو مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان پر تشدد اور دھمکیاں دینے میں ملوث ہے۔ حقیقی آزادی مارچ کے شروع میں عمران خان نے سٹیبلشمنٹ کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسٹر X اور مسٹر Y کو پارٹی کی سٹریٹ پاور ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے لیکن اب وہ ڈرٹی ہیری کا نام ایک ایسے شخص کیلئے استعمال کر رہے ہیں جو ان کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں تعینات ہے۔ عمران خان کے مطابق مسٹر X اپنے سوچ کے مطابق انصاف حاسل کرنے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ اور اخلاقی حدود کو بھی کراس کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، خاص طور پر جب قانون انصاف نہ کر رہا ہے جبکہ عمران خان نے ڈرٹی ہیری پر اپنی پارٹی کے خلاف وفاقی حکومت کے منصوبوں کو انجام پر پہنچانے کا الزام لگایا البتہ عمران خان نے حالیہ تقریروں میں مسٹر X کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا اور سکیورٹی اہلکار کو ڈرٹی ہیری پکارنا شروع کر دیا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں ورہنمائوں کو دھمکیاں دیکر اپنے طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ عمران خان کے مطابق یہ تحریک انصاف کے چیف آف سٹاف شہباز گل اور سینیٹر اعظم سواتی سمیت ان کے پارٹی ارکان کو حراست میں لینے اور تشدد کے پیچھے بھی یہی ڈرٹی ہیری ہے۔ حال ہی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ "اسلام آباد میں 'ڈرٹی ہیری لوگوں کو برہنہ کر کے ان پر تشدد کرنے کا شوق رکھتا ہے" جبکہ سینیٹر پاکستان تحریک انصاف اعظم سواتی نے پریس کانفرنس میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے 2 اہلکاروں کے نام بھی ظاہر کیے جو مبینہ طور پر ان پر حراست کے دوران تشدد میں ملوث تھے جس میں انہیں برہنہ بھی کیا گیا۔عمران خان کے بہت سے حامی "ڈرٹی ہیری" نام کی اصطلاح کا پس منظر نہیں جانتے کہ ڈرٹی ہیری کیا ؟ ڈرٹی ہیری 1970ء کی دہائی کی ہالی وڈ کی ایک کلاسک کرائم تھرلر فلم ہے جو سان فرانسسکو کے ڈرٹی ہیری کالہان نامی پولیس انسپکٹر پر مبنی ہے جو اپنی قانونی ذمہ داریاںجاننے کے باوجود بدلہ اپنے ہاتھوں سے لیتا ہے، اسے پولیس فورس میں ایک بدمعاش کے طور پر تصور کیا جاتا ہے اور اس کا اکثر اعلیٰ افسران کے ساتھ اختلاف ہوتا رہتا ہے جو اس کے طریقوں پر تنقید کرتے ہیں۔ فلم کا مرکزی کردار کلائنٹ ایسٹ وڈ نے ادا کیا تھا جو فلم میں اپنے آپ کو ڈرٹی ہیری پکارتا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ ایسا کیس دیا جاتا ہے جو کوئی اور نہیں لیتا۔ ڈرٹی ہیری ایک اغواشدہ لڑکی کے مرنے سے پہلے ایک نفسیاتی قاتل کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا ہے، وہ مل جاتا ہے لیکن اسے جیل سے ریلیز کر دیا جاتا ہے تو وہ ایک سکول بس کو ہائی جیک کر لیتا ہے جسے پکڑنے کیلئے ڈرٹی ہیری کو اس نفسیاتی قاتل کے پیچھے جانا پڑتا ہے، جب ہیری نفسیاتی قاتل کو پکڑ لیتا ہے تو اس کے شہری حقوق سلب کرتے ہوئے اسے مار دیتا ہے! ڈرٹی ہیری فلم کے امریکہ میں ریلیز ہونے کے بعد وہاں کے شہریوں نے ان سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف احتجاج کیا تھا جو انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی خرم لغاری جنہوں نے آج صبح پاکستان تحریک انصاف کے 4 مزید ممبران پنجاب اسمبلی کے ہمراہ تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تھا ایک نیا ویڈیو بیان جاری کر دیا ہے۔ خرم لغاری نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ میرا قافلہ چوہدری مونس الٰہی کی قیادت میں لانگ مارچ میں شرکت کیلئے جا رہا ہے، عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ساتھ کھڑے رہیں گے۔ دریں اثنا ممبر پنجاب اسمبلی عبدالحئی دستی، عون حمید ڈوگر، معظم علی، علمدار قریشی اور صوبائی وزیر منصور احمد خان نے الگ الگ بیانات دیتے ہوئے ممبر پنجاب اسمبلی خرم لغاری کے بیان کی تردید کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔ رکن پنجاب اسمبلی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے پانچ ارکان بھی جلد استعفیٰ دینے والے ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف گروپ بندی ہوئی تھی تو وہ اس میں بھی شامل تھے اور ماضی میں بھی پارٹی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ صوبائی وزیر منصور احمد خان نے خرم لغاری کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کے ساتھ ہوں، عبدالحئی دستی نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں اور عمران خان کےبیانیےکی مکمل حمایت کرتےہیں، لوگوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد جا رہا ہوں، اپنا بھرپورکردارادا کریں گے۔ خرم لغاری کے بیان کی عون حمید ڈوگر نے بھی سختی سے تردید کی اور بتایا کہ ضلع مظفرگڑھ سے کوئی بندہ پارٹی نہیں چھوڑ رہا، عمران خان اور پرویز الٰہی کے ساتھ ہیں اوران کے شانہ بشانہ ہی کھڑے رہیں گے اور تحریک انصاف کی قیادت اورقائد کے احکامات کی تعمیل کریں گے جبکہ دیگر ارکان نے بھی خرم لغاری کے بیان کی تردید کر دی تھی۔ پارٹی رہنمائوں کے انکار کے بعد اب رہنما تحریک انصاف خرم لغاری نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ چودھری مونس الٰہی کی قیادت میں لانگ مارچ میں شرکت کر رہا ہوں، چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
عمران خان حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ملک معاشی، سیاسی ہیجان کا شکار ہو چکا جبکہ ہماری معیشت اندھے کنویں کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی وتجزیہ نگار کامران خان نے اپنے وی لاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے جارحانہ بیانیے کا افواج پاکستان کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کل پوری قوت سے جواب دیتے ہوئے ان کی گفتگو اور عمل میں تضاد کے حوالے سے ثبوت بھی پیش کر دیئے ہیں۔ دونوں جنرلز نے عمران خان کے بیانیے کے خلاف مضبوط ردعمل قوم کے سامنے بھی رکھا مگر پریس کانفرنس نے پاکستان کے حال اور مستقبل پر شدید ترین تشویش میں مبتلا قوم کو مزید پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہہ کہ پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بمقابلہ فوج تاثر ابھرے گا تو ظاہر ہے قوم سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی! عمران خان کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ملک معاشی، سیاسی ہیجان کا شکار ہو چکا جبکہ ہماری معیشت اندھے کنویں کا منظر پیش کر رہی ہے اور اگلے چار ہفتوں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 6 سالہ مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہونے جا رہے ہیں اور اب سے 28 نومبر تک اگر میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہے تو انہیں آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کا انتخاب بھی کرنا ہے۔ معاملہ انتہائی گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور فوری انتخابات کیلئے عمران خان لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کے سفر کا آغاز کر چکے ہیں، پاکستان عمران خان کے حامیوں اور مخالفین کے مابین تقسیم ہو چکا ہے! حکومت طاقت سے حتیٰ کہ فوج کے زور سے لانگ مارچ ناکام بنانے پر مصر ہے اور پاکستان ایک خطرناک تصادم کی جانب بڑھ رہا ہے، اس جنگ کو روکنا ہو گا، کسی کو درمیان میں آنا ہو گا، قوم کی بھرپور حمایت سے جنگ و جدل پر آمادہ سیاسی قوتوں کو پرامن تصفیے پر آمادہ کرنا ہو گا، نہیں مانے تو مجبور کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فریضہ بے شک افواج پاکستان ہی سرانجام دے سکتی ہے، یہ فوجی لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے، انہیں یہ نبھانی ہو گی، ملک کی بقاء کیلئے لازم ہے کہ فوج تمام سیاسی جماعتوں میں یکساں یگانگت ہو گی۔ میری جنرل قمر جاوید باجوہ سے التجا ہو گی کہ 28 نومبر تک آپ عہدے پر ہیں، پاکستان کو معاشی، سیاسی تباہی کے بیچ میدان میں چھوڑ کر نہ جائیں اپنی جانشین کے لیے سیاسی افراتفری ، معاشی بقا کی جنگ جاری چھوڑ کر نہ جائیں۔ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوںآپ کی کوشش سے پاکستان کو ریکوڈک کیس میں 12 ارب ڈالر جرمانے سے چھٹکارا ملا، ملک ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے باہر نکل آیا، کرونا کی آفت سے پاکستان محفوظ رہا، عرب ریاستوں سے مثالی تعلقات بحال کرائے، اب آپ جاتے جاتے ہماری اندرونی جنگ پر آمادہ دشمن سیاسی قوتوں کے درمیان بنیادی امور اور ایک سمجھوتہ کرا دیں اور یہ سب کچھ 30 نومبر سے قبل ہو جائے تو یہ احسان مند قوم آپ کو شان وشوکت سے رخصت کرے گی اور آپ امر ہو جائیں گے!
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے عوام سے لانگ مارچ میں شریک ہونے کی بھرپور اپیل کی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر قوم اس نظام کو بدلنا چاہتی ہے تو باہر نکلے ورنہ آپ کے بچوں کی زندگیاں بھی اس سڑے نظام میں گزریں گی۔ پریس کانفرنس میں فواد چودھری نے کہا کہ آج کا دن شہید ارشدشریف کے نام ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک اور بزرگ صحافی چودھری غلام حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا لانگ مارچ ناکام ہوا تو قوم ناکام ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی پر تشدد کیا گیا اور ملک میں ایسا تماشہ بنا ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر نظام کو بدلنا چاہتے ہو تو گھر سے نکلو ورنہ بچوں کی زندگیاں بھی سڑے نظام میں گزریں گی۔ بند کمروں کے فیصلے کو مسترد کرنا چاہیے۔ فواد چودھری نے کہا اگر مارچ ناکام ہو گا تو قوم ناکام ہو گی لیکن اگر مارچ کامیاب ہوا تو عوام کامیاب ہوں گے۔ ایجنڈے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی بھی کوئی پرفیکٹ جماعت نہیں ہم میں بھی کمزوریاں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس نے سیاسی خودکشی کرنی ہے وہ طبقہ پی ٹی آئی کو چھوڑ سکتا ہے۔ پوری پارٹی عمران خان کے ساتھ ہے اور مزید لوگ عمران خان کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔ آج وزیر اعظم کے فوکل پرسن مستعفی ہوئے ہیں اور مزید لوگ اب ن لیگ سے چھوڑ کر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ چاہے الٹے لٹک جائیں کچھ کر لیں ووٹ عمران خان کا ہے۔ پی ٹی آئی کو کوئی دھچکا نہیں لگنے والا، ہم پورے سال بھی جلسے کریں تو بھی ہمیں آئین اس کا حق دیتا ہے، ملکی مسائل کا حل نئے الیکشن ہیں اور حکومت الیکشن کی تاریخ دے ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کی صورت میں عمران خان اپنی سیاست کے آخری پانچ اوورز کرانے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئندہ مہینے کے اختتام تک آر یا پار ہو جائے گا۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں شیخ رشید نے کہا کہ نومبر میں آر یا پار ہوجائے گا۔ آج عمران خان لبرٹی چوک سے سیاست کے آخری 5 اوور کروانے جا رہے ہیں۔ میں خود بھی لبرٹی چوک جاؤں گا جمعہ کو لانگ مارچ راولپنڈی پہنچے گا۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ ان کی دعا ہے لانگ مارچ امن و امان آئین اور قانون کے مطابق اپنے مقاصد حاصل کرے۔ غریب عوام اور پاکستان سنگین ترین بحران سے گزر رہا ہے کمپنی کی مشہوری کے لیے شہباز شریف نومبر میں جتنے غیر ملکی دورے کرنے ہیں کر لیں۔ شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ غیر مقبول بھکاریوں کو کوئی خیرات نہیں دے گا۔ اسلام آباد کے عوام نکل آئے تو کرپٹ ٹولے کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ارشد شریف کو یہ خدشہ تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا ، انہوں نے خود مجھ سے کہا کہ بس 48 گھنٹے کا وقت ہے۔ خبررساں ادارے جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے ارشد شریف قتل اور اس کے محرکات پر گفتگو کرتے ہوئے تہلکہ خیز انکشافات کیے اور کہا کہ مجھے خود ارشد شریف نے کہا کہ "وہ آگئےہیں اور مجھے کہا گیا ہے کہ بس 48 گھنٹے کا وقت ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ارشد شریف کو دھمکیاں دی گئیں، انہیں یہ خدشہ تھا کہ انہیں ماردیا جائے گا، مارنے والا بھارت بھی ہوسکتا ہے یا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے، جب دبئی سے ارشد شریف کو کہا گیا کہ آپ کو واپس پاکستان بھجوایا جارہا ہے تو انہوں نے کوشش کی کہ انہیں برطانیہ کا ویزہ مل جائے مگر انہیں وہ نہیں مل سکا اور کہا گیا کہ اپنے ملک سے جاکر اپلائے کریں۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ ارشد شریف شہید کسی کا دشمن تھا ہی نہیں، اس کے پچاس ہزار خیر خواہ تھے جو اسے مشورہ دے رہے تھے، ویزہ ختم ہونے پر انہوں نے بہت ساروں سے مشورہ کیا ہوگا ہر کسی نے اپنی اپنی رائے دی ہوگی،کسی نے کینیا کا کہا ہوگا تو ارشد شریف کینیا چلے گئے، ارشد شریف نے کبھی بھی برطانیہ کا ذکر نہیں کیا اور نا ہی دبئی سے لندن گئے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ صابر شاکر لندن میں ہیں، میں لندن گیا تو ہماری ملاقات ہوئی اس دوران میں نے ایک تصویر شیئر کردی تو لوگوں نے سمجھا کہ ارشد شریف بھی لندن میں ہے ، وہ لندن نہیں گئے، میں نے کبھی ان سےپوچھا بھی نہیں کہ آپ کہاں ہیں، کیونکہ وہ کہتے تھے کہ انہیں خطرہ ہے،ارشد شریف کا ہر صحافی سے رابطہ تھا ۔
ارشد شریف قتل کیس میں کینیا میں ان کے میزبان خرم احمد اور اس کے بھائی کے مشکوک کردار نے معمہ بنادیا،خرم احمد نیروبی میں مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔ ترک میڈیا ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کے صحافی علی مصطفیٰ نے کینیا میں شوٹنگ رینج کے مالک خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک ٹوئٹر تھریڈ پوسٹ کی۔ علی مصطفیٰ نے لکھا وقار احمد اور خرم احمد سے تفتیش کی ضرورت ہے کیونکہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث دو اہم ملزمان ہیں،وقار خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ وہ کلیدی آدمی ہے جس کے قریب ہی ایک ہٹس اینڈ ہومز ریزورٹ ہے جہاں جرم ہوا تھا، اس نے ارشد کی لاش کو جلد بازی میں پہنچانے کا انتظامات بھی کیا۔ ارشد شریف نے قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل وقار احمد کی ملکیت والی شوٹنگ رینج کا دورہ کیا، اس شوٹنگ رینج کے یوٹیوب پیج اجاگر کیا گیا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ایک اہم جگہ جو اپنی شوٹنگ کی مہارت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں،ایمو ڈمپ کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق ان کا کام دفاعی سازوسامان فراہم کرنا ہے ،وہ عالمی سطح کے مینوفیکچرز سے مہلک ہتھیاراور دیگرلوازمات کی فراہمی کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ علی مصطفی کا کہنا ہے پولیس کی فائرنگ سے بچ جانے والا ڈرائیور خرم احمد، وقار احمد کا بھائی ہے، جو ایموڈمپ رینج کا مالک ہے جہاں ارشد قتل ہونے سے پہلے جا رہا تھا اور جہاں اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کولے جایا گیا تھا۔ ٹی آر ٹی کے صحافی نے ایک میڈیا رپورٹ بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کینیا کے سٹیزن ٹی وی چینل کی اس رپورٹ میں وقار احمد کی ایموڈمپ شوٹنگ یا فائرنگ رینج کے تفصیلی مناظر ہیں جس کا ارشد نے اس دن دورہ کیا تھا جس دن وہ مارا گیا تھا اور جہاں اس کا مالک وقار احمد باقاعدگی سے کینیا کے سیکیورٹی اہلکاروں کی میزبانی کرتا تھا۔ ترک صحافی نے وقار احمد کے لنکڈ ان پروفائل کا امیج شیئر کیا جس کے مطابق وہ ہٹز اینڈ ہومز کینیا کے آپریشنل ڈائریکٹر ہیں اور ان کی تصویر کے ساتھ پروفائل تھا، جو اب ہٹائی جاچکی ہے۔ دوسری جانب کینیا کے سب سے بڑے اخباردی نیشن کے مطابق ویسٹ سب کاؤنٹی کے کاموکورو شاپنگ سینٹر میں چھائی ہوئی خوفناک خاموشی نے ارشد شریف کے آخری لمحات کے تاریک راز چھپا ہوئے ہیں۔ ایموڈمپ کیونیا ایک تفریحی مقام ہے،جس میں شوٹنگ رینج بھی ہے،کانٹاکورا کے ذیلی مقام کے اسسٹنٹ چیف میتھیاس کاموکورو کا گھر اس شوٹنگ رینج کے پاس واحد رہائشی کمپاؤنڈ ہے، اور یہ اس جگہ سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے فائرنگ ہوئی۔ کینین اخبار کے مطابق انہوں وہ رات 9 بجے تین گولیوں کی آوازوں سے جاگے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ جی ایس یو کے تربیت یافتہ افراد کی طرف سے ہے اس لئے وہ سو گئے،صبح گاؤں والوں نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے کل رات ڈاکوؤں کو گولی مار دی ہے۔ اخبار کے مطابق کاموکورو شاپنگ سینٹر میں کچھ افراد ہلکے لہجے میں فائرنگ واقعے پر بات کررہے تھے اور انہیں اجنبیوں پر شک تھا،ان کا کہنا تھا ایشیائی نژاد افراد اکثر اس علاقے میں آتے ہیں، خاص طور پر ویک اینڈ پر۔ اخبار کے مطابق اتوار کی شام جب ارشدشریف اس مقام کے لئے نکلا تو اسے کیا معلوم تھا کہ وہ موت کے جال میں پھنس جائیں گے، اس نے اپنا دن اس جگہ گزارا تھا، یہ مقام بھارتیوں اور پاکستانیوں میں مقبول ہے،ارشد شریف کوفیڈر روڈ اور نیروبی مگڈی روڈ کے سنگم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا،احمد لینڈ کروزر چلا رہا تھا۔ پولیس رپورٹ کے کچھ حصے میں لکھا گیا کہ مگڈی پولیس اسٹیشن کو دس بجے اطلاع دی گئی کہ افسران پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اور 50 سال کی عمر کے پاکستانی شہری کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ گاڑی چلا رہا تھا۔ گاڑی 25 کلومیٹر تک آگے کے دائیں ٹائر کے بغیر چلائی گئی، جوگولی لگنے سے پھٹ گیا۔اس کے بعد احمد نے وقار احمد کوکال کی۔ انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق اس کیمپ میں کوینیا نامی شوٹنگ رینج سمیت اس سے متصل ایک ڈیفنس گیئرز کی ایک دکان بھی واقع ہے۔ اس کیمپ میں کوینیا شوٹنگ رینج کی وجہ سے کینیا کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت شوٹنگ کے شوقین افراد جا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں، جس کے لیے فیس مقرر ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق ایمو ڈمپ لمیٹڈ نامی کمپنی کینیا میں دفاعی سامان کی سپلائی کی رجسٹرڈ کمپنی ہے،اس کمپنی کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی۔ یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے منسلک ہے۔
پاکستان اور زمبابوے کے میچ میں زمبابوے نے پاکستان کو ایک رن سے شکست دیدی جس کےبعد زمبابوے کے صدر نے پاکستان کیلئے طنز سے بھرا ٹویٹ کیا۔ زمبابوے کے صدر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ زمبابوے کی ٹیم نے کیا شاندار فتح حاصل کی ، تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد۔ آئندہ اصلی مسٹر بین بھیجنا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے زمبابوے کے صدر کے ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کیا اور لکھا کہ ہمارے پاس اصل مسٹر بین تو نہیں ہے لیکن ہمارے پاس حقیقی کرکٹ سپرٹ ہے ، اور ہم پاکستانیوں کی ایک دلچسپ عادت ہے کہ ہم پلٹ کر جواب دیتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے لکھا کہ جناب صدر مبارک ہو ، آپ کی ٹیم بہت اچھا کھیلی آج۔ واضح رہے کہ ٹی 20 ورلڈکپ میں گروپ ٹو کے میچ میں زمبابوے نے پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک رن سے شکست دے دی۔ زمبابوے کی جانب سے دیے گئے 131 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان ٹیم مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں پر 129 رنز ہی بناسکی۔ سوال یہ ہے کہ جعلی مسٹر بین والا کیا معاملہ ہے؟ یاد رہے کہ2016 میں زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک تقریب کے دوران پاکستانی مسٹر بین اصلی مسٹر بین بن کر گئے تھے۔ اس تقریب کے دوران سب لوگ انہیں اصلی مسٹر بین سمجھتے رہے تاہم بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو جعلی مسٹر بین ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد آصف نامی مزاحیہ اداکار کو مسٹر بین (روون ایٹکنسن) کے ساتھ غیر معمولی مماثلت کے بعد پاکستانی مسٹر بین کہا جاتا ہے۔ محمد آصف مسٹر بین کا روپ دھار کر مزاحیہ پروگرام اور اشتہارات کرتے ہیں۔ اسی واقعہ کے تناظر میں پاکستان اور زمبابوے کے میچ سے قبل گزشتہ روز گوگی چاسورا نامی ٹوئٹر صارف نے پی سی بی کی ٹوئٹر پوسٹ پر کمنٹ کیا کہ "بحیثیت زمبابوین ہم آپ کو معاف نہیں کریں گے، آپ نے ایک بار ہمیں مسٹر بین روون کے بجائے جعلی مسٹر بین دیا تھا، ہم یہ معاملہ کل حل کرلیں گے، بس دعا کریں کہ آپ کو بارش بچا لے"۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے طلبی کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ لبرٹی چوک سے شاہدرہ چوک کی طرف رواں دواں ہے جبکہ سابق وزیر خارجہ ورہنما پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے طلبی کا نوٹس جاری کر دیا ہے جس کے مطابق انہیں یکم نومبر کو 12 بجے ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے نوٹس کے مطابق انہیں سائفر آڈیو لیکس سے متعلق ہو رہی انکوائری کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود بھی اسی کیس میں ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز پیش ہوئے جہاں ان سے سائفر آڈیو لیکس کے حوالے سے انکوائری کی گئی۔ سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں وہ سائفر سے متعلق گفتگو کررہے تھے، ان کے ہمراہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ دیگر بھی موجود تھے۔ دریں اثنا رہنما پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی رہنمائوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سائفر ایک حقیقت تھی اور ہے، اگر من گھڑت کہانی ہوتی تو ڈی مارش کی ضرورت کیا تھی، واشنگٹن میں نشست کا خلاصہ سفیر نے بھیجا تھا اور یہ گفتگو سفارتی نہیں تھی اس میں دھمکی شامل تھی ۔کامرہ میں ہوئی ملاقات میں میں بھی شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدم استحکام جاری، یہ اس وقت شروع ہوا جب عدم اعتماد کی منصوبہ بندی کی گئی، عدم استحکام کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ ہم حل پیش کر رہے ہیں، انتخابات ہی استحکام کا واحد حل ہے۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم بحیثیت سیاسی جماعت ملکی اداروں کا ہمیشہ دفاع اور احترام کیا، اداروں کے مضبوط ہونے سے ہی ملک اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، کسی ادارے کے خلاف نہیں ہیں، یہ تاثر غلط ہے جبکہ عمران خان نے بھی متعدد بار کہا کہ مضبوط فوج پاکستان کی ضرورت، کرونا، سیلاب اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمیشہ پاک فوج کے کردار کی تعریف کی۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ چاہے فوج ہو یا کوئی بھی دوسرا ادارہ اگر اس پر الزامات لگ رہے ہوں اور جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہو تو وہ الزامات کا جواب دینے کیلئے اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔ راولپنڈی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر رانا ثنا نے کہا کہ آرمی آفیسرز سمیت کسی بھی محکمے جن پر تنقید اور الزامات ہوں وہ اپنا مؤقف پیش کرسکتے ہیں اور جب بھی ضرورت پڑے فوجی افسران کو بھی ایسی آگاہی عوام کو دینی چاہیے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ جتھا کلچر فروغ پائے گا تو پھر کہاں کی جمہوریت اور کہاں کی ریاست، کسی جتھے کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا، بری نیت سے آنے والوں سے بہت سختی سے نمٹا جائے گا۔ اسلام آباد میں احتجاج سے متعلق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے احکامات واضح ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالت کے متعین کردہ مقام پر مکمل سکیورٹی کے ساتھ احتجاج کا موقع دیں گے، پُرامن احتجاج کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کل پی ٹی آئی کا جھوٹ اور فراڈ عوام کو پتا چلا، عوام کو جھوٹ اور فراڈ بیانیہ گھول کے پلایا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا فوجی افسران کی فیملیز بھی ہیں، ان کی بھی عزت اوراحترام ہے، جب بھی ضرورت پڑے فوجی افسران کو ایسی آگاہی عوام کو دینی چاہیے۔ ارشد شریف سے متعلق سارے معاملات انکوائری کمیشن کے سپرد کردیے ہیں اور بہت ساری چیزیں سامنے آگئی ہیں لیکن میں وہ ابھی نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اینٹی کرپشن نے عمران خان کے کہنے پرمیری گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا اور آج خود ہی میرا وارنٹ گرفتاری واپس لیا۔ پنجاب میں گورنر راج کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا نہ کوئی سمری بھجوائی گئی، عمران خان کو چاہیے کہ وہ آج خود ہی پنجاب حکومت کو ڈسمس کر دیں۔
مرحوم شہید صحافت ارشد شریف کی تدفین کے بعد صحافی مطیع اللہ جان نے بتایا کہ ارشد کی والدہ نے ان سے کچھ شکوہ کیا تھا جس کے بارے میں انہوں نے بڑی تفصیل سے لکھا اور بتایا کہ کس طرح ان میں اور ارشدشریف میں بہت اچھی دوستی تھی۔ مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ارشد شریف کو لحد میں اتارنے بعد بہت سے پرانے واقعات نظروں کے سامنے گھوم گئے، قبر سے چند گز دور ارشد کے والد اور بھائی کی قبریں تھیں جو قریب ہی قبر میں اتارے گئے، وہ دن بہت بھاری تھا مجھ پر، اس کے والد کا جنازہ گھر پر تھا، اس کے بھائی کی شہادت کی خبر ارشد تک پہنچانے کی ذمے داری مجھے دی گئی۔ انہوں نے کہا ارشد ایک بہادر صحافی کی طرح معاملے کی نزاکت کو بھانپ گیا اور میری بات پوری ہونے سے پہلے خود ہی سمجھ گیا، پھر ہم دونوں مل کر اس کی والدہ کو بتانے گئے اور شروع میں ان کو حادثے کا بتایا اور ارشد کے بھائی کے زخمی ہونے کا بتایا مگر ماں ہمیں دیکھ کر سب سمجھ چکی تھیں۔ صحافی مطیع اللہ نے اپنے ٹوئٹ میں مزید کہا ارشد نے ماں کو گلے لگا لیا جس نے الٹا ارشد کو حوصلہ دینا شروع کر دیا، وہ بھاری دن بھی گزر گئے، قل پر ارشد شریف ساتھ بیٹھا اور کہا یہ انسان بہت ڈھیٹ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بڑے سے بڑا حادثہ بھی ہو جائے تو وقت کے ساتھ وہ بھول جاتا ہے۔ پھر شاید میں نے اس پر زندگی کا فلسفہ جھاڑ دیا۔ انہوں نے کہا ارشد کے گھر کے جس ڈرائینگ روم میں دوستوں کی رات گئے تک کی محفل، سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر گفتگو اور ساتھیوں کے ساتھ طنز و مزاح ہوتا تھا اس روز اسی کمرے میں ارشد کی والدہ کے سامنے چند دوست صحافیوں کے ہمراہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، اور پھر گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ مطیع اللہ نے ارشد شریف کی والدہ کے گلے سے متعلق کہا کہ انہوں نے میرے افسوس کرنے پر مجھ سے بھی افسوس کیا مگر شکوہ بھی کیا ان فاصلوں کا جو میرے اور ارشد کے بیچ آ گئے تھے، انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں کیساتھ انٹرویوز کے دوران ارشد سے کی گئی گفتگو پر خوب ڈانٹ پلائی مگر پھر بھی کچھ لحاظ کر گئیں اور دلاسہ دیا اور پھر دعا بھی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید میں ایک ماں کی اس سے بھی زیادہ ڈانٹ کا حقدار تھا، اگر میری ماں زندہ ہوتی تو شاید مجھے اس سے بھی زیادہ ڈانٹ پلاتی اور اگر ارشد کی جگہ میں ہوتا اور میری جگہ ارشد تو میری ماں نے بھی ارشد کا کوئی لحاظ نہیں کرنا تھا کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ انہوں نے شہید ارشد کے ساتھ گزرے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک بار ارشد کیساتھ گاڑی میں سفر کے دوران میں نے کچھ کھا کر اس چیز کا ریپر بے دھیانی میں باہر اچھال دیا، اچانک یوں لگا کہ بھونچال آ گیا ہے ارشد اونچی آواز میں شاؤٹ کیا اور طنز بھرے انداز میں کہا اوئے یار یہ کیا کیا تم نے۔ لندن کی تعلیم نے کچھ نہیں بگاڑا تمھارا۔ مطیع اللہ کہتے ہیں کہ قابو آنے کی اب میری باری تھی اس لیے کوئی جواب نہیں بن پڑا اور بس کھسیانی بلی بن گیا، ایسا ہم اکثر ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے، مگر اس واقعے کے بعد کئی سال تک بلکہ اب بھی گاڑی میں کچھ کھایا تو ارشد کی وہ بلند آواز سنائی دیتی اور میں دل ہی میں ہنس دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ارشد دوستوں کا دوست تھا مگر جس کا دشمن بن جاتا تو پھر اسے احساس دلاتا رہتا تھا، ایسا نہ کرنا شاید اس کے بس میں ہی نہیں تھا، اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں اس وقت انتہائی تیزی آ جاتی جب وہ دوستوں کی محفل میں ہوتا، چند دوستوں کے بیچ طنز و مزاح کا میچ پڑ جاتا۔ صحافی مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ سب اس کے چہرے کی مسکراہٹ، قہقہے لگاتی آنکھوں کو دیکھ کر ایسے فارم میں آ جاتے جیسے کوئی شاعر سامعین سے داد سمیٹتا جوش میں آ جائے، خود تو زیادہ تر خاموش رہ کر اپنی مستقل مسکراہٹ سے بولنے والے کی خوب حوصلہ افزائی کرتا پر بولنے والا سمجھتا کہ وہ واقعی اس کی باتوں سے محضوض ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارشد شریف غصے کا تیز تھا مگر اپنے کام میں جدت اور محنت کا دھنی، ڈان ٹی وی کے دنوں میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے انتہائی سخت اور مشکل خبروں پر بھی میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوا اور فیصلہ غلط ہو یا صحیح وہ کسی کے کہنے پر بلاوجہ اسے تبدیل نہیں کرتا تھا اور جو اسے ایسا کرنے پر بغیر دلیل کے مجبور کرنے کی کوشش کرتا اس کو زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ مگر اس کے (ارشد شریف) ساتھ ساتھ وہ اس بات پر کامل یقین رکھتا تھا کہ جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس سے ناراضگی کے بعد جو کچھ وہ کرتا اس سے فاصلے کم نہیں بڑھتے ہی رہتے۔
حامد میر نے اپنے پروگرام میں وفاقی وزیر خرم دستگیر سے سوال کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے بعد حکومت کو مزید مضبوط نظر آنا چاہیے تھا مگر وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کے ایک اہم عہدیدار نے استعفیٰ دے دیا۔ خرم دستگیر نے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت نے کسی صحافی کو نوکری سے نہیں نکلوایا ارشد شریف ہوں یا صابر شاکر ہم نے کسی کو چینل سے نہیں نکلوایا، کسی کا شو بند نہیں کرایا، نہ ہی کسی پر گولی چلوائی ہے۔ جس پر حامد میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد لاہور سے چودھری غلام حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہی ارشدشریف کو دفن کیا گیا، ایف آئی اے والے ایک دن انتظار کر لیتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ حامد میر کے اس تبصرے پر طارق متین نے کہا کہ میر صاحب، آپ نے ان کو نہیں بتایا کہ "یوٹیوبر" عمران ریاض خان کو ان لوگوں نے دو چینلز سے نکلوایا۔ اس کو گرفتار کرایا۔ جمیل فاروقی، خاور گھمن، سمیع ابراہیم، معیدپیرزادہ ان سب کو تو چھوڑیں ارشد شریف ان کی وجہ سے ہی ملک چھوڑ کر گیا۔ واضح رہے کہ سینئر صحافی غلام حسین کو لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع نجی کافی شاپ سے ایف آئی اے نے بینکنگ کورٹ کے 2011 کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا جس میں غلام حسین مفرور تھے۔ ان پر جعلسازی اور فراڈ کے الزامات ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے کل شروع ہونے والے لانگ مارچ کے روٹ پر اعتراض اٹھادیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان جماعت اسلامی نے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کےروٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتہ کے روز مینار پاکستان گراؤنڈ میں جماعت اسلامی کا لیڈرشپ یوتھ کنونشن منعقد کیا جانا ہے، 30 اکتوبر کو امیر جماعت اسلامی سمیت دیگر پارٹی رہنما اس کنونشن سے خطاب کریں گے۔ ترجمان جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اس کنونشن کیلئے جمعہ کے روز ایک ریلی کا انعقاد کیا جائے گا، لہذا انتظامیہ ریلی کی تیاریوں میں رکاوٹ اور دونوں جماعتوں کے کارکنان کے درمیان ممکنہ تصادم کے پیش نظر پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے روٹ کو تبدیل کروائے، صوبائی وزراء کی ہدایات پر لاہور کے مختلف علاقوں میں جماعت اسلامی کے کنونشن کیلئے لگائے گئے بینرز بھی اتارے جارہے ہیں، یہ قابل مذمت عمل ہے۔ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے لاہور کی ضلعی انتظامیہ کو درخواست دینے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے ، جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ اگرانتظامیہ نے بہتر رسپانس نا دیا تو جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے روٹ میں تبدیلی کیلئے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹاسکتی ہے۔

Back
Top