صف شکن
Voter (50+ posts)
@صف شکن
معافی چاہتا ہوں، میں کوئی محدث نہیں کہ عِلم الحدیث اور کلام کی بحثوں میں اُلجھوں۔
میری محدود سی معلومات کے مطابق شیعہ اور بریلوی عُلماء قران و حدیث کی روشنی میں ہی مزارات اور مقابر کے وجود کی کو کوئی توجیہہ پیش کرتے ہیں بعین دیوبندی اور سلفی عُماء کرام کے۔ وہ احکاماتِ اِسلامی سے بغاوت کر کے تو ایسا نہیں کرتے ہونگے۔ یو ٹیوب ایسے مباحث سے اٹی پڑی ہے ایک مثال نیچے پیش ہے۔
جو مقابر کو ڈھانے کا قصد کیئے بیٹھے ہیں وہ بھی اپنی دینی تعبیر کے مطابق درست ہیں اور جو اِن کو محترم بتاتے ہیں اُن کے ہاں بھی اِسکی تشریحات موجود ہیں۔ احمد رضا بریلوی، علامہ شاہ احمد نورانی، ڈاکٹر طاہرالقادری، شاہ تُراب الحق، عرفان مشہدی سے لیکر جماعت علی شاہ صاحب تک مُتعدد بریلوی عُلماء کے حوالوں سے مزارات کا احترام بتایا جاتا ہے اور اِسکے برعکس علامہ احسان اِلہی ظہیر سے لیکر مُفتی تقی عُثمانی صاحب تک اِن رسومات کو بِدعت اور غیر اِسلامی بتانے والے بھی موجود ہیں۔ شیعہ عُلماء کا نکتہِ نظر بھی بریلوی عُلماء کے قریب ہے۔
برادر محترم ہر شخص کو ہر دینی مسئلے کی دلیل کا معلوم نہ ہونا فی زمانہ شاید ممکن ہی نہیں، لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ لوگ حدیث رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم دیکھ کر بھی محظ اپنی رائے سے کام لیتے ہیں۔ بے مقصد بحث کا شوق اس ناچیز کو بھی نہیں۔
آپ نے درست فرمایا ، دلائل کے نے نام پر دنیا کا ہر مذہب و فرقہ کچھ نہ کچھ پیش کرتا ہی ہے جو بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ بھی اپنی دانست میں خدا کی عبادت ہی کرتےتھے اور اُن کے پاس بھی کوئی دلیل ہوگی۔ لیکن اگر محض اس بات پر حق بات کہنا اور اس پر عمل کرنا مذموم ٹہرتا تو شاید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بتوں کو نہ ڈھاتے کہ یہ بعض حضرات کے بقول حضرات اپنی دینی تعبیر دوسروں پر مسلط کرنا ہے۔
برادا! یہ ٹھیک ہے ایسا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے لوگوں میں شعور و آگہی کی پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر لوگ اس کے بعد بھی ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئیں تو وہی طرز عمل مناسب ہے جو حضرت ابراہیم اور ہمارے نبیpbuh کا تھا۔
اول تو یہ میں بھی علمی اعتبار سے ایک عام انسان ہی ہوں، کوئی محدث یا عالم نہیں۔ آپ نے سوال پوچھا کہ کیا ہمارے قبریں بھی روضہ رسول pbuh کے مشابہ نہ ہونی چاہئے؟ اس کے بارے میں میں وہی کہوں گا جو کوئی بھی مسلمان تعدد ازواج کے بارے میں کسی ایسے سوال پر دے گا۔ یہ نبی اکرم pbuh کی خاصیت تھی۔(صحیح البخاری کے اندر حدیث ہے کتاب الجنائز میں حدیث کا نمبر ہے 1244) المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں۔۔۔
(وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا)''اگر اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیا جائے گا تو آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلے میدان میں ہوتی ،یعنی صحابہ کرام کے ساتھ قبرستان میں ہوتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس عمارت میں ہر کوئی بغیر اجازت کے قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ نبی اکرمpbuh کے بعد سب سے زیادہ صحابہ کرام کی قبور کو سجدہ گاہ بننے کا اندیشہ تھا لیکن اُن کی قبور بھی کھلے میدان میں ہی بنائی گئیں، کیونکہ اس بنیاد پر کسی کی قبر پر عمارت قائم رکھنا ہمارے نبی اکرم pbuh کی ہی خاصیت تھی۔ اور پھر اس بنیاد پر آج بعض لوگ جو قبور پر مزار تعمیر کرتے ہیں دل پر ہاتھ رکھ کر خود ہی بتائیں کیا ایسے مزارات کسی کسی شخص کی قبر تک پہنچ میں مانع ہے ؟؟