نومئی کے واقعہ کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تو ان کی جان تب چھوٹی جب تک انہوں نے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان نہ کیا اور انہیں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ رہنما نہ صرف تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے بلکہ نومئی کے واقعات کی مذمت بھی کرتے۔
یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا، پھر بات نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے نکل کر دیگر پریس کلبز اور ویڈیو پیغامات تک آگئی۔۔
پریس کانفرنسز کرنے کا سلسلہ طویل عرصہ سے رکا ہوا تھا لیکن عثمان ڈار کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوگیا اور عثمان ڈار نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔
عثمان ڈار جنہیں کراچی میں گرفتار کیا گیا تھا اور نگران وزیرداخلہ بھی اسکی گرفتاری کا اعتراف کرچکے ہیں، اچانک کامران شاہد کے شو میں منظرعام پر آئے اور طویل انٹرویو دیتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
عثمان ڈار کے کامران شاہد کے شو میں اس انٹرویو پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا پریس کانفرنسز کی بجائے اب انٹرویو ہوا کریں گے؟ فرخ حبیب، صداقت عباسی اور دیگر پی ٹی آئی رہنما جنہیں اغوا کیا گیا ہے ، کیاوہ بھی کسی نہ کسی صحافی کے پروگرام میں اچانک منظرعام پر آئیں گے اور انٹرویو دیکر اپنی جان خلاصی کروالیں گے؟
صحافی زبیر علی خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عثمان ڈار کا انٹرویو نئے سلسلے کا آغاز ہے، پریس کانفرنسز سے شروع ہونے والا اب ٹی وی انٹرویوز تک پہنچے گا۔۔۔ مزید رہنماوں پر بھی دباو ڈالا جارہا ہے۔۔۔ اس کی تفصیل کے لیے ایک وی لاگ عثمان ڈار کے انٹرویو سے قبل ہی ریکارڈ کر چکا ہوں، رات 1030 بجے اپ لوڈ کروں گا ۔۔۔
احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب پریس کانفرنس کے بجائے انٹرویو ہوا کریں گے، جو غائب ہو گا وہ آخر میں انٹرویو ہی دیا کرے گا
سائرہ بانو نے طنز کرتے ہوئے اسے "اغواء برائے بیان " قراردیا۔
نادربلوچ نے کہا کہ شائد پریس کانفرنس اس لیے نہیں ہوئی کیوں کہ وہاں کئی صحافی ہوتے ہیں، سوالات ہوں گے، لہذا کامران شاہد انٹرویو کرلیں وہی کافی ہے۔
شاہ جی نے کہا کہ عثمان ڈار کے سامنے اک پرچی پڑے ہے دوران انٹرویو آج سے چند دن پہلے آپ کو یاد ہوگا پریس کلب میں پریس کانفرنس ہوا کرتی تھی تب بھی پریس کانفرنس کرنے والوں کو ہاتھوں میں اک پرچی دے دی جاتی تھی آج عثمان ڈار کے انٹرویو میں بھی وہی سین ہے