خواتین کا پردہ: چودہ سو سال پہلے کا زمانہ بمقابلہ آج کا زمانہ

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
متمدن دور میں انسان غلام نہیں بنائے جاتے. ذہنی غلام بنائے جاتے ہیں. معاشی، معاشرتی اور عسکری دہشت گردی کے ذریعے سارا ملک ہی جاگیر سمجھ لیا جاتا ہے. نا سننے کی تو عادت ہی نہیں. غلطی سے غلطی کا گمان ہو تو فرمائش کے ساتھ
wit US or against US
کی دھمکی بھی چسپاں ہوتی ہے
 

Punch777

Politcal Worker (100+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
I love your modern mentality, can I have your sis mobile?
 

Citizen X

President (40k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
Agreed, times were very different back then from what they are today. And it is ignorant to think fatwas given by people centuries ago apply in todays time and world. That is the beauty of Islam that it is compatible with the changing times. it is only our own stupidity and rigidity that we think what was applicable centuries ago is applicable today.

We are still using fatwas by Abu falana and Imam dhimkana from 1000s of years ago and the situation is a 1000times worse in the subcontinent because of all this sectarianism of Brelivi, deobandi, etc etc you would be hard pressed to find a regular Muslim here.

Then its no wonder the youth is leaving Islam in droves in these places.

What we need are reformists or mujaddids. I believe people like Javed Ghamdi and Mufti Abu Layth are just that. But our khota mindset is not ready for them yet. Ghamdi had to go into self exile fearing his life. Abu Layth even though in UK was attacked just recently by these khota brained cretins.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
I love your modern mentality, can I have your sis mobile?
Why do you people go full retard at the drop of the hat? It is either a woman is totally naked and fucking every passerby in the street. Or wrapped like a tent and locked behind 4 walls never to be seen by anyone. Why can't things just be, you know normal. Like they are supposed to be.

And to answer your question, if I had a sister, I would gladly give you her number if she agreed to it, doubt she would have such crude taste in men and you would end up severely regretting making that call.

Now tell me since you don't believe in normal, which one of the above is your sister the who is wrapped up like a tent and locked behind 4 walls or the other one?


...........fuckin' moron! ? ? ? ?
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Why do you people go full retard at the drop of the hat? It is either a woman is totally naked and fucking every passerby in the street. Or wrapped like a tent and locked behind 4 walls never to be seen by anyone. Why can't things just be, you know normal. Like they are supposed to be.

And to answer your question, if I had a sister, I would gladly give you her number if she agreed to it, doubt she would have such crude taste in men and you would end up severely regretting making that call.

Now tell me since you don't believe in normal, which one of the above is your sister the who is wrapped up like a tent and locked behind 4 walls or the other one?


...........fuckin' moron! ? ? ? ?
It's been a while since you commented on this forum. Is everything ok?
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
چونکہ ہم آجکل چودہ سو سال کے مقابلے میں مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں اور عورتوں کو لونڈیاں نہیں بناتے لہذا پردہ نہیں ہونا چاہئیے واہ کیا مزے کی لاجک ہے جو بے لاجک بن کر رہ گی ہے
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔

دہریہ۔۔۔۔
اس لادین کو یہ پتہ ہے کے اتنی تعلیم کے بعد گوبر اور گاؤ موتر سے کرونا کا علاج ہوتا ہے۔۔۔۔
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
اس زمانے میں لوگوں کی نونی کام کرتی تھی
جب کہ آج کے زمانے میں اس جاہل رائیٹر
کی نونی سمیت ساری نونیاں چھوٹی چھوٹی اور بیکار ہو گئ ہیں ???
کیا بکواس ہے
شکر ہے میں نے یہ بکواس پڑھ کے وقت زیا نہیں کیا
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
اپنی ماں بہن اور بیٹی کی بے پردہ پکچر لگا تاکہ تیرے گھر کے ماحول اور تربیت کی اس تحریر کر مطابق اقاسی ہو سکے۔۔۔۔۔
پچھواڑے میں سگریٹ کے نشانات لگوا کر پولیٹیکل اسائلم لینے والے اب پردے پر لیکچر دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
 

waqqaskhan

Councller (250+ posts)
There were people 1400 years ago against the basics of Islam and still you will find them in this age and will always be there
 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
پردہ تو قران کا فرمان ہے اور وہ توچودہ سو سال میں نہیں بدلا
 

Citizen X

President (40k+ posts)
It's been a while since you commented on this forum. Is everything ok?
Lots of personal tragedies going on, first my father passed away due to covid, shortly after that my mum passed away from a severe stroke etc etc so on and so forth.
 

TariqRaheel

Citizen
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
اسلام ایک دین ہے اور یہ قیامت کی صبح تک کے لئے ہے
اگر اس میں رد و بدل کی گنجائش ہوتی تو اب تک یہود و نصاریٰ کی طرح ایسی تبدیلیاں لائی جا چکی ہوتیں کہ الامان و الحفیظ

جب قرآن قیامت تک کے لئے قابل عمل بنایا گیا ہے تو اس میں رکھی قیود بھی اس میں انسان کی پیدائش سے مرنے تک کے تمام اصول جو احادیث کی شکل میں تشریح کردیئے گئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے قابل عمل ہے باقی سب آج کی جدید تشریحات شیطان کے وسوسے ہیں

اگر پردہ مقصود نہ ہوتا تو 1700 بعد ہی اسلام سمجھنے والوں کو یہ بات کیوں سمجھ آرہی ہے
یا یہ تبدیلیاں نفس کے کہنے پر ہیں؟


جسے قرآنی احکام پر عمل کرتے دقت ہوتی ہے وہ مسلمان کہنے کو دقت محسوس کیوں نہیں کرتا؟


احکام اللہ ہی مسلمان پر لاگو ہیں نہ کے احکامِ نفس


اس لئے جو بھی احکام اللہ کی تجدید کرنے کا سوچے تو سمجھ لے اسے شیطان دلائل دے رہا ہے وہ دلائل جو اس نے ابلیس کہنے ہر اللہ کو بھی دینے کی کوشش کی


اللہ مسلمانوں کو ہدایت دے کہ احکام کو بلا چوں چرا من و عن تسلیم کرے
 

Punch777

Politcal Worker (100+ posts)
Why do you people go full retard at the drop of the hat? It is either a woman is totally naked and fucking every passerby in the street. Or wrapped like a tent and locked behind 4 walls never to be seen by anyone. Why can't things just be, you know normal. Like they are supposed to be.

And to answer your question, if I had a sister, I would gladly give you her number if she agreed to it, doubt she would have such crude taste in men and you would end up severely regretting making that call.

Now tell me since you don't believe in normal, which one of the above is your sister the who is wrapped up like a tent and locked behind 4 walls or the other one?


...........fuckin' moron! ? ? ? ?
Don't jump up and down my friend next careful when moron like are to eager to comment about Pakistan or Islam.
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Lots of personal tragedies going on, first my father passed away due to covid, shortly after that my mum passed away from a severe stroke etc etc so on and so forth.
I remember about your father's death due to covid but, really sorry to hear about your mom passed away as well.
May Allah rest their souls in peace and give you the strength to cope with this great loss.
Inna Lillahi wa inna ilaihi raji'un
 

Punch777

Politcal Worker (100+ posts)
We don't go around and talk about our family here u better discuss about ur as ur ass on fire.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
We don't go around and talk about our family here u better discuss about ur as ur ass on fire.
But you are the one who brought it up? Or is it perfectly fine to talk about other people's families and not yours?

P.S : Learn to write like an adult first and not a 6 year old girl. Its Your and nor ur you dimwitted doofus.