انسانی بے بسی اور خدا کے ہونے کا احساس

Jarrii

Politcal Worker (100+ posts)

معذرت کے ساتھ موضوع یہ نہیں ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے، خدا تو ہے، سوال یہ ہی کہ ہم اسے پہنچانتے کیسے ہیں؟
اب آپ کے تبصرے کی دوسرے پیراگراف میں اٹھائے کے نکات کے بارے میں کچھ معروضات ۔
انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ دوسرے سے سوچ میں مختلف کیوں ہے؟میرے خیال میں یہ رجحان اور افتادِطبع کا مسئلہ ہے، مثلا" آپ ہی ایسے سوال کیوں اٹھاتے ہیں، سب کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپکو اس دنیا میں بدصورتی، ظلم وزیادتی اور ناانصافی کیوں نظر آتی ہیں؟
میرے خیال میں یہاں دو فطری مجبوریاں ہیں۔ ا) انسان خدا کی نفسیات کو اپنی نفسیات پر محمول کرتا ہے۔ ب) نتیجے کے طور پر اس کی اپنی افتادِطبع کا عکس کسی نا کسی صورت خدا میں نظرآتا ہے

جناب کچھ لوگوں کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے کہ اس احساس کی وجہ چونکہ بچپن سے ہمیں بتایا اور احساس دلایا جاتا ہے کہ اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور یہی بات ہمارے لا شعور میں بس گئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہم مایوسی کی حالت میں اللّٰہ کو بے اختیار یاد کرتے ہیں۔


میری ناقص رائے کہ مطابق اس کی وجہ ہماری روح کی جبلت ہے۔ جب رب تعالٰی نے سب روحیں پیدا کیں تو ان کے زمہ جو کام لگایا وہ تھا اپنے خالق سے مسلسل رابطے میں رہنا اور اس کے لیے ضروری ہے روح کا لطیف ہونا اور ذھن کا ایک نقطہ پر مرکوز ہونا اور اِدھر اُدھر نہ بھٹکنا۔ مگر دنیا میں آنے کے بعد ہم اس کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں اور اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارا ذھن ہر وقت مختلف خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور ہم اپنے خالق سے رابطہ رکھنا بھول ہی جاتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی ایسی مصیبت پڑتی ہے جس کا ہم کوئی حل نہیں کر سکتے یا کسی سے کوئی مدد نہیں لے سکتے یا پھر ہمیں کوئی انتہائی صدمہ پہنچتا ہے تو چند لمحوں کے لیے یا کچھ دیر کے لیے ہمارے ذھن سے تمام دوسری چیزیں نکل جاتی ہیں اور ہمارا ذھن متشر نہیں ہوتا اور اُسی لمحے ہمارا اپنے خالق سے لاشعوری طور پر رابطہ ہو جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم اُسے یاد کرتے ہیں۔


 

Democrate

Chief Minister (5k+ posts)

میرے خیال میں اس قسم کے سوالات ہر کسی کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں بس اس کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں ، کیونکہ ہمارے ملا نے خدا کو ایک ڈریکولا بنا کر پیش کیا ہوا ہے کہ خبردار اگر اس کے متعلق کوئی سوال کیا تو وہ تمہارا خون پی جائے گا، بس اسی وجہ سے لوگ اپنے دماغ میں پیدا ہونے والے سوالات کو اپنے ایمان کے بوجھ تلے دبائے رکھتے ہیں۔


جناب والہ ...مجھے آپ کا کسی سوال سے کبھی کوئی مسلہ نہیں ہوا
میں یہ سمجھتا ہوں کا تحقیق قرآن اور اسلام کوئی شجر ممنوعہ نہیں
جب کا اسکا حکم خود قرآن میں ہو
آپ سے صرف یہ کہنا ہے اپنی تحریروں کے اندر تھوڑی نرمی لے کر آئیے
جسے یہ محسوس ہو کے ہم سب ایک دوسرے سے کچھ سیکھنے کے طلب گار ہیں
جس کو پا چکے اسکے رازوں میں اسکو مزید تلاش کرنے کے متمنی
بادینظر میں آپ کی تحریروں سے کچھ سیکھنے سے زیادہ بغاوت کی خوشبو آتی ہے
آپ کے بہت سے سوالوں کا جواب دینا نا ممکن کیوں کہ تحقیق اس قوم پر صدیوں سےاپنے دروازے بند کر چکی
لہٰذا آپ جب بھی سوال کریں یہ سوچ لیں آپ ان سے مخاطب ہیں جنکا علم اس کتاب سے زیادہ نہیں جسکو رٹا دیا گیا ہے

 

Democrate

Chief Minister (5k+ posts)
زوج کو ہم ضدین کے معنوں میں بھی لے سکتے ہیں جیسے روشنی اور تاریکی، ظلم اور صلہء رحمی ۔ ایک کے بغیر دوسرے کی پہچان، افادیت، شناخت، تکمیل، وغیرہ ممکن نہیں


جی بہت شکریہ
آپ کی اس نقطے نے مرے علم میں اضافہ کیا اور مجھے یہ سمجنے میں آسانی ہوئی
یہ ایک بنیادی کانسپٹ ہے جیسے آپ نے بجا فرمایا
کیوں کہ تکمیل کائنات سے لے کر تکمیل انسانیت اسی اصول کی کاربند ہے
یعنی ایک کی تکمیل دوسرے سے مل کر ہی ہوتی ہے اور اسی قانون کو خدا نے اس کائنات پر نافذ العمل کیا
جنکو ہم عام الفاظ میں توازن بولتے ہیں

 
Last edited:

Democrate

Chief Minister (5k+ posts)
یہ انسانی فطرت/جبلت کے فیئرز اور ڈیمنز ہوتے ہیں
fears and demons​



چلیں ایسے ہی سہی
اس تناظر میں لیں تو فطرت انسانی پھر آخر چند لوگون تک محدود کیوں؟
کیونکہ فیرز اور ڈیمونز اگر انسانی جبلت میں شامل تو انکا اطلاق تو ساری انسانیت پر ہونا چائیے
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے اسکا جواب دینا کافی مشکل اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے لیکن منزل شاید پھر بھی نا ملے
لیکن میری ناقص سوچ کہ مطابق یہ احساس داخلی ہے لیکن ایک خارجی قوت کا احساس بھی اسی وقت محسوس ہوتا ہے
یعنی کے شائد یہ ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں
کیا اس پر ہم زوج کا قانون لاگو نہیں کر سکتے جب کے ہم جان چکے کہ توازن کائنات کے پیچھے یہی قانون کار فرما ہے

 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
کتا انسان کو کاٹے تو خبر تھوڑی بنتی ہے ..خبر تو جب ہی بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹے ..یعنی غیر معمولی یا غیر فطری بات ہو
دوسرے یہاں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ویگن کہلاتے ہیں ..وہ گوشت تو دور کی بات چمڑے کے جوتے ،جیکٹ بھی نہیں پہنتے کیونکہ یہ ظلم لگتا ہے ان کو


آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر کوئی انسان کسی بھوکے شیر کے پنجرے میں کسی زندہ ہرن کو ڈال دے اور وہ شیر اس ہرن کو بھنبھوڑ کر کھا جائے تو اس انسان کو تو ہم ظالم کہیں گے، لیکن جب یہی عمل ہر پل دنیا کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہورہا ہے ، اس کو ہم قانونِ فطرت اور عین انصاف کہتے ہیں؟ ایسا کیوں؟
 

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)
آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر کوئی انسان کسی بھوکے شیر کے پنجرے میں کسی زندہ ہرن کو ڈال دے اور وہ شیر اس ہرن کو بھنبھوڑ کر کھا جائے تو اس انسان کو تو ہم ظالم کہیں گے، لیکن جب یہی عمل ہر پل دنیا کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہورہا ہے ، اس کو ہم قانونِ فطرت اور عین انصاف کہتے ہیں؟ ایسا کیوں؟



سمیع بھائی


زندگی اتنی طویل اور بے کار چیز نہیں ہے کہ ایسے فضول کاموں اور باتوں میں ضائع کی جائے


جو لوگ اور قومیں ایسے فضول کاموں میں وقت ضائع کرتی ہیں تو پھر وقت بھی انہیں ضائع کر دیتا ہے


زندگی انسان کو بار بار نہیں بلکہ صرف ایک بار ملتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر آگے کی منزلیں طے کی جائیں، اپنے آپ کو کسی مقام پر پہنچائیں اور انسانیت کی بھلائی کیلیے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ کل آنے والی نسلیں آپکو یاد رکھ سکیں


انسان کی عقل بہت محدود ہے. وہ الله تعالیٰ کی حکمت اور کائنات کا احاطہ نہیں کر سکتی ہے


کائنات کو نہ کوئی تسخیر کر سکا ہے اور نہ کوئی کر سکے گا. الله تعالیٰ کی حکمت کو نہ کوئی سمجھ سکا ہے اور نہ کوئی سمجھ سکے گا


انسان کو تو یہ تک پتہ نہیں کہ سامنے والی دیوار کے پیچھے کیا ہو رہا ہے تو وہ الله تعالیٰ کی حکمت کو کیا سمجھے گا؟


اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور اپنے وقت کو تعمیری کاموں میں صرف کریں



اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں




 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)

سمیع بھائی

زندگی اتنی طویل اور بے کار چیز نہیں ہے کہ ایسے فضول کاموں اور باتوں میں ضائع کی جائے

جو لوگ اور قومیں ایسے فضول کاموں میں وقت ضائع کرتی ہیں تو پھر وقت بھی انہیں ضائع کر دیتا ہے

زندگی انسان کو بار بار نہیں بلکہ صرف ایک بار ملتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر آگے کی منزلیں طے کی جائیں، اپنے آپ کو کسی مقام پر پہنچائیں اور انسانیت کی بھلائی کیلیے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ کل آنے والی نسلیں آپکو یاد رکھ سکیں

انسان کی عقل بہت محدود ہے. وہ الله تعالیٰ کی حکمت اور کائنات کا احاطہ نہیں کر سکتی ہے

کائنات کو نہ کوئی تسخیر کر سکا ہے اور نہ کوئی کر سکے گا. الله تعالیٰ کی حکمت کو نہ کوئی سمجھ سکا ہے اور نہ کوئی سمجھ سکے گا

انسان کو تو یہ تک پتہ نہیں کہ سامنے والی دیوار کے پیچھے کیا ہو رہا ہے تو وہ الله تعالیٰ کی حکمت کو کیا سمجھے گا؟

اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور اپنے وقت کو تعمیری کاموں میں صرف کریں


اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں



باواجی! یہ فضول کام اور فضول باتیں نہیں ہیں، اور آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر وقت ضائع ہوتا ہے، باقی تو ماشاء اللہ سارا دن ہم یہاں مسئلہ فیثا غورث کو حل کرنے میں لگے رہتے ہیں ، جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اس کو وقت کا ضیاع کہتے ہیں، یہ کہہ کر ہم دل کو تسلی دیتے ہیں، اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں، صرف اس لئے کہ ہمارے دماغوں پر توہین و گستاخی کے تالے لگے ہوئے ہیں، ایسا سوچنا اور پوچھنا کہیں بھی توہین کے زمرے میں نہیں آتا ، سوائے چند انتہا پسند معاشروں کے۔ ہم مسلمانوں نے خدا کو بالکل ایک ناقابلِ غور،ناقابلِ بحث بنا کر رکھ دیا ہے۔

اور جہاں تک بات ہے خود کو کارآمد بنانے کی تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا سوچنا، ایسے سوالات پوچھنا مجھے کارآمد بننے سے روک سکتا ہے؟

اگر سبھی انسان اپنی عقل کو استعمال کرنے کی بجائے اس کے محدود ہونے کا ماتم کرتے رہتے ، اور یہ سوچتے رہتے کہ ہمیں تویہ تک نہیں پتا کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے تو آج کا انسان اس دورِ جدید کی ایجادات میں سانس نہ لے رہا ہوتا، بلکہ آج بھی پتھروں اور غاروں میں ہی قیام پذیر ہوتا۔
 

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)

باواجی! یہ فضول کام اور فضول باتیں نہیں ہیں، اور آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس پر وقت ضائع ہوتا ہے، باقی تو ماشاء اللہ سارا دن ہم یہاں مسئلہ فیثا غورث کو حل کرنے میں لگے رہتے ہیں ، جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اس کو وقت کا ضیاع کہتے ہیں، یہ کہہ کر ہم دل کو تسلی دیتے ہیں، اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں، صرف اس لئے کہ ہمارے دماغوں پر توہین و گستاخی کے تالے لگے ہوئے ہیں، ایسا سوچنا اور پوچھنا کہیں بھی توہین کے زمرے میں نہیں آتا ، سوائے چند انتہا پسند معاشروں کے۔ ہم مسلمانوں نے خدا کو بالکل ایک ناقابلِ غور،ناقابلِ بحث بنا کر رکھ دیا ہے۔

اور جہاں تک بات ہے خود کو کارآمد بنانے کی تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا سوچنا، ایسے سوالات پوچھنا مجھے کارآمد بننے سے روک سکتا ہے؟

اگر سبھی انسان اپنی عقل کو استعمال کرنے کی بجائے اس کے محدود ہونے کا ماتم کرتے رہتے ، اور یہ سوچتے رہتے کہ ہمیں تویہ تک نہیں پتا کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے تو آج کا انسان اس دورِ جدید کی ایجادات میں سانس نہ لے رہا ہوتا، بلکہ آج بھی پتھروں اور غاروں میں ہی قیام پذیر ہوتا۔



ٹھیک ہے سمیع بھائی


آپ اپنی عقل اور وقت کو استعمال کریں، جب کوئی نتیجہ نکل آئے تو مجھے بھی بتا دیجیے گا


جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں یہاں ٹینشن لینے نہیں بلکہ ٹینشن دینے (لچ تلنے) آتا ہوں

:)


 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر کوئی انسان کسی بھوکے شیر کے پنجرے میں کسی زندہ ہرن کو ڈال دے اور وہ شیر اس ہرن کو بھنبھوڑ کر کھا جائے تو اس انسان کو تو ہم ظالم کہیں گے، لیکن جب یہی عمل ہر پل دنیا کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہورہا ہے ، اس کو ہم قانونِ فطرت اور عین انصاف کہتے ہیں؟ ایسا کیوں؟


جناب ایک چیز آپ کی " ملک یا تخلیق " ہو اور یہ متفق علیہ سند آپ کو حاصل ہو کہ
آپ ظالم نہیں ہیں بلکہ ٧٠ ماؤں سے بڑھ کر اپنی " ملک یا تخلیقات " پر شفیق و مہربان ہیں


پھر آپ اپنی ایک تخلیق کو دوسری تخلیق کے طعام کا ذریع بنا دیں
اور میرے پاس وہ عقلی پیمانہ بھی نہ ہو جس سے میں آپ کے اس عمل کے جائز یا ناجائز ہونے پر
اپنی حتمی رائے دے سکوں تو مجھے خاموش ہو جانا چاہیے کیوں کہ میرے پاس آپ کے ظالم ہونے پر
کوئی ایک بھی گواہی نہیں ہاں البتہ ٧٠ ماؤں کی شفقت اور محبت پر سند رسول صل الله علیہ وسلم موجود


اب یہی کام میں آپ کی "ملک و تخلیق " کے ساتھ انجام دوں تو آپ میرا گریبان بھی پکڑیں گے اور
دو جوتے بھی لگائیں گے


اس کی آسان مثال سوره کہف میں نبی موسیٰ علیہ السلام کی عقلی محدودیت بمقابلہ حضرت خضر کی
بحکم ربی بظاھر " ظالمانہ و غیر منصافانہ فیصلوں " میں واظہح طور پر نظر آ جاتی ہے
بالفرض
اگر الله قرآن میں صرف حضرت خضر کی تین عملیات کو ہی بیان کرتا اور ان کے جوابات کو بیان نہ کرتا
تو قیامت تک موسیٰ تا عام انسان حضرت خضر کو کن القابات سے یاد کرتے ؟؟؟
 
ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایا کرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پر لیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔

اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔

میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ میں یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی ۔

(امن یجیب المضطر اذا دعاه و یکشف السوء) النمل:62
یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے

پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کو ٹال دیتا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔

سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے۔ بےکس بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کردیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اسکی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بےقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کرسکتا۔

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کردے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے۔ قحط سالی ہوگئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے ۔

تفسیر ابن کثیرسورة النمل، آیت نمبر ٦٢
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
​ایک اور محفل جس میں کچھ نا جاننے والے بہت کچھ جاننے کا اقرار کریں گے اور پھر اس کے فوراً بعد حماقتوں اور جہالت و کفر سے بھرپور سوال بھی کریں گے اور کوئی سمجھائے تو گالی بھی دینگے۔ بہت خوب۔ بہت خوب۔ لگے رہو مننا بھائی۔
 

غزالی

MPA (400+ posts)
آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر کوئی انسان کسی بھوکے شیر کے پنجرے میں کسی زندہ ہرن کو ڈال دے اور وہ شیر اس ہرن کو بھنبھوڑ کر کھا جائے تو اس انسان کو تو ہم ظالم کہیں گے، لیکن جب یہی عمل ہر پل دنیا کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہورہا ہے ، اس کو ہم قانونِ فطرت اور عین انصاف کہتے ہیں؟ ایسا کیوں؟


جناب ایک چیز آپ کی " ملک یا تخلیق " ہو اور یہ متفق علیہ سند آپ کو حاصل ہو کہ
آپ ظالم نہیں ہیں بلکہ ٧٠ ماؤں سے بڑھ کر اپنی " ملک یا تخلیقات " پر شفیق و مہربان ہیں


پھر آپ اپنی ایک تخلیق کو دوسری تخلیق کے طعام کا ذریع بنا دیں
اور میرے پاس وہ عقلی پیمانہ بھی نہ ہو جس سے میں آپ کے اس عمل کے جائز یا ناجائز ہونے پر
اپنی حتمی رائے دے سکوں تو مجھے خاموش ہو جانا چاہیے کیوں کہ میرے پاس آپ کے ظالم ہونے پر
کوئی ایک بھی گواہی نہیں ہاں البتہ ٧٠ ماؤں کی شفقت اور محبت پر سند رسول صل الله علیہ وسلم موجود


اب یہی کام میں آپ کی "ملک و تخلیق " کے ساتھ انجام دوں تو آپ میرا گریبان بھی پکڑیں گے اور
دو جوتے بھی لگائیں گے


اس کی آسان مثال سوره کہف میں نبی موسیٰ علیہ السلام کی
عقلی محدودیت بمقابلہ حضرت خضر کی
بحکم ربی بظاھر " ظالمانہ و غیر منصافانہ فیصلوں " میں واظہح طور پر نظر آ جاتی ہے
بالفرض
اگر الله قرآن میں صرف حضرت خضر کی تین عملیات کو ہی بیان کرتا اور ان کے جوابات کو بیان نہ کرتا
تو قیامت تک موسیٰ تا عام انسان حضرت خضر کو کن القابات سے یاد کرتے ؟؟؟

اللہ جزا عطا کرے آپ کو یہ عقلی محدودیت کا نکتہ اٹھانے پر
یہاں تھوڑی سی اس کی اور وضاحت پیشِ نظر ہے سب کی توجہ کیلئے، خاص طور پر سمیع صاحب کی۔
نہ صرف جدید فلسفے بلکہ دوسرے علوم کے میدانوں میں بھی عقلی محدودیت کا تصور ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے
یہ کنسیپٹ دو بنیادی باتیں پیش، قائم اور تسلیم کرتا ہے: ایک تو ہماری ڈیٹا اور معلومات ڈھونڈنےاور اکھٹا کرنے کی صلاحیت محدود ہے اور دوسرے ان ڈیٹا اور معلومات کو پروسیس کرنے کی استعداد و صلاحیت اور بھی محدود ہے
مندرجہ بالا کو سامنے رکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی عقل چاہے وہ کتنی بھی ترقی کرجائے، ایڈوانس ہو جائے اس کی یہ فطری/خلقی کمزوری اس کے ساتھ رہے گی۔ اس لئے ایسی عقل کی بنیاد پر اس کے اپنے ہی خالق کے بارے اندازے اور آراء ہمارے لئے کتنی وقعت کے حامل ہونے چاہیے؟ یہ وہ سوال ہے جوہمیں سوچنے کی سنجیدو دعوت دیتا ہے

عقلی محدودیت
is a translation of English term Bounded Rationality.
 

غزالی

MPA (400+ posts)



چلیں ایسے ہی سہی
اس تناظر میں لیں تو فطرت انسانی پھر آخر چند لوگون تک محدود کیوں؟
کیونکہ فیرز اور ڈیمونز اگر انسانی جبلت میں شامل تو انکا اطلاق تو ساری انسانیت پر ہونا چائیے
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے اسکا جواب دینا کافی مشکل اور سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے لیکن منزل شاید پھر بھی نا ملے
لیکن میری ناقص سوچ کہ مطابق یہ احساس داخلی ہے لیکن ایک خارجی قوت کا احساس بھی اسی وقت محسوس ہوتا ہے
یعنی کے شائد یہ ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں
کیا اس پر ہم زوج کا قانون لاگو نہیں کر سکتے جب کے ہم جان چکے کہ توازن کائنات کے پیچھے یہی قانون کار فرما ہے


آپکے دوسرے فقرے کی سمجھ نہیں آ سکی۔ اس لئے کچھ عرض کرنے سے معذور ہوں
تو کیا
فیرز اور ڈیمونزکا اطلاق ساری انسانیت پر نہیں ہوتا؟
آخری فقرے میں آپ نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ بہت مناسب ہے، اس کیلئے شکریہ​
 

pakistani47

New Member

حتی کہ پہلی انسانی موت بھی طبعی نہیں تھی، ایک انسان کے ہاتھوں انسان کا قتل تھا۔ یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے؟ کیا یہ سب خونی تماشا اس نے اپنی تفننِ طبع کے لئے رچایا ہے؟ آخر اس سب کا مقصد کیا ہے؟

janaab apke jawab k liye
insaanon ki buraaiyan aur insanon ka qatal to detrack wali baaten hain user manuals mein define kr di gai hain k kin chezon k liye insaan ka operating system nai bnaya gya wazeh hai kin cheezon se insaan ka hardware(body) aur software(rooh) damage hoti hai ap khud dekhen

Aur baaqi tamaam logon k liye janab aik cheez to wazeh hai insaan ki limitations hain hardware(body) and software(soul) donon is se ziyada koi limitations nai hain baqi limitations uski apni bnai hui hain but but but but insaan ko jo sab se khubsurat gift khuda ki taraf se hai wo hai free will (krne ki azadi)

janab ap hi btaen agar krnay ki azadi na hoti to pehla qatal insaani hathon se na hota,azadi na hoti to khudaiyat k nabuwat k jhute davedaar na hote, azaadi na hoti to anbiya ka qatal na ho sakta hota, azaadi na hoti to nabi k nawason ka qatal insani hathon se na hota, azaadi na hoti to khawateen ka rape insanon k hathon na hota, azaadi na hoti janaab to ap aur mein khuda ki nisbat sawalat, bahas o mubahisa na kr pate is tarah ki baat krne se pehlay hi moat a jaati ya khuda azaab de deta

ye azaadi k galat istamaalat mein se kuch hein

khubsurati is mein ye hai k ap ka nafs utna hi azaad hay aur utni hi mehnat chahiye is par qabu paanay k liye yaani imtehaan be tough aur jo paas ho gya ajar b akheer.

ab ye na kahiye ga k khuda ne pechli qomon pr azaab kyun kiya ye kaisi free will hui, to janab us ka sada sa jawab ye hai k khuda ka azaab qomon pr as a whole ata hai wo bhi unkay ZULM ki waja se logon pr na k kisi aik bande se kisi personal dushmani per. khuda ka azaab aata hai jab us k bandon per be ja ZULM hota hai.ab ap tareekh dekhen jin jin QOMMON pr kisi aik insaan pr nahin, azaab aya ZULM ya kisi waja se aya koi aisi waja jis se insaaani hardware(body) ya software(soul) ko arsay tak khatra ho, ap dekhen k jin jin pr azaab aya unhen nishaniyon k sath tanbeeh ki gai thi daraya gya tha ye wo log jo ZULM krte the ya wo cheezen theen jin se insaaaniyat tabah ho rahi thi maslan qoam e luut jo homo sexuality mein par gaye the yaani jin se agay insaani hardware aur software ko shadeed khatra tha, feraon jo logon per be intiha zulm krta tha etc
sadi baat saday alfaaz mein jahan tak apka ikhtilaaf khuda ki zaat ya uski kisi baat se hai yaani ap ZULM nai krte kisi k sath ya as a qoam kharab nai hain to qayamat tak to dheel(tauba ka time hai) hai free will ki aur qayamat k din uska hisaab ho ga but jab bhi begunah insaniyaat ki cheekhen arsh pr jaati hen to qomon pr azaab ate hain isi dunya mein qomon ki free will cheen li jaati hai

to bhaai, jahan tak bahaso mubahisay ki baat hai to har makhluq ko haq hai k wo jo marzi i repeat jo marzi apnay khaliq se puche jo shikwa krna chaahay kare us ka haq e free will hai.
is tarah kisi ki dil azaari na ki jae aur na kisi ko bura bhala kaha jae kyun k mein aur koi bhi ho wo khuda ki taraf se barabari ki creation hai haq sab k paas barabar hai agar aik bhaai ko koi baat samajh nai a rahe to use usbaat ki har possibility jaanne ka haq hai
please respect
 

KK YASIR

Minister (2k+ posts)
لا حول ولا الله کا علم هر چیز کا احاطه کئے هو ئے هے پهر وہی بات مجهے لگتا هے که تم بات کو سمجهنا نهیں چا هتے اور حجت برائے حجت کی پالیسی په عمل براءهو بلکه شا ئد خدا کی خدائی کو نعوذبآ الله اپنی مرضی سے چلانا چاہتے هو ان ساری باتوں میں آنکهوں والوں کے لئے نشا نیاں هیں فا عتبرو یا اولی البصار

Lagey Rahii bhaiii ..Jis insaan ne qasam khaii huii hai baat na samjhney ne us ko aap kese samjhoo gey .. in k haq mein dua karain bas
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر کوئی انسان کسی بھوکے شیر کے پنجرے میں کسی زندہ ہرن کو ڈال دے اور وہ شیر اس ہرن کو بھنبھوڑ کر کھا جائے تو اس انسان کو تو ہم ظالم کہیں گے، لیکن جب یہی عمل ہر پل دنیا کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہورہا ہے ، اس کو ہم قانونِ فطرت اور عین انصاف کہتے ہیں؟ ایسا کیوں؟
آپ یہاں ہرن کی مظلومیت اور انسان کی درندگی کی بات تو کر رہے هیں مگر انسان اس عمل سے جو سبق حاصل کرے گا وه هی تو مطمع نظر هے قدرت کا چونکه انسان الله کی شاہکار تخلیق هے اور یه تقاضا کرتا هے اس بات کا که اسے هر دم اپ گریڈ کیا جائے لہذا اس کی ایک صورت یه بهی هے باقی ساری چیزیں صرف سپورٹنگ عوامل هیں هاں ایک بات اور الله تشد د پسند نهیں هے کیونکه شیر کے نقطه نظر سے یه تشد د نهیں هے بلکه معمول کی کاروائی هے
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
آپ یہاں ہرن کی مظلومیت اور انسان کی درندگی کی بات تو کر رہے هیں مگر انسان اس عمل سے جو سبق حاصل کرے گا وه هی تو مطمع نظر هے قدرت کا چونکه انسان الله کی شاہکار تخلیق هے اور یه تقاضا کرتا هے اس بات کا که اسے هر دم اپ گریڈ کیا جائے لہذا اس کی ایک صورت یه بهی هے باقی ساری چیزیں صرف سپورٹنگ عوامل هیں هاں ایک بات اور الله تشد د پسند نهیں هے کیونکه شیر کے نقطه نظر سے یه تشد د نهیں هے بلکه معمول کی کاروائی هے


جناب، اس مثال میں میں شیر کو ظالم نہیں ثابت کرنا چاہتا، بلکہ اس شخص کو جس نےبھوکے شیر کے آگے ہرن کو ڈالا۔ مزید وضاحت فرما دیجئے کہ اس انسان کے اس ظالمانہ عمل سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
یه عمل انسان کو بتاتا هے که شیر ایک خونخوار جانور هے اور یه چیر پهاڑ دے گا. مگر آپ اس کو ظالمانه کہه رہے ہیں کیونکه آپ دنیاوی نظریے سے دیکه کر کہه رہے هیں مگر قدرت کے کارخانے میں یه تنبہیه هے خوف اور ڈر پیدا کرنے والی چیز هے تاکه انسان کو احساس هو سکے که اسطرح کرو گے تو یوں هو گا موت کا خوف یه تو ٹهیک هے که آپ شیر کو ظالم نہیں کہه رهے هیں مگر آپ اسکے نقطه نظر کو نظر انداز بهی نهیں کر سکتے کیونک وه اس سارے سیناریو کا ایک کردار هے اور تصویر ہر زاویے سے دیکهنی پڑتی هے ایک اور مثال دیتا هوں
انسان کو راه رو سمجه لیں اور ہرن کو مسافر تو راه رو مسافر کو منزل په لایا اور دربان شیر کے حواله کیا اوراس نے ہرن کے لئے دوسری دنیا کا دروازه کهول دیا اب آپ اس کو ظلم کہیں یا کچه بهی مگر آپ کے سارے سیناریو میں هر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کر رہا هے
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
جناب، اس مثال میں میں شیر کو ظالم نہیں ثابت کرنا چاہتا، بلکہ اس شخص کو جس نےبھوکے شیر کے آگے ہرن کو ڈالا۔ مزید وضاحت فرما دیجئے کہ اس انسان کے اس ظالمانہ عمل سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟
یه عمل انسان کو بتاتا هے که شیر ایک خونخوار جانور هے اور یه چیر پهاڑ دے گا. مگر آپ اس کو ظالمانه کہه رہے ہیں کیونکه آپ دنیاوی نظریے سے دیکه کر کہه رہے هیں مگر قدرت کے کارخانے میں یه تنبہیه هے خوف اور ڈر پیدا کرنے والی چیز هے تاکه انسان کو احساس هو سکے که اسطرح کرو گے تو یوں هو گا موت کا خوف یه تو ٹهیک هے که آپ شیر کو ظالم نہیں کہه رهے هیں مگر آپ اسکے نقطه نظر کو نظر انداز بهی نهیں کر سکتے کیونک وه اس سارے سیناریو کا ایک کردار هے اور تصویر ہر زاویے سے دیکهنی پڑتی هے ایک اور مثال دیتا هوں
انسان کو راه رو سمجه لیں اور ہرن کو مسافر تو راه رو مسافر کو منزل په لایا اور دربان شیر کے حواله کیا اوراس نے ہرن کے لئے دوسری دنیا کا دروازه کهول دیا اب آپ اس کو ظلم کہیں یا کچه بهی مگر آپ کے سارے سیناریو میں هر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کر رہا هے
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
یه عمل انسان کو بتاتا هے که شیر ایک خونخوار جانور هے اور یه چیر پهاڑ دے گا. مگر آپ اس کو ظالمانه کہه رہے ہیں کیونکه آپ دنیاوی نظریے سے دیکه کر کہه رہے هیں مگر قدرت کے کارخانے میں یه تنبہیه هے خوف اور ڈر پیدا کرنے والی چیز هے تاکه انسان کو احساس هو سکے که اسطرح کرو گے تو یوں هو گا موت کا خوف یه تو ٹهیک هے که آپ شیر کو ظالم نہیں کہه رهے هیں مگر آپ اسکے نقطه نظر کو نظر انداز بهی نهیں کر سکتے کیونک وه اس سارے سیناریو کا ایک کردار هے اور تصویر ہر زاویے سے دیکهنی پڑتی هے ایک اور مثال دیتا هوں
انسان کو راه رو سمجه لیں اور ہرن کو مسافر تو راه رو مسافر کو منزل په لایا اور دربان شیر کے حواله کیا اوراس نے ہرن کے لئے دوسری دنیا کا دروازه کهول دیا اب آپ اس کو ظلم کہیں یا کچه بهی مگر آپ کے سارے سیناریو میں هر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کر رہا هے



اس مثال میں آپ شیر اور ہرن دونوں کے جذبات و احساسات و عمل کو نکال دیں، یہاں صرف انسان کا عمل زیرِ بحث ہے، سیدھا سا سوال ہے انسان کا یہ عمل ظالمانہ ہے یا نہیں؟
 

Back
Top