مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے پرویز مشرف کے وطن واپس آنے سے متعلق ایک ٹوئٹ کیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین ان کے ٹوئٹ کو این آر او کیلئے دی گئی درخواست قرار دے رہے ہیں۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر نوازشریف نے کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں۔ نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے، وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالی سے دعاگو ہوں۔ وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔
اس پر تنقید کرتے ہوئے کراچی والا نامی صارف نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ این آر او کیلئے دی گئی درخواست ہے۔
نوازشریف پر تنقید کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے لکھا کہ اہل زباں کب مانتے تھے حفیظ۔۔۔۔۔ بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں میں۔
صحافی معید پیرزادہ نے کہا کہ میاں صاحب یہ یقیناً آپ کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک اچھا اشارہ ہے! آپ نے جنرل مشرف کے ہاتھوں تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ انہیں معاف کر دیا جائے مگر اس کے باوجود اس وقت ایسی بات سے غلط مطلب ہی نکلے گا اگر ٹیکس کے پیسے ایسی چیزوں میں برباد کیے گئے۔
صحافی رضوان غلزئی نےکہا کہ پرویز مشرف کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے فیصلے پر ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے والے بھی آج کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پرویز مشرف کے لیے بہترین فیصلہ کیا۔ اوئے کون لوک او تسی؟
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا "راجو بن گیا جنٹلمین"
شفایوسفزئی نے کہا کہ یوں بیانیہ اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔
اکبر نامی صارف نے کہا کہ ذاتی دشمنی پر ہی کسی کو معاف کیا جاسکتا ہے .. قومی اور آئینی دشمنی پر معافی اور سہولیات نہیں دی جاسکتی جب تک ڈیل نہ لینی ہو عمران خان یہی کہتا ہے کہ میری نوازشریف اور زرداری سے کوئی زاتی دشمنی نہیں یہ قوم اور ملک کے مجرم ہیں لہذا میں ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔
صحافی مغیث علی نے کہا کہ میاں جدوں آئے گا لگ پتہ جائے گا، آج سے جو صحافی بھائی آمریت کیخلاف ہے اور جمہوریت کے نعرے لگاتا ہے وہ نواز شریف سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اسے بھی مجرم قرار دے اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر جناب آپ خود ایک بہت بڑے مجرم ہیں۔
صحافی سرال المیڈا نے کہا بالکل صحیح کہا لیکن یہ بات آپ کو پاکستان میں آکر کہنی چاہیے۔
ظفرشفیع بلوچ نے کہا کہ اچھا اچھا دکھنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دیکھو نہ ابو اب میں سدھر گیا ہوں سب کو معاف بھی کررہا ہوں۔
جبکہ سلیم صافی نے ان کے فیصلے کی حمایت میں کہا کہ بعض معاملات کو سیاسی نہیں بلکہ انسانی حوالوں سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پرویز مشرف کے معاملے کو سیاسی کی بجائے انسانی حوالے سے دیکھ کر نوازشریف نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔