آزمائش
دور ، بہت دور ایک بہت بڑا وسیع و عریض، تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا ملک تھا، جس پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، بادشاہ مطلق العنان تھا، کسی میں جرآت نہ تھی کہ بادشاہ کے سامنے نظر بھی اٹھا سکے، بادشاہ اپنی رعایا سے بہت خوش تھا، اسے اپنی طاقت، رعب و دبدبے پر ناز تھا۔ ایک دن کیا ہوا، بادشاہ کے ذہن میں ایک نہایت اچھوتا خیال آیا، بادشاہ نے سوچا کہ اسے اپنی رعایا کو آزمانا چاہئے آیاکہ وہ اس سے پیار بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ پس بادشاہ نے اپنے اس اچھوتے خیال پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
بادشاہ نے دربار لگایا، اپنے وزیروں، مشیروں اور درباریوں کو اپنے اسے اچھوتے خیال سے آگاہ کیا، کس میں مجال تھی کہ بادشاہ کے خیال پر اعتراض اٹھانے کی جرات کرتا، سبھی نے بادشاہ کے آیئڈیے کی داد دی اور بادشا ہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
اگلے دن بادشا ہ نے پورے ملک میں منادی کرادی کہ بادشاہ نے تم سب کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہے، کل سے تم سب کی آزمائش شروع ہورہی ہے، جو اس آزمائش میں پورا اترا، اسے بادشاہ بڑے انعام و کرام سے نوازے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہوا، اس پر بادشاہ کا قہر نازل ہوگا ۔ پورے ملک میں اعلان کروادیا گیا کہ بادشاہ اپنی رعایا کو آزمانے کے لئے مختلف قسم کی تکلیفیں دے گا، جو ان تکلیفوں کو صبر، ہمت ، حوصلے سے برداشت کرے گا، تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کا شکر گزار رہے گا، اسے ایسی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا، جو اس نے کبھی تصور بھی نہ کی ہوںگی اور جس نے ان تکلیفوں پر شور و واویلہ کیا ، بادشاہ کی ناشکری کی، اس کو بادشاہ کے قہر کا سامنا کرنا ہوگا۔ رعایا بادشاہ کا یہ عجیب و غریب اعلان سن کر پریشان ہوگئی۔
اگلے دن بادشاہ بڑے طمطراق سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلا، بادشاہ کا قافلہ مختلف چوراہوں، گلیوں اور بازاروں میں سے گزرنے لگا، جہاں جہاں سے قافلہ گزرتا عوام جھک جھک کر سلام کرتی، ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ کچھ بچے کھیل رہے ہیں، بادشاہ نے وہاں اپنا قافلہ روک لیا، بادشاہ نے اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ سب بچوں کو فوراً قتل کردیا جائے، جلادوں نے پل بھر میں سبھی بچوں کو قتل کردیا، کھیل کا میدان، خون کے میدان میں بدل گیا، بادشاہ نے وہیں کھڑے ہوکر اعلان کیا، کہ جن بچوں کو میں نے قتل کروایا ہے، یہ ان کے والدین کے لئے ایک امتحان ہے، اگر انہوں نے اپنے بچوں کی موت کو صبر اور ہمت سے برداشت کیا اور میری شکر گزاری کرتے رہے، تو انہیں عظیم انعامات سے نواز ا جائے گا، اور اگر انہوں نے شور و غوغا کیا اور مجھے برا بھلا کہا تو پھر ان کے لئے میرا قہر تیار ہے۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے کچھ کارندے وہیں چھوڑے کہ ان کے والدین کے ساتھ رہنا اور ان کے ردِ عمل کی رپورٹ مجھے کرتے رہنا،۔بادشاہ کا قافلہ آگے روانہ ہوگیا۔
کچھ دور جا کر بادشاہ نے دیکھا کہ ایک گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں، اور بہت سے لوگ جمع ہیں، بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس گھر میں شادی ہورہی ہے، بادشاہ نے اپنا قافلہ وہیں روکا اور دلہا، دلہن کو طلب کیا۔ دلہا ، دلہن حاضر ہوگئے، بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تمہاری شادی سرانجام پاچکی ہے، جواب ملا ، ہاں۔ بادشاہ نے اپنے جلاد کو حکم دیا کہ دلہے کا سر قلم کردیا جائے، جلاد نے تلوار نکالی اور ایک ہی وار سے دلہے کا سر قلم کردیا، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ دلہن کے لئے اور دلہا کے گھر والوں کے لئے ایک آزمائش ہے۔ یہ کہا ، اپنا ایک کارندہ وہاں چھوڑا اور آگے چل دیا۔
ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک بڑھئی، بڑے عمدہ طریقے سے لکڑی سے فرنیچر تیار کررہا ہے، بادشاہ نے وہیں اپنا قافلہ روکا ، جلاد کو حکم دیا کہ بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا جائے، بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا گیا، بادشاہ نے کہا یہ بڑھئی کے لئے میری طرف سے ایک آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔
راستے میں دو بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ جارہے تھے، بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ ان بچوں کے ماں باپ کو قتل کردیا جائے، ماں باپ قتل کردیئے گئے، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ بچوں کے رشتے داروں اور آس پڑوس والوں کے لئے میری طرف سے آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔
ایک جگہ کچھ نوجوان جارہے تھے، بادشاہ نے ان کو روکا اور جلاد کو حکم دیا کہ ان میں سے ایک نوجوان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اسے اندھا کردیا جائے اور دوسرے نوجوان کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں، جلاد نے فوراً بادشاہ کے حکم پر عمل کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ میری طرف سے آزمائش ہے کہ ایک اندھا اور ایک معذور نوجوان اپنی باقی زندگی کیسے صبر اور ہمت سے گزارتے ہیں اور اس مصیبت کے باوجود میری شکر گزاری کرتے رہتے ہیں۔
اس کے بعد بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے جلادوں کو پھیلا دیا، ہر شہر، ہر محلے، ہر گھر پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل کردی گئی، بادشاہ کے کارندے اسے ہر شہر، گھر اور محلے کی رپورٹ دیتے، اس کے علاوہ بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے خصوصی کارندے چھوڑ دیئے جو لوگوں کو یہ باور کراتے کہ یہ مصیبتیں بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں، ان کو صبر اور حوصلے سے برداشت کرو، ان تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کے گن گاتے رہو، یہ مت دیکھو کہ اس نے تمہاری ٹانگ کاٹ دی، بازو کاٹ دیا، آنکھیں چھین لیں، یا تمہارے بچے قتل کردیئے یہ دیکھو کہ اس نے تمہاری دوسری ٹانگ چھوڑ دی، یا دوسرا بازو چھوڑ دیا، یا صرف آنکھیں نکالی ہیں اور کان نہیں کاٹے، یا تمہارے بچے قتل کئے ہیں، مگر تمہیں چھوڑ دیا ہے، یہ سب بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے نعمتیں ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو بادشاہ کے قہر سے بھی ڈراتے کہ خبردار اگر تم نے بادشاہ کو برا بھلا کہا، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم کے بارے میں سوال اٹھایا ، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم پر اعتراض کیا تو وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ لے گا، اور تمہیں زندہ آگ میں جلائے گا۔
بادشاہ کے ان اقدامات سے لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کا ڈر راسخ ہوگیا، لوگوں نے بادشاہ کے بارے میں غلط سوچنے سے بھی توبہ کرلی، بادشاہ اپنی رعایا کو جو جو تکلیفیں دیتا ، رعایا برداشت کرتی رہتی، اور کوئی سوال نہ اٹھاتی، بلکہ بادشاہ کے گن گاتی رہتی، بادشاہ اپنی رعایا کی یہ حالت دیکھ کر بہت خوش ہوتا، وہ اپنے درباریوں، مشیروں اور وزیروں کے سامنے فخر سے کہتا کہ دیکھو میری رعایا کتنی صابر و شاکر ہے، میں ان کو اتنی تکلیفیں دیتا ہوں، یہ پھربھی میرے گن گاتے ہیں،۔ بادشاہ کو اس خونی کھیل میں مزا آنے لگا، بادشاہ نے اس آزمائش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رعایا پر مسلط کردیا۔
بادشاہ کے دیس میں آج بھی آزمائش جاری ہے، رعایا مررہی، جل رہی ہے، کٹ رہی ہے، بادشاہ خوش ہورہا ہے، آزمائش جاری ہے۔۔۔۔
نوٹ:اکثریت اس تحریر کو سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، اس لئے ایڈٹ کرکے یہ لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔
یہ وہی بادشاہ ہے جس نے یہ دنیا تخلیق کی ، آزمائش کا اچھوتا آئیڈیا تخلیق کیا، اورپھر سب جانداروں کو اپنےاس آئیڈیے کی بھٹی میں جھونک دیا۔
بادشاہ نے دربار لگایا، اپنے وزیروں، مشیروں اور درباریوں کو اپنے اسے اچھوتے خیال سے آگاہ کیا، کس میں مجال تھی کہ بادشاہ کے خیال پر اعتراض اٹھانے کی جرات کرتا، سبھی نے بادشاہ کے آیئڈیے کی داد دی اور بادشا ہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
اگلے دن بادشا ہ نے پورے ملک میں منادی کرادی کہ بادشاہ نے تم سب کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہے، کل سے تم سب کی آزمائش شروع ہورہی ہے، جو اس آزمائش میں پورا اترا، اسے بادشاہ بڑے انعام و کرام سے نوازے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہوا، اس پر بادشاہ کا قہر نازل ہوگا ۔ پورے ملک میں اعلان کروادیا گیا کہ بادشاہ اپنی رعایا کو آزمانے کے لئے مختلف قسم کی تکلیفیں دے گا، جو ان تکلیفوں کو صبر، ہمت ، حوصلے سے برداشت کرے گا، تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کا شکر گزار رہے گا، اسے ایسی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا، جو اس نے کبھی تصور بھی نہ کی ہوںگی اور جس نے ان تکلیفوں پر شور و واویلہ کیا ، بادشاہ کی ناشکری کی، اس کو بادشاہ کے قہر کا سامنا کرنا ہوگا۔ رعایا بادشاہ کا یہ عجیب و غریب اعلان سن کر پریشان ہوگئی۔
اگلے دن بادشاہ بڑے طمطراق سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ نکلا، بادشاہ کا قافلہ مختلف چوراہوں، گلیوں اور بازاروں میں سے گزرنے لگا، جہاں جہاں سے قافلہ گزرتا عوام جھک جھک کر سلام کرتی، ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ کچھ بچے کھیل رہے ہیں، بادشاہ نے وہاں اپنا قافلہ روک لیا، بادشاہ نے اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ سب بچوں کو فوراً قتل کردیا جائے، جلادوں نے پل بھر میں سبھی بچوں کو قتل کردیا، کھیل کا میدان، خون کے میدان میں بدل گیا، بادشاہ نے وہیں کھڑے ہوکر اعلان کیا، کہ جن بچوں کو میں نے قتل کروایا ہے، یہ ان کے والدین کے لئے ایک امتحان ہے، اگر انہوں نے اپنے بچوں کی موت کو صبر اور ہمت سے برداشت کیا اور میری شکر گزاری کرتے رہے، تو انہیں عظیم انعامات سے نواز ا جائے گا، اور اگر انہوں نے شور و غوغا کیا اور مجھے برا بھلا کہا تو پھر ان کے لئے میرا قہر تیار ہے۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے کچھ کارندے وہیں چھوڑے کہ ان کے والدین کے ساتھ رہنا اور ان کے ردِ عمل کی رپورٹ مجھے کرتے رہنا،۔بادشاہ کا قافلہ آگے روانہ ہوگیا۔
کچھ دور جا کر بادشاہ نے دیکھا کہ ایک گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں، اور بہت سے لوگ جمع ہیں، بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس گھر میں شادی ہورہی ہے، بادشاہ نے اپنا قافلہ وہیں روکا اور دلہا، دلہن کو طلب کیا۔ دلہا ، دلہن حاضر ہوگئے، بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تمہاری شادی سرانجام پاچکی ہے، جواب ملا ، ہاں۔ بادشاہ نے اپنے جلاد کو حکم دیا کہ دلہے کا سر قلم کردیا جائے، جلاد نے تلوار نکالی اور ایک ہی وار سے دلہے کا سر قلم کردیا، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ دلہن کے لئے اور دلہا کے گھر والوں کے لئے ایک آزمائش ہے۔ یہ کہا ، اپنا ایک کارندہ وہاں چھوڑا اور آگے چل دیا۔
ایک جگہ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک بڑھئی، بڑے عمدہ طریقے سے لکڑی سے فرنیچر تیار کررہا ہے، بادشاہ نے وہیں اپنا قافلہ روکا ، جلاد کو حکم دیا کہ بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا جائے، بڑھئی کا ایک بازو کاٹ دیا گیا، بادشاہ نے کہا یہ بڑھئی کے لئے میری طرف سے ایک آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔
راستے میں دو بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ جارہے تھے، بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ ان بچوں کے ماں باپ کو قتل کردیا جائے، ماں باپ قتل کردیئے گئے، بادشاہ نے اعلان کیا کہ یہ بچوں کے رشتے داروں اور آس پڑوس والوں کے لئے میری طرف سے آزمائش ہے۔قافلہ پھر چل پڑا۔
ایک جگہ کچھ نوجوان جارہے تھے، بادشاہ نے ان کو روکا اور جلاد کو حکم دیا کہ ان میں سے ایک نوجوان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اسے اندھا کردیا جائے اور دوسرے نوجوان کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں، جلاد نے فوراً بادشاہ کے حکم پر عمل کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ میری طرف سے آزمائش ہے کہ ایک اندھا اور ایک معذور نوجوان اپنی باقی زندگی کیسے صبر اور ہمت سے گزارتے ہیں اور اس مصیبت کے باوجود میری شکر گزاری کرتے رہتے ہیں۔
اس کے بعد بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے جلادوں کو پھیلا دیا، ہر شہر، ہر محلے، ہر گھر پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل کردی گئی، بادشاہ کے کارندے اسے ہر شہر، گھر اور محلے کی رپورٹ دیتے، اس کے علاوہ بادشاہ نے پورے ملک میں اپنے خصوصی کارندے چھوڑ دیئے جو لوگوں کو یہ باور کراتے کہ یہ مصیبتیں بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں، ان کو صبر اور حوصلے سے برداشت کرو، ان تکلیفوں کے باوجود بادشاہ کے گن گاتے رہو، یہ مت دیکھو کہ اس نے تمہاری ٹانگ کاٹ دی، بازو کاٹ دیا، آنکھیں چھین لیں، یا تمہارے بچے قتل کردیئے یہ دیکھو کہ اس نے تمہاری دوسری ٹانگ چھوڑ دی، یا دوسرا بازو چھوڑ دیا، یا صرف آنکھیں نکالی ہیں اور کان نہیں کاٹے، یا تمہارے بچے قتل کئے ہیں، مگر تمہیں چھوڑ دیا ہے، یہ سب بادشاہ کی طرف سے تمہارے لئے نعمتیں ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو بادشاہ کے قہر سے بھی ڈراتے کہ خبردار اگر تم نے بادشاہ کو برا بھلا کہا، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم کے بارے میں سوال اٹھایا ، یا بادشاہ کے کسی بھی حکم پر اعتراض کیا تو وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ لے گا، اور تمہیں زندہ آگ میں جلائے گا۔
بادشاہ کے ان اقدامات سے لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کا ڈر راسخ ہوگیا، لوگوں نے بادشاہ کے بارے میں غلط سوچنے سے بھی توبہ کرلی، بادشاہ اپنی رعایا کو جو جو تکلیفیں دیتا ، رعایا برداشت کرتی رہتی، اور کوئی سوال نہ اٹھاتی، بلکہ بادشاہ کے گن گاتی رہتی، بادشاہ اپنی رعایا کی یہ حالت دیکھ کر بہت خوش ہوتا، وہ اپنے درباریوں، مشیروں اور وزیروں کے سامنے فخر سے کہتا کہ دیکھو میری رعایا کتنی صابر و شاکر ہے، میں ان کو اتنی تکلیفیں دیتا ہوں، یہ پھربھی میرے گن گاتے ہیں،۔ بادشاہ کو اس خونی کھیل میں مزا آنے لگا، بادشاہ نے اس آزمائش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رعایا پر مسلط کردیا۔
بادشاہ کے دیس میں آج بھی آزمائش جاری ہے، رعایا مررہی، جل رہی ہے، کٹ رہی ہے، بادشاہ خوش ہورہا ہے، آزمائش جاری ہے۔۔۔۔
نوٹ:اکثریت اس تحریر کو سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، اس لئے ایڈٹ کرکے یہ لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔
یہ وہی بادشاہ ہے جس نے یہ دنیا تخلیق کی ، آزمائش کا اچھوتا آئیڈیا تخلیق کیا، اورپھر سب جانداروں کو اپنےاس آئیڈیے کی بھٹی میں جھونک دیا۔