وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی،
ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔
وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔
تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔
واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں،
عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے
کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔
واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔
ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔
وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔
تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔
واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں،
عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے
کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔
واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔