سوشل میڈیا کی خبریں

گورنر پنجاب کامران ٹیسوری کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے رہنے والو! اگر آپکو میرا ہئیر کٹ اچھا لگ رہا ہے تو پھر آپ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ میں نے یہ بال کہاں سے کٹوائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ نے بھی ایسے بال کٹوانے ہیں تو آپ چلے جائیے شعیب سیلون پہ اور شعیب وہاں موجود ہوگا جس کی بہت ساری برانچز ہیں۔ گورنرسندھ کی اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے کسی نے اسے اپنے کسی نائی دوست کی پروموشن قراردیا توکسی نے کہا کہ شاید یہ نائی گورنرسندھ کابزنس پارٹنر ہے، کسی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کیسے کیسے نمونے ہمارے سروں پر بٹھادئیے ہیں۔ کسی نے کہا کہ عوام بجلی کے بلز جلارہے ہیں اور ایک صوبے کا گورنر مہنگی ہئیرکٹنگ کی پروموشن کرنے پر لگا ہوا ہے۔ صدیق جان نے سوال کیا کہ کراچی میں شعیب سیلون کہاں پر ہے؟ جہاں سے کامران ٹیسوری صاحب نے کٹنگ کرائی ہے؟ صدیق جان کی ٹویٹ پر وسیم نے جواب دیا کہ صدیق بھائی ۔۔ میرا نائی بھی بہت زبردست کاریگر ہے ۔۔ پیسے بھی مناسب لیتا ہے ۔۔ اس غریب کی بھی مشہوری کروانی ہے۔۔ گورنر صاحب کتنے پیسوں میں ایک پروموشن کر دیں گے؟ نادربلوچ نے تبصرہ کیا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کراچی کے عوام کو غربت کا خاتمہ، زائد بلوں سے چھٹکارہ اور ترقی کا اصل راز بتا دیا یے، اہلیان کراچی فوری ان برانچز سے رجوع کریں عمر ظفر کا کہنا تھا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو کوئی بتائے کہ گورنر کے عہدے اور ایک انفلوئنسر میں فرق ہوتا ہے۔ حجام کی مشہوری کرنے والے صاحب کو لگانے والوں نے قوم کی حجامت کا کیا خوب انتظام کیا ہے۔ شاہد نے کہا کہ مہنگائی نے عوام کے بال نوچ ڈالے۔۔ بجلی کے بل کے پیسے کہاں سے آئیں؟ سوچتے سوچتے۔۔۔عوام گنجی ہوگئی ۔۔لیکن یہ گورنر سندھ کہتا ہے کہ "میرا ہیئر اسٹائل اچھا لگا ہے تو شعیب سیلون جاؤ" دیگر سوشل میڈیا صارفین نے اس پر طنزیہ تبصرے کئے اور گورنر سندھ کو تنقید کا نشانہ بنایا
ملک بھر کے عوام بجلی سے تنگ ہیں، روز بروز بجلی کے بڑھتے داموں نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، بجلی کے بھاری بلز سے لوگوں کا صبر جواب دے گیا، عوام نے اشتعال میں آکر بلز جلانا شروع کردیئے، آزاد کشمیر میں مساجد میں اعلانات کئے جانے لگے، صحافیوں، سائنسدانوں اور سوشل میڈیا صارفین بھی میدان میں آگئے۔ ڈاکٹر آصف کرمانی نے لکھا بجلی کے بھاری بل عوام پر قیامت ڈھا رہے ہیں - عوام کے صبر کو مت چیلنج کریں پلیز - لوگوں کو سانس لینے دیں۔ ندیم افضل چن نے لکھا بجلی کے بھاری بلوں پر لوگوں کا اجتجاج آہستہ آہستہ شروع ھو گیا ھے اور یہ بڑھ بھی سکتا ہے۔ ملیحہ ہاشمی نے لکھا آزاد کشمیر سمیت ملک کے مختلف حصوں میں عوام نے بجلی اور گیس کے بےانتہا مہنگے بل جلانے شروع کر دیے،اسحاق ڈار اور ان کو زبردستی عوام پر مسلط کرنے والوں کا بہت شکریہ۔ اسد اللہ خان نے لکھا بجلی کی قیمتیں بڑھانے والوں کو اندازہ نہیں کہ وہ عوام کو کیا قدم اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں. پانچ سو کی دہاڑی کمانے والا 12 ہزار کا بل کہاں دے دے گا؟کہیں سول نافرمانی ہی شروع نہ ہو جائے۔ عدنان عادل نے لکھا بجلی کی قیمتیں بڑھانے والوں کو اندازہ نہیں کہ وہ عوام کو کیا قدم اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں. پانچ سو کی دہاڑی کمانے والا 12 ہزار کا بل کہاں دے دے گا؟کہیں سول نافرمانی ہی شروع نہ ہو جائے۔ احمد جنجوعہ نے لکھا ایک ہی بل میں 6 قسم کے ٹیکس عوام پر ظلم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، صرف 5 مرلہ بجلی بل میں 12700 روپے ٹیکس کوئی عوامی لیڈر ہوتا تو عوام کے لئے آواز اٹھاتا اور جو عوامی لیڈر ہے اسے الیکشن کی دوڑ سے باہر کرتے کرتے، عوام کو بے گھر کرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ مبشر زیدی نے لکھا بجلی کا نیا بل کانسٹیبل شاہد کو نا بھیجنے کا فیصلہ، مقدس فاروق اعوان نے لکھا کیا یہ بات سچ ہے کہ اہم ترین اجلاس میں میں طویل غور و فکر کے بعد حکومت نے کانسٹیبل شاہد کو بجلی کا اگلا بل نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ایک بار پھر سوشل میڈیا پر چھاگئے،ٹوئٹر پر لیٹر ٹو عمران خان ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، سوشل میڈیا صارفین اپنے ہاتھ سے خط لکھ کر شئیر کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے آفیشل پیج پر لکھا گیا پیارے پاکستانی فیملی،ہم نے عمران خان کو خط لکھنا شروع کر دیا، خط میں اس بات کا اظہار کیا جارہاہے کہ ہم انہیں کتنا سراہتے ہیں اور ان کے جیل جانے پر کیسا محسوس کررہے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کا خط اس کے ساتھ شیئر کریں تو اس ٹویٹ کو ٹویٹ کرکے اور استعمال کرتے ہوئے خط کی تصویر شیئر کریں۔ اس ٹوئٹ کے بعد سوشل میڈیا پر عمران خان کے نام خط لکھنے کی مہم چل پڑی،سینیٹر ڈاکٹر زرقہ تیمور نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے نام خط میں لکھا امید ہے آپ کا حوصلہ پہلے سے زیادہ بھی زیادہ بلند ہوگا، زرقہ نے دعائیں بھی دیں۔ یار محمد خان نیازی نے ٹویٹ میں خط شیئر کرتے ہوئے عمران خان کو سراہا اور کہا اپنے عظیم لیڈر عمران خان کے نام خط لکھا ہے، یقین جانیں عمران خان کی پاکستان کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر کرنے کیلئے ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہے،آج عمران خان کو دنیا قیدی نمبر 804 سے جانتی ہے. لیکن بہت جلد دنیا اسے دوبارہ وزیراعظم پاکستان کے نام سے جانے گی۔ ڈاکٹر آسیہ نے خط شیئر کرتے ہوئے لکھا پاکستان کی عوام، خاص کر نوجوانوں کا چیئرمین عمران خان کے ساتھ اظہار محبت۔ آپ بھی اپنے قائد کے نام خط لکھیں اور اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ محمد آئی ایم ود خان نے خط شیئر کیا اور لکھا ہم سب نہ ڈرے ہیں نہ گھبرائے ہیں ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں ہمارے شفیق باپ جیسے لیڈر نے یہی سکھایا ہے۔ ہم کیوں ڈریں جبکہ ہم حق کے ساتھ ہیں۔ آپ جلد واپس آئیں گے یہ میرا ایمان ہے۔ دیگر صارفین کی جانب سے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے نام خطوط میں ان سے محبت کا اظہار کیا جارہا ہے، عمران خان کی جلد واپسی کید عائیں بھی کی جارہی ہیں، چیئرمین تحریک انصاف توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہیں، جبکہ سائفر کیس میں بھی ان کی گرفتاری دی جاچکی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کی امریکی سفیر سے ملاقات اور صدر مملکت کو انکار، سوشل میڈیا صارف برہم۔۔سربراہ مملکت سے انتخابات پر مشاورت نہیں ہو سکتی لیکن امریکی سفیر سے ہو سکتی ہے: سینئر صحافی صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کی طرف سے ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھ کر ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے صدر مملکت کا خط موصول ہونے کے بعد خط کا جائزہ لینے کے بعد جوابی خط میں ملاقات سے انکار کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ملاقات کی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے صدر مملکت سے ملاقات کرنے سے انکار اور امریکی سفیر سے ملاقات کے حوالے سے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: انہوں نے اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ کے حکم پر کے پی کے اور پنجاب میں بھی انتخابات نہیں کروائے۔ ایک سوشل میڈیا صارف ڈاکٹر شہلا خان نے لکھا کہ: چیف الیکشن کمشنر امریکی سفیر سے کیوں ملاقاتیں کر رہے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو امریکی اشاروں پر ناچ رہے ہیں؟ سینئر صحافی ملیحہ ہاشمی نے ردعمل دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: امریکی سفیر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کریں گے، انہیں شرم آگئی لیکن الیکشن کمیشن کے تاثرات کا ابھی تک نہیں پتا لگا کہ انہیں شرمندگی بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ عبدالغفار ایڈووکیٹ نے لکھا کہ: صدر مملکت سے ملاقات کیلئے جانے پر اجلاس طلب کیا گیا لیکن فیصلہ امریکی سفیر سے ملاقات کا کر لیا۔ میر محمد علی خان نے لکھا کہ: چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے امریکی سفیر نے کیوں اور کس حیثیت میں ملاقات کی ہے؟ ہمارے ملک کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ سینئر صحافی خالد جمیل سے الیکشن کمیشن کی طرف سے صدر مملکت کو لکھے گئے جوابی خط کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: سربراہ مملکت سے انتخابات پر مشاورت نہیں ہو سکتی لیکن امریکی سفیر سے ہو سکتی ہے۔ رہنما پاکستان تحریک انصاف سندھ حلیم عادل شیخ نے ردعمل میں لکھا کہ: ملک کے صدر سے ملاقات نہیں ہو سکتی لیکن امریکی سفیر سے ملاقات ہو گئی، یہ کیا طریقہ کار ہے؟ ایک صارف نے لکھا کہ: صدر مملکت سے ملاقات سے انکار لیکن امریکی سفیر سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
سینئر صحافی نے صدارتی ایوارڈ یافتہ خاتون صحافی کے جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا۔۔عورت ہمیشہ جھوٹ بولتی رہتی ہے اور بعد میں شرمندہ بھی نہیں ہوتی: سوشل میڈیا صارف سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی خاتون صحافی شمع جونیجو کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا۔ شمع جونیجو کو ماضی میں ٹی وی ڈراموں میں اداکاری بھی کر چکی ہیں اور ناکام ثابت ہوئی تھیں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے کیس کی سماعت کے حوالے سے ایک ٹویٹ کیا جس پر سینئر صحافی ثاقب بشیر نے انہیں آئینہ دکھا دیا۔ شمع جونیجونے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: آج پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیلوں کی طرف سے روسٹرم پر ایسا دھاوا بولا گیا کہ دو سے تین گھنٹے تک کیس کی سماعت ہی شروع نہیں ہو سکی۔ ججوں کو ہراساں کرنے کا یہ ان کا پُرانا طریقۂ واردات ہے! ثاقب بشیر نے شمع جونیجر کے ٹویٹر پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: میں بھی آج سارا دن ہائیکورٹ میں ہی تھا اور کیس کی سماعت کی کوریج بھی کی لیکن ایسی چیز مجھے تو کہیں نظر نہیں آئی۔ کیس کی سماعت میں نہ تو تاخیر ہوئی، کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے لیکن ہم نے آج کیس کی سماعت کے دوران ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ شمع جونیجو کا جھوٹ سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارف بھی ان پر برس پڑے۔ سینئر صحافی شاہد عباسی نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: ہم اب اپنی پسندیدہ انفارمیشن کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ سارا پراپیگنڈا لندن سے کیا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ عورت ہمیشہ جھوٹ بولتی رہتی ہے اور بعد میں شرمندہ بھی نہیں ہوتی۔ ایک صارف نے لکھا کہ: اس صحافی کو بھی ستارہ امتیاز سے نواز دیا گیا جسے کیس کی سماعت بارے کچھ پتہ نہیں، کیا یہ صحافت ہے؟ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ انتہائی بے شرم لوگ ہیں، بہت سے لوگوں سے اس کے جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا لیکن ابھی بھی اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ نہیں کیا! ایک صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ: شمع جونیجو کو ایوارڈ مل چکا ہے، آپ ان سے رپورٹنگ کرنا سیکھیں!
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے آج ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جیل میں چئیرمین پی ٹی آئی کی حالت زار پر بھی حکومت سے جواب لیں گے، انہوں نے استفسار کیا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو کس حالت میں رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر مریم نواز آگ بگولہ ہوگئیں اور کہا کہ چیف جسٹس صاحب! جب نواز شریف کو جھوٹے مقدمے میں بغیر کسی قصور کے اتنی سخت سزائیں سنائی گئی تھیں،آپ بھی شامل تھے۔کیا اس وقت اس طرح کا کوئی سوال آپ نے پوچھا تھا؟یا یہ سب آپ کو عمران کے لیے یاد آتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلی بار آپ نے توشہ خانہ چور کو ریسٹ ہاؤس شفٹ کیا تھا،اس بار ہوٹل کیسا رہے گا؟ مریم نواز نے مزید کہا کہ جس حالت میں چوروں کو رکھا جاتا ہے، اس سے بہت بہتر حالت میں رکھا گیا ہے۔یہ نواز شریف کی طرح انتقام پر مبنی سیاسی مقدمہ نہیں ہے، یہاں چوری ثبوتوں کے ساتھ پکڑی گئی ہے،مہینوں صفائی کے متعدد مواقع دیے گئے مگر بندیال صاحب کا لاڈلا ان کی ناک کے نیچے عدالت سے بھاگتا رہا۔ تب کیوں نا بولے؟ ایک اور ٹوئٹر پیغام میں مریم نوازنے کہا کہ قانون اور انصاف کے چہرے کو ساس اور بچوں کی خاطر مسخ کرنے پر عمر عطا بندیال صاحب اپنے لیے تاریخی بدنامی ساتھ لیے جا رہے ہیں۔ اس کا جواب ان کو دینا پڑے گا یا پھر ثاقب نثار کی طرح دنیا سے منہ چھپا کر ساری زندگی گزارنی پڑے گی۔ اس پر حماداظہر نے جوابد یا کہ محترمہ، آپ کو یاد دلاتا چلوں کے آپ کے والد گرامی سزا یافتہ مجرم ہونے کے باوجود اپنی اے کلاس جیل سے لندن فرار ہوئے۔ ان کو لندن جانے دینا ہی پاکستان کی عدالتی تاریخ کی سب سے بڑی رعایت تھی۔ پہلے انھیں واپس لے آئیں پھر پھوپھیوں والے طعنے مارنا۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کے ملزم کا کیس لڑنیوالے وکیل میاں داؤد نے ایک ٹویٹ کیا اور جج ہمایوں دلاور کی تصویر شئیر کرکے اسے شہزادہ قرار دیا۔ میاں داود نے لکھا کہ شہزادہجناب ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور صاحب نے برطانیہ میں جوڈیشل کانفرنس مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں اس پر ثاقب بشیر نے جواب دیتے ہوئے طنز کیا کہ شہزادے کو چاہیے تھا کیس کا فیصلہ کرتے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے لیکن "دائرہ اختیار کے بنیادی سوال" کا فیصلہ کئے بغیر نقائص سے بھرپور کمزور حتمی فیصلہ دیا اور اگر اگلے عدالتی فورم پر آپ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے تو یہ بھی آپ کے لیے مائنس کارکردگی ہے کورٹ رپورٹر فیض محمد نے لکھا کہ شہزادے کا دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ اگلے فورم نے دوبار کالعدم قرار دیا اس کے باوجود جناب نے نہ صرف فیصلہ دیا بلکہ سزا بھی سنا دی۔ میں سمجھتا ہوں اس کمزور فیصلے پر عمران خان کو جج صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے فہیم اختر نے تبصرہ کیا کہ 30 منٹ میں 30 صفحات یہ ویسے لکھے یا لکھوا دے اور پروف ریڈ بھی کرلے تو ثاقب صاحب میں بھی ہمایوں دلاور کو شہزادہ کہوں گا۔۔۔
کیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے تحریک انصاف کورکمیٹی نے عمران خان کی مشکلات بڑھادیں؟صحافی سہیل رشید کا اہم تجزیہ صحافی سہیل رشید نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں لکھا ہے کہ عمران خان کی مشکلات میں کیسے ان کی اپنی کور کمیٹی اور اپنے وکلا نے اضافہ کر دیا ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی سزا معطلی پر دلائل سننے کیلئے کل تاتیخ مقرر کر رکھی ہے مگر اس سے پہلے عمران خان کی جانب سے ہی سردار لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی ہے سہیل رشید کے مطابق درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو عمران خان کے کیسز سننے سے فوری روک دیا جائے اور کیسز کہیں اور منتقل کئے جائیں، نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ کل جسٹس عامر فاروق یہ کہہ کر اپیل سننے سے انکار کریں کہ اب معاملہ سپریم کورٹ ہے ، نتیجے میں خان صاحب اندر ہی رہیں گے انہوں نےمزید کہا کہ پی ٹی آئی کور کمیٹی نے کل ایک غیر ضروری اعلامیہ جاری کیا۔ کل عمران خان کے وکیل خواجہ حارث بھی عدالت نہیں آئے تھے سو بڑی پیشرفت کا امکان تھا نہیں، کل الیکشن کمیشن نے دو ہفتے کا التوا مانگا مگر ہائیکورٹ نے صرف ایک دن میں دلائل کا کہا۔ صحافی کے مطابق عدالت سزا معطلی کی طرف جا رہی تھی مگرکور کمیٹی اعلامیے میں بظاہر جان بوجھ کر ایسے الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو زیر التوا کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نظر آتے ہیں اور ان پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو کر اصل اپیلیں کھٹائی میں پڑ سکتی ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے آفیشل سیکرٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہ کرنے کے ٹویٹ نے سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان برائے معیشت و خزانہ مزمل اسلم نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ٹویٹر پیغام پر ہونیوالے پراپیگنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے استحکام پاکستان پارٹی کے کارکن ڈاکٹر فرحان ورک، سینئر صحافی غریدہ فاروقی کا ٹویٹر پیغام اور عاصمہ شیرازی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: عاصمہ شیرازی کی گفتگو کو ان ٹویٹس کے ساتھ ملا کر سنیں! عاصمہ شیرازی کا اپنے وی لاگ میں کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر صدر مملکت کی طرف سے اتنے دن گزرنے کے بعد اعتراض کیا گیا کہ میں اس بل سے متفق نہیں ہوں ۔ صدر مملکت نے اگر وزارت قانون کو بل پر اعتراض لگا کر بھیجا ہوتا تو پھر یہ قانون نہیں بن سکتا تھا۔ صدر مملکت کو یقین ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ قانون بن اسی لیے ٹویٹ میں متاثر ہونے والوں سے معافی طلب کی۔ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو بھیجے ہوئے بھی 12 دن گزر چکے ہیں اور اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لگایا گیا اس لیے وہ بھی قانون بن چکا ہے۔ صدر مملکت پر کل سے پی ٹی آئی کی طرف سے ان پر تنقید کی جا رہی تھی لیکن انہوں نے ٹویٹ کرنے میں دیر کر دی ہے۔ صدر مملکت نے اپنی آئینی کردار سے انحراف کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ میں نے اپنے عملے کو کہا تھا کہ بل واپس بھیج دیں تو کیا اس پر کوئی نوٹ لکھا تھا؟ کسی بھی بل پر اعتراض لگا کر واپس بھیجنے پر وہ ٹویٹ کرتے رہے ہیں جبکہ اس معاملے میں ایسا نہیں کیا۔ صدر مملکت بل پر اعتراض کی صورت میں تجویز کیے گئے نوٹ کو بھی سامنے لا سکتے تھے، اب بھی وہ بتا سکتے ہیں کہ اگر بل پر کچھ لکھ کر بھیجا تھا تو کیا لکھا تھا۔ غریدہ فاروقی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ: صدر مملکت کا ٹویٹ کیا آئین کے مطابق ہے یا پاکستانی ریاست کو دنیا میں بدنام کرنے کی پری پلانٹڈ سازش؟ صدر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر میرے دستخط موجود نہیں اور میرے سٹاف نے میرے کہنے کے باوجود بل واپس نہیں کیا۔ اس پر پی ٹی آئی کے مختلف اکاونٹس سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ صدر کے دستخط کسی اور نے کر دیئے ہیں، یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ایسے ہی ایک ٹویٹ میں فرحان ورک نے بھی صدر مملکت کی ٹویٹ کو سازش قرار دے دیا کیا جس پر سوشل میڈیا صارفین شدید تنقید کر رہے ہیں۔ایک صارف نے ردعمل میں لکھا کہ: چابی کے کھلونے، انھیں ایک پیغام دِیا جاتا ہے جسے کاپی کر کے پیسٹ کر دیتے ہیں ۔ ایک صارف نے لکھا کہ: نکل کرنے کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے! ایک صارف نے شدید ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ:عاصمہ شیرازی گھٹیا بے غیرت عورت ہےجوشریف کہلانے کےقابل نہیں، جب صدرصاحب نے دستخط نہیں کیا تو کل کمپنی نےاپنے ٹائوٹ اینکر کویہ پیغام دیاکہ دنیا میں پھیلا دو صدر نے دستخط کر دیئے ہیں اور جیسے ہی صدر صاحب کو ان کی سازش کاپتہ چلافوراٹوئٹ کر کے غداروں کاپول کھول کر ننگا کردیا، اب شکست پرماتم! ایک صارف نے لکھا کہ: اس کا مطلب یہ وٹس آپ گروپ میں شیئر کیا گیا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: ایموجی تو بدل لیتے! ایک صارف نے لکھا کہ: ظلم کر لو مگر آواز نہ نکالو کیونکہ ملک کا وقار خراب ہو گا، کرپشن کر لو مگر خاموشی سے کیونکہ ملک کا وقار خراب ہو گا، واہ کیا منطق ہے! ایک صارف نے لکھا کہ:ریاست اپنی عوام پر تشدد، اپنی عوام کے گھر توڑ کر، اپنی خواتین کی تزلیل، سند،آئین کی پامالیوں، نانصافیوں،عدلیہ کے احکام کی بے توقیری،کرپشن، ڈوبتی معیشت اور بین الاقوامی کشکولوں سے بدنام نہیں ہوتی؟مگر صدر مملکت اپنے ساتھ ہوئی بے انصافی و لاقانونیت پر ٹویٹ کر دیں تو بدنام ہو جاتی ہے؟ ایک صارف نے لکھا کہ: اور سائفر سے تو پاکستان کا بہت نام روشن ہوا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: بھائی جان یہ سب بہت بڑے، بہت ہی بڑے بےغیرت لوگ ہیں، صحافی کے نام پر بدنما داغ ہے یہ، پاکستان کے غداروں میں سے ہیں! یاد رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا تھا کہ: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت میں واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے! انہوں نے مزید لکھا کہ: میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا، اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاء اللہ معاف کر دے گا، میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے!
نامور اینکر پرسن اقرار الحسن نے ٹویٹ کیا عمران خان لنگر خانے میں غرباء کے ساتھ کھانا کھانے کی تصویریں بنوائیں، پھلوں کی ریڑھیوں کا وزٹ کرتے ہوئے ویڈیوز ریکارڈ کروائیں، ابوبکر کی قمیض پر دستخط کریں، بچوں سے اپنے قصیدے سُنتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز بنوائیں، وہ سب جائز ہے اور ایک اقلیت سے اظہار یکجہتی شعبدہ بازی؟؟ اقرار الحسن کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل دے دیا، وقاص اعوان نے لکھا ماشاءاللہ کیا سوچ ہے عمران خان ایک سیاسی لیڈر تھا جو عوام کے ووٹوں سے آیا تھا،جبکہ چیف جسٹس ایک ادارے کے سربراہ انکا یہ عمل انتظامی معاملات میں مداخلت ہے۔ احمد وڑائچ نے لکھا عمران خان سیاستدان ہے، پبلک میں رہنا، عوام سے میل جول ملاقاتیں دوسرے سیاستدانوں کی طرح اس کا بنیادی کام ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جج ہیں، مہینے کا تقریباً 18 لاکھ روپیہ تنخواہ لیتے ہیں، حلف اٹھایا ہے عوام کو انصاف دینے کا، 4 ماہ سے ایک بھی کیس نہیں سنا، جج نہیں فیصلے بولتے ہیں رحیق عباسی نے لکھا شاہ صاحب، عمران خان ایک سیاستدان ہیں،کچھ کام سیاستدانوں کے کرنے ہوتے ہیں ججوں کے نہیں،ججوں کا کام فیصلے دینا ہے دورے کرنا نہیں۔ فرحان منہاج نے لکھا اقرار الحسن اور نچلی سطح کا صحافی ہے شہرت کی وجہ چھاپہ مار پروگرام ہے ـ اسکو ایک سیاسی لیڈر اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں معلوم،ثاقب نثار کے دوروں پر معترض قاضی فائز عیسٰی خود دوروں پر نکلا ہوا ہے۔ رانا عمران سلیم نے لکھا ایک سیاستدان اور ایک جج کا کنڈکٹ ایسا جیسا ھونا چاہیے ؟ مراد رفیق نے لکھا کسی مہان شخص نے کہا تھا کہ ایک تو یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں اور نہ کوشش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ کا دورہ کیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ میں کرسچین کالونی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سانحہ میں متاثر مکانات اورگرجا گھروں کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ کے متاثرین سے بھی ملاقات کی جب کہ اس موقع پر ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی کمشنر پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعےکو 3 دن گزرگئے لیکن متاثرہ گلیاں صاف نہیں کی گئیں،نامزد چیف جسٹس نے ڈپٹی کمشنر کو کرسچین کالونی کی گلیاں فوری صاف کرانے کی بھی ہدایات دیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دانش اسکول میں متاثرین سے ملاقات کی جس کے بعد وہ روانہ ہوگئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہےکہ گرجا گھروں پر کوئی حملہ کرے تو مسلمانوں پر فرض ہےکہ جہاد کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑاوالہ میں عیسیٰ نگری کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات کی جب کہ انہوں نے مختلف گھروں کا بھی معائنہ کیا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متاثرین کی نقد مالی امداد کی اور ان کی اہلیہ نے متاثرین میں راشن تقسیم کیا۔ اس موقع پر وہ پولیس افسران کی سرزنش کرتے بھی نظر آئے ۔ اس موقع پر انہوں نے پولیس افسران سے سوال کیا کہ کیا تحصیل کے سب سے بڑے پولیس آفیسر کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ ایس پی کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا ؟آپ کےخیال میں درست تفتیش ہو رہی ہے؟ کیا پولیس والے خود سے کہیں گے کہ ہم غفلت میں تھے؟ قاضی فائز عیسیٰ کے اس دورے نہ صرف انکے مخالف بلکہ حامیوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے شوبازی قرار دیدیا ثاقب بشیر نے تبصرہ کیا کہ پہلے میں نے سوچا شاید کوئی عدالتی کاروائی چل رہی پولیس والا عدالت کے سامنے کھڑا جج کی سرزنش سن رہا ہے پھر پتہ چلا نہیں یہ جڑانوالہ موقع پر جس طرح IG یا کوئی سیاستدان پولیس والوں کو سرزنش کرتا ہے نامزد چیف جسٹس نے بھی وہی کام کیا ۔۔ بہرحال کہنا یہ تھا یہ کوئی اچھی شروعات نہیں رحیق عباسی نے لکھا کہ یہ وہ ہی قاضی فائز عیسی صاحب ہیں جن کو جسٹس بندیال کے پاس سوموٹو اختیار پر اعتراض تھا؟ جنہوں نے اس پر درجنوں خط لکھے۔جسٹس بندیال تو آئینی اختیارات استعمال کرتے تھے۔ یہ صاحب کس اختیار کے تحت پولیس سے سوال جواب کر رہے ہیں۔۔ موقع پر کھڑے ہو کر ہدایات دے رہے ہیں؟؟منافقت کا عروج! محمدعمیر نے لکھا کہ ایسے دوروں اور براہ راست انتظامی امور میں مداخلت کے باعث ثاقب نثار متنازعہ ہوئے،ایک جج کا کام نہیں ہے کہ تفتیش میں مداخلت کرے،عدالتوں کا کام نہیں ہے کہ وہ انتظامی امور یا تفتیش میں مداخلت کرے۔ابھی تو عہدہ نہیں ہے تو یہ حال ہے۔ عمران بھٹی نے کہا کہ یہ تو زاتی وزٹ تھا فائز عیسی صاحب کا امتیاز گل نے تبصرہ کیا کہ کچھ بھی غیر معمولی نہیں۔ تمام طاقتور سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، اپنی جاگیر میں کسی سے بھی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں - وہ خود قانون ہیں۔ بشارت راجہ نے لکھا کہ میں ہمیشہ کہتا اور لکھتا رہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شہرت کی بھوک ہے کبھی کانسٹیبل بن کر گاڑیوں کا چالان کروانا اب جڑانوالہ واقعہ میں پولیس افسر کو بیچ چوراہے کھڑا کر کے سوال و جواب کر رہے ہیں ماضی میں جسٹس ثاقب نثار اور افتخار چوہدری بھی یہی کیا کرتے تھے اسدآفریدی نے کہا کہ تقریباً 18 لاکھ تنخواہ، آسائشیں، عہدہ لیکن عدالت میں بیٹھنا سخت ناپسند۔ شعبدہ بازی کا وقت آیا تو اسلام آباد سے جڑانوالہ پہنچ گئے، جہاں واقع کے وقت مقامی پولیس اور انتظامیہ نہ پہنچ سکی۔ مطیع اللہ جان نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کرلیا گیا۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایف آئی اے نے گرفتار کیا، وہ سائفر کے معاملے میں نامزد تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ شاہ محمودقریشی کی گرفتاری پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا ، انکا کہنا تھا کہ شاہ محمودقریشی کو عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑنے کی سزا مل رہی ہے۔کسی نے کہا کہ اب شاہ محمودقریشی بھی برداشت سے باہر ہوگیا ہے تو کسی نے کہا کہ شاہ محمودقریشی نے پریس کانفرنس پارٹی چھوڑنے کی کرنا تھی لیکن کر کوئی اور دی۔ حامدمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قیدی نمبر 804 کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں صابرشاکر کاکہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی بھی برداشت سے باہر ، گرفتار کرلیا گیا قریشی صاحب نے کل سفارتکاروں کو عمران خان کی جیل میں غیرانسانی سلوک کے حوالے سے آگاہ کیا تھا فرخ حبیب نے ردعمل دیا کہ پارٹی موقف پریس کانفرنس میں بیان کرنے اور گزشتہ دنوں غیر ملکی سفرا کے ناشتہ کی دعوت میں شرکت کی سزا میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ چاہتے ہے جیسے تیسے بھی پارٹی لیڈر شپ کو پابند سلاسل کرکے تمام آوازوں کو خاموش کردیا جائے۔ پاکستان کے آئین میں دیے گے شخصی آزادی کے تحفظ کو ختم کردیا گیا ہے آئین ایک قسم کا معطل ہو گیا ہے عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی اصل وجہ پریس کانفرنس میں عمران خان سے لا تعلقی نہ کرنا اور پارٹی کے ساتھ کھڑا رہنا ہے۔ انہوں نے با آواز بلند کہا عمران خان پارٹی چئیرمین تھا چئیرمین ہے اور چئیرمین رہے گا۔ ساتھ ہی پارٹی کے خلاف حالیہ کریک ڈاون اور خاص طور پر میرے اہل خانہ کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر کھل کر بات کی۔ عثمان ڈار نے مزید کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ اس جرم کی پاداش میں ایک معزز شخص کو حقارت آمیز انداز میں گرفتار کر لیا گیا۔ تباہ کر دیا میرے پاکستان کو ان نفرتوں نے جو اتنی محنت کر کے حاصل کی جا رہی ہیں۔ خدا نہ کرے کبھی یہ نفرتیں انتقام میں بدلیں اور یہ انتقام قدرت لے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔ علی اعوان نے تبصرہ کیا کہ شاہ محمود قریشی کو "غلط "پریس کانفرنس کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ پی ٹی آئی والے صرف ایک پریس کانفرنس کرسکتے ہیں وہ بھی پی ٹی آئی سے لاتعلقی کی۔ نوید نے لکھا کہ آپ کو شاہ محمود قریشی ذاتی طور پر پسند نہیں، یا کسی یوٹیوبر نے آپ کو ان کے خلاف کیا ہے تو یہ جان لیں کہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں گرفتاری اب تک کے بڑے کیس میں پہلی گرفتاری ہے ،FIA کی عمران خان سے تفتیش ، اعظم خان کا بیان اور اب یہ گرفتاری ، یہ بہت گہرا معاملہ ہے وقاص امجد نے لکھا کہ گالیاں ، دھمکیاں ، دھونس سب منظور پشتیں نے دی گرفتاری شاہ محمود قریشی کی ہو گئی شہربانو کا کہنا تھا کہ ایک مخصوص گروپ کتنے دنوں سے شاہ محمود قریشی صاحب کے پیچھے پڑا ہوا تھا ۔۔۔ پتہ نہیں اپ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ آپ کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں بولنا ہی تو جرم ہے ۔۔۔بولو گے تو گرفتار کر لیے جاؤ گے ۔۔عدالتیں چپ ہیں گونگی ہیں عنبرین نے تبصرہ کیا کہ اور اس پریس کانفرنس کے بعد آئین شکن یزیدی غداروں نے شاہ محمود قریشی کو پھر سے اغوا کرا لیا کامران واحد نے لکھا کہ بلے سے مت گھبرائیں ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں اتنا ہی کہنا تھا کہ اس بات پر بھی ٹانگیں کانپ گئی اور شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا۔۔۔ اغربلوچ نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری سے واضح ہے قیدی نمبر 804 ہار نہیں مان رہا عامر خاکوانی نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کی اور نوے دنوں میں الیکشن کرانے کے لئے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا، تھوڑی دیر بعد انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ لگتا ہے شاہ محمود قریشی کے پر بھی کترے جانے مقصود ہیں۔ یہ افسوسناک ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یوں دیوار سے لگانا مناسب نہیں۔ کچھ سپیس تو دیں
گزشتہ روز سابق وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کو گرفتار کرلیا گیا اور انکے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر گمشدگی کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمودقریشی کے خلاف مقدمہ سابق سیکرٹری داخلہ کی مدعیت میں درج کیا گیا جو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔ یوسف نسیم کھوکھر مارچ 2023 میں ریٹارڈ ہوچکے تھے لیکن اب انہیں بحیثیت سیکرٹری داخلہ قرار دیکر مقدمہ درج کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اس پر عدیل راجہ نے تبصرہ کیا کہ مارچ میں ریٹائر ہونے والا بندہ اگست میں حاضر سروس ہو کر ایف آئی آر کیسے کٹوا سکتا ہے؟ یوسف کھوکھر مارچ میں گھر جا چکے تو اگست میں اسکے نام سے ایف آئی آر کیوں؟ اسکا مطلب منصوبہ پہلے سے ہی تیار تھا، پرانے ڈرافٹ کو ایف آئی اے کو پکڑا دیا بونگوں کی طرح! نالائق اور بونگے!! علی اعوان کا کہنا تھا کہ جھوٹے مقدمات بنانے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ توشہ خانہ کا پراپیگنڈا زیادہ دیر نہیں چلے گا، اسی لیے آج یہ سائفر کا مقدمہ سامنے لے آئے۔ جس کے وجود سے ہی انکار کرتے رہے آج اسی سائفر کی گمشدگی کا الزام عمران خان اور ان کی ٹیم پر لگادیا۔ انشاءاللہ کل اس سے بھی پیچھے ہٹو گے اور یہ حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہوگی کہ پی ٹی آئی حکومت ایک سازش کے تحت ختم کی گئی۔ امجد خان نے لکھا رانا ثنا ء اللہ یوسف نسیم کھوکھر کو ان کی ریٹائرمنٹ پر سوینیئر پیش کرتے ہوئے ، پھر اگست میں بطور سیکرٹری داخلہ ان کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے ایسا کیسے ؟ محمد اظہر صدیق نے لکھا کیا یوسف نسیم کھوکھر مارچ 2023 میں ریٹائر نہیں ہو گیا تھا؟ اگر ریٹائر ہو گیا ہے تو ایف آئی اے کی ایف ائی ار میں وہ ابھی تک سیکرٹری داخلہ ہے اور سائفر مقدمے کا مدعی بھی ہے!! مقدمے کی منصوبہ بندی مارچ 2023 سے پہلے کی کی ہوئی تھی اور وہی ڈرافٹ تھما دیا، ایف آئی اے کو جس نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔ ایک صارف نے لکھا یوسف نسیم کھوکھر مارچ 2023 میں ریٹائر ہو چکا ہے،لیکن ایف آئی اے کی ایف ائی ار میں وہ ابھی تک سیکرٹری داخلہ ہے اور سائفر مقدمے کا مدعی بھی ہے،ڈفر نے مقدمے کی منصوبہ بندی مارچ 2023 سے پہلے کی کی ہوئی تھی اور وہی ڈرافٹ تھما دیا، ایف آئی اے کو جس نے پڑھنے کی زحمت کیے بغیر مقدمہ درج کر لیا. احمد وڑائچ نے لکھا یوسف نسیم کھوکھر مارچ میں ریٹائر ہو گئے تھے، لیکن اس ایف آئی آر کے مطابق وہ ابھی "وفاقی سیکرٹری داخلہ ہیں، اور انہوں نے 15 اگست 2023 کو بطور سیکرٹری داخلہ ایف آئی آر درج کرا دی ہے،میرے خیال سے تو اس ایف آئی آر کا یہی نقطہ غلط ہے،
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی سیالکوٹ میں رہائشگاہ، سیکرٹریٹ اور فیکٹری کو گزشتہ رات سیل کر کے ان کے اہل خانہ کو گھر سے نکال دیا گیا۔ عثمان ڈار نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ میری رہائشگاہ، کاروبار، فیکٹری کو سیل کر کر کے میری بوڑھی والدہ، اہل خانہ اور بچوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے سر سے چادریں کھینچنے والوں کو اللہ کے انصاف سے ڈرنا چاہیے، ہم سے آزاد ملک میں جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ عثمان ڈار نے اپنے والدہ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: میری بوڑھی ماں نے آج چیف جسٹس پاکستان سے انصاف کی اپیل کی ہے۔ چیف جسٹس صاحب ایک فریادی ماں اپنے خلاف ہوئے ظلم پر آپ سے انصاف چاہتی ہے۔عثمان ڈار کی والدہ کا ویڈیو بیان وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ سابق سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف پنجاب عثمان سعید بسرا نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ:شکر ہے عثمان ڈار کی ماں بچوں بہنوں بیٹیوں کو صرف انکے گھر سے رات گئے نکال کر سڑک پہ بٹھا کر گھر سیل دیا گیا یہ کون سا کوئی جرم ہے، یہ کون سا کوئی بری بات ہے ! شکر ہے، شکر ہے کسی نے ان کو بکری نہیں کہا ورنہ اس ملک میں دیہاڑی دار میمنے اس ظلم عظیم پہ ہائے بکری، ہائے بکری کرتے سوشل میڈیا پہ نکل آتے! سابق وفاقی وزیر ورہنما پی ٹی آئی اسد عمر نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: سیاست دانوں کو نشانہ بنانا ایک الگ بات ہے لیکن گھر کی عورتوں کو رات کے وقت سڑک پر نکال دینا تو ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار کی نفی ہے۔ جو عثمان ڈار کی والدہ اور گھر کی دوسری خواتین کے ساتھ ہوا وہ انتہائی قابل مذمت ہے! سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: عثمان ڈار کی بزرگ ضعیف والدہ جو میری ماں جیسی ہیں، مجھے ہمیشہ ماں کا پیار دیا اور آج ان کی یہ وڈیو دیکھ کر میرا دل دہل گیا ہے، خون کے آنسو رو رہا ہے! ایک فریادی ماں اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کی متمنی ۔ قصور یہ ہے کہ ان کے بیٹے عثمان ڈار و عمر ڈار عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں! چیف جسٹس صاحب آج عدالت لگانے کا دن تھا اور ان وحشی درندوں کو اپنی عدالت میں بلا کر ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ انہوں نے ایک بزرگ ضعیف عورت کے سر سے چھت کیوں چھین لی، کیوں ان کی اور ان کی بہو بیٹیوں کی عزت کو تار تار کیا ۔ کیوں انہیں بے یار و مددگار سڑک پر لا کے چھوڑ دیا ۔ اس گھر سے نکالا جو ان کے مرحوم شوہر کی ملکیت ہے، عثمان ڈار کی ملکیت نہیں ہے ۔ہم سب ماؤں بہنوں اور بیٹیوں والے ہیں، یہ ظالم ہمارے معاشرے کو کس طرف لے کر جارہے ہیں! سینئر صحافی وتجزیہ نگار ہارون الرشید نے لکھا کہ: عثمان ڈار کے گھر، دفتر اور فیکٹری پہ حملے! ۔ یقین ہی نہیں آیا حالانکہ آج کل کچھ بھی ممکن ہے۔ صدمہ ایسا ہے کہ لفظ کم پڑتے ہیں۔ ہم کتنے گر گئے ہیں، چینل چپ، دانشور اور لیڈرخاموش! خوف گویا ہڈیوں کے گودے تک اتر چکا۔ پکارو اپنے مولا کو پکارو۔ مایوسی تو موت سے بھی بدتر ہے! ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ: حافظ صاحب نے عثمان ڈار کی ماں کو اس کے اپنے گھر سے نکال دیا۔ یہ دیکھ کر ہمیں فلسطینیوں کے دکھ کا احساس ہوگا مگر یہاں اپنے ملک کی کمپنی یہ کر رہی ہے! کیا حال کر دیا میرے پیارے پاکستان کا! افسوس! وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ : کل رات سے عثمان ڈار کی بوڑھی والدہ اور بہو بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا، رات کے 2 بجے بچوں کو سڑک پر لاکھڑا کرنا تکلیف دہ ہے! عثمان ڈار کی فیکٹری سیل ہونے سے اڑھائی ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب حماد اظہر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: گزشتہ رات جو عثمان ڈار کے گھرانے کے ساتھ ہوا، جس طرح ان کی بزرگ والدہ اورخواتین کو گھر سے نکال کر سڑک پر چھوڑ دیا گیا یہ بے شرمی اور ظلم کی بدترین تاریخ لکھی گئی ہے۔ اپنے ہی لوگوں پر جبر کر کے عوام کے دل اور دماغ نہیں جیتے جاتے اور نا ہی عوام کے دلوں سے عمران خان کی محبت کم ہو گی۔ سابق ممبر قومی اسمبلی ورہنما پی ٹی آئی علی محمد خان نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: جب ماں فریاد پہ آجائے تو اس کا مطلب ہے اللّٰہ ناراض ہے! اور انصاف صرف نام کا رہ گیا ہے ! عثمان ڈار صاحب کی والدہ محترمہ کی فریاد سنی جائے اور ان کی داد رسی کی جائے۔ عثمان ڈار کی سیاست اور عمران خان سے ان کی سیاسی وابستگی کی سزا ان کی بزرگ اماں جی اور ان کے معصوم بچوں کو نہ دی جائے۔ سابق وفاقی وزیر ورہنما پی ٹی آئی فرخ حبیب نے لکھا کہ: پہلے چند ماہ قبل عثمان ڈار کی والدہ سمیت ان کی گھر کی خواتین پر مرد پولیس اہلکاروں سے تشدد کروایا گیا اب ان کے کاروبار، رہائش گاہ سمیت دیگر پراپرٹیز کو سیل کرنا انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ پاکستان کو کس پستی میں لے گئے ہیں؟ رہائشی گھر کو سیل کرکے والدہ سمیت گھر کی خواتین کا آدھی رات کو بے گھر اور بے آثرا کرکے ساری اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ لیدر ایکسپورٹ فیکٹری کے اڑھائی ہزار ملازمین بیروزگار کردئیے، ان کے گھروں میں فاقے پڑ جائیں گے، ملک کی برآمدات پہلے ہی کم ہورہی ہیں، مزید کم ہوجائیں گی۔ سینئر صحافی عبدالقادر نے لکھا کہ: بطور معاشرہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ پستی کی کِن انتہاؤں تک پہنچ چکے ہیں۔ عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ ہوئے سلوک پر شرم اور ندامت کے سوا کچھ کہنے کونہیں۔ اللہ کریم اس بوڑھی ماں کو انصاف فراہم کرے۔ آمین! سینئر صحافی ملیحہ ہاشمی نے لکھا کہ: لیگی رہنما حنا پرویز بٹ کو دیکھ کر برطانیہ میں آوازیں کسی گئیں، ہم سب نے کہا کہ یہ نامناسب رویہ ہے۔ کچھ لوگوں نے اتنا احتجاج کیا کہ مجھے لگا کہ ان سے زیادہ خواتین کا کوئی خیرخواہ نہیںلیکن عثمان ڈار کی بزرگ والدہ اور بیوی بچوں کو گھر سے نکال کر سڑک پر لا کھڑا کرنے پر وہی لوگ دوبارہ سے خاموش ہو گئے جیسے پچھلے 16 ماہ سے پی ڈی ایم حکومت کے مظالم پر خاموش رہے۔ اسی طرح ارسلان نامی 13 سالہ بچے کے والد کی پولیس کی دہشت اور ہراسگی سے ہارٹ اٹیک سے جان چلی گئی! ارسلان کی بہنوں کو پولیس جسمانی طور پر ہراساں کرتی رہی، وہاں بھی یہ سب جعلی دانشور خاموش رہے۔پولیس کو کسی نے نہ پوچھا کہ تم لوگ انسان کے بچے ہو یا درندے ہو؟ کل ایک بدزبان پولیس اہلکار کی ویڈیو وائرل ہو گئی تو پولیس نے خود ہی بتا دیا کہ ذہنی توازن درست نہیں۔ باقی سب کا درست ہے جو چادر چار دیواری کا تقدس پامال کر رہے ہیں؟ جو ظلم پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے والے بچوں، بزرگوں، نوجوانوں اور خواتین پر ہوا، اس پر خاموشی کیوں؟ کیا وہ پاکستانی نہیں؟ یا انسان نہیں؟ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ اظہر خان آصف زئی نے لکھا کہ:عثمان ڈار کے گھر کی پردہ دار خواتین اور بچوں کو گھر سے نکال کر سڑک پر چھوڑ دیا گیا ہے! یار اللّہ کے واسطے اتنا ظلم تو مت کرو۔ یار اتنا نفرت پھیلا چکے ہو کہ بعد میں قابو کرنا مشکل ہو جائے گا! سابق صوبائی وزیر حسنین دریشک نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: محسن لغاری صاحب کے والد مرحوم پاک فوج سے ریٹائرڈ کرنل اور انتہائی شریف انسان تھے۔ ان کے خاندان کا فوج سے محبت کا رشتہ ہے۔ پہلے محسن لغاری صاحب کے بیٹے کو اغواء کرکے اغواءکاروں نے تشدد کی آوازیں محسن صاحب کو سنا کر پی ٹی آئی چھوڑنے کو کہا۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ملک بھی چھوڑ دیں گے مگر حاصل کیا ہوا؟ ایک شریف انسان سیاست سے بے دخل ہوگیا، اُسکے اور اُسکے خاندان والوں کے دل میں محبت رہے گی یا نفرت پروان چڑھے گی؟ نیاز جکھڑ صاحب جو کہ بزرگ سیاستدان ہیں کو اغواء کرکے اغواء کاروں نے انکی بہو، بیٹیوں کو اُٹھانے، اُن کی بےعزتی کرنے اور ویڈیوز بنانے کی دھمکی دے کر پی ٹی آئی چھوڑنے کو کہا۔ اُنہوں نے عمران خان کے خلاف بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اب اُنکے خاندان کے بچے بچے کے دل میں محبت رہے گی یا نفرت پیدا ہوگی؟ عثمان ڈار کی فیکٹریاں بند کرکے 2500 سے زائد افراد کو بے روزگار کردیا گیا، اُنکی ماں، بہنوں، بیوی اور بچوں کو رات گئے گھر سے نکال کر سڑک پر چھوڑ دیا گیا۔ ایسا تو ہم نے کبھی سنا نہ دیکھا۔ اناپرستی، خودغرضی اور تکبر میں ہمارے ملک کی روایات، معاشرتی و دینی اقدار اور قوم کی عزت نفس کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ آئین و قانون کی پامالی پر سب خاموش ہیں اور ملک کی تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ روز منظورپشتین نے اسلام آباد میں جلسہ کیا اور پاک فوج کے خلاف ایسی زبان استعمال کی کہ سب نے کانوں کو ہاتھ لگالئے ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا کہ بنگالیوں نے آپکی پتلونیں اتاریں تھیں لیکن ہم بنگالی نہیں اور ہم پٹھان بلوچ آپکی چمڑی اتار لیں گے۔ منظورپشتین کی اس تقریر پر سوشل میڈیا صارفین نے ردعمل دیا کہ جو دانشور 9 مئی کے بعد فوج کی محبت میں مبتلا تھے اب وہ کہاں ہیں؟ یہ دانشور کیوں ستو پی کر سوئے ہوئے ہیں؟ جو لوگ شہبازگل کو عبرت کا نشان بنارہے تھے وہ اب منظورپشتین کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کررہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا یہ سمجھا جائے کہ عمران خان کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اپنے وجود کو خطرہ تھااسلئے انکے حامیوں اور سپورٹرز کے خلاف کاروائی کی؟ رضوان غلیزئی نے اس پر تبصرہ کیا کہ وہ دانشور جو نو مئی کے بعد اچانک پاک فوج کی محبت میں مبتلا ہوگئے تھے کیا انہوں نے پی ٹی ایم کی جلسے میں “دہشتگردی کے پیچھے وردی” کے نعروں کی مذمت کی؟ کورکمانڈر کے گھر کو مقامِ مقدس قرار دینے والے کرنے والی سیاسی جماعتوں کے کسی رہنماء نے کل کے جلسے میں جی ایچ کیو کو دہشتگردوں کا گھر قرار دینے پر کوئی پریس کانفرنس کی؟ پی ڈی ایم حکومت نے افواج سے محبت کے جذبے کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی کہ شاید اس طرح عمران خان گیم سے آؤٹ ہوں اور انکو خالی میدان مل جائے لیکن باقی کاموں کی طرح اس میں بھی بری طرح ناکام ہوئے۔ بُغض سے بھرے جعلی دانشوروں کی منافقت بھی عیاں ہوئی۔ صدیق جان نے کہا کہ اگر پی ٹی ایم اور ریاست کے درمیان تعلقات ٹھیک ہو چکے ہیں، ان کو جلسہ کرنے کی سہولت دی گئی ہے، اگر تحریک لبیک اب حکومت کو کسی ملک کے سفیر کو نکالنے یا پیٹرول کی قیمت کم نہ کرنے پر لانگ مارچ کی دھمکی نہیں دیتی تو ہمیں اس کی تعریف کرنی چاہیے. ورنہ عمران خان کے دور میں ساڑھے 3 برس ٹی ایل پی اور پی ٹی ایم مسلسل حکومت کے لیے مسئلہ رہیں. عمران بھٹی کا کہنا تھا کہ کل اسلام آباد میں پاک فوج کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی جو نعرے بلند کیے گئے اس پر پیراشوٹرز ،نام نہاد دانشور ،نام نہاد اینکرز ستو پی کر کیوں سوئے ہوئے ہیں، انکی صحافتی زمہ داری کہاں کھو گئ ہے، انکی غیرت کہاں چلی گئی ہے،، کیا یہ لوگ پاک فوج کے خلاف اس پروپینگنڈے کوسپورٹ کررہے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم جماعتیں پاک فوج کے خلاف اس مہم پر کیوں خاموش ہیں؟کسی پی ڈی ایم رہنما کی جانب سے ابھی تک پاک فوج کے خلاف ہونے والی اس مہم کی مذمت نہی کی گئی،؟ کیا پی ڈی ایم اس لیے خاموش ہے کہ اس میں انکا سیاسی حریف شامل نہی ہے؟کہیں پی ڈی ایم میں شامل قوم پرست جماعتیں اس مہم کی حوصلہ افزائی تو نہی کررہی ؟ سلمان کوثر نے لکھا کہ منظور پشتین کا کل اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے تماشا اور دھمکیاں اب تک ضرور آپ نے دیکھ اور سن لی ہوں گی۔ آپ کیلئے سیٹ سبنھالتے ہی یہ ٹیسٹ کیس ہے۔ اب تک آپ کو نوٹس ضرور لینا چاہئیے تھا ۔ یہ لوگ جس ملک کو گالی دیتے ہیں ، جس ملک کے اداروں کو گالی دیتے ہیں اسی ملک کا کھاتے بھی ہیں رہتے بھی ہیں ان کو سبق ضرور سکھائیں شہربانو نے لکھا کہ پاکستان کے دل اسلام آباد میں کھڑے ہو کر ۔۔۔۔منظور پشتین فوج کو دھمکیاں دے رہا ہے ۔۔۔ آج تک عمران خان نے یا پی ٹی ائی کے کسی سپورٹر نے اداروں کے خلاف کبھی اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی لیکن پھر بھی ان کو گرفتار کیا گیا ان کو جیل میں رکھا گیا اور عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ۔۔۔ ایک ہی ملک میں دو دستور شفقت چوہدری کا کہنا تھا کہ منظور پشتین اسلام آباد میں راولپنڈی کا مہمان تھا اسلئے نہ کسی نے اٹک پر روکانہ اسلام آباد میں 144 لگی نہ انہیں شرپسند کہا گیاپی ٹی ایم کے خلاف سابق ڈی جی آئی ایس پی آرعاصم سلیم باجوہ اور جنرل آصف غفور نے ثبوت میڈیا پر پیش کئے مگر ہاتھ کسی نے نہیں ڈالااسلام آباد میں انہیں اچھل کود کی اجازت تھی مگر خیبر پختونخواہ میں اب انکے نام پر آپریشن کئے جائیں گےخیبر پختونخواہ کو افغانستان کی طرف دھکیلنے کے پلان پر عمل کیا جا رہا ہے ارسلان بلوچ نے لکھا کہ یہ تو وہی علی وزیر نہیں منظور پشتین کے ساتھ جس نے شہباز شریف کو ووٹ دیا تھا؟ سادات یونس کا کہنا تھا کہ شہباز گل پر تو فوج کو بھڑکانیں کا الزام لگا کر تشدد کیا، منظور پشتین نے تو چمری اُتاڑنے کی دھمکی دے دی مجمعے کے سامنے۔لیکن اس کو فوج کبھی نتھ نہیں ڈالے گی، ہاتھ دور انگلی نہیں لگائے گی
مبینہ ڈائری کے بعد بشریٰ بی بی کے خلاف ایک اور کمپین۔۔۔ ڈی آئی جی آپریشنز پیش پیش۔۔ کیا جنیدسلیم کی خبر درست ثابت ہوگئی؟ کچھ روز قبل صحافی جنیدسلیم نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد رانا ثناء اللہ نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کو کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے متعلق پریس کانفرنس کریں لیکن پولیس افسر نے انکار کردیا جنید سلیم کے مطابق راناثناء اللہ نے پولیس افسر سے کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے متعلق واقعے پر پریس کانفرنس کریں اور واقعے کو اس طرح بیان کریں تاکہ عمران خان کی تضحیک کی جائے کہ وہ چھپ گئے تھے انکی ہوائیاں اڑگئیں تھیں لیکن پولیس افسر نے اس نازک موقع پر اس طرح کی پریس کانفرنس کرنے سے دوٹوک انکار کردیا تھا۔ بعدازاں رانا ثناء اللہ نے نجی چینل کے ایک شو میں خود ہی یہ دعویٰ کردیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے گھر میں بلٹ پروف کمرا بنایا ہواتھا۔ دروازہ نہیں کھولا تو کٹر سے اسے کھولا گیا، کمرے میں 2 باکس پڑے تھے انہوں نے کہا ان کو ہاتھ نہیں لگانا، جب چیک کرنے کا بولا گیا تو انہوں نے اجازت دیدی، یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس میں کوئی قرآنی نسخہ ہو گا لیکن ان میں تعویذ تھے۔ رانا ثناء اللہ نے ن لیگ کے حامی نجی چینل سے بات کرتے ہوئے جو دعوے کئے ویسے ہی دعوے ڈی آئی جی آپریشنز عمران کشور نے بھی کئے ۔۔ اب یہ معلوم نہیں کہ عمران خان کشور ہی وہ پولیس افسر ہیں جنہوں نے پریس کانفرنس سے انکار کیا اور بعدازاں دباؤ میں آکر نجی چینل سے بات کی۔ گزشتہ دنوں ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے جیو نیوز کو انٹرویو میں ڈی آئی جی لاہور عمران کشور نے دعویٰ کیا کہ جب گرفتاری کے احکامات ملنے پر وہ زمان پارک پہنچے تو بند دروازے کھولے نہیں گئے جس کے باعث پولیس کو دروازے توڑنے پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک پیالے میں رکھی پوٹلی کی راکھ میں پڑے تعویز کو چھونے لگے تو بشریٰ بی بی نے مزاحمت کی اور بولیں کہ آپ ان کو نہ چھیڑیں، یہ مقدس چیزیں ہیں۔ راناثناء اللہ اور ڈی آئی جی آپریشنز کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی کمپین ہے اور اس کا مقصد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تضحیک اور تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کمپین مبینہ ڈائری کے پروپیگنڈا فیل ہونے پر چلائی گئی لیکن اس کمپین کو بھی کوئی پذیرائی نہیں ملی، الٹا سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جیو نیوز اور ڈی آئی جی آپریشنز کی مذمت کی گئی۔
قومی کرکٹ ٹیم کے بلے باز عمر اکمل نے لندن میں قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف سے ملاقات کی ہے۔ عمر اکمل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان سے ملاقات بہت اچھی رہی، نوازشریف سے ایک درخواست کی ہے جو امید ہے قبول کر لی جائے گی۔ پاکستان کیلئے کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں، کرکٹ کے حالات بہت اچھے ہیں، میاں صاحب کے آنے پر اور اچھے ہو جائیں گے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے سوال پر کہا کہ مجھے موقع ملا تو ضرور کھیلوں گا اور کھیلنا بھی چاہتا ہوں۔ عمر اکمل کو پاکستان سپر لیگ کے دوران سپاٹ فکسنگ کی اطلاع نہ دینے پر معطل کر دیا گیا تھا جس پر انہوں نے معافی بھی مانگی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے قومی کھلاڑی کو 2020ء میں کرکٹ کی تمام سرگرمیوں سے روک دیا گیا تھابعدازاں 2021ء میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملی تھی۔ عمر اکمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر صارفین مختلف قسم کے تبصرے کر رہے ہیں۔ سینئر صحافی وتجزیہ نگار احتشام الحق نے عمر اکمل کی ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: وہاب ریاض کے بعد اگر عمر اکمل کو بھی پنجاب کے وزیر کھیل بنا دیا جائے تو مجھے حیرانی نہیں ہوگی! ایک سوشل میڈیا صارف نے عمر اکمل کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: ٹِک ٹاکر عمر اکمل قومی ٹیم میں واپسی کے لیے نوازشریف کی منتیں کرنے لندن پہنچا ہوا ہے ! ایک صارف نے لکھا کہ: کرکٹر عمر اکمل کی لندن میں نواز شریف سے ملاقات، چور ہمیشہ چوروں سے ہی ملتے ہیں! عمر اکمل نے نواز شریف کے پیروں میں گڑگڑا کر کہا کہ مجھے کرکٹ میں واپس لیا جائے! سپورٹس جرنلسٹ قادر خواجہ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: قومی کرکٹر عمر اکمل کی سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے لندن میں ملاقات ہوئی، عمر اکمل کہتے ہیں کرکٹ کے حوالے سے مزید بہتری تب آئے گی جب نوازشریف دوبارہ واپس آئیں گے جبکہ ان سے ایک درخواست کی ہے، امید ہے وہ جلد قبول ہوجائے گی! ایک صارف نے لکھا کہ: نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد جس طرح بے کار کھلاڑی فہیم اشرف کی پاکستان ٹیم میں واپسی ہوئی تھی اسی طرح اب نواز شریف سے ملاقات کے بعد عمر اکمل کی بھی قومی ٹیم میں واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ: کسی بھی پاکستانی کا کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو ملنا کوئی بری بات نہیں لیکن عمر اکمل نے میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد ایسا تاثر دیا جیسے وہ ان سے سلیکشن کی سفارش کیلئے درخواست کر کے آیا ہے! اگر عمر اکمل ٹیم میں سلیکٹ ہو گیا تو یہ چیز پاکستانی کرکٹ کو تباہ کر دے گی۔اللہ نہ کرے ایسا ہو!
نواز شریف کی واپسی کیلئے زیرو رسک ہوچکا ہے، نواز شریف کی عدالتوں سے بریت طے ہے، ہمیں ن گارنٹی مل چکی ہے۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نوازشریف کی عدالتوں سے بریت طے ہے اور اُن کے لیے زیرو رسک ہوچکا ہے جبکہ اس معاملے پر ہمیں گارنٹی بھی مل چکی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت سے ریلیف ملنا مشکل ہے جبکہ الیکشن کی تاریخ آگے جانے پر اسٹیبلشمنٹ آن بورڈ ہے۔ راناثناء اللہ کے اس دعوے پر سوشل میڈیا صارفین نے سوال کئے کہ آخر گارنٹی دینے والاکون ہے؟ کس نے نوازشریف کو گارنٹی دی ہے کہ آپ کی عدالتوں سے بریت ہوجائے گی؟نوازشریف کا کیس تو چیف جسٹس عامر فاروق کے پاس ہے جنہوں نے مریم نواز کو بھی باعزت بری کیا تھا،کیا چیف جسٹس عامرفاروق نے گارنٹی دی ہے؟ بعض سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی بریت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے مریم نواز،شہبازشریف، حمزہ ، سلمان، اسحاق ڈار پر کیسز ختم کرائے ویسے ہی کیسز نوازشریف پر ختم ہوجائیں گے۔ ارشاد بھٹی نے تبصرہ کرتے ہونوازشریف کی واپسی کیلئے رسک زیرو ہوچکا “اُدھر”سےبھی گارنٹی مل چکی۔۔راناثناءاللہمبارکاں جی مبارکاں۔۔کل خواجہ آصف بتارہےتھےکہ نوازشریف اسٹبلشمنٹ کی مددسےلندن گئےآج رانا صاحب بتا رہےنوازشریف کو واپسی کی گارنٹی مل چکی،رسک زیرو ہوچکا۔واہ رےرسک فری ڈیلیں کرنےوالے نوازشریف تیرےنصیب۔۔ ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو گارنٹی مل گئی۔ رانا ثناءاللّه نے یہ اعتراف کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے تو بتا دیا تھا کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یقیناً رانا صاحب انہی جج صاحب کی بات کر رہے ہیں جن کے پاس میاں صاحب کا کیس لگا ہوا ہے صدیق جاننے سوال کیا کہ نواز شریف کا کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق صاحب کے پاس ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے شریف خاندان کو گارنٹی دے دی ہے؟؟ انورلودھی نے تبصرہ کیا کہ اگر گارنٹی مل چکی ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کے مقدمات بغیر میرٹ کے ختم کر کے انہیں نااہل سے اہل کروایا جائے گا؟ عدنان عادل نے لکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل آئین و قانون یہ ہے:نواز شریف کی اپیلیں پینڈنگ ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں وہاں سے بریت کی گارنٹی ہے ، اور جس طرف آپ اشارہ کر رہی ہیں ( اسٹیبلشمنٹ ) وہاں سے بھی گارنٹی ہے ! رانا ثناءاللہ کا اعتراف نواز شریف کا کیس جسٹس عامر فاروق کے پاس ہے.ان کے بارے میں رانا ثنا ءاللہ کہ رہے ہیں کہ ان کی طرف سے نواز شریف کو وطن واپس آنے کی گارنٹی دی گئ ہے...یعنی کہ ابھی سے ان کی ججز کے ساتھ ڈیل ہو چکی وقاص مغل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لیے اکھاڑا پہلے بھی تیار کیا گیا اور زمین بھی نرم کی گئی پر موصوف نہیں آئے یہ کیسی گارنٹی ہے جو یہ دے رہے رانا ثناء نے میڈیا پر اُنھیں کو ذلیل کروا دیا جبکہ معافی کا اختیار تو صدر پاس ہوتا آخر گارنٹی دینے والا "وہ کون ہے"
چودہ سالہ ارسلان کے بہنوئی کا بیان جاری کرنے پر لاہور پولیس پر شدید تنقید۔۔ پی ٹی آئی کےبیانیےسےلاتعلقی سےکیاپولیس کےجرائم ختم ہوجائیں گے؟: سوشل میڈیا صارف لاہور پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے 9 مئی (یوم سیاہ) کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار 14 سالہ بچے ارسلان کے بہنوئی کا بیان جاری کیا گیا جس پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے جس کے بعد ریپلائی کا آپشن بند کر دیا گیاہے۔ لاہور پولیس کے ٹوئٹر اکائونٹ سے جاری پیغام کے مطابق ارسلان کے بہنوئی کی طرف سے پولیس پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق نوجوان ارسلان کے اہل خانہ کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ارسلان کے بہنوئی نے کہا ہے کہ پولیس انکوائری ٹیم اگلے 3 دنوں کے اندر اپنی انکوائری مکمل کرے ہمیں پولیس پر مکمل اعتماد ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف احمد وڑائچ نے لکھا کہ: 14سالہ بچے کو 9 مئی کیس میں اٹھایا، جیل رکھا، اس کی بہنوں سے بدتہذیبی کی گئی، بچے سے بدتمیزی ہوئی، عدالت نے ضمانت دی، رہا ہوا گھر آیا، پولیس نے دوبارہ 3 چھاپے مارے، ارسلان کے والد کی موت ہو گئی! اس سب میں پی ٹی آئی کا بیانیہ کیا ہے؟ کوئی انسانیت؟ شرم؟ حیا؟ اخلاقیات؟ اکرم راعی نے ردعمل میں لکھا کہ:لاہور پولیس نے اس ٹویٹ کی رپلائی کی آپشن کیوں بند کر دی؟ کیا ارسلان کے اہل خانہ کے پی ٹی آئی کے بیانیہ سے اعلان لاتعلقی سے پولیس بیگناہ قرار پائی ہے؟ اس ٹویٹ پر عوام نے لاہور پولیس کو محبت کے جو پھول پیش کرنے تھے، رپلائی کی آپشن بند ہونے کے بعد وہ کیسے پیش کریں گے؟؟؟ شمس خٹک نے لکھا کہ:پی ٹی آئی کے بیانیہ سے کوئی لا تعلقی کرتا ہے یا کوئی تعلق رکھتا ہے سیاسی پارٹیوں کے بیانیہ سے آپکا تعلق نہیں ہونا چاہیے ! آپ بس یہ بتائیں کہ آپ نے تیرہ سال کے بچے کو گرفتار کیا تھا یا نہیں ؟ سعید بلوچ نے لکھا کہ: سیاسی جماعت مت بنیں، آپ کی وردی میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے ایک نابالغ بچےکوقید میں رکھا،عدالت نےرہاکیا تو پھرگرفتارکرنےپہنچ گئے،کالی بھیڑوں کو پکڑیں، پچھلے 17 ماہ سےلاتعلقی والاڈرامہ ہی چل رہا ہے! سب حقیقت جانتےہیں،پی ٹی آئی کےبیانیےسےلاتعلقی سےکیاپولیس کےجرائم ختم ہوجائیں گے؟ فیضان خان نے لکھا کہ: کسی نے سیاست سیکھنی ہے تو پولیس دستیاب ہے! ایوب خالد بلوچ نے لکھا کہ: پولیس کے پاس اپنی بے گناہی کے لئے سب سے طاقتور ہتھیار ملزم کی بہنیں اور ان کے شوہر ہوتے ہیں۔ راسخ عباسی نے لکھا کہ: پی ٹی آئی کا تو کوئی بیانیہ نہیں تھا ،سب بیان تو ارسلان کے گھر والوں کے چلے تھے! ڈرامے باز پولیس نے رپلائی سیکشن بند کر دیا ہے، کیا بچے کی ماں کے بیان جھوٹے تھے؟
عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حلقہ بندیوں کیلئے الیکشن کمیشن نے 4 ماہ کا وقت مختص کردیا۔ الیکشن کمیشن 14 دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے بعد انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا۔ اس پر ڈاکٹر شہبازگل نے ردعمل دیا کہ الیکشن کمیشن کا صرف ایک کام ہے الیکشن اور الیکشن کمیشن ہر وہ کام کر رہا ہے جس سے الیکشن نہ ہوں عوام کے خوف سے آئین قانون جمہوریت کےساتھ کھلواڑ جاری ہے کیونکہ عوام ایک شخص کے ساتھ کھڑی ہے لیکن عوام یقین رکھے وہ شخص آپکی خاطرظلم سہہ رہا ہے اور ڈٹ کر کھڑا ہے آپ نے ہمت نہیں ہارنی عالمگیر خان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندی بہانہ ہے، تحریک انصاف نشانہ ہے حماداظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حلقہ بندی کا بہانہ بنا کر الیکشن بندی کا ارادہ ہے۔ صوبائی الیکشن کی دفعہ بھی کہا کے 90 دن میں انتخابات نہیں کرا سکتے۔ اور اب پورے ملک میں انتخابات کرانے پر بھی اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ سکندر سلطان راجہ کا یہ عمل تاریخ میں بدترین حروف سے لکھا جائے گا۔ اکبر نے تبصرہ کیا کہ جب پنجاب پختوخواہ کے الیکشن روکنے کےلئے آئین توڑا گیا تو اس وقت تمام انصافیوں نےکہا تھا اگر مئی میں الیکشن نہ ہوئے تو نومبر میں بھی نہیں ہونگے ۔۔ ایک بار آئین توڑ دیا گیا تو پھر یہ رستہ کھل جائیگاآج وہی سب کچھ ہورہا ہے اس وقت جشن منانے والے اب مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے ملیحہ ہاشمی نے لکھا کہ اس سال الیکشن نہیں ہونے۔ نگران حکومت نے آتے ہی حلقہ بندیوں کا معاملہ شروع کروا کر اس عظیم لیڈر کی بات سچ ثابت کر دی جو آپ سب کے ہر دلعزیز لیڈر راجہ ریاض نے پرسوں ٹی وی پر بتائی تھی کہ ان کے بڑوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ فروری میں الیکشن ہوں گے اب پتا نہیں فروری میں بھی ہوں گے یا نہیں ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ حلقہ بندیوں کرنے کی کوئی ٹائم لمٹ بھی نہیں ہے یعنی الیکشن کمشن اب کشمیر کی ازادی تک حلقہ بندیاں کرتا رہے تو الیکشن کی تاریخ دینے کی باری ہی نہیں آئیگی ۔ سی سی آئی کا فیصلہ کلعدم نہ ہوا تو الیکشن کمشن کو تاحیات وقت مل جائیگا ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ جیل میں تھا لیکن کوئی اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں تھا. قیدی کے خوف سے ایک بار پھر آئین سے تجاوز کرکے الیکشن التواء میں ڈال دئیے گئے. مورخ لکھے گا اگر حلال زادہ ہوا تو... جہانزیب کا کہنا تھا ک الیکشن آگے کر کے بھی دیکھ لیں جیت عمران خان کی ہی ہوں گی۔

Back
Top