کراچی لیاری میں عمارت گرنے کے بعد تیسرے روزیسکیو آپریشن مکمل

408662_33020_updates.jpg

یاری کے علاقے بغدادی میں رہائشی عمارت گرنے کے اندوہناک واقعے کے بعد تیسرے روز ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا۔ ریسکیو حکام نے تصدیق کی ہے کہ ملبے سے 27 افراد کی لاشیں نکالی گئیں، جن میں 3 بچے، 9 خواتین اور 15 مرد شامل ہیں۔


ریسکیو ٹیموں نے ہیوی مشینری کی مدد سے ملبہ ہٹایا، جبکہ متاثرہ عمارت کے نیچے سے آخری لاش نوجوان زید کی نکالی گئی۔ واقعے میں 11 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے 10 کو طبی امداد کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا، جبکہ ایک زخمی تاحال زیر علاج ہے۔


چیف فائر آفیسر نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ریسکیو کا عمل اس لیے طویل ہوا کیونکہ ملبے کے نیچے لاشوں کی موجودگی کا خدشہ تھا، اس لیے کام احتیاط سے کیا گیا۔ ان کے مطابق لائف ڈیٹیکٹیو ڈیوائس کے ذریعے ملبے کے نیچے دبے افراد کی موجودگی کا پتہ چلایا جا سکتا تھا، لیکن مختلف اداروں کی موجودگی اور مشینری کے شور کی وجہ سے اس ڈیوائس کا مؤثر استعمال ممکن نہیں ہو سکا۔


وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ متعدد بار لوگوں کو مخدوش عمارتیں خالی کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن وہ مزاحمت کرتے ہیں، جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔


انتظامیہ کے مطابق لیاری میں مجموعی طور پر 22 عمارتوں کو مخدوش قرار دیا گیا ہے، جن میں سے 14 کو خالی کرا لیا گیا جبکہ باقی 8 عمارتوں کو خالی کروانے کی کوششیں جاری ہیں۔


عمارت گرنے کے نتیجے میں ارد گرد کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پولیس نے اطراف کی عمارتوں کو خالی کرا کر علاقہ سیل کر دیا ہے، جبکہ عمارت کے نیچے پارک کیے گئے تقریباً 50 رکشے بھی ملبے تلے دب گئے۔


عمارت گرنے سے متاثرہ ہندو مہیشوری برادری سے تعلق رکھنے والے 20 افراد کی اجتماعی تدفین موسیٰ لین ایدھی سرد خانے سے بلدیہ ٹاؤن کے مہیشوری قبرستان میں کی گئی۔


دریں اثنا، لیاری آگرہ تاج کے علاقے میں ایک 8 منزلہ رہائشی عمارت میں دراڑیں پڑنے کے بعد اسے خطرناک قرار دے کر سیل کر دیا گیا۔ عمارت کی بجلی اور پانی کی فراہمی بھی منقطع کر دی گئی۔ متاثرہ رہائشیوں نے احتجاج کرتے ہوئے متبادل رہائش فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کے مطابق متاثرہ افراد کو قریبی اسکول میں منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔


ادھر عمارت کے بلڈر کے خلاف کلری تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس میں ٹھیکیدار کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ حکام کے مطابق یہ عمارت صرف دو سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔
 

Back
Top