دنیا بھر میں ہزاروں بچے غربت کے باعث، گھر کے معاشی حالات سدھارنے کی خاطر اور کبھی قرضہ اتارنے کیلئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں بھی نابالغ بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا عام ہوتا جا رہا ہے تاہم ان کم عمر بچوں کے بنیادی انسانی حقوق اور تحفظ کیلئے کوئی قانون موجود نہیں اور اگر ہے بھی تو اس پر حکومت عملدرآمد کرنے میں ناکام ہے، یہی وجہ ہے کہ گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق لودھراں شہر میں ایک گھر میں کام کرنے والی 12 برس کی گھریلو ملازمہ پر مبینہ طور پر تشدد کرنے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں اس کے بال بھی کاٹ دیئے گئے ، 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر مالکان نے تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ آگ سے جھلسایا۔ 12 سالہ لڑکی کا چہرہ اور ہاتھ آگ لگنے سے جھلس گئے اور تشدد سے اس کی ٹانگ پر گہرے زخم آئے جس پر ٹانگے لگانے پڑے۔
متاثرہ لڑکی کی والدہ کے بیان کے مطابق گھر کا مالک، اس کی اہلیہ، بیٹی اور بہو نے بیٹی پر تشدد کرتے تھے، میری بیٹی کو پچھلے 3 دنوں سے ایک کمرے میں بند کر کے رکھا ہوا تھا، وہ پچھلے 8 مہینے سے ان کے گھر پر کام کر رہی تھی۔ متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں بتایا کہ گھر کے مالک اور ان کے اہل خانہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھے مارتے تھے، گیس کھلی چھوڑ کر چولہا جلانے پر مجبور کیا جس سے دھماکہ ہوا اور آگ لگ گئی۔
ذرائع کے مطابق 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بچی کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، بچی کی والدہ کی مدعیت میں تھانہ سٹی لودھراں پولیس نے ملزم اور اس کے اہل خانہ کیخلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن ناصر جاوید رانا اور ڈی پی او کامران ممتاز نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور معاملے کی تحقیقات کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔
ڈی پی او لودھراں کامران ممتازکا کہنا تھا کہ معاملات کی تحقیقات میں الزامات سچ ثابت ہوئے تو گھر کے مالک اور اس کے اہل خانہ کیخلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ متاثرہ بچی کے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے گا، متاثرہ بچی کی صحت یابی تک اس کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے واقعے کا نوٹس لیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں پر تشدد ہماری ریڈلائن ہے، بچوں پر تشدد کرنے والے ملزمان کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ متاثرہ بچی اور ان کے والدین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔