سوشل میڈیا کی خبریں

غریب کا صحت کارڈ بند کرکے صحافیوں کو سہولت دیکر پہلے صحافی کا کامیاب آپریشن۔۔ مریم اورنگزیب خوشی سے بغلیں بجاتی رہیں، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید اپنے ٹوئٹر پیغام میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ الحمداللہ، وزیراعظم شہباز شریف کے صحافیوں کے لئے پاکستان کی تاریخ کے پہلے صحت کارڈ پروگرام کے تحت سرگودھا سے سینئر صحافی اسجد منیر صاحب کا دل کا کامیاب آپریشن ہوگیا ہے۔ وہ پہلے صحافی ہیں جنہیں ہیلتھ کارڈ کے تحت نجی ہسپتال میں جدید ترین علاج کی بہترین سہولت ملی ہے جس کی تمام ادائیگی ہیلتھ کارڈ سے ہوئی ہے۔ مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ آج میرے لئے بہت خوشی کا دن ہے۔ فنکاروں اور صحافیوں کی صحت کے تحفظ کا مقصد تعبیر میں ڈھل گیا ہے۔ اسجد منیر اور ان کے اہل خانہ کو مبارک پیش کرتی ہوں۔ دعا ہے کہ وہ جلد مکمل صحت یاب ہو کر بطور صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات دوبارہ ادا کریں۔ آمین حناپرویز بٹ نے کہا کہ شہباز شریف صاحب کی جانب سے صحافیوں اور فنکاروں کو دیے گئے صحت پروگرام کے تحت الحمدللہ پہلے سینئر صحافی کا آپریشن مکمل ہوگیا۔ شہباز شریف صاحب اور مریم اورنگزیب صاحبہ یقیناً تعریف کے مستحق ہیں۔۔ اس پر صحافی ذیشان عزیز نے ردعمل دیا کہ مریم اورنگزیب صاحبہ کی وزارت کا یہ عرصہ سیاہ ترین تھا جس میں نہ صرف صحافی قتل ہوئے ، بلکہ صحافی اغوا ہوئے ، صحافیوں کی نوکریاں چھینی گئیں اور صحافیوں کی آواز بند کرنے کے لیئے ہر طرح کا ظلم ڈھایہ گیا۔ زبیرعلی خان کا کہنا تھا کہ لاہور کے ایک صحافی پی ڈی ایم کی ہیلتھ انشورنس سے مستفید ہوئے ہیں اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب اور ان کے حمایتی بیمار صحافی کی تصویریں لگا لگا کر جشن منا رہے ہیں۔ ان صحافیوں سے کوئی پوچھے کہ جب دو صوبوں کا ہر شہری اس سہولت سے مستفید ہورہا تھا تو کیوں اس پروگرام کو ختم کیا گیا؟ اور ان حمایتی صحافیوں نے کیوں اس وقت آواز نہیں اٹھائی؟؟؟ ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ مریم اورنگزیب صاحبہ، عمران خان نے جو صحت کارڈ ہر پاکستانی خاندان کو دے رکھا تھا، جسے آپ کی حکومت نے بند کر دیا اس سے صرف صحافی ہی نہیں، رکشے والا، ریڑھی والا، چوکیدار، ڈرائیور، سب کے خاندان لاکھوں روپے کے علاج کروا رہےتھے ایک صارف نے کہہا نے کہا کہ پورے ملک کا صحت کارڈ بند کر کے چند صحافیوں کو دے کر اپنی تعریف کرتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ ہارون رشید کا کہنا تھا کہ محترمہ مریم نواز کے حکم پر صحت کارڈ بند۔ میڈیا کے لئے دس ارب روپے کے اشتہارات ۔غربا کی زندگیاں خطرے میں اور امرا کی ناز برداری ۔اسٹیلشمنٹ جان لے کہ ایسے حکمران قوم قبول نہیں کرے گی۔ میڈیا کو برقرا رکھنے کے لئےزندہ معیشت اورآزادی درکار ہے ۔ جی ہاں!مادر پدرآزادی نہیں مگر ازادی
جنگ گروپ کا صدر عارف علوی کی تضحیک کیلئے لنگڑی بطخ جیسے الفاظ کا ستعمال ن لیگ کے حامی صحافی صالح ظافر نے نے سوال کیا کہ عارف علوی ایوان صدر میں لنگڑی بطخ کی طرح قیام کریں گے یا رخصت ہوجائیں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ عارف علوی نے ایوان صدر میں اب لنگڑی بطخ صدر کی طرح مزید چند ہفتے اس وقت تک قیام کرنا ہے جب عام انتخابات کے بعد ان کے جانشین چناؤ ہوجائے یا پھر وہ قصرصدارت کے مکین رہ کراپنی سیاسی جماعت کے مقاصدکو روایتی طور پر تحفظ فراہم کرنے میں کوشاں رہیں گے اس بارے میں انہوں نے تحریک انصاف کی دستیاب قیادت سے طویل مشورے مکمل کرلئے ہیں۔ جنگ گروپ کے ان الفاظ پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ۔خاورگھمن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو آجکل کی صحافت کھبی مردانہ کمزوری کی ادویات بیچ رہی ہے اور کھبی لوگوں کی بیڈ ٹائم سٹوریز۔ لیکن جو معیار صحافت بزرگ ساتھی صالح ظافر جنگ اخبار کے توسط سے طے کر رہے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس خبر کا واحد مقصد ڈاکٹر عارف علوی کی تضحیک کے علاوہ کچھ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی یہ صاحب ایسے کام کرتے رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین فہیم اختر نے کہا کہ صدر عارف علوی کے خلاف جنگ جیو گروپ کی تضحیک آمیز مہم کے باوجود وہ استعفی نہیں دے رہے،آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخاب تک وہ عہدہ پر رہیں گے ان کی اگلے ہفتے کی مصروفیات بھی فائنل کردی گئی ہیں، تضحیک آمیز مہم کا واحد مقصد صدر کو استعفی پر مجبور کرکے راستے سے ہٹانا ہے طارق متین کا کہنا تھا کہ صالح ظافر صاحب شریفوں اور طاقتوروں کی چاپلوسی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں یہاں موصوف کا یہ انداز ریاست کے سب سے بڑے آئینی عہدے دار کے لیے ہےاور ان کے ادارے نے اسے چھاپ بھی دیا۔ موصوف باجوہ کے آملیٹ کی خبر اور مشرف دور میں شریف براردران کی گندی فلموں کی کلیکشن کی خبریں چھاپ چکے ہیں۔ مقدس فاروق اعوان نے ردعمل دیا کہ صحافتنہ کمزوری لا علاج مرض ہے
سینئر تجزیہ کار مبشر زیدی اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے درمیان ٹویٹر پر لفظی جنگ شرو ع ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار مبشر زیدی نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری اور کامران خان کے درمیان سخت مقابلہ ہے کہ کون زیادہ اٹھائے گا۔ فواد چوہدری نے مبشر زیدی کے اس تنقیدی بیان سخت جواب دیا اور جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنخواہ استنبول میں نہیں لگی، ہمارا ایک روپیہ بھی پاکستان سے باہر نہیں ہے، ملک میں معاشی تباہی شائد باہر بیٹھے لوگوں کا مسئلہ نا ہو ، مگر ہمارا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ آرمی چیف کریں یا کوئی سیاسی جماعت، جو بھی معاشی بحالی اور استحکام کیلئے کام کرے گا اس کی تعریف ہی کریں گے، سیاست تو ابھی ہو نہیں رہی جب ہو گی دیکھ لیں گے، دو دو ٹکے کے ٹرولز میں اور آپ جیسے معتبر آدمی میں فرق ہونا چاہیئے۔ مبشر زیدی نے فواد چوہدری کے بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ سویلین بالادستی ی بات کرتے تھے تو میں آپ کا حامی تھا،مجھے پتا ہے کہ سیاستدانوں پر کس قسم کے دباؤ ہوتا ہے، مگربطور پاکستانی ہم سیاستدانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی مزاحمت کریں گے اور چار ڈکٹیٹر اور دس چیف گزرے ہیں مگر ہمارا ملک ٹھیک نہیں ہوا۔
پی ڈی ایم کے میڈیا کو 10 ارب کے اشتہارات دینے پر سوشل میڈیا صارفین کا شدید ردعمل۔۔ پی ڈی ایم نے 10 ارب روپے میڈیا کو اسی لیے کھلائے کہ وہ عوام کو بھول کر حکومت کے گن گاتا رہا!: سوشل میڈیا صارف ایک طرف مہنگائی میں پستی عوام کو کہا جاتا رہا کہ معاشی بحران ہے اور دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی 13 جماعتی اتحادی حکومت کی طرف سے 16مہینوں کے دوران میڈیا کو اشتہارات کی مد میں 10 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اتحادی حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کو 4 ارب 79 کروڑ، پرنٹ میڈیا کو 3 ارب 50 کروڑ اور ڈیجیٹل میڈیا کو 1 ارب 23 کروڑ کے اشتہارات جاری کیے۔ دس ارب روپے میڈیا کو جاری کیے جانے کی خبر سامنے آنے کے بعد سارا دن ٹوئٹر پر "10 ارب ڈوب گئے" ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔ سینئر صحافی وتجزیہ نگار کاشف عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت بار بار ایک بیان دیتی رہی کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا جسے ہم نے بچا لیا۔ آج پتا لگ رہا ہے کہ ڈیفالٹ کرتے ہوئے ملک کے 10 ارب روپے اس بات پر لگا دیئے گئے کہ پچھلی حکومت نے معاشی بحران پیدا کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے خبر سامنے آنے کے بعد شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے مریم اورنگزیب کی تصویر کے ساتھ میڈیا کو 10 ارب روپے جاری کرنے کی خبر شیئر کرتے ہوئےپیغام میں لکھا گیا کہ: عوام کے لیے "پورے 2ہزار" روپے اور میڈیا کے لیے 10 ارب روپے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ عمران افضل راجہ نے لکھا کہ: پی ڈی ایم حکومت نے 10 ارب روپے میڈیا کو کھلا دیئے ہیں تو اندازہ کریں شہبازشریف اور مریم اورنگزیب کی جیب میں کتنا پیسا گیا ہو گا؟ صحافی ایسے سوال کرتے تھے کہ حکومت اپنی صفائی میں بچگانہ کہانیاں سناتی تھی اور بہت سے میڈیا ہائوسز پاکستان کو جنت نظیر اور اسحاق ڈار کو فرشتہ دکھاتے رہے! ایک صارف نے لکھا کہ: میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ عوام کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے اس سے میڈیا کو کوئی غرض نہیں ہے انہیں صرف اپنا حصہ چاہیے ہوتا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت نے 10 ارب روپے میڈیا کو اسی لیے کھلائے کہ وہ عوام کو بھول کر حکومت کے گن گاتا رہا! ایک صارف نے لکھا کہ: امپورٹڈ حکومت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو عوام کی نظروں میں مجرم بنانے کے لیے 10 ارب روپے خرچ کر دیئے لیکن پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکا کیونکہ عوام نے بکے ہوئے میڈیا کے بے بنیاد پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ سعید بلوچ نے لکھا کہ: پی ڈی ایم کی امپورٹڈ حکومت نے 10 مہینوں کے دوران اپنی تعریفیں کرنے کے لیے میڈیا میں 10 ارب روپے بانٹ دیئے لیکن خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کیلئے معاشی بحران کا بہانہ بنا کر 20 ارب روپے کے فنڈز نہ جاری کیے۔ یار محمد خان نیازی نے لکھا کہ: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو اقتدار میں لانے والوں نے 10 ارب روپے کے عوض پاکستانیوں کو میڈیا کے ہاتھوں بیچ دیا۔ میڈیا عوام کے حق میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ عوام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ عوام میڈیا کے اس مجرمانہ کردار کو بھولے گی نہیں! نعمان سرور نے لکھا کہ: میڈیا کو 10 ارب روپے جاری ہونے کی وجہ سے ہی مہنگائی پر کسی قسم کی رپورٹنگ نہیں کی جاتی! سارے لفافوں کو ایسے ہی نہیں خریدا گیا جبکہ سوشل میڈیا پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ذلالت ان کا مقدر بن چکی ہے۔
چینی مہنگی کیا ہوئی، ن لیگ کے حامی صحافی چینی کے نقصانات گنوانے لگے، کوئی اسے سفید زہر قرار دے رہا ہے تو کوئی اسکے نقصانات گنوارہا ہے، کوئی شوگر ، دل کے امراض سے بچنے کیلئے چینی استعمال نہ کرنیکا مشورہ دے رہا ہے۔ ایسے حالات ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے صحافی کامران شاہد بھی میدان میں آگئے اور چینی کے نقصانات گنوادئیے اور عوام کو چینی سے دور رہنے کا مشورہ دیا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کامران شاہد نے مشورہ دیا کہ چینی چھوڑیں: تمام طبی تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ سفید کیمیکل والی چینی ذیابیطس ، دل کے مسائل ،خراب جگر اور بہت سی دوسری بیماریوں کا باعث بنتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ چینی چھوڑ دیں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ڈاکٹر شہباز گل نے کامران شاہد پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ واہ واہ واہ۔ میرے دوست کے دوستوں نے چینی مہنگی کیا کہ میرا دوست تو ڈاکٹر بن گیا۔ میرا دوست چینی نہ استعمال کرنے کے فائدے بتاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا دوست اتنا ہینڈسم آدمی ہے۔ کیا زبردست پرسنلیٹی ہے میرے دوست کی لیکن پان کھا کھا کر اتنے موتیوں جیسے دانت تباہ کر دئیے میرے دوست نے۔ شہبازگل کا مزید کہنا تھا کہ پتہ نہیں کون کون سے کتابیں پڑھتا ہے میرا دوست جس میں چینی کے نقصان تو بیان کیے جاتے ہیں۔ لیکن پان کھانے کے نہیں۔ آج سے میرے پیارے دوست کو ڈاکٹر کامران کہا اور لکھا جائے پلیز۔ شعیب ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چینی مہنگی ہوئی تو چینی کے نقصانات بتانے لگ گئے، عمران خان کی حکومت ہوتی تو اس منافق نے کپڑے پھاڑ کر سڑک پر آجانا تھا۔ فہد نے تبصرہ کیا کہ خان صاحب کے دور میں چینی 5 روپے مہنگی ہونے کو عوام کا معاشی قتل کہنے والے لفافے اب چینی 100 مہنگی ہونے کے بعد اُسی عوام کو چینی استعمال کرنے کے نقصانات بتا رہے ہیں.. یہ وہ بے شرم ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے قوم کو گمراہ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اچھا کھلانے کیلئے انکا سودا کرتے سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جو چینی کے نقصانات بتانے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ سعید بلوچ نے لکھا کہ چونکہ ہم سمگلنگ نہیں روک سکتے اس لیے عوام سفید چینی کا استعمال کر دیں؟؟؟ بھئی ملازمت ہو تو ایسی کہ مہنگائی اور مہنگائی لانے والوں پر تنقید نہیں کرنی بلکہ عوام کو نصیحت کرنی ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ اگر یہ عمران خان کی حکومت ہوتی تو اس نے سفید چینی کے فوائد پر پورا پروگرام کر مارنا تھا ایسے ایسے فائدے بتانے تھے کہ چینی نے خود بھی شرما جانا تھا ایک اور سوشل میڈیا صارف نے ردعمل دیا کہ آگیا لفافہ اب مہنگائی کو ڈیفنڈ کرنے۔ اسکو 80 روپے کلو مہنگی لگتی تھی۔ آج 200 روپے کلو پر منافقت چیک کریں
صحافی جاوید چوہدری نے مردوں کیلئے "مردانہ" کے نام سے دوائی لانچ کردی۔۔۔سینئر صحافی نے عورتوں کیلئے "زنانہ" کے نام سے بھی بہت جلد دوائی متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔ صحافی جاوید چوہدری نے مردوں کے نام پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ "اگر آپ مرد ہیں تو اسے ضرور استعمال کریں"- جاوید چوہدری کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی ، جہاں سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئےوہیں صحافی بھی پیچھے نہ رہے اور ویڈیو شئیر کرتےہوئے دلچسپ تبصرےکرتے رہے صحافی وسیم عباسی نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جاوید چوہدری نے حکمت کے میدان میں قدم رکھ دیا۔۔ مردانہ اور زنانہ کے نام سے دوائیاں بیچنے کا اعلان۔۔کیا دیگر اینکر بھی اس شعبہ میں لینڈ کر سکتے ہیں؟؟ انہوں نے مزید کہا کہ کمزوری سے پاک صھت مند پاکستان جاوید چوہدری کے سنگ۔۔ ارسطو اور ارشمیدس کی کہانیوں سے یونانی نسخوں کا سفر۔۔ جس پر ابصارعالم نے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ پڑھ کر کہا کہ پاکستانی صحافت فوت ہوگئی شہبازگل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تھا ان کا اصل کام۔ اب آئیں ہیں یہ اصل کام پر۔ ہوا جیدا جی واہ۔ دوائی سے کام نہ چلے تو جیدا جی سپیشل مالش کا بندوبست بھی کریں گے تا کہ آپ کی ہر کمزوری دور ہو جائے۔ فیاض شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافت کا اگر کوئی سٹینڈرڈ یا میرٹ ہوتا تو جاوید چوہدری سڑک کے کنارے سانڈے کا تیل بیچ رہا ہوتا۔اب یہ بالکل ٹھیک پروفیشن میں آیا ہے۔ عمرانعام نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ پیسوں کے لیے جاوید چوہدری کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ ویڈیو اسکی مثال ہے صحافی عمران میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اکثر اینکر صحافت میں بھی سانڈے کا تیل بیچنے جیسا کام ہی کررہے ہیں۔چوہدری صاحب نے مردانہ کمزوری کی دوا لانچ کرکے پوری قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔حکیم جاوید چوہدری باصلاحیت انسان ہیں جانبازعلی نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ پاکستان میں یہ صحافی ہے دانشور ہے ورنہ قابلیت اسکی چوکوں چوراہوں پر "سانڈے کا تیل " اور "مردانہ کمزوری" کی ادویات بیچنے والی ہی ہے رائے ثاقب کھرل کا کہنا تھا کہ صحافت سے مردانہ کمزوری کے علاج تک کا سفر،خیر اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ خرم نے تبصرہ کیا کہ حکیم جاوید چوہدری نے مردانہ کمزوری دور کرنے کا راز پا لیا، کڑک کڑک کڑیں کا شرطیہ علاج کیا جائے گا۔۔!! پاکستانیت کا کہنا تھا کہ معیشت کیلئے بھی ایسے ہی مردانہ نسخے تیار کئے جا رہے ہیں، اور اسی طرح کے نیم حکیم بطور مشیر ، مشورے دے رہے ہیں کہ صرف ایک رات میں معجون اعادہ شباب سے جوانی لوٹ آئے گی صھافی عدیل سرفراز نے تبصرہ کیا کہ سینیئر اینکر پرسن اور نامور لکھاری جناب جاوید چوہدری صاحب کا پاکستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی اقدام ! مردانہ کمزوری کیلئے "مردانہ" کے نام سے فوڈ سپلیمنٹس تیار کر لیے ! اتنا ہی نہیں جلد ہی کمپنی "زنانہ" فوڈ سپلیمنٹس بھی تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ انکا اصلی کام سانڈے کا تیل ہی بیچنا تھا
سوشل میڈیا پر ٹوئٹر کی باجیاں ٹاپ ٹرینڈ ہے اور یہ ٹرینڈ پی ٹی آئی سپورٹرز نے شروع کیا۔۔اس ٹرینڈ کے پیچھے کہانی بہت دلچسپ ہے۔ پی ٹی آئی سپورٹرز کے مطابق کچھ دن سے ٹوئٹر پر خواتین کے نام سے جعلی اکاؤنٹس گردش کررہے ہیں جن کی ڈی پی اور پروفائل پر کسی خوبصورت خاتون کی تصویر ہوتی ہے اور یہ مرد ٹوئٹر صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے مختلف ٹویٹس کرتی ہیں کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے کپڑے کیسے ہیں، مجھے شادی کیلئے ایسے مرد پسند ہیں وغیرہ وغیرہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا صارفین کادعویٰ ہے کہ یہ سب جعلی اکاؤنٹس ہیں، ان اکاؤنٹس کے پیچھے کوئی لائبہ، ثناء یا ارم نہیں بلکہ کوئی محمد بشیر، اللہ دتہ ہے جو خاتون بن کر ایسے ٹویٹس کرتا ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پھنسایا جائے گا ،ڈیٹ کیلئے کسی مخصوص مقام پر بلایا جائے گا اور پھر گرفتار یا لاپتہ کروادیا جائے گا۔ سوشل میڈیا صارفین نےمزید کہا کہ یہ جعلی اکاؤنٹس والی خواتین کوئی وٹس ایپ نمبر بھی جاری کریں اوران مردوں کو ایڈ کرنیکی دعوت دیں اور پھر انکے نمبر کے ذریعے انہیں گرفتار کیا جائےاسلئے ایسے وٹس ایپ گروپ سے ہوشیار رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹوئٹر کی باجیاں آپکو ٹوئٹر ڈی ایم یا وٹس ایپ پہ کوئی لنک بھیجیں گی جنہیں آپ نے کلک نہیں کرنا اگر آپ کلک کرینگے تو آپکا موبائل فون یا اکاؤنٹ ہیک ہونیکا خدشہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اینٹوں کا بھی تذکرہ ہورہا ہے، نکا دعویٰ ہے کہ ان باجیوں کے ذریعے جب آپکو غائب کیا جائے گاتو آپ سے اینٹیں اٹھوائی جائیں گی یا ایک بھاری رسہ آپکی کمر کیساتھ باندھا جائے گا جس کے آخری سرے پر اینٹیں ہوں گی اور اور آپکو گھمایا جائے گا۔ ارسلان بلوچ نے خبردار کیا کہ اپنی لوکیشن،موبائل نمبرز کسی کو بھی نا دیں۔اگر آپ لوگ اینٹیں اٹھانے کی پریکٹس کر چکے ہیں اور اس میں آرام محسوس کرتے ہیں تو جس کو چاہے اپنا موبائل نمبر دیں۔میرا کام تھا بتانا باقی آپ لوگوں کی مرضی۔۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جس جس کو اینٹ اٹھانے کا شوق ہے یا جس کو اینٹ اٹھانے کا تجربا ہے تو اپنا اور شہر کا نام لکھے اور اگر نہیں ہے تو ہوشیار رہیں کیونکہ یہ کمپنی کا ہی چال ہے مطلب کہ فرحان میں فرحانہ نکل آئے گا
منصور علی خان نے کچھ روز قبل لندن میں عمران خان کا مقدمہ لڑنیوالے ممکنہ وکیل کو سلمان رشدی کا حمایتی وکیل کہا اور عمران خان کے کیس کو اسلام دشمنی سے جوڑنے کی کوشش کی، اسی کلپ کو استعمال کرکے عطاء تارڑ ، مریم نواز اور دیگر رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور عمران خان پر اسلام دشمنی کے الزامات لگائے تھے۔ اب انہوں نے پی ٹی آئی کے وکلاء کے خلاف محاذ کھول لیا اور ان پر عمران خان کا کیس لڑنے کی بجائے عمران خان کا نام استعمال کرکے وی لاگز اور ویڈیو بنانے کاالزام لگادیا۔۔ عمران خان کے وکلاء میں نعیم حیدرپنجوتھہ ، انتظار پنجوتھہ، شیر افضل مروت، علی اعجاز بٹر ، شعیب شاہین اور عمیر نیازی شامل ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر عمران خان کے کیس اور اسکے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے اپڈیٹس پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ منصور علی خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں ان وکلاء کے بارے میں کہا کہ وکیلوں کا کام عمران خان کو ریلیف دلانا ہے، ٹک ٹاک اور سیلفیاں بنانا نہیں، قانونی حوالے سے عمران خان کے لیےسنجیدہ کوششیں نہیں ہو رہیں، کچھ وکلا عمران خان کے نام کو اپنی شہرت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مختلف رپورٹرز اور سوشل میڈیا صارفین نے اسے عمران خان کے وکلاء کے خلاف پروپیگنڈا اور کمپین قراردیدیا اور کہا کہ پی ٹی آئی سپورٹرز کو یہ عمران خان کے وکلاء سے بدظن کرنیکی کوشش ہے۔اسکا مقصد صرف اختلافات پیدا کرنا ہے انہوں نے مزید کہا کہ مشکل وقت میں جب عمران خان کو انکے انتہائی قریبی ساتھی چھوڑگئے تھے تو ایسے وقت میں یہ وکلاء ہی عمران خان کیساتھ کھڑے تھے۔ اس پر شہبازگل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے دوست لونڈا لپاڑا جی کے مطابق عمران خان صاحب کے باہر نا آنے کی وجہ ان کے وکلا کی سیریس کوشش نہیں ہے۔ لونڈا لپاڑہ صاحب اصل بات بتائیں آپ کے آقا تما قانون یرغمال بنا کر خان کو اندر رکھے ہوئے ہیں۔ لونڈے لپاڑہ کی عادت ہے رنگ بازی کی اور آج وکلا پر شروع مغیث علی نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کیساتھ اس مشکل وقت میں کھڑا ہونا بہت مشکل ہے، بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئیں، لیکن جو وکیل بھی اس وقت عمران خان کیساتھ کھڑا ہے وہ بہادر شخص ہے۔۔۔ کیونکہ مشکل وقت میں بہت سے لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے۔۔ رضوان غلیزئی نے کہا کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کے کئی لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ وہ پہلے خود وکلاء کو ہدایات دیتے تھے جیل میں جانے کے بعد رابطوں میں تعطل کی وجہ سے قانونی ٹیم میں بھی یکسوئی نہیں ہے۔ جو وکیل ساتھ ہیں وہ اپنی حیثیت میں جوکرسکتے ہیں کررہے ہیں، عمران خان نے ہی انکو ہدایات دی ہوئی ہیں کہ وہ میڈیا سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کریں۔ جو خان کے ساتھ کھڑا ہو اسکے ٹک ٹاک خود ہی لوگ بنا دیتے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ لونڈے لپاڑے کی عمران خان کے وکیلوں سے عوام کو بدظن کرنے کی ناکام کوشش۔۔۔ ٹک ٹاک کے استعمال پر تنقید بھی ٹک ٹاک کے ذریعے ارسلان بلوچ کا کہنا تھا کہ خان کی لیگل ٹیم کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے،تاکہ عوام لیگل ٹیم پر سوال اٹھائیں،جس سے آپسی اختلافات ہوں اور فائدہ انکا ہو۔اس چیز سے بچنا ہے سب نے۔کسی لونڈے لپاڑے کے پروپیگنڈے میں نہیں آنا۔
تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر میاں عباد فاروق جنہیں نو مئی کے واقعات کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، انکے بیٹے کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ انتہائی نازک حالت میں ونٹی لیٹر پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمارعباد کا بیٹا بالکل نارمل تھا ، والد کی گرفتاری کے بعد بھی ٹھیک ٹھاک تھا لیکن پولیس کی جانب سے بار بار اسکی والدہ اور دادی کو ہراساں کرنے پر بیٹا دماغی توازن کھوبیٹھا اور آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے عمار عباد اپنے والد کی راہ تک رہا ہے اور اسکے آنے کا انتظار کررہا ہے، اسی غم میں اور پولیس کے بار بار آنے اور ہراساں کرنے پر بچہ ذہنی توازن کھوبیٹھا۔۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹرز نے بھی جواب دیدیا ہے۔ عمار عباد کی اس وائرل ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے جہاں اظہارہمدردی اور دکھ کا اظہار کیا وہاں کچھ صحافی اسکا ذمہ دار اسکے والد کو دے رہے ہیں۔جن میں ن لیگ کی حامی صحافی تنزیلہ مظہر بھی پیش پیش ہیں۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں تنزیلہ مظہر نے کہا کہ پولیس وین اور املاک کو نقصان پہنچانے والے یہ نوجوان پاکستان تحریک انصاف کے سابق ٹکٹ ہولڈر میاں عباد ہیں جو نو مئی کے واقعات میں گرفتار ہیں ۔ اگر یہ صرف احتجاج کر رہے ہوتے تو آج اپنے بیمار بیٹے کے پاس ہوتے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ان کا بیٹا بیمار ہے وہ اس گرفتاری سے پہلے سے بیمار تھا یا اس کے بعد اس بات سے اس نوجوان کی غلطی زائل نہیں ہو جاتی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کا خاندان بچے کی بیماری کو اس گرفتاری کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے ۔ وہ یقینا بچے کی بیماری سے پریشان ہونگے کوئی بھی شخص کسی بھی جرم میں گرفتار ہو جائے وہ اور اس کا خاندان ایسے ہی اذیت میں ہونگے لیکن کاش قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے بھی میاں عباد جیسے نوجوانوں کوُکسی کا احساس ہوتا قانون کا احساس نا بھی ہوتا تو کم سے کم اپنے بال بچوں کا احساس ہوتا ۔ تنزیلہ مظہر نے جو ویڈیوز پیش کی ہیں یہ ویڈیوز 9 مئی کے واقعات کی نہیں بلکہ جیل بھرو تحریک کی ہیں جن میں عباد فاروق رہا ہوچکے ہیں۔ یہ ویڈیوز گورنر ہاؤس اور چئیرنگ کراس کی ہیں۔ اس پر صحافی شاکر محموداعوان نے کہا کہ بڑی اچھی بات ہے آپ نے لکھا کہ غیر قانونی اقدام کر رہا ہے،، لیکن آپ صحافی ہیں کیا آپکو معلوم ہے یہ عمل اس نے 9 مئی کو کیا تھا،، یہ 9 مئی سے پہلے کی ویڈیوز ہیں،،، بہت اچھی بات ہے آپ نے لب کشائی کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ان لوگوں کےلیے بھی کب کشائی کی جو کسی گناہ کے بغیر 9 مئی واقعہ میں اندر ہے،، جنہوں نے ایک پتہ بھی نہیں توڑا وہ 3 ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے،،وہ اندر ہیں،،، کیا زبان پر آبلے آگئے ہیں۔ شاکر محموداعوان نے مزید کہا کہ اگر عباد ملوث تھا تو پھر انکی فیملی، والدہ، بیوی کے ساتھ کیوں ظلم کیا انہیں کیوں حراست میں لیا،، اگر تو کسی کو خوش یا کہنے پر آپ نے یہ کیا تھا پھر ٹھیک ہے لیکن آپ نے اپنے ضمیر کی آواز پر کر رہی ہیں تو پھر 21 توپوں کی سلامی۔۔ طارق متین نے جواب دیا کہ تنزیلہ ، چیک کیا تو معلوم یہ ہوا ہے کہ یہ جیل بھرو تحریک کی ویڈیوز ہیں ۔ جیل بھرو تحریک میں بھی یہ طریقہ ٹھیک نہیں تھا اور عباد صاحب نے کچھ دن اس کی پاداش میں جیل میں گزارے تھے۔ یہاں بیمار بیٹے کی بات نامناسب ہے عمر سعید کا کہنا تھا کہ جب آپ سفارش پر صحافی بھرتی ہوں تو ایسی باتیں کرتے ہیں اپ کے لیے مشورہ ہے اخبار باقاعدگی سے پڑھا کریں جو ویڈیوز آپ نے شئیر کی ہیں ان میں عباد فاروق ضمانت پر رہا ہیں اب جس کیس میں گرفتار کیا ہے پولیس 4 ماہ سے اس کا چالان نہیں پیش کر رہی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک وہ جیل میں ہے ۔ محمد عمیر نے کہا کہ ان دونوں مقدمات میں عباد رہا ہوچکے تھے،ایک فوٹیج مال روڈ چئیرنگ کراس کی ہے دوسری گورنر ہاوس کی ہے۔ اب جن مقدمات میں وہ گرفتار ہیں ان میں پولیس چار ماہ سے چالان ہی پیش نہیں کررہی جس کے باعث ضمانت انکا حق ہے اور انکو انکا حق نہیں دیا جارہا
مسلم لیگ ن کی سینئر رہنما اور سیکرٹری انفارمیشن پنجاب عظمیٰ بخاری کو صحافی طارق متین پر بھائی کے قتل کا الزام لگانا مہنگا پڑگیا، صحافی برادری نے عظمیٰ بخاری کو کھری کھری سنادیں۔ تفصیلات کے مطابق عظمیٰ بخاری نے طارق متین کی جانب سے ریمنڈ ڈیوس کے وکیل سے متعلق سوال اٹھانے پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوال تو پھر یہ بھی اٹھتا ہے کہ جائیداد کیلئے اپنے ہی بھائی کو مروادینا زیادہ شرمناک ہے یا وکیل کا معاملہ؟ طارق متین نے عظمیٰ بخاری کے اس الزام کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے ثابت کردیا کہ آپ مذہب پر گھٹیا سیاست کرنےو الے نواز شریف اور مریم نواز کی پکی پیروکار ہیں، میرا سوال تو آپ کی جماعت کی مذہبی کارڈ کھیلنے کی سیاست پر تھا مگر آپ کے جواب نے ثابت کردیا کہ آپ کی تربیت اور سیاست کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقتدار کا نوالہ دیکھ کر پینترا بدلنے والوں کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ وہ ایک مقصد پر جان دینےوالوں پر بات کریں۔ سینئر صحافی اجمل جامی نے بھی اس بیان پر عظمیٰ بخاری کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جتنا بھی اختلاف رائے ہو مگر یہ کیسا افسوسناک رویہ ہے، گویا آپ کے یہاں دلیل ختم ہوچکی تھی؟ انہوں نے عظمیٰ بخاری سے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں طارق متین کو 15 سالوں سےذاتی حیثیت میں جانتا ہوں، آپ کا الزام انتہائی گرا ہوا ہے، ایسے رویوں کو پرچار مت کریں، آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ عظمیٰ بخاری نے اجمل جامی کو جواب دیا کہ کیا ان سب کے پاس عمران خان کو بچانے کی دلیل ختم ہوگئی تھی جو ایک مرحوم وکیل پر بہتان باندھنا پڑا؟ ان کے پاس میرے والد کے بارے میں کیا ثبوت تھے؟ کسی پر بات کروگے تو سہنا بھی سیکھنا ہوگا،مجھے سیلکٹڈ اخلاقیات مت سکھائیے۔ صحافی اسد اللہ خان نے بھی عظمیٰ بخاری سے معافی مانگنے اور ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کی درخواست کی۔ تجزیہ کار مزمل اسلم نے کہا کہ کسی پیارے کے قتل کے بعد اگر کسی سے ہمدردی نہیں کرسکتے توکم از کم اس کے زخم نا تراشیں، اگر دلیل ختم ہوجائے تو بہتر ہے خاموش ہوجائیں، ایسی گفتگو سے آپ نے اپنا کیریکٹر واضح کیا ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے کہا کہ عظمیٰ بخاری بھی جانتی ہیں کہ طارق متین کے بھائی کیسے قتل ہوئے، یہ ایک غیر انسانی الزام اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔ نعمت خان نے کہا کہ اطہر متین بے شرم حکمرانوں کی نااہلی کے سبب پھیلنے والے اسٹریٹ کریمنل کے ناسور سے ایک شہری کی جان اور مال بچاتے ہوئے شہید ہوئے، عظمیٰ بخاری شہید کے بھائی سے معذرت کرکے ٹویٹ ڈیلیٹ کریں۔ ثاقب بشیر نے کہا کہ طارق متین پر یہ بہت گرا ہوا الزام ہے، عظمیٰ بخاری ایک پارٹی کی نمائندہ ہیں،آپ کو کسی پر اتنا پرسنل الزام عائد کرنا زیب نہیں دیتا، آپ کو یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا چاہیے۔ اے آروائی نیوز کے صدر عماد یوسف نے کہا کہ عظمیٰ بخاری کو الزام پر شرم آنی چاہیے، صرف یہ ٹویٹ ہی نہیں خود کو بھی ڈیلیٹ کردیں، یہ بے شرمی اور بے حسی کی انتہا ہے۔ فیض اللہ خان نےکہا کہ طارق متین اور اطہر متین کو کراچی کی صحافی برادری بہت اچھے سے جانتی ہے، عظمیٰ بخاری نے شرمناک الزام لگایا ہے، یہ افسوسناک ٹویٹ ہے جو کسی سیاسی کارکن کو زیب نہیں دیتی۔
پنجاب کے علاقے میاں چنوں میں ایک 12 سال معصوم بچہ آٹا چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا اور دکاندار غریب کا احساس کرنے کی بجائے اس پر تشدد کرتے رہے لیکن وہ پھر بھی آٹا مانگتا رہا ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بچہ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا ہے کہ چاچا مجھے دو کلو آٹا دیدو، گھر والے بھوکے ہیں بچہ مزمل ٹریڈر کے مالک سے دو کلو آٹا مانگ رہا ھے، نہ دینے پر بچے نے آٹا چوری کرنے کی کوشش کی، تو دکاندار نے پکڑ کر تشدد کیا اور دکان کے باہر باندھ دیا بے حسی کا یہ عالم تھا کہ آس پاس کے دکاندار بجائے بچے کی تکلیف کا احساس کرنے کے اسے مارتے رہے اور اس پر ہونیوالے کی ویڈیو بناتے رہے۔ آٹا چوری کرنے کے الزام میں تشدد کا نشانہ بننے والے 14 سالہ جمشید سے ملاقات کے لئے اسسٹنٹ کمشنر رمیض ظفر اور ڈی ایس پی ناصر علی ثاقب انکے گھر گاؤں 47 پندرہ ایل پہنچ گئے، اسسٹنٹ کمشنر رمیض ظفر اور ڈی ایس پی ناصر علی ثاقب نے جمشید سے ہمدردی اور شفقت کا اظہار کیا سوشل میڈیا صارفین نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا انکا کہنا تھا کہ بچے کی دہائیوں سے صاف پتہ لگ رہا ہے کہ بچہ اور اسکاخاندان بھوکا ہے، اگر دکاندار اسکی مدد کردیتا تو کونسی قیامت آجاتی لیکن دکاندار نے اس بچے کو زمین پر لٹا کر مارنا شروع کردیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ اگر اس بچے کی مدد نہیں کرنا تھی تو انکار کردیتا، اسے مارنے کی ضرورت کیا تھی۔ سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ ہم تماش بین قوم بن چکے ہیں، بجائے کسی کی مدد کرنے کے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے ویڈیو بنائی اور تشدد میں دکاندار کی مدد کرتے رہے، وہ برابر کے مجرم ہیں
پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈر میاں عباد فاروق کے کم عمر بیٹے عمار عباد کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ انتہائی نازک حالت میں ونٹی لیٹر پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمارعباد کا بیٹا بالکل نارمل تھا ، والد کی گرفتاری کے بعد بھی ٹھیک ٹھاک تھا لیکن پولیس کی جانب سے بار بار اسکی والدہ اور دادی کو ہراساں کرنے پر بیٹا دماغی توازن کھوبیٹھا اور آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے عمار عباد اپنے والد کی راہ تک رہا ہے اور اسکے آنے کا انتظار کررہا ہے، اسی غم میں اور پولیس کے بار بار آنے اور ہراساں کرنے پر بچہ ذہنی توازن کھوبیٹھا۔۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹرز نے بھی جواب دیدیا ہے۔ عمار کی اس ویڈیو نے سوشل میڈیا صارفین نے دل چیر کر رکھ دئیے۔ میاں عبادفاروق کے بیٹے کی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے رائے ثاقب کھرل نے تبصرہ کیا کہ کبھی کبھار مجھے اپنے کام سے واقعی نفرت ہوتی ہے۔کوئی بھی انسان کسی بھی بچے کو اس حالت میں دیکھے گا تو ٹوٹ جائے گا۔ عمار کی بگڑتی صحت کے دوران اپنے والد ( جو جیل میں ہیں) سے ملاقات ہوئی تو پانچ لفظ بول سکا یہ فرشتہ بس* میں ٹھیک ہو جائوں گا* عباد کے بیٹے کی داستاں جسکا باپ عمران خان کا ٹکٹ ہولڈر اور پریس کانفرنس سے انکاری ۔۔۔۔ اسکا باپ گرفتار ہوا تو ماں نے سنبھالا ۔۔۔ ماں کو پکڑ لیا گیا تو دادی نے ماں کی جگہ لے لی پھر اسکی دادی کو بھی پکڑ لیا گیا ۔۔۔ تو اب کیا کرتا اکیلا تھا ملازمین تھے مگر آئے روز پولیس گھر پہ ۂلہ بول رہی تھی ۔۔۔ اب وہ یہاں وینٹیلیٹر پہ پہنچ گیا ہے ۔۔۔ اتفاق ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں کئی روز سے قومے میں پولیس کا انتظار کررہا ۔۔۔۔۔ یہاں اگر ریڈ کی جائے تو زیادہُ دہشت پھیل سکتی علی رضا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میاں عباد فاروق کے بیٹے کا سن کر افسوس ہوا۔ اس سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے کمپنی کے خلاف جدوجہد تیز کرنی چاہیے کیوں کہ کمپنی کو اوقات میں لانا ہے۔ آج یہ عباد فاروق کا بیٹا ہے، کل کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے۔ محمد عمیر نے دعا کی کہ میرے مولا تو عباد کے بیٹے پر اپنا کرم فرما رحم فرما میرے اللہ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اپنا خصوصی فضل فرما وقت کے یزید کی فرعونیت سے نجات دلا عبید بھٹی کا کہنا تھا کہ میاں عباد فاروق کے بیٹے کی وڈیو نے مجھے مکمل طور پر توڑ دیا ہے۔ کاش میں اپنے احساسات اور خیالات کو زبان سے سکتا۔ کاش۔۔۔۔۔۔ امجد خان نے تبصرہ کیا کہ میاں عباد فاروق کے بیٹے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد مجھے ان پی ٹی آئی چھوڑنے والوں سے ہمدردی ہو گئی ہے جو خاموش ہیں اور الزام تراشی نہیں کر رہے ۔۔۔ اندھا ہوتا ہے قانون اس نگری کا جس نگری کے منصف بہرے ہوتے ہیں
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ کھیلنا مہنگا پڑگیا ہے، سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا سامنا۔ تفصلا ت کے مطابق پاکستان مں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو بنر الاقوامی لگلا فورمز پر اٹھانے کلئے برطانوی وکلے جفرلی رابرٹسن کو ہائر کرنے پر عمران خان کے خلاف مڈنیا اور سوشل مڈزیا پر توہنو مذہب کی بھونڈی مہم چلائی جارہی ہے، پراپگنڈاہ کار جارہا ہے کہ جس وکلم کو ہائر کا گار اس نے ملعون سلمان رشدی کی عدالت مں نمائندگی کی تھی۔ مریم نواز شریف نے اس معاملے پر ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ عمران خان نے اپنی نمائندگی کیلئے اسی وکیل کا انتخاب کیا جس نے ملعون سلمان رشدی کی نمائندگی کی تھی، یہ ہے عمران خان کا دوہرا چہرہ، ایک طرف ریاست مدینہ نے جھوٹے دعوے اور دوسری طرف اسلام مخالف لابی سے مدد کی اپیل۔ مریم نواز شریف نے مزید کہا کہ منافقت کی بھی حد ہوتی ہے، اگر ایسے لوگوں سے مل کر عمران خان نے پاکستان میں ساز باز کرنی ہے تو ریاست مدینہ کے جھوٹے دعوے کیوں؟ مریم نواز شریف کے اس بیان پر صحافی برادری نے سخت ردعمل دیا، جیو نیوز کے سابق صحافی احمد نورانی نے کہا کہ لوگوں پر توہین مذہب کے الزام لگانا نواز شریف اور آپ کا اصل چہرہ ہے۔ مزمل اسلم نے آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ آپ کی بہن کے سسر بھی اسی وکیل کی خدمات لیتے رہے ہیں۔ طارق متین نے کہا کہ ارشد شریف کی متس پر دکھائی گئی بیہودگی سے لے کر آج کے مذہب کارڈ تک آپ اور آپ کے والد کا ہر عمل گواہ ہے کہ ان لوگوں کی منافقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پروڈیوسر عدیل راجا نے کہا کہ مذہب کے جو بیوپاری ہیں وہ سب سے بڑی بیماری ہیں۔ شاہزیب ورک نےکہا کہ عمران خان کے خلاف توہین مذہب کی مہم شروع کرکے ان کی جان کو ایک بار پھر خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے کہا کہ جی جی منافقت کی بھی حد ہوتی ہے۔ شفاعت علی نے کہا کہ یہ گستاخی کارڈ آپ پر بھی کھیلا گیا، آپ کے ایک وزیر پر اسی کارڈ کی وجہ سے گولی چلائی گئی، اب آپ یہی کارڈ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کررہے ہیں، کل اس کارڈ کی زد میں مزید معصوم لوگ آئیں گے، مزید جانیں جائیں گی، اس کارڈ کے استعمال کو روکیں ، سیاست چلتی رہنی چاہیے۔ عمر دراز گوندل نے کہا کہ عمران خان نے درست کہا تھا ایک تو یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں پھر اوپر سے پڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ بشارت راجا نے کہا کہ مریم نواز لیڈر ہونے کی دعویدار ہیں، لیڈرتو ذات سے اوپر اُٹھ کر سوچتا ہے اور آگے بڑھتا ہے لیڈر سطحی ذہنیت کا مالک نہیں ہوتا ،مریم اپنی سیاست کو بچانے کے لیےمذہب کو استعمال کر رہی ہیں ، ایسے لوگوں کی وجہ سے پاکستان اسلام کا قلعہ بننے کی بجائے تندور بن گیا جہاں انسانیت جل رہی ہے۔ سلیمان رانا نے شہباز شریف کی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس لعین کے بارے میں بھی وہی الفاظ استعمال کریں جیسے دوسرے لعین کے بارے میں استعمال کیے گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ کے استعمال پر پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان و سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو بین الاقوامی لیگل فورمز پر اٹھانے کیلئے برطانوی وکیل جیفری رابرٹسن کو ہائر کرنے پر عمران خان کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر توہین مذہب کی مہم چلائی جارہی ہے، پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ جس وکیل کو ہائر کیا گیا اس نے ملعون سلمان رشدی کی عدالت میں نمائندگی کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جیفری رابرٹسن برطانیہ کے ایک مشہور وکیل ہیں جن کی خدمات ماضی میں خود ن لیگ رہنما بھی حاصل کرچکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پرکھیلے جانے والے اس مذہب کارڈ کے جواب میں پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی سخت ردعمل دیا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما مراد سعید نے کہا کہ عمران خان پر پہلے بھی اس طرز کے حملے کیے گئے، اب بھی خونی لبرلز اس شخص کے خلاف بات کررہے ہیں جس نے دنیا بھر کے سامنے حرمت رسول ﷺ کی بات کی،جس کی کوششوں سے دنیا نے اسلاموفوبیا کو تسلیم کیا، ٹاؤٹس کے ذریعے بنائے جانے والے بیانیے کے نقصان کی ذمہ دار ریاست ہوگی۔ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ ن لیگ کا ریکارڈ ہے جو غلط کام وہ خود کرتے ہیں پاؤں باندھ کر دوسروں کے خلاف اسی غلط کام کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں، خواجہ اقامہ آصف بھی بیرونی آقاؤں کے سامنے بیٹھ کر یہ کہتا تھا کہ ہم لبرل پارٹی ہں اور عمران خان اسلامی سوچ رکھتا ہے اور پاکستان میں یہ خود کو اسلامی اور عمران خان کو ایجنٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ وہ دور چلا گیا جب ایسا پراپیگنڈہ بک جاتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ حارث نواز شریف کے بھی وکیل تھے، عمران خان نے بھی ان کی خدمات حاصل کیں، اب عمران خان نے ایک چور کے وکیل کو اپنا وکیل مقرر کر لیا ،کا کبھی یہ اعتراض سنا کسی سے؟ عثمان سعید بسرا نے کہا کہ مولے نوں مولا نا مارے تے مولا نہیں مردا، اگر اس نے مرنا ہوتا تو تو کبھی دنیائے کرکٹ کا روشن ستارہ نہ بنتاحالانکہ اسکے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا کہ اسکا تو باؤلنگ ایکشن ہی درست نہیں، سب نے پراپیگنڈہ کیا کہ اس ملک میں اتنا مہنگا فلاحی ہسپتال نہ بنا پاؤ گے پھر دنیائے طب آج تیسرا فلاحی ہسپتال بنتا دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا اسکو سیاست کا 14واں کھلاڑی کہا گیا، سیاسی تانگہ پارٹی کہا گیا پھر اس نے اس ملکی تاریخ کی سب سے مقبول پارٹی اللہ کے حکم سے کھڑی کی کہ سب اسکے سامنے لیٹے پڑے ہیں، اگر اس نے تمہارے پراپیگنڈے سے حوصلہ ہارنا ہوتا تو اب تک قتل کے پانچ حملوں کے بعد عدالتی نظام کے بانجھ ہونے پہ وہ بھاگ چکا ہوتا ابھی لندن کے پر فضا ہائیڈ پارک میں واک کررہا ہوتا ۔ صحافی ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ عمران خان کے خلا ف بھونڈی مہم چلانے کا مقصد عوام کی توجہ ملک گیر عوامی ہڑتال سے ہٹانا ہے، کو نکہ اگر یہ ہڑتال زور پکڑ کر کاما ب ہو گئی تو مہنگائی کا طوفان روکنا پڑ جائے گا،پٹرول, بجلی، گیس کی قیمتیں روکنی پڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو چاہئے کہ اپنا پورا فوکس اصل مسئلے پر مرکوز رکھںہ، مہنگائی کے خلاف پر امن احتجاج جاری رکھیں، یہ ظلم بند ہونا چاہئے، غریب سے جینے کا حق مت چھنا جائے۔ صحافی اکبر باجوہ نے عمران خان کے ملعون سلمان رشدی کی مخالفت سے متعلق اقدامات کی تفصیلات شیئر کیں اور کہا کہ عمران خان نے 2012 مںر بھارت میں ہونے والی کانفرنس میں جانے سے انکار کیا کہ وہاں سلمان رشدی کو مدعو کیا گیا گا تھا تو تمام عالمی مڈیا میں ہیڈ لائنز لگیں۔ نیک روح نے کہا کہ جب ملعون سلمان رشدی نے گستاخی کی تھی تب عمران خان واحد پاکستانی لیڈر تھا جس نے اس کو عالمی میڈیا پہ آڑے ہاتھوں لیا تھا، پراپیگنڈہ تو کوئی ڈھنگ کا کیا کرو۔
صحافی صدیق جان نے عطاء تارڑ کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ شاہزیب خانزادہ کے شو میں سائفر کیس کی تفصیلات بتارہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ عمران خان کا ریمانڈ کیسے ہوا اور کتنے دنوں کا ہوا، جج نے جسمانی ریمانڈ کیوں نہیں دیا۔ صدیق جان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی صاحب کے مطابق وہ غیر جانبدار ہیں، اس لیے وہ کیسز میں مداخلت نہیں کررہے،ان کے مطابق عمران خان کا سائفر کیس ایف آئی اے قانون کے مطابق دیکھ رہی ہے، جبکہ ن لیگ کے پاس سائفر کیس کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ ن لیگ کے ایک وکیل عطا تارڑ نےانکشاف کیا ہے کہ ایف آئی اے نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جوکہ جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین صاحب نے مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ صدیق جان نے مزید کہا کہ یہ بات پہلی مرتبہ سامنے آرہی ہے، عمران خان کی لیگل ٹیم اور میڈیا سمیت کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا جو کہ عطا تارڑ کو معلوم تھی، حالانکہ عدالت کی پروسیڈنگ ان کیمرا ہیں عمران خان کے وکیل علی اعجاز بٹر نے کہا کہ توشہ خانہ کے بعد سائفر خانہ کا تماشہ شروع کر دیا گیاہے کوئی تو قانون اس ملک میں رہنے دیں۔عطا تارڑ کا سائفر کیس سے تعلق ہی نہیں ہے نہ یہ ایف آر میں کمپلینٹ ہے مگرکہتے ہیں کہ سائفر کیس میں ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی مگر مسترد ہوئی اور جوڈیشل کر دیا گیا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کب کی گئی کیا عمران خان کو اسکا بتایا گیا؟ کیا انکے وکلاء کو بتایا گیا؟ اسکا مطلب قانون بھی آپکی مرضی سے چلے گا عدالت بھی آپکی مرضی سے چلے گی ، ایک شخص کی نفرت میں سارا نظامِ عدل تباہ کر دیا گیا ہے۔ صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ عطا تارڑ صاحب کی معلومات یقینا درست ہوں گی لیکن سوال فئیر ٹرائل کا ہے کہ کب عمران خان کو عدالت پیش کیا گیا ؟ یا کیا جج جیل میں گئے ؟ وہاں عمران خان کو پیش کیا گیا اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہوئی ؟ اور جوڈیشل ریمانڈ 30 اگست تک دے دیا گیا ۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ سب کچھ ملزم کی معلومات کے بغیر ہی ہو گیا تو اس عدالتی آرڈر پر سوال اٹھے گا کہ کیسے ایسا آرڈر ہو سکتا ہے جہاں بغیر ملزم کی معلومات طلبی پیشی کے ہی جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ عطا تارڑ کے دعوے کے بعد سیکرٹ ایکٹس (عمران خان سائفر کیس) کے جج دلاور 2.0 بن گئے۔ ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ عطا تارڑ کے اس ہولناک انکشاف نے موجودہ نگران حکومت کی غیر جانبداری پر بڑے سوال اٹھا دیے ہیں۔سائفر کیس میں توشہ خانہ کیس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر جھول ہیں، جو اللّه نے خود ان کے منہ سے اگلوا دیے ہیں۔ اب یہ سب ریکارڈ کا حصہ بنے گا۔ ملیحہ ہاشمی نے سوال اٹھایا کہ عطا تارڑ نے نگران حکومت کے پی ڈی ایم کے ساتھ ملے ہوئے ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ صحافی ریاض چمکنی نے کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان کا ریمانڈ کب ہوا تھا ؟ عطاء تارڑ نے میرے ساتھ گفتگو میں پہلے دفعہ بتا دیا۔ اس بات کا آج تک عمران خان کے وکلاء کو بھی نہیں پتہ تھا لیکن عطاء تارڑ کو سب کچھ معلوم تھا
تفصیلات کے مطابق جیو انٹرٹینمنٹ پر "حادثہ" نام سے ایک ڈرامہ نشر کیاجارہا ہےجس میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر پیش آنے والے ہولناک زیادتی کے واقعہ کی کہانی پیش کی گئی ہے، ڈرامہ میں کردار اور مقامات فرضی ہیں مگر پورا واقعہ ہوبہو سانحہ موٹروے جیسا ہے۔ اس ڈرامے میں پیش کی گئی کہانی کی نشاندہی کسی اور نے نہیں بلکہ سانحہ موٹروےکی متاثرہ خاتون نے فریحہ ادریس سے ٹیلی فونک گفتگو میں کی جس کا احوال فریحہ ادریس نے بیان کیا۔ فریحہ ادریس نے کہا کہ مجھے "ز"(متاثرہ خاتون) کا ٹیلی فون آیا، میں نے اس دن جو کراہیں اور رونے کی تکلیف سنی وہ پہلے کبھی نہیں سنی تھی، متاثرہ خاتون نے مجھے کہا کہ کیا آپ پلیز اس ڈرامے کو روک سکتے ہیں؟ کیا پاکستان اس کو روکنے میں میری مدد کر سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے ساری دنیا میرے دکھ اور درد کو دیکھ رہی ہے۔ براہ کرم ان سے کہو کہ میرے مرنے کے بعد یہ بنائیں۔ میں ابھی زندہ ہوں۔ اور براہ کرم میری موت کے بعد بھی نہیں جیسا کہ میرے بچے ہیں، وہ ہم سب کے مرنے کے بعد یہ بنا سکتے ہیں۔ اسکے بعد حدیقہ کیانی نے تردید کی کہ یہ ڈرامہ اس خاتون پر نہیں بنایا گیا، ڈرامہ تو متنازعہ تھا ہی لیکن ڈرامہ میں جیو کے الفاظ پر "جیسے مردے کے جسم میں روح واپس نہیں آتی ویسے ہی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں آتی"پر سوشل میڈیا صارفین تپ گئے ، انکا کہنا تھا کہ کیا جس عورت کی عصمت دری کرلی جائے وہ ساری زندگی بے عزت ہی رہتی ہے؟ اسکی سوسائٹی میں کوئی عزت نہیں ہوتی؟ انکا مزید کہنا تھا کہ جیو یہ کیسا پیغام دے رہا ہے کہ جن عورتوں کی عزت لٹ گئی ہیں انکی عزت واپس نہیں آئیگی اور وہ معاشرے میں سراٹھاکر نہیں چل سکیں گی؟ رائے ثاقب کھرل نے تبصرہکیا کہ پھر یہ بے حس بے شرم لوگ عزت کا تقاضا کرتے ہیں۔ سعدیہ اسد نے لکھا کہ عزت اور ذلت صرف اللہ کا ہاتھ میں ہے لیکن ہمارے گھٹیا معاشرے نے اس کو ریپسٹ کے ہاتھ میں دے دیا ہے جو کبھی بھی کسی کی عزت لوٹ لیتا ہے اور مظلوم ساری زندگی عزت لٹنے کے ٹیگ کے ساتھ زندہ رہتا ہے اللہ ہمیشہ ظالم کو ذلت دیتا ہے لیکن ہمارے بیمار معاشرے میں ظالم کو عزت دی جاتی ہے اداکارہ نادیہ جمیل نے اس قسم کے الفاظ پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے یہ الفاظ بہت ناگوار گزرے ہیں۔ اکرم راعی نے اس پر جواب دیا کہ آپ کے لکھے ہر لفظ نے مجھے میری روح کی گہرائیوں تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اگر ڈرامہ رائٹر، پروڈیوسڑ، ڈائریکٹر اور جیو نیوز کے مالک کے ضمیر ابھی زندہ ہیں تو وہ آپ کے الفاظ اور الفاظ میں چھپے کرب کو محسوس کر کے شرم و ندامت سے اپنے گھر والوں سے بھی اپنا بدنُما چہرے چھپا رہے ہوں گے مدثر کا کہنا تھا کہ موٹروے ریپ کیس کی شکار خاتون کا شکوہ جائز ہے، بجائے اس خاتون کو حوصلہ دینے کے جیو والے اسے بتا رہے کہ اسکی کھوئی ہوئی عزت کبھی واپس نہیں آئیگی۔معاشرے کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عزت اس خاتون کی نہیں بلکہ ان مُجرموں کی کبھی واپس نہیں آئے گی جنہوں نے خیوانیت دکھائی۔ شعیب بلوچ نے لکھا کہ یہ معاشرہ عزت دیتا تھا آپ کو حدیقہ کیانی پہ بہت مان تھا آپ پہ کہ ضرورت مندوں کی بہت مدد کرتی ھیں آپ لیکن موٹر وے ریپ جیسے تکلیف دہ واقعہ پر بنے ڈرامے میں آپ نے مرکزی کردار ادا کیا بہت افسوس ھوا۔ کیا متاثرہ خاتون سے بھی پوچھا گیا؟ کم از کم شرم محسوس ھونی چاھئے آپ کو۔
حس مزاح اچھی ہو تو زندگی آسان گزرتی ہے، یہ تصویر مزاح سے بھرپور ہے: رمیز راجہ حکومتی بلند بانگ دعوئوں کے باوجود مہنگائی میں کمی تو نہ آ سکی لیکن بجلی کے بلوں میں بے جا ٹیکسز کی بھرمار سے عوام کا جینا محال کر دیا گیا۔ ملک بھر میں بجلی بلوں میں بے جا اضافی ٹیکسز کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی مفت بجلی کی سہولت کو ختم کر کے ریلیف فراہم کیا جائے۔ ایک طرف عوامی احتجاج تو دوسری طرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہر طبقہ فکر کی طرف سے ہر روز طنزومزاح سے بھرپور نت نئے ردعمل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بجلی کے مہنگے بلوں اور سابق چیئرمین پی سی بی وکپتان قومی کرکٹ ٹیم رمیز راجہ کے بالوں کے سٹائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل میم میں دیکھا جا سکتا ہے کہ معروف کمنٹیٹر کی 2 تصاویر ایک ساتھ دکھائی گئی ہیں جس میں سے ایک میں ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں ان کے بال سلجھے ہوئے ہیں۔ رمیز راجہ کی سلجھے ہوئے بالوں والی تصویر کو شمسی توانائی استعمال کرنے والے صارف جبکہ الجھے ہوئے بالوں والی تصویر کو واپڈا کی بجلی استعمال کرنے والے صارف کا عنوان دیا گیا ہے جس بجلی کے بل مہنگے ہونے پر پریشان ہے۔ میم وائرل ہونے کے بعد رمیز راجہ نے ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: حس مزاح اچھی ہو تو زندگی آسان گزرتی ہے، یہ تصویر مزاح سے بھرپور ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے اس مزاق کا برا نہیں منایا! ایک صارف نے لکھا کہ: رمیز راجہ آپ کی سپورٹس مین شپ دیکھ کر بہت اچھا لگا کیونکہ شاید اسے بجلی کا کرنٹ لگتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے!
ن لیگ کے سینئر رہنماعرفان صدیقی نے گزشتہ روز ماریہ میمن کے شو میں کہا کہ وزیر اعظم کا تعلق اگر ن لیگ سے تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ن لیگ کی حکومت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ کی حکومت 2018 میں ختم ہو گئی تھی اور اس کے بعد آج تک ہماری حکومت نہیں ہے- پچھلی حکومت کو ن لیگ کی حکومت کہنا تاریخ کی غلطی بھی ہے اور حقائق کی غلطی بھی ہے! - سینیٹر عرفان صدیقی عرفان صدیقی کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے کسی نے کہا کہ اپنے مقدمات ختم کرواکر جان چھڑوانے کا یہ اچھا طریقہ ہے تو کسی نے کہا کہ کیا عرفان صدیقی پاکستانیوں کو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیں؟ اسداللہ خان نے عرفان صدیقی کا کلپ شئیر کرتے ہوئے طنز کیا کہ ہم شہباز شریف کو جانتے تک نہیں، ہم تو خود اسے ڈھونڈ رہے ہیں جس نے بجلی مہنگی کی فوادچوہدری نے اس پر ردعمل دیا کہ مسلم لیگ ن نے اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات ختم کرانے کے لیے دفاتر کا سہارا لیا اور اب وہ اپنی 16 ماہ کی بدانتظامی کا بوجھ کیئر ٹیکرز پر ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن کیا واقعی وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ اتنے سادہ لوح ہیں؟ قراۃ العین نے تبصرہ کیا کہ عرفان صدیقی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان 16 ماہ کا برڈن اکیلے نواز لیگ نہیں اٹھائے گی۔۔پی پی ،ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف سمیت درجن بھر جماعتیں برابر کی حصے دار ہیں۔۔۔۔ میاں شریف نواز شریف کے باپ تھے لیکن نواز شریف ان کے بیٹے نہیں تھے ! عرفان صدیقی ۔۔۔ صبیح کاظمی نے کہا کہ لو جی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کا آغاز شروع ہوچکا ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے اس پر کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ بینک اکاونٹ میرا ہے لیکن اس میں جو رقم ٹرانسفر ہوتی رہی اس کا مجھے علم نہیں صدیق جان نے اس پر کہا کہ اگر حکومت ن لیگ کی نہیں تھی تو پھر کس کی تھی؟ عوام کس سے اس تباہی کی جواب طلبی کرے؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 90 دن میں انتخابات کروانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پارٹی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ آئين کے تحت 90 دن میں انتخابات ہونا ہیں،ا نتخابات 90دن سے آگے گئے تو پاکستان سنگین بحران سے دوچار ہوسکتا ہے، آئین میں حلقہ بندیوں کا ذکر نہیں ہے پیپلزپارٹی کے اس مطالبہ پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے پیپلزپارٹی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے عوامی ہمدریاں سمیٹنے کی کوشش قرار دیا، انکا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو آج 90 دن میں الیکشن یادآرہے ہیں اس وقت کہاں تھی جب تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑیں اور الیکشن کا مطالبہ کیا؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو اب سیریس نہیں لینا چاہئے جب سندھ انہیں ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے تو انہیں الیکشن یاد آگیا۔ اس پر عامر خاکوانی نے ردعمل دیا کہ جو کچھ اب ہو رہا ہے اور جو اگلے چھ آٹھ ماہ میں ہوگا، اس کا سب سکرپٹ پہلے سے لکھ کر پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کو دکھا، پڑھا دیا گیا۔ وہ سب اس پر راضی ہیں۔ اس لئے اب ان میں سے کوئی بھی جماعت کوئی نیا مطالبہ کر کے الگ نظرآنے کی کوشش کرے تو اسے سیریس نہ لیں۔ یہ ووٹ لینے کے حیلے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ کیا واقعی پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے کہا ہے کہ آرمی ترمیمی ایکٹ اور سپیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ قانون نہیں بنے ؟ پی پی پی کیا سوچ رہ ہے؟ دبائو بڑھانے کی کوئی کوشش یا پھر عوامی حمایت لینےکی ایک ٹرائی ؟ صحافی امیر عباس نے ردعمل دیا کہ سولہ ماہ اقتدار کا بھرپور مزہ لے کر پیپلز پارٹی اب ایک بار پھر نظریاتی، آئینی، جمہوری اور فلسفی پارٹی بن گئی ہے۔ الیکشن سے لیکر مَردم شماری تک ہر معاملے پر “یوٹرن” شروع ہو گئے ہیں۔ جو جماعت بنیادی جمہوری اور آئینی اصولوں پر بار بار سمجھوتہ کرے چاہے ن لیگ ہو، تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی ، عوام کو ایسی کسی بھی جماعت کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ عوام نے سیاست کا ہر رنگ دیکھ لیا ہے، اب طے کر لیں کہ آپ شخصیات یا جماعتوں کے بجائے آفاقی اصولوں کیساتھ کھڑے ہونگے اعزازسید نے تبصرہ کیا کہ پیپلز پارٹی کےسابق وزیراعلی مراد علی شاہ نے مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کے حق میں ووٹ دیا یہ جانتے ہوئے کہ اس سے انتخابات تاخیر کا شکار ہونگے۔ اب پیپلزپارٹی اپنے وزیراعلی کے ہمراہ اپنے ہی فیصلے سے مکر گئی, یہ منافقت نہیں تو اور کیاہے؟ زبیر انجم نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اب90دن میں الیکشن کامطالبہ کرنےکا کوئی اصولی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں پنجاب اور پختونخوا کے الیکشن کے معاملے میں خود آئین پامال کر کی ہیں، اس لیئے اب آرام سے بیٹھیں، سرکاری کرپشن کا میٹر کچھ ماہ اور ممکن ہے کہ سال تک بند رہے گا ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اچھا بچہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے. عوام کیسے بھول سکتی ہے کہ پچھلے سولہ ماہ میں کئے گئے ہر ظلم میں پیپلز پارٹی برابر کی شریک تھی. جتنی مرضی برینڈنگ کر لو، عوام کل بھی خان کے ساتھ کھڑی تھی اور کھڑی رہے گی. ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ کل سے پیپلزپارٹی آئین جمہوریت کا ورد کرتی نظر آئے گی اور ہاں اب پھر سے یہ گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے والی جگتیں بھی ماریں گے ۔ یاد رہے۔
ٹک ٹاک پر آج کل عمران خان کے حق میں ایک منفرد کمپین چل رہی ہے جس کے پس منظر میں بتایا گیا ہے کہ یہ سال 2050 یا 2060 چل رہا ہے، اس ویڈیو دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے بچوں کیساتھ کچراچن رہے ہیں اور ایک بچےکو کچرےسے ایک تصویر ملتی ہے۔ بچہ تصویر اپنے باپ کو دکھاکرکہتا ہے کہ بابا یہ کون ہے؟ اس پر باپ بچے سے تصویر لیتاہے اور اس پر لگا کیچڑ ہاتھ سے صاف کرتا ہے تو یہ تصویر عمران خان کی ہوتی ہے جو آج کل اٹک جیل میں قید ہیں۔ باپ تصویر کو دیکھ کر دکھی ہوجاتا ہے اور دکھی بھری نظروں سے اپنے بچے کو دیکھتا ہے،باقی کچرا چننے والے ساتھی بھی تصویر کو دیکھتے رہتے ہیں۔ باپ کافی دیر تصویر کو دکھی نظروں سے دیکھتا ہے اور اسکے بعد تصویر کو سینے سے لگاکر آبدیدہ ہوتا ہے اور پھر تصویر کو اپنے تھیلے میں ڈال کر بچے کو لیکر کمزور قدموں سے چلناشروع ہوجاتاہے۔ یہ کمپین ہارون کلیم نامی ایک ٹک ٹاکر نے شروع کی تھی جو عمومی طور پر مزاحیہ ویڈیو بناتاہے۔ اس کمپین کا آئیڈیا یہ تھا کہ 2050 یا 2060 میں جب عمران خان نہیں ہوگا، قوم کا مستقبل کوڑاکرکٹ چن رہا ہوگا ، ان بچوں کو یہ پتہ نہیں ہوگا کہ عمران خان کون تھا اور وہ اپنے والدین سےسوال کریں گے کہ یہ شخص کون تھا اور والدین کے پاس سوائے دکھی ہونے اور رونے دھونے کے کوئی جواب نہیں ہوگا۔ اس پر مختلف ٹک ٹاکرز نے ویڈیوز بنائی ہیں اور ہر ایک نے کوشش کی ہے کہ خوب سے خوب تر ویڈیوز بنائیں۔ کسی ٹک ٹاکر نے عمران خان کی یادگار تقریر یا گرفتاری کی ویڈیوکاشاٹ اپنی ویڈیو میں ایڈ کیا ہے تو کسی نے آخر میں پیاز،مرچ کیساتھ روٹی کھاتے ہوئے عمران خان کی تصویر دیکھ کر روتے دکھایا ہے۔ ان ٹاک ٹاک ویڈیوز کولاکھوں افراد نے شئیر کیا جبکہ لائیک اوردیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

Back
Top