سوشل میڈیا کی خبریں

آسٹریلیا میں ایئرپورٹ پر جہاز میں نماز پڑھنے والے بزرگ کی وجہ سے مبینہ طور پر دیگر مسافر متاثر ہوئے تو اس عمل نے سوشل ٹائم لائنز پر نئی بحث چھیڑ دی۔ ایک مسافر کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں علی عارف طیارے کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب کہ دیگر مسافر دور سے انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ویڈیو میں واضح ہے کہ نماز پڑھتے فرد کے سامنے دو خواتین کھڑی ہیں جب کہ ان کے عقب میں بھی کچھ لوگ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جو بظاہر منتظر ہیں کہ وہ نماز ختم کریں تو وہاں سے گزرا جا سکے۔ محمد علی عارف نے ملائیشین ائیرلائنز کی پرواز میں بم کی دھمکی دی تھی اور آسٹریلوی پولیس نے انہیں گرفتار کرکے ان پر فرد جرم عائد کی تھی۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آسٹریلوی پولیس نے پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری محمد علی عارف پر فرد جرم عائد کی ہے کہ اس نے مبینہ طور پر سڈنی سے کوالالمپور جانے والی ملائیشین ایئرلائنز کی پرواز میں دھماکہ خیز مواد رکھنے کا دعویٰ کیا اور اسے واپس سڈنی جانے پر مجبور کیا۔ آسٹریلوی فیڈرل پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 45 سالہ شخص پر طیارے کو نقصان پہنچانے کی دھمکی کے بارے میں غلط بیان دینے اور کیبن کریو کی حفاظتی ہدایات پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، ان جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال قید اور 15 ہزار آسٹریلوی ڈالرز سے زائد جرمانہ ہے۔ مبینہ طور پر علی عارف ماضی میں پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے منسلک رہے ہیں اور انہوں نے ’کالج جینز‘ جیسے مشہور اور سپرہٹ سِٹ کام میں اداکاری کی ہے۔ اس کے علاوہ علی عارف نے متعدد میوزک ویڈیوز میں بھی کام کیا ہے جن میں گلوکار ابرار الحق کا گانا ’پریتو‘ خاصا مشہور ہوا تھا۔ علی عارف کے لنکڈ ان پروفائل کے مطابق عارف نے 2002 میں این سی اے سے گریجویشن کیا تھا۔ انہوں نے 2002 سے 2016 تک کراچی اور لاہور کی متعدد فرموں میں آرکیٹیکٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے زیادہ تر دوستوں کا کہنا ہے کہ علی عارف کا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ صحافی اجمل جامی کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ جہاز میں جہاد فرمانے والے بابا جی کسی زمانے کی مشہور زمانہ سیریز "کالج جینز" کے ادکار محمد علی عارف تھے۔۔کیا ہوا کرتے تھے اور کیا ہو گئے
سابق وزیراعظم شہبازشریف نے حنا پرویز بٹ کیساتھ لندن میں ہونیوالے سلوک کی شدید مذمت کی ہے اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی سابق ایم پی اے حنا بٹ کو لندن میں پی ٹی آئی کارکنوں نے نشانہ بنایا ، انہیں بری طرح ڈرایا دھمکایا اور بدسلوکی کی یہ بہت قابل مذمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلسل پروپیگنڈے، جعلی خبروں اور غلط معلومات سے عمران خان کے فرقے کے پیروکاروں کی برین واشنگ ہوئی ہے۔ ایسے کردار نہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ملک کا مذاق اڑانے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتا ہوں جس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ شہبازشریف کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ جب پی ٹی آئی خواتین پر ظلم ہورہا تھا، انہیں سڑکوں پر گھسیٹاجارہا تھا تب آپکو یہ یاد نہیں آیا کہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں؟ سوشل میڈیا صارفین کا مزید کہنا تھا کہ ارسلان کیساتھ ہونیوالے واقعہ پر بھی کاش آپ کچھ بول دیتے لیکن اس پر آپ چپ رہیں گے کیونکہ وہ آپکی حکومت کا کارنامہ ہے۔ سارہ تاثیر نے جواب دیا کہ یہ نہیں کہ 2 غلطیاں درست ہوجائیں لیکن پاکستان میں سیاست میں خواتین کی بے عزتی کو معمول پر لانا آپ کی نظر میں پتھر کی ایک مثال تھی۔ افسوس کہ جو بویا ہے وہی کاٹنا پڑے گا۔ مزمل اسلم نے ردعمل دیا کہ اگر ایک جملہ ارسلان اور اس کے والد کے لئے بول دیتے تو قیامت نہیں آجاتی۔ صبا نے جواب دیا کہ علامہ اقبال کی بہو' یاسمین راشد اور عالیہ حمزہ۔ اسکے علاوہ 9 مئ کے بعد جنہوں نے پی ٹی آئ چھوڑی انکی بیٹیوں کی عزت پامال کرنے کی ٹھان رکھی تھی تم سب نے ورنہ ہمارے فوجی ادارے اتنے گھٹیا نہیں ہیں باجوہ کو چھوڑ کے۔ عروج نے کہا کہ حنا بٹ نظر آگئی ہے ارسلان نسیم اور اس کا خاندان تو آپ کے شہر میں ہی ہے وہ نظر نہیں آیا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے جواب دیا کہ پنجاب پولیس نے ظلم کی انتہا کر دی ہے جس کی زمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے جناب - آپ تو لندن بھاگنے والے ہیں اور ان بیچارے پولیس والوں کو پیچھے چھوڑ کر جن سے آپ نے ظلم کروائے - اللہ کے ہاں پکڑ ہوگی آپ کی - سیدھا دوزخ میں جاینگے آپ فرعون ہیں اس وقت کے
نو مئی واقعات کے بعد پولیس کے کریک ڈائون میں گرفتار کیے گئے 14 سالہ بچے ارسلان نسیم اور اس کے خاندان پر پنجاب پولیس نے ظلم کی انتہا کردی۔ ذرائع کے مطابق 14 سالہ بچے ارسلان نسیم کو 9 مئی واقعات کے بعد 3 ماہ قبل گرفتار کیا گیا تھا جو رہائی ملنے پر 2 روز پہلے اپنے گھر پہنچا تھا۔۔پولیس اہلکار 14 سالہ بچے ارسلان نسیم کو دوبارہ سے گرفتار کرنے کیلئے اس کے گھر آگئی جس پر ارسلان نسیم کے والد نے مزاحمت شروع کر دی۔ پولیس اہلکاروں نے ارسلان نسیم کے گھر رات 3 بجے ریڈ کیا، ارسلان نسیم کے والد بیٹے کی دوباری گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپے کے دوران ہارٹ اٹیک سے جاں بحق ہو گئے جن کی لاش کو اس کے گھر والوں کو واپس دیتے ہوئے کہا کہ بچے کو ہمارے حوالے کرو۔ پولیس نے ارسلان نسیم کے والد کا جنازہ پڑھانے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خاندان کو فوری طور پر دفنانے کا حکم دے دیا۔ گزشتہ روز کی ان خبروں پر لاہور پولیس کا ردعمل سامنے آگیا اور اپنے ذرائع کا حوالہ دیکر ان خبروں کو من گھڑت قراردیدیا۔ لاہور پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس ذرائع نے سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے بارے وائرل ہونے والی ایک پوسٹ جس میں یہ غلط تاثر دیا گیا ہے کہ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والد ہلاک ہوئے، کو پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تشدد والی بات بالکل جھوٹ اور غلط ہے۔ پولیس نے مزید کہا کہ بزرگ کی طبعی موت کو مختلف رنگ دے کر سوشل میڈیا کے ذریعے سننی پھیلانے کی ناکام کوشش کی گئی ھے آور بزرگ شہری کی تدفین بھی ہو چکی ھے۔ لاہور پولیس کے ان ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ پولیس حقائق کی بجائے ذرائع پر کب سے انحصار کرنے لگی؟کوئی کام تو ڈھنگ سے کرلیا کریں۔۔ سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ کیا ایک 14 سال کے بچے کو جیل میں رکھنا قانونی تھا؟ دوبارہ چھاپے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر رائے ثاقب کھرل نے ردعمل دیاکہ لاہور پولیس آفیشل اکائونٹ اور آپ ہی پولیس زرائع سے ٹویٹ کر رہے ہیں؟ کچھ تو ڈھنگ سے کر لیں۔ جبران ناصر نے جواب دیا کہ آپ ادھر ادھر بات نا گھمائیں اور ان سادے سے سوالات کا جواب دیں کہ کیا ارسلان نسیم کہ عمر 14 سال ہے؟ کیا آپ نے اسے 9 مئ کے حوالے سے گرفتار کیا؟ کیا اس 14 سال کے بچے کو رہائی 3 مہینے بعد ملی؟ کیا آپ نے اسے رہا ہونے کے بعد پھر گرفتار کیا؟ جبران ناصر نے مزید کہا کہ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں ہے تو ارسلان کے خاندان اور بالخصوص اس کے والد کو اذیت اور صدمے پہنچانے اور ان صحت اس حد تک خراب کرنے کی زمہ دار پنجاب پولیس اور سی سی پی او لاہور نہیں تو پھر کون ہے؟ عدیل راجہ کا کہنا تھا کہ سوال تو سیدھا ہے، کیا آپ لوگوں مے اک کم عمر بچے کو گرفتار کر کے تین ماہ جیل میں رکھا؟ وقار ملک نے لکھا کہ پنجاب پولیس اس وقت مجرمانہ سوچ کیساتھ چلائی جارہی ہے موجودہ آئی جی پنجاب ایک مجرمانہ سوچ کا مالک مہرہ ہے جسے گارنٹی دی گئی ہے کہ جتنے مرضی ظلم کرو اور کرواو تمہیں کوئی چھوئے گا بھی نہیں سلمان درانی نے ردعمل دیا کہ پولیس ذرائع؟ جناب یہ ایکسپریس نیوز کا ٹویٹر اکاؤنٹ نہیں پولیس کا اپنا آفیشل اکاؤنٹ ہے۔ رحیق عباسی کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس قاتلوں کو پولیس تھی اور ہے۔ اس ہینڈل کو چلانے والے درندہ نما انسان سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ غلط ہے کہ ارسلان 14 سال کا ہے، وہ تین ماہ قید میں رہ کر آیا اور پولیس اس کو دوبارہ گرفتار کرنے پہنچ گئی تھی۔ ظالمو ایک والد کے لئے اس سے ذیادہ اور کیا تشدد ہوگا ؟؟ شاکراعوان نے لکھا کہ اسکا مطلب ہے کہ باقی جو باتیں ہین وہ مکمل درست ہیں فرحان منہاج نے ردعمل دیا کہ پولیس کے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی پولیس زرائع سے معلومات دی جارہی ہے ـ او بھائی متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی ریورٹ کا حوالہ دے کر بتاتے تو مانتے بھی ـ افسوس احمد سید نے کہا کہ تم کعبے کی چھت پہ بھی کھڑے ہو کر کہو کہ تم سچے ہو، تمہارا پھر بھی ہم یقین نہیں کریں گئے۔ ارم زعیم نے لکھا کہ کیسے 14 سال کے بچے کو تین ماہ جیل میں رکھا گیا؟جب رہا ہوا تو کیوں دوبارہ گرفتار کرنے پہنچ گئے؟کیوں ارسلان کے والد کو دل کا دورہ پڑا؟اور کتنے بچے جیلوں میں قید ہیں؟اور کتنے گھر برباد کرنے؟کب تک حرام کھانا؟کب تک چلے کا یہ ظلم؟انسانیت ہے؟حیا ہے؟جنگلی درندے عوام کو نوچ رہے https://twitter.com/Lahorepoliceops ادریس چاچڑ کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ آپ نے ضمانت کے بعد ان کے گھر پر دو بار ریٹ کیوں مارا؟ کیا ان کے والد کا انتقال پولیس چھاپے کے دوران نہیں ہوا؟ بے شرمو کوئی خوف خدا ہے آپ میں یا نہیں؟ اسلام الدین ساجد نے لکھا کہ پنجاب پولیس کے ذرائع پر اعتماد کون کرے گا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ تم لوگوں نے تو ظل شاہ کے قتل مقدمہ فورا" ہی کپتان پر درج کر دیا تھا،پھر حادثہ قرار دے دیا مگر مزم ابھی تک کپتان ہی ہےکپتان پر قاتلہ حملے کو مذہبی جنونیت قرار دے دیا اور ملزم کو آزاد کرا دیا اور مدعی کو جیل بھیج دیاہزاروں سیاسی ورکرز کو دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد کر دیا
پاکستان کے 76 ویں یوم آزادی کے موقع پر پی سی بی نے پاکستان کھلاڑیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کرکٹ ہسٹری بتانے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پیکیج سے قومی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کو بالکل ہی نکال دیا گیا جو پاکستان کے عظیم آل راؤنڈر اور ورلڈکپ 1992 کے فاتح سمجھے جاتے ہیں اور انکی قیادت میں قومی ٹیم نے کئی بڑی فتوحات سمیٹیں۔ کرکٹ ہسٹری میں ورلڈکپ 1992 کو تو دکھایا گیا لیکن عمران خان کی تاریخ اور بطور کپتان پرفارمنس کو غائب کردیا گیا جس کی وجہ عمران خان کا موجودہ حکومت کا سخت ترین مخالف ہونا بنی۔ اس پیکیج میں قومی ٹیم کے سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار کو بھٹو کیساتھ دکھایا گیا، 1996 میں سری لنکا کے سابق کپتان رانا ٹنگا کو بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں ورلڈکپ وصول کرتے دکھایا گیا لیکن عمران خان کو یکسر غائب کردیا گیا۔یادرہے کہ موجودہ چئیرمین پی سی بی ذکاء اشرف پیپلزپارٹی سے وابستگی رکھتے ہیں اور انہیں آصف زرداری کے کہنے پر تعینات کیا گیا تھا۔ پی سی بی کے اس اقدام پر #ShameOnPCB ، #ImranKhanKaPakistan ٹاپ ٹرینڈز بن گئے اور سوشل میڈیا صارفین نے یہ ٹرینڈ استعمال کرکے پی سی بی کو خوب کھری کھری سنائیں۔، انکا کہنا تھا کہ کیا ایسی حرکتیں کرکے کرکٹ کی تاریخ تبدیل ہوجائے گی؟ حقیقت تو ہمیشہ حقیقت رہے گی۔ شفاء یوسفزئی نے تبصرہ کیا کہ پی سی بی نے ایسا کرکے اپنے آپکو مذاق بنالیا، یہ ایک حقیقت ہے کہ 1992 کے ورلڈکپ کے فاتح عمران خان تھے اور یہ حقیقت ہمیشہ رہے گی۔ کرکٹ تجزیہ کار عالیہ رشید نے تبصرہ کیا کہ پاکستان کی 76 سالہ کرکٹ تاریخ عمران خان کے بغیر کیسے لکھی جاسکتی ہے؟ عمران خان کو ڈیلیٹ کرکے آپ نے اپنا قد کم کرلیاہے، تاریخ اور حقیقت تو اپنی جگہ رہے گی۔ عمردراز گوندل نے لکھا کہ بہت ہی شرمناک ! کرکٹ بورڈ کیسے عمران خان جیسے لیجنڈ کو نظرانداز کرسکتا ہے۔ وجاہت کاظمی نے لکھا کہ پی سی بی کے مطابق عمران خان کا کوئی وجود نہیں۔ فیاض راجہ نے لکھا کہ عمران خان کے بغیر پاکستان کرکٹ اور ورلڈ کپ کی تاریخ صرف ادھوری نہیں بلکہ لولی اور لنگڑی بھی ہےپی سی بی اور ان کے "ہینڈلرز" شرم کریں صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ پی سی بی بھی ایک تمغہ امتیاز کا حقدار ہے ایک حقیقت کو آپ کیسے جھٹلا سکتے ہیں ضرار کھوڑو نے ورلڈکپ 1992 کی تصویر شئیر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وہ ایک دن شاید 25 مارچ 1992 ہے؟ یا کسی اور دن؟ اس دن؟ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ ملک کا واحد ون ڈے ورلڈکپ جیتنے والے کپتان اور دنیا کے عظیم ترین آل راؤنڈر کا سنگل shot نہیں، لیکن ذوالفقار بھٹو کی ایک سابق کپتان کے ساتھ تصویر ہے، 96 کا ورلڈکپ جیتنے والے کپتان رانا ٹنگا کو ٹرافی دینے والی وزیراعظم ہے معید پیرزادہ نے لکھا کہ پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے والے واحد کپتان عمران خان کہاں ہیں؟ پی سی بی کے احمقوں کو یہ احساس نہیں کہ وہ صرف اپنی بے عزتی کر رہے ہیں..! اداکار ہارون شاہد نے لکھا کہ اگلی بار جب پی سی بی بی سی سی آئی سے سیاست کو کرکٹ سے باہر کرنے کو کہے گا تو بی سی سی آئی کو انہیں چپ کرانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ ویڈیو کافی ہوگی۔ اور کتنے گرو گے آپ
مسلم لیگ ن کی رہنما حنا پرویز بٹ کو لندن میں بیٹے کے ہمراہ ہراساں کیے جانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ حنا پریویز بٹ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو شیئرکی جس میں وہ بیٹے کے ہمراہ موجود ہیں۔ خود پر بوتلیں پھینکنے کے بعد وہ پیچھے مڑ کردیکھنے کی کوشش کررہی ہیں تاہم اس دوران ان کا بیٹا والدہ کو اگے لیکر بڑھ جاتا ہے۔ حنا پرویز بٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پر پی ٹی آئی کارکنوں نے حملہ کیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے بیٹے کے سامنے مجھ پر بوتلیں پھینکیں اور گالیاں دیں۔ ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر خوب مذمتیں ہوئیں۔۔ مذمت کرنیوالوں میں وہ صحافی بھی شامل تھے جو کچھ دن پہلے بشریٰ بی بی پر کیچڑ اچھال رہے تھے، ایک ڈائری کو لیکر انہیں جادوگرنی اور دیگر القاب سے نواز رہے تھے۔ یہ وہ صحافی تھے جب پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھر پر پولیس نے دھاوا بولا ، چادر چاردیواری کا تقدس پامال کرتے رہے اور خواتین کو گھسیٹتے رہے، جیلوں میں ڈالتے رہے تو تو یہ ایک لفظ تک نہ بولے بلکہ الٹا حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ن لیگ کے حامی صحافیوں کی جانب سے مذمتی بیانات پر سوشل میڈیا صارفین نے سوال کیا کہ جب عثمان ڈار کی والدہ کے گھر پر حملہ کیا گیا، رات کے پچھلے پہر گھروں میں گھس پی ٹی آئی رہنماؤں کی گھر کی خواتین سے بدتمیزی کی گئی، پی ٹی آئی کی خواتین کو گھسیٹا گیا، پی ٹی آئی خواتین کو ڈھال بناکر اور ان سےمتعلق دھمکیاں دیکر پارٹی چھڑوائی گئی اس وقت مذمتیں کیوں یاد نہیں آئیں؟ صنم جاوید، طیبہ راجہ، ڈاکٹریاسمین راشد جیسی خواتین کو ہتھکڑیاں لگاکر انہیں عدالتوں کے چکر لگوائے گئے،جیلوں میں اذیتیں دی گئیں تب انہیں مذمتیں کیوں یاد نہیں آئیں۔ ڈاکٹر شہبازگل نے تبصرہ کیا کہ حنا بٹ صاحبہ کے ساتھ لندن میں پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے۔ غلط ہوا ہے۔ اس کی مذمت کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ جو تمام لوگ آج پر بات کر رہے ہیں ان کو شرم دلائیں کہ یاسمین راشد شندانہ گلزار شریں مزاری خدیجہ شاہ نادیہ حسین طیبہ راجہ صنم جاوید عالیہ حمزہ بھی اسی قوم کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب پر ان پر ظلم ہوا تو یہ منافق خاموش رہے۔ برف میں لگے رہے۔ اس وقت غیرت سو رہی تھی یا منافقت عروج پر تھی۔ عزت تو ہر عورت کی برابر ہوتی ہے۔ کوئی بے غیرت ہی ہوتا ہے جو مخالف کی عورت کی عزت نہ سمجھے۔ جس ملک میں خواجہ آصف جیسے کردار عورتوں پر حملہ کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ جنید کا اس پر کہنا تھا کہ ابھی کل رات کو تو پورے الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر بشری بی بی کی توہین اور پراپگنڈے پر مبنی ڈائری کہانی چلائی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔جواب لندن میں ملا ہے تو مرچیں دیکھنے والی ہیں عون علی کھوسہ نے تبصرہ کیا کہ بچوں کے سامنے ماؤں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، یہ بے غیرت کچھ نہیں بولے. آج انہیں عورت کی عزت کا بخار چڑھ رہا ہے. حنا کے ساتھ جو ہوا اس کا مجھے دلی دکھ ہے لیکن تم منافقوں کو اس پر ٹویٹس کرنے کا کوئی حق نہیں. طاہر ملک کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی خواتین کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا ، ابھی دو دن پہلے بشری بی بی کے خلاف جھوٹی ڈائری نکالی گئی جس پہ موصوف چسکے لیتے ہائے گئے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں پی ٹی آئی خواتین اور بشری بی بی کے خلاف بیہودہ بکواسیات پہ جامی صاحب کی چونچ کیوں نہ کھلی؟ یعنی اس معاملے میں بھی بغض؟؟ یک طرفہ غیرت جاگنے والے بھی منافق جاہل ، بدتمیز اور گھٹیا قسم کے لوگ ہیں خرم اقبال نے کہا کہ خواتین چاہے کسی بھی پارٹی کی ہوں ان کا احترام ضروری ہے، جہاں تحریک انصاف کی خواتین کے ساتھ سلوک قابل مذمت ہے وہیں حنا پرویز بٹ کے ساتھ بدتہذیبی کو بھی جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا، ایسے سڑکوں پر فقرے کسنا انتہائی نامناسب ہے، اختلاف ہے تو رائے کے اظہار کے اور بھی طریقے ہیں۔۔!! وقاص امجد نے تبصرہ کیا کہ حنا پرویز بٹ کی لندن کی سڑکوں پر ویڈیو دیکھی۔۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ہے اور اسکو چور چور کے القابات سننے پڑ رہے ہیں پر اس سے بدتر لاہور میں صنم جاوید ، عالیہ حمزہ ، یاسمین راشد سمیت دیگر خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے جن کے بچوں کے سامنے انھیں ہتھکڑیاں لگائیں گئیں، کئی کئی دن ملنے نہیں دیا جاتا۔۔ روتے ہوئے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں وہ ایک ایوارڈ کی تقریب میں ایک اداکارہ کو ایوارڈ دیتے ہیں، بعد ازاں اداکارہ ایوارڈ لیکر جاتی ہیں تو شہبازشریف کی نظریں اداکارہ کا پیچھا کرتی ہیں۔ یہ کلپ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا جسے شہبازگل، مونس الٰہی ، مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی شئیر کیا اور دلچسپ تبصرے کئے اور کہا کہ اتنے قریب سے دیکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ کسی نے لکھا کہ شہبازشریف کی معصوم نظروں سے اللہ بچائے،تو کسی نے کہا کہ نیت خراب نہ ہو تو خوبصورت چہرے کو دیکھنا کوئی گناہ نہیں تو کسی نے سوال کیا کہ کیا شہبازشریف اداکارہ کا ایکسرے کررہے ہیں؟ شہبازگل نے شہبازشریف کا کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھوکا ہے بہت بھوکا ہے بہت بھوکا ہے۔ بلکہ بے شرمی کی حد تک بھوکا ہے مونس الٰہی نے کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ بلاتبصرہ احتشام نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ رحمان بابا اپنی شاعری میں کہتے ہیں کہ اگر نیت خراب نہ ہو تو خوبصورت چہرے کو دیکھنے میں کوئ گناہ نہیں ہے۔ شاید شہباز شریف کا نیت صاف ہو عباس شبیر نے تبصرہ کیا کہ شہباز شریف نے اپنے دور میں صرف فوٹو سیشن پر ہی زور دیا ہے ۔اور کچھ فوٹو سیشنز دنیا بھر میں مزاق بنے ۔ شبانہ بھٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ شہباز شریف معصوم نظروں سے اداکارہ کو دیکھتے ہوئے دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی تبصرے کئے
انوارالحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے پر اختر مینگل نے نواز شریف کو خط لکھا اور نگران وزیراعظم کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا اور نوازشریف سے خوب گلے شکوے کئے۔ اخترمینگل کے انوارالحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے پر کچھ لیگی رہنماؤں اور صحافیوں نے انکے درمیان پرائی دشمنی قرار دینے کی کوشش کی۔جاوید چوہدری نے کاکڑ اور مینگل قبیلے کے درمیان دشمنی کا جھوٹا دعویٰ کیا تو اوریا مقبول جان نے اصلیت بتادی جاوید چوہدری نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں کاکڑ اور مینگل قبائل کے درمیان بہت پرانی لڑائی ہے اور یہ خاندانی ، قبائلی اور سیاسی لڑائی ہے۔ اگر کاکڑ قبیلے کا کوئی شخص نگران وزیراعظم بنے گا تو مینگل قبیلے کو مشکل ہوگی۔ اس پر اوریا مقبول نے کہا کہ بلوچستان کا بچہ بچہ تجزیہ نگار کی بات سن کر ہنس ریا ہوگا۔ اس عظیم تجزیہ نگار سے کوئی پوچھے یہ کاکڑ اور مینگل کی لڑائی کب ہوئی تھی ، کیونکہ تاریخ میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چوھدری صاحب کو شاید یہ بھی نہ پتہ ہو کہ کاکڑ پشتون ہیں اور مینگل بلوچ ۔۔ بیچے جاؤ جاہل عوام کو چورن واضح رہے کہ انوارالحق کاکڑ پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور انکا تعلق قلعہ سیف اللہ سے ہے اور انہوں نے زیادہ عرصہ کوئٹہ میں گزارا ہے جبکہ اخترمینگل بلوچ ہیں اور ان کا تعلق خضدار سے ہے جو قلعہ سیف اللہ سے بہت دور ہے جبکہ تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں جب کاکڑ قبیلے اور مینگل قبیلے کے درمیان کبھی لڑائی ہوئی ہو۔
خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کی کی نااہلی 5سال کی مدت گزرنے کے بعد ختم ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ قانون سازی کو رجوع کرنے کی ضرورت ھے جس میں نااہلی 5سال تک محدود کر دی گئی ھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قائد محترم کی وطن انشاءاللہ بہت جلد ھو گی اور سیاست بھرپور کلیدی کردار ادا کریں اس سے قبل سابق وزیراعظم شہبازشریف بھی یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ لیکشن ایکٹ کی ترمیم سےنوازشریف کی نااہلی ختم ہو چکی اور متفقہ فیصلہ ہےکہ اگر اکثریت ملی تو وزیراعظم نواز شریف ہوں گے، ان کی واپسی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔ جبکہ اسحاق ڈار ، اعظم نذیر تارڑ اور احسن اقبال بھی ایسی ہی باتیں کرچکے ہیں لیکن قانونی ماہرین اس سے برعکس دعوے کررہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ سچ ہے کہ الیکشن ایکٹ ترامیم سے نااہلی 5 سال کی ہوگی لیکن نوازشریف کی نااہلی ختم نہیں ہوئی کیونکہ نوازشریف سزا بھگت رہے ہیں، ان پر ایون فیلڈ فلیٹس،العزیزیہ سٹیل ملز کا کیس ہے جس میں انہیں سزا سنائی گئی ہے۔ اس کیس میں نوازشریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جو 2028 میں ختم ہونا ہے اور اسکے بعد 2 سال تک نوازشریف نااہل رہیں گے یعنی 2030 میں الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ اگر عدالت ایون فیلڈ ریفرنس ، العزیزیہ کیس کو کالعدم قرار دیدیتی ہے تو نوازشریف کی نہ صرف سزا بلکہ نااہلی بھی کالعدم ہوجائے گی لیکن اسکے لئے نوازشریف کو وطن واپس آکر سرنڈر کرنا ہوگا اور دوبارہ جیل جانا ہوگا۔ اسکے بعد طویل مرحلہ ہوگا، نوازشریف کی جانب سے اپیل دائر ہوگی جسے سنا جائے گا اور اسکے لئے چندماہ درکار ہوں گے ۔اگر عدالت معمول کے مطابق سماعت کریں تو 2 سے 3 ماہ درکار ہوں گے۔ اگر نوازشریف کو ایون فیلڈ کیس میں بری کیا جاتا ہے تو اسکے بعد ہی العزیزیہ کیس سنا جاسکتا ہے جبکہ عدالت کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ وہ دونوں کیسز کو اکٹھاسنے ۔ سپریم کورٹ کے نااہلی کے فیصلے سے متعلق بھی بعض قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے مختلف ہے جن کا کہنا تھا کہ نوازشریف تاحیات کی نااہلی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک سپریم کورٹ اپنا ڈیکلئیریشن واپس نہیں لیتی مگر دوسری جانب بعض تجزیہ کار 5 سال نااہلی ختم ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ تجزیہ کار اس بات کو نظرانداز کررہے ہیں کہ نوازشریف کو 10 سال قید کی سزا ہوئی ہے اور ایک سزا یافتہ شخص الیکشن لڑنے کااہل نہیں ہے۔
بی این پی رہنما اختر مینگل نے نواز شریف کو خط لکھ دیا، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری پر تحفظات کا اظہار کر دیا، لکھا اس طرح کے فیصلوں نے ہمارے اور آپ کے درمیان مزید دوریاں پیدا کر دیں، اہم فیصلوں میں اتحادیوں کو اعتماد میں نہ لینا بداعتمادی پیدا کرے گا۔ اخترمینگل کے تحفظات پر سوشل میڈیا صارفین نے اختر مینگل کو کھری کھری سنادیں، احمد وڑائچ نے لکھا یہ بندہ پانچ سال وفاق میں اقتدار میں رہا ہے، وزارتیں رہی ہیں، اسمبلی کی مدت ختم تو رونا پیٹنا شروع، طارق متین نے لکھا ایک ہی سوراخ سے آپ بار بار ڈسے گئے اور اب بھی تیار ہیں۔ جنہیں آپ مجرم گردان رہے رہے ہیں ان کے ساتھ برابر کے حصے دار ہیں آپ۔ زنیرہ اظہر نے لکھا چونکہ آپ کو یہاں یہ فضول بیان بازی پوسٹ کرنے کا حوصلہ ملا ہے، اس لیے جان لیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ آپ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اس بات کی بات نہ کریں کہ پی ڈی ایم اتحاد نے پچھلے 16 مہینوں میں ملک کے ساتھ کیا کیا ہے۔ . بیٹھیں اور ایک بہتر اسپن ڈاکٹر کی خدمات حاصل کریں! رعنا عمران سلیم نے لکھا الیکشن آتے ہی مینگل صاحب کو بلوچستان کی محرومیاں بیچنی یاد آ گئی حالانکہ مینگل صاحب شہباز شریف کی سربراہی میں پڈم کی آخری میٹنگ تک میں شامل ھوئے اب جب حکومت ختم ھو گئی تو انقلابی بن گئے پھر سے۔ بلوچ قوم اپنے سرداروں کی منافقت پہچانیں۔ بشارت راجہ نے لکھا مینگل صاحب! قوم کو یہ بتائیں کہ آپ نے کن کے کہنے پر عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ووٹ دیا تھا۔ آپ اقتدار میں ہوں تو عین جمہوریت اور آپ کا سیاسی مخالف اقتدار میں ہو تو غیر جمہوریت آج جرنیل آپ کو نگران وزیراعظم بناتے تو سب ٹھیک ہوتا۔ ایک صارف نے لکھا بلدیاتی الیکشن گوادر ہسنی میں مولانا ہدایت الرحمان نے بلوچ سرداروں کے اتحاد کو شکست دی کلین سویپ کیا یہ جمہوریت انسانی حقوق کا علم بردار اختر مینگل اسٹیبلشمنٹ کا ٹاوٹ بن گیا، مولانا ہدایت الرحمان کو اغوا کیا سینکڑوں افراد کو جیلوں میں ڈالا تشدد کیا،دوغلے چیرے منافق بلوچ سردار۔ بابا یوگا نے لکھا پندرہ مہینے اقتدار کے مزے لینے کے بعد اسے پھر سے بلوچستان کے مسائل یاد آگئے عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا یہ بلوچ سردار اسٹیبلشمنٹ کی انگلیوں پر ناچتا رہا اور اب پھر سے اپنا منافق چہرہ لے آیا۔ ایک صارف نے لکھا الیکشن آتے ہی مینگل صاحب کو بلوچستان کی محرومیاں بیچنی یاد آ گئی حالانکہ مینگل صاحب شہباز شریف کی سربراہی میں پڈم کی آخری میٹنگ تک میں شامل ھوئے اب جب حکومت ختم ھو گئی تو انقلابی بن گئے پھر سے۔ بلوچ قوم اپنے سرداروں کی منافقت پہچانیں۔ ایک اور صارف نے لکھا پورے پانچ سال حکومتی بینچوں پر بیٹھے رہے اسٹبلشمنٹ نے خان کو نکالا تو اسکی بھی حمایت کی نواز شریف کی جھولی میں بیٹھ گئے اور اب حکومت کے جاتے ہی رونا دھونا شروع یہ وہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے بلوچستان کے یہ حالات ہیں۔
عمران ریاض سے متعلق سوال نہ پوچھنے پر صارفین سوشل میڈیا صحافیوں پر شدید برہم ہوئے، ہوا کچھ یوں کے گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف سے 80 کے قریب صحافی ملاقات کی، اس دوران کسی نے شہبازشریف سے عمران ریاض کے 3 ماہ سے لاپتہ ہونے سے متعلق سوال نہیں اٹھایا، جس پر سوشل میڈیا صارفین برس پڑے کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ارشد شریف کا قتل ہوا اسکی کیا پراگریس ہے، صحافیوں پر پابندیاں کیوں لگیں؟ ایک سیاسی جماعت کے ہزاروں کارکن اور رہنما جیل میں بند ہیں۔ شہباز گل نے لکھا درجنوں صحافیوں نے شہباز شریف سے ملاقات کی،سب کے سب اپنے ساتھی اپنے صحافی بھائی ارشد شریف کے قاتلوں کی بابت سوال کیا ہو گا، پوچھا ہو گا کس نے اس پر لاتعداد ایف آئی آر درج کروائی تھیں،عمران ریاض خان کی غیر قانونی حراست اور گمشدگی پر بھی پرزور احتجاج کیا ہو گا،خوش گمانیاں ثاقب بشیر نے لکھا عمران ریاض سے متعلق سوال ہوتا تو عالی جا اگر ناراض ہوجاتے تو پھر ؟ عدیل راجا نے لکھا درجنوں صحافی آج وزیر اعظم سے ملے، مریم اورنگزیب بھی تھی، جہاں وزیر اعظم نے بتایا کہ میں آنکھ کا تارا ہوں وہاں کسی صحافی نے عمران ریاض بارے سوال کیا؟ انہوں نے مزید لکھا سنا ہے سوالات پہلے سے سیٹ تھے اور ان لوگوں کو موقع دیا گیا جو چاپلوسی میں یدے طولی رکھتے ہیں۔ سحرش مان نے لکھا آنکھوں کے تارے کا گریبان پکڑ کر کسی چیتے صحافی نے اس سے سوال کیا کہ عمران ریاض کہاں ہے؟ صنم جاوید، طیبہ راجا، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید ، عمر چیمہ، شہریار آفریدی، اعجاز چوہدری کس حال میں ہیں؟ سب سے بڑھ کر سابق وزیر اعظم کو دیتھ سیل میں کیوں ڈالا گیا ہے؟ افضل نے ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا اس تصویر میں جتنے لوگ موجود ہے کسی نے مریم اورنگزیب یا وزیراعظم سے سوال نہیں کیا کہ عمران ریاض کہاں ہے؟ تین مہینوں سے ہو گئے اسے اغواء ہوئے ۔۔ اور یہ سارے خود کو صحافی بھی کہتے ہیں ۔۔ سب سے زیادہ افسوس کا ہے، ان سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔ حماد احمد نے لکھا پاکستان کے اکثر صحافیوں کا حال بھی وہی ہے جو اسٹبلشمنٹ کے کسی بھی مہرے کا ہوتا ہے۔ غم روزگار یا روزی روٹی کی لالچ نے اِن سے سوال کرنے کی جرات ہی ختم کر دی ہے۔ لیگی وزیروں کے ساتھ دانت نکالنے والے یہ صحافی کبھی یہ سوال نہیں کرتے کہ عمران ریاض کہاں ہے۔ شاہد حق نواز نے لکھا عمران ریاض خان کہاں ہے؟ سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ ہنستے مسکراتے سیلفیاں بنوانے والے صحافیوں نے یہ سوال کیا کبھی؟ان کے دور میں ارشد شریف کو شہید کیا گیا اور ہماری صحافی کمیونٹی چند ٹکوں کے لیے محترمہ کو پھولوں کے ہار پہنا رہی ہے،شرم کریں۔ وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا ہم یہ مانتے ہیں ہمارا ووٹ بنک متاثر ہوا، لیکن ہم نے ریاست بچائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاست بچ گئی توسب کچھ بچ گیا،16ماہ مشکل حالات میں حکومت چلائی، 16ماہ میں ایک روپے کا اسیکنڈل ہمارے خلاف نہیں آیا،آئندہ انتخابات ” ووٹ کوعزت دو” کے نعرے پرلڑیں گے۔ اسٹبلشمنٹ سے تعلقات سے متعلق سوال پر انھوں کہا تھا کہ کس دورمیں میرے اسٹبلشمنٹ کےساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے، لیکن یہ بتائیں کہ مجھے کب اور کس موقع پر رعایت دی گئی، 16 ماہ کی حکومت میں 8 ماہ احتجاج اورمارچ کی نظرہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگراکثریت ملی تووزیراعظم نوازشریف ہوں گے، نوازشریف کی واپسی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں، الیکشن ایکٹ کی ترمیم سےنوازشریف کی نااہلی ختم ہوچکی ہے۔ منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں آرمی چیف کی تعریف کے سوال پر انھوں نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعریف کرنے میں حرج کیا ہے؟ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ ایک دوروز میں ہوجائےگا، قائد حزب اختلاف سے آج بھی ملاقات شیڈول ہے، انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی ہے۔ وزیراعظم نے مذید کہا کہ ن لیگ کی خواہش ہے کہ جلد ازجلد اانتخابات ہوں، پاورسیکٹر میں میجر سرجری کی ضرورت ہے، نوازشریف نے اپنے دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی، اس سے بڑا کیا کارنامہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ملکی مفادات کوملحوض خاطرنہیں رکھا، 3ستمبر 2014 رات 12 مجھے چینی سفیرکا فون آیا، چینی سفیر نے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کا بتایا، آگلے روز اس وقت کے آرمی چیف سے ملاقات کی، ملاقات میں آرمی چیف سے چینی صدر کا دورہ یقینی بنانے کا کہا۔ تاہم تحریک انصاف دھرنا ختم کرنے سے انکارکیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ 16 ماہ کی حکومت کے سیاسی راز کبھی افشاں نہیں کرونگا، اگرہم کسٹم ڈیوٹی کی مد میں کنٹرول کرلیں تونیا ٹکس نہ لگانا پڑے، ہم نے اشرافیہ پر سپر ٹیکس لگایا تو اسٹے آرڈ آگیا۔ انھوں نے مذید کہا کہ اس وقت عدلیہ میں 60 ہزارکیسز التواء کا شکار ہیں، کیسز التواء کے باعث 26 ہزارارب روپیہ ریکور نہیں ہورہا، تمام اتحادیوں نے نگراں وزیراعظم اختیار دیا، صرف ایک جماعت نے کہا ہماری لیڈرشپ سے بات کرلیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور ان کے سپورٹرز نے یوم آزادی کے دن فالس فلیگ آپریشن کا خدشہ ظاہر کردیا، پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا گیا مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی ڈی ایم کے تخریب کاروں نے 9 مئی کے فالس فلیگ آپریشن کی طرز پر 14 اگست کے دن کے حوالے سے پاکستان کے جھنڈے جلا کر اس کا الزام تحریک انصاف کے ورکرز پر لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ایسے تخریب کاروں سے محتاط رہیں اور ان کو بےنقاب کریں۔ محمد ناصر صدیقی نے لکھا ایک بڑی سازش تیار ہے،عمران خان اور تحریک انصاف کو بدنام کرنے کےلیے ایک بڑی سازش تیار کی گئی ہے جسے نو مئی کے فالس فلیگ آپریشن کی طرز پہ استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید لکھا 14 اگست کو نامعلوم لوگ پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی کریں گے جو پاکستان تحریک انصاف کا پرچم اور بیجز لگائے ہوئے ہوں گے۔ ان لوگوں کا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہو گا لیکن یہ عام لوگوں کو بھی اشتعال دلائیں گے تاکہ اس مہم میں مزید لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکے۔ محمد ناصر صدیقی نے کہا ہم نے ایسی ہر سازش کو ناکام بنانا ہے ۔ ایسے لوگوں کو کوریج نہیں دینی۔ اگر آپ کے سامنے ایسا کچھ ہو تو کوشش کریں ایسے لوگوں کو پکڑ کر ان کے چہرے ایکپسوز کریں اور پولیس کے حوالے کر دیں۔ پاکستان ہمارا ہے نہ کہ کسی قبضہ گروپ کا لہذا ایسی ہر سازش کو ناکام بنانا ہے،ہم اس طرف کبھی نہیں جائیں گی جس جانب ظلم و جبر کے زریعے ہمیں دانستہ طور پہ دھکیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہمارا مسئلہ اس پرچم یا اس پاک دھرتی سے نہیں بلکہ اس پہ قابض اشرافیہ سے ہے۔ ان شاءاللہ ہم اپنی پرامن جدوجہد کے زریعے اپنی پاک دھرتی کو ایسے ناپاک لوگوں کے قبضے سے چھڑا کر عوامی حکمرانی قائم کریں گے ۔ 14 اگست کو ہم اس عہد کے ساتھ منائیں گے کہ گوروں سے جس طرح آزادی حاصل کی تھی ، اسی طرح ان کے غلاموں سے بھی اس دھرتی کو آزادی دلائیں گے جو اس پہ زبردستی قابض ہیں۔ عمران افضل راجہ نے کہا خبردار ہوشیار،جیسا کہ میں نے پہلے خبردار کیا فرحان ورک نامی مکس اچار لڑکے تیار کر رہا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کے بھیس میں پاکستان کے جھنڈے جلانے ہیں،اس کا ایک ثبوت مجھے ابھی اسی گروپ کے لڑکے نے بھیجا ہے،اکاؤنٹ مسلم لیگ ن کا ہے، شیئر کرنے والا استحکام پارٹی کا ورک ہے ۔۔ مگر خود پی ٹی آئی والوں کو ہی خبر نہیں کہ پاکستان کے پاسپورٹ پھاڑے جا رہے ہیں ؟ انہوں نے مزید کہا جھنڈے جلانے والے پندرہ سے بیس ہزار روپے فی ویڈیو والے لڑکے جمع کیے جا رہے ہیں،کوئی پاکستانی ، پاکستان زندہ باد کے نعرے کسی ورک حافج باجوے کے لیے نہیں لگاتا اپنے ملک کے لیے لگاتا ہے،خود کو اتنی ہی اہمیت دو جتنے جوگے ہو پہلے اپنی اڑان اس لیول پر تو لے کر آؤ۔
گزشتہ روز سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم مقرر کردیا گیا، وزیر اعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی ملاقات میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما کے نام پر اتفاق ہوا جسکے بعد صدر مملکت نے تعیناتی کی منظوری دی نگران وزیراعظم کیلئے بڑے بڑے اور مضبوط امیدوار موجود تھے لیکن آخرکار ایک سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) سے تعلق رکھنے والا سینیٹر ہی نگران وزیراعظم بنا جس پر سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بندہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا پھر کیسے وزیراعظم بن گیا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انوارالحق کاکڑ نہ ن لیگ کی مرضی کا ہے، نہ پیپلزپارٹی کی مرضی کا بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کا ہے۔ نگران وزیراعظم کی تعیناتی پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرہ کئے، کسی نے کہا کہ باپ رے باپ تو کسی نے کہا کہ باپ جیت گیا، بیٹے ہارگئے۔ ڈاکٹرشہبازگل نے مریم نواز کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ باپ پارٹی کو "باپ رے باپ"کہہ کر بلاتی ہیں۔۔اس پر شہبازگل نے کہا کہ باپ رےباپ۔۔ ابا جی، باجی اور چاچا جی المعروف آنکھوں کا تارا صحافی طارق عزیز نے کہا کہ پوری سیاسی قیادت ٹکے ٹوکری، انوارلحق کا کڑ کا نام آیااور سب نے دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ کیااور بیعت کی۔ ایک سے بڑھ کر دوسرا بہترین اور تاریخ ساز فیصلہ قرار دے رہا ہے کہ مالک خوش ہوجائیں صدیق جان نے تبصرہ کیا کہ باپ جیت گیا، بیٹے ہارگئے صابر شاکر نے کہا کہ باپ نے کہا باپ ,سب نے کہا باپ , اور اسطرح باپو آگئے ۔۔۔۔ تمام شیروانیاں پھٹ گئیں۔ بتایا بھی تھا تین مہینے پہلے کا یہ فیصلہ ہے ، نگران کابینہ بھی فائنل ہے اور اب بیوروکریسی کی باری ہے صحافی امتیاز عالم نے تبصرہ کیا کہ باپ رے باپ کے نگران وزیرآعظم انوار الحق کاکڑ کا انتخاب اہل اختیار کی مرضی۔ وہ ق لیگ،ن لیگ اور پھر باپ پارٹی میں رہے۔ وہ سب سے اچھے تعلق بنانے کے ماہر ہیں۔ پڑھے لکھے اور زہین ہیں۔ بلوچستان کی ھنگامہ پرور سیاست میں وہ اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ رہے ہیں۔ چلیں گے وہ انکے ہی اشارے پہ۔ عدیل راجہ نے طنز کیا کہ نواز شریف ڈٹ گیا کہ نعرے مارنے والے صحافی اب سینہ کوبی کر رہے!!! پہلے ہی علم تھا، نکا دغا دے گا، آنکھ کا تارا جو ہے! ہما نے تبصرہ کیا کہ قوم کے باپ نے باپ پارٹی سے بیٹا چن لیا۔۔ حکومت اور اپوزیشن دنوں نے ابو کے انتخاب پر رضامندی ظاہر کردی وقاص امجد نے کہا کہ باپ پارٹی والے اپنا وزیراعظم کے آئے ہیں جن کا کہیں نام ہی نہیں تھا۔۔۔ پی ڈی ایم والوں کے ساتھ آگے بھی ایسے ہی ہاتھ ہونے والے ہیں۔۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ایک لفافہ صحافی شدومد سے یہ تبلیغ کر رہا ہے کہ نگران وزیرِاعظم کے معاملے میں ن لیگ کی حکومت نے چھوٹے صوبے کو نمائندگی دی ہے اصل میں راجہ ریاض کے ذریعہ "باپ پارٹی" نے انوار الحق کاکڑ کا نام پیغام کے ساتھ بھیجا کہ بیٹا یہ نگران وزیرِ اعظم ہو گا دستخط کر دو شفقت چوہدری نےلکھا کہ باپ پارٹی باپو کی فرمان بردار ہے اسی لئے وہیں سے نگران وزیراعظم بھی لیا ہے ویسے بھی سیاستدان چاہتے تھے کہ ابھی الیکشن نہ ہوں اور اسٹیبلشمنٹ نگران سیٹ اپ چلاتی رہے تو پھر بندہ بھی تو انہوں نے اپنا ہی لانا تھا نااسی لئے تو ریکوڈک والے بابا سب سے ملاقاتیں کر رہے تھے
کیا انوارالحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کاروائیاں رک پائیں گی؟ بلوچستان عوامی پارٹی کے سنیٹرانوارالحق کاکڑ نگران وزیراعظم بن گئے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی شہبازحکومت میں انکی اتحادی تھی اور اس سے قبل یہ عمران خان کے اتحادی تھے۔ باپ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھی جاتی ہے اور اسکے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انوارالحق کاکڑ وہی کرینگے جو اسٹیبلشمنٹ کہے گی۔ انوارلحق کاکڑ کے اگرچہ عمران خان سے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن حال ہی میں وہ عمران خان کے خلاف انتہائی سخت بیانات داغ چکے ہیں اور انکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انکے آنے کے بعد تحریک انصاف پر سختیاں کم نہیں ہونگی اور وہ تحریک انصاف کو الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملے گی ۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نومئی کے واقعات کے بعد بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے پاکستانی قوم کو مایوس کیا۔ انکی ساڑے تین برس کی کارکردگی کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ انکو اگر دوبارہ موقع ملے تو یہ پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ صرف یہی نہیں انوارالحق کاکڑ نے نومئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا کیس فوجی عدالت میں بھی چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ سنو نیوز کے صحافی عمران بھٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف کی مقبولیت ہی سب سے بڑی پارٹی کی دشمن ثابت ہورہی ہے،لوگوں کو زبردستی اظہار الفت پر مجبور کیا جارہا ہے، الیکشن میں تحریک انصاف کا امیدوار کھڑا نہیں ہونے دیا جائے گا سب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جہاں بھی تحریک انصاف کا امیدوار کھڑا ہوا وہاں سے جیت جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بظاہرایسا لگ رہا ہے کہ امیدوار کہیں مل بھی گیا تو اسکو مہم نہیں چلانے دی جائے کی اور پولنگ ایجنٹ بھی کھڑا نہی ہونے دیا جائے گا،اگر کھڑا ہو بھی گیا تو نتائج مرضی کے حاصل کر کے اسکےدستخط لیے جائیں گے۔ عمران بھٹی کے مطابق لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے گا،گھروں پر چھاپے مارے جارہے ٓخواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جارہی ہے،املاک تباہ کی جارہی ہے،کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ تحریک انصاف کے سپوٹرز کو الیکشن سے بددل کردیا جائے وہ انتخابات میں حصہ ہی نہ لیں اور جو تحریک انصاف کو چھوڑ دے گا اسکی بچت ہوگی،۔
پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے مفرور اور اشتہاری افراد کی میڈیا کوریج پر پابندی کے فیصلے کے بعد نشانہ بننے والے افراد کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پیمرانے عدالت سے مفرور یا اشتہاری قرار دیئے جانے پر 11 افراد کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کی ہے، ان میں سینئر صحافی ، تجزیہ کار ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین شامل ہیں۔ پیمرا کے اس فیصلے کا نشانہ بننے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انتقام، بغض اور حسد کا کوئی علاج نہیں ہے، مجھے مئی 2022 سے آف ایئر کروایا گیا ہے، میرا روزگار چھینا جاچکا ہے، ہم پر کئی جھوٹےمقدمات درج کروائے گئے، جن لوگوں کی میڈیا کوریج پر پابندی لگائی گئی وہ تو پہلے ہی آف ایئر ہیں۔ صابر شاکر نے مزید کہا کہ پیمرا کے دوستوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا ہے کہ بھائی مجبوری ہے سمجھا کریں۔ سینئر صحافی وجاہت سعید خان کا کہنا ہے کہ آپ آٹو گرافس اور ایونٹس کیلئے میری ایجنٹ سے رابطہ کرسکتے ہیں، تاہم وہ صرف ویک اینڈز پر ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے اشتہاری اسحاق ڈار کے مفرور رہنے کے بعد سرکاری جہاز میں وطن واپسی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نیب کرپشن ٹرائل میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے اسحاق ڈار بطور اشتہاری وزیراعظم کے سرکاری جہاز میں 2022 میں واپس آکر وزیر خزانہ بن گئے تھے۔ حماد اظہر نے بھی یہی تصویر شیئر کی جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کو بھی اسحاق ڈار کے ہمراہ دیکھا جاسکتا ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ یہ دیکھیں کیسے عدالت سے اشتہاری قرار دیئے جانے والوں کو واپس لایا جاتا ہے اور وہ بھی وزیراعظم کے سرکاری جہاز پر۔ خیال رہے کہ پیمرا نے حماد اظہر، مراد سعید، فرخ حبیب، علی نواز اعوان، صابر شاکر،معید پیرزادہ، وجاہت سعید خان، عادل فاروق راجا سمیت 11 افراد کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کی ہے۔
چیف آرگنائزر ونائب صدر مسلم لیگ ن مریم نوازشریف کی طرف سے ملک بھر سے خواتین کو مسلم لیگ ن کی تنظیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت کی دعوت پر سوشل میڈیا صارفین کا شدید ردعمل۔ پاکستان مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات سے پہلے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تنظیم سازی کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے ملک بھر کی خواتین کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل کرنے کے حوالے سے ویڈیو جاری کی گئی جس پر مریم نوازشریف نے لکھا کہ: کم آن گرلز، جوائن می، جوائن ایم ایس ایف! مریم نوازشریف کے ٹوئٹر پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ملیکہ علی بخاری نے لکھا کہ: مریم نوازشریف کی زیرنگرانی پچھلے 16 مہینوں کے دوران خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہراساں کیا گیا اور ان کے چچا بطور وزیراعظم اقتدار میں تھے۔ ان کی سیاست خواتین سیاست کیلئے نہیں بلکہ طاقت جمع کرنے کیلئے ہے! مریم نوازشریف کی یہ مہم مخالف خواتین پر حملہ کرنے اور بدنام کرنے کیلئے ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ: مریم نوازشریف کی خواہش ہے کہ خواتین ان کے ساتھ مل کر ہر اس شخص کو غیرقانونی اغواء کرنے میں مہارت حاصل کریں جو ان کی مخالفت کرے یا ان کا مذاق اڑائے۔ خدیجہ شاہ، صنم اور ان جیسی لاتعداد خواتین اور مرد مریم نوازشریف کے حکم پر جیل میں قید کیے گئے ہیں۔ فاشسٹ ہندا! ایک صارف امجد علی شاہ نے لکھا کہ: پاکستان کی طالبات کوئی بے وقوف نہیں ہیں کہ وہ ایک ایسی جماعت کی طلباء فیڈریشن کا حصہ بنیں جس کا نظریہ صرف لوٹ مار ہو! پاکستان کی طلباء اور طالبات کے لئے پہلے سے آئی ایس ایف کی شکل میں ایک ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جو انصاف، علم اور برداشت کے اصولوں پر گامزن ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے کیسز میں قید خواتین کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: کم آن گرلز، جوائن می! ایک صارف نے لکھا کہ: سارا خاندان دوسروں کی خواتین کو بے عزت کرتا رہا، اس کا باپ بینظیر کی ننگی تصویریں پھینکتا رہا، خواجہ آصف خواتین کے بارے غلیظ لفظ بولتا رہا، سابق خاتون اول کو طرح طرح کے توہین آمیز القابات سے پکارتے رہے اور یہ آج خواتین کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جوائن کرنے کا کہہ رہی ہیں! کرتوت دیکھ کے بات کیا کرو فتنہ عورت!
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری منظرعام پر آگئی جس میں انکشافات کیے گئے ہیں کہ بشریٰ بی بی عمران خان کو کیسے کنٹرول کرتی تھیں؟ بشریٰ بی بی نے عمران خان کو عدلیہ اور فوج پر دباؤ ڈالنے کی ہدایات دیں۔ یہ ڈائری سب سے پہلے سماء ٹی وی پر آئی اسکے بعد باقی چینلز نے بھی ڈائری دکھائی۔۔ اگرچہ اس ڈائری کوتہلکہ خیز انکشاف کے طور پر شئیر کیا گیا تھا لیکن یہ ڈائری سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر ڈائری سامنے لانے والوں کا مذاق بن گیا اور اسے انتہائی مضحکہ خیز قرار دیا سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ سائفر پر دفاع نہیں ہوپارہا تھا سلئے ڈائری لانچ کی گئی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی ایک ہی گھر میں رہتے تھے، کیا انکی بول چال بند تھی یا بشریٰ بی بی قوت گویائی یعنی بولنے کی صلاحیت سے محروم تھی جو ڈائری لکھ کر عمران خان کو بتاتی تھیں؟ عمران خان کے وکیل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ڈائریاں اور ٹوٹکے وہ لکھیں جو نئے نئے سیاستدان بنے ہیں ہمارا کپتان تو کھلاڑی ہے ٹوٹکے صحت کے ہوں یا سیاست کے وہ مکمل عبور رکھتا ہے منصورعلی خان کا کہنا تھا کہ ڈائری کے صفحے دِیکھا کر ووٹ کے صفحے نہیں بدلتے جناب ! صحافی عزیر یونس نے کہا کہ بات اگر ڈائری تک آگئی ہے تو پھر خان صاحب کو ہی آنے دیں، کیونکہ آپ سے نہیں ہو پا رہا استاد! طارق متین نے تبصرہ کیا کہ یہ قوم آڈیو نہیں مان رہی اور اسے ڈائری منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سلمان درانی کا کہنا تھا کہ جرنلزم کا معیار اتنا گرگیا ہے کہ بات ایک خاتون خانہ کی ڈائری پر آختم ہوئی۔ جرنلزم سے جنرل ازم تک کا تیز رفتار اور حیرت انگیز سفر مکمل ہوا۔ ڈاکٹرشہبازگل نے لکھا کہ گرفتاری پانچ اگست کو ہوئی۔ ڈائری اچانک اتنے دنوں بعد سامنے آئی۔ شکر کریں اب توپ نہیں نکال لیتی یہ حکومت۔ ایک کے بعد ایک افسانہ۔ اکبر نے لکھا کہ پرسنل ڈائری تو بیڈروم اورپرسنل الماری دراز وغیرہ میں ہوتی ہے ۔۔ وہاں تک پہنچ گئے تھے ؟کوئی پورے میڈیا میں نہیں پوچھ رہا اگر یہ اصلی ہے تو کیا آپ ایک خاتون کے بیڈروم گھس کر اس کی پرسنل ڈائری تک لے آئے ہیں ؟ احتشام نے کہا کہ لگتا ہے خان اور بشریٰ بی بی الگ الگ ملکوں میں رہتے تھے اسلئیے وہ ڈائری لکھ کر بھیجتی تھی۔۔۔ چلو ڈائری ہے بھی تو کیا ہوگا؟ سحرش نے تبصرہ کیا کہ سائفر خبر پر امریکی صحافیوں سے سورس پوچھنے والے کامے اور موچی ڈائرئ پر فورا ایمان لے آئے ہیں محمد عمیر نے ایک سکرین شاٹ شئیر کرتے ہوئے کہا تہلکہ خیز انکشاف بشری بی بی کی ڈائری کا ایک اور صفحہ سامنے آگیا طارق متین نے کہا کہ #سائفر_ایک_حقیقت حلق تک آ گیا تھا اس لیے جی ایس پی کو ٹونٹی سے کنفیوژ کرنے والی کڑک کڑک کڑک کڑیں سرکار سے ڈائری نکلوائی گئی ہے مغیث علی نے لکھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی کا بیپر ہر چینل کیوں لے رہا ہے؟ چکر کیا ہے؟ وسیم عباسی کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں بہن بھائی کا ایک دوسرے کی ڈائری پڑھنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ڈائری جیسی ذاتی چیز پر رپورٹنگ افسوسناک ہے۔
ہم نہ باز آئیں گے محبت سے۔۔ ٹک ٹاک، فیس بک، ٹوئٹر پر پی ٹی آئی سپورٹرز کی نئی کمپین نے زور پکڑنا شروع کردیا تحریک انصاف کو آج کل ریاستی پابندیوں کا سامنا ہے، تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں پر غیراعلانیہ پابندی ہے، پی ٹی آئی سپورٹرز عمران خان کے حق میں سڑک پر آئیں، جھنڈے لیکر جائیں تو پولیس انکے پیچھے پڑجاتی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت بھی آج کل انڈرگراؤنڈ ہے جبکہ عمران خان گرفتار ہیں۔ ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے عمران خان سے اظہاریکجہتی کیلئے نئی کمپین لانچ کی ہے جس کا عنوان "ہم نہ باز آئیں گے محبت سے۔۔ جان جائے گی اور کیا ہوگا" نام کے ایک گیت پر رکھا گیا ہے۔یہ گانا سب سے پہلے نصرت فتح علی خان اور بعدازاں حدیقہ کیانی نے گایا تھا۔ یہ کمپین اگرچہ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب پر بھی چل رہی ہے لیکن سب سے زیادہ یہ کمپین ٹک ٹاک پہ چل رہی ہے۔کچھ سوشل میڈیا صارفین بیک گراؤنڈ پہ گانا پیش کرکے مختلف مناظر کیساتھ ویڈیوز شئیر کررہے ہیں تو کچھ جذباتی انداز میں خود گاکر فیصل خان نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں ایک شخص پہاڑوں پر اکیلا کھڑا گارہاہےا ور اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو متوجہ کئے رکھا۔ کچھ روز قبل صوابی میں ایک بزرگ کو گرفتار کیا گیا۔ یہ بزرگ رہا ہوا تو رہائی کے بعد بھی عمران خان کے حق میں نعرے لگادئیے جس پر پی ٹی آئی لیڈرعثمان سعیدبسرانے تبصرہ کیا کہ صوابی میں رہائی پانے والے بزرگ جیل کے باہر کیا نعرے لگا رہے؟؟؟؟؟ دراصل یہ ہے کہ ہم نہ باز آئیں گے محبت سے ۔۔ جان جائے گی اور کیا ہوگا ؟؟ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی اپنی ویڈیوز بناکر شئیر کیں بعض سوشل میڈیا صارفین نے ٹوئٹر پر #ہم_نہ_باز_آئینگے_محبت_سے کے نام سے ٹرینڈ بھی شروع کیا اور اسی ٹرینڈ کو استعمال کرکے ویڈیوز شئیر کرتے رہے واضح رہے کہ گزشتہ سال جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا اس وقت بھی پی ٹی آئی سپورٹرز نے "ہم کھڑے تھے" نام سے کمپین چلائی تھی جو بہت پاپولر ہوئی تھی۔
احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت عدم پیروی پر مسترد کردی ہے، قانونی ماہرین کے عدالتی فیصلےپر تبصرے، عمران خان کو کسی نئے کیس میں گرفتار کرنے کی کوشش کا خدشہ قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت اسلام آباد نے القادر ٹرسٹ کسک اور توشہ خانہ نبت کسو مںے عمران خان کی عدم پیروی ضمانت خارج کر دی۔ گزشتہ دونوں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اس خدشے کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نا ہو دیگر کیسز میں عمران خان کی ضمانت خارج ہوجائے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک کیس میں گرفتار شخص کو دوسرے کیسز میں گرفتار کرلیا جائے، یہ آصف علی زرداری کیس میں طے کیاجاچکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اسلام آباد کی احتساب عدالت کے آج ضمانت خارج کرنے کے فیصلے پر قانونی ماہرین نے سوالات کھڑے کردیئے ہیں اور خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ اگر توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو رہائی مل گئی تو انہیں القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ قانون دان ایڈووکیٹ عبدالغفار نے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فصلے کے مطابق عبوری ضمانت دوبارہ اسی عدالت مںن دائر ہو سکتی ہے جس نے پہلے عدم پرسوی خارج کی ہو لکن چونکہ عمران خان جلس مںا ہں اسلیئے اس آرڈر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرکے گرفتاری سے روکا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے اپیل میں سزا معطل نا کرنے کا مقصد پورا ہوا ہے۔ صحافی امیر عباس نے کہا کہ عمران خان کو اگر توشہ خانہ کیس میں ملنے والی سزا میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ریلیف مل بھی گیا تو وہ القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار رہیں گے۔ ان پر وہی آزمودہ فارمولا لگایا جائیگا کہ ایک کیس میں باہر نکلیں گے اور دوسرے میں اندر کردیا جائے۔ علی ملک نے کہا کہ جج صاحب کو شائد معلوم نہیں کہ کیس میں پیروی ممکن نہیں، لیکن جب میچ پہلے سے فکس ہوں اور فیصلے پہلے سے لکھ کر بھیج دیے جاتے ہوں تو پھر انصاف کا تو ایسے ہی بول بالا ہو گا۔ کامران واحد نے لکھا کہ کوئی اس جج کو بتائے کہ ضمانتیں خارج ہوگئی ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے وقت پولیس اہلکاروں نے کیا کچھ کیا؟ کیسے بدتمیزی کرتے اور اشیاء لوٹتے رہے؟ بشریٰ بی بی کے انکشافات صحافی نعیم پنجوتھہ نے انکشاف کیا کہ آج بشریٰ عمران خان نے بتایا کہ عمران خان کی غیر قانونی گرفتاری کے وقت زبردستی میرے بیڈ روم میں داخل ہوئے اور پورے گھر کی تلاشی لینے لگ گئے۔ بشریٰ بی بی کے مطابق میرے اتنا کہنے پر کہ عمران خان جب گرفتاری دے رہے ہیں تو یہ توڑ پھوڑ کیوں اور یہ تلاشیاں کیوں لے رہے ہیں، جس پر انتہائی بدتمیز ی کی گئی بشریٰ بی بی نے مزید بتایا کہ الماری میں موجود گھریلو استعمال کے لیے موجود تھوڑی سی رقم کو پیک کیا جس پر میں نے کہا کہ لوٹ لیں جو کچھ لوٹنا ہے لیکن ہمارے ساتھ بدتمیزی نہ کی جائے اور توڑ پھوڑ نہ کی جائے جس پر شدید غصے سے مجھے دھمکیاں اور بد تمیزی کی گئی عمران خان کی اہلیہ کے مطابق واپس جاتے ہوئے گھر سے کافی اشیااٹھا کر لے گئے مزید کہا کہ یہ ایک سوچاسمجھا حملہ تھا جس کا مقصد غیر قانونی گرفتاری کے علاوہ دیگر پارٹی ممبران کی طرح کا حملہ کرنا، دباؤ ڈالنا اور گھریلو اشیا کی توڑ پھوڑ بھی تھا
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں دو روز میں گارڈز پر تشدد کا دوسرا واقعہ سامنےآگیا ہے، بااثرا افرادنے غلط پارکنگ سے روکنے پر غنڈے بلوا کر نجی سیکیورٹی گارڈ کو دھو ڈالا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقےڈیفنس میں ہی نجی سیکیورٹی گارڈ پر تشدد کا دوسرا واقعہ سامنے آگیا ہے، واقعہ کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیفنس فیز 5 میں غلط پارکنگ سے روکنےپر بااثر افراد کے ملازمین نے پارکنگ کمپنی کے گارڈ پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کردی۔ متاثرہ سیکیورٹی گارڈ نےملزمان کے خلاف کارروائی کیلئے متعلقہ تھانے میں درخواست دائر کردی ہے جس پر جلد ہی مقدمہ درج کرلیا جائے گا۔ صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے واقعہ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس لاہور میں ایک پارکنگ گارڈ کو اپنی ڈیوٹی کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما کھیل داس کوہستانی نے بھی اس واقعہ پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کو کس نے وحشیانہ تشدد کا اختیار دیا ہے، یہ سرے عام دہشتگردی ہے، لاہور پولیس کہاں ہے؟ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ ڈیفنس میں امیر زادے اور غنڈے سیکیورٹی گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں، پولیس سےکچھ نا پوچھیں کیونکہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں،کارکنوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں۔ فاروق مغل نامی صارف نے کہا کہ اس بے چارے کی تنخواہ 25 سے 30ہزار ہوگی اور اسے بری طرح سے مار پڑی، یہ پرائیویٹ گارڈز کلچر کہاں سے آگیا ہے؟ ان کو لگام ڈالنی چاہیے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور کےہی علاقے ڈیفنس میں ایک ڈیفنس سیکیورٹی کے اہلکار کی جانب سے غلط سائیڈ پر گاڑی موڑنے سے روکنے پر گاڑی میں سوار مسلح افراد نے گارڈ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور شدید ہوائی فائرنگ بھی کی تھی۔

Back
Top