بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ہم جب بھی بحث کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پر جو عقلمندی کی بات نازل ہویی ہے دنیا میں وہی سب سے بڑا سچ ہے۔ اور دوسرے سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ کویی مکمل طور پر جھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہی سچا بات بس تاثر کی ہے۔ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط اسکا فیصلہ آپ اپنی اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر ہی کر سکتے ہیں۔ ہر صورت میں ہار نہ ماننے کی ضد ہمیں کسی منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیتی۔
آجکل ہم جب سیاست کی بات کرتے ہیں تو ہماری بحث پی ٹی آیی اور پی ایم ایل این کے بیچ یا نواز اور عمران کے بیچ ہی رہ جاتی ہے اور پھر کیا عمران کو سپورٹ کرنے والے عمران کی کسی غلطی کو نہیں مانتے اور نواز کو ماننے والے نواز کی کویی بات نہیں سنتے۔ اور اس ساری بحث میں ایک اہم بات رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔
آییے کچھ دیر اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالاے طاق رکھ کر پوری ایمانداری سے حالات اور ان شخصیات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ میں شروع اپنے آپ سے کرتا ہوں۔
میرے خیال میں سب سے پہلے غلطی حکومت کی ہے کہ جب پی ٹی آیی نے چار حلقوں کی بات کی تھی اور الیکشن کمیشن میں ریفارمز کی بات کی تھی حکومت کو فی الفور نوٹس لینا چاہیے تھا اور حلقے کھول دینے چاہیے تھے اور الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے زمہ داروں کو سزا یا جرمانے کیے جانے چاہیے تھے ایسا کچھ نہ ہوا اور پی ٹی آیی کی ناراضگی بڑھتی گیی لیکن پی ٹی آیی نے غلطی یہ کی کہ جوش میں آگر چار حلقوں سے نکل کر ، الیکشن دھاندلی کی تفتیش چھوڑ کر اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مطالبے سے آگے جا کر وزیراعظم کے استعفٰی کا مطالبہ کر دیا۔ اور اپنے آپ کو بند گلی میں لے گیے۔ لیکن اگر وہ اپنے دھاندلی والے کیس کوثابت کرکے یہ مطالبہ کرتے تو پھراسکا منطقی حل میآں صاحب کا استعفٰی ہی ہوتا۔
اور نہ صرف استعٰفی ہوتا بلکہ پی ایم ایل این کا سیاسی کیریر بھی ختم ہو جاتا۔ لیکن کہنا پڑے گا کہ عوام کی بیش سپورٹ کے باوجود تحریک انصاف اس میں تو کامیاب نہ ہو پاے گی اور اگر کہیں نواز شریف نے قوم کے وسیع تر مفاد میں استعفٰی دے بھی دیا تو اسکے اخلاقی قد میں اضافہ ہو گا اور اگلی دفعہ ہو سکتا ہے وہ بغیر مبینہ دھاندلی کے دو تہایی اکثریت جیت جاے۔ اس طرح پی ٹی آیی کے لیے لوز لوز کی سی سیچویشن ہے۔ اسلیے میں نواز شریف کے استعفٰی کی شدید خواہش کے باوجود سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آیی کو یہ ضد چھوڑ کر باقی سارے مطالبات کو منوانا چاہیے اور ان مطالبات کو تحریری شکل دیکر میآں صاحب سمیت تمام ضمانتیوں کے دستخط کروا لینے چاہییں۔ اسطرح شروع میں شاید پی ٹی آیی کے جذباتی سپورٹر کچھ دیر کے لیے ناراض ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انکو احساس ہو جاے گا کہ انہوں نے بہت فایدہ ہوا ہے۔ اور مستقبل میں عمران کرکٹ میں نیوٹرل ایمپایر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحیح معنوں میں آزاد الیکشن کمیشن کا بھی سہرا پہن سکیں*گے۔ اور پھرساری توجہ خیبر پخوانخواہ کی ترقی پر صرف کرنی چاہیے جو یقینا پی ٹی آٰی کو آیند لینڈ سلاییڈنک وکٹری حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ن لیگ کبھی بھی مثبت تبدیلی پاکستان میں نہیں لا سکتی۔
آپ بھی اپنی راے دیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے اپنی کسی بھی سیاسی وابستگی کو بالاے طاق رکھکر۔
اور آخر پر اپنے ن لیگ والے نواز شریف کی کم از کم تین براییاں بتایں اور پی ٹی آیی اپنے لیڈر کی جو نہ بتا سکا تو اسکے کسی تجزیے کو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھا جاے گا۔ سب سے پہلے میں*بتا دیتا ہوں کہ عمران میں مجھے کیا اچھا نہیں لگتا۔
1۔ وہ بہت تلخ ہو جاتا ہے اپنے مخالفین کے بارے میں بیان دیتے ہوے اسطرح لگتاہے جیسے کہ اسکی ذاتی دشمنی ہے اسکی اس سے۔
2۔ وہ کیی دفعہ ایک ایشو پر کام شروع کرتا ہے اور جب کویی نیا ایشو آتا ہے تو وہ اس پر لگ جاتا ہے اور پچھلے ایشو یکسر بھول جاتا ہے۔
3۔ وہ فیصلے بلیک اینڈ میں کرتا ہے جو کہ بعض اوقات ڈیڈ لاک کا باعث بنتے ہیں سیاست میں گرے ایریاز ہونے چاہیں تاکہ معاملوں کے حل میں آسانی ہو
اب آپکی باری
آجکل ہم جب سیاست کی بات کرتے ہیں تو ہماری بحث پی ٹی آیی اور پی ایم ایل این کے بیچ یا نواز اور عمران کے بیچ ہی رہ جاتی ہے اور پھر کیا عمران کو سپورٹ کرنے والے عمران کی کسی غلطی کو نہیں مانتے اور نواز کو ماننے والے نواز کی کویی بات نہیں سنتے۔ اور اس ساری بحث میں ایک اہم بات رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔
آییے کچھ دیر اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالاے طاق رکھ کر پوری ایمانداری سے حالات اور ان شخصیات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ میں شروع اپنے آپ سے کرتا ہوں۔
میرے خیال میں سب سے پہلے غلطی حکومت کی ہے کہ جب پی ٹی آیی نے چار حلقوں کی بات کی تھی اور الیکشن کمیشن میں ریفارمز کی بات کی تھی حکومت کو فی الفور نوٹس لینا چاہیے تھا اور حلقے کھول دینے چاہیے تھے اور الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے زمہ داروں کو سزا یا جرمانے کیے جانے چاہیے تھے ایسا کچھ نہ ہوا اور پی ٹی آیی کی ناراضگی بڑھتی گیی لیکن پی ٹی آیی نے غلطی یہ کی کہ جوش میں آگر چار حلقوں سے نکل کر ، الیکشن دھاندلی کی تفتیش چھوڑ کر اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے مطالبے سے آگے جا کر وزیراعظم کے استعفٰی کا مطالبہ کر دیا۔ اور اپنے آپ کو بند گلی میں لے گیے۔ لیکن اگر وہ اپنے دھاندلی والے کیس کوثابت کرکے یہ مطالبہ کرتے تو پھراسکا منطقی حل میآں صاحب کا استعفٰی ہی ہوتا۔
اور نہ صرف استعٰفی ہوتا بلکہ پی ایم ایل این کا سیاسی کیریر بھی ختم ہو جاتا۔ لیکن کہنا پڑے گا کہ عوام کی بیش سپورٹ کے باوجود تحریک انصاف اس میں تو کامیاب نہ ہو پاے گی اور اگر کہیں نواز شریف نے قوم کے وسیع تر مفاد میں استعفٰی دے بھی دیا تو اسکے اخلاقی قد میں اضافہ ہو گا اور اگلی دفعہ ہو سکتا ہے وہ بغیر مبینہ دھاندلی کے دو تہایی اکثریت جیت جاے۔ اس طرح پی ٹی آیی کے لیے لوز لوز کی سی سیچویشن ہے۔ اسلیے میں نواز شریف کے استعفٰی کی شدید خواہش کے باوجود سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آیی کو یہ ضد چھوڑ کر باقی سارے مطالبات کو منوانا چاہیے اور ان مطالبات کو تحریری شکل دیکر میآں صاحب سمیت تمام ضمانتیوں کے دستخط کروا لینے چاہییں۔ اسطرح شروع میں شاید پی ٹی آیی کے جذباتی سپورٹر کچھ دیر کے لیے ناراض ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انکو احساس ہو جاے گا کہ انہوں نے بہت فایدہ ہوا ہے۔ اور مستقبل میں عمران کرکٹ میں نیوٹرل ایمپایر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحیح معنوں میں آزاد الیکشن کمیشن کا بھی سہرا پہن سکیں*گے۔ اور پھرساری توجہ خیبر پخوانخواہ کی ترقی پر صرف کرنی چاہیے جو یقینا پی ٹی آٰی کو آیند لینڈ سلاییڈنک وکٹری حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ن لیگ کبھی بھی مثبت تبدیلی پاکستان میں نہیں لا سکتی۔
آپ بھی اپنی راے دیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے اپنی کسی بھی سیاسی وابستگی کو بالاے طاق رکھکر۔
اور آخر پر اپنے ن لیگ والے نواز شریف کی کم از کم تین براییاں بتایں اور پی ٹی آیی اپنے لیڈر کی جو نہ بتا سکا تو اسکے کسی تجزیے کو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھا جاے گا۔ سب سے پہلے میں*بتا دیتا ہوں کہ عمران میں مجھے کیا اچھا نہیں لگتا۔
1۔ وہ بہت تلخ ہو جاتا ہے اپنے مخالفین کے بارے میں بیان دیتے ہوے اسطرح لگتاہے جیسے کہ اسکی ذاتی دشمنی ہے اسکی اس سے۔
2۔ وہ کیی دفعہ ایک ایشو پر کام شروع کرتا ہے اور جب کویی نیا ایشو آتا ہے تو وہ اس پر لگ جاتا ہے اور پچھلے ایشو یکسر بھول جاتا ہے۔
3۔ وہ فیصلے بلیک اینڈ میں کرتا ہے جو کہ بعض اوقات ڈیڈ لاک کا باعث بنتے ہیں سیاست میں گرے ایریاز ہونے چاہیں تاکہ معاملوں کے حل میں آسانی ہو
اب آپکی باری