GTV Pakistan

Councller (250+ posts)
buses-2.jpg


پاکستان کا معاشی حب ہونے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے بے روزگاروں کیلئے روزی روٹی تلاش کرنے کا بڑا مرکز بھی کراچی ہی ہے، گلگت سے لے کر کوئٹہ اور اندرون پنجاب، سندھ خیبر پختونخواہ، ٹرائبل ایریاز اور کئی دوسرے ممالک سے لوگ کمانے کی غرض سے کراچی آتے ہیں سستی روٹی، سستی رہائش اور سستی سواری لوگوں کو آسانی سے میسر آ جاتی ہے، پاکستان میں اگر مڈل کلاس بھی کہیں ملتی ہے تو وہ کراچی ہی ہے ورنہ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں لاہور، اسلام آباد میں امیر اور غریب طبقات ہی زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں.

میرے جیسے چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی رزق کی تلاش میں کسی بڑے شہر کا انتخاب کرنا مجبوری ہوتا ہے، لاہور میں چند سال گزارنے کے بعد کراچی کا رخ کیا، نوکری ملنے کے بعد دفتر جانے کا سلسلہ شروع ہوا، چند دن تو اوبر کریم نے سہارا دیا پھر یہ سہارا ذرا مہنگا لگنے لگا، دوست سے مشورہ کیا تو اس نے سستی سواری کا نسخہ بتایا جس سے ہم سو روپے روزانہ خرچ کر کہ آسانی سے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھ سکتے تھے۔

اس کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق اگلے روز ہی بس اسٹاپ پر پہنچ گئے اور مطلوبہ نمبر کی بس کا انتظار کرنے لگے، تھوڑی دیر میں کوئی چوتھی پانچویں شادی کیلئے پارلر سے تیار ہونے والی دلہن کی طرح سجی سنوری بس قریب آن پہنچی، اسٹاپ کھڑے لوگ ایسے بھاگ کر دروازے تک پہنچے جیسے اندر مفت کی بریانی مل رہی ہو، ہم بھی خراماں خراماں چلتے ہوئے سوار ہوئے، دروازے سے گزرتے ہی کنڈکٹر نے ہمیں ہاتھ کا دباو دیتے ہوئے اندر دھکیل دیا، اب یہ دھکے سے تھواڑا کم تھا تو ہم فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس صاحب سے الجھیں یا نظر انداز کریں، خیر نظر انداز کرنے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے ذہن میں سوچا کہ سیٹ پر بیٹھنا الجھنے سے زیادہ بہتر ہے، اسی نیت سے جب کنڈکٹر کو گھورنا چھوڑ کر اندر کی جانب نظر دوڑائی تو نظر زیادہ دور تک نا جا سکی کیونکہ میرے بالکل سامنے ہی مہندی اور تیل میں ڈوبے بالوں والے ایک صاحب کھڑے تھے، آنکھوں کا کینوس بڑھاتے ساتھ ہی اندر کا ماحول واضح ہوتا گیا، سیٹیں بالکل بھی خالی نہیں تھیں، ایک بندے والی سیٹ کو درمیان سے کاٹ کر انھوں نے دو دو لوگوں کو بٹھا رکھا تھا، اور سیٹوں پر براجمان افراد سے دوگنی تعداد میں لوگ لوہے کے راڈ کو پکڑے لائن میں لگے ہوئے تھے۔

کبھی آپ نے بکرا عید کے موقع پر لاہور یا کراچی کی جانب ٹرکوں میں بھر بھر جانور جاتے دیکھے ہوں جو پیچھے منہ کر کہ جگالی کر رہے ہوتے ہیں بالکل وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے، سوار ہونے کیلئے یہ بس صرف خواتین کیلئے رکتی ہے یا پھر جب سواریاں کم ہوں تو کسی اسٹاپ پہ بھی رک جاتی اور ایسے رکتی ہے جیسے اس نے کہیں نہیں جانا، ابھی میں پوری طرح بس سوار ہو جانے کو قبول بھی نہ کر پایا تھا کہ بس نے اچانک دوڑ لگا دی اور رفتار ایسی جیسے اڑان بھرنے سے پہلے رن وے پر اچانک جہاز دوڑتا ہے، پہلی بارتو میرا دل ہی دہل گیا تھا، خیر تھوڑی دیر میں ہی کنڈکٹر صاحب کرایہ لینے پہنچ گئے، لیاقت آباد سے صدر تک کا کرایہ بیس روپے تھا ،بس یہی ایک اچھی چیز تھی جس نے مجھے خوشی اور حوصلہ دیا کہ میں روزانہ اسی طوفانی بس کے ذریعے گھر سے آفس تک سفر کروں، کرایہ لینے کے بعد تھوڑی دیر بعد کنڈکٹر بھائی پھر تقاضہ کرنے پہنچ گئے، میں ذرا پڑھے لکھے لوگوں کی طرح نرم مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا جناب میں دے چکا ہوں، وہ فوری میری بات پہ بھروسہ کرتے ہوئے بولا اچھا تھوڑا آگے ہو جائیں، پھر یہ تھوڑا آگے ہو جائیں والی ذمہ داری وہ ہر تھوڑی دیر بعد سرانجام دیتا رہا
 
Last edited by a moderator: