خبریں

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج عطا ربانی کی عدالت نےتھانہ گولڑہ کے علاقہ ای الیون میں نازیبا ویڈیو بنانے، تشدداور بلیک میلنگ کیس میں عدم پیشی پر منحرف ہونے والے متاثرہ لڑکےاور لڑکی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ عدالت نے ایس ایس پی آپریشن کو ہدایت کی ہے کہ دونوں کو عدالت میں پیش کیاجائے۔ سماعت کے دوران ملزمان عثمان مرزا،فرحان ،عطا الرحمان ،محب خان، ریحان اور عمر بلال کو عدالت میں پیش کیاگیا۔ پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اور متاثرہ لڑکا اور لڑکی کے وکیل ارباب عباسی عدالت میں پیش ہوئے،اس موقع پر متاثرہ لڑکا اور لڑکی کے وکیل اور جج کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، ارباب عالم عباسی ایڈووکیٹ نے کہاکہ مجھے ایسا لگتا ہے آپ مجھ سے پرسنل ہو رہے ہیں،میں نے غلطی کی وکالت نامہ دیکر اگر آپ کہتے ہیں وکالت نامہ واپس لے لیتا ہوں،میرا لڑکا اور لڑکی سے رابطہ ہوا وہ شہر سے باہر ہیں،استدعا ہے کہ تاریخ دے دیں آئندہ سماعت پر پیش کر دونگا۔ متاثرہ لڑکا اور لڑکی کے وکیل نے کہا میرا پہلا تجربہ ہے اس قسم کے کیس میں پیش ہو رہا ہوں، وکیل نے کہاکہ عدالت نے زیادہ سختی نہیں کر دی آپ نے وارنٹ جاری کرنے ہیں؟ جج نے کہاکہ میں تو وارنٹ گرفتاری جاری کرونگا ایس ایس پی کو کہوں کہ گا لڑکا لڑکی کو پیش کریں، تاریخ تو مل جانی ہے لیکن میں طریقہ اپنا اپناؤں گا۔ جج نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست آگئی ہے لڑکا اور لڑکی کو عدالتی طریقہ کار پر بلالوں گا،وکیل نے کہاکہ میں استدعا کر رہا ہو اگلی تاریخ پر لے آؤنگا، آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ میں کسی اور طریقہ سے پیش ہو رہا ہوں،ہم عدالتوں کی عزت کرتے ہیں اور ہم عزت دار لوگ ہیں استدعا کرنا ہمارا کام ہے۔ جج نے کہاکہ میں توقع کر رہا تھا انہوں نے آج آنا تھا،آپ کی استدعا آگئی بہت شکریہ میں حکم نامہ جاری کر دونگا،اس موقع پر وکیل نے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے کو پیش کرنے کی یقین دہانی کرا دی جس پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر وکیل نے ایک بار پھر استدعا کی کہ متاثرہ لڑکا اور لڑکی شہر سے باہر ہیں پہنچنے میں تین گھنٹے لگ جائیں گے، عدالت نے دونوں کو طلب کرتے ہوئے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت 19 جنوری تک کیلئے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو سمیت دیگر مسنگ پرسنز کیسز کی سماعت کی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی درخواست پر جبری گمشدگی کیسز کی مؤثر تفتیش کے لیے3 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے 14 فروری تک رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف کے مترادف ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے اس متعلق واضح پیغام آنا چاہیے، ایسے کیسز میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ ایک صحافی کو یونیفارم میں ملبوس لوگوں نے اٹھایا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے مگر تفتیش میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ اٹارنی جنرل نے کہا گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے، اکثر نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک چھوڑا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ایسا بھی ہوا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پرلٹکائے گئے، کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے، وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے، اب مفرور اور اشتہاری ہیں، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کی نشاندہی ہو جائے اور چیف ایگزیکٹو ایکشن نہ لیں تو وہ جوابدہ ہیں، اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہوجائے تو یہ اچھا میسج جائے گا۔ ایس ای سی پی افسر کو اٹھایا گیا جس نے واپس آ کر کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا، آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے کہا جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کرسکتیں، کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس کورٹ کو حل بتائیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائیکورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اورانٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں، اگروفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ ایسے واقعات سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے، یہ کورٹ کسی کو سمن کر کے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتہ، آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہوسکتے ہیں، لیکن ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پرشک کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پراعتماد ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں، انہوں نے ایک مسنگ پرسن کیس میں ملوث انٹیلی جنس افسر کی تصویر دکھائی تو لاپتہ شہری واپس آگیا اور بیان رکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟ حکومت اور وفاقی کابینہ جوابدہ ہے، اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ آئی جی اسلام آباد سے اس متعلق رپورٹ منگوا لیں۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے، سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟ ایمان مزاری نے کہا اگر کوئی شخص لاپتہ ہو جائے تو اس کو تلاش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کا واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کوبرداشت نہیں کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے؟ عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی اورآئندہ سماعت پر 14 فروری کو حتمی دلائل طلب کر لیے۔
مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کا وزیراعظم عمران خان پر مذہب کے استعمال اور ریاست مدینہ کو ڈھال بنانے کا الزام۔۔ وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف و سابق وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں جو معاشی و انتظامی بحران جنم لے رہا ہے اس کو چھپانے کیلئے مذہب کا سہارا لینا انتہائی پریشان کن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے "روح سیاست مدینہ ، پاکستان کی تبدیلی" سے متعلق ایک مضمون لکھنے پر ردعمل دیتے ہوئےشہباز شریف نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسی خود غرضانہ اندا زسیاست ہے جس سے امید سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ یادرہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ریاست مدینہ کی بنیادی اساس اور پاکستان میں اس کی بنیاد پر کی جانے والی تبدیلیوں کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا گیا جسے انگریزی اخبار ٹریبیون نے شائع کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے شائع شدہ اس مضمون کو ٹویٹر پر شیئر کیا اور کہا کہ ریاست مدینہ کے اصول ہمارے پیارے نبی ﷺ نے وضع کیے تھے ، انہی اصولوں پر ہردور کی عظیم ترین تہذیبوں کی بنیاد رکھی گئی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ قوموں کےعروج و زوال کا معاملہ تہذیبوں سے مختلف ہوتا ہے، آج ہمیں انہیں اصولوں پر عمل کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرکے جدوجہد کرنی چاہیے۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں پولیس اہلکار نے خودکشی کرلی، اہلکار کشمیر روڈ پر قتل کیے گئے شاہ رخ کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تھا۔ ملزم کی خودکشی پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے کیونکہ پیر کے روز ہی پولیس نے ملزم علی جعفری سمیت 4 ساتھیوں کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق کرنے والے پولیس اہلکار کو سی سی ٹی وی کی مدد سے شناخت کیا گیا تھا۔پولیس جب پولیس اہلکار فرزند کو گرفتار کرنے کیلئے پہنچی تو اس نے گرفتاری کے ڈر سے گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔خودکشی کرنیوالا ڈسٹرکٹ ویسٹ میں تعینات تھا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ایسٹ قمر رضا جسکانی کے مطابق شاہ رخ قتل کیس میں ایک مشتبہ ملزم فرزند جعفری کی گرفتاری کے لئے پولیس نے گلشن اقبال بلاک 7 میں ایک ریسٹورنٹ پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس کو دیکھ کر ملزم نے اچانک اپنا پستول نکال کر کنپٹی پر خود کو گولی مارکراپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا،پولیس نے ملزم کی موجودگی جی پی ایس کے ذریعے ٹریس کی تھی۔ دوسری جانب ملزم فرزند علی گرفتاری معمہ بن گئی، پولیس اہلکار فرزند علی جعفری کی گرفتاری کی خبر پیر کے روز تمام میڈیا پر نشر ہوچکی تھی۔میڈیا پر یہ خبر منظرعام پر آچکی تھی کہ ملزم فرزند علی کو 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس صورتحال نے فرزندعلی جعفری کی مبینہ خودکشی پر سوالات کھڑے کردئیے۔ اگر طرف پولیس نے یہ دعویٰ کیا کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تو دوسری طرف یہ دعویٰ کہ ملزم نے چھاپے کے دوران اپنا پستول نکال کر خودکشی کرلی، اس نے کئی سوالات اور شکوک وشبہات کو جنم لے لیا۔ کیا پولیس نے اصل ملزمان کو بچانے کیلئے علی جعفری کو مارکر خودکشی کا رنگ دیا؟ اگر ملزم نے چھاپہ کے دوران خودکشی کرلی تو پولیس نے اسکی گرفتاری کا دعویٰ کیوں کیا؟ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے کشمیر روڈ میں شاہ رخ کو ڈکیتی مزاحمت پر ماں اور بہن کے سامنے قتل کردیا گیا تھا۔ مقتول نے گھر کی دہلیز پر ملزم کو ماں کے زیورات چھینتے دیکھا تو اس نے مزاحمت کی جس پر ملزم نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں نوبیاہتا دلہا شاہ رخ جاں بحق ہوگیا ۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے چار لیگی رہنماؤں کی نواز شریف کی مخالفت کے دعوؤں پر دوبدو جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف میں مخالفت کا انکشاف کردیا ہے۔ سماء نیوز کے پروگرام "لائیو ود ندیم ملک" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو حکومتی وزراء نے دعویٰ کیا اس کے جواب میں میں آپ کو خبر دیتا ہوں کہ تحریک انصاف کے چار لوگ اس وقت لائن میں لگے کھڑے ہیں کہ عمران خان خود ناکام ہوچکے ہیں ہمیں ان کی جگہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان چار میں سے ایک جنوبی پنجاب، ایک کے پی کے، ایک جہلم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک کراچی اور اسلام آباد کے ہائبرڈ رہنما ہیں اور یہ پیشکش کررہے کہ ہم پر وزیراعظم کیلئے ہاتھ رکھ دیا جائے تو ہم اس نظام کو 2023 تک کھینچ سکتے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ درحقیقت یہ معاملہ تحریک انصاف کے اپنے اندر کا ہے جسے چھپانے کیلئے حکومتی وزراء اسے ن لیگ سے منسوب کررہے ہیں، ہم اپوزیشن ہیں ہم سے کون ملاقات کرے گا، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو بھی اس حکومت کا گنداپنے دامن میں لکھوانے کیلئے ایسے ماحول میں کوئی بھی شخص تیار نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ حکومتی وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ کے 4 ایسے رہنما ہیں جنہوں نے خود کو عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد عبوری سیٹ اپ میں وزیراعظم کے منصب کیلئے پیش کیا۔ حکومتی وزراء کے مطابق اس منصوبے میں شامل چاروں رہنماؤں نے ایک اہم ملاقات میں یہاں تک کہا کہ نواز شریف نے ملک کے ساتھ برا کیا مگر ہمارا کیا قصور ہے آپ ہمارا سوچیں، یہ چاروں رہنما نواز شریف کو سائیڈ کرکے خود ن لیگ کی قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فوج کی عزت کی خاطر توسیع کا قانون پاس کرایا۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام '7 سے 8' میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی عزت کی خاطر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون پاس کرایا گیا، توسیع سے متعلق قانون میں تبدیلی درست نہیں۔ پروگرام کی اینکر نے سوال کیا کہ اگر ن لیگ اقتدار میں آئے گی تو کیا ن لیگ بھی یہ قانون واپس کروائے گی تو انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون واپس ہوگا، ناصرف ہم واپس لیں گے بلکہ فوج بھی واپس کروائے گی۔ شاہد خاقان عباسی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پروگرام اینکر کرن ناز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن میں شاہد خاقان عباسی کا اپنا ایک خاص مقام ہے، اگر وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو یقیناً ان کو نواز شریف صاحب کی جانب سے کوئی سگنل مل گیا ہے، اس سے قبل بھی کبھی ن لیگ کے دورحکومت میں کبھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ پیش نہیں آیا تھا۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون پر مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی حمایت کی گئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کی نائب صدر کی جانب سے کہا گیا کہ شکر ہے کہ وہ ایک گناہ کی حصہ دار نہیں بنی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ اس سے قبل 2019 کے آخر میں بھی کئی روز تک موضوع بحث رہا تھا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اُن کی ملازمت کی مدت میں تین برس کی توسیع کے سرکای احکامات جاری کیے تو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پہلے قانون سازی کا حکم دیا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی تین سالہ مدت مکمل کر کے 2019 میں ریٹائر ہونا تھا البتہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور وزیرِ اعظم عمران خان نے ان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع رواں سال نومبر میں ختم ہو رہی ہے البتہ پاکستان میں ایک بار پھر اس معاملے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
ن لیگ میں اختلافات سے متعلق خبریں تو کافی عرصے سے سامنے آرہی ہیں مگر اس بار پارٹی سے قائد نواز شریف کا پتا کاٹنے کی خبریں باہر آرہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی وزراء نے ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ ن لیگ کے 4 ایسے رہنما ہیں جنہوں نے خود کو عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد عبوری سیٹ اپ میں وزیراعظم کے منصب کیلئے پیش کیا۔ حکومتی وزراء کے مطابق اس منصوبے میں شامل چاروں رہنماؤں نے ایک اہم ملاقات میں یہاں تک کہا کہ نواز شریف نے ملک کے ساتھ برا کیا مگر ہمارا کیا قصور ہے آپ ہمارا سوچیں، یہ چاروں رہنما نواز شریف کو سائیڈ کرکے خود ن لیگ کی قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز نے بھی اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جس میں دعوی کیا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرا کر ایک عبوری حکومت قائم کرنے اور ن لیگی وزیراعظم لانے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور شہباز شریف کی مشاورت سے چار نام بھی فائنل کرلیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان چار ناموں میں سب سے اوپر جس رہنما کا نام تھا وہ خود ہی میاں نواز شریف کو اس حوالے سے منانے کیلئے لندن بھی گئے اور نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی تاہم میاں نواز شریف یہ تجویز سن کر ناراض ہوگئے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق لیگی رہنما نے نواز شریف کو قائل کرنے کیلئے کہا کہ پارٹی کے لوگ یہاں تک کہ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی کے اراکین بھی میرا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں اس لیے اپنا نام سب سے اوپر لکھا ہے ۔ نواز شریف نے کہا کہ آپ کو یہ فہرست بنانے سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا ہمیں عبوری سیٹ اپ نہیں فوری طور شفاف انتخابات چاہیے ہم کیوں اس نظام کو بچانے کیلئے ٹکٹوں کے وعدے کررہے ہیں۔ اے آروائی نیوز کے ہی پروگرام "آف دی ریکارڈ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رہنما پاکستان تحریک انصاف فیصل واوڈا نے ان چاروں رہنماؤں کے نام بھی لیے اور بتایا کہ شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، احسن اقبال اور مفتاح اسماعیل دروازہ کھٹکھٹانے گئے تھے کہ 90 کی طرز سیاست پر کوئی منصوبہ بنایا جائے۔
اپنی حکومت پر تنقید کرنے پر پاکستان تحریک انصاف نے ایم این اے نور عالم خان کو شوکاز جاری کرنا کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت نے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے، پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدرپرویز خٹک رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کو شوکاز جاری کریں گے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں اور قومی اسمبلی اجلاس میں سینیئر قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی حکومتی پالیسیوں پر سخت تنقید کی تھی۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئےکہا کہ پرویزخٹک مجھےکس حیثیت میں شوکاز جاری کریں گے، پرویز خٹک پارٹی کے چیئرمین نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے پارٹی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی ،مجھے بتایا جائے میں نے کہاں پارٹی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔مہنگائی اور بیروزگاری پربات کرناخلاف ورزی ہےتو میں نےکی ہے اورکرتا رہوں گا، پھر مجھے ایک نہیں سو بار شوکاز جاری کیے جائیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں منتخب نمائندہ ہوں،عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا میری ذمہ داری ہے، میں یہ ذمہ داری ادا کرتا رہوں گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ن لیگ کے اہم رہنماوں پر ڈیل مانگنے کا الزام سیدھا اسٹیبلشمنٹ پر الزام ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'خبر ہے' میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اگر کسی مجرم کو ڈیل دی جارہی ہے تو کون دے رہا ہے، سیدھا سیدھا حکومت فوج کو بدنام کررہی ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور اگر کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہے تو ثبوت لے کر آئے، ایسے میں وزراء کی جانب سے اس طرح کے بیان سیدھا سیدھا فوج کو بدنام کرنے کے لئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فواد چوہدری بڑے پرانے سیاستدان ہیں وکٹ کے دونوں طرف بہت اچھے سے کھیلتے ہیں لیکن اب جب بقول ان کے ڈیل ہو رہی ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ ڈیل کے لئے چاروں ن لیگی کس کے پاس گئے ہیں۔ ڈیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار طاہر ملک کا کہنا تھا کہ یہ سیدھا اسٹیبلشمنٹ پر الزام ہے، کوئی ڈیل لینے کس کے پاس جاسکتا ہے، ایک وزیراعظم دوسرا اسٹیبلشمنٹ، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے وضاحت کر دی کہ کوئی ڈیل نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو اسی سے پوچھیں کہ کون کر رہا ہے ڈیل کیا محرکات ہیں۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ آج ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ڈیل پر بیان دے دیا جس کے ذریعے حکومت نے کامیابی سے کنفیوژن پیدا کر دیا ہے کہ یہاں فیصلے نہ اسمبلیوں میں ہوتے ہیں نہ پارلیمنٹ میں فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز فواد چودھری نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ن لیگ 4 بڑے رہنما ڈیل مانگ رہے ہیں کہ ہمارے بارے میں سوچا جائے ہم تیار ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے شریف خاندان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف فیملی نے حکومت سے چار لوگوں کی ڈیل مانگی ہے تاکہ یہ لوگ ملک سے باہر جا سکیں۔ تفصیلات کے مطابق فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا تھاکہ ڈیل مانگی جارہی ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کو باہر جانے دیں۔ جن لوگوں کیلئے ڈیل مانگی جا رہی ہے ان میں شہباز شریف، ان کا بیٹا، نواز شریف اور ان کی بیٹی شامل ہیں۔ شاہد خاقان عباسی پاکستان میں ہی رہیں گے۔ شہباز گل نے کہا کہ شریف فیملی کو ڈیل نہیں دی جائے گی، یہ چکن برگر مانگ رہے ہیں ، ہم انہیں ابلا ہوا آلو بھی نہیں دیں گے، ان کے سامنے عمران خان کھڑا ہے، احتساب ہوگا اور یہ تمام لوگ جیل جائیں گے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا ویزا برطانیہ میں جلد منسوخ ہونے والا ہے، بتانا پڑے گا کہ چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں کروڑوں اربوں روپے کہاں سے آئے، جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب ووٹ کا مقابلہ ووٹ سے ہو گا، ٹھگوں کے خلاف الیکشن لڑنا مشکل ہوتا ہے، آر ٹی ایس بیٹھنے کی بات کی جاتی ہے، نتائج کے بعد ایسے شخص کو جتوایا جس کا حلقے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان صحت کے شعبے میں انقلاب لے کر آئے ہیں اور غریبوں کو صحت کارڈ دیا ہے جس سے وہ مہنگے ہسپتالوں میں علاج کراسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہ کروانے والے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف ایکشن لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے 150 سے زائد اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کردی ہےجن میں پنجاب اسمبلی کے69 ، قومی اسمبلی کے 36 ، خیبر پختونخوا اسمبلی کے21، سندھ کے 14، بلوچستان اسمبلی کے7 جبکہ سینیٹ کے 3 اراکین شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اثاثہ جات کی تفصیلات وگوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع نہ کروانے پر ان اراکین کی رکنیت معطل کی گئی ہے ، یہ اراکین سینیٹ و متعلقہ اسمبلیوں کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوسکیں گے اور نہ ہی کسی قسم کی قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکیں گے۔ جن اراکین کی رکنیت معطل کی گئی ان میں موجودہ کابینہ کے رکن وزیر توانائی حماد اظہر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیرمملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری شامل ہیں۔ اسی طرح حکمران جماعت کے راجہ ریاض، صداقت عباسی، عامر لیاقت، سردار یار محمد رند ،فہمیدا مرزا اورخالد مقبول صدیقی بھی رکنیت معطل کروانے والے اراکین میں شامل ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی رکنیت بھی معطل کی گئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک، سینیٹر سکند مندھرو اور پنجاب اسمبلی کے رکن اویس لغاری کی رکنیت معطل کردی گئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کے ریونیو میں 600 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے جو کہ انڈسٹری کیلئے خوش آئند ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں میڈیا ریونیو کا گراف شیئر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میڈیا کے ریونیو میں 2018 سے 2021 تک 600 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ میڈیا کے ریونیو میں اضافہ خوش آئند ہے، وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ معیشت مستحکم نہ ہو تو اشتہارات میں اتنا اضافہ کیسے ممکن ہے۔ فواد چودھری نے میڈیا مالکان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ذرا سوچئے اور خدا کیلئے میڈیا ورکرز کی تنخواہوں میں اضافہ کریں تا کہ انہیں بھی مہنگائی کا اثر کم لگنا شروع ہو۔
مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں کے معاملے پر قائم کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف ایکشن شروع ہوگیا ہے۔ نجی خبررساں ادارے اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے مری میں جائے حادثہ کا دورہ کیا اور سڑکوں، ہوٹلوں کی پارکنگ سمیت تمام انتظامات کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کی تھی جس کی روشنی میں کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سڑکوں کی بندش کا سبب بننے والی عمارتوں، تعمیرات اور غیر قانونی ہوٹلز و تجاوزات کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے جس کی نگرانی مری کے میونسپل آفیسر پلاننگ رضا الہیٰ کررہے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات کے تحت بھوربن روڈ، بانسرہ گلی پر عمارتوں کو گرانے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ مری میں ان عمارتوں کے خلاف آپریشن بھی شروع کیا گیا ہے جن میں پارکنگ کی سہولت موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ 8 جنوری کو مری میں شدید برفباری اور ٹریفک جام کے باعث گاڑیوں میں 22 افراد کی ہلاکت کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی نے تحقیقات کے دوران مری کے آپریشنل عملے کے بیانان قلمبند کیے جس میں انکشاف ہوا کہ واقعہ کے وقت برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر موجود تھیں اور ان گاڑیوں کو چلانے والا عملہ اس موقع پر موجود نہیں تھا۔ کمیٹی نے محکمہ جنگلات کے اہلکاروں سے بھی سوال وجواب کیے جس کے انہیں تسلی بخش جوابات نہیں ملے، کمیٹی نے اپنی سفارشات میں مری میں غیر قانونی تجاوزات کو ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے آپریشن کی تجویز دی تھی۔
سپریم کورٹ نے تربیلا ڈیم متاثرین کو معاوضہ، متبادل زمین کی ادائیگی سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے واپڈا کو حکم دیا ہے کہ واپڈا راستہ نکالے اور متاثرین کی تلافی کرے۔ عدالت نے تربیلا ڈیم متاثرین کا 60 سال بعد فیصلہ کرتے ہوئے متاثرین کے کلیمز کے خلاف واپڈا کی اپیل واپس لینے پر خارج کردی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت نے متاثرین کو معاوضہ، متبادل زمین کی ادائیگی سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ کیس کا فیصلہ آئندہ بننے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دیا۔ نامزد چیف جسٹس نے واپڈا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پالیسی کے مطابق تربیلا ڈیم متاثرین کو متبادل زمین نہیں ملی، 206 متاثرین کو دینے کے لیے کتنی زمین درکار ہے؟ واپڈا کے وکیل نے جواب دیا کہ متاثرین کو دینے کے لیے 5000 ہزار ایکڑ زمین درکار ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ واپڈا راستہ نکالے اور متاثرین کی تلافی کرے، بھاشا ڈیم متاثرین کے ساتھ بھی واپڈا نے معاملات طے کیے، 12 ایکڑ اراضی کیلئے ایک لاکھ 7 ہزار معاوضہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وکیل واپڈا نے عدالت میں جواب دیا کہ متاثرین کے معاملات کو ہائیکورٹ فیصلہ کی روشنی میں جائزہ لے لیتے ہیں۔ جس پر عدالت نے متبادل زمین کی ادائیگی سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے واپڈا کو حکم دیا ہے کہ کوئی راستہ نکالے اور متاثرین کی تلافی کرے۔
سیالکوٹ میں واقع فیکٹری میں ناحق قتل ہونے والے غیر ملکی شہری پریانتھا کمارا کے اہلخانہ کے ساتھ جس رقم کی منتقلی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ رقم سری لنکن منیجر کی بیوہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کی بیوہ کے بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم منتقل کی گئی ہے اس کے علاوہ ایک ہزار 667 ڈالر تنخواہ کی مد میں دیئے گئے ہیں جو کہ آئندہ 10 سال تک ہر ماہ باقاعدگی سے دیئے جائیں گے۔ اس رقم کی منتقلی پر وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹ کیا اور بتایا کہ عمران خان نے سری لنکن خاندان کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے راجکو انڈسٹریز کے توسط سے پورا کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال کے آخری مہینے میں سیالکوٹ میں وزیرآباد روڈ پر واقع اس کمپنی میں ملازمت کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں موت ہو گئی تھی جس کی ملک کے ہر طبقے نے پرزور مذمت کی تھی۔ اس واقعہ میں سری لنکن منیجر فیکٹری ملازمین کے تشدد سے ہلاک ہوگیا تھا، جبکہ مشتعل ہجوم نے لاش کو سڑک پر گھسیٹنے کے بعد آگ لگا دی تھی۔ مشتعل افراد کا دعویٰ تھا کہ مقتول نے مبینہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کیے تھے۔ دوسری جانب پولیس تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ فیکٹری منیجر نے مشتعل افراد سے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود اسے قتل کر دیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے اسلامو فوبیا سے متعلق بیان دینے پر انہیں سراہا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات ہوئی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹیلی فونک رابطے میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم کیا کیونکہ آزادئ اظہارکسی طور ہمارے رسولِ محترم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا جواز نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیوٹن وہ پہلےمغربی رہنما ہیں جنہوں نے اہلِ اسلام کے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ سے متعلق جذبات کے حوالےسے ہمدردی وحساسیت کا مظاہرہ کیا۔ میں نے روسی صدر کو اور روسی صدر مجھے اپنے ممالک کے دورے کی دعوت بھی دی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ تجارت اور منفعتِ باہمی کی بنیادوں پر استوار اشتراک کی دیگر جہتوں میں پیش قدمی پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ مری انتظامیہ کی غفلت سے پیش آیا۔ ذرائع کے مطابق سانحہ مری پر قائم 5 رکنی انکوائری کمیٹی نے تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔ تحقیقات کے دوران انتظامی محکموں کے 30 سے زائد افسران کے بیانات قلمبندکیےگئے۔ کمیٹی نے فائنڈنگز کو ڈرافٹ کی شکل دےدی ہے، تحقیقاتی کمیٹی مری کے دورے کے بعد لاہور روانہ ہوگئی ہے جہاں کل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی غفلت سے مری سانحہ پیش آیا،7 اور 8 جنوری کی رات برف ہٹانے والی مشینری ایک جگہ کھڑی تھی اور عملہ غائب تھا،محکمہ موسمیات کی وارننگ کو بھی مسلسل نظر اندازکیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاحوں نے 7 اور 8 جنوری کی رات کو خوفناک تجربہ قرار دیا۔ واضح رہے کہ 7 اور 8 جنوری کی رات کو مری میں برفانی طوفان اور رش کے باعث ایک ہی خاندان کے 8 افراد سمیت 23 افراد اپنی گاڑیوں میں انتقال کرگئے تھے۔افسوسناک واقعےکے بعد پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سےمعمولی رقم کے ریفنڈ پر 82 سالہ بزرگ شہری کو تنگ کیا گیا جس کا علم ہونے پر صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایف بی آر کی انتظامی ناانصافی پر بزرگ شہری سے معذرت کرلی۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے بزرگ شہری کے 2 ہزار 333 روپے کے ریفنڈ کے معاملے کو ایک سال تک لٹکایا جس کی وجہ سے بزرگ شہری قانونی چارہ جوئی پرمجبورہو گیا۔ صدرعارف علوی نے ایف بی آر افسران کی جانب سے 82 سالہ ٹیکس دہندہ کے ساتھ ایسےسلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آرافسر نے معمولی رقم کے ریفنڈ پر بزرگ شہری کو قانونی چارہ جوئی پرمجبورکیا، ادارے کے کسی ایک افسر کو بھی معاملے پر غور کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ صدرمملکت نے کہا کہ ایف بی آرکی بدانتظامی پربزرگ شہری عبدالحمیدخان سے معذرت چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے چیئرمین ایف بی آر کو غیر ذمہ داری اور بدعنوانی کے پورے نظام کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے میں شامل تمام فیصلہ سازوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی جانی چاہیے۔
گوجرانوالہ: نوسال قبل جنسی زیادتی کرنے والے ملزم کو لڑکی کے بھائیوں نے قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق 9 سال قبل زیادتی کرنے والے ملزم کو لڑکی کے بھائیوں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے، واقعہ تھانہ فیروزوالہ کے علاقہ گگڑکے میں پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ماہ قبل بیرون ملک سے واپس آیا تھا، ملزمان عظیم اور حنزلہ نے اسے مسجد میں فائرنگ کرکے قتل کردیا، مقتول کی ایک ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ واقعے کے بعد ملزمان فرار ہوگئے تھے، جن کی تلاش کے لئے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ عرفان عرف توصیف نامی ملزم نے 9 سال قبل ملزمان کی بہن سے زیادتی کی تھی اور دونوں خاندانوں میں طے پایا تھا کہ عرفان دوبارہ گاؤں نہیں آئے گا، جس کے بعد ملزم بیرون ملک چلا گیا تھا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری گگڑکے کی مسجد میں پہنچ گئی اور لاش کو تحویل میں لے لیا اور مقتول کے والد کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
کراچی کے علاقے بھیم پور میں دفن جنگی اسلحے کی برآمدگی کے معاملے پر سیکیورٹی حکام نے بلڈنگ کے منشی اور دو گوداموں کے مالکان کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں۔ اے آر وائے کے مطابق کراچی اولڈ سٹی ایریا میں واقع گودام سے جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد کیا گیا تھا، جس سے متعلق تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں گینگ وار کے منظم نیٹ ورک موجود تھے اور پولیس کو اس حوالے سے ٹھوس شواہد بھی مل گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اسی عمارت کے تاجروں کو ماضی میں بھتے کی پرچیاں بھی دی گئی ہیں۔ بلڈنگ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اسلحے سے متعلق کچھ نہیں جانتے، 2007 سے بلڈنگ میں دکان چلانے والا بھی اسلحے کی موجودگی سے لاعلم ہیں حتیٰ کہ 2003 سے بلڈنگ کے منشی بھی اسلحے سے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ اسلحے کی تلاش میں کی جانے والی کھدائی مکمل کرلی گئی ہے جس کے بعد ضلع وسطی کی پولیس کی جانب سے مقدمہ تھانہ نیپئر میں درج کرایا جا رہا ہے۔ زمین سے برآمد ناکارہ ہتھیاروں کی گنتی کا عمل بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔ برآمد کیے گئے اسلحے میں 63 ریوالور، 183 اسٹین گن، 13 اینٹی ائیر کرافٹ گن، ایل ایم جیز، 6 ماؤزر اور مختلف ہتھیاروں کے بیرل شامل ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر ساڑھے 3 فٹ تک کھدائی کرکے اسلحہ برآمد کیا گیا، جبکہ برآمد ہونے والا ایک بھی ہتھیار قابل استعمال نہیں۔
7 جنوری کو مری میں برفانی طوفان میں 23 افراد کے جاں بحق ہونے کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے مری میں غیر قانونی تعمیرات، عمارتوں، پلازہ اور ہوٹل سیل کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ واقعہ کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے مری میں مختلف علاقوں کا دورہ کیا ہے جس کے بعد اس نے اپنی سفارشات حکام کو بھیجی ہیں۔ کمیٹی کی جانب سے کار پارکنگ نہ رکھنے والے ہوٹل، شاپنگ مال اور اپارٹمنٹس کو بھی سیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مری ایکسپریس وے سمیت مری کی تمام ملحقہ شاہراہوں پر غیر قانونی تجاوزات کو ٹریفک کے بہاؤ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے مری میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کی سفارش کی گئی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم آج بھی متاثرین کے بیانات ریکارڈ کرے گی۔ یاد رہے کہ 7 جنوری کو مری میں ہونے والی برف باری کے باعث برف میں پھنسی گاڑیوں میں سوار 23 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس سانحے سے متعلق ایک سماعت میں این ڈی ایم اے کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

Back
Top