چیف جسٹس نےبحریہ ٹاؤن کیس میں عملدرآمد بینچز بنانے پر سوالات اٹھادیئے

qazi faiz isa.png


چیف جسٹس آف پاکستان نےبحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں عملدرآمد بینچز قائم کرنے پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عمل درآمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین کرنا غیر آئینی اقدام ہے، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کل 16ہزار ایکڑ میں سے صرف 11 ہزار کی الاٹمنٹ کی اور کہا کہ پبلک زمین ٹاؤن کے نام نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمل درآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی رضامندی سے آرڈر پاس کیا، یہ نظر ثانی کیس نہیں ہے، بحریہ ٹاؤن نے کتنی رقم ادا کرنی تھی؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے جواب دیا کہ کل 460 ارب ادا کرنے تھے جس میں سے22 قسطوں میں اب تک 65 ارب ادا کیے جاچکے ہیں۔

دوران سماعت سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کے حصول کیلئے آمنے سامنے آگئے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ زمین سندھ حکومت کی تھی، پیسہ بھی سندھ حکومت کو ملنا چاہیے، فیصلہ ہوا تھا کہ یہ رقم ایک کمیشن کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی، کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس نامزد کریں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر چیف جسٹس نامزدگی نا کریں تو کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ کےجج ساتھی ججز کو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دے سکتا ہے؟ اگر فیصلے پر عملدرآمد نا ہوسکا تو کیا عملدرآمد بینچ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟

سپریم کورٹ نے عملدرآمد بینچ کی تشکیل، بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کو سپریم کورٹ میں جمع کروانے اور اس پر کمیشن تشکیل دینے کے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدالتی فیصلے میں ردوبدل پر سوالات اٹھاتے ہوئے ماضی میں بنائے گئے عملدرآمد بینچز کی تفصیل طلب کرلیا ہے اور سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
 

bahmad

Minister (2k+ posts)
View attachment 7319

چیف جسٹس آف پاکستان نےبحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں عملدرآمد بینچز قائم کرنے پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عمل درآمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین کرنا غیر آئینی اقدام ہے، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کل 16ہزار ایکڑ میں سے صرف 11 ہزار کی الاٹمنٹ کی اور کہا کہ پبلک زمین ٹاؤن کے نام نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمل درآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی رضامندی سے آرڈر پاس کیا، یہ نظر ثانی کیس نہیں ہے، بحریہ ٹاؤن نے کتنی رقم ادا کرنی تھی؟ وکیل بحریہ ٹاؤن نے جواب دیا کہ کل 460 ارب ادا کرنے تھے جس میں سے22 قسطوں میں اب تک 65 ارب ادا کیے جاچکے ہیں۔

دوران سماعت سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کے حصول کیلئے آمنے سامنے آگئے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ فیصلہ ہوا تھا کہ زمین سندھ حکومت کی تھی، پیسہ بھی سندھ حکومت کو ملنا چاہیے، فیصلہ ہوا تھا کہ یہ رقم ایک کمیشن کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی، کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس نامزد کریں گے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر چیف جسٹس نامزدگی نا کریں تو کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ کےجج ساتھی ججز کو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دے سکتا ہے؟ اگر فیصلے پر عملدرآمد نا ہوسکا تو کیا عملدرآمد بینچ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟

سپریم کورٹ نے عملدرآمد بینچ کی تشکیل، بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کو سپریم کورٹ میں جمع کروانے اور اس پر کمیشن تشکیل دینے کے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدالتی فیصلے میں ردوبدل پر سوالات اٹھاتے ہوئے ماضی میں بنائے گئے عملدرآمد بینچز کی تفصیل طلب کرلیا ہے اور سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
Ye tubhi question uthatha ha JB iss ky ball beith Jatye han