رمضان شوگر ملز کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف بری ہوگئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کی اسپیشل سینٹرل کورٹ کےجج نے ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اورحمزہ شہباز شریف کےبریت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملزمان کو بری کردیا ہے۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 24 ارب روپے کی منی لانڈرنگ شہباز شریف اورحمزہ شریف کے خلاف کیس میں عدالتی نظام کا عوام کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 14 ہزار اکاؤنٹس پر عرق ریزمحنت کے اور فُول پروف مقدمہ تھا، یہ پاکستان کے لوگوں کے پیسے ہیں ایک طرف سیلاب زدگان کیلئے پیسے مانگ رہے ہیں دوسری طرف ایک خاندان اربوں روپے کھا گیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری انفارمیشن اور سابق وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ یہ این آر او2 ہے، رمضان شوگر ملز کے ملازمین کے نام پر 16 ارب روپے کی لوٹ مار کرنے والے شہباز شریف اور حمزہ شہباز بری ہوگئے ہیں۔
انہوں نےمزید کہا کہ اس مقدمے میں سلیمان شہباز اشتہاری ہیں، انہوں نے ایف آئی اے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کو مروادیا،ملزم مقصود چپڑاسی کو مروادیا، پراسیکیوٹر اپنا لگوالیا،عوام اس کرپٹ نظام کے خلاف نکلیں۔
رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے اس فیصلے پرردعمل دینےکیلئے مشہور شاعر فیض احمد فیض کےایک شعر کا مصرعہ سنایا ور کہا کہ" ھیں سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد"۔
سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ شریف فیملی جس تیزی سے کیسز میں بری ہورہی ہے تعجب ہی کیا جاسکتا ہے کاش جیلوں میں موجود عام قیدیوں کو بھی یہی سہولت میسر ہوتی حکومت میں آکر لوٹ مارکرو اور این آر او لیکر چوری حلال کراؤ۔
پاکستان تحریک انصاف سینٹرل کے وائس پریزیڈنٹ اعجاز چوہدری نے کہا کہ بقول اعتزازاحسن تلی پر رکھے کیس میں بریت ہوئی ، قوم کا 16 ارب روپیہ ہڑپ، عدالتی کھیل ختم، پیسہ ہضم۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی اس فیصلے کےخلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کا احتساب نہیں ہونا اور سب نے 'باعزت' بری ہونا ہے تو احتساب کے ادارے ختم کر دیں تاکہ ان پر قوم کا پیسہ خرچ نہ ہو، پہلے پیسا لوٹا جاتا ہے پھر اس پیسےکو واپس لانے کیلئے مزید پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے مگر ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیسا نظام ہے جس میں کسی کے اشارہ ابرو سے ایک وقت میں جس رفتار سے کسی کے خلاف مقدمے بنتے ہیں، اسی رفتار سے پھر واپس ہونے لگتے ہیں، ڈیل اورڈھیل کی روش نے احتسابی عمل و اداروں کو مذاق بنادیا ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔