مسجد کے ممبر سے قتل کی ترغیب
کل جب میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گھر کے پاس والی ایک مسجد میں گیا تو داخل ہوتے ہوئے مسجد کا نام پڑھ کر مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کے یہ میرے عاشق رسول ؐبریلوی بھائیوں کی مسجد ہے ، میں فرقہ واریت کی سوچ سے بالا تر ہو کر کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کا قائل ہوں یہاں تک کے میرے والد نے مجھے حفظ قران کے لئے بھی ایک دیوبندی مدرسے میں داخل کروایا( کیونکے انکے بارے میں گمان ہے کہ یہ لوگ اچھا حفظ کرواتے ہیں )جہاں میں نے حفظ کیا ، میرا اپنا خاندان شیعہ اور بریلوی مکتب فکر کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے الحمدلللہ مذہبی اور فکری آزادی کا ماحول ہے
مسجد میں خطبہ سننے کے لئے بیٹھا توپتہ چلا کے آج کا موضوع "ناموس رسلالت اور حضرت عمر ؓ"ہے
مولانا صاحب نےناموس رسالت کے ذیل میں حضرت عمر ؓ کی زندگی کے دو واقعات سنائے.
پہلا واقعہ
ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی معاملے میں جھگڑا ہوگیا یہودی نے کہا میں مسلمانوں کے نبی ؐ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں دونوں آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہووے آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ، منافق نے فیصلہ قبول نا کیا اور اور کہا میں تو حضرت عمر ؓ سے فیصلہ کرواؤں گا ، دونوں آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہودی نے بتایا کے حضور ؐ نے میرے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے ،مگر یہ شخص ماں نہیں رہا ، اس پر حضرت عمر ؓنے طیش میں آ کراس منافق کی گردن اڑا دی اور کہا کر جب حضور ؐ نے فیصلہ سنا دیا تو یہ میرے پاسس کیا لینے آیا ہے میرے پاسس اسکے لئے یہی انصاف ہے اس پر اس کے قبیلے والے اس کے قتل کا قصاص لینے آ گئے یہاں تک کے قران کے آیت حضرت عمر ؓکے حق میں آ گئی کے آپ نے بلکل ٹھیک کیا ہے اور اس شخص کا خون ضائع گیا ہے . (سامعین کی سبحان الله کی صدائیں )
مولانا سے آپ ؓ کا یہ فیصلہ سن کر میرے ذہن میں وہ تمام واقعات دوڑ گئے جب آپؐ کے ارد گرد کے لوگ آپ ؐکے فیصلوں پر نہ صرف شک کیا کرتے تھے بلکے نقطہ چینی اور اختلاف کیا کرتے تھے صلح حدیبیہ پر صحابہ ؓ کا صلح پر اعتراض اور اکابرین کے شکوک پر مبنی مقالمے تاریخ میں اون ریکارڈ ہیں (تاریخ سے واقف لوگ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے )آپ ؐ نے تو اس کو گستاخی قرار دے کر "حد ِ خدا " جاری نہیں کی .
دوسرہ واقعہ
آپ ؓکے دور خلافت میں بحرین میں صحابہ ؓ کرام کے کچھ بچے کھیل کے میدان میں ہاکی کھیل رہے تھے . (ہاکی ؟؟؟؟ واقعی؟؟؟؟ ) کھیلتے ہوئے گیند کسی پادری کے احاطے میں چلا گیا اس پادری نے نہ صرف گیند واپس کرنے سے انکار کر دیا بلکے آپؐ کی شان میں گستاخی بھی کر دی جس پر صحابہ ؓ کے تربیت یافتہ بچوں کو اشتعال آ گیا (مولانا کا زور صحابہ کی تربیت پر تھا ) اور انہوں نے اس پادری کو ہاکیاں مارمار کر اسکا "گول" کر دیا (جی ہاں ! یہ مولانا کے الفاظ تھے ،سینس آف ہیومر چیک کریں )یہ خبر جب حضرت عمر ؓ تک پہنچی تو آپ ؓ نے بھی انکے اس عمل کی تصدیق کی . (سامعین کی سبحان الله کی صدائیں )
لوگوں کی سبحان الله کی صدائیں سن کر نہایت افسوس ہوا ، ایک شعر کا دوسرا مصرا یاد آگیا ..
کل جب میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گھر کے پاس والی ایک مسجد میں گیا تو داخل ہوتے ہوئے مسجد کا نام پڑھ کر مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کے یہ میرے عاشق رسول ؐبریلوی بھائیوں کی مسجد ہے ، میں فرقہ واریت کی سوچ سے بالا تر ہو کر کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کا قائل ہوں یہاں تک کے میرے والد نے مجھے حفظ قران کے لئے بھی ایک دیوبندی مدرسے میں داخل کروایا( کیونکے انکے بارے میں گمان ہے کہ یہ لوگ اچھا حفظ کرواتے ہیں )جہاں میں نے حفظ کیا ، میرا اپنا خاندان شیعہ اور بریلوی مکتب فکر کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے الحمدلللہ مذہبی اور فکری آزادی کا ماحول ہے
مسجد میں خطبہ سننے کے لئے بیٹھا توپتہ چلا کے آج کا موضوع "ناموس رسلالت اور حضرت عمر ؓ"ہے
مولانا صاحب نےناموس رسالت کے ذیل میں حضرت عمر ؓ کی زندگی کے دو واقعات سنائے.
پہلا واقعہ
ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی معاملے میں جھگڑا ہوگیا یہودی نے کہا میں مسلمانوں کے نبی ؐ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں دونوں آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہووے آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ، منافق نے فیصلہ قبول نا کیا اور اور کہا میں تو حضرت عمر ؓ سے فیصلہ کرواؤں گا ، دونوں آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہودی نے بتایا کے حضور ؐ نے میرے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے ،مگر یہ شخص ماں نہیں رہا ، اس پر حضرت عمر ؓنے طیش میں آ کراس منافق کی گردن اڑا دی اور کہا کر جب حضور ؐ نے فیصلہ سنا دیا تو یہ میرے پاسس کیا لینے آیا ہے میرے پاسس اسکے لئے یہی انصاف ہے اس پر اس کے قبیلے والے اس کے قتل کا قصاص لینے آ گئے یہاں تک کے قران کے آیت حضرت عمر ؓکے حق میں آ گئی کے آپ نے بلکل ٹھیک کیا ہے اور اس شخص کا خون ضائع گیا ہے . (سامعین کی سبحان الله کی صدائیں )
مولانا سے آپ ؓ کا یہ فیصلہ سن کر میرے ذہن میں وہ تمام واقعات دوڑ گئے جب آپؐ کے ارد گرد کے لوگ آپ ؐکے فیصلوں پر نہ صرف شک کیا کرتے تھے بلکے نقطہ چینی اور اختلاف کیا کرتے تھے صلح حدیبیہ پر صحابہ ؓ کا صلح پر اعتراض اور اکابرین کے شکوک پر مبنی مقالمے تاریخ میں اون ریکارڈ ہیں (تاریخ سے واقف لوگ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے )آپ ؐ نے تو اس کو گستاخی قرار دے کر "حد ِ خدا " جاری نہیں کی .
دوسرہ واقعہ
آپ ؓکے دور خلافت میں بحرین میں صحابہ ؓ کرام کے کچھ بچے کھیل کے میدان میں ہاکی کھیل رہے تھے . (ہاکی ؟؟؟؟ واقعی؟؟؟؟ ) کھیلتے ہوئے گیند کسی پادری کے احاطے میں چلا گیا اس پادری نے نہ صرف گیند واپس کرنے سے انکار کر دیا بلکے آپؐ کی شان میں گستاخی بھی کر دی جس پر صحابہ ؓ کے تربیت یافتہ بچوں کو اشتعال آ گیا (مولانا کا زور صحابہ کی تربیت پر تھا ) اور انہوں نے اس پادری کو ہاکیاں مارمار کر اسکا "گول" کر دیا (جی ہاں ! یہ مولانا کے الفاظ تھے ،سینس آف ہیومر چیک کریں )یہ خبر جب حضرت عمر ؓ تک پہنچی تو آپ ؓ نے بھی انکے اس عمل کی تصدیق کی . (سامعین کی سبحان الله کی صدائیں )
لوگوں کی سبحان الله کی صدائیں سن کر نہایت افسوس ہوا ، ایک شعر کا دوسرا مصرا یاد آگیا ..
"دل کے چھالوں کو کوئی شاعری کہے تو کہے
دکھ تو تب ہوتا ہے جب کوئی واہ ! واہ! کہتا ہے"
دکھ تو تب ہوتا ہے جب کوئی واہ ! واہ! کہتا ہے"
خیر ! جب عالم کا یہ لیول ہو تو ان سامعین سے اس سے بہتر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے
یہ دونوں واقعات سنا کر شاید مولانا کو احساس ہوگیا کہ یہ شاید کچھ عوام کو ہضم نہ ہوں تو ساتھ ہی کہنے لگے کے آج کل لوگ اس قسم کے معاملات میں ناجانے کیوں ڈرنا شروع ہو جاتے ہیں ان معاملات میں گھبرانا نہیں چاہیے یہی الله کا قانون ہے یہی ہمارے ایمان کا امتحان ہے کے ہمیں آپ ؐ کے ناموس کے لئے ،آپؐ کی شان میں گستاخی سن کر کتنی غیرت آتی ہے اس لیے ڈرنا نہیں چاہیے (ان شارٹ فوراَ گردن اڑا دینی چاہیے )
پھر مولانا پوائنٹ پر آئے اور کہنے لگے کے"غازی ملک ممتاز قادری کی رہائی کے لئے دعا کی جائے کہ خدا اس سچے عاشق رسول کو جلد آزادی نصیب فرمائے، یہ میڈیا والے اغیار کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں اور آپ ؒ کو قاتل قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جبکے آپ نے سلمان تاثیر جیسے گستاخ کو واصل جہنم کیا ہے"( کیس ہم سب جانتے ہیں کے کیا ہے )
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کے کیا آپ ؐ کے دور میں بھی کوئی بھی بغیر کسی کو حیلے اور حجت کے کسی کو اس طرح گستاخی کا مرتکب قرار دے کر قتل کر دیتا تھا ؟ اور "حدِخدا "جاری کر دیتا تھا؟ کوئی قاضی نہیں ؟کوئی نبی ؐ کی پرمشن نہیں ؟ میرا نہیں خیال!
اور کیا واقعی عدل کے لئے شہرت رکھنے والےحضرت عمر ؓ نے بھی اس پادری کی صحابہ کے صاحبزادوں کے ہاتھوں ماوراءعدالت قتل ، پبلک لینچنگ اور خود قانون کو ہاتھ میں لینے کو احسن عمل قرار دیا ؟
اگر یہ دونوں واقیات حقیقت پر مبنی ہیں جیسا کے مولانا نے فرمایا تو کیا یہی طریق رہا ہے آپ ؐ اور خلفاءؓ کے دور میں ؟ میرا نہیں خیال
اور کیاحضرت عمر ؓ کی زندگی کے ان دو واقعات کو آج کے پاکستان میں مثال بنایا جا سکتا ہے ؟
اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان مولانا کو قتل کی ترغیب دینے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے لئےلوگوں کو تحریک دینے پر کون پکڑے گا ؟ اسپیشلی پاکستان جیسی ریاست میں جہاں ناموس رسالت کا قانون موجود ہے اور عمل میں ہے جہاں ریاست کی طرف سے لوگوں کواس قانون کے تحت سزا بھی ملتی ہے وہاں پر فرد واحد کس طرح خود موقع پر توہین کا فیصلہ کر کے حد جاری کر سکتا ہے ؟ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کے ہماری مساجد کے ممبر وں پر کس قدر عالم فاضل لوگ براجمان ہیں ؟اور اس میں کسی فرقے کی کوئی قید نہیں تقریباً ہر جگہ یہی حال ہے کہیں کم تو کہیں زیادہ ، مذہب پر کسی کی جان لے لینے والے ہم لوگ خود مذہبی بصیرت کس قدر کم رکھتے ہیں جان لینے کو تو تیار ہیں دیتا کوئی نہیں اب ممتاز قادری صاحب کو ہی دیکھ لیں گستاخ کو جہنم واصل کیا مگر پھانسی کے خلاف درخواست بھی دی ہے . جناب نبی ؐ کی محبت میں ایک قدم اٹھایا ہے تو اسے اون بھی کریں جنت کمائی ہے تو جانے میں دیر ی کیوں ؟حوروں کو اور انتظار مت کروائیں ایک غازی کی صحبت کا
میرا ماننا ہے کہ طالبان اگر دیوبندی دہشت گردی ہے تو آپ ؐ کے عشق میں کسی پر بھی توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کر دینا بریلوی دہشتگردی ہے ، اور دہشتگردی کسی بھی شکل میں ہو قابل ِ مذمت ہے
الله پاکستان کو ہر قسم کی مذہبی انتہاء پسندی کے شر سے بچائے آمین
زین عترت