سوشل میڈیا کی خبریں

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کی گاڑی روک کر احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔کچھ روز پہلے شہباز شریف نے اپنے حلقے کاہنے کا دورہ کیا تھا۔ جب وہ پانڈو نامی گاوں میں عوامی اجتماع سے خطاب کرکے پرانا کاہنہ پہنچے تو روہی نالہ بحالی تحریک کے عہدے داران نے انہیں روک لیا۔ شہباز شریف کی گاڑی روکنے والوں میں اہل علاقہ بھی شامل تھے جنہوں نے فیروز پور روڈ کو بلاک کرکے سابق وزیراعظم کی گاڑی کو روکا۔ ذرائع کے مطابق احتجاج کرنے والے 4 نامزد اور 90 معلوم افراد کے خلاف اب مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ علاقے کے لوگ اپنے مسائل کیلئے درخواست دینا چاہتے تھے۔ مقامی افراد سے درخواست لے لی گئی ہے، علاقے کے لوگوں کی شہباز شریف سے ملاقات بھی ہو گئی ہے اور وہ مطمئن ہو کر چلے گئے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لوگوں نے میری گاڑی روک کر اپنے مسائل بیان کیے، آج انکے نمائندوں کو مدعو کیا، مسائل کو سنا اور حل کی یقین دہانی کرائی۔ مقدمہ درج کروانے کے خلاف سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل دے دیا,نوید نے لکھا شہباز شریف کی گاڑی کے سامنے احتجاج کرنے کی جرت کیسے ہوئی ، چار نامزد اور 90 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج , بوٹ پالشی جب وزیراعظم تھا تو سکھر میں دورہ کے دوران احتجاج کرنےوالوں پر بھی مقدمہ درج ہوا تھا,اسٹیبلشمنٹ اپنے ٹٹوؤں کے خلاف احتجاج بھی برداشت نہیں کر رہی عدیل راجہ نے طنزیہ لکھابادشاہ سلامت کے سامنے احتجاج کی ہمت کمی کمینوں کی؟ عمران نے لکھامیاں صاحب مبارک ہو آپ کے حلقے کے جن لوگوں نے آپکی گاڑی روک کر آپ سے اپنے مسائل بیان کئے تھے ان پر پولیس کی مدعیت میں مقدمہ ہو گیا ہے !! عبد الغفار نے لکھا پہلے احتجاج کرنیوالوں میں سے چند ایک کو گھر بلا کر انکے مسائل سننے کا ناٹک کیا اور چند روز گزرنے کے بعد شہنشاہ کی گستاخی کرنے پر مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ ثاقب بشیر نے کہا مقدمہ بہت ضروری تھا کیونکہ ایسا دور چل رہا ہے احتجاج کی ہمت کیسے ہوئی ان کو پتہ نہیں شہنشاہ معظم تشریف لائے تھے. https://x.com/saqibbashir156/status/1712335046869233969?t=D1QwZl9RcvP_OSAo2bXZIg&s=08 دیگر صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر تنقید کی جارہی ہے.
احتساب عدالت نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے قبل عدالت کو آگاہ کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے، اسی عدالت نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی گرفتاری سے 10 روز قبل آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت نے بشریٰ بی بی کی گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کی درخواست نمٹادی ہے، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق نیب کسی بھی گرفتاری سے پہلے آگاہ کرنے کا پابند نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر انصاف کے دہرے معیار پر صارفین نے سخت احتجاج کیا ہے کہ ایک طرف مریم نواز کیلئے عدالت الگ معیار اپناتی ہے تو دوسری جانب اس وقت زیر عتاب آئی تحریک انصاف کے چیئرمین کی اہلیہ کیلئے عدالت کا انصاف کا معیار بالکل الگ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کےقانونی امور پر ترجمان نعیم حیدر پنجوتھا نے مریم نواز کی گرفتاری سے 10 روز قبل آگاہ کرنے سے متعلق خبر کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نیب جب چاہے بشریٰ بی بی کو گرفتار کرے، نیب کو روکا نہیں جاسکتا، یہ نظام کس قدر یرغمال بنایا جاچکا ہے ، انصاف کا دہرا معیار کیوں؟ صحافی رائے مختار احمد نے کہا کہ یہ کیسی بندر کورٹس ہیں، نیب جب چاہے بشریٰ بی بی کو گرفتار کرسکتی ہیں مگر نیب جب چاہےمریم نواز کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ شفقت چوہدری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے21 اپریل2021 کو نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ مریم نواز شریف کو گرفتاری سے 10 روز پہلے نوٹس جاری کرے گا، اس موقع پر ناجائز دولت کے کیس میں گرفتاری سے قبل آگاہی دینے کی پابندی نا ہونے کا فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا تھا، وکلاء کیسے سب کچھ بھول جاتے ہیں؟ ارسلان بلوچ نے اس عدالتی فیصلے کو ایک ریاست دو دستور سے مشابہت دی ۔
معروف صحافی رانا عظیم پر بجلی چوری کا الزام، مقدمہ درج کرلیا گیا ترجمان لیسکو کے مطابق ملزم میٹر ٹمپر کرکے بجلی چوری کر رہا تھا جس کے باعث قومی خزانے کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا، ملزم چوری کی بجلی سے گھر میں اے سی چلا رہا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کورٹ رپورٹرز نے سئنیر صحافی رانا عظیم کیخلاف جھوٹے مقدمے کے اندارج پر مذمت کی اور جھوٹا، من گھڑت اور بے بنیاد مقدمہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کردیا صحافی شاکر اعوان کا اس پر کہنا تھا کہ حکومت مخالف، پی ڈی ایم مخالف اور خفیہ طاقتوں کیخلاف بولنے والے صحافیوں کیخلاف انتقامی کاروائیاں شروع،،،سئنیر صحافی اینکر پرسن رانا عظیم پر بجلی چوری کا مقدمہ درج کردیا گیا،،رانا عظیم صاحب کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ابھی بھی باز آجائیں وگرنہ اگلا مقدمہ جوتی چوری کا درج کریں گے
گزشتہ روز عاصمہ شیرازی کو صداقت عباسی کا بیان 161 کا اور 164 کا لگا اور بہت اہم لگا۔ عادل شاہزیب کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صداقت عباسی کا بیان ایک قسم کا 161 اور 164 کا بیان تھا اور یہ بیان بہت اہم ہے۔ انکے مطابق یہ بیان بہت اہم ہے کیونکہ صداقت عباسی بتارہے ہیں کہ 9 مئی کی پلاننگ ہوئی تھی اور اسکے تحت یہ ہوا تھا، یہ ہوا تھا اور جو لوگ ملوث تھے انکے خلاف کاروائی ہونا چاہئے عاصمہ شیرازی کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ 164 کا بیان تو مجسٹریٹ کی موجودگی میں ہوتا ہے ، کیا عادل شاہزیب کو مجسٹریٹ کے بھی اختیارات مل گئے ہیں؟ شہزاداکبر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج کے وی لاگ میں نشاندہی کی تھی کہ بھائی لوگوں نے حکم دیا کہ 164 کے بیان کے حق میں بات کرنی ہے سب نے، یہ وہ سب ہیں جو حکم کی تعمیل کر رہے ہیں …نیچے دیا گیا مسیج سب کو کیا گیا تھا آج صبح۔ انہوں نے عاصمہ شیرازی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ویلڈن صحافت اس پر عاصمہ شیرازی نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب ! حکم وکم چھوڑیں جو آپ مانتے تھے یہ بتائیں واپس کب آ رہے ہیں، اُمید ہے جلد ملک واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کریں گے شہزاداکبر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ویسے جب آپکی اسٹیبلشمنٹ نے میرا بھائی اٹھا لیا اور انکا مقصدمجھ سے ایسے ہی بیان دلوانا تھا ،تب مجھے آپکا کوئی بیان یا ٹویٹ نظر نہیں آیا انہوں نے مزید کہا کہ میری امید ہے میری واپسی کا مطالبہ کہیں اسی سلسلے کی کڑی نہ ہو جس سلسلے میں میرے بھائی کو اٹھایا گیا تھا؟ کیونکہ سب باتوں کے باوجود آپ سے رشتہ بھابھی والا بھی ہے شہزاد اکبر کا مزید کہنا تھا کہ میرا برادرانہ مشورہ صرف یہ ہے کہ آپ اپنا بیانیہ بناے دوسروں کے باینیہ کے پرچار کی آپ کو ضرورت نہیں آپ بحر کیف اسٹیبلش صحافی ہیں…
سینئر صحافی اعزاز سید نے دعویٰ کیا ہے کہ سائبر کیس میں عمران خان کو دسمبر تک سزا ہونے کا امکان ہے اور عمران خان کو تین سے 14 سال تک سزا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے عمران خان کو چالان میں باندھ دیا ہے۔ سائفر کیس میں عمران خان کیخلاف پرائم گواہ اعظم خان ہے، اور عمران خان کا اعتراف جرم بھی سامنے ہے کہ سائفر گم کرچکا ہے۔ اس کیس میں عمران خان کی سزا اور نااہلی دیوار پر لکھی ہوئی ہے، اس کو کوئی بچا نہیں سکتا انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں پھنس چکےہیں۔ وہ اس کیس سے بچتےنظر نہیں آرہے۔ 17دسمبر تک چیئرمین پی ٹی آئی کو اس کیس میں سزا ہوسکتی ہے، صحافی امیر عباس نے کہا کہ جی ہاں یہ تو اب ہر خاص و عام کا پتہ ہے کہ سزا تو دسمبر تک دینی ہی دینی ہے کیونکہ جنوری میں تو الیکشن ہونے ہیں اور الیکشن سے پہلے انصاف کا قضیہ بھی تو مکمل کرنا ہے انتظار پنجوتھہ نے جواب دیا کہ اسے کہتے ہیں غائب کا علم ہونا، فکس میچ میں یہی ہوتا ہے کہ میچ سے پہلے نتیجہ معلوم ہوتا ہے، اب یہاں حسنات صاحب کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوگئی ہے لیکن ہمارا نکتہ ثابت کرنے پر شکریہ ادا کرنا بنتا ہے کیونکہ ہم یہی کہہ رہے کہ یہ سائفر کیس ایک ڈرامہ ہے اور اس ٹرائل کو توشہ خانہ کی طرز پر چلا کر صرف سزا دینا مقصود ہے ، وکیل اور وکالت صرف قانونی جنگ لڑ سکتے ہیں لیکن عمران خان کے خلاف جنگ لڑنے والے کسی قانونی و اخلاقی بندش کا لحاظ نہیں کر رہے اس پر مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ ان صاحب کو خان صاحب کی طوطے سے فال نکالنے کا شوق کچھ دو سال سے ہے۰ اور ان کا طوطا بھی ان کی طرح اناڑی ہے رضوان غلیزئی نے کہا کہ کوئی قاضی فائز عیسی صاحب کو بتائے کہ انکے نظام انصاف میں بعض صحافی ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی کیسز کے فیصلے اور ٹائم لائن بتادیتے ہیں۔
گزشتہ روز عمران خان نے اڈیالہ جیل میں اپنے وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جارہا، ایک چھوٹے سے پنجرے میں بند کردیاگیاہے، جیل میں چہل قدمی کی بھی جگہ نہیں، عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ سے کوئی سہولیات کا مطالبہ نہیں کر رہا، جیل مینول کے مطابق مجھے ٹریٹ کیا جائے، میرے چلنے پھرنے پر پابندی ہے، کم از کم مجھے ورزش کرنے اور چہل قدمی کی اجازت ہونی چاہئے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق عمران خان کا بلڈ پریشر کافی زیادہ لگ رہا تھا، جس طرح ان کے ساتھ جیل میں سلوک کیا جارہا ہے اس پر وہ غصے میں تھے عطاء تارڑ نے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کاکلپ شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خان بریک ہو رہا ہے۔ آج ٹہلنے کی جگہ مانگ لی ہے اور غصے میں بھی ہیں۔ اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ صحافی طارق متین نے تبصرہ کیا کہ سیل سے نکل کر ٹہلنا ملک سے نکل کر بہلنے سے بہتر ہے فہیم اختر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان نہیں دراصل اعتراف ہے کہ وہ مسلسل عمران خان کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں ناں مائنس ہونے کےلئے اور ناں ہی باہر جانے کےلئے، یہ اعصاب کی لڑائی ہے جس میں عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں اس گیم میں وہ ماسٹر ہیں نیک روح کا کہنا تھا کہ خان نے کہا ہے مجھے فیور نہیں چاہیے بس جو قیدی کے حقوق ہیں وہ دیں۔ بریک وہ ہوتا ہے جو ہر بار ملک سے بھاگتا بھی این آر او کرکے اور واپس بھی این آر او کرکے آتا۔ اکبر نے جواب دیا کہ اس بیان سے اندازہ لگا لیں انکو بھی پتہ ہے خان اب تک بریک نہیں ہوا اور ڈی کلاس جیل دیکر اسے بریک کرنا ہی اصل مقصد ہے امجد خان نے سوال کیا کہ ٹہلنے کی جگہ مانگنے کا مطلب بریک ہونا ہے ؟؟ ساجداکرام نے جواب دیا کہ ٹہلنے کی جگہ مانگنے سے بریک ہو رہا ہے ۔ واہ بھئی واہ۔ اصل میں بیچاروں نے کبھی دیکھا نہیں نا ایسے۔ اپنا لیڈر انکو سوتا ہوا چھوڑ کر نکل جاتا ڈیلیں کر کے سعید بلوچ نے کہا کہ تارڑ صاحب جو خود پاؤں پڑ گئے تھے انہیں کسی سیاسی مخالف کے بریک ہونے پر بات نہیں کرنی چاہیے ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ٹہلنے کی جگہ مانگی ھے پچاس کے سٹامپ پر بھاگنے کے لیے منتیں نہی کر رہا ھے
پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما صداقت عباسی نے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 9 مئی کا واقعہ چیئرمین تحریک انصاف کی ذہن سازی کا نتیجہ تھا، وہ نہیں چاہتے تھےکہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنیں۔ نجی ٹی وی پروگرام میں صداقت عباسی نے کہا ہے کہ 9 مئی کو جو واقعات ہوئے ہیں وہ نہیں ہونے چاہئیں تھے، پی ٹی آئی کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ اب میں مزید نومئی کا بوجھ اپنے کندھوں پرنہیں اٹھاسکتا۔ انہوں نےدعوی کیا کہ مئی کو فیصلہ ہوا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد ردعمل کا اظہار کرناہے۔ صداقت عباسی کے ڈان کو دئیے گئے اس انٹرویو پر صحافیوں نے دلچسپ ردعمل دیا انکا کہنا تھا کہ ڈان نے صحافت کا جنازہ نکال دیا، آخری قلعہ بچا تھا وہ بھی فتح ہوگیا، انہوں نے مزید کہا کہ ایسے انٹرویوز سے عمران خان کی مقبولیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ مقبولیت مزید بڑھے گی۔ ڈان نیوز کی صحافی عارفہ نور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے حامد میر نے مذاقیہ انداز میں کہا کہ جھکی جھکی سی نظروں کے ساتھ تحریک انصاف اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا آپ پر کوئی دباؤ تو نہیں؟ جی نہیں کوئی دباؤ نہیں شفایوسفزئی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے وقتوں میں صحافی لکھتا ضرور تھا چاہے چھپے نہ چھپے، اگر چھپنے کی پابندی ہوتی تو اخبار سفید نکل جاتا تھا لیکن صحافی لکھتا ضرور تھا۔۔۔ اب تو بے چارے صحافی اور اینکرز انکار کرنے جوگے بھی نہیں رہے اسد طور نے صداقت عباسی کی تصویر دکھاکر صداقت عباسی کے چہرے پر تشدد کے نشانات پر توجہ دلوائی۔ خرم اقبال نے طنز کیا کہ شمالی علاقوں کی سیر کو چلا گیا پھر واپس آ کر ضمانت کرائی، پھر عادل شاہزیب نے دعوت پر بلایا، اسے کہانیاں سنائیں، پھر روتے ہوئے گھر گیا اور ویڈیو ریکارڈ کرا کے ریلیز کرائی، 4 دن بعد ریکارڈڈ انٹرویو چلوایا، کیا مذاق ہے، کون مانے گا اس اسکرپٹ کو۔۔!! عمر دراز گوندل نے تبصرہ کیا کہ جن لوگوں کو گلگت جانے کا اتفاق ہوا وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا گلگت سے واپس آکر صداقت عباسی کی طرح اپنی ماں یا اہلخانہ سے مل کر سبھی دھاڑیں مار کر روتے ہیں ؟ سحرش مان نے کہا کہ یہ بیان بشری بی بی کو نو مئی کے واقعات سے جوڑنے کے لئے ایف آئی آر بنایا جائے گا۔ افسوس مغیث علی نے تبصرہ کیا کہ جتنے بھی انٹرویوز یا پریس کانفرنس ہوئی ہیں اس میں کبھی براہ راست بشریٰ بی بی پر الزام نہیں لگایا گیا، لیکن آج صداقت عباسی نے بشریٰ بی بی پر بات کی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے، شاید بشریٰ بی بی کے ذریعے اب دباؤ بڑھایا جائے ثاقب ورک نے تبصرہ کیا کہ ڈان ٹی وی سے یہ انٹرویو کئی دنوں کے دباؤ کے بعد اس لیے نشر کرایا گیا ہے کہ کوئی اور چینل انکے سامنے کھڑا نہ ہوسکے، اگر ڈان ٹی وی یہ انٹرویو نہ چلاتا تو باقی چینلز یہ کہہ کر انکار کردیتے کہ ہماری ساکھ کا مسئلہ ہے اور یہ ٹرینڈ یہیں ختم ہوجاتا، ایسے میں پی ٹی آئی حکومت میں سرکاری گھر کے لیے مونس الہی کی سفارش کرانے والے اینکر عادل شاہ زیب کو فوری فارغ کردینا چاہیے تاکہ باقی چینلز کے اینکرز اس طرح کی گھٹیا حرکت سے باز رہیں جس سے چینل کی ساکھ خراب ہو !! عدیل راجہ نے صداقت عباسی کی تصویر شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ مقدس فاروق اعوان نے لکھا کہ پہلے ہی پتہ تھا کہ اب نشانہ عمران خان کی اہلیہ ہوں گی، نجانے یہ والی سیاست کب تک چلتی رہے گی مبشرزیدی نے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بہت دکھ ہوا۔ ساجداکرام نے طنز کیا کہ عادل شاہ زیب کے پروگرام کو وائنڈ اپ کر تے ہیں شیر افضل مروت کے الفاظ سے۔ پروگرام تو وڑ گیا ۔ عمران راجہ نے لکھا کہ فلم کے ڈائریکٹرز اب اس طرح کی چھوٹی چھوٹی فارمیلٹیز سے آزاد ہیں۔سربازار الف ننگے کھڑے ہیں اور راہگیروں کو جوتے مار کے پوچھتے ہیں بتاؤ ہمارا سوٹ کیسا شاندار ہے۔ صدف خان نوید نے لکھا کہ صداقت عباسی اگر 9 مئی کے بعد فیملی کے ساتھ گلگت میں تھا۔۔تو چند دن پہلے اسی فیملی کے ساتھ مل کر پھوٹ پھوٹ کر رویا کیوں۔۔؟؟؟ یار۔۔ پلیز۔۔ کوئی کام کا سکرپٹ تیار کر لو۔۔ ہمیں شرمندہ نہ کرو۔۔ ایک وقت میں ہم بڑے فین تھے۔!!! سادات یونس کا کہنا تھا کہ صداقت عباسی سمیت زیرعتاب آئے کسی رہنما کو برا بھلا اور گالی مت دیں، سب کو پتا ہے کس نے جبر کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما صداقت عباسی نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات چیئرمین پی ٹی آئی کی ذہن سازی کا نتیجہ تھا۔ لاپتہ ہونیوالے صداقت عباسی نے ڈان نیوز کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پانچ روز قبل یعنی چار مئی کو جی ایچ کیو کے قریب ریلی نکالنے کا فیصلہ ہوا تھا جبکہ 7 مئی کو فیصلہ ہوا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں آئی ایس آئی آفس اور جی ایچ کیو پر دھاوا بولنا ہے۔ اس انٹرویو کا سوشل میڈیا صارفین نے خوب پوسٹمارٹم کیا اور کہا کہ صداقت عباسی کر چہرے پر تشدد کے نشانات بڑے واضح ہیں جسے میک اپ سے چھپانے کی کوشش کی لیکن چھپ نہیں سکے۔ اسد طور کا کہنا تھا کہ صداقت عباسی کے چہرے پر نشانات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اور وہ ٹیبل سے پڑھ کر بات کررہے ہیں علی عثمان کا کہنا تھا کہ پورے انٹرویو میں صداقت عباسی بار بار نیچے پڑے کاغذ کو دیکھ کر کچھ پڑھتے رہے شاید اپنے لیے کچھ اہم پوائنٹس لکھے ہوں کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ جدوجہد کے بعد بلا آخر صداقت عباسی کا انٹر ویو “نشر”ہو گیا سمجھ سے بالا ہے کہ اتنی زیادہ ( انسرشن) کیوں لگانا پڑی؟ صداقت عباسی کا پروگرام کے دوران بیسیوں دفعہ نیچے مڑنا اور چہرہ کے داغ اس انٹرویو کے پلانٹد اور فیک ہونے کا ثبوت دیتا ہے دیگر سوشل میڈیا صارفین نے اس پر تبصرہ کیا اور کہا کہ صداقت عباسی کر چہرے پر تشدد کے نشانات بڑے واضح ہیں۔ حتٰی کہ میک اپ کے ذریعے اِن نشانات کو چھُپانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ پھر بھی نہیں چھُپ پائے اور واضح طور پر ظاہر ہو رہے ہیں
صداقت عباسی نے گزشتہ روز ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 9مئی کا واقعہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ذہن سازی کا نتیجہ تھا جبکہ اس سے قبل وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ عمران خان کا پیغام ہے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرنی، اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے صداقت عباسی نے 20 مئی کو ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ پروپیگنڈ گروپ صرف وہ کٹ پیسٹ ویڈیو شئرکر رہاہےجس پی ٹی آئی پرتشددتھوپنا جاسکے، ہم پنڈی اسلام آبادمیں سیاسی سرگرمیوں کو لیڈکرتےہیں اوراکثریت میں مقامی کارکنان کوذاتی طورپرجانتےہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 9، 10 مئی کےاحتجاج میں ہم لوگوں کو سرعام خان صاحب کا پیغام دےرہے ہیں کہ کوئی توڑپھوڑ نہیں کرنی خان صاحب کا سخت حکم ہے۔ اسکوتوکوئی نہیں چلایاجارہا اسلئےکہ جو بیانیہ پی ڈی ایم نےبناناہےاس میں یہ صحیح فٹ نہیں آرہا پی ٹی آئی کے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک ویڈیو شئی رکی جس میں انہوں نے پرانا اور نیا بیان شئیر کیا، اسکے مطابق 9 مئی کے دن صداقت عباسی اس وڈیو میں کہہ رہے ہے کہ عمران خان کا حکم ہے کہ پُرامن احتجاج ہمارا حق ہے، ہم نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرنی۔ لوگوں کو اغوا کر کے جو مرضی انٹرویو کروا لیں، حقائق چھپ نہیں سکتے۔
لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ ن کے جلسے میں کوریج کیلئے آنے والی ایک خاتون صحافی سے ورکرز کی بدتمیزی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ورکرز گالیاں بھی دیتے ہوئے سنائی دیئے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن نے گزشتہ روز لاہور کےعلاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا، تاہم اس جلسے میں کوریج کیلئے آنے والےصحافیوں اور یوٹیوبرز کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پیش آئے، ایک خاتون صحافی کو بھی لیگی کارکنان نے زدوکوب کیا اور ان سے بدتمیزی کرتے رہے۔ واقعہ کی ویڈیو منظر عام پر آگئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کارکنان خاتون صحافی سے الجھتے رہے اور بدزبانی کرتے رہے، خاتون کی جانب سے سخت زبان میں روکنے پر کارکنان گالیاں دینے لگے اور خاتون صحافی کو ہراساں کرتے رہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ن لیگی کارکنان کی اس حرکت پر شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی سیاسی تربیت پر سوال اٹھادیئے ہیں۔ سینئر صحافی اور مشہور اینکر پرسن اقرار الحسن نے بھی اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے ناقابل برداشت اور قابل مذمت واقعہ قرار دیا۔ صحافی مغیث علی نے کہا کہ ن لیگی جلسوں میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ صحافی سلمان درانی نے اس واقعہ پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ن لیگی حامی ہو اور تمیز سے عاری نا ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ گزشتہ روز لیگی کارکنان کی ہراسانی کا نشانہ بننے والےعمر دراز گوندل نے کہا کہ میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا، کم از کم خاتون کا ہی احترام کرلیتے ، یہ ہے لیگی کارکنان کی وہ تربیت جس پر مریم نواز دعویٰ کرتی ہیں کہ ہماری تربیت نواز شریف نے کی ہے، یہ بہت ہی قابل مذمت رویہ ہے۔ صحافی مقدس فاروق اعوان نے مریم نواز شریف اور مریم اورنگزیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی بھی طرح قابل قبول رویہ نہیں ہے، ا س معاملے کا نوٹس لیا جائے۔ سید ذیشان عزیز نے کہا کہ ن لیگ کے جلسہ میں خاتوں صحافی سے بدتمیزی اس بات کی گواہی دے رہی ہے جلسہ میں کسی بھی خاتون کا جانا خطرہ سے خالی نہیں ہو گا۔ علی شہباز نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کوئی اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی ان کے جلسے میں نہیں جاتی اور پھر یہی لوگ پی ٹی آئی کی خواتین کے کردار پرسوال اٹھاتے ہیں، یہ جاہل لوگ ہیں ان کے درمیان جانا اپنی عزت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
آج سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکیل کو چیف جسٹس نے ٹف ٹائم دیا اور متعدد مواقع پر عابدزبیری کو ڈانٹ پلاتے رہے، عابدزبیری نے جیسے ہی دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں بڑے ادب سے اپنے دلائل دینا چاہتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ بڑے ادب کو چھوڑیں،دلائل دیں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پ نے شروع میں پارلیمان کی نیت پر حملہ کیا، میں کہتا ہوں پارلیمان کی نیت اچھی ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس عابدزبیری کو تحریک انصاف کا وکیل سمجھ کر باربار ٹوکتے رہے اور کہتے رہے کہ آپ دلائل ختم کردیں بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ جس پر عابدزبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس کیا گیا جس کے تحت پیش ہوا ہوں صحافی راجہ محسن اعجاز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ چیف جسٹس کی وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو ایک سیاسی جماعت ( تحریک انصاف) سے جوڑنے کی کوشش انتہائی نامناسب ہے انہوں نے مزید کہا کہ کچھ حضرات قائد ایوان شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض والے ایوان کو آئین ، بنیادی حقوق سمیت ہر چیز سے مقدم سمجھتے ہیں زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کے نمائندہ وکیل عابد زبیری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پی ٹی آئی کے وکیل سمجھتے رہے۔ دلائل تقریبا ختم ہو گئے تو حضرت کو بتایا گیا کہ میں سپریم کورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔ پی ٹی آئی کا وکیل سمجھنے پر سعید عمران نے کہا کہ اگر عابد زبیری یہ کہہ دیتے کہ چیف جسٹس صاحب کیا آپ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں تو پھر چیف جسٹس کیا کرتے؟ صحافی بشارت راجہ نے کہا کہ قاضی القضاء کا عابد زبیری سے استفسار کہ کیا آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں جس پر عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس کیا گیا جس کے تحت پیش ہوا ہوں پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر دلائل دے چکے ہیں قاضی القضاء پی ٹی آئی فوبیا کا شکار ہو گئے ہیں حد ہے ویسے صحافی عدنان عادل نے کہا کہ با ریش بھائی جان کی سیاسی وابستگی اور تعصب بالکل واضح ہے۔ ایڈوکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ مائی لارڈ کو وکلاء اور اپنے ساتھیوں کیساتھ رویہ پر نظرثانی کرنا ہو گی چونکہ سینئر وکلاء میں تشویش بڑھ رہی ہے کہیں بائیکاٹ نہ شروع ہو جائے۔
گزشتہ وز مسلم لیگ ن نے این اے 135 میں جلسہ کیا، یہ جلسہ مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر کے حلقے میں ہوا جہاں لوگوں کی تعداد دکھانے کیلئے عوام کی تعداد زیادہ دکھانے کیلئے راؤنڈ ٹیبل اور پرچم سجائے گئے مسلم لیگ ن نے یہ اسلئے کیا کیونکہ کچھ روز پہلے شاہدرہ میں مسلم لیگ ن کا جلسہ بری طرح فلا پ ہوگیا تھا جس پر ن لیگ کو شدید شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، جلسہ کو بڑا دکھانے کیلئے فاصلے پر راؤنڈ ٹیبل لگائے گئے جس کے ساتھ 5 یا چھ کرسیاں تھیں اور خالی کرسیوں پر پرچم اس انداز میں لگائے گئے کہ ہوا کی وجہ سے پرچم ہلتے رہیں اور یہ تاثر جائے کہ کرسی پر کوئی بیٹھا ہوا ہے۔ ن لیگ نے اس جلسے میں شاندار کھابوں کا بھی اہتمام کیا جس کیلئے قورمہ، چاول روغنی نان، گڑوالے چاول ، رائتہ سلاد اور پانی کی ٹھنڈی بوتلیں موجود تھیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس جلسے کو ولیمے کا نام دیا اور یہ کہیں سے جلسہ نہیں لگ رہا تھا بلکہ ایک ولیمہ لگ رہا تھا۔ صحافی عمردراز گوندل نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلم لیگ ن کی جلسے میں کھانے کا مینو کیا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، جلسہ کم ولیمہ زیادہ لگ رہا ہے احتشام الحق اور فیاض شاہ نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ولیمہ تھا یا جلسہ؟ انجینئر نوید نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کسی ولیمہ یا شادی کا کوئی فنکشن نہیں بلکہ باؤ جی کی پاکستان واپسی کے سلسلے میں کئے جانیوالے استقبال کی تیاریوں کے لئے منعقد کردہ جلسہ ہے ، اہلیان لاہور سے گزارش ہے ، کھانا کھائیں ، کولڈ ڈرنک پیئیں اور پھر عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائیں سمیع ابراہیم نے طنز کیا کہ لاھور میں ن لیگ جلسہ کر رھی ھے یا ولیمہ ۔۔کرسیاں لگانے کا طریقہ جلسے والا ھے ھی نہیں ۔۔کم لوگوں کو کیمرے میں زیادہ دیکھانے کے لیے جھنڈے اور بتیاں اور کرسیوں کو چھوٹی گول ٹیبلز کے ارد گرد لگایا گیا ھے عبدالکریم نے کہا کہ میزوں والا جلسہ 2 ہزار بندوں کو 20 ہزار دکھانے کا منصوبہ ایک مرلے میں ایک ٹیبل ساتھ کھانا ولیمہ ہے یا جلسہ صحافی اطہر کاظمی نے کہا کہ ان کو پتا ہے بریانی کے بغیر عوام نہیں آئے گی اسی لئے ولیمہ کرنا پڑا ہے ۔ذرا ایک جلسہ بغیر بریانی سے کر کے دیکھا دو احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ ٹی وی پر جلسہ ایک آدھ گھنٹے کیلئے ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر مہینوں کیلئے چلتا رہتا ہے، مریم کی بات یاد نہیں رہنی، روٹی یاد رہ جانی عمران لالیکا نے شیر افضل مروت کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پروگرام تو وڑگیا مغیث علی نے تبصرہ کیا کہ چھتیں ٹوٹنے، سانحہ شاہدرہ کے بعد سانحہ روٹی ہوگیا، دعا ہے سب کو روٹی تو ملے۔ عمر سعید نے ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ فی بندہ کیش 2 ہزار روپے ملتان روڈ پر کرائے کی بسوں اور ویگنوں پر پورے لاہور ڈویژن سے بندوں کو ن لیگ کے جلسے میں لایا جارہا ہے۔ وقاص اعوان نے تبصرہ کیا کہ تقریر سننے کے چکر میں روٹی ہاتھ سے نکل گئی تو لوگ روٹی کی پلاننگ کر رہے ہیں آپس میں گفتگو کر رہے ہیں تم نے قورمہ پکڑنا ہے ایک نے بریانی پکڑنی ہے اب اس اہم گفتگو میں تقریر کون سنے بھلا
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر پاکستان میں اس وقت میا خلیفہ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے،میا خلیفہ کے ٹرینڈ کے تحت ہونے والی ٹویٹس میں ملالہ یوسف زئی کا ذکر بھی زور پکڑرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لبنانی نژاد سابقہ پورن سٹار میا خلیفہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اسرائیل فلسطین کشیدگی کے حوالے سے جاری ایک بیان میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور کہا کہ اگر آج آپ فلسطین کی طرف نہیں ہیں تو یادرکھیں کہ آپ تاریخ کی غلط سائیڈ پر ہیں اور وقت یہ ثابت کردے گا۔ ٹویٹر پر میاخلیفہ کا ایک ویڈیو کلپ بھی تیزی سے وائرل ہورہا ہے جس میں وہ فلسطین کی صورتحال اور فلسطینی کیمپوں میں موجود لوگوں کی حالت کے بارے میں بتارہی تھیں اور فلسطین میں ہونے والے قتل عام کے خلاف آواز اٹھارہی تھیں۔ ٹویٹر صارفین نے میا خلیفہ کی اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور ساتھ ہی نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کا ذکرکرڈالا۔ خود کو سراہے جانے والی میا نے ملالہ پر اس تنقید کے جواب میں میا کا کہنا تھا کہ، ’میں آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں لیکن میں اس بیان بازی سے متفق نہیں ہوں‘۔ علی نامی ایک صارف نے لکھا کہ میا خلیفہ تک نے اسرائیلی بربریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے، مگر امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی نژاد طالبہ ملالہ نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا،میں نے پہلی بار میا خلیفہ کی کوئی ویڈیو شیئر کی ہے۔ ماریہ نامی صارف نے لکھا کہ میا خلیفہ اسرائیل کے خلاف بول اٹھی ہیں مگر ملالہ اسرائیل کی ہی بانہوں میں سورہی ہیں۔ حورین بٹ نے کہا کہ میا خلیفہ نے اسرائیلی بربریت پر اپنے غصے کا اظہار کیا ہے، مگر مسلمان ممالک کہاں ہیں؟ عثمان ہاشمی نے کہا کہ میا خلیفہ نے امن کا نوبل انعام حاصل کرنےوالی ملالہ کے مقابلے میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں پرزور آواز اٹھائی ہے۔
لاہور میں ن لیگ کے جلسے کی کوریج کیلئے آنے والے ایک صحافی عمر دراز گوندل نے کہا ہے کہ ن لیگی جلسے کی کوریج کے دوران کارکنان نے انہیں یرغمال بنالیا اور ان کا موبائل فون بھی ضبط کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق صحافی ویوٹیوبر عمر دراز گوندل نے مسلم لیگ ن کے لاہور میں آج ہونے والے جلسے کے پنڈال سے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور الزام عائد کیا کہ ن لیگی کارکنان نے مجھے زدوکوب کیا اور میراموبائل فون چھین لیا، ن لیگی کارکنان نے مجھ سے نا صرف بدتمیزی کی بلکہ مجھے کافی دیر تک مجھے یرغمال بنائے رکھا ، ن لیگی کارکنان مجھ سے میرے موبائل کا پاسورڈ پوچھنا چاہتے تھے۔ عمر دراز گوندل نے کہا کہ اگر کوئی اس جلسے میں کھڑا ہوکر یہ کہہ رہا ہے کہ وہ عمران خان کو ووٹ دے گا تو اس میں میرا کیا قصور ہے، ہمارے صحافی عمر اسلم کے والد نے مداخلت کرکے ن لیگی کارکنان سے مجھے چھڑوایا اور میرا موبائل فون واپس دلوایا۔ عمر دراز گوندل ن لیگ کے جلسے کی کوریج کیلئے صبح سے ہی پنڈال میں موجود تھے ،انہوں نے جلسے کے انتظامات اور کھانے کے مینو تک کی تفصیلات پر وی لاگز بنائے اور ویڈیوز ٹویٹر پر بھی شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ مینو میں چکن قورمہ ، بریانی اور گڑ والے چاول رکھے گئے ہیں، ٹھنڈے پانی کی بوتلیں، روغنی نان اور دیگر لوازمات رکھے گئے ہیں۔ عمر دراز گوندل نے پنڈال میں لگائے گئے ٹیبلوں پر ن لیگ کے جھنڈے نصب کیے جانے کے مناظر بھی شیئر کیے اور بتایا کہ تقریبا ہر کرسی پر پہلے سے جھنڈا لگادیا گیا ہے تاکہ پنڈال بھرا ہوا لگے۔ صحافی عمر دراز گوندل نے جلسہ گاہ میں انتظامات کیلئے استعمال ہونے والی سرکاری مشینری اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے محکموں کی گاڑیوں کے مناظر بھی شیئر کیے۔ ن لیگی جلسہ گاہ میں صحافی کو یرغمال بنائے جانے اور موبائل فون چھیننے کے واقعہ پر صحافی برادری اور سوشل میڈیا صارفین نےسخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مقدس فاروق اعوان نے کہا کہن لیگ نے صرف کوریج کرنے پر عمر دراز گوندل کو یرغمال بنا لیا، اگر آپ کھانا کھلا کر بندوں کو اکٹھا کر رہے ہو تو اس میں صحافیوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے کہا کہ ن لیگ کے جلسے کی سارا دن کوریج کرنے والے صحافی عمر دراز گوندل سے ن لیگی کارکنان کی بدتمیزی اور موبائل فون چھیننا قابل مذمت عمل ہے۔ سینئر رپورٹر محمد فیضان خان نے بھی عمر دراز گوندل سے بدتمیزی اور موبائل فون چھیننے پر مذمت کی ۔ صحافی قمر میکن نے کہا کہ اس عمل کی شدید الفاظ مںئ مزمت اور مکمل قانونی چارہ جوئی کرنے کی ڈیمانڈ کرتے ہںر، ن لیگی یہ جاہلتک چھوڑیں اور سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
حماس نے اسرائیلی بربریت کے خلاف اعلان جنگ شروع کردیا، اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 480 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 1900 سے زیادہ افراد ان کارروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے بعد حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے‘ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور حماس کو ان حملوں کی وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں سنیچر کی شب تک 232 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔اسرائیلی فوج نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرے گی۔اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا سوشل میڈیا پر دوہزار چودرہ کا ایک ٹویٹ وائرل ہورہاہے جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔ ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا تھا کہ میرا نام عمران خان ہے ،میرا تعلق پاکستان سے ہے اور میں غزہ کو سپور ٹ کرتا ہوں، عمران خان کا ٹویٹ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر فرام پاکستان ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جہاں صارفین عمران خان کے الفاظ دہرا رہے ہیں
پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی: فردوس شمیم نقوی اور عمر ایوب ،علی امین گنڈاپور کے بعد تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں نے قرآن پاک پر حلف، گواہی دی کہ عمران خان نے آئین پاکستان کیخلاف کسی قسم کا کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی احکامات دیئے۔ سب سے پہلے بیان تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے دیا جس میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کبھی بھی تشدد پر نہیں اکسایا، انہیں بہادر اور دلیر مانتا ہوں، اگر اب میری کوئی بھی ویڈیو آئے تو سمجھنا مجبوری میں بنائی گئی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ میں اللّٰہ سبحان تعالیٰ کو حاضر جان کر اور قرآن مجید پرحلف دیتا ہوں کہ عمران خان نے آج تک مجھے یا کسی کو میری موجودگی میں کبھی پاکستان کے آئین کو توڑنے کا یا پاکستان کے کسی بھی ادارے سےتصادم کا مشورہ یا حکم نہیں دیا اور نا ہی ۹ مئی کا کسی قسم کا کوئی منصوبہ بنایا عمرایوب خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں حلفاً کہتا ہوں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کبھی بھی کسی بھی سرکاری یا ریاستی اداروں کی عمارتوں کو نقصان پہنچانے کی کوئی ہدایت نہیں دی۔ یہ ویڈیو آپ اپنے پاس رکھیں اگر خدانخواستہ کوئی مجھ سے کوئی کسی حالات میں اور ویڈیو ریکارڈ کروائے تو وہ جبراً ہو گی - پی ٹی آئی کے ارکان محب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان میں 'قانون کی حکمرانی' چاہتے ہیں اور پاکستان کو ایک خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں زرتاج گل نے کہا کہ عمران خان نے ہمیں کبھی نہیں کہا کہ پرتشدد واقعات کرنے یا پرتشدد احتجاج کرنا ہے یا کہیں پر قومی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے، خان صاحب ہمیشہ وطن سے محب کا درس دیتے ہیں، یہ مشکل وقت ہے اور اس مشکل وقت میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں- حماد اظہر نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ میں حماد اظہر یہ حلف اٹھاتا ہوں کے میرے سامنے کبھی عمران خان نے کسی پرتشدد احتجاج کی نا ہدایت دی، نا پیغام دیا اور نا ایسی گفتگو گی۔ میں یہ بھی حلف اٹھاتا ہوں کے میں نےکبھی کسی پرتشدد احتجاج میں نا حصہ لیا، نا کسی کو ہدایت دی اور نا ہی کسی سے ایسی گفتگو کی یا منصوبہ بندی کی مظفر گڑھ سے سابق ایم این اے اور ضلعی صدر پی ٹی آئی شبیر قریشی نے کہا کہ میں حلفاً بیان دیتا ہوں کہ عمران خان نے یا ہماری پارٹی نے کبھی کسی ریاستی ادارے کے خلاف محاز آرائی یا پرتشدد کارروائیوں کی ہدایت نہیں دی، عمران خان صرف پرامن احتجاج کی بات کرتے تھے اور اس کا مقصد بھی شفاف انتخابات کا حصول تھا- اسکے بعد انورتاج، حلیم عادل شیخ، فہیم خان، کنول شوذب، جمشید دستی، بشیر خان، جنید اکبر خان، سیمابیہ طاہر ، شوکت بسرا سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی بیانات جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عمران خان نے کسی قسم کے پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان نئی جنگ چھڑ گئی، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے اسرائیل پر زمین، سمندر اور فضا سے حملہ کر دیا۔ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق حماس کے حملے میں 100 اسرائیلی ہلاک، 800 سے زیادہ زخمی ہوگئے جبکہ متعدد کو یرغمال بنا لیا گیا جبکہ فلسطینی سفیر کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں 210 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ان حملوں پر دنیا بھر میں سخت ردعمل آرہا ہے، پاکستان کی جانب سے بھی سخت ردعمل آیا ہے۔اس ضمن میں عمران خان کے غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق عمران خان کے ٹویٹ اور بیانات وائرل ہورہے ہیں عمران خان نے 15 جولائی 2014 کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ میرا نام عمران خان ہے میں پاکستان سے ہوں اور غزہ کو سپورٹ کرتا ہوں اس ٹویٹ کو 44 ہزار سے زائدہ افراد نے ری ٹویٹ اور 66 ہزار نے لائیک کیا جبکہ ایک بار پھر اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنیکا سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سخت ردعمل اپنایا اور انہوں نے کامران شاہد کے پروگرام میں نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تردید کی تھی جبکہ اسرائیل کی کاروائیوں کی شدید مذمت بھی کی تھی۔ عمران خان نے نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا پر بھی اسرائیل سے متعلق سخت موقف اپنایا اور اسرائیل کی کاروائیوں کو ایکسپوز کرتے رہے۔ صحافی طارق متین نے تبصرہ کیا کہ آج عمران خان ہوتا تو یہ مقدمہ سب سے اچھا لڑتا ۔ عالم اسلام کا وکیل پابند سلا سل ہے ڈاکٹر شہبازگل کا اس پر کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیشہ فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ آج پھر ظلم کا بازار گرم ہے۔ آج اگر خان جیل سے باہر ہوتا تو ایک توانا آواز مظلوموں کے لئے میسر ہوتی
جو قاتل سزائے موت کے منتظر ہیں وہ بھی اگر چیف جسٹس کامران شاہد کو انٹرویو دے دیں تو ان کی سزا ختم ہو جائے گی!: سوشل میڈیا صارف تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کا انٹرویو لینے والے سینئر صحافی وتجزیہ کار کامران شاہد نے گزشتہ روز سینئر صحافی اجمل جامی کے پروگرام "نقطہ نظر" میں شریک ہوئے۔ پروگرام کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک بندہ عدالتوں کو مطلوب ہے یا پولیس کو مطلوب ہے اور وہ مجھے انٹرویو دے دیتا ہے تو اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی کی بھی کسٹڈی میں رہے۔ کامران شاہد نے کہا کہ مجھے انٹرویو دینے کے بعد عدالتوں یا پولیس کو مطلوب شخص بالکل آزاد ہے۔ کامران شاہد کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معروف قانون دان آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ہمارے پی ڈی ایم سپورٹر اینکر حضرات اب جج بن چکے ہیں۔ جسٹس کامران شاہد نے عثمان ڈار کو برآمد کر کے اپنی عدالت میں پیش کیا اور انٹرویو لیا۔ انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب ہمیں شرم آرہی ہے! آپ نے کہا تھا میں آئین کی پاسداری کروں گا کیا یہ آئین کی پاسداری ہے؟ شہریوں کو اغوا کر کے پریس کانفرنسیں کروائی جا رہی ہیںاگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو وکلاء آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے عمران ریاض اور عثمان ڈارکو بلا کر کیوں نہیں پوچھا کہ وہ کہاں تھے؟ جسٹس کامران شاہد کے پروگرام کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ فیاض شاہ نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: ملک کی عدالتوں میں جو قاتل سزائے موت کے منتظر ہیں وہ بھی اگر چیف جسٹس کامران شاہد کو انٹرویو دے دیں تو ان کی سزا ختم ہو جائے گی! شمس خٹک نے لکھا کہ کیا کامران شاہد چیف جسٹس لگ گئے ہیں یا وہ آئین اور قانون سے بالا ہیں؟ ملک کے منصف کہاں پر سو رہے ہیں؟ عثمان ڈار اب آزاد ہیں، جسٹس کامران شاہد نے اجمل جامی کے شو میں فیصلہ جاری کر دیا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جناب کامران شاہد نے 45 منٹ عثمان ڈار کیس کی سماعت کرنے کے بعد انہیں 9 مئی سمیت تمام الزامات سے باعزت بری کر دیا ہے! ایک صارف نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کے اغوا کاری کیس کا فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ جسٹس کامران شاہد کا انتہائی اہم ترین نوٹ! اگر ایک بندہ کورٹس کو مطلوب ہو پولیس کو مطلوب ہو اور مجھے انٹرویو دے دے تو اس کے بعد کوئی وجہ نہیں بنتی کہ وہ کسٹڈی میں رہے کسی کی بھی کسٹڈی میں رہے بلکہ انٹرویو دینے کے بعد وہ بالکل آزاد ہیں! خالد یوسف چودھری نے لکھا کہ: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس عامر فاروق ، چیف جسٹس امیر بھٹی اور دیگر سینکڑوں سیشن و ہائی کورٹ ججز سے طاقت ور آدمی کامران شاہد! جو کہہ رہا کہ بندہ عدالتوں کو مطلوب ہو یا پولیس کو مطلوب ہو اگر مجھے انٹرویو دے دے تو اسے رہائی سے کوئی نہیں روک سکتا! سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے ججز اب چھولے بیچیں!
کسی شخص کے اغواء، تشدد اور زور زبردستی سے لئے گئے اعترافی بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔عثمان ڈار کا کچھ عرصہ پہلے کیا گیا ٹویٹ وائرل عثمان ڈار 25 دن لاپتہ ہونے کے بعد اچانک کامران شاہد کے شو میں منظرعام پر آگئے جس میں انہوں نے عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات کا ذمہ دار ٹھہرایا، انکی باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ یہ بیانات ان سے زبردستی دلوائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں عثمان ڈار نے 19 جولائی کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ سائفر ایک حقیقت تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا جس کو جھٹلانے کیلئے کسی شخص کے اغواء، تشدد اور زور زبردستی سے لئے گئے اعترافی بیان کی بس اتنی ہی حیثیت اور اوقات ہے جتنی اس امپورٹڈ حکومت کی ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ سائفر پر اُس وقت کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، متفقہ اعلامیہ،ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور امریکی سفیر کا ڈی مارش آج کے نام نہاد اقبالی بیان کا جھوٹابیانیہ تہس نہس کرنے کیلئے کافی ہے، حکومتی وزراء خود اعتراف کر چکے ہیں کہ سائفر کی کاپی وزارت خارجہ میں پڑی ہے۔ عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی جان چکا ہے کہ سندھ ہاوس میں لگنے والی منڈی سے لے کر استحکام پارٹی بننے تک اور پی ٹی آئی کے خلاف منظم کریک ڈاون سے لے کر سینئر رہنماوں کی علیہدگی تک یہ سب کچھ صرف ایک شخص (عمران خان )کو گرانے کا منصوبہ تھا۔ جسے گراتے گراتے ہر وہ شخص عوام کے ہاتھوں رسوا ہوا ہے جو اس مائنس ون جیسے گھناونے منصوبے کا حصہ بنا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خان کل بھی کھڑا تھا آج بھی ڈٹ کر کھڑا ہے، نواز شریف کی طرح ڈیل کر کے ملک سے بھاگے گا نہیں۔ انشااللہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی اصل وجہ پریس کانفرنس میں عمران خان سے لا تعلقی نہ کرنا اور پارٹی کے ساتھ کھڑا رہنا ہے۔ انہوں نے با آواز بلند کہا عمران خان پارٹی چئیرمین تھا چئیرمین ہے اور چئیرمین رہے گا۔ ساتھ ہی پارٹی کے خلاف حالیہ کریک ڈاون اور خاص طور پر میرے اہل خانہ کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس جرم کی پاداش میں ایک معزز شخص کو حقارت آمیز انداز میں گرفتار کر لیا گیا۔ تباہ کر دیا میرے پاکستان کو ان نفرتوں نے جو اتنی محنت کر کے حاصل کی جا رہی ہیں۔ خدا نہ کرے کبھی یہ نفرتیں انتقام میں بدلیں اور یہ انتقام قدرت لے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔
نو مئی (یوم سیاہ) کے پرتشدد واقعات کے بعد سے منظر عام سے غائب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے گزشتہ روز سینئر صحافی کامران شاہد کے پروگرام میں ایک خصوصی انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر عسکری قیادت سے ٹکرائو کا الزام لگایا تھا۔ عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد ان کی والدہ کا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ "میرے بیٹے نے سیاست چھوڑی ہے، میں نے نہیں" ۔ عثمان ڈار کی والدہ کا کہنا تھا کہ عثمان ڈار سے گن پوائنٹ پر سیاست چھڑوائی گئی، میں اب بھی عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوں۔ سوشل میڈیا کے بعض صارفین کی طرف سے عثمان ڈار کے انٹرویو کو سکرپٹڈ قرار دیا گیا جبکہ بعض سینئر صحافیوں اور صارفین نے ان کی والدہ کا پیغام وائرل ہونے کے بعد کامران شاہد سے ان کا انٹرویو کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار احتشام الحق نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں طنزیہ انداز میں لکھا کہ: کامران شاہد کو عثمان ڈار کی والدہ کا انٹرویو بھی کرنا چاہیے جسے الف سے لے کر ی تک اپنے ٹی وی چینل پر چلائیں بغیر کوئی کٹ لگائے ہوئے، بسم اللہ! سینئر صحافی سلمان درانی نے لکھا کہ: پھر کر رہے ہیں کامران شاہد عثمان ڈار کی والدہ کا انٹرویو؟ ایک صارف نے لکھا کہ: کامران شاہد ایک ٹائوٹ ہے، اگر اس میں غیرت نام کی کوئی چیز ہے تو اب عثمان ڈار کی والدہ کا بھی انٹرویو کرے۔ ایک صارف نے عثمان ڈار کی والدہ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: کامران شاہد اور اس کے آقائوں کی 30 دنوں کی مسلسل محنت، انتظامات اور 1 گھنٹے کے انٹرویو کو عثمان ڈار کی والدہ نے 50 سیکنڈ میں زمین بوس کر دیا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: پاکستانیو اب دیکھتے جائو کہ سیاست کیسے ہو گی، کامران شاہد اگلا انٹرویو عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ کریں گے۔ ایک صارف نے لکھا کہ: عثمان ڈار کی والدہ نے اس کی انٹرویو اور کامران شاہد کی خوشی کا بیڑا غرق کر دیا ہے، ویلڈن ماں جی! واضح رہے کہ عثمان ڈار کی والدہ نے رواں ماہ بیٹے کے اغوا کا دعویٰ کرتے ہوئے ان پر عائد الزامات پر عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ عثمان ڈار کو بازیاب کروانے کے لیے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس پر پولیس کو مبینہ گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا جس کے بعد وہ اچانک سے منظرعام پر آئے اور سینئر صحافی کامران شاہد کو ان کے گھر پر خصوصی انٹرویو دیا۔

Back
Top