خبریں

ایف بی آر نے 15 کروڑ روپے سے زیادہ آمدن والی کمپنیوں اور کارپوریشنز پر سپر ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ زیادہ کاروبار والی کارپوریشن کمپنیوں کو 50 فیصد واجبات 7 روز کے اندر ادا کرنے کی ہدایت کر دی۔ فیصلے سے ایف بی آر کے ریونیو میں اربوں روہے اضافے کا امکان ہے، زیادہ کمانے والی کمپنیوں کی آمدن پر سپر ٹیکس کے نفاذ میں اہم پیشرفت ہوئی، سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ فنانس ایکٹ 2022 کے تحت پارلیمان نے 15 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر سپر ٹیکس لگایا تھا، بعد میں لاہور ہائیکورٹ نے ایک عبوری حکم نامے کے ذریعے اس لیوی کے نفاذ کو روک دیا، عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد ایف بی آر کے ریونیو میں اربوں روپے اضافہ متوقع ہے۔ ایف بی آر نے 15 کروڑ سے زیادہ آمدن رکھنے والے افراد اور کمپنیوں پر ایک سے 4 فیصد سپر ٹیکس کے ذریعے 80 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا تھا۔
علی بابا گروپ کے ذیلی ادارے ای کامرس پلیٹ فارم دراز گروپ نے "مارکیٹ کی خراب معاشی صورتحال" کے باعث اپنے کمپنی کے 11 فیصد ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’ کی خبر کے مطابق اس بات کا اعلان گروپ کے سی ای او بجارک مکلسن نے کمپنی کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ملازمین کو لکھے گئے خط میں کیا۔ بجارک میکلسن نے فیصلے کی وجہ مارکیٹ کے مشکل ماحول کو قرار دیا، انہوں نے یورپ میں جنگ، سپلائی چین میں حائل رکاوٹوں، بڑھتی مہنگائی، بڑھتے ٹیکس اور اس مارکیٹ میں ضروری سرکاری سبسڈیز کے خاتمے کا حوالہ دیا۔ واضح رہے کہ ای کامرس پلیٹ فارم دراز گروپ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں کام کرتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا ای کامرس ریٹیل پلیٹ فارم دراز یہاں 2012 سے کام کر رہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو بڑی چینی کمپنی علی بابا نے 2018 میں خریدا تھا، دراز کے پلیٹ فارم پر پاکستان میں ایک لاکھ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائسز ہیں۔ ای کامرس پلیٹ فارم نے کہا تھا کہ گروپ نے گزشتہ 2 برسوں کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش میں 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس گروپ کے پاس 10 ہزار ورکرز تھے جن کے ساتھ اس نے تمام آپریشنل ممالک میں 50 کروڑ لوگوں کو سروسز مہیا کیں۔
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات کی مدت ختم ہونے میں 3 دن باقی ہیں جب کہ فریقین ابھی تک اختلافات ختم نہیں کر سکے۔ وزیراعظم نے بجلی کے ٹیرف اضافہ کیلئے حکومتی ٹیم کو اجازت دیدی ہے۔ تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے بجلی کے ٹیرف میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے جبکہ حکومت 20 سے 33 فیصد تک بڑھانے پر آمادہ ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں جاری مذاکرات میں آئی ایم ایف پہلے سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری پر بضد ہے۔ لاہور میں ہونے کے باعث وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کی آن لائن صدارت کی جس میں کہا گیا کہ بنیادی ٹیرف میں اوسطاً 7.74 روپے فی یونٹ اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اوپرکے سلیب کا اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ وزیر اعظم اب بھی چاہتے ہیں کہ پاور ڈویژن آئی ایم ایف کو مطلوبہ اضافے سے کم کرنے پر راضی کرے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد گردشی قرضوں میں کمی کا نظرثانی شدہ منصوبہ آج آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا جائے گا جس میں سہ ماہی اور سالانہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے باعث قیمتوں میں اضافے کی تفصیلات ہوں گی۔ جبکہ وزیر بجلی نے بالائی سلیب کے صارفین کیلئے قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافے پر وزیراعظم کے فیصلے یا رائے پر کوئی بات نہیں کی۔ آئی ایم ایف قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن حکومت 20 سے 33 فیصد تک قیمتیں بڑھانا چاہتی ہے۔ مذاکرات 31 جنوری کو شروع ہوئے تھے اور مشن9 فروری تک اسلام آباد میں ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کی درخواست پر پاکستان میں ہے اور اسے توقع ہے کہ حکومت ٹیکسوں میں اضافے سمیت اپنے تمام زیرالتوا اقدامات پر عمل درآمد کرے گی۔ اگر آئی ایم ایف حکومتی اقدامات سے اتفاق کرتا ہے تو ان کو حتمی شکل دینے کے لیے اسی روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔ پاور ڈویژن نے ٹیرف میں اضافے کے لیے مختلف آپشنز وزیراعظم کو پیش کیے۔ ان میں سہ ماہی ٹیرف میں 4.26 روپے فی یونٹ اضافہ اور بنیادی ٹیرف میں 7.74 روپے فی یونٹ اوسط اضافہ شامل ہے۔ تاہم آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اضافی بجٹ سبسڈی کے تحت675 ارب روپے کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 12 روپے فی یونٹ سے زیادہ اضافہ کرے۔ پاور ڈویڑن کا خیال ہے کہ وہ اب بھی جولائی سے دسمبر 2023 تک 43 ارب روپے کی ریکوری کر سکتا ہے جس سے اس اضافے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ کے وقت حکومت نے رواں مالی سال کیلئے بجلی کی سبسڈی کی رقم صرف 355 ارب روپے رکھی تھی۔ اضافی گردشی قرضے کو مینج کرنے کیلئے پاور ڈویڑن نے 675 ارب روپے کی مزید سبسڈیز مانگی ہیں جس سے کل ضروریات 1.03 ٹریلین روپے سے زائد ہو گئی ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے 300 یونٹ تک کے صارفین کو قیمتوں میں اضافے سے محفوظ رکھنے کے حکومتی مطالبے سے بھی اتفاق نہیں کیا اور وہ ماہانہ 200 یونٹ اور اس سے زیادہ کے صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے پر قائم ہے۔ شہبازشریف ایکسپورٹرز کے بجلی کے سبسڈی پیکج کو جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس بات کے امکانات کم ہیں کہ آئی ایم ایف موجودہ شکل میں اس پر رضامند ہوجائے۔ اس لیے سالانہ بنیادی ٹیرف میں 7.74 روپے یا آئی ایم ایف کے خدشات کو دور کرنے کے لیے 33 فیصد سے زیادہ اضافے کا امکان ہے۔ اوسط بنیادی ٹیرف تقریباً 24 روپے فی یونٹ ہے جو جون تک بڑھ کر 32 روپے فی یونٹ تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف ایک اور آپشن سے اتفاق کرتا ہے تو یہ رواں مالی سال میں دوسرا اضافہ ہوگا، حکومت آئی ایم ایف ڈیل کے تحت پہلے ہی بیس ٹیرف میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافہ کر چکی ہے۔ ابھی بھی مسئلہ یہ ہے کہ یہ اضافہ لاسز کو روکنے میں مدد نہیں کر رہا ہے بلکہ لوگوں کو توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے۔
لاہور پریس کلب کی انتظامیہ کی جانب سے ایک باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں سوشل میڈیا سے منسلک افراد بالخصوص یوٹیوبرز پر میڈیا کے فنکشنز اور پریس کانفرنسز کی کوریج اور شمولیت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پریس کلب کے سیکرٹری عبدالمجید ساجد نے نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں اس مخصوص واقعہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ جس میں نگراں حکومت کے وزیراطلاعات عامر میر سے یوٹیوبرز کے سخت سوالات کا ذکر موجود ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یوٹیوبرز نے عامر میر کے منع کرنے کے باوجود بھی ان کاانٹرویو کرنے کی کوشش کی اور ویڈیوز بناتے رہے جو کہ پریس کلب انتظامیہ کیلئے باعث شرمندگی تھا۔ لاہور پریس کلب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب کوئی یوٹیوبر یا سوشل میڈیا سے منسلک شخص انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کلب کے مہمانوں کا انٹرویو یا ویڈیو بنانے کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ پریس کلب آزادی اظہار کی پاسداری کا علمبردار ہے اور اس کی حدود کا پاسدار بھی ہے۔ اس معاملے پر تحریک انصاف کے سنٹرل میڈیا کے سربراہ صبغتہ اللہ ورک لکھتے ہیں کہ یہ آزادی صحافت کیلئے ایک تابناک دن ہے شکرگزار ہیں ان نابغہ ہائے صحافت کے جنہوں نےقوم کو سمجھایا کہ ہماری صحافت بھی ”برہمنوں“ اور ”شودروں“ میں بٹی ہوئی ہے اور شودروں کیلئے جائز نہیں کہ وہ ان مراعات پر نگاہ رکھیں جو برہمنوں کیلئے ہی خاص ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا نیوز سے منسلک اینکر فہد نے عامر میر کی لاہور پریس کلب آمد کے موقع پر سوال کیا تھا کہ کیا وہ شیخ رشید اور فواد چودھری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں؟ جواب میں نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ وہ بالکل مذمت نہیں کرتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان بھی گرفتاری ہوئی تھی کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ بالکل وہ تب قابل مذمت تھا۔ میڈیا لوگو کے بغیر پریس کلب کی حدود میں ایک سینئر صحافی سے اینکر کا پوچھا گیا سوال کلب انتظامیہ کو ناگوار گزرا اور صدر لاہور پریس کلب نے معاملے میں مداخلت کی جس کے بعد سیکرٹری نے یوٹیوبرز پر پابندی لگا دی حالانکہ سوال پوچھنے والا اینکر دنیا نیوز کا صحافی ہے۔ سوشل میڈیا پر صحافت کرنے والے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہر بدتمیزی کو یوٹیوبرز سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے؟
سوشل میڈیا پر اینکر پرسن اور وی لاگر عمران ریاض کے خلاف دعوے کیے جا رہے ہیں کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے 10 ہزار جعلی اکاؤنٹ چلا رہے تھے۔ جبکہ کچھ سینئر صحافی اس خبر کو ہی جھوٹ اور جعلی قرار دے کر اسے پراپیگنڈہ کہہ رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر مختلف اکاؤنٹس اور کچھ صحافیوں کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ عمران ریاض سوشل میڈیا کے 10 ہزار جعلی اکاؤنٹس چلا رہے تھے، جب ایف آئی اے نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ ان میں اعتزاز احسن اور ویناملک جیسے معروف لوگوں کے ناموں سے بنائے گئے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ اس مبینہ دعوے کے حق میں صحافی اسد علی طور نے بھی لکھا کہ سب کہو سُبحان اللہ، ایک جھوٹی خبریں دینےوالا، رائے میں بد دیانت اور مالی طور پر چور گیلا تیتر جعلی ٹویٹر اکاؤنٹس بھی چلاتا ہے۔ یہ یقیناً so called ففتھ جنریشن وار کا “ٹھیکہ” ہوگا۔ یہ جاننا ضروری ہے اُن دس ہزار اکاؤنٹس سے ٹویٹ کیا کرتا تھا اور اُس کے پیسے کونسا “افسر” ادا کرتا تھا۔ جبکہ سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران میر نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ دس ہزار فیک اکاؤنٹ چلانے والی خبر ازخود فیک اور پراپیگنڈا ہے۔ ایف آئی اے سے بھی جب پتہ کروایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔
کراچی کی اسٹیل ملز سے مبینہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں چوری ہونے والے سامان کا کباڑیے کو فروخت کیےجانے کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سکھن پولیس کی جانب سے گرفتار اسٹیل ملز کا سامان خریدنے والے کباڑیے نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ اسٹیل ملز سے سامان کی چوری اور کباڑ میں فروخت کے عمل ایس ایچ او بن قاسم ٹاؤن کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ کباڑیے نے بتایا کہ میں ایس ایچ او ملک اشرف اور اس کےبعد ایس ایچ او ادریس بنگش، ڈی ایس پی اور ہیڈ محررکو پیسے دیتا ہوں اور تھانے کے پورے اخراجات بھی اٹھاتا ہوں۔ اختر علی کا ویڈیو بیان جاری کردیا گیا ہے جس میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیل ملز سے چوری ہونے والا سامان پولیس کی سرپرستی میں کباڑ میں فروخت کیا جاتا ہے، میں گزشتہ 8 ماہ سے اسٹیل ملز سے چوری شدہ سامان خرید رہا ہوں، پہلے ایس ایچ او ملک اشرف، پھر ایس ایچ او ادریس بنگش کو پیسےپہنچایا کرتا تھا۔ ملزم نے مزید کہا کہ ایس ایچ او ملک اشرف نے میری جونیجو صاحب سے سیٹنگ کروائی جنہیں میں چار لاکھ روپے دیا کرتا تھا، یہ پیسے میں انہیں کبھی خود تو کبھی ان کےبندےکے ذریعے پہنچاتا تھا، مجموعی طور پر ہماری 8 لاکھ میں بات ہوئی تھی جس میں سے ڈی ایس پی کے پیسے اور تھانے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ اسٹیل ملز سے کبھی کم سامان نکلتا ہے تو کبھی زیادہ مگررقم فکس ہے، چور اسٹیل ملز کے گارڈز کے ساتھ مل کر سامان چوری کرتے ہیں اورباہر نکال کر سڑک پر رکھ دیتے ہیں، ہم وہ سامان سڑک سے اٹھا لیتے ہیں اوراپنے گوداموں میں لاکر آگے فروخت کرتے ہیں، یہ سامان شیر شاہ کی پارٹیاں ہم سے خریدتی ہیں اور خود اپنی گاڑیوں میں لاد کر لے جاتی ہیں۔
لاہور کے علاقے شاہدرہ ٹاؤن میں وقاص اور شاہ جہاں گروپ میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں 2 کمسن بچے جاں بحق جبکہ 4 افراد زخمی ہو گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق شاہدرہ ٹاؤن کے دونوں گروپس میں لڑائی جھگڑا رہتا تھا اس بار بھی فائرنگ ہوئی جس سے 6 سالہ مجتبیٰ اور 6 سالہ ارباب بھی متاثر ہوئے، دونوں بچوں کو علاج کیلئے میو اسپتال منتقل کیا گیا تاہم دونوں بچے دوران علاج دم توڑ گئے۔ واقعہ کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پرپہنچ گئی اور تصدیق کی کہ لڑائی اور فائرنگ کا واقعہ وقاص اور شاہجہاں گروپ کے مابین ہی پیش آیا تھا۔ تاہم ملزمان فرار ہو چکے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں ضیغ، رضا، سعید اور منتظر شامل ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز افضال احمد کوثر نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس پی سٹی سے رپورٹ طلب کر لی ہے، ڈی آئی جی آپریشن نے اعلیٰ افسران کو جائے وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے سفاک ملزمان کے خلاف بلاتفریق کارروائی کا حکم دیا ہے۔ افضال احمد کوثر نے متاثرہ خاندانوں کو ہر صورت اور جلدازجلد انصاف کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
جیل بھرو تحریک کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے کیونکہ ہماری گرفتاریاں کیے بغیر اس حکومت کا شوق پورا نہیں ہو گا: رہنما پی ٹی آئی سابق وفاقی وزیر ورہنما پاکستان تحریک انصاف وفاقی وزیر فواد احمد چودھری نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام پاور پالیٹکس میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں، گرفتاریاں کرنے سے صرف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میرے خلاف جعلی کیسز بنا دیئے گئے، رات کو اٹھا لیا، جعلی میڈیکل رپورٹ تیار کی گئی اور بغاوت کا کیس بھی بنا دیا۔ اسلام آباد پولیس اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ، تحریک انصاف کے دور اقتدار میں لوگوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی گئی۔ مریم نوازشریف کے والد اور بھائیوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے جبکہ ہماری پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات جعلی بنائے گئے، مریم نوازشریف خوش اس لیے ہیں کہ ان پر کرپشن کے کیسز ہیں۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے سارا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے، ملک میں آئین اور قانون پر عمل نہ ہوا تو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟ ان لوگوں کو آئین پاکستان کی پرواز نہیں، جیل بھرو تحریک کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے کیونکہ ہماری گرفتاریاں کیے بغیر اس حکومت کا شوق پورا نہیں ہو گا۔ احتساب کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، عدالتوں کو آزادانہ فیصلہ کرنے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی جعلی ویڈیو اور آڈیوز بنائی جا رہی ہیں۔یہ غیرسنجیدہ لوگ ہیں مذاکرات کس بات پر کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں ، یہ سب لوگ رقم واپس کریں نہیں تو جیل جائیں گے۔ اے پی سی میں شرکت کے حوالے سے کہا کہ پی ٹی آئی کو کوئی دعوت نامہ وصول نہیں ہوا اگر ملا تو اس پر مشاورت کی جائے گی۔ فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان کو نااہل قرار دینے کا منصوبہ بنایا گیا، اسمبلیاں تحلیل کر کے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا، ان کے شیڈول پر بم پھوڑ دیا، اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں؟ پریشر میں آکر غلطیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے، پرویز مشرف کا دور اس جمہوریت سے بہتر تھا، عمران خان بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے معاشی چیلنجز کے پیش نظر پنجاب کی 400 ارب روپے کی ہیلتھ انشورنس اسکیم کو اس کی موجودہ شکل میں روک دیا ہے جس سے تمام طبقوں سمیت صوبے کی پوری آبادی کو مستفید ہونا تھا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پنجاب میں ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت یونیورسل ہیلتھ کوریج کا نفاذ‘ کے نام سے یہ منصوبہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا لیکن قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان کی مخالفت پر وزارت منصوبہ بندی بالخصوص سیکرٹری پلاننگ ظفر علی شاہ کی جانب سے اس کی منظوری نہیں دی گئی۔ صحافی خلیق کیانی کا دعویٰ ہے کہ ظفر علی شاہ نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں بتایا کہ وزیراعظم آفس اور اقتصادی امور ڈویژن میں سیلاب سے متعلق وعدوں پر ہم آہنگی کے لیے ہونے والے چند اجلاسوں کے دوران قرض دہندگان اور عطیہ دہندگان کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید اس بات پر رہی کہ فنڈز ان لوگوں پر خرچ کیے جانے چاہئیں جو حقیقت میں مستحق ہیں اور انہیں بیرونی امداد کی ضرورت ہے نا کہ ان لوگوں پر جو استطاعت رکھتے ہیں لیکن عوامی فنڈز کو ترجیح دیتے ہیں۔ عالمی بینک اور دیگر کثیر جہتی اداروں کے تعاون سے جاری آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت چاروں صوبوں کو رواں برس 800 ارب روپے وفاقی حکومت کے حوالے کرنے ہوں گے تاکہ مالیاتی خسارے اور بجٹ کے اہداف میں بنیادی توازن برقرار رکھا جا سکے۔ اجلاس کو آگاہ گیا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری ان ڈونر اجلاسوں کا حصہ تھے اور انہیں یونیورسل ہیلتھ کوریج اسکیم کے لیے گزشتہ سال اگست میں سی ڈی ڈبلیو پی کو بھیجی گئی سمری واپس لے لینی چاہیے تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے قبل صوبائی حکومت نے منصوبے کی لاگت 333 ارب روپے سے بڑھا کر 399 ارب 60 کروڑ روپے کرنے کی منظوری مانگی تھی جس کی بنیادی وجہ انشورنس پریمیم لاگت اور منصوبے کے انتظامی اخراجات میں اضافہ تھا۔ لہٰذا پنجاب کا خیال ہے کہ وفاق اس منصوبے کو ناکام نہیں بنا سکتا جس کی منظوری گزشتہ حکومت میں سی ڈی ڈبلیو پی اور قومی ایکنک نے دی تھی اور سی ڈی ڈبلیو پی کی تازہ منظوری لاگت میں صرف تقریباً 21 فیصد اضافے کی حد تک درکار تھی۔ یہ بتایا گیا کہ سی ڈی ڈبلیو پی اور ایکنک نے اس سے قبل سالانہ 3 ہزار 580 روپے فی خاندان کے حساب سے 333 ارب روپے کی تخمینہ پریمیم لاگت پر اس منصوبے کو کلیئر کیا تھا، واحد بولی دہندہ ’اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن‘ نے سالانہ 4 ہزار 700 روپے فی خاندان کا کہا تھا اور بعد میں رضاکارانہ طور پر اسے کم کر کے سالانہ 4 ہزار 350 روپے فی خاندان کر دیا تھا جس سے کل تخمینہ لاگت 399 ارب 60 کروڑ روپے ہو گئی۔ ان پیرامیٹرز کی صوبائی کابینہ پہلے ہی منظوری دے چکی تھی اور صوبائی حکومت کے رواں سال کے بجٹ میں تقریباً 60 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس میں کوئی غیر ملکی فنڈنگ یا وفاق کی واجب الادا رقم شامل نہیں تھی۔ پہلے سے موجود یہ منصوبہ پنجاب کے 36 اضلاع کی 30 فیصد آبادی (تقریباً 85 لاکھ خاندانوں) کا احاطہ کرتا ہے، تاہم پنجاب کی گزشتہ حکومت چاہتی تھی کہ اس کو ان اضلاع کی 100 فیصد آبادی تک بڑھایا جائے جس میں تقریباً 2 کروڑ 90 لاکھ خاندان شامل ہوں اور منصوبے میں شامل صوبے بھر کے 294 ہسپتالوں کے برعکس 400 سے زائد ہسپتالوں کو اس منصوبے میں شامل ہونے کا تصور پیش کیا گیا۔ یہ منصوبہ بظاہر 7 اضلاع کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور بعد میں اسے 36 اضلاع تک بڑھا دیا گیا تھا۔ منصوبہ بندی کمیشن نے نشاندہی کی کہ سوشل ہیلتھ انشورنس نے دراصل صرف مستحق آبادی کے اس منصوبے سے مستفید ہونے کا تصور دیا تھا، تاہم مجوزہ پراجیکٹ میں بظاہر ایسی کسی تفریق کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور کسی فرق کے بغیر مستحق افراد کے لیے ترقیاتی بجٹ سے پریمیم کی ادائیگی کا تصور دیا گیا۔ وزارت منصوبہ بندی نے یہ بھی واضح کیا کہ ایکنک کی ابتدائی منظوری پراجیکٹ پر عمل درآمد کے لیے کچھ شرائط پر مبنی تھی جس پر صوبائی حکام نے 13 ماہ گزرنے کے بعد بھی توجہ نہیں دی۔ حل طلب مسائل کی بنیاد پر سی ڈی ڈبلیو پی نے بالآخر منظوری کو مؤخر کرنے اور اس کی توسیع کو جائزے کے لیے واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا اور منتخب نمائندوں کی جانب سے منصوبے میں کمزوریوں اور تضادات کو دور کرتے ہوئے بہتر فیصلے کے لیے واپس بھیج دیا گیا کیونکہ اس کے لیے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے فریم ورک کی ضرورت ہوگی جو کہ اس وقت موجود نہیں۔
کراچی کے علاقےلیاری آگرہ تاج کالونی میں پولیس اہلکاروں کے مابین جھگڑے کے دوران فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ لیاری کی مشہور آگرہ تاج کالونی دہلی پارک کے قریب فائرنگ سے پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا جس کی لاش رات گئے ضابطہ کی کارروائی کے لیے سول اسپتال لے جائی گئی جہاں مقتول کی شناخت 26 سالہ طاہر بنگش کے نام سے ہوئی۔ ایس ایچ او کلری آغا اسد نے بتایا کہ واقعہ پولیس اہلکاروں کے درمیان جھگڑے کے دوران پیش آیا تھا جو کہ ڈیوٹی پر نہیں تھے، مقتول سعید آباد تھانے میں تعینات تھا تاہم جھگڑے کی وجوہات اور فائرنگ کی وجہ اور ملزم کے حوالے سے مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے چند روز قبل بھی کراچی ہی کے علاقے لائنز ایریا خطرناک موڑ کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس افسر جاں بحق ہو گیا تھا۔ اس واقعے میں پولیس اہلکار اے ایس آئی اقبال کے ہمراہ ریڈ کیلئے جا رہے تھے کہ ملزمان نے روک کر 4 گولیاں ماری، زخمی اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو جناح اسپتال لیجایا گیا تو ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی۔ دوسری جانب کراچی کے علاقے قصبہ نیو میانوالی کالونی میں نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے 24 سالہ امام شاہ کندھے پر گولی لگنے سے زخمی ہوگیا جسے طبی امداد کے لیے عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا۔
الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخابات کی تاریخ دیتے وقت صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں امن وامان اور ملکی مجموعی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھنا چاہیے : سربراہ جے یو آئی ف سربراہ جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور زیرغور آئے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے موقع پر ضمنی انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو قومی اسمبلی کے 31 حلقوں میں آئندہ ماہ ہونےو الے الیکشنز میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ضمنی انتخابات کے حوالے سے تاریخ دیتے وقت صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں امن وامان اور ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھنا چاہیے اور یہ بھی کہا کہ پی ڈی ایم کو آئندہ ماہ ہونےو الے ضمنی الیکشنز میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین تعمیری سیاست پر ہے، ہم ملک میں جاری معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے دن رات کوششیں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی موجودہ لہر پر جلد سے جلد قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ وقت ملک میں تخریبی سیاست کرنے کا نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کو معیشت اور انتخابات ودیگر قومی امور پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اسمبلی کی 31 نشستوں پر ضمنی انتخابات اگلے ماہ کی 19 تاریخ کو شیڈول کیے گئے ہیں، ضمنی انتخابات میں اتحادی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم سے ضمنی الیکشنز میں حصہ نہ لینے کی تجویز دی ہے۔
بچیوں کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والے ملزم نے انکشاف کیا ہے کہ اسے پولیس نے پکڑا تھا مگر 50ہزار روپے لے کر چھوڑ دیا۔ تفصیلات کے مطابق خیر پور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور خواتین کی غیر اخلاقی ویڈیوز کےکیس میں گرفتار ملزم غلام مہرانی کو کوٹ ڈیجی میں سول جج کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ دوران سماعت ملزم نے انکشاف کیا کہ کچھ دن پہلے پولیس نے مجھے گرفتار کیا تھا اور میرا موبائل فون اپنی تحویل میں لے لیا تھا، تاہم میں نے پولیس کو 50ہزار روپے دیئے جس کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا اور میرا موبائل فون بھی مجھے واپس کردیا گیا۔ ملزم نے کہا کہ ویڈیوز میں نے وائرل نہیں کیں، کچھ لوگ مجھے بلیک میل کررہے تھےاور 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے تھےجب میں نے پیسے نہیں دیئے تو انہوں نے ویڈیوز وائرل کردیں۔ سول جج نے سماعت کے بعد ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کردی ہے۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور خواتین کی غیر اخلاقی ویڈیو زوائرل ہوئی تھیں، ان ویڈیو ز میں ملزم غلام مہرانی کی نشاندہی ہونے پر پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے ملزم کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنا شروع کردیئے تھے، گزشتہ روز ایک پولیس مقابلے کے بعد پولیس ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
گوجرانوالہ میں عوام کے محافظ خود اپنی حفاظت کرنے میں ناکام رہے اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ کر اسلحہ و نقدی سے محروم ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق گوجوانوالہ میں قانون نافذ کرنےو الے اداروں کے اہلکاروں سے لوٹ مار کی 2الگ الگ وارداتیں پیش آئیں۔ پہلا واقعہ اسپیشل کرائم سین یونٹ کی وین میں سوار اہلکاروں کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب موٹر سائیکل پر سوار ڈاکوؤں نے وین کو اسلحہ کے زور پر روکا اور وین میں موجود اہلکاروں سے اسلحہ و نقدی چھینی اور فرار ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسپیشل کرائم سین یونٹ کی وین اس وقت گوجوانوالہ کے تھانہ فیروز والا کی حدود میں موجودتھی جب ڈاکوؤں نے اس کیا۔ دوسرا واقعہ گوجوانوالہ کے تھانہ صدر کی حدود میں پیش آیا، موٹرسائیکل پر سوار ڈاکو نے پولیس کانسٹیبل کوروکا اورسرکاری اسلحہ اور نقدی چھینی اور فرار ہوگیا۔ پولیس نے دونوں تھانوں میں وارداتوں کے مقدمات درج کرکے تفتیش شرور کردی ہے اور ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ انکی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ گرفتاری کے وقت نشے کی حالت میں تھے۔ اسلام آباد پولیس نے فواد چوہدری کی میڈیکل رپورٹ حاصل کرلی ہے۔ میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد پولیس نے مزید کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج کرلیا ہے۔ فوادچوہدری کی اہلیہ نے اس پر سخت ردعمل دیا ہے اور اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے، واضح رہے کہ فواد چوہدری کو یکم فروری کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تھا، ان پر چیف الیکشن کمشنر کو منشی کہنے کاالزام تھا۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے فواد چوہدری کی ضمانت منظور کی تھی۔
کراچی کے علاقے پی آئی ڈی سی چوک میں مبینہ نیوی کمانڈر کی بہن کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے پولیس افسر نے خاتون کے خلاف مقدمہ تو درج کرا دیا مگر ساؤتھ زون پولیس ملزمہ کو گرفتار نہ کر سکی۔ ڈی ایس پی اشتیاق آرائیں اپنے محکمے میں بھی اصول پسند اور ڈسپلن کے پابند افسر سمجھے جاتے ہیں اور ایک اچھی ساکھ کے حامل افسران میں شمار ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں شہری خاتون نے ڈی ایس پی سے فینسی نمبر پلیٹ کی روک تھام پر بدتمیزی کی تھی اور انہیں گالیاں دیتی اور تھپڑمارتی رہیں جبکہ ڈی ایس پی اشتیاق نے خاتون ہونے کی وجہ سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے ہی محکمے سے انصاف کے منتظر ہیں۔ ٹریفک ڈی ایس پی اشتیاق کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں تھپڑمارنے والی خاتون کا رشتہ دار آتا ہے اور وردی میں ملبوس اسکا بیٹا دھمکیاں دیتا ہے جس میں وہ ڈیوٹی پر مامور اہلکار سے وردی پر بیجز نا ہونے پر برس پڑے ۔اہلکار کو اس سے پہلے بھی بیجز لگاکر ڈیوٹی پر آنے کی ہدایت کی گئی تھیں ۔ ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ متاثرہ ڈی ایس پی ایک اہلکار کو کھری کھری سنارہےہیں اور اسے کہہ رہے ہیں کہ آپ ایسے آجاتے ہیں جیسے گدھے آتے ہیں، شرم آنی چاہئے۔ اہلکار کے نامناسب جواب پر ڈی ایس پی اشتیاق نے اہلکار کی کافی سرزنش کی۔
اسلام آباد کے آئی ٹین سیکٹر میں ٹھیلے ہٹانے پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کڑی تنقید کردی، ٹویٹ میں لکھا مہنگائی اور بے روزگاری کے وقت امپورٹڈ حکومت بے حسی دکھارہی ہے، غریبوں اور لاچاروں کو جان بوجھ کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے، غیر انسانی طرز عمل قابل مذمت ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید کہتے ہیں یہ لوگ پہلے نوٹ چھاپتے تھے اب پرچے چھاپتے ہیں، عمران خان کی حکومت مخلوط حکومت تھی، لوگ بلیک میل کرتے تھے، عمران خان بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن نہ کرسکے،مراد سعید نے کہا امپورٹڈ حکومت کی ترجیحات ہم پر مقدمات، الیکشن کی منسوخی ہے،یہ بہت بے شرمی کی بات ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں عمران خان کے غیرذمہ دارانہ ٹوئٹ کا مقصد سیکیورٹی صورتحال کو نقصان پہنچانا ہے، شہبازشریف نے عمران خان کو ایک سیاسی لیڈر ہونے کے ناطے مدعو کیا، عمران خان کا اس بد تہذیبی سے جواب دینے پر دھچکا پہنچا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن چھائی رہی،شوکت ترین کہتے ہیں مسٹر ڈار معاشی اعداد وشمار درست کرلیں، ہم نے تو رینکنگ کو بہتر کیا تھا، اپنی عادت کے مطابق چیزوں کو مسخ کرنا چھوڑ دیں۔
ایڈووکیٹ نعیم حیدر کے شیخ رشید کے حوالے سے بڑا انکشاف کردیا، ٹوئٹر پر جاری ویڈیو میں ایڈووکیٹ نے کہا شیخ رشید صاحب سے تھانہ سیکرٹریٹ میں ملاقات ہوئی، انہوں نے بہت کچھ میڈیا کو بتانے کو کہا ہے۔ شیخ رشید نے بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، رانا ثنا، شہباز شریف اور نواز شریف ان کو قتل کروانا چاہتے ہیں،اگر میں مر جاؤں تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے،میرے خلاف مقدمے بھی یہ لوگ کروا رہے ہیں۔ شیخ رشید نے آج عدالت میں بھی بیان دیا کہ مجھے رینجرز کی سیکورٹی دی جائے،شیخ رشید نواز شریف ، محسن نقوی ، شہباز شریف ، آصف علی زرداری ، رانا ثنا اللہ میرے قتل میں ملوث ہونگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے رات کو لیکر کہیں گئے،شیخ رشید مجھ سے پوچھا کہ عمران خان کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں وہ نااہل ہو جائیں گے۔ شیخ رشید کے خلاف حب کے تھانہ صدر میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا ۔۔ بلاول بھٹو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے تھانہ موچکو میں مقدمہ درج ہوا، جبکہ سابق وزیر داخلہ شیخ ‏رشید کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل، آج دوبارہ اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
کراچی کے علاقے پی آئی ڈی سی چوک میں مبینہ نیوی کمانڈر کی بہن کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے پولیس افسر نے خاتون کے خلاف مقدمہ تو درج کرا دیا مگر ساؤتھ زون پولیس ملزمہ کو گرفتار نہ کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق ٹریفک پولیس کے باوردی افسر پر ہاتھ اٹھانے والی خاتون اور اس کے بھائی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ خاتون سے متعلقہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد بھی پولیس کچھ نہ کر سکی جس پر متاثرہ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس نے مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر پڑھے لکھے لوگ اس طرح کریں گے تو دوسرے لوگ کیا کریں گے۔ یہی بات کی تو خاتون گاڑی سے اتری اور کہنے لگی کہ تم ہمارے نوکر ہو میں نے کہا کہ جو قانون پر عمل کریں ہم ان کے نوکر ہیں۔ خاتون اس کے بعد اس باریش پولیس افسر پر دھونس جمانے لگی کہ میرا بھائی نیوی میں کمانڈر ہے۔ میں بس اسے ابھی بلاتی ہوں۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد خاتون نے مار مار کر میرا چشمہ توڑ دیا باقی پولیس والوں کو بھی مارا۔ پولیس افسر نے کہا کہ اس نے مجھے بڑا دل سے مارا ہے۔ اس معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کافی مضطرب ہیں اور ایک خاتون صارف نے چین کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ایک امیرزادہ گاڑی میں پٹرول بھرانے کے بعد پٹرول پمپ پر موجود خاتون کو پیسے ہاتھ میں تھمانے کی بجائے زمین پر پھینک دیتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پٹرول پمپ پر موجود خاتون رونے لگتی ہے اس کے بعد چین بھر کے پٹرول پمپ مالکان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس نمبر کی گاڑی کو پٹرول نہیں دیں گے۔ جبکہ ہمارے ملک میں آن ڈیوٹی پولیس افسر کو خاتون مارتی ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ اس کا بھائی نیوی کمانڈر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کی جانب سے دعوت کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت پر غور شروع کر دیا ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے اے پی سی میں شرکت کے لیے سابق وفاقی وزیر شیخ رشید اور اعظم سواتی کو بطور پارٹی نمائندہ نامزد کرنے پرغور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے مشورہ دیا ہے کہ اے پی سی میں شیخ رشید احمد اور اعظم سواتی کو پارٹی کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ فواد چودھری کی جانب سے دیے گئے مشورے میں کہا گیا ہے کہ شیخ رشید سابق وزیر داخلہ رہ چکے ہیں،وہ سکیورٹی صورت حال سے بخوبی واقف ہیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نمائندگی کے لیے اعظم سواتی کا نام بھی دیا گیا ہے، ان سے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ سینئر سیاست دان ہیں اور اے پی سی میں پارٹی کی بہترین نمائندگی کر سکتے ہیں۔ عمران خان کے چند قریبی افراد کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے متعلق ہمارے لوگ بار بار توجہ دلاتے رہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہماری بات سننے کے بجائے ہمارے ارکان پر غداری اور بغاوت کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں ہر معاملے پر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ یہ اس معاملے میں بھی فوٹو شوٹ کی حد تک سنجیدہ ہیں۔
وفاقی حکومت نے بے نامی ایکٹ2017 کو فعال کردیا اور بے نامی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے عدالتوں کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے کرپشن ، ٹیکس چوری اور مالی جرائم کیخلاف بڑی کارروائی کی تیاری مکمل کرلی۔ میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے بے نامی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے عدالتوں کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے وزارت قانون کی سمری کی سرکولیشن کے منظوری دے دی ہے۔ حکومت نے بے نامی ایکٹ2017 کو فعال کردیا ، جس کے بعد وزارت قانون نے خصوصی عدالتوں کیلئے متعلقہ چیف جسٹس سے رجوع کرلیا۔ وزارت قانون نے اسلام آباد ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس سے بھی رجوع کیا، متعلقہ چیف جسٹس کے نامزد کردہ عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے۔ وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے وزارت قانون کی سمری کی منظوری دیتے ہوئے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کر دیا۔ حکومت نے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس سے بھی اس سلسلے میں تعاون حاصل کر لیا ہے۔

Back
Top