آزمائش | Test

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
11196350_433096553535543_5425592452900409476_n.jpg

آزمائش

دور ، بہت دور ایک بہت بڑا وسیع و عریض، تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا ملک تھا، جس پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، بادشاہ مطلق العنان تھا، کسی میں جرآت نہ تھی کہ بادشاہ کے سامنے نظر بھی اٹھا سکے، بادشاہ اپنی رعایا سے بہت خوش تھا، اسے اپنی طاقت، رعب و دبدبے پر ناز تھا۔ ایک دن کیا ہوا، بادشاہ کے ذہن میں ایک نہایت اچھوتا خیال آیا، بادشاہ نے سوچا کہ اسے اپنی رعایا کو آزمانا چاہئے آیاکہ وہ اس سے پیار بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ پس بادشاہ نے اپنے اس اچھوتے خیال پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

بادشاہ نے دربار لگایا، اپنے وزیروں، مشیروں اور درباریوں کو اپنے اسے اچھوتے خیال سے آگاہ کیا، کس میں مجال تھی کہ بادشاہ کے خیال پر اعتراض اٹھانے کی جرات کرتا، سبھی نے بادشاہ کے آیئڈیے کی داد دی اور بادشا ہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔

اگلے دن بادشا ہ نے پورے ملک میں منادی کرادی کہ بادشاہ نے تم سب کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہے، کل سے تم سب کی آزمائش شروع ہورہی ہے، جو اس آزمائش میں پورا اترا، اسے بادشاہ بڑے انعام و کرام سے نوازے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہوا، اس پر بادشاہ کا قہر نازل ہوگا ۔ پورے ملک میں اعلان کروادیا گیا کہ بادشاہ اپنی رعایا کو آزمانے کے لئے مختلف قسم کی تکلیفیں دے گا، جو ان تکلیفوں کو صبر، ہمت ، حوصلے سے برداشت کرے گا، تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کا شکر گزار رہے گا، اسے ایسی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا، جو اس نے کبھی تصور بھی نہ کی ہوںگی اور جس نے ان تکلیفوں پر شور و واویلہ کیا ، بادشاہ کی ناشکری کی، اس کو بادشاہ کے قہر کا سامنا کرنا ہوگا۔ رعایا بادشاہ کا یہ عجیب و غریب اعلان سن کر پریشان ہوگئی۔

اگلے دن بادشاہ بڑے طمطراق سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلا، بادشاہ کا قافلہ مختلف چوراہوں، گلیوں اور بازاروں میں سے گزرنے لگا، جہاں جہاں سے قافلہ گزرتا عوام جھک جھک کر سلام کرتی، ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ کچھ بچے کھیل رہے ہیں، بادشاہ نے وہاں اپنا قافلہ روک لیا، بادشاہ نے اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ سب بچوں کو فوراً قتل کردیا جائے، جلادوں نے پل بھر میں سبھی بچوں کو قتل کردیا، کھیل کا میدان، خون کے میدان میں بدل گیا، بادشاہ نے وہیں کھڑے ہوکر اعلان کیا، کہ جن بچوں کو میں نے قتل کروایا ہے، یہ ان کے والدین کے لئے ایک امتحان ہے، اگر انہوں نے اپنے بچوں کی موت کو صبر اور ہمت سے برداشت کیا اور میری شکر گزاری کرتے رہے، تو انہیں عظیم انعامات سے نواز ا جائے گا، اور اگر انہوں نے شور و غوغا کیا اور مجھے برا بھلا کہا تو پھر ان کے لئے میرا قہر تیار ہے۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے کچھ کارندے وہیں چھوڑے کہ ان کے والدین کے ساتھ رہنا اور ان کے ردِ عمل کی رپورٹ مجھے کرتے رہنا،۔بادشاہ کا قافلہ آگے روانہ ہوگیا۔

کچھ دور جا کر بادشاہ نے دیکھا کہ ایک گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں، اور بہت سے لوگ جمع ہیں، بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس گھر میں شادی ہورہی ہے، بادشاہ نے اپنا قافلہ وہیں روکا اور دلہا، دلہن کو طلب کیا۔ دلہا ، دلہن حاضر ہوگئے، بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تمہاری شادی سرانجام پاچکی ہے، جواب ملا ، ہاں۔ بادشاہ نے اپنے جلاد کو حکم دیا کہ دلہے کا سر قلم کردیا جائے، جلاد نے تلوار نکالی اور ایک ہی وار سے دلہے کا سر قلم کردیا، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ دلہن کے لئے اور دلہا کے گھر والوں کے لئے ایک آزمائش ہے۔ یہ کہا ، اپنا ایک کارندہ وہاں چھوڑا اور آگے چل دیا۔

ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک بڑھئی، بڑے عمدہ طریقے سے لکڑی سے فرنیچر تیار کررہا ہے، بادشاہ نے وہیں اپنا قافلہ روکا ، جلاد کو حکم دیا کہ بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا جائے، بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا گیا، بادشاہ نے کہا یہ بڑھئی کے لئے میری طرف سے ایک آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔

راستے میں دو بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ جارہے تھے، بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ ان بچوں کے ماں باپ کو قتل کردیا جائے، ماں باپ قتل کردیئے گئے، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ بچوں کے رشتے داروں اور آس پڑوس والوں کے لئے میری طرف سے آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔

ایک جگہ کچھ نوجوان جارہے تھے، بادشاہ نے ان کو روکا اور جلاد کو حکم دیا کہ ان میں سے ایک نوجوان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اسے اندھا کردیا جائے اور دوسرے نوجوان کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں، جلاد نے فوراً بادشاہ کے حکم پر عمل کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ میری طرف سے آزمائش ہے کہ ایک اندھا اور ایک معذور نوجوان اپنی باقی زندگی کیسے صبر اور ہمت سے گزارتے ہیں اور اس مصیبت کے باوجود میری شکر گزاری کرتے رہتے ہیں۔

اس کے بعد بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے جلادوں کو پھیلا دیا، ہر شہر، ہر محلے، ہر گھر پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل کردی گئی، بادشاہ کے کارندے اسے ہر شہر، گھر اور محلے کی رپورٹ دیتے، اس کے علاوہ بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے خصوصی کارندے چھوڑ دیئے جو لوگوں کو یہ باور کراتے کہ یہ مصیبتیں بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں، ان کو صبر اور حوصلے سے برداشت کرو، ان تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کے گن گاتے رہو، یہ مت دیکھو کہ اس نے تمہاری ٹانگ کاٹ دی، بازو کاٹ دیا، آنکھیں چھین لیں، یا تمہارے بچے قتل کردیئے یہ دیکھو کہ اس نے تمہاری دوسری ٹانگ چھوڑ دی، یا دوسرا بازو چھوڑ دیا، یا صرف آنکھیں نکالی ہیں اور کان نہیں کاٹے، یا تمہارے بچے قتل کئے ہیں، مگر تمہیں چھوڑ دیا ہے، یہ سب بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے نعمتیں ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو بادشاہ کے قہر سے بھی ڈراتے کہ خبردار اگر تم نے بادشاہ کو برا بھلا کہا، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم کے بارے میں سوال اٹھایا ، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم پر اعتراض کیا تو وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ لے گا، اور تمہیں زندہ آگ میں جلائے گا۔

بادشاہ کے ان اقدامات سے لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کا ڈر راسخ ہوگیا، لوگوں نے بادشاہ کے بارے میں غلط سوچنے سے بھی توبہ کرلی، بادشاہ اپنی رعایا کو جو جو تکلیفیں دیتا ، رعایا برداشت کرتی رہتی، اور کوئی سوال نہ اٹھاتی، بلکہ بادشاہ کے گن گاتی رہتی، بادشاہ اپنی رعایا کی یہ حالت دیکھ کر بہت خوش ہوتا، وہ اپنے درباریوں، مشیروں اور وزیروں کے سامنے فخر سے کہتا کہ دیکھو میری رعایا کتنی صابر و شاکر ہے، میں ان کو اتنی تکلیفیں دیتا ہوں، یہ پھربھی میرے گن گاتے ہیں،۔ بادشاہ کو اس خونی کھیل میں مزا آنے لگا، بادشاہ نے اس آزمائش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رعایا پر مسلط کردیا۔

بادشاہ کے دیس میں آج بھی آزمائش جاری ہے، رعایا مررہی، جل رہی ہے، کٹ رہی ہے، بادشاہ خوش ہورہا ہے، آزمائش جاری ہے۔۔۔۔

نوٹ:اکثریت اس تحریر کو سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، اس لئے ایڈٹ کرکے یہ لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔

یہ وہی بادشاہ ہے جس نے یہ دنیا تخلیق کی ، آزمائش کا اچھوتا آئیڈیا تخلیق کیا، اورپھر سب جانداروں کو اپنےاس آئیڈیے کی بھٹی میں جھونک دیا۔



 
Last edited:

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)

فٹ نوٹ: کوئی بتا سکتا ہے، اس بادشاہ کا نام کیا ہے؟





سمیع بھائی


آپ اسے خیالی بادشاہ کہہ سکتے ہیں


یہ بیچارہ خیالی بادشاہ بھی بیس سالوں سے اصل بادشاہ بننے اور عوام پر اپنا حکم چلانے کے خواب دیکھ رہا ہے

:)


 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)



سمیع بھائی


آپ اسے خیالی بادشاہ کہہ سکتے ہیں


یہ بیچارہ خیالی بادشاہ بھی بیس سالوں سے اصل بادشاہ بننے اور عوام پر اپنا حکم چلانے کے خواب دیکھ رہا ہے

:)




باواجی ! یہ غیر سیاسی تھریڈ ہے، میں یہاں چھوٹے بادشاہوں کی بات نہیں کررہا۔مزید برآں یہ خیالی بادشاہ نہیں، حقیقی بادشاہ ہے۔
 
Last edited:

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)

باواجی ! یہ غیر سیاسی تھریڈ ہے، میں یہاں چھوٹے بادشاہوں کی بات نہیں کررہا۔مزید برآں یہ خیالی بادشاہ نہیں، حقیقی بادشاہ ہے۔





بہت شکریہ سمیع بھائی


کیا میں نے کسی سیاستدان کا ذکر کیا ہے یا کوئی سیاسی بات کی ہے؟


کیا بادشاہوں میں خیالی بادشاہ اور اصل بادشاہ نہیں ہو سکتے ہیں؟

:)


 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)

بہت شکریہ سمیع بھائی


کیا میں نے کسی سیاستدان کا ذکر کیا ہے یا کوئی سیاسی بات کی ہے؟


کیا بادشاہوں میں خیالی بادشاہ اور اصل بادشاہ نہیں ہو سکتے ہیں؟

:)



باواجی! آپ پھر موضوع کو گھسیٹ کر سیاست کی طرف لے جارہے ہیں، مگر یہ سیاسی تھریڈ نہیں ہے۔ سیاسی نوک جھونک ہم کسی اور تھریڈ پر کر لیں گے، مگر یہ بہت حساس موضوع ہے اوردنیا کے واحد اصلی بادشاہ کے بارے میں ہے، خیالی، تصوراتی ، نقلی بادشاہوں کے بارے میں نہیں۔
 

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)
باواجی! آپ پھر موضوع کو گھسیٹ کر سیاست کی طرف لے جارہے ہیں، مگر یہ سیاسی تھریڈ نہیں ہے۔ سیاسی نوک جھونک ہم کسی اور تھریڈ پر کر لیں گے، مگر یہ بہت حساس موضوع ہے اوردنیا کے واحد اصلی بادشاہ کے بارے میں ہے، خیالی، تصوراتی ، نقلی بادشاہوں کے بارے میں نہیں۔





سمیع بھائی


ایک بار پھر نشاندھی کا بہت شکریہ


دوسرا اور تیسرا کومنٹ پڑھکر بھی مجھے اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ یہ تھریڈ واقعی غیر سیاسی ہے

:)


 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)



بہت شکریہ سمیع بھائی


کیا میں نے کسی سیاستدان کا ذکر کیا ہے یا کوئی سیاسی بات کی ہے؟


کیا بادشاہوں میں خیالی بادشاہ اور اصل بادشاہ نہیں ہو سکتے ہیں؟

:)







ایک بزرگ تھے ، عین بازار ایک ہی بات دہراتے چلے جاتے تھے ، "جو رب کرے سو ہو" ، سننے والے سنتے رہے ، ایک منچلے کو شرارت سوجھی ، اس نے بزرگ کو پتھر دے مارا ، بزرگ رکے ، اور مڑ کر دیکھا ، نوجوان نے جواب دیا ، حیران کیوں ہوتے ہیں ، بس "جو رب کرے سو ہو" ، جو رب نے کیا ، ہو گیا نا ، میری طرف ناراضگی سے کیوں دیکھتے ہیں ، بزرگ مسکرا کر بولے ، کیا تو رب نے ، مگر دیکھتا ہوں ، درمیان میں منہ کس کا کالا ہوا

کائنات کی وسعت سے انکار نہیں ، نا ہی کائنات ہماری گرفت میں ، جتنا ٹٹولیں ، اتنی پھیلتی جاتی ہے ، انسان جتنا آگے بڑھتا جاتا ہے ، اتنا چھوٹا ہوتا جاتا ہے ، کنویں سے تالاب ، تالاب سے دریا ، دریا سے سمندر ، سفر بڑھتا ہی جاتا ہے ، اور انسان نشان سے نکتہ ، نکتہ سے خیال ہو جاتا ہے ، پتہ چلتا ہے ، نکتہ تو تھا ہی نہیں ، بس آنکھ کا سراب تھا ، خیال کا گمان تھا ، ہماری عقل محدود ہے ، اتنی محدود کہ ، سائیکل کا پنکچر لگوانا ہو تو ، دکان پر قطار میں ، ہونکوں کی طرح بیٹھا رہنا پڑتا ہے ، یہ الگ بات پنکچر لگوا کر ، ہم پھر کہیں لیکچر دینے پہنچ جاتے ہیں ، پروفیسر لگتے ہیں ، پنڈت لگتے ہیں ، دانشور بھی ، نجومی بھی ، سائنسدان بھی ، سیاستدان بھی ، لیکن کبھی خود کو محدود تسلیم نہیں کرتے ، آخر نکتہ مٹ جاتا ہے ، خیال ہوا میں بکھر جاتا ہے

سمیع صاحب کے سوالات (میرے نزدیک ان میں قابل اعتراض کچھ بھی نہیں ، یہ ایک کیفیت کا نام ہے) ، سوالات کا جواب انہیں کتابوں سے ، تفتیش ، تحقیق ، گفت گو ، سے نہیں ملے گا ، نا ہی ، حروف ، گرائمر ، سے کوئی آسرا ملے گا ، بس نکتہ ، ایک نکتہ ، اپنی ذات کو نکتہ سمجھ لیں ، معرفت ذات سمجھ لیں ، دور , دور بینی کا کوئی فائدہ نہیں ، پاؤں سے سر ، سر اندر تا خلیے ، جھلیاں ، خون ، پسینہ ، ذات اندر ، محبت ، نفرت ، غصہ ، پیار ، صبر ، اشتعال ، بھوک پیاس ، ہمدردی ، انسیت ، حوس ، شہوت ، بس اسی میں جواب ہیں ، مکمل نصاب ہے ، نا ختم ہونے والی کتاب ہے

 

Mechanical Monster

Senator (1k+ posts)
کہانی ادھوری ہے

بادشاہ نے ہی رعایا کو سب کچھ عطا کیا تھا اور بادشاہ کا وعدہ ہے کہ صبر اور شکر کرنے والے کو ایسا بدلہ دوں گا کہ وو اپنی محرومیوں کو بھول جائے گا بلکہ بدلہ دیکھ کر تمنا کرے گا کہ اس کو کبھی سکھ نہ ملا ہوتا
 
Last edited:

behzadji

Minister (2k+ posts)
kia uss Badshah nay sub ko takleef hi dee hay ya kisi ko sukh bhee diya hay....agar diya hay to uss ko bhee daikhain.....aapki tahrir shiwon se bharpoor hay jubke uss Badshah ka tareeqa yeh hai ....agar shukar kero gay tau aur doon ga.....

23_115.png

Then did you think that We created you uselessly and that to Us you would not be returned?"

and


67_2.png


[He] who created death and life to test you [as to] which of you is best in deed - and He is the Exalted in Might, the Forgiving -
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
کہانی ادھوری ہے

بادشاہ نے ہی رعایا کو سب کچھ عطا کیا تھا اور بادشاہ کا وعدہ ہے کہ صبر اور شکر کرنے والے کو ایسا بدلہ دوں گا کہ وو اپنی محرومیوں کو بھول جائے گا بلکہ بدلہ دیکھ کر تمنا کرے گا کہ اس کو کبھی سکھ نہ ملا ہوتا


کیا آپ کسی ماں کو راضی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو مارنے کی اجازت دے دے، بدلے میں اسے جنت ملے گی؟
 

abdullah_bahi

Councller (250+ posts)
This thread is based on "MAYOSI" which is Haram.

Indirectly blaming ALLAH Subhana o tallah is not fair.

As the author articulated Allah Subhano-o-Talah in a manner of UNJUST specially when in the following lines.

"
بادشاہ کو اس خونی کھیل میں مزا آنے لگا، بادشاہ نے اس آزمائش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رعایا پر مسلط کردیا"

Now this is where the author intention is caught red handed.

Please don't blame Allah the Most Merciful.
The above line clearly states a BLASPHEMY against Allah the Creator of Heavens and Earth.

May be another try to get a UK-USA:VISA.
 

Mechanical Monster

Senator (1k+ posts)
کیا آپ کسی ماں کو راضی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو مارنے کی اجازت دے دے، بدلے میں اسے جنت ملے گی؟
تو فوج میں جو جاتے ہیں کیا وہ اپنی ماؤں کی اجازت کے بغیر جاتے ہیں؟
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
تو فوج میں جو جاتے ہیں کیا وہ اپنی ماؤں کی اجازت کے بغیر جاتے ہیں؟


کمال ہے، فوج میں کیا موت کی 100 فیصد شورٹی ہے؟ فوج میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو جان سے جاتے ہیں؟

سوال کا سیدھا جواب دیں، میں سوال پھر دہراتا ہوں، کیا آپ کسی ماں کو راضی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو مارنے کی اجازت دے دے، جنت کے بدلے میں؟
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
???? ??? ??? ??? ??? ?? ????? ??? ?? ?? ???
???? ???? ???? ??? ??????? ???? ??? ?? ??? ??? ?? ??? ???
??? ?? ??????
??? ?? ????? ????? ?? ?? ?? ??? ??? ?? ???
?? ?? ???? ?? ???? ?? ???? ?? ???? ???? ????
???? ?? ?????

???? ?? ?????
<font size="5">
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا کہ علم کو اللہ کی طرف منسوب کیوں نہیں کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کی بحرین جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
اے رب ! میں کس طرح اس کے پاس پہنچوں گا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ کر چل دو جہاں وہ کھوجائے گی وہیں وہ شخص آپ کو ملے گا۔
پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لیا اور زنبیل میں مچھلی رکھ کر چل دیئے یہاں تک کہ ایک ٹیلے کے پاس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں لیٹ گئے اور سوگئے۔ مچھلی زنبیل میں کودنے لگی۔ یہاں تک کہ نکل کر دریا میں گرگئی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہاؤ وہیں روک دیا اور وہاں طاق سابن گیا اور اس کا راستہ ویسا ہی بنا رہا۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بھول گئے کہ انہیں مچھلی کے متعلق بتائیں، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کھانا طلب کیا اور فرمایا کہ اس سفر میں ہمیں بہت تھکن ہوئی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اسی وقت تھکے جب اس جگہ سے تجاوز کیا جس کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھی نے کہا۔ دیکھئے جب ہم ٹیلے پر ٹھہرے تو میں مچھلی بھول گیا تھا اور یقینا یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ مجھے بھلادیا کہ میں آپ سے اس کا تذکرہ کروں کہ اس نے عجیب طریقے سے دریا کا راستہ اختیار کیا۔
موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے وہی جگہ تم تلاش کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے۔
وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر چلتے چلتے چٹان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ چادر سے اپنے آپ کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا اس زمین میں سلام کہاں؟
موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں زمین میں موسیٰ ہوں۔
انہوں نے پوچھا بنی اسرائیل کا موسیٰ؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں
حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ تمہارے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے جسے میں نہیں جانتا اور میرے پاس اللہ کا عطا کردہ ایک علم ہے جسے آپ نہیں جانتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کیا میں اس شرط پر آپ کے پیچھے چلوں کہ آپ میری رہنمائی فرماتے ہوئے مجھے وہ بات سکھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی۔
حضرت خضر نے فرمایا آپ صبر نہیں کرسکیں گے اور اس چیز پر کیسے صبر کرسکیں گے جس کا آپ کی عقل نے احاطہ نہیں کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا۔
حضرت خضر نے فرمایا اگر میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہو تو جب تک کوئی بات میں خود نہ بیان کروں آپ مجھے نہیں پوچھیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ٹھیک ہے
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر دونوں ساحل پر چل رہے تھے کہ ایک کشتی ان کے پاس سے گذری، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرائے کے دونوں کو بٹھالیا۔حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ
آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہو جائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ ! کیا میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر
صبر نہیں کر سکو گے
حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں۔
پھر وہ کشتی پر سے اتر کر ابھی ساحل پر چل رہے تھے کہ
ایک بچہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اسے ہاتھ سے جھٹکا دے کر قتل کر دیا
۔
موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ قتل کر دیا۔ آپ نے بڑی بے جا حرکت کی۔
وہ کہنے لگے کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ بات پہلی بات سے زیادہ تعجب خیز تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ اگر اس کے بعد بھی میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ چکے ہیں۔
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی کے پاس سے گذرے اور ان سے کھانے کے لئے کچھ مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں وہاں انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کر دیا ۔
موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ہم ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے ہماری ضیافت تک نہیں کی اور ہمیں کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا۔ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب یہ وقت ہماری اور آپ کی جدائی کا ہے۔

میں آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔
اور حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کر سکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کر لیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری چاہت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام (اللہ ان پر رحمت کرے) کچھ دیر اور صبر کرتے تاکہ ہمیں ان کی عجیب وغریب خبریں سننے کو ملتیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ نے پہلا سوال تو بھول کر کیا تھا۔
پھر ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں اپنی چونچ ڈبوئی، پھر حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم میں سے صرف اسی قدر کم کیا جتنا اس چڑیا نے دریا سے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1921
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1662
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1664
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1094
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ قران پاک میں اس طرح بیان ہوا ہے:
ترجمہ:
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا
جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ۔ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا۔ اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا
(موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
(خضر نے) کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے
اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو
(موسیٰ نے) کہا خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پایئے گا۔ اور میں آپ کے ارشاد کے خلاف نہیں کروں گا
(خضر نے) کہا کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو تو (شرط یہ ہے) مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر تم سے نہ کروں
تو دونوں چل پڑے۔ یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کیا آپ نے اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی
(خضر نے) کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے
(موسیٰ نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجیئے اور میرے معاملے میں مجھ پر مشکل نہ ڈالئے
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اُسے مار ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ (یہ تو) آپ نے بری بات کی
(خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے
انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے
پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی۔ خضر نے اس کو سیدھا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا)
خضر نے کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی۔ (مگر) جن باتوں پر تم صبر نہ کرسکے میں ان کا تمہیں بھید بتائے دیتا ہوں
(کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے)
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے
تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں اس سے بہتر ہو
اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے۔ اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔ یہ ان باتوں کا راز ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے
سورة الكهف: آیات: 60-83
 

Mechanical Monster

Senator (1k+ posts)
کمال ہے، فوج میں کیا موت کی 100 فیصد شورٹی ہے؟ فوج میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو جان سے جاتے ہیں؟

سوال کا سیدھا جواب دیں، میں سوال پھر دہراتا ہوں، کیا آپ کسی ماں کو راضی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو مارنے کی اجازت دے دے، جنت کے بدلے میں؟

١٠٠ فیصد نہیں ہوتی لیکن یہ بھی نہیں پتا کہ کتنے فیصد ہوتی ہے
اگر آپ مسلم تاریخ پر یقین رکھتے ہیں تو کربلا کی تاریخ دیکھ لیں وہاں ماؤں نے خود اپنے بچوں کو امام حسین پر قربان ہونے بھیجا

دوسرا دیش نے ایک بزرگ حجر بن عدی کا مزار تبھ کیا اور جسد خاکی نکالا ۔ اگر ان کی تاریخ آپ کو پتا ہو تو انہیں دو آپشن دیے گئے تھے کہ علی کو گالیاں دو یا موت ۔۔۔۔ انہوں نے انکار کیا تو انکو بیٹے سمیت قتل کیا گیا
 

M.Sami.R

Minister (2k+ posts)
١٠٠ فیصد نہیں ہوتی لیکن یہ بھی نہیں پتا کہ کتنے فیصد ہوتی ہے
اگر آپ مسلم تاریخ پر یقین رکھتے ہیں تو کربلا کی تاریخ دیکھ لیں وہاں ماؤں نے خود اپنے بچوں کو امام حسین پر قربان ہونے بھیجا

دوسرا دیش نے ایک بزرگ حجر بن عدی کا مزار تبھ کیا اور جسد خاکی نکالا ۔ اگر ان کی تاریخ آپ کو پتا ہو تو انہیں دو آپشن دیے گئے تھے کہ علی کو گالیاں دو یا موت ۔۔۔۔ انہوں نے انکار کیا تو انکو بیٹے سمیت قتل کیا گیا


ذرا مہربانی کرکے واضح کیجئے گا کہ کربلا میں ماؤں نے اپنے بچوں کو جنت کے لالچ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر قربان ہونے کے لئے بھیجا یا حضرت امام حسین کی محبت میں سرشار ہوکر؟