خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو چاہیے کہ فوج سے کہیں کہ وہ سیاست سے دور رہیں جبکہ نواز شریف کے خاموشی کے ساتھ بیرون ملک کھسک جانے سے ان کی بے گناہی کا مؤقف کمزور پڑگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں میزبان علینہ فاروق شیخ نے سوال کیا کہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان ملک کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں، کیا رانا ثناء کا بیان درست ہے؟ جواب میں دیتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان کے بیانات کی تشریح میرے بس کا کام نہیں ہے، عمران خان بیان دے کر اگلے دن دوسری تیسری تشریح کردیتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک اسٹیبلشمٹ کا لاڈ دیکھا ہے ان کی مار نہیں دیکھی، ملک میں مارشل لا ہوتا تو عمران خان لانگ مارچ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ گھر میں نظر بند یا جیل میں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو فوج کو سیاست سے دور رہنے کا کہنا چاہئے، نواز شریف کے خاموشی سے ملک سے نکل جانے سے ان کا اپنے بے گناہ ہونے کا موقف کمزور پڑگیا، عمران خان سمجھتے ہیں مارشل لا اور جمہوریت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کا لاڈ دیکھا ہے ان کی مار نہیں دیکھی ہے، کیونکہ جب مارشل لا لگتا ہے تو بھٹو جیسے لیڈر پھانسی چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ ریما عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان شاید مارشل لاء سے واقف نہیں ہیں، ملک میں مارشل لاء ہوتا تو عمران خان لانگ مارچ نہیں کررہے ہوتے بلکہ گھر میں نظربند یا جیل میں ہوتے، فوجی عدالتیں خفیہ ٹرائل کر کے عمران خان اور پی ٹی آئی لیڈروں کو سزائیں سنا چکی ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر تشدد کی انکوائری ہونی چاہئے لیکن یہ ملک میں ٹارچر کا واحد کیس نہیں ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان کو فوج کو سیاست سے دو ر رہنے کا کہنا چاہئے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم جس دن اسلام آباد پہنچیں گے، تاریخ دیں گے اور تاریخ بدلیں گے، ہم آپ کوتھکا تھکا کر ماریں گے۔ گوجرانوالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے مظاہروں سے زیادہ بڑے مظاہرے لندن میں ہو رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ یہ تحریک احتساب کی تحریک ہے، ملک کا نظام درست کرنے کی تحریک ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کے خلاف بینرز لگوانے پر خرم دستگیر کو گرفتار کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی ہماری تمام نشستوں پر استعفے قبول کریں اورالیکشن کرائیں۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اگلی 120 نشستوں پر بھی امیدوار عمران خان ہوں گے، مریم نواز پر اب پابندی نہیں وہ الیکشن لڑ لیں ان کو اپنی مقبولیت کا پتا چل جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ باہر نکلے ہیں اتنے لوگوں کے قافلے کے ساتھ تیزی سے آپ سفر نہیں کر سکتے. ہم اسلام آباد ضرور پہنچیں گے اور رانا ثنا اللہ کی تسلی بھی کروائیں گے۔ فواد چودھری نے یہ بھی کہا کہ ‏شہباز گل کا نام ای سی ایل میں غیرضروری ڈالا گیا ہے وہ تو کہیں بھی باہر جا نہیں رہے وہ ایک بہادر آدمی ہے شہباز گل نے ان کے تشدد کا سامنا ڈٹ کر کیا ہے اور اب کیس کا سامنا بھی دلیری سے کر رہے ہیں۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پولیس اہل کار ہی ہماری حقیقی آزادی کا ہراول دستہ ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف متنازعہ ٹویٹ کے کیس میں پیش رفت ہوئی ہے جس میں اعظم سواتی کی ضمانت منسوخی کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ وفاق نے مدعی مقدمہ ایف آئی اے کے تکنیکی افسر انیس الرحمان کے ذریعے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل جج سینٹرل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے اعظم سواتی کو ضمانت دی اور پیکا 2016 کے علاوہ دیگر دفعات میں بھی ضمانت دے دی۔ حکومت نے سینیٹر اعظم سواتی کو فریق بناتے ہوئے ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ اسپیشل جج سینٹرل کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے کر ضمانت کا حکم واپس لیا جائے۔ یاد رہے کہ اعظم سواتی کی دس روز قبل اسپیشل کورٹ سے ضمانت منظور ہوئی تھی۔ جبکہ گزشتہ روز بھی انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ میری جان نکال لیتے اس کی پروا نہیں تھی لیکن انہوں نے میری عزت پرہاتھ ڈالا جب کہ مجھے نامعلوم جگہ لے جاکر میری ویڈیو بنائی گئی۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو سرٹیفائیڈ مجرم اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو تم پاکستانی قوم کے سامنے بو رہے ہو وہی کاٹو گے، میرے گھر سے تلاشی کے دوران قیمتی چیزیں لے گئے۔ رہنما تحریک انصاف نے یہ بھی کہا کہ تفتیشی افسر نے 2 دن بعد اپنی کسٹڈی میں مجھ سے دستخط کروایا۔ میرا کیس کھولنے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میری سی سی ٹی وی کیمرے کو عدالت عظمیٰ اپنی تحویل میں لے، اس کا فارنزک کرایا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کتنے بندے میرے گھر آئے۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ میرے آدھے کیس کی شہادت وہ سی سی ٹی وی کیمرا ہے لیکن سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ بیک اپ بھی اٹھا کرلے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کیلئے دی جانے والی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرلی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ کے عہدے سے ہٹانے کیلئے درخواست کیلئے سنگل بینچ تشکیل دیدیا ہے، جسٹس ساجد محمود سیٹھی 3 نومبر کو اس درخواست پر سماعت کریں گے۔ وکیل محمد آفاق کے توسط سے دائر کردہ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو نااہل قرار دیدیا ہے، آئین و قانون کی روسے ایک نااہل شخص کوئی پارٹی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا لہذ ا عدالت پاکستان تحریک انصاف کو عمران خان کو عہدے سے ہٹانے اور نیا چیئرمین مقرر کرنے کی ہدایات جاری کرے۔ لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اگر صدر مملکت پی ٹی آئی سے مذاکرات کرانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں اور اگر عمران خان عارف علوی کے ذریعے بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک پروگرام میں میزبان جاوید چوہدری کے ساتھ گفتگو میں احسن اقبال نے کہا صدر مذاکرات میں کردار ادا کریں تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، صدر دوبارہ متحرک ہوں، اُن کا ایک آئینی عہدہ ہے ، ہمیں اس میں کوئی مضحکہ نہیں ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا سیاست کے اندر غیر سیاسی اداروں کو ملوث کرنا کوئی اچھی نہیں روایت ہے، خان صاحب اگر جمہوری دائرے کے اندر رہتے ہوئے کسی قسم کی بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے رابطہ کیا، اُن سے بات چیت بھی ہوئی مگر انہوں نے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ خان صاحب ہماری بھی نہیں سنتے۔ دوسری جانب فواد چوہدری نے کہا کہ صدر عارف علوی کے پاس مذاکرات کا مینڈیٹ ہے، جو بھی بات ہونی ہے اُن سے ہی کی جائے گی بات یہ صرف الیکشن پر ہوگی،الیکشن پر آمادگی ظاہر کریں، تاریخ دیں اور فریم ورک پر بات کریں تو کوئی مضحکہ نہیں ہے۔ اس سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنا نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو مشروط مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا عمران خان اپنے فسادی ایجنڈے کو چھوڑ کر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں،عمران خان اپنی بدتمیزی اور بدتہذیبی پر معذرت کریں، پاکستان کو افراتفری اور انارکی کی نہیں اتفاق کی ضرورت ہے۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا 15 نومبر سے پہلے نوٹیفکیشن ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل جی این این نیوز کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے کہا کہ عمران خان کے بیان کے بعد سارے ابہام ختم ہو گئے ہیں کہ عمران خان اپنا آرمی چیف لگوانا چاہتے تھے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار آئینی طور پر آصف زرداری اور نوازشریف نہیں بلکہ وزیراعظم شہباز شریف کا ہے لیکن ملک کے مفاد کے لیے انتہائی اہم تقرری میں لندن یا امریکہ سے منظوری نہیں ہونی چاہیے بلکہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم شہباز شریف کا حق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کا فیصلہ تقریباً ہو چکا ہے اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا 15 نومبر سے پہلے پہلے نوٹیفکیشن ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پاک فوج کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں شارٹ کٹ کی کوئی گنجائش نہیں، جتنے بھی نام سامنے آ رہے ہیں وہ قابل ترین افسران کے ہیں۔ نیا آرمی چیف جو بھی ہو گا وہ پاکستان کا ہو گا ، کسی فردواحد یا سیاسی جماعت کا نہیں، اس تصور کو ختم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے رانا ثناء اللہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ پیپلزپارٹی میں تھے تب بھی ان پر تشدد کیا گیا جبکہ ان پر سابق دوراقتدار میں بھی جھوٹا کیس ڈالا گیا لیکن وہ بڑی دلیری سے اپنا کیس لڑے ، اب جو جارحانہ انداز انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ میرے خیال میں مریم نوازشریف کی ہدایت اور پارٹی پالیسی کے مطابق چل رہے ہیں ورنہ وہ سیاست کے تمام دائوپیچ سمجھتے ہیں جبکہ بیک ڈور رابطے بھی کیے جا رہے ہیں جبکہ میری خبر کے مطابق طاقتور حلقے پریشان ہیں، وہ موجودہ حکومت کا مزید بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عارف حمید بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ 2008ء میں ایک ڈیل کے تحت جس بارے سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے بھی ذکر کیا تھا کہ وفاق میں پیپلزپارٹی جبکہ پنجاب میں ن لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر برسراقتدار آئی تھی جبکہ راجہ ریاض تب پیپلزپارٹی کی طرف سے پنجاب کے سینئر وزیر تھے اور وفاق سے ن لیگ نے ناطہ توڑ دیا تھا اور مشرف کے دور میں کالی پٹیاں باندھ کر حلف لیا تھا اور کہتے تھے ملک ڈیفالٹ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے خیبر تک یہ 13 جماعتیں مل کر بھی عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور میری خبر کے مطابق موجودہ حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ الیکشن اگلے سال نومبر تک لے کر جائیں جبکہ ایکسٹینشن والی بات پرانی ہو چکی ہے اور تعیناتی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریکوڈک سے متعلق صدارتی ریفرنس میں حکومت سے کئی سوالات کے جوابات طلب کرلیے بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجا اور زاہد ابراہیم ایڈووکیٹ کو عدالت معاون مقرر کردیا۔ سپریم کورٹ میں ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ لارجر بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ رولز میں نرمی خلاف قانون کی گئی، عدالت نے قرار دیا کہ ایک بین الاقوامی کمپنی کیلئے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یا ترمیم ہوچکی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، نئے قانون کے مطابق حکومت رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز میں نرمی ہو بھی تو شفافیت لازمی ہے۔ عامر رحمان نے جواب دیا کہ ریکوڈک سے نکالی گئی معدنیات میں پاکستان کا حصہ پچاس فیصد ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حصہ جتنا بھی ہے لیکن قانون پر عمل کرنا لازمی ہے اس پر عامر رحمان بولے کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا، ریکوڈک معاہدہ ماضی کے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے ماہرین کے مطابق ریکوڈک پر موجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا، معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار پوچھے گئے سوالات تک محدود ہوتا ہے، ریفرنس میں صرف آئینی سوالات کا ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس میں سیاسی یا معاشی نوعیت کے سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے، انصاف تک رسائی آئینی تقاضا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدے سے کوئی تیسرا فریق متاثر ہو تو کیا اس کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ انصاف تک رسائی کا حق ہر شخص کو آئین نے دیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت اربوں کی سرمایہ کاری پر 1970 کے قوانین کیوں لاگو کرنا چاہتی ہے؟ حکومت بین الاقوامی سطح کے نئے قواعد و ضوابط کیوں نہیں بناتی؟ کیا بلوچستان حکومت نے کان کنی سے متعلق نئے قوانین بنائے ہیں یا نہیں؟ ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
پسند کی شادی کرنے والی دعازہرہ کا معائنہ کرنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر فاطمہ ریاض نے پیپلزپارٹی رہنما شہلا رضا پر قتل کی دھمکیاں دینے کا الزام عائد کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر فاطمہ ریاض نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دعا زہرہ کے نفسیاتی حالت کے حوالے سے معائنہ کیلئے مجھے ذمہ داری سونپی گئی تھی جو میں نے پوری کی اور رپورٹ جمع کروادی، اس دوران مجھے میڈیم شہلارضا کی جانب سے مسلسل قتل کی دھمکیاں موصول ہوتی رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں دعازہرہ کا معائنہ کرنےکیلئے گئی تو مجھے شک ہے کہ انہوں نے مجھے چائے میں کچھ ملا کر پلایا جس کی وجہ سے میں عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع ہوگئی تھی جس کے بعد میں نے اپنے میڈیکل ٹیسٹ کروائے۔ فاطمہ ریاض نے کہا کہ مجھے انہوں نے اتنا نشہ پلادیا ہے کہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی، دعا زہرہ کے گھر والوں نے مجھےایک سوٹ بھی دیا اور کہا کہ ہم سید ہیں تو جب کوئی پہلی بار ہمارے گھر آتا ہے تو ہم اسے کپڑے دیتے ہیں، مجھے کپڑوں کے ساتھ ساتھ پیسے بھی دیئے گئے تھے ، میں انکار نہیں کرسکی اور میں نے یہ رکھ لیے مگر آج میں نے وہ چیزیں بھی عدالت میں جمع کروادی ہیں۔ فاطمہ ریاض کی اس گفتگو پر ردعمل دیتے ہوئے صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ یہ تو بہت خوفناک ہے ؟ جنگل کا قانون تھوڑا ہی ہے ، دعا زہرا کا معائنہ کرنے والی ڈاکٹر کے شہلا رضا پر دھمکیوں کے الزام کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہییں۔
مری میں تجاوزات، غیرقانونی تعمیرات پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پانی، سیوریج اور ویسٹ مینجمنٹ کا نظام بہتر کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے سانحہ مری کیس کے حوالے سے 4 ماہ قبل محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ مختصر عدالتی فیصلے میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ، ریسکیو 1122 اور ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کو سانحے کے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مری سانحے میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کو دیئے جانے والے معاوضے کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ مری میں تجاوزات، غیرقانونی تعمیرات پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پانی، سیوریج اور ویسٹ مینجمنٹ کا نظام بہتر کیا جائے جبکہ مری میں درخت کاٹنے پر پابندی لگانے کا حکم دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پارکنگ سلاٹس کو مری سے باہر منتقل کیا جائے تاکہ شہر میں رش نہ ہو۔ مختصر فیصلے میں عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ سانحہ مری کے ذمہ دار اداروں ریسکیو 1122، محکمہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ہائی وے کے خلاف انکوائری کی جائے اور مقامی انتظامیہ مری سے تمام غیرقانونی تجاوزات کو ختم کروائے جبکہ شہر میں قائم رہائشی فلیٹس کے علاوہ ہوٹلز کو بھی ریگولیٹ کیا جائے جبکہ مری میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کرنے اور کمرشل تعمیرات پر پابندی لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے سانحہ مری کے سلسلے میں معطل کیے گئے متعلقہ محکموں کے افسران کے دوبارہ سنا جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ معطل افسران کا سانحہ مری سے تعلق نہیں بنتا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی جبکہ 80 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ 7 نومبر پیر کے روز جاری کیا جائےگا۔ یاد رہے کہ مری میں اسی سال 7 اور 8 جنوری کی درمیان رات برفانی طوفان آنے پر 23 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جن میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل تھے۔ سانحہ مری پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور رپورٹ کے بعد کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سی پی او راولپنڈی ودیگر 15 افسران کو معطل کیا گیا جبکہ عدالت نے 4 ماہ قبل 7 مئی کو سانحہ مری کا فیصلہ 24 سماعتوں کے بعد محفوظ کیا تھا۔
اینٹی کرپشن میں کیس خارج ہونے کے باوجود عدالت نے شیریں مزاری کو طلب کرلیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اراضی کو جعلسازی سے منتقلی کے کیس میں انسداد کرپشن کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما شیریں مزاری سمیت دیگر ملزمان کو 15 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اینٹی کرپشن عدالت کے خصوصی جج نے محکمہ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شیریں مزاری کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی سفارش سے اتفاق نا کرتے ہوئے رہنما تحریک انصاف کے طلبی کا سمن جاری کیا گیا ہے۔ یادرہےکہ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن نے اراضی اسکینڈل کیس خارج کردیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کردیا کہ فوج میں اعلیٰ ترین تقرریوں کے معاملے میں کسی جلد بازی میں نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا،دی نیوز سے گفتگو میں شہباز شریف نے کہا اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ کون آرمی چیف بنے گا اور کون جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین۔ وزیراعظم نے کہا آرمی چیف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تقرریاں وزیراعظم کا استحقاق ہے،عموماً وزیراعظم کو سمری ارسال کرنے کا معاملہ نومبر کے وسط پر شروع ہوتا ہے تاوقتیکہ وزیراعظم خود ہی موزوں نام طلب کر لیں،حکمران نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں میں آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں تقرری کے حوالے سے غیر رسمی بات چیت ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے کہا، اگرچہ مجاز اتھارٹی وزیراعظم ہیں لیکن وہ ان تقرریوں کے معاملے میں کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی میاں نواز شریف کے ساتھ مشاورت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق وزیراعظم شاید اس مرتبہ ایسا نہیں لگتا کہ نون لیگ کی توجہ اس مرتبہ سینیارٹی پر ہو۔ اگرچہ یہ لازم نہیں لیکن ان تقرریوں کے حوالے سے وزیراعظم غیر رسمی طور پر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ سینئر صحافی نے اپنی تازہ ترین ٹوئیٹ میں اشارتاً کہا کہ ترقی اور تقرری کیلئے سینئر لیفٹیننٹ جنرل کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا کیونکہ اُن کی ریٹائرمنٹ 29؍ نومبر سے چند روز پہلے آ رہی ہے۔ دفاعی ذرائع کے مطابق سینئر ترین عہدوں پر تقرری کیلئے سمری ارسال کیے جانے کے وقت پینل میں تمام سینئر ترین افسران کے نام شامل کیے جائیں گے جن میں سے وزیراعظم اپنی پسند سے عہدوں پر تقرری کریں گے۔ عموماً ایک عہدے کیلئے تین افسران کے ناموں پر غور کیا جاتا ہے۔ سینیارٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو جن 6؍ افسران کے ناموں پر سینئر ترین عہدوں پر تقرری کیلئے غور کیا جا سکتا ہے اُن میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر شامل ہیں۔ ان تقرریوں پر میڈیا، سیاستدانوں حتیٰ کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ تاہم، اس مرتبہ عمران خان کی جانب سے ان عہدوں پر تقرریوں کو آئندہ عام انتخابات تک موخر کرنے کے مطالبات کی وجہ سے تنازع پیدا ہوا ہے۔ عمران خان نے تجویز دی تھی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے عہدے میں آئندہ انتخابات تک توسیع کی جائے۔ عمران خان کی رائے تھی کہ یہ تقرریاں مستقبل کے وزیراعظم کو کرنا چاہئیں، موجودہ حکومت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ یہ تقرریاں کرے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان نے مارچ میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کیلئے توسیع دینے کی پیشکش کی تھی تاکہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سے اپنی حکومت بچا سکیں۔ جنرل باجوہ نے پیشکش مسترد کر دی تھی۔
شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا چیف جسٹس کو خط لکھ کر اعلی سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق شہید ارشد شریف کی والدہ کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف شہید کے کیس کو متنازع ہونے سے بچایا جائے،ارشد شریف کے اہلخانہ کو انصاف فراہم کیا جائے۔ ارشد شریف کی والدہ نے خط میں موقف اپنایا کہ میرے شہید بیٹے کے کیس کو سیاسی منافقت اور بددیانتی سے بچایا جائے، اپنا کیس اللہ کی عدالت میں رکھ کر انصاف کی طلب گار ہوں۔ شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے میرا خط شہید بیٹے کے خط کی طرح سردخانے کی نظر نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ شہید ارشد شریف نے اپنی زندگی میں قتل کی دھمکیوں سے متعلق چیف جسٹس اور صدرمملکت کو خطوط لکھ کر تحفظ کی اپیل کی تھی مگر ان خطوط پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور ارشد شریف کو کینیا میں قتل کردیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ اداروں کو الطاف حسین اور عمران خان جیسے لوگوں کو گود نہیں لیناچاہیے۔ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیگی رہنما جاوید لطیف کا کہنا تھاغلطیوں کااعتراف ادارے کرتے ہیں مگر جب پالتے ہیں تو الطاف حسین، عمران خان جیسے لوگوں کو گود نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا الطاف حسین پر پابندی عرصہ سے لگی لیکن اثرات اب بھی ہیں۔ عمران خان فسادی کے اثرات دیر تک بھگتیں گے۔ ایک فسادی الطاف حسین تو دوسرا عمران خان ہے۔ جاوید لطیف نے کہا کہ حکومت کو عمران خان کی گرفتاری روکا جا رہا تھا، اب کچھ دن انتظار کرلیں گے۔ بندوق سے خونی مارچ جو حملہ کرنا چاہتا ہے، دیکھ رہے کتنی اسپیس کوچ کی فرمائش پر ملے گی۔ حکومت ایسا کرے گی کہ عمران خان بندے کا پتر بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے بھی صادق و امین عمران خان کو نہیں کہا، نہ ہی کلین چٹ دی۔ بلی عمران خان کی شکل میں تھیلے سے باہر آ رہی ہے۔ جو ریاست کے متعلق بَک رہا ہے، قوم سن لے۔ ان کا کہنا تھا نوازشریف کو دی جانے والی ثاقب نثار کی سزا معاف ہونے دیں پھر ہم بتائیں گے عمران خان کا کیسے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ حکومت وقت کے پاس شواہد موجود ہیں۔ لیگی رہنما نے کہا کہ قومی لیڈر شپ و جماعتوں سے مذاکرات ہوتے ہیں لیکن عمران خان یا مسلح جتھے سے بلیک میل ہوں گے، نہ بات کریں گے۔ عمران خان سے بیک چینل رابطہ نہیں، ریاست اسے عبرت کا نشان بنائے گی۔ ارشد شریف کا قتل ہوا تو کون سی وجوہات تھیں کہ اسے باہر جانا پڑا۔ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو ہٹانے کا اعتراف کچھ لوگ کریں گے کہ انہوں نے ہٹا کر اچھا کام نہیں کیا۔ عمران خان کوچنگ کرتا آیا ہے وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتا ہے۔ تعیناتی کسی بھی ادارے کے سربراہ کی ہو، کسی کو حق نہیں کہ چوک چوراہے میں مطالبہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کے پاس ہی آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار ہے، وہی کریں گے۔ عمران خان مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتا ہے۔ مسلح جتھوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا مواد کے حوالے سے ایف آئی اے کو کارروائی کےا ختیارات دینے کے فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے اسے صحافی برادری سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت سے مشروط کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس فیصلے پر عمل درآمد روکنے سے متعلق اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس بل سے آزادی رائے پر قدغن لگے گی تو ہم اسے بالکل واپس لیں گے، یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اندیشہ ہے کہ آزادی رائے کو نقصان نا پہنچے، اسی لیے فیصلہ کیا ہے کہ میڈیا، صحافتی تنظیمیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز حکومت کی رہنمائی کریں ۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ یہ بل پارلیمنٹ میں حکومت لارہی ہے جہاں اس معاملے پر تفصیلی مباحثہ ہوگا، سوشل میڈیا پر کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو کنٹرول کیا جانا چاہیے، سوشل میڈیا پر لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو بااختیار بنانےکیلئے ایکٹ میں ترمیم منظور کی تھی جس کے تحت ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہوں اور غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔
حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ٹھس ہوگیا ہے، یہ راستے سے واپس آجائیں گے ، مارچ میں 2 ہزارسے زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے یہ گفتگو ڈی آئی خان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ رانگ مارچ ہے، مارچ مکمل ہو نہیں پارہا، بندوقوں کی باتیں کی جارہی ہیں، یہ آوارگی مارچ ہے اس احتجاج میں ملکی اداروں کو خطرہ ہے، یہ مسلح ہونے کی باتیں کررہے ہیں ، پی ٹی آئی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ میں اپنی حکومت کو کہتا ہوں کہ کوئی مفاہمت نہیں ہوگی، انہیں کوئی فیس سیونگ نہیں دی جائے گی، سابقہ حکومت کے دور میں ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے، ریاستی ادارے پہلی بار سامنے آئے ہیں،اگر ادارے یہ کہتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئی تو ہمیں اس پر یقین کرنا چاہیے۔ سربراہ پی ڈی ایم نے نام لیے بغیر عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو کہتا ہے تم چوکیدار ہو ہم تمہیں کس چیز کی تنخواہ دیتے ہیں،ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ پھر تم ان کے ترلے کیوں کرتے ہو؟ پاؤں کیوں پکڑتے ہو؟ یہ مرضی کا آرمی چیف نا ہونے پر مارشل لاء کی باتیں کرتا ہے۔ لانگ مارچ میں خاتون صحافی کی موت اور ارشد شریف کےقتل پر ردعمل دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ارشد شریف اس ملک کا بیٹا ہے، اس کے قتل کی انکوائری ہونی چاہیے، پوچھا جانا چاہیے کہ اسے ملک سے باہر کس نے بھجوایا؟ وزیراعلی خیبر پختونخوا محمود خان سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے، رپورٹر صدف کی موت پرتحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بننا چاہیے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقاتی کمیشن میں پیش ہونے کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کے دوران خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو کو دیئےگئے انٹرویو میں کہا کہ ارشدشریف قتل کیس میں تحقیقات کیلئے کمیشن نے بلایا تو میں ضرور جاؤں گا۔ عمران خان نے بتایا کہ ارشد شریف شیریں مزاری اور مرادسعید سے بھی رابطے میں تھا، کمیشن نے بلایا تو شیریں مزاری اور مراد سعید بھی پیش ہوں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا بڑے واضح طور پر اس کی جان کو خطرہ تھا، یہاں تو ارشد شریف پر زندگی تنگ کردی گئی تھی، وہ نہیں جانا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسے باہر جانے کو کہا تھا، میں نے اس سے کہا باہر بیٹھ کر کم از کم تمہاری آواز تو بند نہیں ہوگی۔ لانگ مارچ کے بعد بھی اگر عمران خان کا جلد انتخابات کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے زندگی میں ہار نہیں مانی اور سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ مارچ کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ یہ ختم ہی نہیں ہو گا۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا کیا خیال ہے میں اسلام آباد میں رُک جاؤں گا؟ میرا پورا پلان بنا ہوا ہے اس کے بعد کیا کرنا ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ عمران خان کا اسلام آباد کے ریڈ زون میں توسیع اور لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف کرنے کی چہ مہ گوئیوں پر کہنا تھا کہ جانا تو ہم نے اسلام آباد ہے لیکن اس کے بعد ہم کیا کریں گے وہ ابھی میں کسی کو نہیں بتا رہا مگر آئین اور قانون کے دائرے میں ہی رہیں گے۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال نے جہاں عوام کو مایوس کردیا، وہیں یہاں کے کاروباری حضرات بھی ان حالات سے مایوس ہوچکے ہیں، گیلپ سروے نے مایوسی کا شکار برنس کمیونٹی پر ایک سروے کیا۔ گیلپ سروے میں کہا گیا کہ سیاسی حالات کے باعث بزنس کمیونٹی انتہائی حد تک مایوسی کا شکار ہے، 65فیصد کاروباری اداروں کو بدترین حالات کی صورتحال ہے۔ سروے کے مطابق 12فیصد شرکآ کا کہنا ہے کہ پاکستان درست سمت میں جارہا ہے، 81فیصد کاروباری افراد اب اس بات پر یقین نہیں رکھتے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور بد عنوانی سے پاک ہے۔ گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال اعجاز گیلانی نے بتایا کہ گیلپ بزنس کانفیڈنس رپورٹ 2022 کی چوتھی سہ ماہی میں کاروباری حالات کے حوالے سے ایک تاریک تصویر سامنے آئی ہے گیلپ پاکستان نے 2022 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس کے تنائج جاری ہیں۔ بزنس کانفیڈنس انڈیکس کے تینوں اسٹرینڈز2022کے دوران منفی رجحان کوظاہر کرتے ہیں،مستقبل میں بھی کاروباری حالات کے حوالے سے اعتماد میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ گیلپ پاکستان کے بزنس انڈیکس کی تاریخ میں اعتماد کی یہ شرح سب سے کم ہے، سروے کے نتائج کے مطابق 2022کی پہلی سہ ماہی کے 32فیصد کے مقابلے میں چوتھی سہ ماہی میں کاروباری افراد کا اعتماد منفی 31فیصد رہا۔ کووڈ19میں اضافے کے بعد کاروباری اداروں نے 2021-22کے درمیان زیادہ اعتماد کااظہار شروع کیا تھا، 2022کے آغاز میں اعتماد کی شرح میں اضافہ ہوا لیکن یہ شرح اس سال کے اختتام میں کم ہوگئی۔ موجودہ کاروباری حالات کے اسکور میں 63فیصد کمی کی اہم وجہ مسلسل سیاسی عدم استحکام ہوسکتا ہے،سروے کے نتائج کے مطابق 65فیصد کاروباری اداروں کے مطابق انھیں بدترین حالات کا سامنا ہے۔ اپنے کاروباری حالات کو بہت خراب سمجھنے والے کاروبار ی اداروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور اس سال گیلپ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے بزنس کانفیڈنس انڈیکس کے نیٹ اسکور میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے صنعتی مشینری سے تعلق رکھنے والے کاروباری ادارے باقی تمام کاروباری اداروں کی نسبت بہترین کام کر رہے ہیں، ان میں اچھے حالات کا ظہار کرنے کی شرح 75فیصد پائی گئی۔ کپڑے اور گارمنٹس کی دکانوں کے مالکان کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سے 81فیصدنے خراب کاروبار ی حالات دو چار ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم سے کیے معاہدے پر عمل کرے ورنہ ہمیں دوسرا طریقہ بھی آتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر امین الحق نے یہ گفتگو کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کی اور کہا کہ حکومت سیاسی مفاہمت سے معاملات کو حل کرے، جمہوری روایات کو برقرار رکھنا چاہیے، ہمیں جمہوری اور آئینی طریقے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے تحت منعقد کیے جائیں گے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے معاہدہ کیا تو سیاسی حالات بہت مشکل تھے، ہم نے ہر میٹنگ میں کراچی سرکلر ریلوے کے معاملے اور کراچی کےمسائل پر بات کی ہے، ملاقاتوں میں پہل کرنے پر ہم پیپلزپارٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ امین الحق نے کہا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں مزید پوائنٹس رکھیں گے،میئر کے خصوصی اختیارات کے معاملے پر ہم کافی آگے تک گئے ہیں، اس معاملے میں آج پیش رفت بھی ہوئی ہے، میئر کے پاس مالی اور انتظامی دونوں اختیارات ہوں گے۔ عمران خان کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئےامین الحق نے کہا کہ عمران خان اپنے علاوہ سب کو چور سمجھتے ہیں، عمران خان صاحب آپ کو جمہوری انداز میں آگے بڑھنا پڑے گا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار آفتاب اقبال پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور جلسوں میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے والے فیصل جاوید پر برس پڑے۔ تفصیلات کے مطابق آفتاب اقبال نے ایک وی لاگ میں فیصل جاوید کی جانب سے لانگ مارچ کے دوران مائیک کو اپنے ہاتھ میں رکھنے اور یہاں تک کے عمران خان کو دینے میں بھی مزاحمت کرنے پر سخت تنقید کی اور اسے عمران خان سے بدتمیزی کے برابر قرار دیا۔ آفتاب اقبال نے کہا میں کنٹینر پر جانے سے اس لیے گریز کروں گا کہ وہاں موجود لوگ بہت ان سیکیور محسوس کرتے ہیں، اور سب سے زیادہ ان سیکیور وہ بندا بن جاتا ہے جو ہاتھ میں مائیک لے کر اسے ابا جان کا ایک آئٹم سمجھنا شروع کردیتا ہے اور کسی کو دینا پسند نہیں کرتا، حتیٰ کہ ایک بار اس شخص نے عمران خان کے شرارت کی جو بدتمیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشہ روز جو جھگڑا ہوا ہے اس میں حماد اظہر کو فیصل جاوید سے مائیک چھیننا پڑا، فیصل جاوید صاحب آپ ایک اچھے ڈی جے ضرور ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، مجھے تو آپ کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں، جب ٹیلی تھون میں میں تمہارے باس کی دعوت پر گیا تھا تو آپ نے یوں مائیک میں پکڑ رکھا تھا کہ نہیں میں نے نہیں دینا میں نے نہیں دینا،اس نے مجھے کوئی پڑھا لکھا اینکر سمجھ لیا تھا ، مگر جب میں نے اس کو ہائی جیک کرلیا تو پھر فیصل کو پتا چلا۔ آفتاب اقبال نے کہا کہ یہ حرکتیں اچھی نہیں لگتیں، عمران خان آپ کیلئے سابق وزیراعظم یا وزیراعظم ہوں گے ہمارے لیے وہ ہمارے لیڈر ہیں، لہذا ہم ایسی بدتمیزی کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔
وفاقی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دیدیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو بااختیار بنانےکیلئے ایکٹ میں ترمیم منظور کرلی ہے جس کے تحت ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف افواہوں اور غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں ترمیم کے حوالے سے بھجوائی گئی سمر ی وفاقی کابینہ نے منظور کرلی ہے، سمری کے مطابق اس وقت سوشل میڈیا ریاستی اداروں اور تنظیموں کے خلاف غلط معلومات اور افواہوں سے بھرا ہوا ہے جس کا مقصد مسلح افواج میں افسران یا جوانوںپاکستان کے خلاف بغاوت، جرم یا بصورت دیگر اپنے فرض میں کوتاہی کی طرف بھڑکانا ہے۔ سمری میں کہا گیا ہے کہ یہ افواہیں اور غلط معلومات اس مقصد کے ساتھ پھیلائی جا رہی تھیں کہ عوام میں یا عوام کے کسی بھی طبقے میں خوف یا خطرے کی گھنٹی پھیلائی جا سکے اور کسی بھی شخص کو ریاست یا عوامی سکون بربادکرنے پر اکسایا جاسکے۔ ایف آئی اے نے حکومت سے درخواست کی کہ ایسے جرائم کو پی پی سی سیکشن 505 (عوامی فساد کا باعث بننے والا بیان) کے تحت قابل سماعت قرار دیا جائے، جو فی الحال ایف آئی اے ایکٹ کے شیڈول میں شامل نہیں ہے اور اس سیکشن کو اپنے شیڈول جرائم میں شامل کرنے کے لیے ریاست کی منظوری طلب کی تھی۔

Back
Top