سوشل میڈیا کی خبریں

پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی سے منسوب کرکے فوج مخالف جعلی سوشل مہم اور پراپیگنڈے کا پول کھول دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر کئی روز سے فوج مخالف مہم اور پراپیگنڈہ کیا جارہا تھا اور اس کیلئے جعلی ویڈیوز، ہیش ٹیگز اور دیگر مواد شیئر کیا جارہا تھا،اس سوشل میڈیا پراپیگنڈے کے ذریعے شر پسند عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف ملک میں فوج مخالف جذبات کوابھارنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جس کا پول خود پاکستان تحریک انصاف نے کھول دیا ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل پیج سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی جعلی اور اصلی ویڈیوز شیئر کی جس سے حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ ویڈیو عمران خان کی موجودگی میں لگائے جانے والے نعرے بازی کی ہے جسے شرپسند عناصر نے کمال خوبصورتی سے ایڈٹ کرکے اس میں فوج مخالف نعروں کی آڈیو شامل کی ، سادہ لوح عوام یہ ویڈیو دیکھ کر ایسا ہی سمجھیں گے کہ جیسے اس تقریب میں عمران خان کی موجودگی میں فوج اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے بازی ہورہی ہے۔ جبکہ اصلی ویڈیو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان اداروں کے خلاف نعرے بازی نہیں بلکہ"انقلا ب صرف انتخاب" کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس ویڈیو کی حقیقت سامنے رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شرپسند عناصر ایک منظم طریقہ سے جعلی ویڈیوز اور جعلی HTs کے ذریعے کیمپین کر رہےتاکہ پی ٹی آئی کو ایک انتہاپسند جماعت کے طور پر پیش کیا جائے۔سپورٹرز اس منظم کیمپین پر نظر رکھیں اور شر پسند اکاؤنٹس کو اپنی صفوں میں مت گسنے دیں۔
امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے حوالے سے موجودہ اتحادی جماعتوں کی حکومتی رہنماؤں اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خیالات میں واضح طور پر زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے، اس حوالے سے حکومتی شخصیات کے بیانات اور پھر عمران خان کے کشمیر، فلسطین اور امریکہ مخالف بیانات ملاحظہ فرمائیں۔ ٹویٹر پر سینئر صحافی و تجزیہ کار ارشد شریف نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں حکومتی شخصیات اور عمران خان کے بیانات کو شامل کیا گیا ہے جس سے یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان ایک خود مختار قوم کی تعمیر چاہتے تھے جو کسی بیرونی طاقت سے دباؤ میں نا آسکے ، دوسری جانب موجودہ حکومت کے رہنماؤں کے بیان ہیں جس میں وہ امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار ارشد شریف نے تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان قائداعظم کے نظریے ہر قائم تھا اور اسرائیل کو ماننے سے انکاری تھا۔ عمران خان کے خلاف رجیم چینج آپریشن کے خفیہ بین الاقوامی اہداف اب سامنے آرہے ہیں ہندوستان، امریکہ، اسرائیل ، ایٹمی اثاثے۔ رجیم چینج کے لوکل ہینڈلرز سازش کا حصہ ہیں، محب وطن پاکستانی بیدار ہیں اور گواہ ہیں۔ موجودہ حکومت کے خیر خواہ نجم سیٹھی نے تو اپنے ایک وی لاگ میں یہ تک کہہ دیا کہ امریکہ سے تعلقات بہتر ضرور کرنے چاہیے اور اگر اس کیلئے ہمیں انہیں فوجی اڈے دینے پڑتے ہیں تواس میں کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اسرائیل کو الزام دیا جاتا ہے، خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کررہے ہیں، تجارت کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ ایک دن آئے گا جب ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال ہوں گے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہوسکے گی۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کے دور میں امریکی سفیر رہنے والے حسین حقانی رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک غیر مستحکم ملک جیسے پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونے چاہیے، وزیراعظم شہباز شریف قوم کو بھکاری قراردیتے ہیں، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیر احسن اقبال کرپشن کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کا خیال ہے کہ ہندوستا ن سے تعلقات بحال کرنا کشمیریوں سے دھوکہ اور غداری ہے۔ عمران خان فلسطین کو ان کے حقوق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے واضح طور پر انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں، امریکہ کو فوجی اڈے یاافغانستان کے خلاف اپنی ایئر اسپیس استعمال کرنے کے سوال پر عمران خان "ایبسیلوٹلی ناٹ "کہتے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے کہا کہ کون کس طرف کھڑا ہے؟ کون کیا چاہتا ہے؟ کس کا ایجنڈا کیا ہے؟ سنیے اور فیصلہ کریں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کی باقی زندگی بھی صدمے اور حسد میں گزرنے والی ہے، مجھے ان کی ذہنی حالت پر ترس آنے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں تصور نہیں کرسکتا تھا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنادیا جائے گا۔ اس بیان پر ردرعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ٹویٹر بیان میں کہا کہ بیچارے کو بہت گہرا اور ناقابلِ تلافی صدمہ پہنچا ہے ۔ جتنی محنت انہوں نے شہباز شریف پر جھوٹے کیسز بنا کر ان کو فاؤل پلے کے ذریعے میدان سے آوٹ کرنے پر کی تھی، اللّہ نے وہ چال انہی پر الٹ دی۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کی باقی کی زندگی بھی اسی صدمے اور حسد میں گزرنے والی ہے، انہیں اس کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ عمران خان نیند میں بھی نیوٹرل نیوٹرل کا راگ الاپا کریں گے، بڑبڑایا کریں گے کہ شہباز شریف نے سفیر کو کیک کھلادیا، شہباز شریف نے شیروانی پہن لی، شہباز شریف وزیراعظم بن گیا ، خرم دستگیریہ کہہ دیا ، امریکہ نے سازش کردی، دھاندلی ہوگئی۔ مریم نواز نے ہنسی کے ایموجی کو شامل کرتے ہوئے آخر میں لکھا کہ قسم سے اب تو عمران خان کی ذہنی حالت پر ترس آنے لگا ہے۔
شہزاداکبر نے این سی اے کے کمیونیکیشن منیجر اسٹورٹ ہیڈلی کے انکشاف کے بعد کہا ہے کہ امپورٹڈ کابینہ کے وزرا نے پریس کانفرنس میں جتنی بھی الف لیلیٰ سنائی وہ سب جھوٹ ثابت ہوئی۔ سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاداکبر نے کہا کہ میں اپنے14 جون کو دیئے گئے بیان میں پہلے ہی یہ بات کہہ چکا ہوں جس کی تصدیق اب برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ امپورٹڈ حکومت کی امپورٹڈ کابینہ کے ارکان نے پریس کانفرنس میں جتنی بھی الف لیلیٰ سنائی وہ سب عمران خان پر الزامات لگانے کیلئے تھا۔ کابینہ نے ایک منظوری دی جو کہ ان کی اپنی چوری چھپانے کیلئے تھی۔ شہزاداکبر نے کہا کہ ایک سوال جو آج بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ ون ہائیڈ پارک میں خریدی گئی پراپرٹی کی ادائیگی کیسے ہوئی؟ اس پر کوئی بریگنگ یا اسٹوری کرے گا؟ یاد رہے کہ انسداد منی لانڈرنگ کے برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے کمیونی کیشن منیجر اسٹوارٹ ہیڈلی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون سے 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ (50 ارب روپے سے زائد ) کے تصفیے میں حکومت پاکستان فریق ہی نہیں تھی۔ این سی اے کے عہدیدار نے نشاندہی کی کہ ایجنسی اور ملوث افراد کے درمیان عدالت سے باہر تصفیہ ہو گیا تھا۔ اسٹوارٹ ہیڈلی سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت پاکستان نے عدالت کے باہر تصفیے کے فوری بعد، ملک علی ریاض یا بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ میں منجمد رقم منتقل کرنے کی رضامندی ظاہر کی؟ جس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ حکومت پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا معاملہ ہے۔
روزنامہ جنگ نے 19 جون کو شائع کی گئی اپنی خبر کی تردید کرتے ہوئے ایک تصحیح نامہ جاری کیا جس میں اپنے رپورٹر کی غلطی کو تسلیم کیا، معاملے پر صحافی خاور گھمن اور انصار عباسی میں لفظی تکرار شروع ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز جیو کے صحافی قاسم عباسی نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 4 ملکیتی کمپنیوں کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے اور عمران خان نے یہ 4 کمپنیاں الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیں اور ان کی ڈائریکٹر فرح خان ہے۔ آج جنگ اخبار نے اپنی اس خبر کے غلط ثابت ہونے پر معافی مانگی لیکن وضاحت بجائے فرنٹ پیج پر چھاپنے کے اندرونی پیجز پر غیرنمایاں طور پر چھاپ کر عافیت جانی۔ جنگ گروپ نے تردید میں لکھا کہ دی نیوز کی قاسم عباسی کی 19 جون کی خبر "اثاثے اور واجبات۔۔عمران خان اپنی شریک حیات کی 4 ملکیتی کمپنیوں کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے" میں فرح خان کی والدہ بشریٰ خان کی جگہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ خان کے ساتھ مل گیا۔ رپورٹر متعلقہ افراد سے معافی مانگتا ہے، غلطی پر افسوس ہے۔ مذکورہ معاملے پر اے آر وائی کے صحافی خاور گھمن نے بتایا کہ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ قاسم عباسی فرزند ارجمند ہیں محترم انصار عباسی صاحب کے جو اخبار کے مدیر بھی ہیں۔ خبر بڑے عباسی صاحب نے پاس کی اور پھر اخبار کی زینت بنی۔ اس لحاظ سے قصور بڑے عباسی صاحب کا بنتا ہے نہ کہ قاسم کا۔ اس کے بعد خود انصار عباسی میدان میں آئے اور کہا کہ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قاسم عباسی میری ٹیم کا ممبر نہیں۔ اس سے بھی اہم بات غلطی انسان سے ہوتی ہے جس پر معافی اور معذرت کرنا بڑا کام ہے۔ مجھے اس بات خوشی ہے کہ بغیر کسی کے کہے یا تردید کے قاسم نے غلطی پر معذرت کی۔ جواب میں خاور گھمن نے کہا کہ یہ ایک بڑی خبر تھی۔ میں نے سوچا کہ اس نے آپ سے اس پر بات کی ہوگی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ قاسم اپنا کام خود کر رہا ہے۔ بہرحال اگر میری وجہ سے آپ کو کوئی تکلیف ہوئی ہو تو معذرت۔
معروف صحافی ارشد شریف نے آفتاب اقبال کے شو کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں آفتاب اقبال کہتے ہیں کہ عمران خان پر ایک مقدمہ فحاشی کا بھی ہونا چاہئے- اس پر شرکاء میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ وہ کیسے سر؟ جس پر آفتاب اقبال نے کہا کہ اس نے سب کو ننگا کردیا۔۔ آفتاب اقبال کی اس بات پر ہال میں قہقہے لگ گئے۔ اس کلپ پر صابر شاکر کا کہنا تھا کہ فِٹ کیس بنتا ہے لیکن اسکے لیے تمام متاثرین ننگوں کو گواہی دینے کیلیے پھر سے ننگا ہونا پڑیگا بلال رضا کا کہنا تھا کہ یہ ننگے ہوکر بھی شرم نہیں کررہے ، انہیں فرق نہیں پڑتا کہ یہ ننگےہوں یا بے عزت ہوں۔ مجتبیٰ انصاری کا کہنا تھا کہ عمران خان سب کا اصل چہرہ قوم کے سامنے لے آیا ہے افضل بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم تحریک انصاف والے اس کیس کی حق میں ہیں۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین کا بھی کہنا تھا کہ عمران خان پر فحاشی کا مقدمہ ضرور بننا چاہئے جس طریقے سے عمران خان نے رجیم چینج کے کرداروں کو بے نقاب کیا ہے، یہ عمران خان کا ہی کمال ہے۔ اگر عمران خان نہ ہوتے تو ہم آج بھی اندھیرے میں ہی رہتے۔
ملک کے مشہور فلمسٹار اور لالی ووڈ کی پہچان اداکار شان شاہد نے حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیے گئے حالیہ اضافے پر کہا ہے کہ پٹرول مہنگا نہیں ہوا بلکہ لوگ سستے ہو گئے ہیں۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ سستے تب ہوتے ہیں جب حکمرانوں کے دلوں میں ان پر ظلم کرنے کا درد اور احساس ختم ہو جائے۔ لیکن پھر بھی قوم ہمت اور پاکستان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ یاد رہے کہ حالیہ اضافے کے بعد ملک میں پٹرول کی قیمت 235 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت میں بھی اس بار 60 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ شان شاہد اس سے پہلے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں انہوں نے اس سے پہلے ہونے والے اضافے پر کہا تھا کہ "پٹرول مہنگا اور ضمیر سستے، بھلا کون؟"
گزشتہ روز سلیم صافی نے اپنے شو میں نقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انوار کو مدعو کیا جس میں راؤانوار کو نقیب اللہ محسود کے قتل اور 400 افراد کو پولیس مقابلے میں مارنے پر بھرپور وضاحتیں کرنے کا موقع ملا۔ اس شو میں راو انوار نے اپنے اوپر الزامات کو کلئیر کرنیکی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جن 400 لوگوں کو مارا وہ جعلی پولیس مقابلے نہیں تھے اور نہ ہی پہلے سے گرفتار ہوئے تھے۔ ایم کیوایم کے جو لوگ انہوں نے مارے وہ دہشتگرد تھے ان سے اسلحہ برآمد ہوا۔ راؤ انوار کے اس شو پر مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا، ان کا کہنا تھا کہ سلیم صافی نے اس سے پہلے ٹی ٹی پی کے دہشتگرد احسان اللہ احسان کا انٹرویو کرکے اسے صفائیاں دینے کا موقع دیا اور اب راؤانوار کو بھی کلئیر کروانے کی کوشش میں ہے۔ صحافی مبشر زیدی نے تبصرہ کیا کہ سینکڑوں افراد کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو ہیرو بنانے کا سہرا بھی جیو کے سر ہی رہے گا۔ جس پر رضوان غلیزئی نے جواب دیا کہ یہ انٹرویو انصاف اور سلامتی کے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ سینکڑوں لوگوں کا قاتل ٹی وی پر معزز بن کر انٹرویو دے رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ ان اداروں میں بیٹھے لوگوں کی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ معیشت کےعلاوہ پاکستان قانونی اور اخلاقی پستیوں سےبھی گزر رہا ہے، کوئی پوچھنےوالا نہیں۔ علی سلمان علوی نے لکھا کہ سلیم صافی کے شو میں راؤ انوار۔۔۔ یہ انٹرویو کس نے کروایا، کیوں کروایا؟ سمجھ رہے ہیں ناں آپ! نوٹ: کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو بھی ڈرائی کلین کرنے کے لئے اسی شو میں بلایا گیا تھا۔ بس اتنا ہی بتانا تھا۔ تھینک یو ویری مچ۔ صحافی فیض اللہ خان سواتی نے تبصرہ کیا کہ راؤ انوار کا انٹرویو ہوسکتا ہے مگر اسکے خلاف پانچ برس سے احتجاج کرتے مظاہرین کو دس سیکنڈ کے لئیے دکھایا جاسکتا ہے نا ہی انکا ایک منٹ کا انٹرویو چل سکتا ہے اسے کہتے ہیں اظہار رائے کی آزادی کا شاندار نمونہ سالار سلطانزئی نے لکھا کہ احسان اللہ احسان اور راو انوار جیسے بہادر بچے صاف ستھرے کرنے کےلیے سلیم صافی کے ہی پاس کیوں بھیجے جاتے ہیں؟ وی لاگر عمر انعام نے لکھا کہ نقیب اللہ محسود سمیت سینکڑوں لوگوں کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو سرخی پاؤڈر لگا کر سلیم صافی کے پروگرام میں بٹھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے ہزاروں پاکستانیوں کی قاتل ٹی ٹی پی کا ترجمان بھی اسی پروگرام میں بٹھایا گیا تھا۔ پراپرٹی ڈیلرز جب چاہیں کسی کو غدار، مجرم یا ہیرو بنوا دیتے ہیں شہزادگل نے تبصرہ کیا کہ سلیم صافی کے شو میں راؤ انوار۔۔۔ یہ انٹرویو کس نے کروایا، کیوں کروایا؟ سمجھ رہے ہیں ناں آپ! صحافی وحید مراد نے تبصرہ کیا کہ سلیم صافی کو کرائے کے قاتلوں کے انٹرویو کرانے کے لیے کون ہائر کرتا ہے؟ جعلی پولیس مقابلوں کے بدنام زمانہ کردار کو اینکر نے راؤ انوار صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔
وفاقی وزیر خرم دستگیر نے عمران خان کی حکومت ہٹانے کی اہم وجہ بتا دی۔ کہا رواں سال کے آخر میں بڑی تبدیلی آنا تھی، نظر آ رہا تھا کہ عمران خان اگلے پندرہ سال رہے گا، کچھ ماہ پہلے کہا گیا تھا کہ نیب کے 100 جج اور لگیں گے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی سمیت ہم سب نے نااہل ہونا تھا، ان کا خیال تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کا صفایا کر دیں گے، یہ ہمارے خدشات نہیں معلومات ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دل کی بات زبان پر آگئی، خرم دستگیر نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اپوزیشن کو کرپشن مقدمات سے بچانے کے لیے سازش کے ذریعے عمران خان حکومت کو ہٹایا گیا۔ خرم دستگیر کا ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ بدمعاش معیشت کو مار رہے ہیں۔ صحافی سلمانی درانی نےبھی خرم دستگیر دستگیر کے بیان کو کوٹ کرتے ہوئے ہائی لائیٹ کیا۔ تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ ملک نے کہا اس کلپ کو ہر پاکستانی تک پہنچنا چاہیے۔ عمران خان کا جرم عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کی وصولی ان کے کرپشن کیسز کو منطقی انجام پر پہنچا کرانکو جیلوں میں ڈالنا تھا۔ کہا تھا نا مہنگائی بہانہ تھی نشانہ تو اہم تقرری روکنا کرپشن بچانا لوٹ مار بچانا عوام کو رلانا تھا اور پاکستان کو تباہ کرنا تھا۔ عثمان ڈار نے کہا اس نالائق اور بے شرم شخص وزیر برائے بجلی خرم دستگیر نے قبول کیا ہے کہ ہم سب چور، ڈاکو اور لٹیرے اس سال کے آخر تک نااہل قرار پائے جاتے عدالتوں سے اس لیے ہم سب نے ملکر عمران خان کے خلاف سازش کی۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کہا خرم دستگیر نے سازش کا اعتراف جرم کر لیا ہے۔ جوکر نامی صارف نے کہا خرم دستگیر نے عمران خان کے بات پر مہر لگا دی یہ لوگ مہنگائی نہیں اپنے کرپشن کیسز ختم کرنے آئے ہیں۔ حقیقت ٹی وی نامی پلیٹ فارم نے تبصرہ کیا کہ آخر کار بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ عمران خان احتساب میں سب کو سزا دلوانے لگا تھا اسی لئے پلان بنا کہ اب عمران خان کو فارغ کرنا ہے۔
سابق وزیرمملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئندہ حکومت انشااللہ پیپلزپارٹی کی ہوگی، پورا شیئر لیں گے۔ہم نے پاکستان بچانے کیلئے اپنی سیاست کو کمزور کیا۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے یہ گفتگو لاہور میں پارٹی عہدیداران سے ملاقات کے دور ان کی اور کہا کہ اب میں پنجاب میں بیٹھوں گا،سب مل کر کام کریں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلزپارٹی پنجاب کے عہدیداران اور رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ کارکنان اور پارٹی رہنماؤں کو بحریہ ٹاؤن آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے میں نے گلبرگ شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اب میں نے پنجاب میں بیٹھنا اور کارکنان کو عزت دینی ہے،لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ پارٹی صدرگلبرگ میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جویہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا ہے ، سفید جھوٹ ہے، اگر دوبارہ حکومت کرنے کا موقع ملا تو پاکستان کو 110 ڈگری تبدیل کردوں گا، اشرف بارا کو پیپلزپارٹی میں شمولیت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سابق صدر مملکت نے عمران خان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انوکھے لاڈلے نے چار سال جو پالیسیاں اپنائے رکھیں آج اس کی وجہ سے مہنگائی ہے، یہ ہماری نہیں سنتے ،تب سنتے ہیں جب انہیں ضرورت پڑتی ہے، ہم نے پاکستان کو بچانے کیلئے اپنی سیاست کو کمزور کیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے آصف زرداری کے اس بیان کو مذاق قرار دیا اور کہا کہ آصف زرداری مسلسل 15 سال سے سندھ پر براجمان ہیں، 5 سال آصف زرداری صدر رہے، پاکستان میں 4 بار انکی جماعت کی حکومت رہی ہے تو کیا تبدیلی لیکر آئے؟ بلال ناصر نے تبصرہ کیا کہ جہاں مسلسل 13 سال سے اقتدار میں ہیں وہ کیا بدل لیا؟ وہاں آج بھی بچے بھوک سے مرتے ہیں، کتے کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ہے، کوئی ایمبولینس، فائر بریگیڈ یا ریسکیو سروس نہیں ہے، چول مارنے کی بھی حد ہوتی ہے شعیب میمن،علی سلمان علوی اور دیگر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری پہلے مسٹر 10 پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے، اب مسٹر 110 پرسنٹ بن گئے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب کیا سارا پاکستان بیچنے کاارادہ ہے؟ بعض نے طنز کیا کہ سندھ کو اچھی طرح بدل لو یہی کافی ہے۔پاکستان کو بخش دو۔
پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرلی ہیں جس پر ہر سیاسی جماعت کریڈٹ لے رہی ہے، تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ کریڈٹ اسکا ہے کیونکہ اسکے دور میں ہی ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع ہوا اور تمام پوائنٹس اسی نے پورے کئے۔ ن لیگ اسے اپنا کریڈٹ قرار دیتی ہے انکا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے تمام شرائط پوری ہونے کا اعلان جب کیا اس وقت ملک میں شہبازشریف کی حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی بھی کریڈٹ لینے میں پیش پیش ہے، اسکا کہنا ہے کہ حناربانی کھر نے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کا بھرپور انداز میں مقدمہ لڑا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری وزیرخارجہ بننے کے بعد لابنگ کررہے ہیں۔ پاک فوج اسے اپنا کریڈٹ قراردیتی ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنا چاہتا تھا لیکن آرمی چیف نے ڈی جی ایم او کی سربراہی میں سیل بنایا اور مختلف سول اداروں کی کوآرڈینشن سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان کا ایف اے ٹی ایف شرائط پوری کرنا کریڈٹ کس کا ہے؟ رؤف کلاسرا اور منصور علی خان عمران خان کے مخالف صحافی سمجھے جاتے ہیں وہ عمران خان پر تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے کریڈٹ تحریک انصاف حکومت، عمران خان اور حماداظہر کو دیا ہے۔ رؤف کلاسر اکا کہنا تھا کہ پاکستان کو مبارک۔ بہت کوششوں کے بعد بالآخر ہم گرے لسٹ سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا کریڈٹ عمران خان کی قیادت والی حکومت کو جاتا ہے جس نے اس معاملے پر سنجیدگی سے کام کیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ امید ہے کہ ہم اسی پر مطمئن نہیں ہوں گے اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بناتے رہیں گے۔ منصور علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے اخراج اگرچہ تھوڑا سا دور ہے۔ اسکا کریڈٹ حماداظہر اور تحریک انصاف کی ٹیم کو جاتا ہے جس نے اسے ممکن بنایا۔ صحافی ہارون رشید نے تبصرہ کیا کہ ملک فیٹف سے نکل گیا تو مبارک باد کے مستحق عمران خاں' حماد اظہر اور عسکری قیادت ہو گی۔ پی ڈی ایم نہیں' جس نے صرف فیصل آباد میں 30000 ہزار مزدور بے روزگار کر دئے ہیں۔ صحافی رضوان غلیزئی نے ایک تصویر شئیر کی جس میں اپوزیشن جماعتیں منی لانڈرنگ بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ رضوان غلیزئی نے لکھا کہ یہ 16 ستمبر کی تصویر ہے، جب پارلیمنٹ میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کے خلاف اپوزیشن جماعتیں احتجاج کرتے ہوئے واک آوٹ کررہی ہیں۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ آج یہی جماعتیں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلوانے کا کریڈٹ لے رہی ہیں۔ معروف کامیڈین اور صحافی شفاعت علی نے اسکا کریڈٹ حناربانی کھر اور بلاول کو دیا جس کے جواب میں رضوان علی غلیزئی نے لکھا کہ بالکل حناربانی کھر اور بلاول کی تعریف ہونی چاہئے کیونکہ جب فیٹف بل منظور ہورہے تھے یہ واک آؤٹ کررہے تھے۔ ایک اور ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے لکھا کہ شوکت ترین سمیت سب کو پتا ہے کہ حکومت کیوں تبدیل ہوئی لیکن کوئی بھی اصل وجہ نہیں بتا رہا کہ سچ بولنے پر کہیں 'قومی سلامتی' خطرے میں نہ پڑ جائے۔ ایکسپریس نیوز کے ہی صحافی وقاص چوہدری نے ایک کلپ شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ رہنمائی فرمائیں سابق اپوزیشن لیڈر ,موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کس قانون سازی پرمشترکہ اجلاس سے واک آؤٹ کیاتھا، منصور کلاسرا کا کہنا تھا کہ جس باپ بیٹے پہ منی لانڈرنگ کیس چل رہا ہے وہ بھی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ لے رہے ہیں کمال ہو گیا۔ صحافی محمد عمران نے لکھا کہ ویلڈن حماد اظہر ۔۔ ویلڈن پی ٹی آئی حکومت ثاقب ورک نے لکھا کہ پاکستان میں صحافیوں کا بھی ٹیسٹ ہونا چاہیے، پتہ نہیں کس محلے کی یونیورسٹیوں سے انھوں نے ڈگریاں لے رکھی ہیں، انکو اتنا بھی نہیں پتہ کہ پاکستان گرے لسٹ میں مسلم لیگ ن حکومت میں گیا تھا، پھر عمران خان حکومت نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں جس کو آج پوری دنیا نے سراہا ہے اے آروائی کی صحافی سحرش مان نے رضاربانی کے بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو کا ایک اقتباس شئیر کیا جس میں انکا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ بل منظور ہونے سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ رائے ثاقب کھرل نے پی پی کی نفیسہ شاہ اور احسن اقبال کے پرانے ٹویٹس شئیر کئے اور لکھا کہ فیٹف کی گرے لسٹ میں جانے پر ایک دوسرے کو زمہ دار ٹھہرانے والے آج ایک دوسرے کو کریڈٹ دے رہے ہیں۔ سیاست ہی منافقت ہے۔ اور منافقت ہی سیاست۔
گلگت بلتستان کی نلتر جھیل میں نوعمر بچہ ڈوب گیا، نکالنے پر حالت انتہائی خراب تھی لیکن ملتان سے تفریح کیلئے آنے والی لیڈی ڈاکٹر نے شوہر کے ساتھ ملکر بچے کی جان بچالی۔ پانی میں نہاتے ہوئے تیز لہروں کی وجہ سے ایک بچہ گہرے پانی میں ڈوب رہا تھا جس کو موقع پر موجود لوگوں نے پانی سے نکالا تاہم اس کی حالت خراب تھی اور سانس بند تھا۔ متاثرہ لڑکے کو ملتان سے سیرو تفریح کیلئے آنے والی لیڈی ڈاکٹرقرۃ العین نے شوہر کے ساتھ ملکر بچے کی جان بچائی۔ لیڈی ڈاکٹر بچے کو سی پی آر تھراپی کے تحت پریشر دیتی رہیں جبکہ ان کے شوہر بچے کو سانس دیکر اس کی سانس بحال کرنے کی کوشش کرتے رہے اور کچھ دیر کی کوشش کے بعد معجزانہ طور پر بچے کی سانس بحال ہوگئی۔ جس پر سوشل میڈیا صارفین مذکورہ میاں بیوی کے عمل کو خوب سراہا رہے ہیں، فیصل بیگ نامی صارف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو اس کام اور قیمتی جان بچانے کے اعتراف میں اعزاز دیا جانا چاہیے۔ ایک صارف نے کہا کہ یہ تکنیک سیکھنے میں صرف ایک گھنٹہ لگتا ہے اگر آپ کسی سکول کالج کے ٹیچر یا کسی عوامی عہدے پر ہیں تو خدا کیلئے لوگوں کو یہ ٹریٹمنٹ سکھانے کا انتظام کریں۔ اعجاز نے ڈاکٹر قرۃ العین کیلئے احترام کا اظہار کیا۔ کریم نے ان کی تعریف میں کہا کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت بچا لی۔ ان صارفین کے علاؤہ بھی متعدد صارفین نے ان کی تعریف کی ہے اور ان کی مدد کرنے کے اس عمل کو سراہا ہے۔ یاد رہے کہ سی پی آر ہنگامی حالت میں مریض کو ہوش میں لانے کے لئے چھاتی کو دبانے اور منہ سے منہ جوڑ کر سانس بحال کرنے کا عمل ہے، اگر یہ عمل اچھی طرح کیا جائے تو ایسے مریض جنہیں دل کا دورہ پڑا ھو یا پانی میں ڈوبنے سے سانس بند ہو تو خون اور سانس بحال کرنے میں مدد ملتی ہے۔
یوں تو پاکستانی فیشن کے لحاظ سے نئی چیزوں کو بڑی جلدی اپنا لیتے ہیں مگر اس بات کی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے عوام کی بڑی تعداد برانڈڈ کپڑے افورڈ نہیں کرتی۔ اقبال حسین نامی فیشن برانڈ نے ایک نئے ڈیزائن کا سوٹ متعارف کرایا ہے جس کی غیر معمولی قیمت نے عوام کے ہوش اڑا دیئے ہیں اور سوشل میڈیا پر صارفین نے اس پر طنزوتنقید کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس برانڈ کے سوٹ میں ایک صارف نے دلچسپی لی اور برانڈ کی انتظامیہ سے پوچھا کہ اس سوٹ کی کیا قیمت ہے جس پر پتہ چلا کہ اس کی صرف شلوار 40 ہزار کی ہے جبکہ قمیض کی قیمت ڈیڑھ لاکھ اور دوپٹہ دو طرح کا دستیاب ہے جس میں سے ہلکا 60 ہزار کا اور زیادہ کام والا 2لاکھ روپے کا ہے۔ Cey7xi-PagC برانڈ کی قیمت پر بیشتر صارفین نے تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ لگتا ہے انتظامیہ اس کی قیمت میں غلطی سے صفر شامل کر رہی تھی۔ جنید نامی صارف نے کہا کہ اتنے پیسوں میں تو وہ ساری زندگی کیلئے کپڑے خرید سکتا ہے۔ براؤنی نے کہا کہ شلوار 40 ہزار کی کون لیتا ہے؟ رضوان نجم نے کہا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو صرف مریم نواز ہی لے سکتی ہیں۔ جہانزیب نے کہا کہ یہ تو خاص آفر ہے جو کہ صرف مریم نواز کیلئے ہے تو جلدی کریں اس سے پہلے کہ آفر ختم ہو جائے یہ بہت سستا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ کیا اس میں ٹریکر لگا ہوا ہے۔ طلحہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ تو شلواریں پہن ہی نہیں رہے۔ مہک خان نے کہا کہ ہیوی دوپٹہ 2 لاکھ کا ہے اتنےمیں تو ہیوی بائیک آ جاتی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ابھی اوزار بند الگ سے ہے۔ ششٹم نامی صارف نے کہا کہ اس شلوار کو کاٹ کر آپ گھر کا راشن اور بجلی کا بل بھی بھر سکتے ہیں۔ سمیر نے کہا کہ اس قیمت کو دیکھ کر تو منیش ملہوترا بھی شرماجائے گا۔
حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں تیسری بار اضافے کے بعد عوام سراپا احتجاج بن گئی ہے، نوابشاہ میں رکشہ ڈرائیورز نے احتجاجا اپنے رکشوں کو آگ لگادی ہے۔ ٹویٹر پر سینئر صحافی و اینکر پرسن کامران شاہد نے نوابشاہ میں احتجاج کی ویڈیو شیئر کی جس میں رکشوں کو آگ لگاکر ڈرائیور احتجاج کررہے تھے، ویڈیو میں رکشہ یونین نوابشاہ کے صدر نے کہا کہ ہم 2 وقت کی روٹی کیلئے مزدوری کرتے ہیں ہم سے یہ روٹی بھی چھین لی گئی ہے، ہم اپنے بچوں کیلئے حکمرانوں سے بھیک مانگتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم بند کیا جائے۔ کامران شاہد نے یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ 10 جماعتوں کی یہ حکومت عوام کو غربت اور مہنگائی کی دلدل سے نکالنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، انہیں فوری طور پر مستعفیٰ ہوکر انتخابات کی جانب چلے جانا چاہیے۔ کامران شاہد کی اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی مہنگائی اور غربت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم اور رہنما تحریک انصاف شہرام خان تراکئی نے کہا کہ رکشوں کو آگ لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے، گھروں سے باہر نکلیں اور اس وقت تک احتجاج کریں جب تک اس حکومت کو احساس نا ہوجائے اور یہ مستعفیٰ نا ہوجائے، تاکہ ہم انتخابات کی جانب جاسکیں۔ فرخ حبیب نے لکھا کہ دیہاڑی دار رکشہ والا پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتا۔ بطور احتجاج رکشہ کا آگ لگانے پر مجبور ہوگیا۔ احتشام الحق نے سوال کیا کہ اگر یہ عمران خان کے دور میں ہوتا تو ہر جگہ بریکنگ چل رہی ہوتی۔ ایک صارف نے پاکستان میں موجودہ صورتحال کو بدترین قرار دیا۔ ایک صارف نے ن لیگی سپورٹرز پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو کہتے تھے "پیچھے مڑ وے میاں تیرے لوڑ پے گئی ہے" اب ان کی خارش ختم ہوگئی ہوگی۔ شہباز علی نے کہا کہ اس بدترین مہنگائی میں غریب آدمی کیسے گزارا کرے گا؟ عبدالوحید ملک نے کہا کہ عوام مررہی ہے اور ادارے فضول بحث میں الجھے ہوئے ہیں، دل خون کے آنسو روتا ہے کسی کو کیا فرق پڑے گا کہ ان کے بچے بھوکے رہیں یا مرجائیں۔ صوفیہ خان نامی صارف نے حامد میر،منصور علی خان، عاصمہ شیرازی اور دیگر صحافیوں کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا کہ اس واقعہ پر کوئی اپ ڈیٹ؟ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ رات پیٹرول کی قیمت میں 24 روپے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا ہے،شہباز حکومت کی جانب سے ایک ماہ سے کم عرصے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ تیسرا اضافہ ہے جس سے پیٹرول کی قیمت مجموعی طور پر 83 روپے89 پیسے اضافے کے بعد 233 روپے89 پیسے ہوگئی ہے۔
صحافی احتشام کیانی نے کہا کہ مریم نواز کی عدالت میں پیشی کے دوران دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب کمرہ عدالت میں موجود صدیق جان نے مریم نواز کے تسبیح کر کے ججز کو پھونکیں مارنے کا ٹوئٹ کیا۔ جس پر ان کے وکیل نے سماعت رکوا کر شکایت کر دی۔ تفصیلات کے مطابق مبینہ طورپر مریم نواز نے دوران سماعت تسبیح کے دانوں پر کچھ پڑھا اور پھر ججز پر پھونک دیا۔ جسے دیکھ کر صدیق جان نے ٹوئٹ کیا جسے بعد میں انہوں نے ڈیلیٹ کر دیا۔ واقعہ سے متعلق احتشام کیانی نے لکھا کہ اس معاملے کو عدالت نے سنجیدہ نہیں لیا بلکہ عدالت کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہدایت کی اور دوبارہ سماعت شروع کر دی۔ مذکورہ معاملے پر لیگی رہنما پرویزرشید نے ٹوئٹ کیا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، عمرانی صحافی جھوٹ کی چوبیس گھنٹے چلنے والی فیکٹری آج اس وقت فوراً ہی بند ہوگئ جب وکیل عرفان قادر نے ججوں کی توجہ دلائی کہ صدیق جان نامی شخص عدالت میں کھڑا ہو کر مریم صاحبہ کے بارے میں جھوٹے ٹویٹ کر رہا ہے،جھوٹے نے فوراً ہی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ اس کے بعد صدیق جان نے پھر ٹوئٹ کیا اور کہا کہ کیونکہ آپ نے کورٹ روم میں بیٹھ کر یہ ٹویٹ کیا ہے تو میں کورٹ روم میں کھڑے ہوکر کہہ رہا ہوں کہ میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ مریم نواز صاحبہ تسبیح پر کچھ پڑھ کر ججز پر پھونک رہی تھیں۔ صحافی و وی لاگر صدیق جان نے مزید کہا کہ جہاں تک ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کی بات ہے تو آپ کی پارٹی کے ایک رہنما سے اچھا تعلق ہے، انہوں نے بڑے بھائی کے طور پر کہا اور ساتھ ہی مجھے لگا کہ دوران سماعت مجھے یہ نہیں لکھنا چاہیے تھا، باہر جاکر لکھنا چاہیے تھا، یعنی ججز کے احترام میں ڈیلیٹ کی، تو اب دوبارہ ٹویٹ کر دی ہے، ڈیلیٹ کروا لیں۔
حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 24 روپے 3 پیسے اضافے کا اعلان کردیا، جس کے بعد فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 233 روپے 89 پیسے تک پہنچ گئی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 59 روپے 16 پیسے اضافے کیساتھ 264 روپے پر پہنچ گئی وفاقی وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب پیٹرولیم مصنوعات کے معاملے میں کوئی نقصان برداشت نہیں کرے گی۔ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو دبوچنے کے لیے ایک جال بچھایا پھر آئی ایم ایف سے معاہدے کیے، اب ہم ان ہی معاہدوں پر عمل پیرا ہیں اور انشاء اللہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نےسخت ردعمل دیا جن کا کہنا تھا کہ حکومت نے غریب کو ماردیا، اب مہنگائی کا طوفان آئے گا، نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھیں گے جبکہ اشیاء ضروری بھی مہنگی ہوجائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے سب سے زیادہ کسان متاثر ہوگا جس کا ٹریکٹر ، ٹیوب ویل اور دیگر زرعی آلات ڈیزل پر چلتے ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بھی بڑھنے کاخدشہ ہے۔ صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ 18 دن میں 84 روپے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے عام آدمی کے کچن کی ہر چیز مہنگی ہو چکی مزید مہنگی ہوں گی ٹرانسپورٹ کرائے دگنے ہو چکے اور کبھی پٹرول کی قیمتیں کم ہو بھی گئیں تو وہ اشیا خردونوش کی قیمتیں کم کرنے کا کوئی میکنزم نہیں اس لیے یوں کہیئے غریب اور متوسط طبقہ پس کے رہ جائے گا اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ یہ ہے تجربہ کاروں اور ان کو لانے والوں کا ایک اور تحفہ عوام کے لیے۔ دوسری جانب آزاد خارجہ پالیسی والے روس سے سستا تیل لے رہے ہیں۔ IMF کو خوب انصاف دلوائے رہے ہیں زرداری، شہباز ، مولانا اور اسفند یار ولی صاحب۔ عارف حمید بھٹی نے لکھا کہ بتا تو دیں پٹرول، ڈیزل کی قیمت کتنی بڑھا کر آپکو لانے والے خوش ہونگے۔ عام شہریوں کے جسم سے خون کے آخری قطرے سے لیکر گوشت ختم کر مطمین ہونگے یا پھر مزید قربانیاں دینے کا حکم دیں گے۔ بلاول اور ندیم افضل چن کی دورہ ایران کی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے خاورگھمن نے لکھا کہ چن صاحب ہمارے لئے دعا کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو صاحب کے کان میں آہستہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا بتا دیجئے گا کیونکہ کہ ان کا دعویٰ ہے کہ شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کا سہرا پیپلزپارٹی کے سر جاتا ہے۔ ڈیزل 263 روپے لیٹر کسان رل گیا جے۔ غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات میں یہ نیا اضافہ مہلک ہے۔ غریب اور مڈل کلاس کیلئے تباہی ہے۔ خدارا کچھ تو اس طبقے پر رحم کیا جائے۔ یہ معیشت کی بہتری نہیں تباہی کا راستہ بنے گا۔ بول کے رپورٹر عمر حیات سواتی نے تبصرہ کیا کہ یہ کہتے تھے کہ ہم تجربہ کار ہیں بہترین معاشی ٹیم رکھتے ہیں پچھلے والے ناتجربہ کار تھے۔ حد ہے عتیق چوہدری نے لکھا کہ خود کو تجربہ کار معاشی ٹیم کہنے والوں نے ایک مہینہ میں تقریباً پٹرول 84 روپے اور ڈیزل 125 روپے مہنگا کیا ہے، یہ تھا وہ معاشی پلان، آءی ایم ایف کے کہنے پر پوری قوم کو مہنگائی کے آگے جھونک دیں، عام آدمی یہ بوجھ کیسے برداشت کرے گا؟ اس معاشی تباہی و بدحالی کا ذمہ دار کون؟ صحافی عدنان عادل نے لکھا کہ یہ دھوکے باز مہنگائی، مہنگائی کا شور مچاتے ہوئے، مہنگائی کم کرنے کے دعوے کرتے ہوئے حکومت میں آئے تھے۔ ہم نیوز کے رپورٹر شاکر اعوان نے تبصرہ کیا کہ بلاول،حمزہ، مریم نے عمران خان کے خلاف مہنگائی مارچ کیا تھا اب خود عوام پر مہنگائی بم مار رہے ہیں۔ منصورکلاسرا نے لکھا کہ ظالموں نے قسم سے زراعت تباہ کر دی ہمارے وسیب کے کسان اس ٹائم سو گئے ہیں صبح اٹھیں گے تو بیچارے ڈیزل کی نئی قیمت سنکر مر ہی جائیں گے بے حس اشرافیہ راناعمران سلیم نے سوال کیا کہ ڈیزل کی قیمت بڑھنا کسان اور ٹرانسپورٹ سیکٹر دونوں کی موت ھے اوکاڑہ سے دیپالپور ویگن کا کرایہ 120 روپے سواری ھو جانا ھے جبکہ فاضلہ 24 کلومیٹر ھے۔ کسان چاول اور کماد کی فصل کیسے پکائے گا سمجھ سے باہر ھے ۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے عوام کو مشورہ دیا کہ چائے کی ایک ایک پیالی، دو دو پیالیاں کم کر دیں کیونکہ جو چائے ہم درآمد کرتے ہیں، وہ اُدھار لے کر درآمد کرتے ہیں،چائے کی ایک پیالی کم پینے کی اپیل پر سوشل صارفین میدان میں اتر گئے۔ رہنما پی ٹی آئی عثمان ڈار نے لکھا کہ مفتاح نے کہا پیٹرول چھوڑ دو احسن اقبال نے کہا چائے چھوڑ دو کچھ دن بعد نالائق اعلیٰ کہے گا کہ پاکستان چھوڑ دو! میزبان ملیحہ ہاشمی نے لکھا کہ احسن اقبال مشورہ دے رہے ہیں کہ مہنگائی ہے تو پاکستانی عوام چائے کی ایک پیالی کم پیا کریں،مریم اورنگزیب فرماتی ہیں کہ عمران خان نے پیٹرول 10 روپے سستا کرنے کا "مجرمانہ فیصلہ" کیا تھا،یہ دو جملے اگلی الیکشن مہم میں عوام کو یاد رہ گئے تو ن لیگ کیلئے بڑا مسئلہ ہو جائیگا۔ ہارون الرشید نے لکھا کہ احسن اقبال کا چائے کم پینے کا مشورہ بالکل درست ہے،زیادہ چینی اور چائے نقصان دہ ہے۔ زر مبادلہ بھی ضائع ہوتا ہے۔ کسی رائے کو محض اس لئے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ رائے دینے والا آپ کو پسند نہیں۔ رحیق عباسی نے لکھا کہ محترم احسن اقبال،22کروڑ لوگوں سے چائے کپ چھیننے کے بجائے اگر مسلم لیگ صرف ایک شریف خاندان کو سیاست سے کم کردے تو ملک دنوں میں خسارے سے نکل آئے گا۔ ایک دفعہ تجربہ کرکے تو دیکھیں،یقین مانیں اب نوازشریف سکہ رائج الوقت نہیں رہا۔ عدیل احسن نے لکھا کہ احسن اقبال فرماتے تھے کہ مسلم لیگ ن ہی واحد قوت ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے لیکن یہ بتانا بھول گئے تھے کہ یہ کام عوام کے پیٹ پر پتھر باندھ کر کیا جائے گا،آج جب دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے ایسے دور میں پاکستانی حکومت عوام کے چائے کے کپ پر نظر رکھی ہوئی ہے، افسوس۔ نوشین گیلانی نے لکھا کہ احسن اقبال آپ اپنی سانسیں کم کردیں ، تو ہم اپنی چائے کی پیالیاں کم کر دیں گے۔ رابعہ شاہین نے لکھا کہ مسلم لیگ ن کی تجربہ کار ٹیم کا معاشی پلان ملاحظہ فرمائیں، چار بھائی ہیں تو ایک روٹی کھائیں،مفتاح اسماعیل دن میں دو کپ چائے نہیں ایک کپ چائے پئیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ نااہل، نالائق امپورٹڈ حکومت، احسن اقبال سازش کرنے سے پہلے بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ ہمارے پاس تجربہ کار ٹیم ہیں جو ملک کو چلا سکتی ہے،اب احسن اقبال نے چائے-کی-پیالی سے معیشت کو ٹھیک کرنے کا مشورہ دیا! سعید بلوچ نے لکھا کہ ایک طرف پروفیسر احسن اقبال فرماتے ہیں عوام چائے پینا کم کردے، وزیراعظم کابینہ اور سرکاری افسران کا پٹرول کا کوٹہ چالیس فیصد کم کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات اگر گاڑی لیکر نکلیں تو کام نمٹاتے ہوئے گاڑی بند کرنا بھی گوارا نہیں کرتے جو پٹرول کا ضیاں ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ احسن اقبال عوام ایک چائے کی پیالی کم پئیے،عوام تو بھی ایک وہ والا پیالہ پی لے جو سقراط نے پیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے پرویز مشرف کے وطن واپس آنے سے متعلق ایک ٹوئٹ کیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین ان کے ٹوئٹ کو این آر او کیلئے دی گئی درخواست قرار دے رہے ہیں۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر نوازشریف نے کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں۔ نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے، وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالی سے دعاگو ہوں۔ وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے کراچی والا نامی صارف نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ این آر او کیلئے دی گئی درخواست ہے۔ نوازشریف پر تنقید کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے لکھا کہ اہل زباں کب مانتے تھے حفیظ۔۔۔۔۔ بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں میں۔ صحافی معید پیرزادہ نے کہا کہ میاں صاحب یہ یقیناً آپ کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک اچھا اشارہ ہے! آپ نے جنرل مشرف کے ہاتھوں تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ انہیں معاف کر دیا جائے مگر اس کے باوجود اس وقت ایسی بات سے غلط مطلب ہی نکلے گا اگر ٹیکس کے پیسے ایسی چیزوں میں برباد کیے گئے۔ صحافی رضوان غلزئی نےکہا کہ پرویز مشرف کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے فیصلے پر ناچ ناچ کر گھنگرو توڑنے والے بھی آج کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پرویز مشرف کے لیے بہترین فیصلہ کیا۔ اوئے کون لوک او تسی؟ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا "راجو بن گیا جنٹلمین" شفایوسفزئی نے کہا کہ یوں بیانیہ اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ اکبر نامی صارف نے کہا کہ ذاتی دشمنی پر ہی کسی کو معاف کیا جاسکتا ہے .. قومی اور آئینی دشمنی پر معافی اور سہولیات نہیں دی جاسکتی جب تک ڈیل نہ لینی ہو عمران خان یہی کہتا ہے کہ میری نوازشریف اور زرداری سے کوئی زاتی دشمنی نہیں یہ قوم اور ملک کے مجرم ہیں لہذا میں ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ صحافی مغیث علی نے کہا کہ میاں جدوں آئے گا لگ پتہ جائے گا، آج سے جو صحافی بھائی آمریت کیخلاف ہے اور جمہوریت کے نعرے لگاتا ہے وہ نواز شریف سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اسے بھی مجرم قرار دے اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر جناب آپ خود ایک بہت بڑے مجرم ہیں۔ صحافی سرال المیڈا نے کہا بالکل صحیح کہا لیکن یہ بات آپ کو پاکستان میں آکر کہنی چاہیے۔ ظفرشفیع بلوچ نے کہا کہ اچھا اچھا دکھنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دیکھو نہ ابو اب میں سدھر گیا ہوں سب کو معاف بھی کررہا ہوں۔ جبکہ سلیم صافی نے ان کے فیصلے کی حمایت میں کہا کہ بعض معاملات کو سیاسی نہیں بلکہ انسانی حوالوں سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پرویز مشرف کے معاملے کو سیاسی کی بجائے انسانی حوالے سے دیکھ کر نوازشریف نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو فوجی قیادت نے پاکستان واپس بلا کر جرات مندانہ فیصلہ کیا، نوازشریف کے پاس مشرف کی واپسی کے فیصلے کی حمایت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، پاکستان کے تمام آرمی چیفس کے خلاف نوازشریف نے لڑائی لڑی۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پرویز مشرف کو فوج اوراس کی قیادت نے پاکستان واپس بلا کر درست اور جرات مندانہ فیصلہ کیا، نوازشریف کے پاس اس فیصلے کی حمایت کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نہیں تھا۔ شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان کے تمام آرمی چیفس کیخلاف نوازشریف نے لڑائی لڑی اور سیاسی بحران پیدا کیا اور مطلب پڑنے پر ان کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ امپورٹڈ حکومت کا ایجنڈا اپنے کیسسز ختم کرنا اور آئی ایم ایف کی مہنگائی مسلط کرنا ہے، عالمی سازش کی عدم اعتماد تحریک کی شروعات بھی لندن سے ہوئی، اب نواز شریف کو پاکستان آنے سے کس نے روکا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مزید کہا کہ آج پنجاب میں آئین کے برخلاف 2اجلاس ہو رہے ہیں، جس کی پاکستان اور دنیا میں کوئی مثال نہیں۔
پنجاب حکومت نے اسپیکر کے اختیارات محدود کردئیے اور صوبائی اسمبلی کو محکمہ قانون کے ماتحت کردیا۔ صوبائی وزیر عطاء اللہ تارڑ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود کردیئے گئے ہیں، پنجاب اسمبلی کے انتظامی امور محکمہ قانون کے ماتحت آگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اجلاس کو ڈی نوٹیفائی اور نوٹیفائی کرنا سیکرٹری اسمبلی کے اختیار میں نہیں، اب اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون جاری کریں گے۔ اس پر مختلف صحافیوں، سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا پنجاب میں عملی طور پر مارشل لاء لگ چکا ہے؟ یہ کونسی جمہوریت ہے کہ پنجاب اسمبلی ایک سرکاری افسر کے ماتحت کردی گئی؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی بھی وزارت دفاع یا وزارت زراعت کے حوالے کردیں۔ سابق وزیر قانون فواد چوہدری نے ردعمل دیا کہ ملک احمد خان اگلا آرڈیننس جاری کروا کے عدلیہ کو بھی فارغ کریں اور گورنر پنجاب چیف جسٹس کے اختیارات بھی خود ہی لے لیں ، تکلف چھوڑیں فرخ حبیب نے تبصرہ کیا کہ پنجاب اسمبلی کو غیر آئینی آڑڈینینس کے ذریعے پنجاب میں جعلی حکومت کے تابع بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے پچھلے 2 ماہ سے اس ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے غیر آئینی آرڈینینس کے زریعے اسمبلی سے پاس شدہ قوانین پر شب خون قابل قبول نہیں سابق وزیر میاں اسلم اقبال کا کہنا تھا کہ بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ اس وقت امپورٹڈ جعلی حکومت اور غیر آئینی مسلط وزیراعلی کی وجہ سے مذاق بن چکا ہے ۔ سیاسی اور آئینی بحران ختم کرنے کا واحد طریقہ عوام کو انکے نمائندگان چننے کا حق لوٹانا ہے ۔ایسا فلفور نہ کیا گیا تو خدانخواستہ بڑا نقصان ہو سکتا ہے صحافی مغیث علی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں آئین کا قتل عام۔۔۔!!! ایسے صوبہ پنجاب چلایا جائے گا ؟ معزز جج صاحبان جاگ رہے ہیں ؟ یا رات 12 بجے آنکھ کھلتی ہے ؟ ایم پی اے مسرت چیمہ نے لکھا کہ پنجاب اسمبلی کے قوانین کے ساتھ جو کچھ حمزہ شہباز اور اس کا خاندان کر رہا ہے اس کی. مثال بدترین آمریت میں بھی نہیں. ملتی. جو حکومت بجٹ تک منظور نہیں کروا سکتی وہ کس حیثیت سے اسپیکر کے اختیارات کم کر رہی ہے؟ کیا اسمبلی کی حیثیت بھی اپنی کنیزوں جیسی کرنا چاہتے ہیں؟ صحافی رائے ثاقب کھرل نے تبصرہ کیا کہ آخر کار پنجاب اسمبلی پر بھی حکمرانی ختم سمجھو۔ گن کر چار صحافی صرف اندر جا سکتے تھے۔۔ باقی سب کے کیے ممنوعہ علاقہ تھا۔ علی سلمان علوی کا کہنا تھا کہ بھان متی کا کنبہ آئین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس غیر آئینی غیر قانونی آرڈیننس کو فوراً سے بیشتر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نتائج کی سنگینی سے بے نیاز صاحبان اختیار مزید ننگے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ رحیق عباسی نے لکھا کہ کوئی چیف جسٹس صاحب کو بتائے جو کل یہ فرما رہے تھے کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ تجاوز نہ کرے۔ ادھر پنجاب میں حکومت اور گورنر نے نہ صرف تجاوز کیا ہے بلکہ بے چاری اسمبلی کی آبروریزی بھی کردی ہے۔ احمد ندیم کا کہنا تھا کہ اگر گورنر پنجاب ایسا آرڈیننس جاری کر سکتا ہے کہ وہ سپیکر کو وزارت قانون کے ماتحت دے سکتا ہے تو پھر بجٹ بھی کسی IG کے دفتر میں ہی منظور کروا لینا تھا- پھر بجٹ اجلاس ایوان اقبال میں کرنے کا ڈھکوسلہ کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ وقار نے لکھا کہ پنجاب اسمبلی وزارت قانون کے ماتحت ہوگی مطلب وزیراعلی پنجاب بھی وزارت قانون کے ماتحت آ جائے گا جنید کا کہنا تھا کہ یعنی سیکرٹری قانون اس وقت پنجاب کی منتخب اسمبلی کا باس ہے؟ اقلیتی حکومت ہو تو یہی تماشے ہوتے ہیں

Back
Top