آن لائن کاروبار ہو رہا ہے، مسئلے پر قابو پانے کے بجائے لسانیت پھیلانا زیادہ ضروری ہے: سوشل میڈیا صارف
نوجوان آصف اشفاق کے دھاتی تار کی زد میں آکر جاں بحق ہونے کے بعد سے ملک بھر میں پتنگ بازی کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب و رہنما مسلم لیگ ن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پتنگیں اور ڈوریں خیبرپختونخوا سے پنجاب میں آرہی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے عظمیٰ بخاری کے اس بیان پر شدید ردعمل آیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ صوبائیت کا زہر پھیلانے والوں کو وزیر لگا دیا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب کی حد تک پتنگیں اور ڈوریں بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ہمیں اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ خیبرپختونخوا سے یہ دھاتی ڈور پنجاب میں آرہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مختلف اقدامات کے ساتھ ساتھ بہت بڑا کریک ڈائون کیا ہے، پتنگیں ڈوریں بیچنے، اڑانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو گی۔
احمد وڑائچ نے عظمی بخاری کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہ: ٹک ٹاک پنڈی کے پتنگ فروشوں سے بھری پڑی ہے، آن لائن کاروبار ہو رہا ہے، پاکستان پوسٹ سے بھی پتنگیں آ جا رہی ہیں۔ پانڈا ڈور کا گڑھ فیصل آباد ہے لیکن اس سب پر قابو پانے کے بجائے لسانیت پھیلانا زیادہ ضروری ہے۔
سعادت یونس نے لکھا: کوئی انتہائی تعصب، بدتمیزی اور صوبائیت کا زہر پھیلانے والوں کو وزیر بنا دیا گیا ہے، ہر روز پختونخوں کے خلاف زہر اگلنا ہے۔ملک کے طاقتور ٹھیک دشمنی لے رہے ہیں ایسے لوگوں کو بیٹھا کر!
ایک سوشل میڈیا صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا:پتنگ میں استعمال ہونے والا کاغذ بھی کے پی کے درختوں سے آ رہا ہے!
ایک اور صارف نے لکھا:اور پتنگ اڑانے کیلئے ہوا بھی کے پی کے کی طرف سے چلتی ہے!
ایک اور صارف نے لکھا: آپ ٹک ٹاک کھولیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ پنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد وغیرہ کی بسنت کی ویڈیوز موجود ہیں، ان کو پکڑیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مال کہاں سے آ رہا ہے!