حفیظ بھائی ۔ ذرا بتا دیں کونسے بجلی گھر بنے ہیں جو سی پیک کے علاوہ ہوں۔ جب سی پیک کے قرضے پاکستان کے مجموعی قرضوں میں جمع نہی کر رہے تو اس کے پیسوں سے بننے والے موٹر وے اور ان کے پیسوں سے بننے والے بجلی کے کارخانے بھی ایک طرف رکھیں۔ ورنہ ۵۶ ارب ڈالر مزید اس ۱۸۷ ارب ڈالر میں جمع کر لیں جو ن لیگ پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں میں لے چکی ہے۔
پہلے تو یہ بتائیں کہ مرکزی حکومت ، جس نے یہ ریکارڈ توڑ قرضے لئے اس نے کونسے بجلی گھر بنائے ہیں اور کونسے سکول۔
اس کے بعد آئیں گے پنجاب حکومت پر جس کا ڈویلپمنٹ بجٹ پانچ سالوں میں ۳۵۰۰ ارب تھا۔ آپ شریفوں کے شیدائی تو ہیں، لیکن کیا آپ کو پاکستان کی اکانومی کا ادراک ہے؟ کیا کبھی سوچا کہ اس ووٹ کی سیاست اور گھپلوں کے بیوپار میں انہوں نے قوم کو کس کِلے کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کا شاید آنے والی حکومتیں بھی اگلے پندرہ سال تک سدِباب نہ کر سکیں۔
۔
۔۲۰۱۳ میں ٹریڈ ڈیفیسٹ ۸ ارب ڈالر تھا تو آج ۴۲ ارب ہے۔ جب حکومت اٹھائی تو یہ ۸ ارب سالانہ تھا
۔پاکستان کا بیرونی قرضہ ۹۷ ارب ڈالر ہے جو حکومت اٹھاتے وقت ۵۶ ارب ڈالر تھا
۔ڈالر آج ۱۲۲ روپئے کا ہے جو ۲۰۱۳ میں ۹۸ روپئے کا تھا۔
۔ پاکستان کو ہر سال ۱۲ ارب بیرونی قرض پر قسط دینا ہے اور ۴۲ ارب ڈالر کا ٹریڈ ڈیفیسٹ فنانس کرنا ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس غیر ممالک میں پاکستانیوں سے آنے والے ۲۰ ارب ڈالر کے علاوہ کوئی اور سورس نہیں۔ اور اس میں ابھی سی پیک کے لون یا گارنٹیڈ پرافٹ شامل نہیں جو اگلے سال سے مزید ستیاناس کرے گا۔
۔ اب کیا کوئی موٹر وے ڈالرز میں بچے انڈے دے گی، یا کوئی میٹرو یا پھر کوئی اورنج عیاشیاں کہ اتنا ڈالر اکٹھا کیا جا سکے۔
۔ میرے پنڈ کے پھجےکمہار کو بھی ادھار کا کھلا پیسہ دے دو اور کہو ادھا پچدا لگاتے جاو اور باقی اپنے گھڑوں میں بھرتے رہو تو یہ کام وہ بھی شاید شریفوں سے بہتر کر لیتا۔ رہی بات کسی سکول ہسپتال، سڑک یا میٹرو کی تو بھائی صاحب ان کا اپنا مرکزی ڈویلپمنٹ بجٹ ۴ ہزار ارب کا تھا اور پنجاب کا ڈویلپمنٹ بجٹ تھا تین ہزار پانچ سو ارب۔