Jarrii
Politcal Worker (100+ posts)
معذرت کے ساتھ موضوع یہ نہیں ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے، خدا تو ہے، سوال یہ ہی کہ ہم اسے پہنچانتے کیسے ہیں؟
اب آپ کے تبصرے کی دوسرے پیراگراف میں اٹھائے کے نکات کے بارے میں کچھ معروضات ۔
انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ دوسرے سے سوچ میں مختلف کیوں ہے؟میرے خیال میں یہ رجحان اور افتادِطبع کا مسئلہ ہے، مثلا" آپ ہی ایسے سوال کیوں اٹھاتے ہیں، سب کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپکو اس دنیا میں بدصورتی، ظلم وزیادتی اور ناانصافی کیوں نظر آتی ہیں؟
میرے خیال میں یہاں دو فطری مجبوریاں ہیں۔ ا) انسان خدا کی نفسیات کو اپنی نفسیات پر محمول کرتا ہے۔ ب) نتیجے کے طور پر اس کی اپنی افتادِطبع کا عکس کسی نا کسی صورت خدا میں نظرآتا ہے
جناب کچھ لوگوں کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے کہ اس احساس کی وجہ چونکہ بچپن سے ہمیں بتایا اور احساس دلایا جاتا ہے کہ اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور یہی بات ہمارے لا شعور میں بس گئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہم مایوسی کی حالت میں اللّٰہ کو بے اختیار یاد کرتے ہیں۔
میری ناقص رائے کہ مطابق اس کی وجہ ہماری روح کی جبلت ہے۔ جب رب تعالٰی نے سب روحیں پیدا کیں تو ان کے زمہ جو کام لگایا وہ تھا اپنے خالق سے مسلسل رابطے میں رہنا اور اس کے لیے ضروری ہے روح کا لطیف ہونا اور ذھن کا ایک نقطہ پر مرکوز ہونا اور اِدھر اُدھر نہ بھٹکنا۔ مگر دنیا میں آنے کے بعد ہم اس کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں اور اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارا ذھن ہر وقت مختلف خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور ہم اپنے خالق سے رابطہ رکھنا بھول ہی جاتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی ایسی مصیبت پڑتی ہے جس کا ہم کوئی حل نہیں کر سکتے یا کسی سے کوئی مدد نہیں لے سکتے یا پھر ہمیں کوئی انتہائی صدمہ پہنچتا ہے تو چند لمحوں کے لیے یا کچھ دیر کے لیے ہمارے ذھن سے تمام دوسری چیزیں نکل جاتی ہیں اور ہمارا ذھن متشر نہیں ہوتا اور اُسی لمحے ہمارا اپنے خالق سے لاشعوری طور پر رابطہ ہو جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم اُسے یاد کرتے ہیں۔
میری ناقص رائے کہ مطابق اس کی وجہ ہماری روح کی جبلت ہے۔ جب رب تعالٰی نے سب روحیں پیدا کیں تو ان کے زمہ جو کام لگایا وہ تھا اپنے خالق سے مسلسل رابطے میں رہنا اور اس کے لیے ضروری ہے روح کا لطیف ہونا اور ذھن کا ایک نقطہ پر مرکوز ہونا اور اِدھر اُدھر نہ بھٹکنا۔ مگر دنیا میں آنے کے بعد ہم اس کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں اور اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارا ذھن ہر وقت مختلف خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور ہم اپنے خالق سے رابطہ رکھنا بھول ہی جاتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی ایسی مصیبت پڑتی ہے جس کا ہم کوئی حل نہیں کر سکتے یا کسی سے کوئی مدد نہیں لے سکتے یا پھر ہمیں کوئی انتہائی صدمہ پہنچتا ہے تو چند لمحوں کے لیے یا کچھ دیر کے لیے ہمارے ذھن سے تمام دوسری چیزیں نکل جاتی ہیں اور ہمارا ذھن متشر نہیں ہوتا اور اُسی لمحے ہمارا اپنے خالق سے لاشعوری طور پر رابطہ ہو جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم اُسے یاد کرتے ہیں۔