مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کی کسی شخصیت کو عالمی سطح پر اتنی عزت، اتنی مقبولیت اور اتنی پذیرائی ملی ہو جتنی ملالہ یوسفزئی کو مل رہی ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کوبیشتر ممالک کے لوگ یا تو جانتے ہی نہیں تھے یا پھر جانتے تھے تو دہشتگردی، دو نمبری، بے ایمانی، فراڈ اور کرپشن کی وجہ سے۔ پاکستان کا نام دنیا میں آتا تھا تو طالبان کے ساتھ، اسامہ بن لادن کے ساتھ۔ ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے پہلی بار پاکستان بدنامی کی بجائے نیک نامی سے مستفید ہورہا ہے۔ اس کا کریڈٹ صرف ملالہ کو ہی نہیں جاتا، اس کے والد ضیاء الدین یوسفزئی کو بھی جاتا ہے۔ کیونکہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان جیسے قدامت پرست، عورت دشمن، گھٹن زدہ سماج میں اپنی بیٹی کو ایسی تعلیم اور تربیت دی کہ آج وہ دنیا کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح جگمگا رہی ہے۔
ملالہ یوسفزئی آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے کوئی بھی عام پاکستانی اس مقام تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت ملالہ یوسفزئی کی تحسین کرنے کی بجائے اس پر دشنام طرازی کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی کس بم بارود والے کام میں ملوث نہیں ہے۔ اگر وہ بھی عافیہ صدیقی کی طرح دہشتگردی کرتے ہوئے پکڑی جاتی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام بدنام کرنے کا باعث بنتی تو پاکستانی قوم اسے اپنا ہیرو قرار دیتی۔ مگر وہ چونکہ امن پسند ہے، ہمیشہ امن کی بات کرتی ہے، تعلیم اور تہذیب کی بات کرتی ہے، اس لئےپاکستانی عوام اس کے خلاف ہے۔ کیونکہ ہماری عوام کو شروع سے ہی تعلیم اور تہذیب سے دشمنی سکھائی گئی ہے۔ ہمارے نصاب میں ہیروز کےطور پر محمد بن قاسم، سلطان محمد غزنوی، احمد شاہ ابدالی، غازی علم الدین وغیرہ جیسے لوگوں کو پڑھایا جاتا ہے جن کا امن سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہ تھا اور مار دھاڑ، خون خرابہ ان کی پہچان تھی۔ تو پاکستانی عوام کیسے ملالہ جیسی امن پسندکو اپنا ہیرو مان سکتی ہے۔ ہم نے عوام کو امن پسندی سکھائی اور پڑھائی ہی نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ملالہ ایک لڑکی ہے عورت ہے۔ پاکستان میں عورت کو چار دیواری میں بند، برقعے اور تنبو میں لپیٹ کر رکھنے کا رواج ہے۔ عورت کو مرد کے تابع فرمان رکھنے کی روایت ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار عورت کو تو پاکستانی معاشرہ سو طرح کی گالی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی عوام ملالہ کو بھی گالیاں دیتی ہے کہ یہ عورت ہوکر اتنی آگے کیسے نکل گئی۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی بدحالی کی وجہ سے انتہائی قسم کے حسد کا شکار ہے۔ یہ بدحالی بھی انہوں نے اپنی جہالت کی وجہ سےخود پر مسلط کی ہوئی ہے، اپنی جہالت کی وجہ سے یہ ہر اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جو پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے جاسکے۔اس بدحال قوم کے ریوڑ سے اگر کوئی نکل کر خوشحالی کی طرف چلا جائے تو یہ حسد سے جل بھن جاتے ہیں۔ ملالہ سے بھی یہ اسی لئے حسد کرتے ہیں کہ وہ کیوں جہلاء کے ریوڑ سے نکل کر ایک مہذب سماج میں چلی گئی۔۔
ملالہ یوسفزئی کو اس کے والد نے شروع سے ہی اچھی تعلیم دی ، منافرت سے دور رکھا، ذہین تو وہ فطرتاً ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ سطحی سوچ نہیں رکھتی۔ ملالہ نے حالیہ انٹرویو میں شادی کے متعلق جو بیان دیا وہ اس کی اعلیٰ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ میں ملالہ کی بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ اگر دولوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں تو وہ بغیر کسی کاغذی کاروائی کے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایسا رشتہ میری نظر میں بہت بہتر ہے اس رشتے سے جس کو نکاح ناموں، گواہوں اور سماج کے بندھنوں کے ذریعے اچھی طرح ٹھوک بجا کر پکا کیا گیا ہو، مگر اس رشتے میں بندھے دونوں افراد ایک دوسرے سے خوش نہ ہوں۔ ملالہ کی اس بات پر پاکستان میں موجود دولے شاہ کے چوہے تتے توے پر بیٹھے ہوئے ہیں، بیچاروں کا قصور بھی نہیں،ان کو بچپن سے ہی کچھ لگے بندھے رواج سکھا رٹا کر بڑا کیا گیا ہے، اپنی سوچ پنپنے نہیں دی گئی تو وہ بیچارے کیا کریں، ان کیلئے تو وہی صحیح ہے جو ان کوبچپن سے سکھایا گیا ہے۔۔
بہرحال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان جیسے جاہلوں کے جنگل سے کم از کم ایک تو روشن ذہن نکلا۔ میں ملالہ اور اس کے والد کو سلام کرتا ہوں اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ملالہ کو فخرِ پاکستان کے خطاب سے نوازا جائے۔۔
ملالہ یوسفزئی آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے کوئی بھی عام پاکستانی اس مقام تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت ملالہ یوسفزئی کی تحسین کرنے کی بجائے اس پر دشنام طرازی کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی کس بم بارود والے کام میں ملوث نہیں ہے۔ اگر وہ بھی عافیہ صدیقی کی طرح دہشتگردی کرتے ہوئے پکڑی جاتی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام بدنام کرنے کا باعث بنتی تو پاکستانی قوم اسے اپنا ہیرو قرار دیتی۔ مگر وہ چونکہ امن پسند ہے، ہمیشہ امن کی بات کرتی ہے، تعلیم اور تہذیب کی بات کرتی ہے، اس لئےپاکستانی عوام اس کے خلاف ہے۔ کیونکہ ہماری عوام کو شروع سے ہی تعلیم اور تہذیب سے دشمنی سکھائی گئی ہے۔ ہمارے نصاب میں ہیروز کےطور پر محمد بن قاسم، سلطان محمد غزنوی، احمد شاہ ابدالی، غازی علم الدین وغیرہ جیسے لوگوں کو پڑھایا جاتا ہے جن کا امن سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہ تھا اور مار دھاڑ، خون خرابہ ان کی پہچان تھی۔ تو پاکستانی عوام کیسے ملالہ جیسی امن پسندکو اپنا ہیرو مان سکتی ہے۔ ہم نے عوام کو امن پسندی سکھائی اور پڑھائی ہی نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ملالہ ایک لڑکی ہے عورت ہے۔ پاکستان میں عورت کو چار دیواری میں بند، برقعے اور تنبو میں لپیٹ کر رکھنے کا رواج ہے۔ عورت کو مرد کے تابع فرمان رکھنے کی روایت ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار عورت کو تو پاکستانی معاشرہ سو طرح کی گالی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی عوام ملالہ کو بھی گالیاں دیتی ہے کہ یہ عورت ہوکر اتنی آگے کیسے نکل گئی۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی بدحالی کی وجہ سے انتہائی قسم کے حسد کا شکار ہے۔ یہ بدحالی بھی انہوں نے اپنی جہالت کی وجہ سےخود پر مسلط کی ہوئی ہے، اپنی جہالت کی وجہ سے یہ ہر اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جو پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے جاسکے۔اس بدحال قوم کے ریوڑ سے اگر کوئی نکل کر خوشحالی کی طرف چلا جائے تو یہ حسد سے جل بھن جاتے ہیں۔ ملالہ سے بھی یہ اسی لئے حسد کرتے ہیں کہ وہ کیوں جہلاء کے ریوڑ سے نکل کر ایک مہذب سماج میں چلی گئی۔۔
ملالہ یوسفزئی کو اس کے والد نے شروع سے ہی اچھی تعلیم دی ، منافرت سے دور رکھا، ذہین تو وہ فطرتاً ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ سطحی سوچ نہیں رکھتی۔ ملالہ نے حالیہ انٹرویو میں شادی کے متعلق جو بیان دیا وہ اس کی اعلیٰ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ میں ملالہ کی بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ اگر دولوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں تو وہ بغیر کسی کاغذی کاروائی کے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایسا رشتہ میری نظر میں بہت بہتر ہے اس رشتے سے جس کو نکاح ناموں، گواہوں اور سماج کے بندھنوں کے ذریعے اچھی طرح ٹھوک بجا کر پکا کیا گیا ہو، مگر اس رشتے میں بندھے دونوں افراد ایک دوسرے سے خوش نہ ہوں۔ ملالہ کی اس بات پر پاکستان میں موجود دولے شاہ کے چوہے تتے توے پر بیٹھے ہوئے ہیں، بیچاروں کا قصور بھی نہیں،ان کو بچپن سے ہی کچھ لگے بندھے رواج سکھا رٹا کر بڑا کیا گیا ہے، اپنی سوچ پنپنے نہیں دی گئی تو وہ بیچارے کیا کریں، ان کیلئے تو وہی صحیح ہے جو ان کوبچپن سے سکھایا گیا ہے۔۔
بہرحال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان جیسے جاہلوں کے جنگل سے کم از کم ایک تو روشن ذہن نکلا۔ میں ملالہ اور اس کے والد کو سلام کرتا ہوں اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ملالہ کو فخرِ پاکستان کے خطاب سے نوازا جائے۔۔