وفاقی حکومت نے سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے تحت چلنے والے ایک پاور پلانڈ کو صرف اس وجہ سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ درآمدی کوئلہ بہت مہنگا پڑ رہا ہے، حکومت اس کی بجائے مقامی اور کم قیمت والے وسائل کو ترجیح رے رہی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے حال ہی میں اس منصوبے کو روکنے سے متعلق اس کے چینی سپانسر- چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن گروپ (CCCG) کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ اس کمپنی نے 542 ملین ڈالر کی لاگت سے پلانٹ لگایا تھا۔
ذرائع کے مطابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ متبادل آپشن تجویز کریں جو درآمدی کوئلے پر مبنی پاور پلانٹ کے بدلے سپانسر کو پیش کیے جائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ متبادل آپشنز تلاش کرنے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی کریں۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس عزم سے دستبرداری ہے جو پاکستان نے رواں سال فروری میں چین سے کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان نے اس منصوبے کو اپنی اعلیٰ ترجیحی اسکیموں میں شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ فیصلہ چین کی تشویش کو دور کرنے اور واجبات کی منظوری کیلئے کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ گوادر پاور پراجیکٹ کی اسکیموں کو 18-2015 کے پہلے مرحلے میں مکمل ہونا تھا تاہم چینی انشورنس کمپنی کی جانب سے قرضوں کی ضمانت فراہم کرنے سے انکار پر تاخیر کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دیگر چینی پاور پراجیکٹس کو درپیش ادائیگیاں مسائل کی وجہ تھیں۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے رواں ہفتے سی پیک جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کسی منصوبے میں یکطرفہ تبدیلی نہیں کر سکتا، ہر فیصلے کو پہلے جے سی سی کے سامنے رکھنا ہو گا، کیونکہ یہی سی پیک کی اسٹریٹیجک منصوبہ بندی کا ضامن ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت چینی کمپنی کو شمسی وسائل پر پاور پلانٹ لگانے یا اسے تھر منتقل کرنے کی پیشکش پر غور کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت مقامی کوئلے کے فروغ کیلئے بھی کام کر رہی ہے کیونکہ 8 سال قبل درآمدی کوئلے پر یہ پاور پلانٹ چلانے کا فیصلہ بہت مہنگاثابت ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ گوادر پاورپلانٹ کو اس بندرگاہی شہر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جسے ایک دن میں 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے اور اسے جو بھی بجلی فراہم کی جاتی ہے وہ ایران سے درآمد کی جا رہی ہے۔