Massacre of Muslims, By the Muslims and For the Muslims:130 dead in Syria

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
Massacre of Muslims, By the Muslims and 'For the Muslims':130 dead in Syria

http://www.bbc.co.uk/news/world-middle-east-14367773
شام: مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائی،130 ہلاک

پير 1 اگست 2011
110731131936_hama_smoke_226x170_reuters_nocredit.jpg


حما پر صبح سویرے کئی سمتوں سے حملہ کیا گیا
شام میں سکیورٹی فورسز کے ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ایک سو تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے سو افراد صرف ایک شہر حما میں مارے گئے ہیں۔امریکی صدر براک اوباما نے اتوار کو شامی سکیورٹی فورسز کی مظاہرین کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حما سے ملنے والی اطلاعات خوفناک ہیں۔کلِک حکومتی کریک ڈاؤن کے باوجود مظاہرے جاریکلِک صدر اسد اپنی ساکھ کھو چکے ہیں: امریکہ
دریں اثناء ترکی نے شام میں ہلاکتوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ماہ رمضان سے ایک دن پہلے شام میں ہلاکتوں پر اسے افسوس اور گہرا رنج ہے۔
تازہ فوجی کارروائی سے شام کی حکومت یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں کسی بھی قسم کی متوقع کشیدگی کو برداشت نہیں کرے گی۔ تاہم حما کے رہائشی فوجی کارروائی کے باوجود پرعزم نظر آتے ہیں اور ان میں سے کچھ سڑکوں پر یہ نعرے لگاتے دکھائی دیے کہ ہم دوبارہ نہیں مارے جائیں گے۔
بی بی سی نامہ نگار
حما میں پچھلے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں اور فوج نے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح کئی سمتوں سے فوجی اور ٹینک شہر میں داخل ہوئے ہیں اور شہریوں پر گولہ باری کی۔شامی حکومت کا کہنا ہے کہ حما میں فوج وہاں مظاہرین کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ حکومت نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ایک مسلح شخص نے دو فوجی اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔ حکومت نے الزام عائد کیا کہ مسلح گروہوں نے نہ صرف پولیس تھانوں کو آگ لگائی بلکہ نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔امریکہ نے اس صورتحال کو شام کی حکومت کی جانب سے اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ اپنے ہی عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں شامی حکومت کا اصل چہرہ دکھاتی ہیں اور امریکہ صدر بشار الاسد کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر صدر الاسد نے دکھا دیا ہے کہ وہ (حکومت کے) قابل نہیں اور شامی عوام کے جائز مطالبات ماننے کو تیار بھی نہیں۔
110731131936_hama_smoke_226x170_reuters_nocredit.jpg

حما شہر میں دو سو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں
دمشق میں بی بی سی کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ تازہ فوجی کارروائی سے شام کی حکومت یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں کسی بھی قسم کی متوقع کشیدگی کو برداشت نہیں کرے گی۔تاہم نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حما کے رہائشی فوجی کارروائی کے باوجود پرعزم نظر آتے ہیں اور ان میں سے کچھ سڑکوں پر یہ نعرے لگاتے دکھائی دیے کہ ہم دوبارہ نہیں مارے جائیں گے۔خیال رہے کہ سنہ 1982 میں حما ہی میں صدر بشار الاسد کے والد اور اس وقت کے صدر حافظ الاسد کے خلاف احتجاج ہوا تھا جسے کچل دیا گیا تھا اور یہاں دسیوں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حما میں فوج صبح سویرے ٹینکوں کی مدد سے مقامی افراد کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو تباہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئی۔حما میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ فوج نے ٹینکوں اور بھاری مشین گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کی اور رکاوٹوں کو روندتے ہوئے شہر میں داخل ہوگئی۔ حقوقِ انسانی کے گروپس، مقامی باشندوں اور طبی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اتوار کو ہونے والی کارروائی میں سو افراد مارے گئے ہیں۔شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف تقریباً چار ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں 1500 شہری اور 350 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 12600 شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور 3000 افراد لاپتہ ہیں۔
مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ شہر کی گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں اور فوج نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے روایتی انداز اپناتے ہوئے شہر میں بجلی اور پانی کی فراہمی معطل کر دی ہے۔اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ماہر نشانہ بازوں کو بلند عمارتوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔حما کے ایک رہائشی نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ زخمیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے شہر کے تین مرکزی ہسپتالوں کو خون کی کمی کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق ہسپتالوں میں کم سے کم دو سو زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا ڈاکٹرز زخمیوں کا علاج ہالز میں کر رہے ہیں، بعض کو گھروں میں لے جایا گیا ہے اور ڈاکٹرز وہیں جا کر ان کی مرہم پٹی کر رہے ہیں۔حما کے علاوہ شام کے دیگر کئی شہروں سے اتوار کو مظاہرین کے خلاف کارروائی میں تیس افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف تقریباً چار ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں 1500 شہری اور 350 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 12600 شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور 3000 افراد لاپتہ ہیں۔
 
Last edited: