سوشل میڈیا کی خبریں

میجر(ر) طاہر صادق کی صاحبزادی ایمن طاہر نے اپنے ایکس پیغام میں کہا کہ گزشتہ رات پولیس نے ایک مرتبہ پھر ریڈ کیا۔ تاہم میرے والد میجر طاہر صادق اللّہ کے کرم سے اٹک کے لوگوں کی دعاؤں سے محفوظ رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ انکی 74 سال عمر ہے، انہیں 2004 سے دل کی تکلیف ہے اور انہیں 7 اسٹنٹس پڑے ہوۓ ہیں۔ پچھلے 6 ماہ کے دوران جس قسم کے حالات رہے ہیں، اس سے انکی روز مرہ سرگرمیاں، روٹین متاٽر ہونے کی وجہ سے صحت پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ ایمن طاہر نےمزید کہا کہ جسطرح ہر روز آدھی رات کے وقت انکی گرفتاری کیلۓ سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں وہ انتہائی قابلِ افسوس، قابلِ مذمت اور ایک بیٹی کی حیٽیت سے میرے لئیے نہائیت قابلِ تشویش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نومئی واقعہ سے پہلے اور بعد میں میجرصاحب تو عمرہ ادائیگی کی خاطر سعودی عرب میں تھے۔ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ انہوں سے ہمیشہ پاکستان اور اداروں کی عزت و تکریم کی بات کی۔ جنہوں نے آئین و قانون توڑا انہیں آپ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوۓ ضرور سزا دیں لیکن کسی کو ناجائز و ناحق نقصان پہنچانے کے عمل سے اللّہ سے ڈرنا چاہیے۔ بیشک اللّہ الحق ہے۔ بلاگر اور صحافی عباد بھٹی کا کہنا تھا کہ میجر ریٹائرڈ طاہر صادق کی گرفتاری اسلیے ناگزیر ہے کہ انکی پریس کانفرنس کے بغیر یہاں سے نوازشریف کو جتوانا ناممکن ہے۔ اٹک ضلع کونسل کا یہ گراونڈ مینار پاکستان کے پنڈال سے بھی بڑا ہے۔ اور گزشتہ سال 12 مئی سے اب نومبر تک عمران خان کی مقبولیت ڈبل ہوچکی ہے
اشتہار وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے دلچسپ تبصروں کی بھرمار کرکٹ ورلڈ کپ 2023ء کے بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین کھیلے جانے والے میچ پر راولپنڈی ٹریفک پولیس کی طرف سے اینجلو میتھیوز کے ٹائم آئوٹ پر عوامی وارننگ کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ٹرولنگ کی جا رہی ہے۔ راولپنڈی ٹریفک پولیس کے آفیشل ٹوئٹر پیج سے اینجلو میتھیوز کے ٹائم آئوٹ ہونے پر کسی بھی حادثے کی صورت میں ہیلمٹ کے استعمال سے اپنی حفاظت کرنے بارے آگاہی کے لیے ایک پیغام جاری کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی ٹریفک پولیس نے اینجلو میتھیوز کے ہیلمٹ حادثے کو ہیلمٹ کے استعمال سے آگاہی کے لیے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ افسوس! مگر ایک معیاری ہیلمٹ، آپ کو ٹائم آؤٹ (حادثے میں جاں بحق) ہونے سے بچا سکتا ہے! موٹرسائیکل سوار کیلئے ہیلمٹ پہننا ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔ دہلی کے ارون جیٹلی سٹیڈیم میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مابین کرکٹ ورلڈکپ کے 38 ویں میچ کے دوران لنکن کھلاڑی اینجلو میتھیوز تاریخ کے پہلے ٹائم آئوٹ ہونے والے کھلاڑی ثابت ہوئے تھے۔ سری لنکا کے بلے باز کو مقررہ وقت کے بعد وکٹ پر آنے پر آئوٹ قرار دیدیا گیا تھا، یہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ کسی بلے باز کو انٹرنیشنل کرکٹ میں ٹائم آئوٹ ہونے پر مخالف ٹیم کی اپیل پر آئوٹ کر دیا گیا۔ اینجلو میتھیوز وکٹ پر ٹوٹا ہوا ہیلمٹ لے کر میدان میں اترے تھے اور کریز پر آنے کے بعد یاد آنے پر دوسرا ہیلمت منگوایا اور اننگ شروع کرنے میں تھوڑی سی تاخیر ہو گئی۔ کپتان بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم شکیب الحسن اور دوسرے کھلاڑیوں نے اس موقع پر ٹائم آئوٹ کا کہہ کر اینجلو کو آئوٹ قرار دینے کی اپیل کی جس پر امپائر نے انہیں آئوٹ قرار دے دیا۔ ایک ٹوٹے ہوئے ہیلمٹ کے باعث اینجلو میتھیوز کے آئوٹ ہو کر واپس پویلین لوٹنے پر راولپنڈی ٹریفک پولیس کی حس مزاح بھی جاگ اٹھی اور ہیلمٹ کی افادیت پر ایک اشتہار جاری کر دیا۔ اشتہار وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے دلچسپ تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ: اگر ٹریفک وارڈن شکیب الحسن جیسا نہ ہوا اور 5سو روپے لے کر موٹرسائیکل سوار کو چھوڑ دے پھر؟ راولپنڈی ٹریفک پولیس نے صارف کو ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: اس صورت میں اپنی شکایت کمپلینٹ سیل میں درج کروائیں! ایک صارف نے لکھا: آپ کے ٹریفک وارڈن شکیب الحسن کے برعکس مذاکرات کرنے کے لیے بہت جلد راضی ہو جاتے ہیں۔ ایک صارف نے اشتہار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا: انتہائی خوبصورت اور کری ایٹو جملہ لکھا ہے! ایک صارف نے لکھا: پولیس والوں کی ذہانت اور حس مزاح کب سے بحال ہوئی ہے؟ ایک صارف نے لکھا کہ یہ اشتہار انگریزی میں شائع کیا جائے تو دنیا بھر میں وائرل ہو جائے گا! دہلی پولیس نے بھی اینجلو میتھیو کے ٹائم آئوٹ ہونے پر ایسا ہی اشتہار جاری کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ اب ہیلمٹ کی افادیت آپ کو سمجھ آ جائے گی جس پر صارف نے راولپنڈی پولیس پر دہلی پولیس کی نقل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ: کسی اور کے کانٹیٹ کو کاپی نہ کریں!
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر عمران خان کے ردعمل سے متعلق امریکیوں صحافیوں نے ہی تردید کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی خبررساں ادارے واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافیوں کیرول ڈی لوئینگ اور فلپ راکر انے ڈونلڈ ٹرمپ کےدور حکومت کے آخری سال کے حوالےسے (I alone can fix it) نامی ایک کتاب تحریر کی تھی جسے 2021 میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں امریکی صحافیوں نے انکشاف کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلوریڈا میں موجود تھے،ا نہوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، عمران خان نے کہا کہ" جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے"۔ ایرانی نشریاتی ادارے نے بھی 2021 میں ہی اس سٹوری کو کور کیا تھا۔ خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ہیوسٹن میں انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایران کے پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ تھا جس کے بعد وہ اپنے گھر چلے گئے اور ایک ہفتہ دفتر نہیں آئے۔ پاکستانی میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو اپنی مرضی سے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور یہ تشریح کی عمران خان نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکبا د دی، ایسی سرخیوں پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل بھی دیا۔ صحافی شاکر محمود اعوان نے ایسی ہی ایک سرخی کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئےکہا کہ یہ نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کا ادارہ ہے، میں نے صحافت میں اتنی پستی، گراوٹ اور بددیانتی نہیں دیکھی، انہوں نے بغض عمران میں سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ سلیم خان نے لکھا یہ اور کتنا گریں گے، قوم الیکشن میں انہیں بالکل گرا دے گی۔ ایک صارف نے کہا کہ ایسا تب ہوتا ہے جب چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر براجمان ہوجائیں۔ ایک صارف نے اسے زرد صحافت قرار ددیا تو دوسرےنے اس ادارے کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بار پھر عمران خان کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہے۔
تحریک انصاف چھوڑنے سے انکار پر میجر(ر)طاہرصادق کے خلاف کاروائیوں میں تیزی تحریک انصاف کے سابق ایم این اے میجر(ر)طاہر صادق نے تحریک انصاف چھوڑنے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد انکے خلاف کاروائیوں میں تیزی آنا شروع ہوگئی ہے۔ میجر طاہر صادق تمام مشکلات کے باوجود PTI کے ساتھ کھڑے رہے،کل انکی بیٹی کے گھر لاہور اور میجر صاحب کے گھر اٹک میں پولیس نے دھاوا بولا توڑ پھوڑ کی،اس توڑ پھوڑ پر انہوں نے آواز اٹھائی تو اب انکے عزیز کے لاہور میں واقعہ لگثرری ہوٹل پر قحبہ خانہ چلانے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اٹک کی دو سیٹیں میجر طاہر صادق کے سوا کوئی نہیں جیت سکتا۔انکی پریس کانفرنس کروانے کے لئے چھاپوں کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔ان کے داماد کے ہوٹل پر دو ماہ سے چھاپے جاری ہیں۔دو روز قبل پھر چھاپہ مارا گیا پرویز الہی کا گھر دو بار سرچ کیا گیا۔میجر طاہر صادق مونس الٰہی کے خالو بھی ہیں۔ گزشتہ روز مونس الٰہی نے فوٹیج شئیر کرتے ہوئے کہا کہ پرسوں کی ناکام کاروائی کے بعد آج صبح 4 بجے پنجاب پولیس نے دوبارہ بغیر وارنٹ کے ہمارے گھر پر ریڈ کیا۔ آج بھی ان کو میرے خالو میجر طاہر صادق صاحب نہیں ملے۔ گھر پر صرف خواتین موجود تھیں۔ پی ٹی آئی کے گھروں پر ریڈ کرنا اور پی ٹی آئی کے لوگوں کو ہراساں کرنے کو چھوڑ کر پنجاب پولیس کو جرائم کے خاتمہ پر دھیان دینا چاہیے۔ میجر طاہرصادق کی صاحبزادی نے مختلف فوٹیجز شئیر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ گذشتہ دو راتوں کو ہمارے تمام گھروں، مختلف مقامات پر، عین آدھی رات کے وقت میرے والد میجرطاہرصادق کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کی غرض سے پنجاب پولیس کے درجنوں نہیں، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اسلح سے لیس اہلکاروں نے دھاوا بولا۔ انکے مطابق گھر پر صرف خواتین تھیں میری تین خالائیں، چوہدری ظہور الہی شہید کی تین بیٹیاں۔ انکے گھر کے دونوں اطراف انکے بھائیوں کے گھر ہیں، لیکن خود کو اعلیٰ ظرف سیاستدان کہلوانے والی ان شخصیات کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ سیاسی مفادات غیرت و حمیت جیسے بنیادی انسانی احساسات پر غالب آۓ۔ لیکن کمال ہے کہ جس بہادری کیساتھ میری خالاؤں نے اس فسطائیت و ہراسیمگی کا مقابلہ کیا، ایمن طاہر نے مزید کہا کہ میرے والد میجرطاہرصادق 9مئی واقعہ سے پہلے عمرہ ادائیگی کیلۓ سعودی عرب میں تھے۔وہ اس قسم کے سیاسی رویوں کے نہ کبھی قائل تھے نہ ہیں اور انہوں نے ہمیشہ، ہر موقع پر اداروں کے وقار کی بات کی ہے۔ مشکل وقت تو گزر جاتا ہے گزر جاۓ گا۔ ہم سب اللّہ پر چھوڑتے ہیں، بس وہی انصاف کرتا ہے وہی کرے گا انشاءاللّہ۔
ن لیگ کا اپنے پیج پر سروے کروانا بھاری پڑگیا۔مجبوراً پانچ گھنٹے پہلے ہیابھی ابھی انھوں نے پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔ پول کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو 81 فیصد ووٹ ملے اور ن لیگ کو صرف 16 فیصد دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پول کسی صحافی یا تحریک انصاف کا نہیں بلکہ ن لیگ کی ڈیجیٹیل میڈیا ٹیم کا اپنا تھا کامران خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "انہوں" نے یہ رائے شماری پوسٹ کی لیکن مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی وجہ سے جلدی سے حذف کر دیا گیا۔ سہیل احمد نے تبصرہ کیا کہ پول تو وڑ گیا۔پوسٹ ڈیلیٹ کر دی گئی ہے۔ڈیلیٹ کرنے سے تھوڑی دیر قبل کا صورتحال سکرین شاٹ میں تاج قریشی کا کہنا تھا کہانشاءاللہ الیکشن میں ایسے شکست کھا کے بھاگیں گے۔ جیسے اس پول کو ڈیلیٹ کر کے بھاگ گئے۔
مانسہر ہ میں ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف اور سوشل میڈیا صارفین کی شدید مذمت۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے مانسہرہ میں ورکرز کنونشن کیلئے سجائے گئے پنڈال میں پولیس کے چھاپے اور کرسیاں اٹھا کر پولیس موبائل میں رکھنے، پنڈال میں موجود لوگوں کو باہر نکالنے، شہر بھر میں لگائے گئے ناکوں کے مناظر شیئر کیے گئے، ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق پورے ضلع مانسہرہ میں ناکہ بندی کے بعد شہرمیں کرفیو سماں ہے۔ ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن کا اتنا خوف ہے کہ شہرمیں جگہ جگہ ناکہ بندی کی گئی ہے، پولیس نے رات بھر چھاپے مارے ، پی ٹی آئی ورکرز کو ہراساں کیا۔ پی ٹی آئی ہزارہ ریجن کے صدر بابر سلیم سواتی نے کہا کہ ورکر کنونشن بہت پر امن ہے ،پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد اس کنونشن کا انعقاد کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ٹویٹر ہینڈل سے پنڈال میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی ویڈیو شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ پولیس نے عدالتی حکم کے باوجود ورکرز کنونش پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ کی، ایک جماعت کے پرامن کارکنان پر آخر کب تک یہ ظلم ہوتا رہے گا۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل حما د اظہر نے کہا کہ الیکشن کروانا آئی ایم ایف کی وجہ سے مجبوری تھی، عدلیہ کا اصل امتحان ہے کہ الیکشن کن حالات میں ہورہے ہیں، کیا مقبول ترین جماعت کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ جاری رکھ کر؟ کیا ایک جماعت کے جلسے پر پولیس دھاوا بول کر یا اس جماعت کی قیادت کو جیلوں میں رکھ کر۔ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ پولیس نے پروگرام سے پہلے ہی ساؤنڈ سسٹم قبضہ میں لے کر جلسہ گاہ پر دھاوا بول دیا، عدالت عالیہ کا حکم ہے کہ الیکشن کے حوالے سے کوئی مفی بات نا کی جائے۔ اظہر مشہوانی نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہاں ہیں، عدالت کی جانب سے اجازت ملنے اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشنز کی وجہ سے شہروں میں کرفیو لگائے جارہے ہیں، ایکسپائرڈ اور غیر آئینی نگراں حکومت میں پولیس ن لیگ کے جلسوں میں کرسیاں بھی خود لگاتی ہے۔ پی ٹی آئی سندھ کی رہنما فوزیہ صدیقی نے کہا کہ پی ڈی ایم کی پالتو پولیس نےعدالتی حکم کے باوجود پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن پر حملہ کیا اور اسٹیج گرادیا، کیا ایسی صورتحال میں الیکشن ہوسکیں گے، ریاست کیوں صرف لیول پلیئنگ فیلڈ صرف ن لیگ کو دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی بھاری نفری نے انصاف سیکرٹریٹ مانسہرہ پر دھاوا بول دیااور متعدد بے گناہ ورکرز کو گرفتار کرلیا، پی ٹی آءی کو کرش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔ صحافی شاکر محمود اعوان نے کہا کہ مانسہرہ میں پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن چار دیواری میں منعقد کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان کو گرفتار کیا جارہا ہے، چیف جسٹس کہتے ہیں مثبت خبریں دیں، ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ سب کا قانونی حق ہے، مگر ملک کے حقیقی مالک کہتے ہیں ہوگا وہی جوہم چاہتے ہیں۔ صحافی عمران افضل راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کیجانب سے کنونشن کے انعقاد کے آرڈر کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے، مانسہرہ میں ایک قسم کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، بزدل لوگوں سے پالا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ارسلان بلوچ نے کہا کہ اگر عدالتوں کے فیصلوں پر عمل نہیں ہونا تو ججز کو استعفیٰ دے دینا چاہیے اور عدالتوں کو تالے لگادینے چاہیے۔ مقصود خان نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی ناکام کوششیں جاری ہیں۔
سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے ایک تقریب میں صداقت عباسی کے انٹرویو کے معاملے پر اینکر عادل عباسی کو کھری کھری سنادیں جس پر عادل عباسی غصہ ہوگئے، عادل عباسی کے جواب پر صحافی برادری مطیع اللہ جان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق لٹریچر فیسٹیول میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اسٹیج پر موجود عادل عباسی کا نام لیے بغیر طنزیہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج تک کسی قیدی کا انٹرویو نہیں کیا،میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ لاپتہ شخص کا انٹرویو کرنا ہے اور اس سے سوال جواب کرکے یہ اگلوانا ہے کہ 9 مئی کا واقعہ قابل مذمت تھا اور میں سیاست سے دستبردار ہورہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بطور صحافی ایسے افسوسناک مرحلے تک پہنچنے سے پہلے اس صحافی کو یا ادارہ چھوڑ دینا چاہیے یا صحافت چھوڑ دینی چاہیے۔ اسٹیج پر موجود عادل عباسی نے خود سے عمر اور پیشے کے اعتبار سے سینئر مطیع اللہ جان کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ " اس نے سوال کردیا اب تقریر نا کرے، اس کے سوال پر میں نے اس کو جواب دینا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی پر الزام لگا کر دوسری جانب چل پڑیں، میں جانتا ہوں کہ یہ اس میں بہت اچھے ہیں"۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ مجھے سوال کرنے دیں، میں صداقت عباسی نہیں ہوں،مجھے بولنے دیں، میں بولوں گا اور مجھے سوال کرنے دیں ۔ عادل عباسی نے کہا کہ آپ الزامات لگارہے ہیں، جرآت کا مظاہرہ کریں اور مجھ سے براہ راست سوال کریں۔ مطیع اللہ جان اور عادل عباسی کی اس لفظی جنگ کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس کے بعد صحافی برادری نے عادل عباسی کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے مطیع اللہ جان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا کہ مطیع اللہ جان نے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کو چلانے والے مافیا کو بے نقاب کردیا، حقیت یہی ہے کہ اس فیسٹیول میں جمہوریت اور صحافت کو کمزور کرنےوالوں کو پردھان بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس فیسٹیول میں وسعت اللہ خان، عاصمہ شیرازی سمیت چند اچھے اور صاف ستھرے لوگوں کو بھی بلایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکہ دیا جاسکے۔ امجد خان نے کہا کہ مطیع اللہ جان نے 9 مئی کے بعد کیے گئے پلانٹڈ انٹرویوز کا پول ہی کھول دیا۔ ایک صارف نے کہا کہ عادل ، کامران شاہد اور منیب فاروق نے جو کچھ کیا اس پر صحافت شرمند ہ ہے، لٹریچر فیسٹیول میں عادل عباسی کی زبان دیکھیں، انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے، مطیع اللہ جان یقینا عادل عباسی سے عمر اور پیشے میں سینئر ہے۔ جمال شاہ نے کہا کہ مطیع اللہ جان نے صداقت عباسی کا انٹرویو کرنے والے عادل عباسی کو انسانی حقوق کے موضوع پر لٹریچر فیسٹیول میں بلانے پر سوال اٹھادیئے، مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی نمائندگی کرنے پر مطیع اللہ جان صاحب کا شکریہ۔ ایک صارف نے کہا کہ مطیع اللہ جان سے اختلافات اپنی جگہ مگر یہاں انہوں نے عادل عباسی پر صحیح تنقید کی، انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس محفل کے بعد عادل عباسی نےکمپنی کو صاف، صاف بتادیا کہ مزید ذلت برداشت نہیں کرسکتے۔
مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا، شنیرا اکرام اور ارمینہ خان آپس میں الجھ پڑیں فلسطین میں جاری حالیہ کشیدگی کے معاملے لیجنڈ پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرام اور مشہور اداکارہ ارمینہ خان سوشل میڈیا پر الجھ پڑی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق یہ لفظی جنگ شنیرا اکرام کی ایک ایکس پوسٹ سے شروع ہوئی جس میں انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کبھی کسی معاملے پر اپنے رائے کا اظہار کرنے سے نہیں ڈری، مگر اس وقت میں بہت جذباتی ہوں اور میرے پاس کہنے کو ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ شنیرا اکرام کے اس بیان پر مشہور اداکارہ ارمینا خان نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس پاکستانی معاملے پر بات کرنے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے، یا تو فلسطین کے معاملے پر بات کریں یا اپنے یہ ڈرامے اپنے تک محدود رکھیں۔ شنیرا اکرام نے ارمینا خان کی تنقید پر جوابی تنقید کی اور دنیا کی اس صورتحال اور روزانہ نظر آنے والے درد کے باوجود آپ میرے لیے نفرت کا اظہار کررہی ہیں، آپ مجھے یا میرے معاملات کو نہیں جانتی ہیں، پھر بھی ہم جو کوئی بھی ہیں ، ہم دونوں مائیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو اپنے آواز اتحاد اور بھائی چارے کےفروغ کیلئے استعمال کرنی چاہیے، میرے خیال میں یہ آپ کے بڑے ہونےکاوقت ہے ،آپ نے صرف خبروں میں آنے کیلئے اس حد تک گر گئی ہیں۔ شنیرا اکرام کو ارمینا خان پر یہ تنقید مہنگی پڑگئی ، اس کے جواب میں سوشل میڈیا صارفین نے شنیرا اکرام کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس پر شنیرا اکرام نے اپنی یہ پوسٹ ہی ڈیلیٹ کردی۔
سابق وزیرمذہبی امور صاحبزادہ حامد رضا نے ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری اکلوتی شادی شدہ ہمشیرہ جن کا سیاست سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں اور وہ مکمل طور پر ایک گھریلو زندگی گزار رہی ہیں ان کا نام 9 مئی کے حوالہ سے شامل کر کے ان کے بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری کے حصول کے لئے اے ٹی سی سے 6 نومبر کے لئے نوٹس جاری کرواے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھوڑی دیر قبل میری اپنی ہمشیرہ سے بات ہوئی اور اس نے مجھ سے کہا کہ بھائی میرا کورٹ کچہری اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر میں ایک شہید کی بیٹی ہوں اور آپ کے لئے کمزوری نہیں بلکہ عزت اور مضبوطی کا سبب بنوں گی ۔ سپیشل برانچ اور جن جن کے کہنے پر میری بہن کا نام شامل کیا گیا ہے ان کو جواب اب میری پریس کانفرنس میں ملے گا ۔ رانا ثناء اللہ ، راجہ ریاض و دیگر اب اگر ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی صحافی نے شاکر محمود اعوان نے لکھا عالیہ حمزہ کے گھر کے مناظر بھی یاد ہیں، کس طرح ارسلان کی بہنوں کو پولیس گندی نگاہوں سے دیکھتی اور مطالبات کرتی تھی،،ارسلان کے والد پولیس کی شرمناک رویہ کے باعث ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگئے،، پولیس کی سفاکیت اس ہر بھی ختم نان ہوئی اور جنازے میں کسی کو شریک نان ہونے دیا،، طیبہ راجہ اور صنم جاوید کی ویڈیوز بھی موجود ہے کس طرح طیبہ راجہ کے سر سے دوپٹہ اتار کر گھسیٹا گیا، صحافی مزید لکھا صاحبزادہ حامد رضا کی بہن کو 9 مئی کے واقعہ میں ملوث کرنا شرمناک ہے جبکہ انکا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، کبھی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا,گھر کی خواتین، ماں، بہن، بیٹی کی عزتوں کو پامال کرنا کی یہ نئی روایت ڈالی جارہی ہے جو انتہائی شرمناک عمل ہے،،ہم نے دیکھا جیسے تضحیک آمیز رویہ عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ کیا گیا انہوں نے کہا خدیجہ شاہ، روحینہ خان، روبینہ جمیل، شبنم جہانگیر، سمیت سینکڑوں خواتین کو بے آبرو کیا گیا،،اگر اس کو روکا ناں گیا، چیف جسٹس نے نوٹس ناں لیا تو یہ آگ سب سیاسی جماعتوں کو لپٹ لے گی،،آج جو دیکھ کر خوش یا خاموش ہے کل یہ آگ ان تک بھی پہنچ سکتی ہے،،،ن لیگ، پیپلزپارٹی کو اس سارے عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور اس مکرہ اور گھنائونے عمل سے خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے،،یہ جو سب کچھ ہورہا ہے کس کے کہنے پر ہو رہا کون ہدایات جاری کرتا ہے،، کس کی روح کو تسکین دی جارہی ہے اس کا محاسبہ کرنا چاہیے،، اسے بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ اس معاملہ فل سٹاپ لگایا جائے۔ عمران بھٹی نے لکھا یہ ناکامی ہے جو خود کو برتر سمجھتے ہیں،اگر بات ماوں بہنوں کے ذریعے بلیک میل کرنے تک پہنچ گئی ہے تو پھر شکست زدہ ہوچکے ہیں،سدا بادشاہی سوہنے رب دی
تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری کو تھانہ آبپارہ میں درج ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف تھانہ آبپارہ میں 20 اگست کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق فواد چوہدری پر پی ٹی آئی کی ریلی نکالنے اور سڑکیں بلاک کرنے کا الزام ہے۔ دو روز قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں 13 نومبر تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقدمے میں فیصل واڈا، صداقت عباسی، سیف اللہ خان نیازی، فیاض الحسن چوہان اور شیخ رشید احمد بھی نامزد تھے لیکن گرفتار صرف فوادچوہدری کو کیا گیا۔ فیصل واوڈا، صداقت عباسی، سیف اللہ نیازی تحریک انصاف چھوڑچکے ہیں جبکہ فیاض الھسن چوہان استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں، شیخ رشید بھی عمران خان سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں اور اب وہ عمران خان سے متعلق اصلی اور نسلی والی بات بھی نہیں کرتے۔ اگرچہ فوادچوہدری بھی تحریک انصاف چھوڑچکے ہیں لیکن فوادچوہدری کو کیوں اس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے؟ اس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کچھ صحافیوں کے مطابق فوادچوہدری استحکام پاکستان پارٹی میں بھرپور کردار ادا نہیں کررہے تھے اور بھاگنے کی کوشش کررہے تھے کسی نے دعویٰ کیا کہ فوادچوہدری آج بھی عمران خان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انہیں جہلم میں استحکام پاکستان پارٹی کا جلسہ کروانے کا کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کردیا، کسی نے دعویٰ کیا کہ فوادچوہدری نوازشریف کے خلاف بول رہے تھے اس لئے انکی زبان بندی کیلئے یہ اقدام اٹھایاگیا۔ کسی نے دعویٰ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ فوادچوہدری کو بھی صداقت عباسی اور عثمان ڈار جیسا انٹرویو کروانے کیلئے اٹھایا گیا ہو۔ دنیانیوز کے صحافی وقاص اعوان کا کہنا تھا کہ اب استحکام پاکستان سے منحرف ہونے پر گرفتاری ہوئی ہے شائد ۔ کیونکہ فواد چوہدری استحکام پاکستان کے سائے تلے الیکشن لڑنے سے انکاری ہیں زبیر احمد خان نے کہا کہ فواد چوہدری کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔ شریف خاندان کے خلاف مسلسل تنقید کرنا فواد چویدری کا جرم ثابت ہوا۔ نوازشریف نئی ریڈ لائن ہے ثاقب ورک نے کہا کہ استحکام پاکستان پارٹی کی جلسیوں میں شرکت نہ کرنے پر جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپنے آقاؤں سے شکایت کی جس کے بعد فواد چوہدری ایک بار پھرگرفتار کرلیے گئے، کیسا جبر کا موسم ہے کہ عمران خان کی پارٹی چھڑوا کر دوسری پارٹی میں شامل کراتے ہیں اور پھر دوبارہ گرفتار کرلیتے ہیں کہ پارٹی کے لیے متحرک کردار ادا کیوں نہیں کررہے !! انہوں نے مزید کہا کہ فواد چودھری سے جب آخری دفعہ بات ہوئی تو انھوں نے بےبسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ ” ظلم کا نظام ہے، کیا کریں“۔ ہم نیوز کے صحافی شاکر محموداعوان نے کہا کہ فواد چودھری نے جہلم میں استحکام پارٹی کا جلسہ کروانے سے معزرت کی تھی،،اب جلدی چھٹکارا ممکن نہیں لگ رہا۔۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل نیوز ون کے صحافی محمد عمیر نے خبر دی تھی کہ فواد چوہدری کے استحکام پاکستان پارٹی کے لیے متحرک کردار ادا نہ کرنے اینٹی کرپشن نے ان کے خلاف انکوائری کا آغاز کردیا۔فوادچوہدری کی خبر سامنے آنے کے بعد محمد عمیر کا کہنا تھا کہ فوادچوہدری کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ کاشف عباسی زیر لب مسکراتا ہے چوھدری غلام حسین ہمارے لڑکے کو تنگ کرتا ہے عدیل راجہ آج بھی ارشد کو یاد کرتا ہے فواد چوہدری گو ہمارے حق میں روز ٹویٹ کرتا ہے لیکن دل سے نہیں کرتا اور اب کہتا ہے الیکشن نہیں لڑنا….. اور اسد قیصر ….یہاں اس نے فضل الرحمان کے گھر چاے کے ساتھ بسکٹ نہیں کھائے ۔اب یہاں اتنی حساسیت ہو گئی ہے صحافی فہیم اختر نے کہا کہ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے تیسرے دن کی دوسری بڑی سیاسی گرفتاری ہے، فواد چوہدری نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت نہیں کی ابھی تک
گوادر ، پسنی اور میانوالی میں سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملوں کو 9 مئی سے جوڑنے کی کوشش پر سابق وزیراعظم شہباز شریف کو سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لے لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے دہشت گردی کی تازہ ترین واقعات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ گوادر ، پسنی اور میانوالی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر 9 مئی کے مکروہ چہرے اور راء کے ایجنٹس ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان واقعات پر جہاں پوری قوم خون کے آنسو رورہی ہے وہیں 9 مئی کے واقعات کے سرغنہ جنہوں نے پاکستان کے شہداء، غازیوں اور عظیم جوانوں کا مذاق اڑایا آج وہی زبان استعمال کررہے ہیں جو کہ ماضی میں راء کے ایجنٹس کے ہمیشہ استعمال کی۔ سوشل میڈیا صارفین نے پاک فوج پر ہونے والے حملوں پر اس ردعمل کو سیاست چمکانا قرار دیا اور شہباز شریف کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صحافی ارباز رضا بھٹہ نے اس بیان پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب بس کردیں اور 9 مئی کے واقعات کو یہاں نا گھسیٹیں۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ارسلان بلوچ نے کہا کہ اقتدار کی ہوس میں یہ اس قدر گرچکے ہیں کہ ہر چیز کو پی ٹی آئی سے جوڑتے ہیں، دہشت گردی کی اس جنگ میں پی ٹی آئی ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ورک شہباز نے کہا کہ چند اکاؤنٹس ایسا مواد شیئر کررہے ہیں جو وہ خود چاہتے ہیں، یہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کرتے، پی ٹی آئی کا بیانیہ مرکزی قیادت یا آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا جاتا ہے، شہباز شریف کو انسانوں کو ذبح کرنے اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے،دہشت گردی کے واقعات میں قوم کو اکھٹا کرنا سیکھیں۔ راؤ عبدالباری ایسی ہی سازشوں سے ملکی سیاست کا بیڑا غرق ہوا اور پاکستان ایک نا ختم ہونےو الے بحران میں داخل ہوگیا، ملک کو اور کتنا تباہ کرنا ہے میاں صاحب۔ محمد تنویر نے کہا کہ جن کی اپنی فیکٹریوں میں سے راء کے ایجنٹس پکڑے گئے تھے آج وہ کس منہ سے یہ باتیں کررہے ہیں، آپ کے اس اس پراپیگنڈے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا۔ ایک اورصارف نے کہا کہ 9 مئی کو کسی فوجی کو خراش تک نہیں آئی تھی آج درجنوں فوجی شہید ہوگئے ہیں، اگر آج بھی ان سے کوئی سوال نہیں پوچھتا جو کہتے تھےکہ ہماری مرضی سے نا کوئی آسکتا ہے اور نا جاسکتا ہے تو صرف محب الوطنی کی وجہ سے۔ جنیدنامی صارف نے کہا کہ آج ملک میں 22 فوجی شہید ہوگئے مگر انہیں 9 مئی کی جلن ختم نہیں ہورہی۔ اسامہ خان نے شہباز شریف کے بیان کے جواب میں نواز شریف کا ممبئی حملوں سے متعلق اعترافی بیان شیئر کر ڈالا۔
مکہ المکرمہ میں پاکستانی نژاد بھکاریوں کی بڑے تعداد نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی سطح پرپاکستان کیلئے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر مکہ المکرمہ خصوصا غار حرا کےراستے پر بیٹھے پاکستانی نژاد بھکاریوں کی ویڈیو ز سامنے آئی ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ غار حرا کی جانب جانے والے راستے پر پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد بھیک مانگنے کیلئے ڈیرے جما کر بیٹھی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے یہ ویڈیو ز شیئرکرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پاکستانی بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں، اگر پاکستانیوں نے مکہ المکرمہ میں بھیک مانگنے کا سلسلہ ناچھوڑا تو شائد سعودی حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کیلئے عمرے اور حج کے ویزوں کا اجراء بھی بند کردیا جائے ۔ فیاض شاہ نے ایسی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی بھکاریوں نے غار حرا کی جانب جانے والے تمام راستوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو عنقریب پاکستانیوں کیلئے حج و عمرے کے ویزے بند کردیئے جائیں گے۔ شاہد لطیف نے لکھا کہ یہ سب ایک گینگ کی صورت میں عمرے کے ویزوں پر سعودی عرب پہنچے، یہ سب پروفیشنل بھکاری ہیں، بھیک کی یہ لعنت اب حج اور عمرہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو انہیں بھیک دینا ثواب سمجھتے ہیں۔ سید امانت نے کہا کہ غار حرا کے راستے میں ایسے بھکاری ملیں گے جیسے کراچی کی سڑکوں پر ملتے ہیں، یہ بے غیرت اب عراق اور شام تک پہنچ گئے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ چین میں بھی پاکستانی بھکاری پہنچ چکے ہیں۔ صداقت علی نے کہا کہ غار حرا کے راستے پر بھیک مانگنے کا ٹھیکہ پاکستان کو مل گیا، الحمداللہ۔ ہمایوں خان نے لکھا کہ متحدہ عرب امارات میں انہی وجوہات کی بناء پر ویزے اور آئل فیلڈ کے اسپیشل پاسز پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔
یہ لوگ موجودہ دور کے فرعون ہیں جو موت کو فراموش کرچکے ہیں!: صاحبزادہ حامد رضا عوام کو ملک کے معاشی بحران میں قربانی دینے کا سبق دینے والی بیورو کریسی نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے قبرستان میں بھی کارپٹ بچھا دیئے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب آج اپنے سسر کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے تو قبرستان میں سرخ قالین بچھا دئیے گئے جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سیاسی، سماجی وصحافیوں حلقوں کے علاوہ عوام کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے کہا کہ یہ فرعون ہیں اور کسی نے کہا کہ ان کی آنکھیں فلسطین کے شہداء کیلئے کیسے نم ہو سکتی ہیں؟ چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ: محسن نقوی صاحب یاد رکھیں مرنے کے بعد آپ کو منوں مٹی تلے دفنایا جائے گا اور وہاں استقبال کرنے کے لئے ریڈکارپٹ نہیں ہوگا بلکہ اعمال کا حساب کتاب ہو گا۔ یہ لوگ موجودہ دور کے فرعون ہیں جو موت کو فراموش کرچکے ہیں! سینئر صحافی وتجزیہ نگار اوریا مقبول جان نے لکھا کہ: جو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے سسر کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے اور قبرستان میں قالین بچھا دئیے جائیں ،اسے موت کا کیا اندازہ ہو گا ، اس کی آنکھ غزہ کے شہیدوں کیلئے کیسے نم ہو سکتی ہے ، اسی لیے اس نے پنجاب میں دو ہفتے کے جشن کا افتتاح کیا ہے ! رہنما پاکستان تحریک انصاف شہباز گل نے لکھا کہ: قبرستان میں قالین ؟بھوکی ننگی مفلس قوم پر مسلط غیر آئینی ٹولے کے ششکے چیک کریں! سینئر صحافی احتشام الحق نے لکھا کہ: ہم اس لیے بھی ترقی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم زمین اور مٹی میں قدم رکھنا پسند ہی نہیں کرتے، ہم غرور، تکبر اور اور غیرانسانی حرکتوں باز نہیں آتے، یہ قبرستان کی تصویر ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ نگار سمیع ابراہیم نے لکھا کہ: جس جس محسن نقوی کو میں جانتا ہوں اس سے مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کی وہ قبرستان میں ریڈ کارپٹ کروائے گا! بھائی اپنا قبلہ بدلو،اپنے ساتھی اور مشیر بدلو، یہ تمہیں مکمل تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں! میر محمد علی خان نے لکھا کہ: قبرستان میں قالین ؟ کفن میں جیبیں ؟ قبر میں تکیہ ؟ احرام میں ریشم؟ نماز میں سجدے کے لیے خادمین؟ رمضان میں روزے رکھنے کے لیے نوکر ؟ حج آن لائن؟ نماز جنازہ 7 سٹار ہوٹل میں؟ قُل اور سوئم Destination Qul فرینچ ریویئرا پر ؟ جو اُوپر لکھا ہے وہی آہستہ آہستہ ہو گا۔ شہر بانو نے لکھا کہ: تخت طاؤس پر آ بیٹھے ہیں دربان یہاں ! ایک انتہائی غریب ملک جو آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور جس کی عوام بھوک سے مر رہی ہے! ان کے ٹیکس سے پیسوں سے اپنے سسر کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے بھی قبرستان میں ریڈ کارپٹ بچھایا گیا! اختر علی نے لکھا: یہ محسن نقوی ہے اور بدقسمتی سے پنجاب کا نگران وزیر اعلی بنا دیا گیا ہےاور چھ مہینے سے زائد کا ٹائم ہو گیا یعنی نگران وزیر اعلی ہے! قبرستان میں بھی اس کے لیے ریڈ کارپٹ ڈالی جا رہی ہے، اس بندے کو کیا لگتا ہے اس بندے نے مرنا نہیں ہے یا اس کے اندر عقل نہیں ہے! شہید صحافی ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے لکھا: قالین کے بجائے اگر قبرستان میں صفائی کردیتے، فٹ پاتھ بنا دیتے، گھاس کاٹ دیتے، اپنے پیاروں سے ملنے آنے والوں کے لیے بینچ اور پانی کا انتظام کردیتے تو کیا ہی بات ہوتی، پاکستان کے بیشتر قبرستان بھوتوں کی آماجگاہ لگتے ہیں! سینئر صحافی سید طلعت حسین نے لکھا کہ: مقصد سے قطع نظر، قبروں کے درمیان سرخ قالین بچھانے کا خیال ناقابل یقین حد تک احمقانہ اور سنگدل ہے! قبرستان کے تقدس کی یہ بے حرمتی، اس زمین پر قدم نہ رکھنے کا کھوکھلا تکبر یہ ظاہر کرتا ہے کہ طاقتور کس قدر نیچے گر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنا وضاحتی پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ محسن نقوی نے لکھا کہ: ملک دشمن دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے ایس ایس پی اشرف مارتھ شہید کی قبر پر سلامی کی تقریب سے اگر کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کا علاج اللہ تعالی ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ: شہیدوں کے ہر قبرستان کے راستوں کو سرخ پھولوں سے بھر بھی دیا جائے تو بھی ان کا قرض ادا نہیں کیا جا سکتا۔ منڈی بہاؤالدین والی تقریب شہید کو سلامی دینے کے لیے تھی لیکن اس کے بجائے صرف ریڈ کارپٹ دکھایا جا رہا ہے۔ نہ مجھے کبھی پروٹوکول لینے کا شوق تھا اور نہ ہی میں نے بطور وزیر اعلیٰ سرکاری پروٹوکول لیا، لہٰذا حقائق مسخ کرنے سے پرہیز کیا جائے تو بہتر ہو گا۔
گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‏آئندہ عام انتخابات میں بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہوگا انکا کہنا تھا کہ ‏اس میں کوئی شک نہیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ملک کے مقبول لیڈر ہیں،عمران خان ملک کی جماعت کے سربراہ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ میں ماضی میں چیرمین پی ٹی آئی کو آئیڈلائز کرتا تھ، میں چیرمین پی ٹی آئی کی دل سے عزت کرتا ہوں،چیئرمین پی ٹی آئی کو چاہئیے تھا کہ تحمل سے کام لیتے اور سیاسی ماحول میں تحمل والا کردار ادا کرتے۔ چیف الیکشن کمشنر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کرنل (ر)ہاشم ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ جو مرضی کہیں بلا انتخابی نشان نہیں ہو گا فہیم اختر کا کہنا تھا کہ یہی تو یقین دہانی کرا کر بندے توڑے گئے تھے، اب اگر بلا آگیا تو ان جیسے سٹیٹ ایکٹرز کا کیا بنے گا؟ ڈوگر صاحب آپ سمیت ان سب ایکٹرز سمیت لندن سے بلائے گئے وڈے ایکٹر کے بھی گھبرانے کا وقت ہوگیا ہے۔۔۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا کیا ہے آپ کے ساتھ لوجیکل نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ لائن ترین پارٹی کو دی گئی یہی لائن پرویز خٹک کو کہی گئی اور یہی لائن ہر اس تحریکی کو کہی جاتی ہے جسکو توڑنا مقصود ہو اسلام الدین ساجد نے تبصرہ کیا کہ بلے کے بغیر الیکشن کی اہمیت نہیں ہوگی نہ پاکستانی قوم تسلیم کرے گا اور نہ دنیا۔۔۔۔ سب سے بڑا نقصان آپ لوگوں کے لیے ہیں کہ بلے کے موجودگی میں 100 ووٹ لینا بھی آپ جیسے لوگوں کی بڑی کامیابی ہوگی محمد عمیر کا کہنا تھا کہ ڈوگر صاحب دوسروں کے کندھوں پر جنازے اچھے لگتے زندگی اپنے بل بوتے پر جی جاتی ہے۔آپکو تمام اسباب مہیا ہیں دوڑ کر دکھائیں فریق دوئم کی ٹانگ ٹوٹنے کی دعا نہ کریں۔ ماریہ میمن نے ہاشم ڈوگر کا کلپ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ کیونکہ “بلے کا بیلٹ پیپر پر نہ ہونا آئی پی پی کو سوٹ کرتا ہے آزادرینچ کا کہنا تھا کہ آپکو یہی بتا کر پریس کانفرنس کروائی گئی تھی نا ؟ احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ بلے کو چھوڑیں، ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگلی بار ہاشم ڈوگر اسمبلی میں نہیں ہو گا۔ محسن اقبال نے تبصرہ کیا کہ مرضی کو مرض لکھنے سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ بلے کے خوف کے مرض میں مبتلا ہیں۔باقی بلا انتخابی نشان بھی ہو گا اور الیکشن والے دِن خوب چلے گا۔ نوشی گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے وزارتوں سے خوب لطف اُٹھایا
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑکی وزیراعظم آفس میں اپنے استاد سے ملاقات کی ویڈیو جاری کی ہے ، وزیراعظم کی جانب سے دفتر میں اپنے استاد سے ملنے پر سوشل میڈیا صارفین برس پڑے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ اپنے آفس میں اپنےاستاد سے ملاقات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں،انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ آج کئی سال بعد اپنے استاد سے ملاقات ہوئی، جس میں پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملا، سلام استاد جی۔ نگراں وزیراعظم کی جانب سے اپنےآفس میں ملاقات کرنے پر سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کی اور کہا کہ نگراں وزیراعظم کو اپنے استاد سے ملاقات کے دوران ان کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل حماد اظہر نے کہا کہ آپ کے استاد نے مایوسی کا اظہار تو کیا ہوگا کہ ان کی تربیت کے باوجود آپ کیسے ایک غیر جمہوری نظام کے آلہ کاربن گئے ہیں، شائد انہوں نے یہ بھی یاد دلایا ہو کہ آپ کا صرف ایک اور آئینی فریضہ ہے جو کہ صرف منصفانہ الیکشن کروانا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مزمل اسلم نے کہا کہ اگر آپ اپنے استاد کے احترام میں ان کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتے تو ان کا رتبہ بڑا اور عظیم ہوجاتا۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ اگر آپ کے استاد اپنی خواہش پر آئے تھے یا آپ نے بلایا تھا ، یہ ایک اچھا کام تھا، بہتر ہوتا آپ گاڑی سے انہیں خود ریسیو کرتے اس سے اساتذہ کی تکریم میں مزید اضافہ ہوتا ۔ ارسلان بلوچ نے کہا کہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے ، آپ انہیں کم از کم نگراں وزیراعظم سیٹ پر بٹھا سکتے تھے۔ راشد محمود بنگش نے کہا کہ آپ کا استاد آرہا ہے تو آپ کو تو باہر نکل کر ان کا استقبال کرنا چاہیے تھا۔ مطیع الرحمان نے کہا کہ نگراں وزیراعظم ایسے تاثر دے رہے ہیں جیسے وہ عوام کے دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم ہیں، بھائی الیکشن کروائیں اور گھر جائیں ۔ ایک صارف نے کہا کہ ایک استاد کو عزت و احترام تک دروازے سے ریسیو کیا جاتا ہے، ویسے ہی احترام کیا جاتا ہے جیسے اپنے والد کا ، آپ کرسی پر بیٹھ کر انتظار کررہے تھے اور کیمرہ آن ہوتے ہی آپ نے اٹھ کر اپنے استاد سے ملاقات کی۔ ایک اور صارف نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کو انہیں اپنی برابر والی کرسی پر بٹھانا چاہیے تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرفتاری سے روکنے کے حکم کی تمام ذمہ داری نیب پر ڈال دی اور کہا کہ درخواست قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی نوازشریف کو ریلیف دے رہےہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری سے روکنے کا حکم نیب کے بیان پر دیا نیب نے واضح طور پر کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر وہ گرفتاری نہیں چاہتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی ہم نیب کی رضامندی کی وجہ سے ریلیف دے رہےہیں۔ فیصلے کا سب سے دلچسپ پیرا یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے نوازشریف کو 74 سال کی عمر ہونیکی وجہ سے ریلیف دیا ہے کیونکہ نوازشریف کی صحت ٹھیک نہٰیں رہتی جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ عطا تارڑ کی پاور آف اٹارنی سے فائل کی گئی درخواستیں قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی ریلیف دے رہے ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کو ملنے والا ریلیف اب کسی کو نہیں ملے گا، ایک بار ریلیف دے کر مستقبل میں ایسے ریلیف کا راستہ بھی بند کر دیا۔ اگر کوئی اٹارنی مقرر کر کے درخواستیں دائر کرے گا تو وہ ناقابل سماعت ہوں گی۔ لیکن نواز شریف کو ناقابل سماعت درخواست پر جو من چاہا مل گیا۔ علی اعجاز بٹر نے ردعمل دیا کہ مطلب جو ریلیف بادشاہ سلامت منڈیلا صاحب کو دیا ہے وہ آئندہ کسی کو نہیں دیا جائے گا نہ امید رکھے کوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کو پہلے 24 تک پھر 26 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت ملی تھی۔ پٹیشنز آج31اکتوبرکو ٹیکنیکل بنیادوں پرناقابل سماعت قراردیں اورکہا نیب کی رضامندی کی وجہ سے گرفتاری سےروکنے کاریلیف دیا تھااور آئندہ پاور آف اٹارنی پر کسی اور کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ انتظار پنجوتھہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے لیے انصاف کا ایک خاص دروازہ کھولا اور نواز شریف کو تحفظ فراہم کرکے فوراً بند کر لیا تاکہ مستقبل میں اس کیس کو بطور نذیر استعمال نہ کیا جاسکے، یہ اس بات کی طرف بھی نشاندہی کر رہا کہ جز خود بھی دیے جانے والے انصاف کو اپنے نام کے ساتھ لابکس کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتے لیکن تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک ایسی پیٹیشن جس کو عدالت نے ناقابل سماعت قرار دیا لیکن اسی دوران مجرم کو مطلوبہ ریلیف اسے ضرور دے دیا گیا صحافی محمد عمران کا کہنا تھا کہ نیب کی طرف سے اعتراض نہ کرنے کا مرحلہ تو اس کے بعد کا ہے،پہلے تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیکھنا تھا کہ درخواست قانونی طریقے سے دائر ہوئی یا نہیں رجسٹرار آفس نے بغیر اعتراض کے فائل آگے بھجوائی چیف جسٹس نے بنچ بنایا،آفس کے اعتراضات ہوتے تو پہلے ان پر سماعت ہوتی پھر نیب کو نوٹس تحریک انصاف کے رہنما عاطف خان نے کہا کہ کمال ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے حق میں ایسا فیصلہ دیا کہ فیصلے میں ہی لکھ دیا کہ ہم بھی دوبارہ چاہیں تو ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے کمال نظام ہے پاکستان کا آنکھوں میں دھول نہیں بلکہ دھول میں آنکھیں جھونک دیتے ہیں سعید بلوچ نے ردعمل دیا کہ یہی تو ان ججوں کی فنکاری ہے کہ ایک لاڈلے کو فائدہ دینے کے لیے ایک بار کھڑکی کھولی، اس لاڈلے کو ریلیف دیا اور پھر فوراً کھڑکی ہمیشہ کے لیے بند کر دی، یہ دراصل عمران خان کو بھی پیغام ہے کہ تم چاہو بھی تو ایسا ریلیف اب تمہیں نہیں مل سکے گا ارشاد بھٹی نے فیصلے شئیر کرتے ہوئے طنز کیا کہ میرےنظامِ انصاف تجھےسلام۔۔ اکبر باجوہ نے تبصرہ کیا کہ پہلے خود قانون کے ساتھ زنا کیا پھر اسکا اعتراف بھی کر لیا لیکن قاضی القضا کو اب بھی “چار گواہ” چاہیئے ہوں گے تحریری حکمنامے میں اعتراف جرم۔ نواز شریف نےحفاظتی ضمانت دائر کرنے سے پہلے عدالت کے سامنے سرنڈر نہیں کیا حفاظتی ضمانت کی پاوور آف اٹرنی قانونی تقاضے پورے نہیں کرتی عدالت کی نظر میں حفاظتی ضمانت کی درخواستیں قابل سماعت ہی نہیں تھیں:فیصلہ
پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے حق میں نعرے لگانے والے نوجوان گرفتار ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پشاور میں آج جے یو آئی نے سیاسی پاور شو کا اہتمام کررکھا تھا، جلسے کیلئے جے یو آئی کی جانب سے شہر کی ایک سڑک کو بینر اور کرسیاں لگا کر بند کردیا تھا، تاہم پروگرام شروع ہوتے ہی دوکانداروں اور رکشہ ڈرائیوروں کی بڑی تعداد نے "عمران خان زندہ باد" اور" ڈیزل ڈیزل "کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ نعرے بازی اتنی شدید ہوئی کہ جے یو آئی کا جلسہ بدنظمی کا شکار ہوگیا اور شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردیا گیا، پولیس نےموقع پر پہنچ کر مبینہ طور پر عمران خان کے حق میں نعرے بازی کرنےوالے افراد کو حراست میں لے لیا۔ ٹویٹر پر پشاورکے شہریوں اور صحافیوں نے واقعہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے ویڈیوز اور تصاویر بھی شیئر کیں، اظہر خان عاصف زئی نے پولیس کی جانب سے نعرے بازی کرنے والے افراد کی گرفتاری کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آج پشاور میں نا تو پی ٹی آئی کا کوئی جلسہ تھا نا کوئی ریلی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام شہریوں نے عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائے جس پر پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا، عمران خان جیل میں ہے مگر پھر بھی مخالفین پر لرزہ طاری ہے۔ طاہر اعوان نے کہا کہ یہ کونسا قانون ہے کہ عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانے پر نوجوان گرفتار کرلیا گیا ہے، اس موقع پر مولانا فضل الرحمان کے کارکنان پشتو میں کہہ رہے کہ اسے مارو، کیا پولیس مولانا فضل الرحمان کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ پی ٹی آئی پشاور کے مقامی عہدیدار نے بھی واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانے پر پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ فیصل خان نے لکھا کہ جے یو آئی کے شمولیتی پروگرام کو پولیس والے سرکاری پروٹوکول دے رہے ہیں، اور عمران خان کے حق میں نعرے لگانے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، پولیس ڈیزل کی غلام ہے یا عوام کی نوکر ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی گرفتاری سے روکنے کے حکم کی تمام ذمہ داری نیب پر ڈال دی اور کہا کہ درخواست قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی نوازشریف کو ریلیف دے رہےہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری سے روکنے کا حکم نیب کے بیان پر دیا نیب نے واضح طور پر کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر وہ گرفتاری نہیں چاہتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی ہم نیب کی رضامندی کی وجہ سے ریلیف دے رہےہیں۔ فیصلے کا سب سے دلچسپ پیرا یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے نوازشریف کو 74 سال کی عمر ہونیکی وجہ سے ریلیف دیا ہے کیونکہ نوازشریف کی صحت ٹھیک نہٰیں رہتی جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ عطا تارڑ کی پاور آف اٹارنی سے فائل کی گئی درخواستیں قابل سماعت نہیں لیکن پھر بھی ریلیف دے رہے ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کو ملنے والا ریلیف اب کسی کو نہیں ملے گا، ایک بار ریلیف دے کر مستقبل میں ایسے ریلیف کا راستہ بھی بند کر دیا۔ اگر کوئی اٹارنی مقرر کر کے درخواستیں دائر کرے گا تو وہ ناقابل سماعت ہوں گی۔ لیکن نواز شریف کو ناقابل سماعت درخواست پر جو من چاہا مل گیا۔ صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر دو درخواستیں جن پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو پہلے 24 پھر 26 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت ملی اسلام آباد ہائیکورٹ نے وہ دونوں پٹیشنز آج 31 اکتوبر کو ٹیکنیکل بنیادوں (پاور آف اٹارنی درست نا ہونے کی وجہ سے) پر ناقابل سماعت قرار دیں ہیں اور کہا ہے نیب کی رضامندی کی وجہ سے گرفتاری سے روکنے کا ریلیف دیا تھا انہوں نے مزید کہا کہ " پنجاب حکومت نے اس بنیاد پر نواز شریف کی سزا العزیزیہ ریفرنس میں معطلی کی کہ ان کے وکیل نے کمیٹی کے سامنے موقف اختیار کیا نواز شریف کی 74 سال عمر ہے وہ خراب صحت کی وجہ سے جیل میں نہیں رہ سکتے " اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا معطلی کے پنجاب حکومت کے آرڈر کو تسلیم کر لیا ثاقب بشیر نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو حفاظتی ضمانت دینے کی درخواستیں تو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر (وقت گزرنے کے بعد) ناقابل سماعت قرار دیں لیکن نیب کے موقف کی وجہ سے سارا ریلیف دیا گیا اور عدالت نے قرار دیا کہ 19 اکتوبر کو دائر دو پٹیشنز میں عطا تارڑ کی طرف سے دیا گیا پاور آف اٹارنی درست طریقہ کار سے تیار نہیں کیا گیا تھا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پاور آف اٹارنی قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا تھا اس لئے ہم قرار دیتے ہیں کہ رٹ پٹیشنز ناقابل سماعت ہیں۔ آگے جاکر عدالت نے کہا کہ نیب کی جانب سے واضع اور غیر متوقع موقف کی وجہ سے گرفتاری سے روکنے کا آرڈر کیا گیا ، نیب کی جانب سے رضامندی ظاہر کرنے پر حفاظتی ضمانت کے آرڈرز جاری کئے گئے ، دونوں سماعتوں پر نیب نے واضع موقف اپنایا کہ نیب نواز شریف کو گرفتار نہیں کرنا چاہتی ۔ صحافی سہیل رشید نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تحریری حکمنامہ آگیا اور جو بات عدالت کے سامنے زیر غور ہی نہیں تھی اور الہام کا سہارا لینا آخری آپشن بچا تھا اسے be that as it may apparently کی طویل اصطلاح سے کور کر کے لکھا گیا کہ شاید ایسا ہوا بظاہر پنجاب حکومت نے سزا 74سال کا ہونے پر معطل کی سہیل رشید نے مزید کہا کہ سب کان کھول کر سن لیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے واضح کر دیا ہے جو ریلیف نواز شریف کو ملا وہ آئندہ کسی کو نہیں ملے گا، فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے سرنڈر کئے بغیر پاور آف اٹارنی کے ذریعے درخواستیں دائر کرنا غلط تھا وہ درخواستیں خارج ہیں مگر نوازشریف کواب مل چکاریلیف برقرار رہے گا صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا یہ پیرا کافی دلچسپ ہے۔ عدالت کہہ رہی ہے کہ عطا تارڑ کی پاور آف اٹارنی سے فائل کی گئی درخواستیں قابل سماعت نہیں، یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے برعکس ہیں اس دائر درخواست پر ریلیف مل گیا، لیکن اب پتہ چلا ہے کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں
لمز کے طلباء کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے سخت سوالات پر مخصوص صحافیوں کی لمز کے طلباء پر تنقید۔۔ لمز کے طلباء کو بدتمیز، کم آئی کیو لیول کے اور تہذیب سے عاری قرار دیدیا گزشتہ روز نگرن وزیراعظم انوارلحق کاکڑ سے لمز کے طلباء نے سخت سوالات کئے جو مخصوص صحافیوں کو بہت گراں گزرے اور لمز کے طلباء پر تنقید کرتے ہوئے انہیں بدتمیز، بدتہذیب، یوتھئے، کم آئی کیولیول کے قرار دیدیا۔ ان طلباء نے نگران وزیراعظم سے لیٹ آنیکی وجہ پوچھی اور تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ طلباء نے الیکشن میں تاخیر، معیشت، ملک میں جاری بگڑتی صورتحال پر سوالات کئے تھے جو انتہائی سخت تھے اوریہ نگران وزیراعظم ان سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دے پائے اور پریشان نظر آئے۔ اس پر مخصوص صحافی سامنے آئے اور ان طلباء کو کھری کھری سنادیں۔ کاش پاکستانی قوم یہ سمجھ سکے کہ جُملہ بازی یا جُگت بازی ذہانت کا مظہر نہیں ہوتی۔اور کسی کو شرمندہ یا چُپ کروادینا قابلیت کا نمونہ نہیں ہوتا۔ لمز میں کسی طالب علم نے معیشت، قومی سلامتی، اور خارجہ پالیسی پر کوئی ذہین بات نہیں کی۔ بس ویسی ہی قابلیت دکھائی جیسی ٹی وی پر دکھتی ہے۔ صحافی مزمل سہروردی نے کہا کہ لمز کے طلبا نے بتایا کہ ان کا آئی کیو کتنا لو ہے۔ عقل و دانش کی کتنی کمی ہے۔ وہ کتنے بدتمیز ہیں۔ ان کےسوالات ایک کم پڑھے لکھے پاکستانی سے بھی کم تر سطح کے تھے ۔ صحافی ایلیا زہرہ نے کہاکہ لمز کے طلبا کی طرف سے وزیر اعظم سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات آدھے پکے ہوئے تھے، ان میں کوئی اہمیت نہیں تھی، اور ان کی بنیاد ان پاپولسٹ ٹاکنگ پوائنٹس پر تھی جسے عمران خان جیسے سیاستدان استعمال کرتے رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی بھی ایسے معمولی ذہن پیدا کرتی ہے! ایک اور سوشل میڈیا انفلوئینسر نے کہا کہ لمز یونیورسٹی کے طلباء کے پاس آئی کیو لیول تو کیا کوئی ویژن ہی نہیں تھا جس کی بناء پر وہ وزیر اعظم سے سوال کرتے انکی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ نا تو انہوں نے معیشت مہنگائی بیروزگاری تعلیم صحت کے متعلق سوال پوچھے بلکہ ان کو دکھ اس بات کا تھاوزیراعظم دیر سے کیوں آیا مصطفیٰ چوہدری کا کہنا تھا اس وقت لمس سے اچھی انگریزی کوی دوسرا لیگونج سینٹر نہیں سکھا رہا _ ttps://twitter.com/Mustafa_Chdry/status/1719353610041987293 ن لیگ کے حمایتی شفیق چوہدری ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر انگریزی نکال دی جائے تو چک نمبر 336 گ ب اور لمز کے طالب علم میں فرق نہیں ہے جیسا کہ نگران وزیراعظم سے پوچھ رہے کہ آپ پنجاب اور KP میں الیکشن کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ معشیت ٹھیک کرنے کی بجائے لمز کیا کرنے آئے؟ مطلب شعور کا لیول ہے کہ نگران وزیراعظم کے اختیارات تک علم نہیں ہے
گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ لاہور کی یونیورسٹی لمز میں طلبہ سے گفتگو کے لیے تاخیر سے پہنچے تو اس پر شرکا میں موجود کچھ طالبعلموں نے اعتراض کیا۔ نگران وزیراعظم سے الیکشن میں تاخیر، ملکی میں جاری بحران، آزادہ اظہار سے معلق سخت سوالات کئے گئے جس پر انوارالحق کاکڑ کافی پریشان نظر آئے اور بعض مواقعوں پر بوکھلاٹ کا شکار بھی دکھائی دئیے۔ نگران وزیراعظم سے جو سوالات کئے گئے انکی وہ توقع نہیں کررہے تھے۔ اپنے سوال کے دوران ایک طالبعلم نے کہا کہ سر جب آپ منتخب ہوئے تھے۔۔۔‘ تو دیگر طلبہ نے ان کی تصحیح کرنے کے لیے ’سلیکٹ‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ ’میں سلیکٹ نہیں نامزد ہوا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے گزشتہ روز کے ایونٹ کو سانحہ لمز کا نام دیا اور کہا کہ 30 اکتوبر کو عمران خان نے مینارپاکستان جلسے میں جو شعور دیا تھا وہ سانحہ لمز کی بنیاد بنا ہے رضوان غلزئی نے تبصرہ کیا کہ سانحہ لمز کی وجہ صرف عمران خان کی ذہن سازی نہیں بلکہ سندھ ہاؤس میں لگنے والی انسانی منڈی سے لے کر آج تک اپنی آنکھوں کے سامنے طاقت کا ننگا ناچ دیکھ کر لوگوں کی اس نظام کے خلاف نفرت مسلسل بڑھتی رہی۔ عمران خان کا کریڈٹ یہ ہےکہ اس بوسیدہ نظام کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرنے میں کامیاب رہے اور آج ہر نوجوان کی یہی آواز ہے کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے بغیر پاکستان آگے نہیں جاسکتا۔ علی سلمان علوی نے تبصرہ کیا کہ سانحہ لمز کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ توہینِ کٹھ پتلی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلایا جائے۔ تحریک انصاف نے تبصرہ کیا کہ آپ شعور کو ریورس نہیں کر سکتے نہ سچ کو دبا سکتے ہیں اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہا جس طرح چادر چار دیواری کے تقدس کی پامالیاں کی جارہی ہیں جس طرح آئین و قانون کو روندا جارہا ہے یہ ہر پاکستانی کو نظر آرہا ہے جو عوام روز مرہ زندگی میں ان چیزوں کو آنکھوں سے دیکھ رہے ان کو تمہارے زرخرید میڈیا کی سب اچھا کی رپورٹنگ کیسے مطمئن کر سکتی ہے؟ احتشام نے لکھا کہ کوئی وزیراعظم صاحب کو بتا دیں کہ آپ کا یہ وزیراطلاعات آپ کو ڈبو دے گا۔ من پسند صحافیوں کو انٹرویوز وغیرہ تک بات ٹھیک ہے۔ یونیورسٹیوں اور پبلک مقامات وغیرہ میں ایسے لوگ جانے سے گریز کریں۔ وزیراعظم کو اپنی عزت کی پرواہ نہیں تو کم از کم اِس ملک کے وزیراعظم کے منصب کا خیال تو رکھیں۔ لالیکا نے مثال دیتے ہوئے لکھا کہ نگران وزیراعظم کی مثال ڈاکٹر کے کلینک کے باہر بیٹھے اس چوکیدارکی ہےجوکلینک پہ آئے مریضوں کو بتائےکہ ڈاکٹرصاحب ایک گھنٹہ لیٹ ہیں آپ انتظارکرے۔اوراسی میں اسکی عزت ہے۔ اب اگر وہ چوتیا دروازے پہ بیٹھ کر پیٹ کے درد کے مریض کا گردہ نکالنے کی کوشش کرے تو اسنے زلیل توہونا ہی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ عقلمندوں نے ایک خودرو سقراط کو چپ رہنے کی نوکری دے دی ہے۔ ڈاکٹرشہبازگل نے دفعات شئیر کرتے ہوئے کہا ک کم از کم ان دفعات کے ساتھ غداری اور بغاوت کے پرچے بنتے ہیں ان لوگوں پر۔ صبغت اللہ ورک نے لکھا کہ شکر کریں آج جوتوں کی محرومی سے ہی کام چل گیا وگرنہ بات تو لُنگی اور پتلون کی قربانی تک بھی جاسکتی تھی۔ جنید نے لکھا کہ خود آن لائن گالی بھی برداشت نہیں ہوتی حالنکہ میوٹ اور بلاک سے نجات ممکن ہے اور توقع ہے کہ دوسرے قتل اغوا تشدد گرفتاریاں اور مقدمے ہنس کر سہیں۔ وسیم وزیر نے تبصرہ کیا کہ جسم تو قید میں اجاتا ہے مگر سوچ نسلوں تک پھیل جاتی ہے شہربانو نے لکھا کہ تبدیلی آئی نہیں تبدیلی آگئی ہے ۔۔۔ سانحہ 30 اکتوبر لمز کے ہیروز ۔۔۔۔ وطن کے سارے جوان تمہیں سلام کہتے ہیں زبیر احمد خان نے تبصرہ کیا کہ میں سانحہ لمز کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں

Back
Top