سوشل میڈیا کی خبریں

نومئی کے واقعہ کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تو ان کی جان تب چھوٹی جب تک انہوں نے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان نہ کیا اور انہیں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ رہنما نہ صرف تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے بلکہ نومئی کے واقعات کی مذمت بھی کرتے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا، پھر بات نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے نکل کر دیگر پریس کلبز اور ویڈیو پیغامات تک آگئی۔۔ پریس کانفرنسز کرنے کا سلسلہ طویل عرصہ سے رکا ہوا تھا لیکن عثمان ڈار کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوگیا اور عثمان ڈار نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔ عثمان ڈار جنہیں کراچی میں گرفتار کیا گیا تھا اور نگران وزیرداخلہ بھی اسکی گرفتاری کا اعتراف کرچکے ہیں، اچانک کامران شاہد کے شو میں منظرعام پر آئے اور طویل انٹرویو دیتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ عثمان ڈار کے کامران شاہد کے شو میں اس انٹرویو پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا پریس کانفرنسز کی بجائے اب انٹرویو ہوا کریں گے؟ فرخ حبیب، صداقت عباسی اور دیگر پی ٹی آئی رہنما جنہیں اغوا کیا گیا ہے ، کیاوہ بھی کسی نہ کسی صحافی کے پروگرام میں اچانک منظرعام پر آئیں گے اور انٹرویو دیکر اپنی جان خلاصی کروالیں گے؟ صحافی زبیر علی خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عثمان ڈار کا انٹرویو نئے سلسلے کا آغاز ہے، پریس کانفرنسز سے شروع ہونے والا اب ٹی وی انٹرویوز تک پہنچے گا۔۔۔ مزید رہنماوں پر بھی دباو ڈالا جارہا ہے۔۔۔ اس کی تفصیل کے لیے ایک وی لاگ عثمان ڈار کے انٹرویو سے قبل ہی ریکارڈ کر چکا ہوں، رات 1030 بجے اپ لوڈ کروں گا ۔۔۔ احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب پریس کانفرنس کے بجائے انٹرویو ہوا کریں گے، جو غائب ہو گا وہ آخر میں انٹرویو ہی دیا کرے گا سائرہ بانو نے طنز کرتے ہوئے اسے "اغواء برائے بیان " قراردیا۔ نادربلوچ نے کہا کہ شائد پریس کانفرنس اس لیے نہیں ہوئی کیوں کہ وہاں کئی صحافی ہوتے ہیں، سوالات ہوں گے، لہذا کامران شاہد انٹرویو کرلیں وہی کافی ہے۔ شاہ جی نے کہا کہ عثمان ڈار کے سامنے اک پرچی پڑے ہے دوران انٹرویو آج سے چند دن پہلے آپ کو یاد ہوگا پریس کلب میں پریس کانفرنس ہوا کرتی تھی تب بھی پریس کانفرنس کرنے والوں کو ہاتھوں میں اک پرچی دے دی جاتی تھی آج عثمان ڈار کے انٹرویو میں بھی وہی سین ہے
مسلم لیگ ن نےشاہدرہ میں بڑا جلسہ کر کے انتخابی مہم اور اپنے قائل میاں نواز شریف کے استقبال کی عوامی مہم کا بیک وقت آغاز کر دیا۔این اے 123 شاہدرہ میں سیاسی پاورشو میں مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نوازنے جلسے سے خطاب کیا۔ اس جلسے کے انتظامات کیلئے ن لیگ کیلئے تحریک انصاف کی طرح کوئی رکاوٹ نہیں تھی، ضلعی انتظامیہ ن لیگ کیساتھ تھی، پی ٹی وی نے مریم نواز کو خصوصی کوریج دی اور انکی تقریر دکھائی لیکن اسکے باوجود یہ جلسہ بری طرح ناکام اور مایوس کن رہا یہ جلسہ کسی کھلے گراؤنڈ کی بجائے ایک 30 سے 35 فٹ چوڑی گلی میں کیا گیا تھا ، اسکے دونوں اطراف گھر تھے اسکے باوجود جلسہ گاہ نہ بھرسکی اور اس جلسے کی حالت کارنرمیٹنگ سے بھی بری تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہورہی ہے جس میں کہا گیا کہ مریم نواز کا شاہدرہ میں پہلا جلسہ بری طرح ناکام، سوشل میڈیا صارفین نے اگلا جلسہ اس طرح کی پتلی گلی میں کرنے کا مشورہ دے دیا صحافی عادل نظامی نے تبصرہ کیا کہ ن لیگ 1985 سے پنجاب میں کئی بارحکومت کرچکی لیکن شاہدہ میں ایک گراؤنڈ نہیں بنوایا اس لئے مریم بی بی کو پتلی گلی میں جلسہ کرنا پڑا محمد عمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تنگ گلیوں میں بھی کم عواممریم نواز 10 منٹ بھی نہ بولیںن لیگ کا پانچ سال میں شاہدرہ دوسرا جلسہ تھا اور دونوں اسی گلی میں ہوئے۔شاہدرہ وہ حلقہ ہے جہاں سے ن لیگ مشرف دور میں بھی جیت گئی۔تمام کوششوں کے باوجود فلاپ شویہ جلسے کا پیک ٹائم تھا۔ انتظار پنجوتھہ نے ردعمل دیا کہ یہ ان کے سٹینڈرڈ اور مقبولیت کے مطابق جلسہ ہی تھا آپ بھی کمال کرتے ہیں اب کسی کی کم مقبولیت کو ایسے تو نہ سرعام ٹارگٹ کریں، یہ ن لیگ کے لیے جلسہ ہی تھا لہذا آپکو کوئی حق نہیں کہ اسے تحریک انصاف کی یونین کونسل کارنر میٹنگ سے بھی چھوٹا کہیں خرم اقبال کہنا تھا کہ لاہوریوں نے مزاج بدل لیا ہے، شاہدرہ کا تنگ گلی والا جلسہ گواہ ہے۔۔!! سلمان درانی نے لکھا کہ جو جلسہ فلاپ ہوتا جائے اس کو ورکرز کنونشن کا نام دیتے جاؤ پالیسی شاکر اعوان نے ردعمل دیا کہ شاہدرہ جلسہ بتا رہا ہے کہ مینار پاکستان پر کیا حال ہوگا۔۔ انورلودھی نے تبصرہ کیا کہ مریم نواز صاحبہ کا شاہدرہ کا ناکام جلسہ دیکھ کر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نون لیگ کو عوامی سپورٹ حاصل نہیں.. بڑے پیمانے پر دھاندلی کیے بغیر ن لیگ کے لیے آئندہ الیکشن جیتنا ناممکن ہے ذیشان کا کہنا تھا کہ شاہدرہ جلسہ مسلم لیگ ن کے لیئے "سانحہ شاہدرہ" بن چکا ہے... وقاص امجد نے لکھا کہ مریم نواز ابھی گلیوں میں جلسہ کرے گی۔۔۔۔عمران خان نے محلوں میں رہنے والوں کو گلیوں میں لا کھڑا کیا وقاص مغل کا کہنا تھا کہ محسن نقوی نے نگران ہوتے ہوئے خاکروب کا کردار خوب نبھایا اور مریم کی آمد سے پہلے گلیوں اور سڑکوں کو خوب چمکایا انکی جانبداری ایسی ہے کہ پی ٹی وی پر مریم کو دیکھایا جا رہا ہے لیکن عوام نے اپنی جانبداری عمران خان سے ثابت کرتے ہوئے جلسہ ناکام بنا دیا اب واضح ہے کہ لاہور کپتان کا ہے نادرببلوچ نے تبصرہ کیا کہ پہلا جلسہ ہی پٹ گیا، نہ جوش نہ جذبہ، پورا شاہدرہ ایک گلی میں سما گیا،
ایف آئی اے نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جمع کروا دیا، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالت سے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کرکے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسد عمر کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ بن گئے ہیں، ان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا 2 اکتوبر کو عمران خان کی ضمانت کا کیس ہے ، کیا عمران خان کو ضمانت مل سکے گی یا مسترد ہوگی یا توشہ خانہ کیس کی طرح معاملے کو مزید لٹکایا جائے گا تاکہ عمران خان فیصلے تک جیل میں ہی رہیں؟ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ 2 اکتوبر کو پراسیکیوٹر عدالت میں استدعا کرے کہ سائفر کیس کا چالان جمع ہوگیا ہے اور کیس جیل میں ہی سنا جائے گا اسلئے ضمانت نہ دی جائے یا ضمانت ٹال دی جائے جس پر عمران خان کی ضمانت مسترد ہوسکتی ہے۔ صحافی ثاقب بشیر کا اس پر کہنا تھا کہ دو اکتوبر کو سائفر کیس میں اگر ضمانت کا سین بن گیا تو نیب القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ کیسز میں گرفتاری کے لیے تیار بیٹھا ہے ۔ ثاقب بشیر کا مزید کہنا تھا کہ دو اکتوبر کو ہائی کورٹ یہ نا کہہ دے سائفر کیس کا چالان جمع ہو گیا ہے ٹرائل کورٹ کو کہتے ہیں جلدی کیس نمٹا دے اور ہائیکورٹ ضمانت پینڈنگ کر دے سینئر صحافی نے مزید کہا کہ اس وقت تک سائفر کیس میں دس سے 14 سال سزا کرانے کے لئے پراسیکیوشن کے پاس کوئی ثبوت نہیں میرے خیال میں جتنے ثبوت موجود ہیں ان میں دو سال ہی سزا ہو سکتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ سزا پانچ سال سے اوپر کی سنانے کے لئے غیر ملکی طاقتوں کا اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانا یا عمران خان کا سائفر کے تناظر میں غیر ملکی طاقتوں سے کنکشن ثابت کرنا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہو ۔۔ یہ پراسیکیوشن کو ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا پڑے گا بظاہر یہ آسان نظر نہیں آرہا
راولپنڈی میں پولیس اہلکار سرکاری گاڑی میں مبینہ طور پر چوری کی بیٹری لے کر فرار ہونے کی کوشش میں ناکام رہا، وکلاء نے تعاقب کرکے پکڑ لیا۔ سماجی رابطےکی ویب سائٹ ایکس پرسامنے آنے والی تفصیلات اور ویڈیوز کے مطابق راولپنڈی میں ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کیخلاف آپریشن کیلئے آنے والی پولیس ہی چور بن گئی،پولیس اہلکاروں نے ایک گھر سے بیٹری نکال پر گاڑی میں رکھی اور فرار ہوگئے۔ علاقہ میں موجود وکلاء نے گاڑی کا تعاقب کیا اورگاڑی کی پسنجر سائیڈ پر رکھی بیٹری برآمد کرلی، وکلاء نے اس ساری کارروائی کو موبائل فونز کے کیمروں کی مدد سے ریکارڈ کیا اور ویڈیو ز سوشل میڈیا پر شیئر کردیں۔ منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند وکلاء ایک پولیس موبائل کو روکنے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر موجود پولیس اہلکار کو گاڑی کادروازہ کھولنے اور بیٹری واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پولیس اہلکار دروازہ نہیں کھولتا جس پر ایک خاتون وکیل پسنجر سائیڈ کا دروازہ کھول کر اندر رکھی بیٹری باہر کھینچ لیتی ہے۔ پولیس اہلکار اتنے میں گاڑی ریورس کرکے فرار ہوجاتا ہے، وکلاء پولیس اہلکار کے خلا ف چور چور کے نعرےلگاتے اور گالیاں دیتے سنائی دے رہے ہیں۔ واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے پر صحافی و اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ جب پولیس ہی چوری کرتے ہوئے پکڑی جائے تو بندہ انصاف کی کیا توقع رکھے، ان پولیس اہلکاروں کو فوری طور پرقانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ڈاکٹر ضیاء خان نامی صارف نےکہا کہ آئی جی عثمان انور کی سربراہی میں پنجاب پولیس عوام کی خدمت کرتے ہوئے چوریاں کرتی پھر رہی ہے۔ اسماعیل تارا کے بیٹے کے نام سے بنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی اس واقعہ کی ویڈیو شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ اگر پولیس ہی چوری کرنے لگے تو کون پکڑے گا؟ فیاض شاہ نے کہا کہ پولیس عوام کے جان و مال کی حفاظت کے بجائے عوام کی بیٹریاں چوری کرنے میں مصروف ہے، انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کی جانب سے سینیٹر افنان اللہ پر حملے کی مذمت پر ردعمل دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ کے ایک بیان سے لاتعلقی کے اظہار کے اعلان کو شیئر کیا، اس بیان میں پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو ان کے بیان سے الگ کیا تھا۔ حامد میر نے یہ بیان شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران شیر افضل مروت کی جانب سے سینیٹر افنان اللہ پر حملہ قابل مذمت ہے، سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی نہیں بنایا جانا چاہیے۔ شیر افضل مروت نے حامد میر کے بیان پرردعمل دیتے ہوئے حامد میر کی رائے کو صحافت کے اصولوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ آپ نے مجھ پر حملے کا الزام لگایا ہے، سینیٹر افنان اللہ کی زبان اشتعال انگیز اور چیلنجنگ تھی، میں یا تو ان کی گفتگو سنتا رہتا یا انہیں روک دیتا، میں انہیں روکنے کیلئے کھڑا ہوا مگر انہوں نے اپنی بیان بازی جاری رکھی۔ شیر افضل مروت نے مزید کہا کہ میں نے جو مناسب سمجھا وہ کیا، میں اپنے خلاف بد زبانی برداشت کر سکتا ہوں لیکن عمران خان کے بارے میں کسی بھی صورت میں گالیوں کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ آپ ایک نامور صحافی ہیں اور میں نے بطور صحافی آپ کے کردار کا ہمیشہ احترام کیا ہے، تاہم میرے معاملے میں آپ سینیٹر افنان اللہ کی زبان سے کیے گئے حملے کا ذکر کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ سارا جھگڑا شروع ہوا،میرا خیال ہے کہ آپ کا نقطہ نظر متوازن ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس طرح آپ سینیٹر عرفان اللہ کے اشتعال انگیز طرز عمل کی حمایت کرر رہے ہیں۔
مشہور صحافی واینکر پرسن اقرار الحسن کو عمران ریاض خان کی تازہ ترین تصویر کو اپنی ایک تشدد زدہ تصویر کے ساتھ جوڑ کر شیئر کرنےپر تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اقرارالحسن نے ٹویٹر پر عمران ریاض خان کی تازہ ترین تصویر کے ساتھ اپنی ماضی میں تشدد کے بعد بنائی گئی تصویر کے ساتھ جوڑکر شیئر کیا اور کہا کہ گرفتاریاں ہوں یا تشدد ہم سب اپنی بات کہنے کے حق کی لڑائی لڑتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ عمران بھائی کی لڑائی سب سے زیادہ طویل اور تکلیف دہ رہی ہے، بولنے کے فن کےشہنشاہ اب نوے فیصد باتیں اشاروں سے سمجھاتے ہیں، دعا ہے کہ ان کیلئے مزید مشکل پیدا نا ہو۔ صحافی و سیاسی مبصر سلمان درانی نے کہا کہ اقرار بھائی نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کو عمران ریاض کے ساتھ مشابہت دینے کی کوشش کی مگر بات بنی نہیں، جو کچھ عمران ریاض کے ساتھ ہوا اگر وہ اقرار الحسن کے ساتھ ہوتا تو وہ زندہ سلامت ہمارے بیچ میں بھی نہیں ہوتے، خون نکل آنے اور خون جم جانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سلمان خان نے ماضی میں اقرارالحسن کی جانب سے عمران ریاض کے خلاف بنائی گئی ویڈیوز میں سے ایک کا کلپ شیئر کیا اور کہا کہ اقرار الحسن کا عمران ریاض بھائی کے خلاف کیا کیا پراپیگنڈہ کیا ہے۔ عمران لالیکا نے کہا کہ اقرار الحسن جیسا توجہ طلب شخص کبھی نہیں دیکھا، اقرار الحسن اور منصور علی خان ، عمران ریاض کے گھر اپنے مالکوں کو یہی بتانے گئے تھے کہ جو تجربہ کیا گیا وہ کامیاب رہا۔ اقرار الحسن نے عمران لالیکا کو جواب دیتے ہوئے ماضی میں ان کی جانب سے شہید ارشد شریف کو غیر اخلاقی الفاظ سے پکارنے کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جس نے شہید ارشد شریف کے خلاف غیر اخلاقی ٹرینڈ چلایا وہ اگر آج مجھے بھی اسی لفظ سے پکاررہے ہیں تو مجھے اس بات پر فخر کرنا چاہیے یا ناراض ہونا چاہیے۔ عمران لالیکا نے اقرار الحسن کو جواب دیا اور کہا کہ ارشد شریف نے ہمیں جو کہا وہی ہم نے انہیں کہہ دیا، بات رفع دفع ہوگئی، آپ کو کیا مسئلہ ہے۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے عمران خان کے بغیر انتخابات انعقاد سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے دورہ نیویارک کے دوران غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ان کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اسیر ساتھیوں کے بغیر بھی منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہے، فوج کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں،فوجی مداخلت کا شوشہ خوامخواہ چھوڑا جارہا ہے۔ نگراں وزیراعظم کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین، پی ٹی آئی رہنماؤں اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شدید مذمت کی اور نگراں وزیراعظم کے بیان پر سخت ردعمل دیا۔ سینئر صحافی انوار لودھی نے وزیراعظم کے بیان کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبول ترین لیڈ ر اور سیاسی جماعت کے بغیر کیسے منصفانہ انتخابات ہوسکتے ہیں، ایسے انتخابات کو کون تسلیم کرے گا؟ صحافی و اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ عمران خان کے بغیر انتخابات کا فیصلہ الیکشن والے دن 23 کروڑ عوام کو کرنے دیا جائے، کوئی فرد واحد عوام کی رائے طے نہیں کرسکتا،جمہوریت کم از کم یہ نہیں کہتی،40 سالوں سے قابض جماعتوں کو مزید کتنے موقع دینے ہیں۔ کامران واحد نے کہا کہ ملک میں پی ٹی آئی ووٹرز کی شرح 70 سے 75 فیصد ہے،پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات ممکن ہی نہیں ہیں، یہ بیان صرف ووٹرز کو بدظن اور مایوس کرنے کیلئے ہے، تاکہ وہ اپنا ذہن بنالیں، ہم اس بیان کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ۔ صحافی سید بخاری نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کےمطابق 80 فیصد مقبولیت رکھنے والی ملک کی سب سے بڑی جماعت کے لیڈر عمران خان کے بغیر بھی شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں،20 فیصد حمایت والے، ڈگڈگی پر ناچنے والوں کو جتوا کر الیکشن شفاف ہوں گے؟ دنیا اتنی بھی اندھی نہیں ہے۔ افتخار نقوی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کا یہ بیان فقط تمام اشرافیہ کی خواہش کے عین مطابق ہوسکتا ہے لیکن جمہوریت اور جمہوری روایات کو ختم کرنے کا دبنگ اعلان بھی ہوسکتا ہے،کہ عوام جو چاہے کہتے رہیں ہوگا وہی جو مافیا چاہتا ہے۔ ذولقرنین مہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن ممکن نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو فوج بہت پہلے پی ٹی آئی پر پابندی لگاکر انتخابات کروادیتی،پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، آئی ایم ایف تک نے عمران خان کی منظوری کے بعد معاہدہ کیا۔ نور کاکڑ نے کہا کہ ایک بچہ بھی ایسا بیان نہیں د ے سکتا، مگر انوارالحق کاکڑ کی مجبوری ہے، ورنہ عمران خان کے بغیر الیکشن کی صورت میں مزید سیاسی عدم استحکام پیداہوگا۔ علی رضا نے نگراں وزیراعظم کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئےکہا کہ یہ دھاندلی کی تیاری کا ثبوت ہے، اس بیان سے انوار الحق کاکڑ کی جانبداری طاہر ہوتی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ قانون کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے، کسی بھی جماعت پر پابندی صرف سپریم کورٹ لگاسکتی ہے اور سپریم کورٹ ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔ صحافی سیف اعوان نے کہا کہ جیسے آج پی ٹی آئی والوں کو عمران خان کے بغیر ہونے والا انتخاب غیر آئینی لگ رہا ہے ویسے ہی نواز شریف کے بغیر 2018 کا انتخاب بھی غیر آئینی ہوگا، برداشت کریں ابھی تو آپ لوگوں کو بہت جھٹکےلگنے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے اسٹیج اداکاروں نے ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا ہے جس میں نواز شریف کی واپسی کو ملک کیلئے خوش آئند قرار دیا گیا ہے ، تاہم خاکے میں عمران خان پر غیر اخلاقی تنقید کی گئی جس پر سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مشہور اسٹیج اداکار اور مسلم لیگ ن کلچرل ونگ پنجاب کے صدر نواز انجم اور 2پنجابی اسٹیج کی 2 خواتین اداکاراؤں نے ایک مختصر سے خاکے میں اداکاری کے جوہر دکھائے، اس خاکے میں شادی کی تاریخ کے حوالے سے بات چیت کو میاں نواز شریف کی واپسی سے منسلک کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد مہنگائی ختم ہوجائے گی اور شادی کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی۔ ویڈیو میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پراخلاق سے گرا ہوا اور نیچ قسم کا طنز بھی کیا گیا، سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے گھٹیا قسم کی پروڈکشن اور عمران خان پر تنقید کرنے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ صحافی عمران افضل راجا نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی کا تو پتا نہیں ویڈیو میں بریانی دکھا کر پٹواریوں کو آگ لگادی گئی ہے، اب وہ دعائیں کررہے ہیں کہ زندہ یا مردہ بس بھیج ہی دیں۔ عبداللہ آصف نے ویڈیو میں شادی کی تاریخ کو نواز شریف کی واپسی سے منسلک کرنے پرر دعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ لڑکی کنوری ہی مرے گی۔ صحافی و اینکر پرسن ارم زعیم نے کہا کہ جیسے ووٹرز ہیں ویسا ہی مواد بنایا جارہا ہے، ن لیگ کی سوچ بے حیائی سے آگے بڑھتی ہی نہیں ہے، ایک طرف عمران خان علامہ اقبال اور مولانا رومی کے فلسفے سے قوم کو تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف نواز شریف بریانی کھاتے تھرڈ کلاس ڈراموں کے بھانڈوں سے ن لیگی سپورٹرز کو پیغام پہنچاتے ہیں۔ ایک صارف نے اس ویڈیو پیغام کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے جو ہمارا اسٹیج ڈرامہ انڈسٹری تباہ ہوگئی ہے، جس طریقے سے یہ نون لیگ کا بیانیہ بیچنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے ن لیگ کو ہی سب سے زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ دستار شفیع نے ویڈیو میں موجود بریانی کی پلیٹ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس پوری ویڈیو میں ایک ہی چیز متاثر کن ہے اور وہ ہے بریانی کی پلیٹ جو ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ حسن سلیم نے کہا کہ اس ویڈیو سے آپ اس جماعت اور اس جماعت کو چلانے والوں میں شعور کے لیول کو چیک کرسکتے ہیں۔ نعیمہ خان نے کہا کہ کھوتا بریانی پر بکنے والے پٹواریوں کو جوتے پڑنے چاہیے، یہ جاہل چوتھی بار بھی بھگوڑے مفرور چور کی باتوں میں آرہے ہیں۔ سعدیہ نے کہا کہ کیا میاں صاحب کے حمایتی صرف پنجاب میں رہ گئے ہیں جو یہ اشتہار پنجابی میں بنایا گیا، باقی صوبوں میں ان کا نام لیو کوئی نہیں ہے؟ صحافی وقاص اعوان نے کہا کہ اگر ایسی ہی کمپین رہی تو پھر میاں صاحب نہیں آتے۔
مسلم لیگ ن ایک بار پھر جنرل باجوہ کے خلاف بیانیہ بنانے جارہی ہے۔لندن میں ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو کے تباہ حال بیانئے کی سرجری جاری ہے، مریم نواز اور دیگر رہنما لندن پہنچ چکے ہیں۔ نوازشریف نے آج پارٹی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، عظمت سعید، اعجازالاحسن پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے مجرم ہیں۔ان کے خلاف کارروائی تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا کچھ روز قبل بھی نواز شریف نے جنرل باجوہ سے متعلق بیان دیا تھا ۔پیر کے روز لندن سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعہ ن لیگ کے قائدین سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید نے دو ججوں کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کی سازش کی۔ یہی مسلم لیگ ن گزشتہ برس جب عمران خان کی حکومت ہٹائی گئی اور عمران خان نے جنرل باجوہ کو میر جعفر اور میر صادق کہا تو مسلم لیگ ن جنرل باجوہ کی حمایت میں سامنے آگئی تھی۔اس وقت مسلم لیگ ن نے جنرل باجوہ کے حق میں #WeStandWithGenBajwa کا ٹرئنڈ چلایا تھا۔ اس ٹرینڈ میں حناپرویز بٹ اور دیگر لیگی رہنماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ ٹرینڈ ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کے ہیڈ عاطف رؤف نے شروع کیا جس میں مریم نواز کے سیکرٹری ذیشان ملک اور دیگر پیش پیش تھے۔ جب تک ن لیگ اقتدار میں رہی مسلم لیگ ن جنرل باجوہ کی حمایت کرتی رہی لیکن اقتدار سے ہٹنے کے بعد دوبارہ پھر وہی بیانیہ لانچ کرلیا۔ اس پر ن لیگ کے حمایتی شہزاد نے طنز کیا کہ پرسوں نواز شریف نے جنرل باجوہ کا نام لیا کل رانا ثنا نے باجوہ کو قومی مجرم کہا مریم باجی سے کہیں کہ عاطف روئف کو کہے وہ "وئی سٹینڈ ود باجوہ"والی ٹویٹیں تو ڈلیٹ کر دے
تحریک انصاف نہ چھوڑنے کا دعویٰ کرنیوالے حسنین دریشک کا اسداللہ خان کے جواب کے بعد ایکس (ٹوئٹر ) اکاؤنٹ بند ہوگیا اسد اللہ خان نے ٹویٹ کیا اللہ کرے میں غلط نکلوں، دیکھتے ہیں آپ اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑتے ہیں، ویسے ماضی میں آپ بہت سی پارٹیوں سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی تک پہنچے، امید کرتے ہیں "مجبوریاں" آپ کو دوبارہ کسی اور پارٹی میں نہیں لے جائیں گی حسنین دریشک نے لکھا اسد صاحب کی معلومات بالکل غلط ہیں، میں، میرے والد صاحب اور پوری فیملی تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ گزشتہ سال پنجاب کابینہ اجلاس میں تلخی کے بعد صوبائی وزیر سردار حسنین بہادر دریشک وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے, پنجاب کابینہ کے اجلاس میں صوبائی وزیر حسنین بہادر دریشک کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے تلخی کلامی ہوئی تھی، صوبائی وزیر احتجاجاً کابینہ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے تھے، اجلاس میں ایک ہی وقت میں متعدد وزراء بات کرنا چاہتے تھے۔ اجلاس کے دوران حسنین بہادر دریشک نے دھمکی دی کہ میں پھر استعفی دے دیتا ہوں، اجلاس سے چلا جاتا ہوں کہہ کر صوبائی وزیر کابینہ اجلاس سے باہر چلے گئے تھے۔ جس کے بعد اس وقت کے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی نے صوبائی وزیر خوراک سردار حسنین بہادر دریشک کو ان کے گھر جاکر مناتے ہوئے استعفیٰ واپس لینے پر راضی کیا تھا ۔
انا ثنا اللہ نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر خفیہ منصوبہ بندی سے پردہ اُٹھا دیا۔گزشتہ روز رانا ثناء اللہ نے بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ سابق آرمی چیف کو توسیع دے کر فتنے (چیئرمین پی ٹی آئی) کا مقابلہ کرنے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ بعض فیصلے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسٹریٹیجی کا حصہ ہوتے ہیں۔سابق وزیر داخلہ کے بیان نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا اور مختلف تبصروں کا مرکز بن گیا۔ فرخ حبیب نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نواز اور شہباز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا جھوٹا نعرہ لگا کرباجوہ کےبوٹ پالش کرکےاقتدار لیا نتیجہ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نےملک کی معشعیت تباہ کردی مہنگائی سےعوام جینا مشکل کردیا۔آٹا،چینی، گھی بجلی اور گیس عوام کی پہنچ سے دور کردئیے کوئی شرم کوئی حیا لال ملہی کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کا یہ بیان کہ جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے تھا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ سابقہ حکومتی اتحاد اپنے مفادات کے لیے ملک کے مفادات کا بھی سودا کر سکتے ہیں۔ شہبازگل نے ردعمل دیا کہ باجوہ جی نواز گوالمنڈیلا پر اور مہربانیاں کرو ملک و قوم کو مار ڈالو اس کھوتا خوروں حرام خوروں کے لیے مگر یہ نمک حرام ہے یہ آپکو ڈسیں گے بخشیں گے نہیں سفینہ خان نے تبصرہ کیا کہ دراصل یہ مسلم لیگ ن کا اپنے ہی قائد نواز شریف کے بیانئیے کے خلاف اعلان جنگ ہے یہ ن لیگ کے اراکین کیطرف سے نواز شریف صاحب کے لئے پیغام ہے کہ اپنے ہی کیے گئے کام کو غلط کہہ کر نیا بیانیہ نہیں بنا سکتے عسکری رینچ نے تبصرہ کیا کہ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف ایک بار پھر ایک جھوٹے بیانیہ لے کر الیکشن میں وارد ہونا چاہتے ہیں؟ 2018 کی الیکشن مہم میں ووٹ کی عزت اور خلائی مخلوق کا بیانیہ بنایا گیا پھر اس بیانیے کو بیچ کر ڈیل کی گئی. خلائی مخلوق کے قدموں میں گر کر ووٹ کی عزت نوچی گئی. یوسف سعید نے کہا کہ جی اب کریں اس کے اوپر پرچہ اور چلائیں ملٹری کورٹ میں کیس
اسرائیل جیسی ظالم ریاست کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے: تیمور خان جھگڑا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس میں شریک نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے چین اور پاکستان کے دیرینہ مضبوط تعلقات کو امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑ سے تشبیہ دے دی جس پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق نے کونسل برائے خارجہ تعلقات کے اجلاس میں حاضرین کی طرف سے سوال پوچھا گیا کہ "پاکستان اور چائنہ کے مابین تعلقات کی اب کیا نوعیت ہے؟" نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حاضری کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ مضبوط سٹریٹجک تعلقات ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ پاکستان کو چائنا کا اسرائیل سمجھتے ہیں، امریکہ کے عوام کے لیے یہ تشبیہہ اچھی ہے کیونکہ آپ لوگ اسرائیل کی امریکہ کے لیے قدر سمجھتے ہیں اور اسے سراہتے بھی ہیں" ۔ انہوں نے دونوں پڑوسی ملکوں کے مشترکہ مفادات کے حوالے بھی بات کی اور کہا کہ یہ مفادات خطے میں ابھرتے ہوئے بحران اور مخصوص مسائل پر مشترکہ سوچ بارے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے چائنہ کی پالیسی اور سنکیانگ، تبت اور تائیوان کے مسائل پر چائنہ کے موقف کا حوالہ بھی دیا۔ کونسل برائے خارجہ تعلقات میں انوارالحق کاکڑ کی گفتگو میں استعمال کیے گئے مخصوص الفاظ پر دوسرے روز بھی سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔ چند سوشل میڈیا صارفین نے انوارالحق کاکڑ کے بیان کو چائنا کے جنرل شیائونگ گواند کائی کے قول سے جوڑا جو اینڈریو سمال نے اپنی کتاب "چین پاکستان ایکسز: ایشیاز نیو جیو پولیٹکس" کے تعارف میں درج کیے تھے۔ تحریک انصاف کے سابق رکن خیبرپختونخوا اسمبلی تیمور خان جھگڑا نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: کیا ہم اپنے ملک کا خود پاکستان کے طور پر دفاع کیوں نہیں کر سکتے اور اسے دنیا بھر کے لیے تقلیدی مثال بنانا چاہیے۔ اسرائیل جیسی ظالم ریاست کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ تحریک انصاف کے سابق رکن خیبرپختونخوا اسمبلی فیصل امین خان نے لکھا کہ: پاکستان کا ایک ظالم ریاست اسرائیل سے موازنہ کرنا کوئی اچھا اقدام نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انوارالحق کاکڑ نے نیویارک جانے سے پہلے اینڈریو سمال کی کتاب پڑھی ہے جس میں یہ لائن لکھی ہے! سینئر صحافی انور اقبال نے ردعمل میں نگران وزیراعظم کے الفاظ دہراتے ہوئے ہوئے لکھا کہ: نگران وزیراعظم کہنا کیا چاہتے ہیں؟ سینئر صحافی عادل شاہزیب نے ردعمل میں حیرانی کا اظہار کیا! سپریم کورٹ آف پاکستان کے معروف وکیل زاہد ابراہیم نے لکھا کہ: مجھے انوارالحق کاکڑ سے اس سے مزید بہتر کی توقع نہیں تھی لیکن وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے پرامید تھا۔ نگران وزیر خارجہ جیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بے جا غیرملکی سفر کی مخالفت کی کرنی چاہیے تھی۔ ڈاکٹر علیزان نے نے انوارالحق کاکڑ کے بیان پر وضاحت میں لکھا کہ وہ دونوں ریاستوں کی ذمہ داریوں کے بجائے صرف یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ جیسے اسرائیل امریکہ کا لاڈلا ہے ایسے ہی پاکستان چائنا کا لاڈلاہے۔ ایک صارف نے ردعمل میں لکھا کہ: ایسی بے وقوفانہ گفتگو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی!
سینئر صحافی خالد جمیل پیكا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کرلئے گئے۔۔۔۔خالد جمیل پاکستانی نیوز چینل اے بی این سے منسلک ہیں اور بیوروچیف ہیں۔ جمعرات کی شب دیر گئے ایف آئی اے کی جانب سے خالد جمیل کی ایک تصویر جاری کی گئی جس کے مطابق صحافی اُن کی تحویل میں ہیں۔ خالد جمیل پر پیکا قانون کے سیکشن 20 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔صحافی کے خلاف مقدمہ 20 ستمبر کو درج کیا گیا تھا جس میں پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کا سیکشن 20 لگایا گیا ہے۔ جبکہ انکی فیملی تاحال الزامات سے لاعلم ہے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ خالد جمیل کو کچھ روز قبل جاں بحق ہونیوالے عباد فاروق کے بیٹے کی موت پر ٹویٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔ ایف آئی اے کے اس اقدام پر صحافیوں اور سوشل میڈیاصارفین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سید ثمرعباس نے کہا کہ شرمناک انتہائی شرمناک، سینئر صحافی خالد جمیل کے ساتھ یہ سلوک قابل مذمت ہے، اس طرح زبان بندی نہیں ہو گی۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ خالد جمیل صاحب کی گرفتاری اور پھر تصویر بنا کر تذلیل کرنا انتہائی قابل مذمت ہے ایف آئی اے نے بغیر نوٹس گرفتاری کرکے اپنے ہی ایس او پیز کی خلاف ورزی کی کس الزام میں گرفتار کیا ؟ کوئی پتہ نہیں ، مجھے تو ایسے لگا جیسے نئے چیف جسٹس کو ایف آئی اے کی جانب سے سلامی پیش کی گئی ہے مطیع اللہ جان نے کہا کہ گرفتار صحافی کی یہ اس تصویر سے ۲۵ ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ۵۰ ارب ڈالر کی ہو جائیگی، پہلے ایک نالائق چیف جسٹس نے اپنی چودھراہٹ میں ریکو ڈِک کیس میں اس قوم کو چونا لگایا اور اب کوئی اور چودھری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہاُہے حماداظہر نے کہا کہ کمال ہے ویسے۔ ملک میں لوگ اغوا ہو جاتیں ہیں، تشدد کا شکار ہوتے ہیں، آئین اور انسانی حقوق کا جنازہ نکل جاتا ہے، بچے غم سے بیمار ہو کر اپنی جان کھو دیتے ہیں۔۔لیکن ریاست حرکت میں آتی ہے ایک ٹویٹ کے اوپر جو ناگوار گزرتی ہے سرکار کو۔۔ فہیم اختر کا کہنا تھا کہ یہ ایک سینئر صحافی کی تذلیل نہیں بلکہ پوری صحافتی کمیونٹی کی تذلیل ہے جو نام نہاد صحافی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے دور میں ہورہی ہے، آواز اگر مخالف ہے تو کیا ہوا ہے تو آواز ہی ناں؟ کونسا دشمن ہیں ؟۔۔ صابرشاکر کا کہنا تھا کہ سینئر صحافی میرے نوائے وقت کے کولیگ خالد جمیل کو چادرچاردیواری کو پامال کرتے ہوئے گھر سے اٹھا لیا گیا، صحافی بھائیو گھروں میں بیٹھے رہنے سے نہ صحافت بچے گی نہ صحافی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے پاس جائیں اور مدد مانگیں کہ یہ فاشسٹ طرز حکمرانی کا خاتمہ ہو
ن لیگی رہنما جاوید لطیف کاکہنا تھا کہ نواز شریف کا روایتی استقبال نہیں ہوگا، لوگوں کو ایئرپورٹ آنے کا نہیں کہیں گے، اکتوبر شادیوں کا سیزن ہوتا ہے، نہیں چاہتے کہ ہمارے جلوس سے لوگ پریشان ہوں یہ بات انہوں نے وسیم بادامی کے شو میں کہی ، انکا کہنا تھا کہ شادیوں کا سیزن ہے اس لیے نواز شریف کے ائیرپورٹ استقبال کا پلان کینسل کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے سارا لاہور بند ہو جائے گا جاوید لطیف کے اس بیان پر دلچسپ تبصرے ہوئے کسی نے کہا کہ میاں صاحب انقلاب لانے والے تھے کہ شادیوں کا سیزن آگیا۔ کسی نے کہا کہ ن لیگ کو پتہ ہے کہ شادیوں کے سیزن میں شادی میں بریانی، قورمہ، گاجر کا حلوہ، بوتلیں ملتی ہیں جبکہ میاں صاحب کے استقبال میں صرف بریانی ملے گی۔ صحافی طارق متین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری ہنسی نہیں رک رہی ۔ قائد کا استقبال شادیوں کا سیزن روک رہا ہے۔ او بھینس ۔ یہ لوگ بیانیہ بنائیں گے۔ اففففاکتوبر میں شادیوں کا بھی سیزن ہوتا ہے وہ لوگ بھی ڈسٹرب ہونگے اسداللہ خان نے کہا کہ جنوری فروری بھی شادیوں کا سیزن ہوتا ہے، معلوم نہیں ن لیگ الیکشن کی کیمپین بھی کرے گی یا نہیں سیدذیشان عزیز نے تبصرہ کیا کہ میاں نواز شریف صاحب کی واپسی پر 10 لاکھ لوگوں کو لانے میں شادیوں کا سیزن روکاوٹ بن گیا ، لوگ شادیوں میں مصروف ہوں گے اس لیئے ائیروپورٹ مت آئیں فہیم اختر کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی جو مشکل میں دکھائی دے رہی ہے اگر آئے بھی تو ان کے استقبال کےلئے آنے والا ایک بندہ 5 ہزار کے برابر ہوگا کیونکہ اس وقت شادیوں کا سیزن چل رہا ہوگا مقدس فاروق اعوان نے تبصرہ کیا کہ اکتوبر شادیوں کا سیزن ہوتا ہے اس لیے ن لیگ نے طویل سوچ و بچار کے بعد وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف کا استقبال محدود کر دیا، ن لیگ نے لوگوں کو ائیرپورٹ پر آنے سے منع کر دیا، البتہ مینار پاکستان جلسے پر آنے والوں کو بریانی لازمی ملے گی مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ پہلے گرمی کی وجہ بتائی نہہ آنے کی، اب سنا ہے شادیوں کا سیزن آڑے آرہا ہے زہرہ لیاقت نےکہا کہ میاں صاحب انقلاب لانے ہی والے تھے کہ شادیوں کا سیزن آ گیا طارق حنیف نے کہا کہ اکتوبر میں شادیوں کا سیزن ہوتا ہے اسلئے ہم ریلی نہیں نکالیں گے کیونکہ قورمہ چھوڑ کر لوگ سوکھی بریانی کھانے تو نہیں آئیں گے نا کسی نے کہا کہ بولو پنسل ون ملین انقلاب کینسل
ن لیگ کے حامی صحافیوں کی جانب سے سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کے خلاف غلیظ کمپین۔۔ جسٹس عائشہ ملک کی ذاتی زندگی پر حملے صحافی صدیق کے مطابق ن لیگ اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی صاحب کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز کی جانب سے ایک خاتون جج جسٹس عائشہ ملک صاحبہ کے خلاف انتہائی گھٹیا مہم شروع کردی گئی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک خاتون جج کے کردار پر گھٹیا الزامات لگانے والوں کو پی ٹی وی پر بلایا اور بٹھایا جاتا ہے،یعنی ہماری ریاست کا سرکاری ٹی وی ان یوٹیوبرز کو پروموٹ کررہا ہے،مرتضیٰ سولنگی صاحب ،کیا یہ ریاست کی پالیسی ہے کہ ایک خاتون جج کے کردار پر جھوٹے اور گھٹیا الزامات لگانے والوں کو پروموٹ کرنا ہے؟؟؟ صدیق جان کے مطابق جسٹس عائشہ کے خلاف کمپین چلانے والے جس بندے کو پی ٹی وی پر بلاکر ان سے تجزئیے لئے جاتے ہیں اسکا نام رضوان رضی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سولنگی صاحب ایک بار خاتون جج پر لگنے والے گھٹیا الزامات پڑھ لیں،اللہ نہ کرے کہ کسی دشمن کی بھی گھر کی خواتین پر بھی ایسے الزامات لگیں، جیسے الزامات لگانے والوں کو آپ کا پی ٹی وی پروموٹ کررہا ہے،افسوس تو یہ ہے کہ اس پی ٹی وی کو چلانے کا خرچہ ہر پاکستانی اور تمام مساجد بھی اٹھاتے ہیں انکا کہنا تھا کہ ایک انتہائی قابل، لائق اور دبنگ خاتون جج کے خلاف کیا گیا ٹویٹ، الزام اور زبان دیکھیں،پھر یہ دیکھیں کہ ری ٹویٹ کون کررہا ہے،پھر یہ غور کریں کہ یہ یوٹیوبرز کن کے پالے ہوئے ہیں،پھر یہ دیکھیں کہ کون کون سے صحافی اور خواتین اینکرز ان کو پروموٹ کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ وہ خواتین اینکرز آج اس کی مذمت کریں گی اور آئندہ ایسے مکروہ چہروں کو پروموٹ نہیں کریں گی لیکن وہ ایسا نہیں کریں گی،کیونکہ ن لیگ کا جو بھی حامی ہوگا،وہ کچھ بھی کرے گا تو سپریم کورٹ کے چند اصول پسند ہونے کے دعویدار بڑے صحافی اور خواتین اینکرز ان کو پروموٹ کرتے رہیں گے.یہ ن لیگ کی تربیت ہے واضح رہے کہ ایک غیر معروف یوٹیوبر نے جسٹس عائشہ ملک کی ذاتی زندگی پر حملے کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے پہلے شوہر سے بلاوجہ طلاق لی اور اسکے بعد ایک لاء فرم کے مالک سے شادی کرلی جس کی وجہ سے انہیں قانون کی ڈگری ملی اور وہ بغیر پریکٹس کئے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی جج بن گئیں۔ مذکورہ یوٹیوبر نے جسٹس عائشہ کو جج بنوانے میں جسٹس عظمت سعید کا ہاتھ قرار دیا۔ اسکے بعد اس غیر معروف یوٹیوبر کو ن لیگ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حامی صحافیوں نے پروموٹ کرنا شروع کردیا جس کے بعد ن لیگی سپورٹرز بھی اس غیرمعروف یوٹیوبر کو پروموٹ کرنے پر لگ گئے۔
سوشل میڈیا پر اسلام آباد ٹریفک پولیس کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں دو پولیس اہلکار ایک نوجوان کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں اور تشدد کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ نوجوان نیم برہنہ ہوجاتا ہے ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکی رشتہ دار خاتون پولیس والوں کی منتیں کررہی ہے اور پولیس اسکی بھی پرواہ نہیں کرتی اور نوجوان کو گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال دیتی ہے۔ بعدازاں پولیس اہلکار نوجوان پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے اسکی وردی پھاڑی ہے جبکہ پولیس والے کی وردی کہیں سے بھی پھٹی نہیں لگ رہی ۔ اس پر سکندرفیاض بھدیرا کا کہنا تھا کہ ریاست نے انتہائی چالاکی سےحکمت عملی کے تحت اپنے لوگوں کی عزت نفس ختم کی ہے، تاکہ ریاست شہریوں سے جتنا مرضی ہتک آمیز رویہ اہنائے، عوام اس بے عزتی کو محسوس کرنا ہی چھوڑ دے، اور ریاست سے کم سے کم کی ہی توقع رکھے۔ تاکہ عزت، آبرو، انسانی حقوق جیسے جھمیلوں میں پڑے ہی نا۔ ضیاء اللہ ملک نے کہا کہ اسلام آباد ماڈل ٹریفک پولیس کے اہلکار شہریوں کو سڑکوں پر سرعام ننگا کرنے سےدریغ نہیں کرتے خواتین کے تحفظ کا بھی جنازہ نکال دیا گیا وردی کےنشے میں یہ کیا چل رہا ہے کیا عام عوام کیڑے مکوڑے ہیں اس پر آپ دوستوں کی رائے درکار ہے وقاص امجد نے کہا کہ اس ملک میں خواتین کی بھی اب عزت نہیں مشہور تو پنجاب پولیس ہے مگر اسلام آباد پولیس بھی مقابلے میں نمبر لینے میں آگے آگے ہے۔۔ ایسا تو کوئی دہشتگردوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے جو اجكل عام شہریوں سے ہو رہا عثمان سعید بسرا نے تبصرہ کیا کہ زندہ لاشیں ویڈیو بنا رہیں زندہ لاشیں توبہ توبہ کررہیں زندہ لاشیں یہ ظلم ہے یہ ظلم کی انتہا ہے تو بول رہیں ۔۔۔۔۔ لعنت اب نظام پہ نہیں نظام تو ظالم ہے نظام تو مان چکا وہ ظالم ہے لعنت لاشوں پہ ہے لعنت ان بھیڑ بکریوں پہ ہے لعنت ان تماش بینوں پہ ہے ۔۔۔۔۔ ارم زیم نے کہا کہ ان وحشی درندوں کا بس اب یہی کام رہ گیا ہےخود عوام ہی مل کر ان کو پٹا ڈال سکتیکیونکہ ان کے منہ کو خون لگ چکا ہےیہ نوجوانوں کو دیکھتے تو انکی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے
سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے بیٹی انشا آفریدی کی رخصتی پر جذباتی پیغام شئیر کردیا,شاہد آفریدی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بیٹی انشا آفریدی کی رخصتی کی تقریب کی تصاویر بھی شئیر کردیں۔ پشت سے لی گئی تصاویر میں شاہد آفریدی کو بیٹی انشا آفریدی اور داماد فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ بیٹی کی رخصتی پر شاہد آفریدی نے اپنے جذبات کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا۔شاہد آفریدی نے لکھا آیا تھا گھر میں نور ابھی کل کی بات ہے رخصت بھی ہورہا ہے وہ آنکھوں کے سامنےڈوبا ہوا بھی ہے ترے بابا کا دل مگر امید صبح نو اسے آئی ہے تھامنے شاہد آفریدی کی جذباتی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور لوگوں نے اسے بیٹی کے لیے ایک باپ کے حقیقی احساسات قرار دیا۔ انشا آفریدی کی شادی گزشتہ شب قومی کرکٹ ٹیم کے بولر شاہین شاہ آفریدی سے کراچی میں ہوئی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی اور سابق کپتان شاہد آفریدی کی بیٹی انشا کی شادی کی تقریب منگل کو کراچی میں ہوئی جس میں قومی کر کٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ، مصباح الحق، سعید انور ، تنویر احمد اور سہیل خان دیگر کھلاڑیوں کے علاوہ سیاسی ، سماجی، مذہبی اور اہم سرکاری شخصیات نے بھی شرکت کی. شاہین آفریدی اور انشا آفریدی کا رواں برس فروری کے آغاز میں کراچی میں نکاح ہوا تھا جس میں معروف کرکٹرز سمیت قریبی رشتے داروں نے شرکت کی تھی۔شاہین آفریدی اور انشا کا ولیمہ 21 ستمبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔
فیصل واوڈا جو اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ میڈیا پر پھیلاتے ہیں، یہ تصویر شئیر کرکے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ تصویر شئیر کرکے انکا کہنا ہے کہ اس تصویر میں تقریبا تقریبا کافی لوگ موجود ہیں اور کچھ پارٹیوں کے لوگ نہیں بھی موجود جن کو اس اس کاحصہ ہونا چاہئے تھا۔ یہ پاکستان کی تباہی اور بدحالی کی وجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب نہیں تو کب؟جمہوریت کے نام پر یہ بدبودار نظام اور جمہوری لیڈرز کا جنازہ ہم کب تک لے کر چلیں گے۔ جدھر پاکستانی عوام کو روٹی کے بھی لالے پڑگئے ہوں اور اپنے چھوٹے بچوں کو نوکری کے نام پر زیادتی کا نشانہ بنوا کر اور قتل کروا کے بھی گزارا نا ممکن ہو۔ وہاں کون کب کیا کرے گا؟ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ یہ ایکسپائرڈ کرپٹ لیڈرز نا منظور اس تصویر میں پی ڈی ایم ، ن لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کے لوگ موجود ہیں، کیا فیصل واوڈا یہ کہہ رہےہیں کہ یہ چہرے آئندہ نہیں ہونگے؟ اگر یہ نہیں ہونگے تو 16 ماہ انہیں اقتدار کیوں دیا گیا؟ سوشل میڈیا صارفین کا اس پر کہنا تھا کہ یہ فوج کا جھوٹا سیاسی بیانیہ ہے، فوج اور یہ چور ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اب ہم کبھی اس سفید جھوٹ پر یقین نہیں کریں گے انکا مزید کہنا تھا کہ عسکری ٹاؤٹ اب خود کو اور مالکوں کو اس گند سے دور کر رہا ہے۔ اصل میں تو تم سب ایک ہی ہو اندر سے اس سب گند کو مسلط کرنے والے تمہارے مالک ہی تو ہیں۔ اب ہمیں جھوٹے یقین کی ضرورت نہیں۔ تم پر تو سات نسلیں بھروسہ نہیں کریں گی۔
حفیظ اللہ نیازی نے ٹویٹ کیا کہ بےرحمی اور سنگدلی کے حصار میں!میاں محمودالرشید،کینسر مریضہ ڈاکٹر یاسمین راشد،بیمار لاغر اسی سالہ پرویزالہی، پنڈی بوائےشیخ رشید،اور نوجوان نڈھال باپ میاں عباد فاروق۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انکے لئیے اسٹیبلشمنٹ کے دلوں میں رحم ڈالے۔ اس پر شہباز گل نے جواب دیا کہ نیازی صاحب اب آپ بھی ان چوروں کو سپورٹ کرنے۔ نواز شریف کا ماؤتھ پیس بنے پر پاکستانی عوام سے معافی مانگیں ورنہ قیامت کے دن مظلوموں کا ہاتھ آپکے گریبان پر ہوگا۔ افسوس ہے کہ آپ نے بھی انہی چوروں کو سپورٹ کیا اور خان پر حملہ آور رہے۔ اب بھی وقت ہے اللہ سے معافی مانگیں اس پر سوشل میڈیا صارفین نے شہبازگل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آپکو بولنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے، آپ جیسے لوگوں نے ہی عمران خان اور دیگر لوگوں میں دراڑیں ڈالیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ شہبازگل نے غیرضروری ٹویٹ کیا ہے، اسکی ضرورت نہیں تھی۔
گزشتہ روز نوازشریف نے ایک بیان دیا جس میں انکا کہنا تھا کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے۔ اس پر فوادچوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت مثبت رویہ ہے اسکی پاکستان کو ضرورت ہے۔ اس پر عمران افضل راجہ نےفوادچوہدری پر طنز کیا کہ بوٹ والوں کے ہی چمکائیں وہ کسی نا کسی پارٹی میں فِٹ کر دیں گے ۔۔ورنہ پٹواریوں نے مارنا کم گھسیٹنا زیادہ ہے ۔۔ فوادچوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ راجہ صاحب مسلۂ یہ ہے آپ نے پاکستان آنا نہیں ہم نے کہیں جانا نہیں لہذا ہمارا تو جینا مرنا یہاں ہی ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ تلخیاں کم نہ ہوں یہاں معاملات خراب تر ہوں گے، آپ کی تلخیوں کی بھی وجہ ہوں گی لیکن سیاست میں اتنی تلخی سے معاملات خراب ہوتے ہیں، نواز شریف تلخی کم کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے اچھی کیا بات ہو گی، عمران افضل راجہ نے فوادچوہدری کو جواب دیا کہ چلیں میں تو پاکستان سے دور تھا پہنچ نہیں پایا کہ ایف آئی اے انکوائریز میں بھی نام ہیں ایئرپورٹ سے بھی نکلنے نہیں دیں گےمگرآپ تو پاکستان میں تھے ، خان صاحب کے پاس تھے اور خاص تھے۔آپ نے کونسی داستانیں رقم کر لیں۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ “تلخیاں برابری کی سطح پر کم کی جاتی ہیں عزتوں پگڑیوں کے سودے کر کے نہیں” اس پر فوادچوہدری نے جواب دیا کہ آپ انکوائری کے ڈر سے پاکستان نہیں آ رہے اور یہاں لوگوں کو کہ رہے ہیں چڑہ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا۔۔۔ بہرحال چلیں صحیح۔۔۔ عمران افضل راجہ نے فوادچوہدری کو جواب دیا کہ ڈرتا ہوتا تو آپ کی طرح ہومیوپیتھی قسم کے ٹوئیٹس لکھ رہا ہوتا ، موسموں کے حال بتاتایا علیم/ترین کے پچھلے بنچوں میں منہ چھپا کر کھانے کھا رہا ہوتا۔۔اللّٰہ نے امتحان میں ڈالا، سرخرو بھی کیا اور خان صاحب کی طرف سے پیغام بھی مجھے آ گیامگر آپ شاید اس وقت کسی اور ڈیل میں مصروف تھے۔ جس پر فوادچوہدری نے کہا کہ ڈرتے نہیں تو آ جائیں پھر۔۔۔ اتنے ہزار کلومیٹر سے پھڑیں کیا مارنی۔۔۔ اس پر عمران افضل راجہ نے فوادچوہدری کی ویڈیو شئیر کی جس میں وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے بھاگ رہے ہیں۔ عمران افضل راجہ نے اس پر کہا کہ پھڑیں مارنا پھر الٹے قدموں بھاگنا اسے کہتے ہیں ۔۔ ایویں تو نہیں نا آدھی رات کو “تلخیاں” کم کرنے کے خیالات آ رہے ۔۔ میں نے تو کبھی کسی کے باپ کو للکار کے پھر معافی نہیں مانگی ۔۔ ہنسی تو آتی ہوگی یہ ویڈیوز دیکھ کر ؟؟

Back
Top