pak4rule

Senator (1k+ posts)

مولانا امين احسن اصلاحي

نماز کی آفات
اوپر کی تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ تزکیہ نفس کے نقطہ نظر سے نماز کی کیا اہمیت ہے اور وہ کون سی نماز ہے جو آدمی کو درست رکھتی ہے لیکن یہ بحث نا مکمل رہے گی اگر ہم یہ نہ بتائیں کہ نماز کی وہ بیماریاں کیا ہیں جو اس کو بالکل بے مقصد اور بے معنی بنا کے رکھ دیتی ہیں اور ان بیماریوں کا علاج کیا ہے؟ اب ہم مناسب ترتیب کے ساتھ نماز کی چند معروف بیماریوں کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے علم کی حد تک ان کے علاج بھی بیان کریں گے۔

کسل
نماز کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت کسل اور سستی ہے۔ یہ بیماری جب کسی شخص کو لاحق ہو جاتی ہے تو نہ وہ وقت کی پابندی برقرار رکھ سکتا ہے، نہ جماعت کا اہتمام قائم رکھ سکتا ہے اور نماز میں حضور قلب کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ ایسا شخص اول تو آہستہ آہستہ سرے سے نماز غائب ہی کر دیتا ہے لیکن پڑھتا ہے تو اس طرح کہ اس کی نماز ان تمام اوصاف سے خالی ہونے کے سبب سے جو نماز میں اثر پیدا کرتے ہیں، بالکل بے جان اور بے روح ہوتی ہے۔ اس کسل کا سبب ظاہر میں کئی چیزیں ہوتی ہیں، کبھی نیند ہوتی ہے، کبھی مشغولیت ہوتی ہے، کبھی بعض دنیوی دلچسپیاں ہوتی ہیں لیکن اگر معاملہ کی تہہ میں اتر کر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اسباب محض ظاہری اسباب ہیں، اس کا حقیقی سبب در حقیقت ان ظواہر میں نہیں بلکہ دل کے اندر ہے۔

ایک کسل تو وہ ہے جو طبیعت انسانی کا خاصہ ہے۔ نیند، تکان اور مشقت طلب مشغولتیں، مستعد سے مستعد آدمی کے اندر بھی کچھ نہ کچھ سستی پیدا کر دیتی ہیں۔ اس سستی پر ارادہ کی تھوڑی سی تربیت سے انسان آسانی سے قابو پا لیتا ہے لیکن ایک سستی وہ ہوتی ہے جو نفاق کا نتیجہ ہوتی ہے اس کا علاج مشکل اور دیر طلب ہوتا ہے۔ قرآن نے سورہ نساء میں اس کا ذکر کیا ہے، آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

"منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، حالانکہ اللہ ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ اٹھتے ہیں، لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔" (نساء۔ ۱۳۲)

جہاں تک نفاق کا تعلق ہے اس کا ذکر تو آگے اپنی جگہ پر آئے گا لیکن نماز کے سلسلہ میں عام کسل کو دور کرنے کے لیے چند چیزیں مفید ہیں، ان کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔

پہلی چیز یہ ہے کہ نماز کی دین میں جو اہمیت ہے آدمی اپنے دل میں اس کو اچھی طرح جمائے۔ نماز ایمان کا پہلا مظہر ہے۔ ایمان سے پہلی ہی چیز جو پیدا ہوتی ہے وہ نماز ہے اور پھر نماز ہی سے سارا دین پیدا ہوتا ہے۔ دین جن ستونوں پر قائم ہے ان میں ایمان کے بعد سب سے پہلا ستون یہی ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی شخص اس ستون کو ڈھا دے تو اس نے درحقیقت پورے دین کو ڈھا دیا۔ صحابہ کفر و ایمان کے درمیان نماز ہی کو حد فاصل سمجھتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں اور عمال کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ تمہاری سب سے بڑی ذمہ داری نماز کا قیام و اہتمام ہے۔ جو شخص نماز کو ضائع کر دے گا وہ بقیہ دین کو بدرجہ اولیٰ ضائع کر دے گا۔ دین کا منبع اور سرچشمہ چوں کہ نماز ہی ہے اس وجہ سے دین کی حفاظت میں اس کو سب سے زیادہ دخل ہے۔ اسی چیز کے اہتمام سے آدمی اپنے پورے دین کی حفاظت کرتا ہے اگر اس میں سست پڑ جائے یا اس کو ضائع کر دے تو پھر وہ دین کی ساری حدیں توڑ کے رہتا ہے اور اپنی باگ شہوات کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اہل کتاب کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور شہوات میں پڑ گئے۔

اسی ذیل میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دین میں ہر چیز کا ایک مقام ہے اور یہ مقام خود اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ جو چیز ستون دین کی حیثیت رکھتی ہے وہ بہر حال ستون دین ہے جب تک اس کو قائم نہ کیا جائے گا دین کو قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز کو قائم نہ کرے اور بزعم خویش دن رات اسلام کی خدمت میں لگا رہے تو اقامت دین کے نقطہ نظر سے اس کی ساری کوشش لا حاصل رہے گی کیوں کہ وہ ایک عمارت بغیر بنیاد کے بنا رہا ہے جس طرح ایک عمارت میں بنیاد کا بدل کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی اسی طرح دین میں نماز کا بدل کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔ اسی حقیقت کو حدیث میں یوں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نوافل کو اس وقت تک قبول نہیں فرماتا جب تک وہ فرائض نہ ادا کرے۔

دوسری چیز جو اس کسل کو توڑنے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو سعی الٰہی ذکر الٰہی کا عادی بنائے۔ سعی الہٰی ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اذان کو خدا کی پکار سمجھے اور جونہی کانوں میں اذان کی پکار پڑے، سارے کام چھوڑ کر نماز کے اہتمام اور مسجد جانے کی تیاریوں میں لگ جائے۔ اس اہتمام اور تیاری کا انداز کسل مندانہ نہ ہو بلکہ ایک مستعد اور چاق و چوبند آدمی کا ہو جس طرح ایک فرماں بردار غلام آقا کے حکم کے لیے گوش بر آواز رہتا ہے اور اس کی پکار سنتے ہی دوسرے سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کر تعمیل حکم کے لیے حاضر ہو جاتا ہے، اسی طرح آدمی کو چاہیے کہ اذان کی آواز سنتے ہی نماز کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ نماز کے وقت سب سے زیادہ ضروری، سب پر مقدم اور سب سے اہم فرض اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز ہی ہے۔ اضطرار اور مجبوری کے حالات کے سوا کوئی دوسرا کام خواہ وہ دین ہی کا کام ہو اس پر مقدم نہیں ہو سکتا۔ آدمی اگر کچھ عرصہ اذان کے سنتے ہی دوسرے سارے دھندوں کو چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی عادت ڈالے تو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو اس کی ایک محبوب عادت بنا دے اور نماز کے معاملہ میں اس کی یہ کسل کی بیماری دور ہو جائے۔

نیند سے جو کسل پیدا ہوتا ہے اس کا بہترین علاج حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا ہے اور مضمون کے آغاز میں حضرت ابو ہریرہؓ کے واسطہ سے ہم اس کو بیان کر آئے ہیں۔ نیند اس وقت تک تو بلا شبہ بہت بھاری چیز ہے جب تک آدمی بستر پر پڑا اینڈتا رہے لیکن جب ایک مرتبہ ہمت کر کے بستر چھوڑ دے کچھ اللہ کو یاد کرے۔ پھر وضو کرے اور نماز پڑھ لے تو درجہ بدرجہ وہ سستی کی بد دلی اور بد حالی سے نکل کر خوشی و نشاط کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو سونے کی حسرت نہیں رہ جاتی بلکہ اگر حسرت ہوتی ہے تو اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ جاگنے کی یہ لذت و راحت اس سے پہلے کیوں نہ حاصل کر سکا۔ یہ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ آدمی نماز کے لیے اپنی نیند قربان کر کے کبھی پچھتائے گا نہیں۔ تھوڑے ہی عرصہ کی مشق کے بعد جاگنے کے بعد کی لذت کی یاد طبیعت پر اس قدر غالب ہو جاتی ہے کہ وہ گہری سے گہری نیند سے بھی آدمی کو اٹھا کھڑتی ہے۔

To be continued
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
Re: کیبل: نماز کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت

Brother your heading is very misleading. I am reading that as cable not kassal.
Nice article though!
 

pak4rule

Senator (1k+ posts)
Re: کیبل: نماز کو برباد کرنے والی سب سے عام آفت

Brother your heading is very misleading. I am reading that as cable not kassal.
Nice article though!

Accept my apologies, now I failed to correct the heading.... :(

dont know how I could do...

anyways pray for me that I pray namaz in the best possible manner and adopt the guided ways.
 

pak4rule

Senator (1k+ posts)
وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت


مولانا امين احسن اصلاحي

وسوسہ
نماز کی دوسری عام آفت وسوسہ ہے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی آدمی کے ذہن پر وسوسوں اور پراگندہ خیالات کا ہجوم ہوتا ہے جس طرح برسات کی بھیگی ہوئی راتوں میں کسی لیمپ پر پتنگوں کا ہجوم ہوتا ہے جو بات کبھی بھی یاد آنے والی نہ ہو وہ بھی نماز میں یاد آ جائے گی اور پھر اسی ایک بات سے سینکڑوں باتیں پیدا ہو جائیں گی۔ بعض لوگ اس صورت حال سے بہت بد دل اور پریشان ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاص ان کے اپنے دل کی خرابی ہے کہ اس طرح کے وسوسے پیدا ہو رہے ہیں ورنہ نماز میں یہ بات نہیں ہونی چاہیے ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک نماز میں وسوسہ پیدا ہونے کا تعلق ہے اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی نماز سے جتنی ہی محبت ہے شیطان کو اس نماز سے اتنی ہی دشمنی ہے۔ اس وجہ سے آدمی جب نماز شروع کرتا ہے تو ابلیس کے کارندے اور ایجنٹ وسوسہ اندازی کا حملہ سب سے زیادہ سخت انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے مقابل میں قوت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے شیطان کو کچھ زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی جو ان وسوسوں ہی کو غذائے روحانی سمجھتے ہیں۔ اگر شیطان ایک وسوسہ پیدا کرتا ہے تو وہ خود اپنے واہمہ کی خلاقی سے اس میں دس کا اور اضافہ کر لیتے ہیں۔

ان وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تین باتیں مفید ہیں:
ایک عام بات تو یہ ہے کہ آدمی جس وقت یہ حالت محسوس کرے۔ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور اس آدمی کی طرح اپنی نماز کی حفاظت اور تکمیل کے لیے مستعد ہو جائے جس کو دشمن کے حملہ کی اطلاع ہو چکی ہو اور اس نے یہ عزم کر لیا ہے کہ وہ دشمن کے علی الرغم اپنی نماز پوری کر کے رہے گا اور ان وسوسہ اندازیوں کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔ آدمی کی یہ مستعدی ہی بسا اوقات شیطان کے سارے طلسم کو باطل کر دیتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نماز کے کلمات صرف اپنے جی ہی میں نہ پڑھے بلکہ اس طرح پڑھے کہ وہ خود ان کو سن سکے اور ان کے معانی پر دھیان کر سکے۔ البتہ احتیاط ضروری ہے کہ اس سے دوسرے پاس کھڑے ہونے والے کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ یہ چیز وسوسہ کو دور کرنے میں بہت مددگار ہوتی ہے۔ جب آدمی کا ذہن معانی کے پیچھے لگ جاتا ہے تو وسوسوں کی وادیوں میں بھٹکنے سے بہت بڑی حد تک محفوظ ہو جاتا ہے۔

تیسری چیز جو سب سے زیادہ مفید اور کارگر ہے یہ ہے کہ آدمی اپنی عام زندگی میں اپنے خیالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ اور بلند رکھنے کی کوشش کرے۔ وہ ہمیشہ ایسی چیزیں سوچے جو اس کے لیے بھی دین و دنیا میں نافع ہوں اور دوسروں کو بھی نفع پہنچانے والی اور ترقی دینے والی ہوں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے ذہن کی چکی ہمیشہ چلتی رہتی ہے۔ اگر آدمی اس میں صاف ستھرا غلہ ڈالتا رہتا ہے تو وہ اس صاف ستھرے غلہ کو پیستی رہتی ہے اور اس سے نہایت عمدہ آٹا برآمد ہوتا رہتا ہے وہ موقع پاتے ہی اپنے کنکر پتھر کی مٹی بھر کر اس میں جھونک دیتا ہے اور یہ چکی اس کو دلنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ چیز چکی کے نظام کو بالکل درہم برہم کر دیتی ہے، یہ حادثہ اگر بار بار پیش آنے لگے تو چکی اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ اس میں اچھا آٹا تیار کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ عمدہ سے عمدہ گندم بھی اس میں ڈالیے تو بھی آٹا کر کرا ہی نکلے گا۔

جو آدمی اپنے ذہن میں اچھے خیالات کی پرورش کا عادی ہو جاتا ہے نماز میں اس کو وسوسے کم لاحق ہوتے ہیں کیوں کہ وہ جس طرح کے خیالات سے مانوس ہوتا ہے، اسی طرح کی روحانی غذا اس کو نماز میں بھی مل جاتی ہے اور اگر کچھ خیالات پیدا ہوتے ہیں تو وہ ایسے پست نہیں ہوتے کہ نماز کے بلند مقصد سے بالکل بے جوڑ ہو جائیں۔ حضرت عمرؓ جیسے صاحب حضور و شہود کی نماز میں بھی کبھی کبھی خارجی حالات خلل انداز ہو ہی جاتے تھے۔ کبھی کبھی عین حالت نماز میں ان کا ذہن ایران و شام میں لڑنے والی فوجوں کی ترتیب میں مشغول ہو جاتا تھا۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ بھی تو ایک قسم کا کھو جانا ہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ بھی ایک قسم کا کھو جانا ہی ہے لیکن بڑا فرق ہے اس کھو جانے میں جو کسی غیر کی گلی میں ہو اور اس کھو جانے میں جو اسی کے کوچے میں ہو جس کے در کی تلاش ہے۔

اس وسوسہ کی ہی ایک قسم یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کو نہ اپنی طہارت پر اعتماد ہوتا ہے نہ وضو پر اور نہ نماز پر۔ وضو کے لیے بیٹھیں گے تو ہاتھ دھونے ہی پر لوٹے کے لوٹے پانی کے بہا دیں گے لیکن ان کا اطمینان نہیں ہو گا کہ ہاتھ دھویا گیا۔ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے تو بار بار نیت باندھیں گے اور توڑیں گے لیکن ان کی نیت ہے کہ کسی طرح بندھنے ہی میں نہیں آتی۔

یہ ایک سخت قسم کی ذہنی بیماری ہے جس کا علاج یہ ہے کہ آدمی اس کو بیماری سمجھے اور اپنی طبیعت کی اصلاح کی فکر کرے۔ بعض لوگوں کو یہ بیماری شک کے راستہ سے لا حق ہوتی ہے، ان کو اپنا ہر کام مشتبہ معلوم ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو اسلامی شریعت کا یہ اصول اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہیے کہ دین کے معاملات میں گمان غالب کافی ہے۔ اگر ایک کام کے متعلق ہمارا گمان یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہو گیا تو ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہو گیا۔ اس سے زیادہ اس کے درپے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

بعض لوگوں کو یہ بیماری احتیاط اور تقوٰی میں غلو کے سبب سے لاحق ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اسلامی شریعت کے مزاج سے واقف کرنا چاہیے کہ یہ شریعت سہل ہے اور اللہ اور رسول کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ تشدد پسندی سے بچے اور اپنے لیے معتدل راہ کا انتخاب کرے۔ جو شخص اپنی تشدد پسندی کی وجہ سے دین سے دھینگا مشتی شروع کر دیتا ہے، بالآخر وہ شکست کھا جاتا ہے۔

To be continued
 

fahid_asif

Senator (1k+ posts)
Re: وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت

I was really in search of this................thanks alot.now i will try these methods........:jazak:
 

FaisalKh

Chief Minister (5k+ posts)
Re: وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت

:jazak: Brother very informative...
 

GraanG2

Chief Minister (5k+ posts)
Re: وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت

:jazak: Brother...This will Improve my concentration in Prayers InshaAllah.
 

omerkashmiri

Siasat.pk - Blogger
Re: وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت

لیکن بڑا فرق ہے اس کھو جانے میں جو کسی غیر کی گلی میں ہو اور اس کھو جانے میں جو اسی کے کوچے میں ہو جس کے در کی تلاش ہے
Subhanallah kia jumla kaha hay !
 

pak4rule

Senator (1k+ posts)
مدعا سے بے خبری : نماز کی تیسری آفت

مدعا سے بے خبری
تیسری آفت مدعا سے بے خبری ہے۔ اس زمانہ میں عوام کا بہت بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو عربی زبان سے نا واقف ہونے کی وجہ سے سرے سے جانتے ہی نہیں کہ وہ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس میں کس بات کا اقرار اور کس بات کا انکار کرتے ہیں وہ نماز کے الفاظ کو منتروں کی طرح پڑھتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ خواہ ہم ان کے معنی مطلب سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ منتر کار گر ہو کے رہیں گے۔ ان کے نزدیک سارا جادو بس ان الفاظ میں ہے اگر الفاظ الٹے سیدھے زبان سے ادا ہو گئے تو تیر نشانہ پر لگ گیا۔

دوسرے بہت سارے لوگ ہیں جو ان الفاظ کے معنی سے تو بے خبر نہیں ہیں لیکن یا تو غفلت کے سبب سے دھیان نہیں کرتے یا دھیان کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ یہ جس طرح قرآن کی تلاوت محض بطور تبرک کرتے ہیں اسی طرح نماز میں اس کی دعائیں بطور تبرک پڑھ لیتے ہیں۔

یہ صورت حال خواہ جہالت کے سبب سے ہو یا غفلت اور غلط فہمی کے سبب سے۔ نماز کو بالکل بے اثر اور بے مقصد بنا کے رکھ دیتی ہے۔ کم از کم تزکیہ نفس کے نصب العین کو تو اس نماز سے مشکل ہی سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو لوگ عربی زبان سے نا واقف ہیں، وہ کم از کم ان سورتوں اور دعاؤں کے معنی مطلب تو ضرور سیکھ لیں جو عموماً نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ یہ کام تھوڑی سی محنت اور بہت معمولی اہتمام سے ہر شخص کر سکتا ہے جو لوگ اتنا بھی نہیں کر سکتے، نہ وہ نماز کی اہمیت سے واقف ہیں نہ دین کی اہمیت سے۔

رہے وہ لوگ جو عربی زبان سے واقف ہیں یا کم از کم نماز کی دعاؤں کے حد تک واقف ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز میں جو کچھ سنیں یا پڑھیں اس کے لفظ لفظ کے معنی پر دھیان کریں، آدمی کا ذہن اگر کسی چیز پر جمنے اور غور کرنے کا عادی ہو تو شروع شروع میں وہ اس میں مشقت اور اجنبیت محسوس کرتا ہے لیکن یہ محض عادت کی خرابی ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذہن کو سونچنے اور سمجھنے کے لیے بنایا ہے۔ ہرزہ گردی کے لیے نہیں بنایا ہے۔ اس وجہ سے اگر وہ اس راہ پر لگایا جائے تو تھوڑی سی محنت سے لگ جاتا ہے اور جب لگ جاتا ہے تو پھر اس سے لگ ہو کر وہ زندگی میں کوئی لذت ہی محسوس نہیں کرتا۔

یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب ایک ہی طرح کی دعائیں اور سورتیں ہر نماز میں پڑھی جاتی ہیں اور وہ معلوم ہیں تو پھر ان پر ہر روز اور ہر وقت غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ جب اس کو سمجھ لیا تو یہ کافی ہے۔ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں وہ نماز کی اور نماز کی دعاؤں کی حقیقت سے نا واقف ہیں۔ نماز معلومات کے اضافہ کے لیے نہیں پڑھی جاتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید، اس سے راہنمائی اور استعانت کی طلب اور توبہ و استغفار کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ یہ مقصد آخر بے سمجھے بوجھے الفاظ دہرا دینے سے کس طرح حاصل ہو سکتا ہے جب کہ آدمی کا ذہن اور دماغ حاضر نہ ہو۔ پھر یہ گمان بھی صحیح نہیں ہے کہ نماز میں ایک ہی طرح کی چیزوں کا بار بار اعادہ ہے۔ نماز میں نئے نئے انکشافات بھی ہیں اور ان انکشافات کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے لیکن یہ انکشافات تہجد کی نماز میں ہوتے ہیں بشرطیکہ آدمی تہجد، اس کے شرائط کے ساتھ ادا کرے اور اس کو قرآن مجید یاد ہو۔
To be continued
 

moazzam

Politcal Worker (100+ posts)
Re: وسوسہ : نماز کی دوسری عام آفت

JAZAKALLAH brother siasat.pk par shukar hey koi informative post parhney ko mila very informative JAZAKALLAH
 

famamdani

Minister (2k+ posts)
Re: مدعا سے بے خبری : نماز کی تیسری آفت

Mashallah..................keep it up Bro.............................:jazak::jazak:
 

trestelle

MPA (400+ posts)
Namaz

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ،،،



1 - جب تم نماز نہ پڑهو تو مت سوچو كہ وقت نہيں ملا. بلكہ يہ سوچو كہ
تم سے كونسى غلطى ہوئى ہے كہ الله تبارک وتعالى نے تم كو اپنے سامنے كهڑا كرنا
پسند نہ كيا ... اس پر غور كرو!!!



2 - اگر توكل سيكهنا ہے تو پرندوں سے سيكهو كہ جب وه شام كو گهر واپس
جاتے ہيں توان كى چونچ ميں كل كے لئيے كوئى دانہ نہيں ہوتا.



3 - جو ايمان اتنا كمزور ہو كہ چل كر مسجد تک نہ جائے وه بهلا قيامت
كے دن جنت ميں كيسے لے كر جائيگا....... غور كريں!!!!!



4 - ہركوئى چاہتا ہے كہ مجہے كاميابى مل جائے ليكن جب مسجد سے دن
ميں 5 مرتبہ آواز آتى ہے "حي على الفلاح" آؤ كاميابى كى طرف تو اس طرف جانے
كى ہم زحمت نہيں كرتے. افسوس كہ جس چيز كو وه سارى زندگى ہر جگہ تلاش كركہ بهى
حاصل نہيں كرسكا وه تو خود اسے اپنے پاس بلارہى ہے .... ذرا سوچيں!!!



5 - الله رب العزت نے فرمايا اگر ميں نے تمام باتيں قسمت ميں لكہنى
ہوتيں تو ميں اپنے بندے كو دعا مانگنا نہ سيكهاتا.



6 - كوشش كرو كہ تم دنيا ميں رہو دنيا تم ميں نہ رہے كيونكہ كشتى جب
تک پانى ميں رہتى ہے خوب تيرتى ہے ليكن جب پانى كشتى ميں جاتا ہے تو وه ڈوب
جاتى ہے .

جزاك ال