آزمائش | Test

Mechanical Monster

Senator (1k+ posts)
ذرا مہربانی کرکے واضح کیجئے گا کہ کربلا میں ماؤں نے اپنے بچوں کو جنت کے لالچ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر قربان ہونے کے لئے بھیجا یا حضرت امام حسین کی محبت میں سرشار ہوکر؟

اب یہ لمبی بحث شروع ہو جائے گی ۔ امام حسین حق کےعلم بردار تھے اور الله کے لئے لڑ رہے تھے ان کے ساتھ جو بھی شامل ہو رہا تھا وو بھی الله کی جماعت کا ہوا اور ان سب کا اجر بھی الله دے گا یعنی کہ جنت الله نے ہی دینی ہے

ویسے آپ کے اس سوال کا مقصد کیا ہے
 

muntazir

Chief Minister (5k+ posts)
ذرا مہربانی کرکے واضح کیجئے گا کہ کربلا میں ماؤں نے اپنے بچوں کو جنت کے لالچ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر قربان ہونے کے لئے بھیجا یا حضرت امام حسین کی محبت میں سرشار ہوکر؟

گستاخی معاف بھائی کچھ کہنا چاہتا ہوں شب عاشور نویں محرم کی رات کو امام مظلوم نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کے میں بتی بند کرتا ہوں تم مین سے کوئی بھی جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جاے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں
اس لیے جو بھی ساتھ عاشور کے روز قربان ہوے سید ال شہدا پر ان کی منزل جنت نہیں تھی بلکے وفاداری تھی اور مودت تھی انکا حصول جنت نہیں تھا کیوں کے وہ تو پہلے ہی جنت کے وارث ضمانت دے چکے تھے یہ ان کا جذبہ تھا ان کی محبت تھی جس نے ہزاروں کے لشکر کے سامنے انکو کھڑا کر دیا
 

sameer

MPA (400+ posts)


ایک بزرگ تھے ، عین بازار ایک ہی بات دہراتے چلے جاتے تھے ، "جو رب کرے سو ہو" ، سننے والے سنتے رہے ، ایک منچلے کو شرارت سوجھی ، اس نے بزرگ کو پتھر دے مارا ، بزرگ رکے ، اور مڑ کر دیکھا ، نوجوان نے جواب دیا ، حیران کیوں ہوتے ہیں ، بس "جو رب کرے سو ہو" ، جو رب نے کیا ، ہو گیا نا ، میری طرف ناراضگی سے کیوں دیکھتے ہیں ، بزرگ مسکرا کر بولے ، کیا تو رب نے ، مگر دیکھتا ہوں ، درمیان میں منہ کس کا کالا ہوا

کائنات کی وسعت سے انکار نہیں ، نا ہی کائنات ہماری گرفت میں ، جتنا ٹٹولیں ، اتنی پھیلتی جاتی ہے ، انسان جتنا آگے بڑھتا جاتا ہے ، اتنا چھوٹا ہوتا جاتا ہے ، کنویں سے تالاب ، تالاب سے دریا ، دریا سے سمندر ، سفر بڑھتا ہی جاتا ہے ، اور انسان نشان سے نکتہ ، نکتہ سے خیال ہو جاتا ہے ، پتہ چلتا ہے ، نکتہ تو تھا ہی نہیں ، بس آنکھ کا سراب تھا ، خیال کا گمان تھا ، ہماری عقل محدود ہے ، اتنی محدود کہ ، سائیکل کا پنکچر لگوانا ہو تو ، دکان پر قطار میں ، ہونکوں کی طرح بیٹھا رہنا پڑتا ہے ، یہ الگ بات پنکچر لگوا کر ، ہم پھر کہیں لیکچر دینے پہنچ جاتے ہیں ، پروفیسر لگتے ہیں ، پنڈت لگتے ہیں ، دانشور بھی ، نجومی بھی ، سائنسدان بھی ، سیاستدان بھی ، لیکن کبھی خود کو محدود تسلیم نہیں کرتے ، آخر نکتہ مٹ جاتا ہے ، خیال ہوا میں بکھر جاتا ہے

سمیع صاحب کے سوالات (میرے نزدیک ان میں قابل اعتراض کچھ بھی نہیں ، یہ ایک کیفیت کا نام ہے) ، سوالات کا جواب انہیں کتابوں سے ، تفتیش ، تحقیق ، گفت گو ، سے نہیں ملے گا ، نا ہی ، حروف ، گرائمر ، سے کوئی آسرا ملے گا ، بس نکتہ ، ایک نکتہ ، اپنی ذات کو نکتہ سمجھ لیں ، معرفت ذات سمجھ لیں ، دور , دور بینی کا کوئی فائدہ نہیں ، پاؤں سے سر ، سر اندر تا خلیے ، جھلیاں ، خون ، پسینہ ، ذات اندر ، محبت ، نفرت ، غصہ ، پیار ، صبر ، اشتعال ، بھوک پیاس ، ہمدردی ، انسیت ، حوس ، شہوت ، بس اسی میں جواب ہیں ، مکمل نصاب ہے ، نا ختم ہونے والی کتاب ہے


as always bohut khoob, no doubt u r badshah of
this forum (benevolent one, please don't take such one
as described by Sami :))
 

sameer

MPA (400+ posts)
١٠٠ فیصد نہیں ہوتی لیکن یہ بھی نہیں پتا کہ کتنے فیصد ہوتی ہے
اگر آپ مسلم تاریخ پر یقین رکھتے ہیں تو کربلا کی تاریخ دیکھ لیں وہاں ماؤں نے خود اپنے بچوں کو امام حسین پر قربان ہونے بھیجا

دوسرا دیش نے ایک بزرگ حجر بن عدی کا مزار تبھ کیا اور جسد خاکی نکالا ۔ اگر ان کی تاریخ آپ کو پتا ہو تو انہیں دو آپشن دیے گئے تھے کہ علی کو گالیاں دو یا موت ۔۔۔۔ انہوں نے انکار کیا تو انکو بیٹے سمیت قتل کیا گیا

do exceptions make a rule?
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
اب یہ لمبی بحث شروع ہو جائے گی ۔ امام حسین حق کےعلم بردار تھے اور الله کے لئے لڑ رہے تھے ان کے ساتھ جو بھی شامل ہو رہا تھا وو بھی الله کی جماعت کا ہوا اور ان سب کا اجر بھی الله دے گا یعنی کہ جنت الله نے ہی دینی ہے

ویسے آپ کے اس سوال کا مقصد کیا ہے

گستاخی معاف بھائی کچھ کہنا چاہتا ہوں شب عاشور نویں محرم کی رات کو امام مظلوم نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کے میں بتی بند کرتا ہوں تم مین سے کوئی بھی جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جاے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں
اس لیے جو بھی ساتھ عاشور کے روز قربان ہوے سید ال شہدا پر ان کی منزل جنت نہیں تھی بلکے وفاداری تھی اور مودت تھی انکا حصول جنت نہیں تھا کیوں کے وہ تو پہلے ہی جنت کے وارث ضمانت دے چکے تھے یہ ان کا جذبہ تھا ان کی محبت تھی جس نے ہزاروں کے لشکر کے سامنے انکو کھڑا کر دیا



جناب مکینکل صاحب، جو بات میں واضح کرنا چاہتا تھا وہ منتظر صاحب نے کہہ دی۔ اس بات سے آپ کی یہ دلیل رد ہوجاتی ہے کہ مائیں جنت کے لالچ میں اپنے بیٹوں کے مرنے پر راضی ہوجاتی ہیں۔ جنت کا لالچ ایک بہت کم تر چیز ہے، امام حسین اور کربلا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
 
Last edited:

sameer

MPA (400+ posts)
@M.Sami.R

shukar hai abhi ap jaisay loog hai jo
sochtay hain
warna yahan andhi taqleed hee jari hai

ap ki post ko deikha to zakhm ki yaad taza howi

tum aye to aya mujhe yaad gali main aaj chaand nikla

issi movie ka aik aur song tha

parh likh kay bara ho ka tum ek kitab likhna
apnay sawaloon tum khud hee jawab likhna

ap kay sawalo kay jawab ap khud hee likh
siktay hain, haan yaad rahay Allah kay 99 sifati
naam hain, sirf aik par concentrate nahi karna
meray dost, apni soch ko wasi karo

suni hikayat e hasti to darmayan say suni
na ibtada ki khabar hai na intiha maloom
 
Last edited:

macbeth

Minister (2k+ posts)
اس تھریڈ کو دیکھ کر ایک مشرکانہ لطیفہ یاد آیا۔۔ ایک شخص کی شکل و صورت میں کوئلہ کی کانیں چھپی ہوئی تھیں۔۔دنیا میں کسی نے کبھی بھی اسے محبت یا چاہت کی نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔دل میں ہزار شکوے اور بھڑاس لئے وہ پرلوک سدھار گیا۔۔۔قبر میں فرشتوں نے اٹھایا کہ شہزادے! اٹھو حساب و کتاب کا وقت آ گیا۔۔وہ پہلے ہی جلا بھنا تھا شہزادے کی پھبتی نے اسے مزید گرما دیا۔۔ وہ اٹھا اور فرشتوں کے ساتھ خدا کے حضور پیش ہوا۔۔آواز آئی، بتاؤ دنیا میں کیا کرتے رہے؟ وہ جھلا بھنا بولا تُسی کیہہ کیتا؟ آواز آئی ہم نے کائنات بنائی، انسان بنائے۔۔اس نے غصے سے اپنی طرف اشارہ کیا اور بولا ۔۔ ایہہ بندہ بنایا ای؟
اللہ سب کی عقلی اور روحانی محرومیوں کا ازالہ فرمائے۔۔آمین
 

Mechanical Monster

Senator (1k+ posts)
جناب مکینکل صاحب، جو بات میں واضح کرنا چاہتا تھا وہ منتظر صاحب نے کہہ دی۔ اس بات سے آپ کی یہ دلیل رد ہوجاتی ہے کہ مائیں جنت کے لالچ میں اپنے بیٹوں کے مرنے پر راضی ہوجاتی ہیں۔ جنت کا لالچ ایک بہت کم تر چیز ہے، امام حسین اور کربلا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

ابھی تک میں سمجھا نہیں کہ آپ کے اس سوال کا مقصد کیا تھا

اور جنت کتنی کم تر چیز ہے اس کا اندازہ جنت میں ایک نعمت سے پتا چلتا ہے

الله تعالیٰ جنتی لوگوں سے کہے گا کہ میں تم سے راضی ہو گیا اور ہمیشہ راضی رہوں گا ۔

لہٰذا اگر یہ جملہ سننا چاہتے ہیں تو جنت کی حرص پیدا کر لیں
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
ابھی تک میں سمجھا نہیں کہ آپ کے اس سوال کا مقصد کیا تھا

اور جنت کتنی کم تر چیز ہے اس کا اندازہ جنت میں ایک نعمت سے پتا چلتا ہے

الله تعالیٰ جنتی لوگوں سے کہے گا کہ میں تم سے راضی ہو گیا اور ہمیشہ راضی رہوں گا ۔

لہٰذا اگر یہ جملہ سننا چاہتے ہیں تو جنت کی حرص پیدا کر لیں


پہلی بات میں جنت کو نہیں، بلکہ جنت کے لالچ کو کم تر کہہ رہا ہوں۔
میرے اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ جب کسی ماں سے اس کا بیٹا اوائل عمری میں چھن جاتا ہے، جیسا کہ پشاور سکول کے حملے میں سینکڑوں ماؤں کے بچے چھن گئے، ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ان بچوں اور ان کے والدین کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جنت دے گا، لیکن کیا کبھی کسی نے اس ماں کے کرب کا اندازہ کیا ہے، جس کرب سے وہ اپنے بچے کے چھن جانے کے بعد گزرتی ہے، اس کی بقیہ زندگی کا ایک ایک پل کیسے گزرتا ہے، کیا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ذرا اس ماں سے تو جا کر پوچھو کہ تمہیں جنت چاہئے یا اپنا بیٹا، جنت کی قیمت ایک منٹ میں معلوم ہوجائے گی۔
حاصل کلام یہ کہ جنت کی تمنا ہر کوئی کرتاہے، مگر کوئی یہ نہیں چاہتا کہ جنت کے حصول کے لئے اس کی دنیا جہنم بن جائے۔یہ انسانی فطرت ہے اور یہ فطرت اسی نے بنائی ہے، جس نے جنت ، جہنم بنائی ہے۔
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
جناب ایک بار پھر خدا کو کٹہرے میں لے آے ہیں
جناب پہلے اپنی وقت پہچانئے جناب بھی بے جان مٹی کی طرح ہیں
خدا نے فرمایا
میں نے تمہیں بنایا جب کے تم کچھ چیز نہ تھے
تو جب جناب کا وجود ہی نہیں تو جناب شکوے کیسے
پانی دا بلبلا

پانی دا بلبلا


معاف کرنا جناب! میں خدا کو کٹہرے میں نہیں لایا، لیکن کیا ایک کمزور طاقتور سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا؟
کیا خدا نے کہیں روکا ہے کہ انسان اس کے متعلق کوئی سوال نہیں کرسکتے؟
اگر خدا انسان کو عقل دے سکتا ہے تو اس کے استعمال سے کیسے روک سکتا ہے؟
 

Jarrii

Politcal Worker (100+ posts)


وہ بہت بڑا بہروپیا ہے۔ ایک اتھاہ خلا میں خلا کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے۔ ڈھونڈنے نکلو تو زندگیاں ختم ہو جائیں پر اسکا نشاں تلک نہ ملے اور چھپنا چاہو تو گلی کی نکڑ سے کچھہ ایسی بے تکلفی سے صدائیں لگاتا ہے جیسے ہمارے بیچ کوئی فاصلہ کبھی تھا ہی نہیں۔
ہمیں درخت کے بیچ رکھہ کر کند آرے سے کاٹا جائے یا پھر پورے خاندان کے ساتھھ زندہ جلا دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شکر سے کم کسی شئے پر مانتاہی نہیں۔
اس سے محبت کے دعویداروں کو نوید ہو کہ وہ بے نیاز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم تمام عمر اسکی کھڑکی کے سامنے پھولوں کے ڈھیر جمع کرتے رہو تو وہ شائید تمہیں اِک جھلک دکھلانے کا بھی سزاوار نہ سمجھے۔ تمہاری عمر بھر کی ریاضتیں، تمہاری عبادتوں سے لتھڑی ہوئی آنکھیں، تمہاری قربانیوں کے گھنگھور بادل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں اتنا حق بھی نہیں دیتے کہ تم معاف ہی کر دیے جاو۔ اور اسکی نگاہِ التفات تو ہے ہی ایسی متاع کہ جس کا خواب بھی دیکھنا تمہاری اوقات نہیں۔
وہ جان دیتا ہے تو حق ہے۔ وہ جان لیتا ہے تو حق ہے۔ عمر بھر کی رنگین اور گناہ آلودہ زندگی گذارنے پر وہ کسی کو جنت میں اعلی ترین مقام دے دے تو اسکی محبت ہے اور تمام عمر اللہ کی چاہت میں غربت و افلاس کے تھپیڑے صبر سے کھانے والے کیلئے جہنم کا دروازہ کھول ڈالے تو یہ بھی محبت ہے۔ مجھھ سے کیا پوچھتے ہو کہ حق کیا ہے ، محبت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق وہ ہے جو میرا رب چاہے۔ محبت وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
اور وہ جو جھولیاں اٹھا اٹھا کر میرے رب سے انصاف مانگتے ہیں انہیں خبر دے دو کہ انصاف کی ایک بوند بھی اگر آسمانِ دنیا پر رحمتِ الہی کی مٹھیوں سے چھلک جاتی تو اس کرہ ارض پر آج ایک بھی ذی روح سانس نہ لیتا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ ہم مٹی کے بے حقیقت پتلے اپنی نفسانی خواہشات کے دبیز پردوں سے انصاف کو نہیں دیکھھ سکتے۔ انصاف تو بس وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
جب ہمارا تین سال کا اکلوتا بیٹا دوا نہ ملنے پر تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے تو یہ عین انصاف ہے اور ٹھیک اسی وقت اگر پڑوسی اپنی دولت کے بل بوتے پر قتل کے مقدمے سے چھوٹ جاتا ہے تو یہ بھی انصاف ہے۔
مجھھ سے کیا پوچھتے ہو کہ انصاف کیا ہے؟ انصاف وہ ہے جو میرا رب کرتا ہے۔
اور اس دنیا میں بھلا کیا ہے جو میرا رب نہیں کرتا؟ ہر شئے اسی کی عطا ہے۔ اور عطا ایسی نعمت ہے کہ جو فقیروں کو پل بھر میں جاگیردار بنا دے پر ساتھھ ہی عطا کوئی حق نہیں جسے قاضیوں کی عدالتوں، بادشاہوں کے درباروں میں زبردستی مانگ لیا جائے۔
جب بتا دیا گیا ہے کہ دنیا دھوکہ ہے تو یقین کر لو کہ سورج سورج نہیں ہے، ہوا ہوا نہیں ہے۔ سمندر، عمارتوں اور جانوروں کی تو بساط ہی کیا ہے ہم بھی ہم نہیں ہیں۔ کسے خبر کہ ایک بہت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہو اور ہم گویا اسٹیج پر تھرکتی پتلیاں ہوں۔ ہم ناچ سکتے ہیں۔ ہماری زندگی سے قریب آوازیں لوگوں کو ہمارے ہونے کا گماں بھی دلا سکتی ہیں لیکن تھیٹر کی بتیاں بجھانے کے بعد ہم سب پتلوں کو ایک اندھیرے کمرے میں رکھے آہنی بکسے میں ڈال دیا جائے گا اور کچھ اس شان سے کہ دن بھر کے جانی دشمن رات بھر ایکدوسرے سے لپٹے رہیں گے۔ بادشاہ کا پتلا ایسے پڑا ہو گا کہ اسکی کلاہ کسی دہقان کے قدموں میں پڑی ہو گی۔
اور ہم بے حقیقت ، دھوکے کے سمندر میں تیرتے کیچوے انصاف اور محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ خاموش ہو جاو کہ محبت و انصاف بس وہ ہیں جو میرا رب کرتا ہے۔ اگر تم میں طاقت ہے تو زور لگاو اور اس محبت و انصاف میں گندھی کائنات کی حدوں سے باہر نکل جاو۔ پر تم ایسا نہیں کر سکو گے (یقینا تم ایسا نہیں کر سکو گے)۔ تو کم ازکم ایک بار تو زندگی میں اسکی محبت کو اس طرح محسوس کرو جیسے محسوس کرنے کا حق ہے۔ ایک دفعہ تو اسکے بے داغ انصاف کے آگے سر نہیں دل بھی جھکا دو جیسے کہ مان جانے کا حق ہے_
(اقتباس)
 
Last edited:

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)


معاف کرنا جناب! میں خدا کو کٹہرے میں نہیں لایا، لیکن کیا ایک کمزور طاقتور سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا؟
کیا خدا نے کہیں روکا ہے کہ انسان اس کے متعلق کوئی سوال نہیں کرسکتے؟
اگر خدا انسان کو عقل دے سکتا ہے تو اس کے استعمال سے کیسے روک سکتا ہے؟




سمیع بھائی


مولوی کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سوچنے کی ممانعت ہے


کائنات کا ایک ایک زرہ خدا کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے


بس خدا کے بارے میں جاننے کے لیے سوچ کا مثبت ہونا ضروری ہے. منفی سوچ کے ساتھ خدا کو ڈھونڈنے نکلیں گے تو خدا تک کبھی نہ پہنچ پائیں گے


سیانے کہتے ہیں کہ


عقل وہ جو خدا کو پہچانے اور خدا وہ جو عقل میں نہ آئے


 

saafsaaf

MPA (400+ posts)
ذرا مہربانی کرکے واضح کیجئے گا کہ کربلا میں ماؤں نے اپنے بچوں کو جنت کے لالچ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر قربان ہونے کے لئے بھیجا یا حضرت امام حسین کی محبت میں سرشار ہوکر؟

اور حضرت امام حسین سے محبت کس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے؟
 

dilavar

Chief Minister (5k+ posts)


معاف کرنا جناب! میں خدا کو کٹہرے میں نہیں لایا، لیکن کیا ایک کمزور طاقتور سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا؟
کیا خدا نے کہیں روکا ہے کہ انسان اس کے متعلق کوئی سوال نہیں کرسکتے؟
اگر خدا انسان کو عقل دے سکتا ہے تو اس کے استعمال سے کیسے روک سکتا ہے؟

جناب میں بھی اس سوال میں آپ کے ساتھ ہوں. جائیں اور پوچھ کے آ جاین کے ہمیں کیوں اس جنجھال میں پھنسا رکھا ہے لیکن خیال رکھئے گا کے جسطرح آپ کے تجزئیے کے مطابق وہ خا مخا لوگوں کو اذیتیں دیتا ہے تو آپ کی اس جرت کو کیسے بخشے گا. اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے تو اسی کے اصولوں اور قوانین پی چلنا پڑے گا کیونکے آپ اس کی ملک سے نکل نہی سکتے
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


عجیب بات ہے ،الله کی پیدا کی ہوئے مخلوق ہی اس کے وجود کے بارے میں متذبذب ہے ،جو رزانہ اس کی مرضی سے جیتے اور مرتے اور زندگی گزرتے ہیں
اس کا اصول ہے کہ ہر چیز کو اصول کے مطابق استعمال کرو ،اگر نتیجہ چاہئے ، اگر نتیجہ نہیں چاہئے تو پھر شیطان کی طرح جو مرضی کرو ، تمہارا اور شیطان کا پیدا کرنے والا میں ہوں ، اس لئے اکڑ کسی ؟؟؟؟؟ انسانوں کا بادشاہ الله ہے وہ اپنی مخلوق سے نا انصافی نہیں کر سکتا ،اس تھریڈ میں پیش کیا جانے والا جواز ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں
الله جو اس کائنات کا مالک اور رب ہے وہ سخت امتحان نہیں لیتا ،آسان سا امتحان لیتا ہے ، صرف اس کی مرضی اپنی مخلوق کے لئے ،اس کا قانون اطاعت کے لئے ، نتیجہ اس کے ہاتھ میں ، کامیابی کا نصاب موجود ،تیاری کا وقت موجود موت تک ،ہر کوئی اپنا پیپر تیار کر لے ، پھر کوئی ظلم نہیں ہوگا نہ کوئی ظالم اس مظلوم عوام پر بادشاہ بن سکے گا
 

dilavar

Chief Minister (5k+ posts)
عجیب بات ہے ،الله کی پیدا کی ہوئے مخلوق ہی اس کے وجود کے بارے میں متذبذب ہے ،جو رزانہ اس کی مرضی سے جیتے اور مرتے اور زندگی گزرتے ہیں
اس کا اصول ہے کہ ہر چیز کو اصول کے مطابق استعمال کرو ،اگر نتیجہ چاہئے ، اگر نتیجہ نہیں چاہئے تو پھر شیطان کی طرح جو مرضی کرو ، تمہارا اور شیطان کا پیدا کرنے والا میں ہوں ، اس لئے اکڑ کسی ؟؟؟؟؟ انسانوں کا بادشاہ الله ہے وہ اپنی مخلوق سے نا انصافی نہیں کر سکتا ،اس تھریڈ میں پیش کیا جانے والا جواز ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں
الله جو اس کائنات کا مالک اور رب ہے وہ سخت امتحان نہیں لیتا ،آسان سا امتحان لیتا ہے ، صرف اس کی مرضی اپنی مخلوق کے لئے ،اس کا قانون اطاعت کے لئے ، نتیجہ اس کے ہاتھ میں ، کامیابی کا نصاب موجود ،تیاری کا وقت موجود موت تک ،ہر کوئی اپنا پیپر تیار کر لے ، پھر کوئی ظلم نہیں ہوگا نہ کوئی ظالم اس مظلوم عوام پر بادشاہ بن سکے گا

بھائی اس بے چارے کو تو دنیا بڑی سخت لگ رہی ہے اور وہ اپنے پے ہونے والے ظلم پی احتجاج کی آواز بلند کر رہا ہے. آخرت میں پڑنے والے ڈنڈوں پے کیا حال ہو گا. وہاں تو چیں بھی شاہد نہ کرنے دیا جاے