خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وزیراعظم شہباز شریف کی گندم اسکینڈل سے متعلق تحقیقات کیلئے قائم کردہ انکوائری کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور محسن نقوی کو تفتیش کیلئے بلانے کی تردید کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گندم خریداری کے حوالے سے اسکینڈل سےمتعلق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت لاہور ماڈل ٹاؤن میں اجلاس ہوا، اس موقع پر وزیراعظم نے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کوگندم کی امپورٹ کے حوالے سے شفاف تحقیقات کرنے اور سفارشات مرتب کرکے پیر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے والوں کے نام سامنے لائے جائیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ریکارڈ اور دستاویزات کو سامنے رکھ کر سفارشات مرتب کرنے کی بھی ہدایات کی اور کہا کہ رپورٹ میں کوئی لگی لپٹی نا رکھی جائے، مجھے ذمہ داروں کا تعین کرکے بتائیں، نگراں دور میں گندم کی درآمد کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور بتائیں کہ گندم درآمد کرنے کی منظوری کس نے دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنہوں نے زائد گندم درآمد کی ان کے نام بھی سامنے لائے جائیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے اس کی تجاویز بھی مرتب کی جائیں۔ دوسری جانب گندم اسکینڈل پر قائم کردہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو طلب کیےجانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم انوارالحق کاکڑ کو طلبی کا کوئی نوٹس نہیں ملا اور وفاقی سیکرٹری کابینہ نے بھی گندم انکوائری سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی کو طلب نہیں کیا گیا، ان افراد کو طلب کیےجانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، میں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کررہا ہوں۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈ پنجاب ملک احمد خان بھچر نے مطالبہ کیا ہے کہ انوار الحق کاکڑ کو گرفتار کیا جائے۔منظم طریقے سے گندم درآمد کی گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ اس وقت پنجاب میں باردانہ پہ فی بیگ 5 سو روپے رشوت لی جا رہی ہے، یہ جو آٹا کچھ سستا ہوا ہے اسکا کریڈٹ پنجاب حکومت کو نہیں کسانوں کو جاتا ہے کیونکہ ان سے حکومت نے 39 سو کا وعدہ کیا تھا لیکن آج کسان اپنی گندم 32 سو 3 ہزار میں بیچنے پہ مجبور ہے۔ حکومت نے کسان کو تباہ کر دیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں آج 40 ویں گورنر کی حلف برداری تقریب کا انعقاد کیا گیا جو افراتفری کا شکار ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق گورنر ہائوس پشاور میں آج حلف بردار تقریب کا انعقاد کیا گیا جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فیصل کریم کنڈی سے بطور خیبرپختونخوا کے 40 ویں گورنر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے حلف لیا۔ گورنر خیبرپختونخوا کی تقریب حلف برداری افراتفری کا شکار رہی اور اعلانات کے باوجود پیپلزپارٹی کے کارکن سٹیج کے سامنے سے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ حلف برداری تقریب کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما، سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی اور بیوروکریٹ کے لیے لگائی گئی کرسیوں پر جیالے براجمان ہو گئے جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا حلف بردار تقریب میں شریک نہ ہوئے۔ سٹیج پر تقریب کے دوران 2 کرسیاں رکھی گئی تھیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تھے اس لیے تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔ فیصل کریم کنڈی کے گورنر خیبرپختونخوا کا حلف اٹھانے کے بعد پشاور کا گورنر ہائوس پیپلزپارٹی کے جیالوں کی نعرے بازی سے گونجتا رہا۔ فیصل کریم کنڈی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کے پی گورنر ہائوس میں عرصہ دراز بعد ایک جیالا آیا ہے، کوشش کروں گا کہ وفاق اور کے پی کے حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ صوبے اور وفاق میں محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو اور ہم ریورس گیئر لگا کر پیچھے کو چلے جائیں، سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہو کر صوبے میں امن لانے کی کوششیں کرنے کے ساتھ مالی بحران کا بھی خاتمہ کریں گے۔ ہم سب نے مل کر صوبے کا مقدمہ پرامن طریقے سے لڑنا ہے۔ گورنر کے پی نے کہا کہ میں صوبائی حکومت کو دعوت دیتا ہوں کہ آئین ہم مل کر وفاقی سے اپنے حقوق مانگتے ہیں، اسلام آباد میں میں آپ کا وکیل بن کر آپ کا مقدمہ لڑوں گا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ ہم سیاسی مخالفت نہیں کرنا چاہتے بلکہ ملک کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دریں اثنا سابق گورنر خیبرپختونخوا غلام علی گورنر ہائوس پشاور سے رخصت ہو کر اپنے رہائش گاہ میں منتقل ہو گئے ہیں۔ حاجی غلام علی ایک جنازے میں شریک تھے جہاں سے واپسی پر وہ ورسک روڈ پر واقع اپنے گھر اتر گئے اور گورنر ہائوس کی گاڑی کے ساتھ ساتھ پروٹوکول کو گورنر ہائوس پشاور بھجوا دیا۔
افغانستان کی قونصل جنرل ذکیہ وردک نے سونا سمگل کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں افغانی سفارتخانے کی قونصل جنرل ذکیہ وردک نے دبئی سے 18 کروڑ روپے مالیت کا 25 کلو سونا مبینہ طور پر بھارت میں سمگل کرنے کے الزام پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ذکیہ وردک کو بھارت میں قائم افغانی سفارتخانے میں اشرف غنی کی حکومت میں تعینات کیا گیا تھا۔ ذکیہ وردک نے اپنے استعفے کے فیصلے کی وجہ بدنامی، ذاتی حملوں اور موجودہ نظام میں موجود واحد خاتون نمائندہ ہونے کی وجہ سے غیرمنصفانہ طور پر نشانہ بنانے والے عوامی بیانے کو قرار دیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے ذکیہ کو اپریل میں ممبئی ایئرپورٹ پر روکا تھا جن سے سونا برآمد ہوا تھا۔ ذکیہ وردک سے سونا ضبط کرنے کے بعد ان پر مقدمہ درج کر لیا گیا تاہم سفارتی استثنیٰ کے باعث گرفتار نہیں کیا گیا تھا، اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 1 سال کے دوران مجھے ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس سے مجھے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور میرے علاوہ میرے خاندان و قریبی رشتہ داروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ذکیہ وردک کا کہنا تھا کہ منظم طور پر میری کردار کشی سے میری صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور اس سے افغان معاشرے میں خواتین کو درپیش مشکلات کا بھی پتہ چلتا ہے جو اپنے خلاف ہونے والی پراپیگنڈا مہمات کے دوران مثبت تبدیلی لانے کی کوششیں کرتی ہیں۔ مجھ کیے جانے والے حملے حیران کن نہیں کیونکہ وہ عوامی عہدے پر تھیں لیکن اپنے قریبی رشتہ داروں پر پڑنے والے اثرات کیلئے تیار نہیں تھیں۔ ذکیہ وردک کا کہنا تھا کہ مجھ پر ان حملوں کی مستقل ومربوط نوعیت کا مقصد میری کردار کشی کر کے میری کوششوں کو نقصان پہنچانا تھا جو ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ عوام کا بیانیہ موجودہ نظام میں واحد خاتون نمائندہ کو غیرمنصفانہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دی جائے۔
پاکستان نے اوسلو میں پرائڈ پریڈ حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے مبینہ ماسٹر مائنڈ کو ناروے کے حوالے کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ناروے حکام کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اوسلو میں پرائڈ فیسٹیول کے موقع پر فائرنگ کے ماسٹر مائنڈ ہونے کے شبے میں پاکستان نے ایک شدت پسند کو ناروے کے حوالے کردیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 46 سالہ عرفان بھٹی ناروے میں مقیم تھے جن پر شبہ ہے کہ انہوں نے اوسلو پرائڈ پریڈ حملے کی منصوبہ بندی کی، تاہم وہ حملے سے قبل ہی ناروے سے پاکستان چلے گئے تھے۔ پاکستان اور ناروے حکام کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا ہے مگر اس معاملے میں پاکستان نےا وسلو کی ملزم کی حوالگی سے متعلق کی گئی درخواست قبول کی ، ناروے کے وزیر قانون ایملی اینگر مہل نے صحافیوں کو بتایا کہ عرفان بھٹی کو ناروے پولیس کی نگرانی میں طیارے میں سوار کروادیا گیا ہے۔ ناروے کی پولیس کا کہنا ہے کہ عرفان بھٹی نے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے متعلق الزامات کی تردید کی اور اپنی ناروے منتقلی کی بھی مخالفت کی، ناروے پولیس کےمطابق بھٹی کو اوسلو پہنچنے پر حراست میں لیا جائے گا، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی کا ساتھ دیا، جرم ثابت ہوگیا تو انہیں 30 سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب عرفان بھٹی کے وکیل جان کرسچن ایلڈن نے اپنے موکل کی ناروے منتقلی کے اقدام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عرفان بھٹی کے کیس پر فیصلہ ہونے سے پہلے ہی انہیں ناروے کے حوالے کردیا گیا ہے، یہ قانون اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔
گندم اسکینڈل میں مزید انکشافات سامنے آگئے ہیں، موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اربوں روپے کی گندم درآمد ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق نگراں حکومت کی جانب سے گندم کی امپورٹ کی اجازت دیئےجانے کے اسکینڈل میں مزید انکشافات سامنے آگئے، 8 فروری کو الیکشنز کے بعد اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زائد گندم امپورٹ کی گئی ،یہ گندم ایک لاکھ13 ہزار ٹن سے زائد کا کیری فارورڈ اسٹاک موجود ہونے کے باوجود درآمد کی گئی۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس حوالے سے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا ، انکشافات سامنے آنے اور وزیراعظم کو لاعلم رکھنے کے سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو عہدےسےہٹادیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ موجودہ حکومت نے گندم کی درآمد کے حوالے سے نگراں حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھی ہے، وزارت خزانہ نے ٹی سی پی کے ذریعے گندم درآمد کرنے کی سمری مسترد کرتے ہوئے نجی شعبے کے ذریعے 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی امپورٹ کی اجازت دی، یہ گندم 93 روپے 82 پیسے فی کلو کے حساب سے پاکستان کی بندرگاہوں پر پڑی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزارت بحری امور کو خصوصی ہدایات دیں گئیں اور اجازت نامے کی ضرورت پڑنے کی صورت پر سمری پر نظر ثانی کا آپشن بھی کھلا رکھا گیا۔
کینیڈا پولیس نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث تین بھارتی شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینڈا پولیس کے سپرٹنڈنٹ مندیپ موکر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کیس میں تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے، گرفتار ملزمان کا تعلق بھارت سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کی شناخت 22 سالہ کمل پریت سنگھ، 22 سالہ کرن برار اور 28 سالہ کرن پریت سنگھ کے نام سے ہوئی ہے، ملزمان کینیڈا کے صوبے البرٹا کے شہر ایڈمنٹن کے رہائشی ہیں، تینوں پر قتل اور اقدام قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔ سپرٹنڈنٹ پولیس نے بتایا کہ ملزمان نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے اپنا حلیہ تبدیل کررکھا تھا، ملزمان تین سے پانچ سال پہلے بھارت سے کینیڈا منتقل ہوئے تھے، ملزمان سےتفتیش کی رشنی میں سکھ رہنما قتل میں ملوث مزید ملزمان کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کینیڈا پولیس نے گرفتار ملزمان کے خلاف مودی کی حکومت سے تعلقات کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کردی ہیں، تفتیش میں امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی سیکیورٹی ایجنسیاں کینڈا پولیس کے ساتھ تعاون کررہی ہیں۔
8 فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات سے پہلے قائم کی گئی بڑی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی اب تک مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر کے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والی خاتون رہنما سعدیہ سہیل رانا نے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سعدیہ سہیل رانا نے اپنا استعفیٰ باضابطہ طور پر صدر آئی پی پی عبدالعلیم خان کے نام تحریری طور پر بھجوا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سعدیہ سہیل رانا نے صدر آئی پی پی عبدالعلیم خان کو تحریری طور پر دیئے گئے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر پارٹی رکنیت سے مستعفی ہو رہی ہیں۔ سعدیہ سہیل رانا نے گزشتہ برس 24 اکتوبر 2023ء کو سابق پارٹی پیٹرن ان چیف جہانگیر ترین سے ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر آئی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ سعدیہ سہیل رانا کے ساتھ سابق سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف عندلیب عباس اور سمیرا بخاری نے بھی استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان پارٹی ترجمان فردوس عاشق اعوان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا تھا جہاں پر پارٹی رہنما عون چوہدری ودیگر بھی موجود تھے۔ سعدیہ سہیل رانا نے آئی پی پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ میرا ذاتی ہے مجھے کسی بھی دبائو کا سامنا نہیں ہے۔ ملک میں عام آدمی کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں جن کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی میں جینا مشکل ہو چکا ہے، اب ہمیں آگے دیکھنا ہے، کسی ایک فرد کے بجائے کاز کو آگے رکھنا چاہیے۔
پاکستان کی طرف سے پہلے سیٹلائٹ مشن "آئی کیوب قمر" کو چین کے ہنان سپیس لانچ سائٹ سے 2 بج کر 27 منٹ پر خلا میں بھیج دیا گیا جو 3 سے 6 مہینوں تک چاند کے اطراف میں چکر لگائے گا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق چین کا چانگ ای 6 مشن چاند کے تاریک حصوں میں لینڈ کرے گا جہاں سے زمین کا کبھی بھی زمین سے سامنا نہیں ہوتا، چانگ ای 6 مشن میں پاکستان کے علاوہ اٹلی، فرانس اور سویڈن کے سیٹلائٹ بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں چین نے چانگ ای 4 مشن کے بعد وہ چاند کے انتہائی فاصلے والے حصہ پر مشن اتارنے والا واحد ملک بن چکا ہے۔ چانگ ای 6 مشن پاکستان کے علاوہ اٹلی، فرانس، سویڈن اور یورپی خلائی ایجنسی سے پے لوڈ یا سائنسی آلات ساتھ لے کر گیا ہے۔ چانگ ای 6 مشن کے پے لوڈ میں اٹلی کا لیزر ریٹرو ریفلیکر بھی شامل ہے۔ مشن میں فرانس کی طرف سے Detection of Outgassing RadoN آلہ فراہم کیا گیا جو چاند کی کرسٹ سے ریڈون کے اخراج کا پتہ لگائے گا جبکہ سویڈن نے "چاند کی سطح پر منفی آئنز" مشتمل پے لوڈ شامل ہے۔ سپارکو کا شنگھائی جیائوٹونگ یونیورسٹی چین کے تعاون سے تیارکردہ 7 کلو وزنی آئی کیوب قمر سیٹلائٹ (پے لوڈ) مشن میں شامل ہے۔ چانگ ای 6 مشن سے چاند کے انتہائی فاصلے والے سے حصہ سے نمونے اکٹھے کرنا ممکن ہو سکے گا جس سے سائنسدانوں کو چاند کے ساتھ ساتھ نظام شمسی کے ارتقاء کو سمجھے میں مدد ملنے کے ساتھ قمری نظام سمجھنے کیلئے اہم ڈیٹا ملے گا۔ چانگ ای 6 مشن چائنا کی خلائی صلاحیتوں کا امتحان قرار دیا جا رہا ہے جس نےپچھلے چند سالوں میں اس فیلڈ میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ خلائی صلاحیتوں میں چائنا ، امریکہ اور روس کے مدمقابل ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے سینٹر آف لونر ایکسپلوریشن اینڈ اسپیس انجینئرنگ چائنا جی پنگ کا کہنا تھا کہ یہ مشن کا مقصد چاند کے مدار، کنٹرول ٹیکنالوجی سمیت ٹیک آف ودیگر ٹیکنالوجیز میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کرنا ہے۔ چانگ ای پروگرام کا 2007ء میں آغاز ہوا تھا جو چینی افسانوں کی چاند دیوی کے نام سے منسوب ہے۔ چائنا چار دہائیوں کے بعد 2013ء میں روبوٹک چاند پر لینڈنگ کرنے والا پہلا ملک بنا، چین نے اپنا مداری خلائی سٹیشن تیانگونگ 2022ء میں مکمل کیا تھا۔ مشن کا منصوبہ چانگ ای 6 کے لینڈر کیلئے ہے جو تقریبا 25 سو کلومیٹر قطر کے جنوبی قطب سے چاند کی چٹانوں ودھول کا ڈیٹا اکٹھا کریگا جہاں 4 ارب سال قبل ایک گڑھا بنا تھا۔ مشن میں شامل ایک خلائی جہاز نمونوں کو چاند کے مدار میں منتقل کرے ا جس کے بعد مشن کی زمین پر واپسی ہو سکے گی۔ واضح رہے کہ چائنا نے چانگ ای سیریز میں مزید 2 مشن شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے کیونکہ وہ قطب قمری پر ایک ریسرچ سٹیشن بنانے سے پہلے 2023ء تک چاند کی سطح پر خلابازوں کو بھیجنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
سابق رہنما پاکستان پیپلزپارٹی وسینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام روبرو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کسی بھی معاملے میں سیاسی رہنمائوں کے بجائے سٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ عمران خان میں سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ وہ معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کا کندھا استعمال کر کے حکومت میں آتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان سے اتنے سمجھوتے کر لیتے ہیں کہ درست انداز میں جو کرنا چاہتے ہیں نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سٹیبلشمنٹ کی تاریخ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ملکی سیاسی معاملات میں شامل رہی ہے اور سٹیبلشمنٹ کے موڈ سوئنگس ہوتے ہیں جس کی واضح مثال 2018ء اور 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات ہیں۔ سٹیبلشمنٹ کے خیال میں 2018ء میں قومی مفاد تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں آنا چاہیے اور موجودہ حالات میں قومی مفاد یہ ہے کہ عمران خان کو سیاست میں نہیں آنے دینا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے تلخ تجربوں کے بعد 2006ء میں میثاق جمہوریت ہوا تھا، پسند وناپسند کی بنیاد پر کسی کو قوم پر مسلط کرنے کا سلسلہ اب رکنا چاہیے، بانی پی ٹی آئی اپنے ہی بیانیے کے ہاتھوں یرغمال ہو چکے ہیں۔ ملک کے تمام سیاستدانوں کو وہ چور اور ڈاکو ٹھہرا چکے ہیں، اب وہ انہی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں تو انگلی اٹھے گے کہ آپ کیسے ان کے ساتھ بیٹھ گئے ہیں۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ سیاست میں مخالفت کو دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے، ملک کے تمام سیاستدانوں کو ایک ساتھ بیٹھ کا اس بات کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ پاکستان چلانا کس کا کام ہے؟ اپنی سیاسی جماعت بنانے بارے کہا کہ آئندہ ایک ڈیڑھ مہینے تک ہماری سیاسی جماعت سب کے سامنے ہو گی، تمام رہنمائوں کی مشاورت پارٹی کی تنظیم سازی کے بعد پارٹی کا نام سامنے لائیں گے۔
پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد دہشت گرد نے مزید 6 اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنا تھا: اعترافی بیان پنجاب میں پولیس اہلکاروں پر حملے کرنے والا ٹارگٹ کلر گرفتار کیا جا چکا ہے جس نے تفتیش کے دوران اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا جس کے بعد سنسنی خیز انکشاف سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں پر حملے کرنے والے ٹارگٹ کلر فیضان خراسانی نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے علاوہ 2 اعلیٰ پولیس افسران کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا ٹاسک انہیں کالعدم تنظیم کی طرف سے دیا گیا تھا۔ پولیس نے ایک اور کارروائی میں ملزم کے والد کو بھی گرفتار کر لیا ہے اور ملزم سے رابطہ رکھنے والے 14 اشخاص کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے اور بہاولپور میں 3 دن پہلے ہونے والے پولیس مقابلے سے تمام کڑیاں مل رہی ہیں۔ بہاولپور میں اسد اللہ خراسانی اور سیف اللہ خراسانی نامی دہشت گرد پولیس مقابلے میں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس کے مطابق فیضان خراسانی نامی دہشت گرد نے پولیس مقابلے سے پہلے ایک گھنٹے تک پولیس اہلکاروں کی ریکی کی تھی، وہ لاہور کا رہائشی بتایا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے جیل کی ہوا بھی کھا چکا ہے۔ گرفتار دہشت گرد اپنے بھائی سمیت عارضی طور پر ڈیفنس میں رہائش پذیر تھا اور اس کی گرفتاری کے دوران 30 بور، نائن ایم ایم پستول، پین کیمرہ، دستانے، شرٹ، ہیلمٹ اور خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئے تھے۔ ملزم کا اصل نام محمد فیضان بٹ ولد فیاض احمد بٹ بتایا گیا ہے اور وہ شناختی کارڈ کے مطابق بادامی باغ لاہور کا رہائشی ہے جس کی عمر 21 سال بتائی گئی ہے۔ ملزم نے اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا کہ 6 پولیس والوں کو شہید کرنے کے 6 لاکھ روپے لیے تھے، ملزم الفلاح ٹائون میں واقع اپنی والدہ کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ملزم کی کالعدم تنظیم کے اہم رکن رئوف گجر سے جیل میں ملاقات ہوئی جس نے اس کی 10 لاکھ روپے میں ضمانت کروائی۔ محمد فیضان بٹ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت سے ملنے کیلئے 2 دفعہ افغانستان گیا، وہ ٹی ٹی پی میں باضابطہ شامل ہونا چاہتا تھا جس کی قیادت نے اسے یہ ٹاسک اپنی قابلیت ثابت کرنے کیلئے دیا۔ محمد فیضان نے تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہونے کے لیے پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی جس کے بعد اس نے مزید 6 پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ محمد فیضان نے اپنا ٹاسک مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں جا کر تحریک طالبان پاکستان کی باقاعدہ رکنیت حاصل کرنی تھی، اس کا تفصیلی بیان ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔
اسحاق ڈار وزارت سے پوچھیں کہ یہ سمری کیسے آئی؟ پھر ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے فیصلہ کس بنیاد پر کیا؟ : شاہد خاقان عباسی پاکستان بھر کا کسان اس وقت گندم درآمد سکینڈل کی وجہ سے پریشان ہے جبکہ اس معاملے پر نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں تاہم ابھی تک حکومت یا انتظامیہ میں سے کوئی بھی اس معاملے کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس میں سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو بھی اس معاملہ میں ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا تاہم سابق وزیراعظم ورہنما ن لیگ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام پاکستان ٹونائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سکینڈل ہے تو اس کا آغاز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے ہوا ہے کیونکہ اس کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی ہی کرتی ہے۔ اسحاق ڈار اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت ضرور کر رہے تھے، انہیں بھی ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن انہیں سب سے پہلے وزارت سے پوچھنا چاہیے کہ یہ سمری آئی کیسے؟ اسحاق ڈار وزارت سے پوچھیں کہ یہ سمری کیسے آئی؟ پھر ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے فیصلہ کس بنیاد پر کیا؟ اس کے بعد گندم کر لی گئی لیکن آپ نے کسان کو کیوں تباہ کر دیا؟ حکومت کے پاس سٹوریج موجود ہیں وہ کسان سے گندم خرید کر سٹور کرے۔ معاملے کی تحقیقات جولائی 2023ء کے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے شروع ہونی چاہیے کیونکہ وہیں سے منظوری ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اگر کسی بات کا فیصلہ کر لے تو حکومتی اداروں پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ فیصلے پر عملدرآمد کرے، اگر عملدرآمد نہیں کرتی ذمہ دار وہ ٹھہرائے جائیں گے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بعد فیصلہ کابینہ اجلاس میں پیش کر دیا جاتا ہے تو اس سارے معاملے میں انوارالحق کاکڑ کہاں سے آگئے؟ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں نے کسانوں سے وعدہ کیا ہے کہ کہ وہ 3900 روپے میں گندم خریدیں گے جبکہ پنجاب میں گندم کے ایک بیگ پر 500 روپے رشوت لی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں لیکن اب تک اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ گندم بحران کا ذمہ دار کون ہے موجودہ حکومت یا سابق نگران حکومت؟
ایک طرف گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی نے تفصیلات بتانا شروع کر دی ہیں تو دوسری نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز نے گندم درآمد سکینڈل کے حوالے سے بڑے انکشاف کر دیئے۔ رپورٹ کے مطابق گندم درآمد سکینڈل کے اہم کردار سابق سیکرٹری فوڈ سکیورٹی کیپٹن (ر) محمد محمود اس سے پہلے بھی بہت سے سکینڈلز میں ملوث رہے چکے ہیں اور جیل میں بھی رہ چکے ہیں۔ ملک میں وافر گندم ہونے کے باوجود غیرضروری طور پر گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے وقت بھی وہ سب سے اہم پوزیشن پر تعینات تھے۔ اے آر وائے نیوز کے ہیڈ آف انویسٹی گیٹو سیل نعیم اشرف بٹ کے مطابق کیپٹن (ر) محمد محمود کا نام اس سے پہلے نندی پور پاورپراجیکٹ اور راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈلز کے بعد سامنے آیا تھا۔ کیپٹن (ر) محمود کو نومبر 2015ء میں نندی پور پاور پلانٹ میں بے ضابطگیاں سامنے آنے کے بعد منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ کیپٹن (ر) محمد محمود نے بطور منیجنگ ڈائریکٹر نندی پور پاور پلانٹ ایک غیرملکی کمپنی کو ٹینڈر دیا جسے ٹینڈر دینے سے ٹیکنیکل کمیٹی کی طرف سے منع کیا گیا تھا، سکینڈل سامنے آنے پر ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ محمد محمود کی کمشنر راولپنڈی کے عہدے پر تعیناتی کے دوران ہی راولپنڈی رنگ روڈ کا سکینڈل سامنے آیا جس میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا اور جیل میں بھی رہے۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے بڑے سکینڈلز میں ملوث ہونے کے باوجود انہیں نگران حکومت کے دور میں سیکرٹری فوڈ سکیورٹی جیسے اہم عہدے پر تعینات کر دیا گیا جس میں ان کی ذمہ داریاں تھیں کہ گندم درآمد ہونی چاہیے یا نہیں۔ گندم درآمد سکینڈل سامنے آنے کے بعد بھی وہ سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بطور چیئرمین پی ٹی سی ایل اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیپٹن (ر) محمد محمود سے رابطہ کیا گیا تو پہلے کہا کہ وہ اس وقت عہدہ چھوڑ چکے تھے لیکن جب سرکاری کاغذات پیش کیے گئے جس سے واضح ہوتا تھا کہ دسمبر 2023ء میں گندم درآمد کے وقت وہ سیکرٹری فوڈ سکیورٹی تھے تو موقف بدلتے ہوئے کہا کہ گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ڈی پی پی کا تھا کیونکہ اس وقت گندم کی درآمد پر پابندی نہیں تھی۔
ملک میں پولیس کا نظام درست کرنے کیلئے گزشتہ حکومتوں کیساتھ ساتھ موجودہ حکومت نے بھی بہت سے اقدامات کیے ہیں لیکن پولیس ہے کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پولیس اہلکاروں کو ناکوں پر شہریوں کی چیکنگ کے دوران بارہا منہ سونگھنے اور نکاح نامہ طلب نہ کرنے کی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں لیکن آج بھی اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے ایک میاں بیوی کو پولیس ناکے پر روک کر نکاح نامہ طلب کیا گیا جس پر متاثرہ خاتون نے آئی جی اسلام آباد پولیس کیلئے پیغام جاری کر دیا۔ سینئر صحافی نادر بلوچ نے متاثرہ خاتون کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: اسلام آباد پولیس کے اہلکار کس حیثیت میں لوگوں سے نکاح طلب کرتے ہیں؟ یہ ڈیوٹی کس نے لگائی ہے؟ انتہائی شرمناک حرکت ہے۔ متاثرہ خاتون کے مطابق پی ڈبلیو ڈی کے ناکے پر پولیس نے خاتون کو شوہر اور دیور کے ہمراہ روکا اور نکاح نامہ طلب کیا، نکاح نامہ نہ ہونے پر دو گھنٹوں تک تھانہ لوہی بھیر میں بٹھائے رکھا۔ متاثرہ خاتون نے آئی جی اسلام آباد پولیس کے لیے پیغام میں بتایا کہ: میں اپنے شوہر کے ساتھ دیور کی دوائی لینے کے لیے پی ڈبلیو ڈی سواں ناکے سے گزر رہے تھے کہ پولیس اہلکاروں نے ہمیں روک کر شناختی کارڈ کے ساتھ نکاح نامہ بھی طلب کیا۔ نکاح نامہ نہ ہونے پر ہمیں تھانے لے گئے اور 2 گھنٹے تک ذلیل کرتے رہے اور کہا کہ آپ لوگ بغیر نکاح نامے کے باہر نہیں گھوم سکتے، یہ کون سا قانون ہے؟ متاثرہ خاتون کا ویڈیو پیغام وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس (ـٹوئٹر) پر اسلام آباد پولیس نے موقف جاری کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز سید شہزاد ندیم بخاری نے چیکنگ کے دوران فیملی سے غیرمناسب رویہ اختیار کرنے اور نکاح نامہ طلب کرنے پر سخت نوٹس لیا اور ایس پی سواں نے انکوائری کر کے ملوث پولیس افسران کو معطل کر دیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کسی صورت قابل قبول نہیں، عوام کی شکایات کا ازالہ نہ کرنے کے ساتھ ناقص تفتیش پر 5 پولیس افسران محکمہ سے برخاست کر دیئے گئے ہیں۔ پولیس افسران کو متعدد بار تنبیہ کی ہے کہ چیکنگ کے دوران نہ کسی شہری کا منہ سونگھنا ہے نہ نکاح نامہ طلب کرنا ہے، شہریوں کے ساتھ ایسا غیرمناسب رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
پی آئی اے نجکاری کیلئے قائم کمیشن و انتظامیہ کی طرف سے مختلف روڈ شوز بھی کیے گئے لیکن کامیابی نہ ملی: رپورٹ حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پرائیویٹائزیشن کا عمل جلد سے جلد مکمل کیا جائے لیکن غیرملکی کمپنیوں کی طرف سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے عمل کو جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتی ہے لیکن غیرملکی کمپنیوں کی طرف سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے نجکاری کی بولی میں خلیجی ملکوں سے تعلق رکھنے والے صرف 2 کمپنیوں کی طرف سے رجوع کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے نجکاری کمیشن کی طرف سے نجکاری بارے ٹینڈرز کو جمع کروانے کی آخری تاریخ 3 مقرر کی گئی تھی تاہم غیرملکی کمپنیوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بولی میں مزید 1 مہینے تک کی توسیع کا امکان ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری سے متعلقہ ٹینڈرز جاری ہونے پر خلیجی ملکوں سے تعلق رکھنے والی صرف 2 کمپنیوں نے سرمایہ کاری کیلئے 5 ہزار ڈالر جمع کروا کر کاغذات حاصل کیے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ دونوں مذکورہ کمپنیوں کی طرف سے ٹینڈرز کے لیے کاغذات حاصل کرنے کے باوجود درخواستیں اب تک جمع نہیں کروائی جا سکیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری سے متعلقہ مالیاتی مشیر سمیت نجکاری کے عمل میں حصہ لینے والے افسران غیرممالک سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں تجربہ نہیں رکھتے۔ سرمایہ کاروں کی پی آئی اے نجکاری کے عمل میں دلچسپی نہ لینا اس بات کی غمازی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاروں تک ابھی تک صحیح سے پیغامات بھی نہیں پہنچ سکے۔ واضح رہے کہ پی آئی اے نجکاری کیلئے قائم کمیشن و انتظامیہ کی طرف سے مختلف روڈ شوز بھی کیے گئے لیکن کامیابی نہ مل سکی، سرمایہ کاروں نے ٹینڈرز کیلئے درخواست جمع کروانے کی تاریخ 3 مئی ہونے کے باوجود دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ دریں اثنا چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے یوم مزدور کی تقریب سے خطاب میں پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت دیگر ملکی اداروں کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے وفاقی حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلائے۔ وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ مہنگائی کے پیش نظر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرے، ہم نے ہمیشہ مزدور مخالف پالیسیوں اور قوانین کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان کے خفیہ ادارے کی رپورٹ میں ایرانی تیک کی اسمگلنگ سے متعلق اہم انکشاف سامنے آگیا, جس کے مطابق ملک میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ، جو نگراں دور حکومت میں کریک ڈاؤن کے نتیجے میں آدھی ہوکر رہ گئی تھی، میں دوبارہ 67 فیصد اضافہ ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے پانچ اضلاع کے چھ زمینی اور سمندری راستوں سے یومیہ 89 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان سمگل کیا جارہا ہے جس کا 70 فیصد استعمال ملک کے باقی تین بڑے صوبوں میں ہورہا ہے ۔ دستاویزات کے مطابق سول حفیہ ادارے کی جانب سے 44 صفحات پر مبنی رپورٹ 4 اپریل کو تیار کی گئی تھی,جس میں ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث بلوچستان کے کئی موجودہ ارکان اسمبلی، سابق صوبائی وزرا اور سیاستدانوں سمیت 105 بڑے سمگلروں، چاروں صوبوں کے 100 کرپٹ اہلکاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں ملوث 533 غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ پٹرول پمپس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ سے حاصل ہونےوالے آمدنی میں سے کالعدم تنظیمیں بھی حصہ وصول کرتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل ہو کر آرہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے,اسمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے جبکہ باقی بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ایرانی تیل کی سمگلنگ مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ روزانہ سینکڑوں آئل ٹینکر لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے کر بلوچستان کے علاقے اوتھل اور لسبیلہ سے کراچی اور سندھ لے جایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس خفیہ ادارے کی جانب سے سمگلنگ سے متعلق تیار کی گئی یہ تیسری رپورٹ ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی ایرانی تیل کے کاروبار میں 29 سیاستدانوں، 90 سرکاری حکام اور 995 پمپس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی سمگلنگ میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ رپورٹ وزیراعظم کے دفتر میں جمع کرائی گئی تھی جس کے بعد نگراں حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا,خفیہ ادارے کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ایرانی تیل کی پاکستان کے اندر سمگلنگ ایک کروڑ ایک لاکھ لیٹر یومیہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی جسے نگراں حکومت میں شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم کرکے 50 لاکھ سے 53 لاکھ لیٹر یومیہ تک نیچے لایا گیا ہے۔ یعنی سمگلنگ تقریباً آدھی رہ گئی تھی۔ ساتھ ہی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی سمگلنگ ایک اندازے کے مطابق دوبارہ یومیہ 89 لاکھ لیٹر یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی نئی حکومت کے دور میں ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 67 فیصد تک اضافہ ہوا ہے,بلوچستان کے پانچ زمینی سرحدی راستوں سے 57 فیصد جبکہ گوادر کے واحد سمندری راستے سے ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 111 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نگراں حکومت کے دور میں اکتوبر 2023 میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں 54 مشترکہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی تھیں۔ ان میں 13 پنجاب، 10 سندھ، 12 خیبر پشتونخوا اور 19 بلوچستان میں ہیں۔ ان مشترکہ چیک پوسٹوں پر اینٹی نار کوٹیکس فورس، ایف بی آرکسٹم، سول آرمڈ فورس اور متعلقہ صوبائی حکومت کے محکموں کے اہلکار تعینات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ میں قائم مشترکہ چیک پوسٹوں کی کارکردگی بہتر نہیں کیونکہ یہاں سمگل شدہ سامان کی ریکوری نہ ہونے کے برابرہے۔ اسی طرح بلوچستان اور خیبر پشتونخوا میں قائم تقریباً تمام مشترکہ چیک پوسٹوں پر رشوت کا کلچر اور تعینات سکیورٹی عملے کی سمگلروں کے ساتھ ملی بھگت اب بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے مکران اور رخشان ڈویژن کے پانچ اضلاع کے پانچ زمینی راستوں اور ایک سمندری راستہ سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ ان میں ضلع چاغی کا راجے، ضلع واشک کا جودر، پنجگور کا جیرک اور چیدگی اور ضلع کیچ میں عبدوئی کا زمینی راستہ جبکہ گوادر میں جیونی کے قریب کنٹانی کا واحد سمندری راستہ شامل ہے۔ دستاویزات میں دی گئی تفصیلات کے مطابق کریک ڈاؤن سے پہلے یعنی 2023 میں ضلع چاغی کے راجے کے راستے سے روزانہ 265 گاڑیوں سے ساڑھے چھ لاکھ لیٹر، واشک کے علاقے جودر کے راستے 425 گاڑیاں ساڑھے 12لاکھ لیٹر، پنجگور کے جیرک سرحد سے 515 گاڑیاں روزانہ 21 لاکھ لیٹر، چیدگی سرحد سے 340 گاڑیاں 7لاکھ 75 ہزار لیٹر اور ضلع کیچ (تربت) میں عبدوئی سرحد سے 625 گاڑیاں روزانہ 28 لاکھ لیٹر، اسی طرح گوادر کے سمندری راستے سے 2700 سے 3000 کشتیاں یومیہ 26 لاکھ لیٹر تیل لاتی تھیں, کریک ڈاؤن کے بعد چاغی میں تیل کی سمگلنگ میں یومیہ پچیس ہزار لیٹر، واشک میں اڑھائی لاکھ لیٹر، پنجگور میں یومیہ پندرہ لاکھ لیٹر، تربت میں یومیہ13 لاکھ لیٹر، گوادر میں یومیہ 17 لاکھ لیٹرکی کمی آئی۔
پاکستان کی مالیاتی پوزیشن نے آئی ایم ایف کی جانب سے معیشت کے استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا, جولائی تا مارچ کے دوران 4.33 ہزار ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہوچکا ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے خسارے کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ ہے، جس نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن کے استحکام کے دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی دستاویزات میں جولائی تا مارچ تک کی معاشی صورتحال کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا,ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے پیر کے روز کہا تھا کہ پہلی ششماہی میں پرائمری سرپلس 1.8 ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاسکتان کی مالیاتی پوزیشن مضبوط ہوتی جارہی ہے اور یہ رواں سال کے اختتام تک 0.4 فیصد پرائمری سرپلس کا ہدف حاصل کرلے گا، انھوں نے قیمتوں میں بار بار اضافے کی انرجی پالیسی کو سراہتے ہوئے اسے جاری رکھنے پر زور دیا ہے، اگرچہ پرائمری سرپلس آئی ایم ایف کے بینچ مارک سے زیادہ رہا ہے، لیکن بلند شرح سود کی وجہ سے مالیاتی پوزیشن ابھی بھی کمزور ہے، جو کہ 60 فیصد کے قریب بجٹ کو چوس رہے ہیں۔ 9 ماہ کے دوران حکومت نے 5.52 ہزار ارب روپے سودی ادائیگیوں کی مد میں خرچ کیے ہیں، جو کہ اس دوران کی نیٹ انکم کے مقابلے میں 205 ارب روپے زیادہ ہیں، اور گزشتہ سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں یہ 1.94 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، جس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے مرکزی بینک کو شرح سود کم کرنے سے روکنا ہے، بلند شرح سود مہنگائی کو روکنے میں بھی ناکام رہی ہے، داخلی قرضوں پر نو ماہ کے دوران 4.8 ہزار ارب روپے سود ادا کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے مہنگائی کا تخمینہ 24.8 فیصد لگایا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بلند شرح سود مقصد کے حصول میں ناکام رہی ہے، مجموعی طور پر وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر 1.2 ہزار ارب روپے کا پرائمری بجٹ سرپلس ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے، پرائمری بجٹ سرپلس میں سودی ادائیگیوں کو شمار نہیں کیا جاتا جو کہ اب مجموعی آمدنی سے بڑھ چکی ہیں، سودی ادائیگیوں کے ساتھ 9 ماہ کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.1 ( 4.33 ہزار ارب روپے) رہا ہے، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 23 فیصد ( 803 ارب روپے) زائد ہے، اس بار حکومت نے دفاعی اخراجات سمیت تمام ضروریات پوری کرنے کیلیے قرض کا سہارا لیا ہے۔ دفاعی اخراجات 1.22 ہزار ارب روپے رہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ ہیں، دفاع اور سودی ادائیگیوں کی مد میں مجموعی طور پر 6.74 ہزار ارب روپے خرچ ہوئے جو کہ وفاق کی خالص آمدنی سے 1.4 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، ان 9 ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے اخراجات میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ جاری اخراجات میں 40 فیصد اضافہ ہوا، حکومت نے 473 ارب روپے سبسڈی کی مد میں دیے ہیں، پینشن کی مد میں 612 ارب روپے خرچ ہوئے، جبکہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا، جو کہ گزشتہ سال کے اس دورانیے کی نسبت 7 ارب روپے کمی کے ساتھ 322 ارب روپے رہے۔ ان مایوس کن اعداد و شمار کے باجود حکومت کچھ اچھی کارکردگی دکھانے میں بھی کامیاب رہی ہے، نان ٹیکس ریونیو میں پیٹرولیم لیوی وصول کرنے کی وجہ سے 95 فیصد ( 2.4 ہزار ارب روپے) کا اضافہ ہوا، پیٹرولیم لیوی کی مد میں 719 ارب روپے جمع ہوئے، مرکزی بینک کا منافع972 ارب روپے رہا، جبکہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیاں 30 فیصد اضافے سے 6.7 ہزار ارب رہیں۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر جاری کرنےکی منظوری دے دی ہے۔ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے کی منظوری واشنگٹن میں ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں دی۔ ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف اس بارے میں جلد باقاعدہ اعلامیہ جاری کرے گا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر اسی ہفتے موصول ہونےکا امکان ہے,آئی ایم ایف کا وفد قسط جاری کرنے کی سفارش کر چکا تھا۔ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدےکے تحت پاکستان کو تیسری اور آخری قسط موصول ہوگی,ارینجمنٹ معاہدےکے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے 1.9 ارب ڈالر موصول کرچکا ہے۔
سینئرصحافی وتجزیہ نگار اور سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اہلکاروں کے پی سی بی ہیڈکوارٹر پر چھاپے اور ہیڈآف ٹکٹنگ مہوش عمر کے ساتھ بدتمیزی کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ نجم سیٹھی نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ میں عام طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات پر تبصرہ کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ میرے کسی بھی بیان کو غلط انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ نجم سیٹھی نے لکھا کہ میں اس دفعہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک اہم عہدے پر تعینات خاتون کے ساتھ ہونے والی سنگین ناانصافی کی نشاندہی کے باعث تبصرہ کرنے پر مجبور ہوں۔ ایف آئی اے کے عملے کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ آفس میں ہیڈ آف ٹکٹنگ مہوش عمر کے ساتھ جو بدتمیزی کی گئی ہے یہ سب کچھ ایک فریق کی ذاتی رنجش کی بنا پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: ایف آئی اے نے گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ کے دفتر پر چھاپہ مارا، عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور ٹکٹنگ کی سربراہ مہوش عمر کے ساتھ بدتمیزی کی۔ مہوش عمر نے پاکستان کرکٹ کی ترقی میں خاص طور پر پاکستان سپرلیگ جس سے انٹرنیشنل کرکٹ کی ملک میں واپسی ہوئی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور ٹکٹنگ کے انتظامات میں خاص طور پر ان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: ایف آئی اے کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ مہوش نے 80 ہزار روپے کا غبن کیا ہے اور سیاق وسباق سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ پاکستان سپر لیگ 2023ء کے ٹکٹس تقریباً 60 کروڑ روپے میں فروخت ہوئے، اس لیے یہ الزام بے بنیاد ہے۔ انہوں نے لکھا: مہوش عمر پر یہ الزام بک می نامی ایک ٹکٹنگ کمپنی کی طرف سے عائد کیا گیا ہے جو پی سی بی کے زیرانتظام چلنے والے شفاف بولی کے عمل میں معاہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ زیربحث ٹکٹنگ کمپنی نے بولی ہارنے کے بعد مناسب فورمز پر اپیلیں دائر کیں لیکن وہ ناکام رہی ۔ انہوں نے لکھا:انتہائی افسوسناک امر ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک قابل قدر پروفیشنل کے ساتھ ایسا حقارت آمیز سلوک کیا گیا جس کی وجہ صرف اور صرف ایک فریق کی ذاتی رنجش ہے۔ زیربحث ٹکٹنگ کمپنی نے ایک خاتون کو ذاتی رنجش کی بنا پر سزا دینے کے لیے اپنے رابطوں کو استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری تمام تر ہمدردیاں مہوش عمر کے ساتھ ہیں جن کے ساتھ ایف آئی اے اہلکاروں نے برا سلوک کیا اور میری چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی سے گزارش ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داروں کو سزا دلوا کر انصاف فراہم کیا جائے۔واضح رہے کہ ایف آئی اے ٹیم ہیڈ آف ٹکٹنگ پی سی بی مہوش عمر کو اپنے ساتھ لے گئی تھی اور ان کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔
وفاقی وزیر صنعت وپیداوار نے ملک بھر میں یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے فرٹیلائزر کمپنی کے حکام کو اضافہ واپس لینے کے احکامات جاری کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر صنعت وپیداوار رانا تنویر حسین کی صدارت میں آج ملک بھر میں یوریا کھاد کی قیمتوں میں حال ہی میں کیے جانے والے اضافے کے حوالے سے اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں فاطمہ، اینگرو وفوجی فرٹیلائزر کمپنیوں کے حکام نے بھی شرکت کی۔ وفاقی وزیر نے اجلاس میں فرٹیلائزر کمپنی کے حکام کی طرف سے پیش کردہ قیمتوں میں اضافے کیلئے پیش کردہ جواز مسترد کرتے ہوئے کہا یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافہ حالیہ اضافہ قابل قبول نہیں ، 3 دنوں میں قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2 لاکھ میٹرک ٹن یوریا کھاد کی درآمد کریں گے تاہم ضرورت پڑنے پر 5 لاکھ میٹرک ٹن تک یوریا کھاد درآمد کی جا سکتی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کسانوں کی قوت خرید دیکھ کر کیا جانا چاہیے، یکطرفہ اور اچانک اضافے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ فرٹیلائزر کمپنیوں کے حکام نے یوریا کھاد کی قیمت میں حالیہ اضافے کا فیصلہ واپس لینے کیلئے وقت مانگا جس پر وزارت کی طرف سے قیمتیں واپس لینے کیلئے 3 دنوں کا وقت دیا گیا۔ رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ حکومت کی اولین ترجیح کسانوں کے مفادات کا تحفظ ہے، ہم یقینی بنائیں گے کہ خریف سیزن میں یوریا کھاد کی بلاتعطل فراہمی کی جائے۔ اجلاس میں صوبائی حکام کو ہدایات جاری کی گئیں کہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکی جائے اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت کے بڑھے بغیر یوریا کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، فرٹیلائزر کمپنیوں کے نمائندے ہر مہینے یوریا کھاد کی تقسیم کا منصوبہ پیش کریں گی۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2 لاکھ میٹرک ٹن یوریا کھاد درآمد کی جائے گی تاہم ضرورت پڑنے پر 5 لاکھ میٹرک ٹن تک یوریا کھاد برآمد کی جا سکتی ہے۔
سابق کورکمانڈر لاہورلیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد عبدالعزیز کو چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن تعینات کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے نئے چیئرمین کی تعیناتی کی منظوری دیدی ہے، سابق کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد عبدالعزیز کو آئندہ تین سالوں کیلئے چیئرمین پنجاب پبلک پبلک سروس کمیشن تعینات کیا گیا ہے۔ صحافی مغیث علی نے اس تعیناتی کا نوٹیفکیشن شیئر کیا اور کہا کہ نئے چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ماہانہ تنخواہ ایم پی ون سیلری پیکج کے تحت دی جائے گی جوماہانہ 9 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے خیال رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت نے 2021 میں سابق کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل(ر) ظفر اقبال ملک کو تین سالوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ کچھ ججز کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے انہیں براہ راست سیاسی کیسز میں فیورز لینے کیلئے اپروچ کیا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی حسنات ملک نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کو ارسال کردہ مراسلے کی نقل شیئر کی اورکہا ہے کہ کچھ ججز نے خفیہ ایجنسیوں کیجانب سے سیاسی کیسز میں فیورز دینے کیلئے براہ راست رابطہ کرنے کی شکایت کی ہے۔ صحافی زبیر علی خان نے اس معاملے پر تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ جب مقدمات کو بغیر جانبداری کے سنا گیا تو نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے ججز کوجان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دھمکیاں پڑوسی ملک افغانستان سے مل رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان دھمکیوں کے حوالے سے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کو بھی آگاہ کیا، تاہم کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، اس کے ساتھ ساتھ تمام اعلیٰ سطح فورمز کے نوٹس میں یہ بات بھی لائی گئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا کہنا ہے ججزنے خفیہ ایجنسی کی جانب سے سیاسی نوعیت کے مقدمات میں براہ راست رسائی کرنے کی شکایت کی ہے، ریاستی اداروں کی سیاست، پارلیمان اور عدلیہ میں مداخلت کوئی ڈھمکی چھپی بات نہیں ہے۔