
سینئر صحافی خالد جمیل پیكا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کرلئے گئے۔۔۔۔خالد جمیل پاکستانی نیوز چینل اے بی این سے منسلک ہیں اور بیوروچیف ہیں۔
جمعرات کی شب دیر گئے ایف آئی اے کی جانب سے خالد جمیل کی ایک تصویر جاری کی گئی جس کے مطابق صحافی اُن کی تحویل میں ہیں۔
خالد جمیل پر پیکا قانون کے سیکشن 20 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔صحافی کے خلاف مقدمہ 20 ستمبر کو درج کیا گیا تھا جس میں پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کا سیکشن 20 لگایا گیا ہے۔ جبکہ انکی فیملی تاحال الزامات سے لاعلم ہے
صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ خالد جمیل کو کچھ روز قبل جاں بحق ہونیوالے عباد فاروق کے بیٹے کی موت پر ٹویٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔
ایف آئی اے کے اس اقدام پر صحافیوں اور سوشل میڈیاصارفین کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سید ثمرعباس نے کہا کہ شرمناک انتہائی شرمناک، سینئر صحافی خالد جمیل کے ساتھ یہ سلوک قابل مذمت ہے، اس طرح زبان بندی نہیں ہو گی۔
ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ خالد جمیل صاحب کی گرفتاری اور پھر تصویر بنا کر تذلیل کرنا انتہائی قابل مذمت ہے ایف آئی اے نے بغیر نوٹس گرفتاری کرکے اپنے ہی ایس او پیز کی خلاف ورزی کی کس الزام میں گرفتار کیا ؟ کوئی پتہ نہیں ، مجھے تو ایسے لگا جیسے نئے چیف جسٹس کو ایف آئی اے کی جانب سے سلامی پیش کی گئی ہے
مطیع اللہ جان نے کہا کہ گرفتار صحافی کی یہ اس تصویر سے ۲۵ ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ۵۰ ارب ڈالر کی ہو جائیگی، پہلے ایک نالائق چیف جسٹس نے اپنی چودھراہٹ میں ریکو ڈِک کیس میں اس قوم کو چونا لگایا اور اب کوئی اور چودھری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہاُہے
حماداظہر نے کہا کہ کمال ہے ویسے۔ ملک میں لوگ اغوا ہو جاتیں ہیں، تشدد کا شکار ہوتے ہیں، آئین اور انسانی حقوق کا جنازہ نکل جاتا ہے، بچے غم سے بیمار ہو کر اپنی جان کھو دیتے ہیں۔۔لیکن ریاست حرکت میں آتی ہے ایک ٹویٹ کے اوپر جو ناگوار گزرتی ہے سرکار کو۔۔
فہیم اختر کا کہنا تھا کہ یہ ایک سینئر صحافی کی تذلیل نہیں بلکہ پوری صحافتی کمیونٹی کی تذلیل ہے جو نام نہاد صحافی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے دور میں ہورہی ہے، آواز اگر مخالف ہے تو کیا ہوا ہے تو آواز ہی ناں؟ کونسا دشمن ہیں ؟۔۔
صابرشاکر کا کہنا تھا کہ سینئر صحافی میرے نوائے وقت کے کولیگ خالد جمیل کو چادرچاردیواری کو پامال کرتے ہوئے گھر سے اٹھا لیا گیا، صحافی بھائیو گھروں میں بیٹھے رہنے سے نہ صحافت بچے گی نہ صحافی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے پاس جائیں اور مدد مانگیں کہ یہ فاشسٹ طرز حکمرانی کا خاتمہ ہو