خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیے جانے کے بعد پارٹی کی طرف سے ہونے والے احتجاج کے بعد سے پی ٹی آئی زیرعتاب ہے۔ ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں وکارکنوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جانب سے کریک ڈاؤن کیا گیا اور متعدد مقدمات درج کیے گئے۔ 14 اگست 2024ء کو جشن آزادی کی رات بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے مری میں نواز شریف کی تصاویر پر پتھرائو کرنے کے واقعہ پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ملک اعجاز آصف کے روبرو آج اس مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جشن آزادی کی شب ایک سیاسی رہنمائوں کی تصاویر پر پتھرائو کرنے کے کیس میں شامل دہشت گردی دفعات کو خارج کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 9 کارکنوں کے جسمانی ریمانڈ دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے مقدمہ میں پی ٹی آئی کارکنوں پر درج مقدمے میں عائد کی گئی دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے خارج اور ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مقدمہ آئندہ سماعت کے لیے سول جج مری کی عدالت میں ٹرانسفر کر دیا ہے۔ کیس کی سماعت کے بعد مری پولیس تحریک انصاف کے گرفتار کیے گئے تمام 9 کارکنوں کو واپس مری لے گئی۔ واضح رہے کہ مری میں یوم آزادی کے موقع پر سیاحتی مقام مری کے جی پی او چوک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے قائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کی تصویر پر جوتے مارے تھے جس کے بعد ان پر دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ تھانہ مری میں سول ڈیفنس مری کے وارڈن محمد سہیل رشید کی مدعیت میں درج ہوا جس میں 11 افراد نامزد جبکہ 40 کو نامعلوم ظاہر کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھائے ہوئے متعدد افراد نے جشن آزادی کے موقع پر حکومت مخالف نعرے بازی کی اور نجی ہوٹل پر پتھرائو بھی کیا، روکنے پر مزاحمت اور کارسرکار میں مداخلت کی۔ ملزموں کے ڈنڈوں کے وار سے مقدمہ کے مدعی سمیت احسن اور احتشام زخمی ہوئے اور مدعی مقدمہ کی یونیفارم بھی پھاڑ دی جبکہ واقعے کی ویڈیو پی ٹی آئی رہنما لطاسب ستی کی طرف سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھی۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور برطرف صوبائی وزیر شکیل خان کے درمیان ایک واٹس ایپ گروپ میں شدید تلخ کلامی دیکھی گئی ہے، اس دوران دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے واٹس ایپ گروپ میں علی امین گنڈاپور اور شکیل خان کے درمیان گرما گرم بحث شروع ہوئی اوردونوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جو ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران شکیل خان نے وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دیا جس پر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میں تو پہلے ہی آپ کو فارغ کرچکا ہوں، شکیل خان نے وزیراعلیٰ کو بااختیار نا ہونے کا طعنہ دیا، علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان کی منظوری سے بنائی گئی گڈگورننس کمیٹی نے شکیل خان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کی منظوری دی۔ گروپ میں شامل دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں، وزراء اور اراکین اسمبلی کی جانب سے مداخلت کرنے پر علی امین گنڈاپور اور شکیل خان نے اپنے اپنے میسجز ڈیلیٹ کردیئے۔ سابق صوبائی وزیر شکیل خان نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسا نہیں لگتا کہ کے پی کے میں ہماری حکومت ہے، اس سے قبل پرویز خٹک اورپھر محمود خان کے کارناموں کو بے نقاب کیا اور مجھے پہلے بھی وزارت سے نکالا گیا ، ہم توصوبے میں سیکرٹری تک تبدیل نہیں کرسکتے نا ہی کوئی سیکرٹری کام کرتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ عمران خان نے گڈ گورننس کمیٹی میں جنید اکبر خان کو بھی شامل کیا تھا مگر انہیں کمیٹی سے نکلوادیا گیا اور اپنی مرضی کے افراد پر مشتمل کمیٹی بنا کر عمران خان کو سب اوکے کی رپورٹ دی گئی۔ خیال رہے کہ گڈ گورننس کمیٹی کی سفارش پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے شکیل خان سے وزارت واپس لے کر گورنر کو سمری ارسال کردی تھی جسے گورنر نے منظور کرلیا اور کہا کہ شکیل خان کو صوبائی حکومت کی کرپشن بے نقاب کرنے وزارت سے ہٹایا گیا،تاہم انہیں عہدے سے ہٹانے کی سمر ی پردستخط کرنا آئینی و قانونی تقاضہ تھا۔
پاکستانیوں کے لئے عمرے کی آڑ میں سعودی عرب جاکر بھیک مانگنا کاروبار بن گیا,ملتان میں ٹھیلا لگانے والا بھائیوں نے سعودی عرب میں بھیک مانگ کر لاکھوں روپے کما لیے,عمرے کی آڑ میں بھیک مانگنے کی غرض سے سعودی عرب اور دیگر ممالک میں بھیک مانگنے کے لیے جانے والے گروہ خواتین اور بچوں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات،عراق ، ملائیشیا ،قطر اور آذربائجان میں بھی پاکستانی شہریوں کی بھیک مانگنے کی شکایات سامنے آرہی ہیں,گذشتہ دنوں ایف آئی اے امیگریشن نے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر عمرے کی آڑ میں بھیک مانگنے کی غرض سے جانے والے دو بھائیوں سمیت 11 مسافروں کو آف لوڈ کیا تھا جن میں 6 خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔ ملزمان کو ایف آئی اے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے حوالے کیا گیا,ایف آئی اے حکام کے مطابق گرفتار ملزمان محمد شاہد اور محمد مجاہد سگے بھائی ہیں,محمد شاہد ملتان میں گول گپے کا جبکہ محمد مجاہد برف کا ٹھیہ لگاتا تھا,دونوں بھائی پانچ چھ ماہ قبل عمرہ ویزہ پر سعودی عرب گئے اور پھر غیر قانونی طور پر بھیک مانگنے لگے,دو ماہ بعد انھیں مقامی پولیس نے پکڑ لیا اور جیل بھیج دیا جس کے بعد وہ سزا پوری کر کے پاکستان ڈیپورٹ کر دیے گئے ۔ 12 اگست 2024 کو دونوں بھائی 11 افراد کے ساتھ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں دوبارہ عمرہ ویزہ پر جانے کی کوشش کر رہے تھے جب ائیر پورٹ اسٹاف نے انھیں مشکوک جان کر روکا۔تمام افراد نے اہرام پہن رکھے تھے تاہم انکے کے پاس موجود ریٹرن ٹکٹ اور ہوٹل واؤچرز جعلی تھے جبکہ ان کے پاس سعودی عرب میں اخراجات کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے ملتان میں ایک ٹریول ایجنٹ کو فی کس ایک لاکھ 70 ہزار روپے دیے تھے جس نے ان کے ٹکٹ اور ہوٹل واؤچرز بنا کر انھیں دیے ۔دونوں بھائی پہلے بھی بھیک مانگ کر 3 لکھ 25 ہزار روپے لیکر آئے جس میں ٹکٹ کا خرچہ نکال کر ان کے پاس سوا لاکھ روپے کے قریب رقم بچی تھی۔اس بار وہ اپنی بیوی ، بچوں اور رشتہ داروں کے ہمراہ جا رہے تھے۔ گروپ میں محمد شاہد ،اس کی بیوی زیدی بی بی اور بیٹی عالیہ بتول کے علاوہ اس کا بھائی محمد مجاہد ، مجاہد کی بیوی پٹھانی بی بی شامل ہیں جبکہ دیگر افراد میں کنیز مائی اور اس کی بیٹی نینا کنیز، منظوراں اور اس کی بیٹی ناہید مائی، لیلہ اور محمد ظفر شامل ہیں,ایف آئی اے حکام کا کراچی ائیر پورٹ سے بھیک مانگنے کے لیے جانے والے افراد کے خلاف اب تک چار مقدمات درج کیے جا چکے ہیں,حکام کے مطابق بھیک مانگنے کے لیے جانے والے افراد کے ساتھ ان کو بھیجنے والے ایجنٹس کے خلاف بھی مقدمات درج کیے جا رہے ہیں, ایجنٹس زیادہ تر ناخواندہ لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں اور انھیں سبز باغ دکھا کر رقم بٹورتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایک شہری نے بیٹے کی بازیابی کیلئے عدالت میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ 2021 سے بیٹا دفتر سے لاپتہ ہے اگر کوئی جرم کیا ہے تو بتائیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت کراچی کے علاقے شارع فیصل سے لاپتہ شہری خرم کاظمی کے والد عدالت میں پیش ہوئے ، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرے بیٹے کو 2021 میں اس کے دفتر سے کچھ لوگ اپنے ساتھ لے گئے، اس کی چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں، کچھ پتا نہیں بیٹا کہاں ہے، اگر میرے بیٹے نے کوئی جرم نہیں کیا تو جیل بھیج دیں۔ شہری کی دہائی پر عدالت نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ مذکورہ شہری کا کوئی کرمنل ریکارڈ یا اس کی کسی تنظیم سے وابستگی ثابت ہوئی ہے؟ تفتیشی افسر کی جانب سے منفی جواب ملنے پر عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاس میں کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ درخواست گزار نے جے آئی ٹی اجلاس میں سرکاری اداروں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے آئندہ اجلاس میں رپورٹس پیش کی جائیں گی۔ عدالت کی جانب سے لاپتہ شہریوں کی مالی معاونت کے حوالے سے استفسار پر سرکاری وکیل نے کہا کہ 22 خاندانوں کی مالی معاونت کیلئے دستاویزی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے اگلے ہفتے تک چیک جاری ہوجائیں گے۔ سماعت کے دوران ایک دوسرے لاپتہ شہری اختر علی کے اہل خانہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے 11 محرم سے والد لاپتہ ہیں، پولیس نے تاحال مقدمہ درج نہیں کیا،عدالت نے شہریوں کو فوری طور پر بازیاب کروانے کے اقدامات کا حکم جاری کردیا ہے۔
اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ ظفر اقبال اپنے گھر پہنچ گئے ہیں،انہیں مبینہ طور پر عمران خان کی سہولت کاری کے الزام میں تحویل میں لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل میں مبینہ طور پر عمران خان کی سہولت کاری کے الزام میں تحویل میں لیے گئے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ ظفر اقبال جمعہ کی دوپہر اچانک اڈیالہ جیل میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے تھے، انہوں 13 اگست کو عمران خان کی سہولت کاری کے الزام میں تحویل میں لیا گیا تھا۔ ظفر اقبال کے گھر پہنچنے پر لاپتہ اسسٹنٹ ناظم شاہ کے اہلخانہ نے ان سے ملاقات کی تاہم ملاقات میں ظفر اقبال نے ناظم شاہ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ بھی گھر پہنچ گئے ہیں، گھر پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور حساس اداروں کی جانب سے حراست میں لیے جانے کی تردید کی اور کہا کہ میں اپنے ہی گھر میں اپنی ہی گرفتاری کی خبریں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سن رہا ہوں، یہ تو زرد صحافت ہے۔
حکومتی ڈھانچے کے حجم و اخراجات میں کمی لانے کے لیے آج ایک اہم ترین اجلاس وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت ہوا جس میں انہیں 1 لاکھ 50 ہزار کے قریب اسامیاں ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں حکومتی ڈھانچے کے حجم واخراجات میں کمی کرنے کے لیے اجلاس میں انہیں 1 لاکھ 50 ہزار کے قریب اسامیاں ختم کرنے کی سفارش کرتے ہوئےمتعدد تجاویز دی گئی ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کے شرکاء سے گفتگو میں کہا کہ حکومتی اخراجات کم کرنا ہماری ترجیح، ادارہ جاتی اصلاحات کا مقصد عوام کو فراہم کی جانے والی سروسز میں بہتری لانے کے ساتھ قومی خزانے پر بوجھ میں کمی لانا ہے۔ پبلک سروس کے حوالے سے کوئی خاطرخواہ کارکردگی نہ دکھانے والے ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں ان کی نجکاری کیلئے اقدامات کیے جائیں یا فوری ختم کر دیا جائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروبار کی حؤسلہ افزائی کرنے والے ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا ) کی نگرانی خود کروں گا جبکہ اسے وزیراعظم آفس کے تحت لانے کی ہدایت بھی کر دی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرسربراہی میں حکومت کی رائیٹ سائزنگ کیلئے قائم کمیٹی نے اجلاس میں اپنی تجاویز پیش کیں۔ کمیٹی کی طرف سے 1 لاکھ 50 ہزار کے قریب سرکاری اسامیاں ختم کرنے، نان کور سروسز اور صفائی و جینیٹوریل سروسز جیسے عام نوعیت کے کاموں کو آئوٹ سورس کرنے کی سفارش کی گئی جس کے نتیجے میں گریڈ 1 سے 16 کی متعدد اسامیاں بتدریج ختم ہو جائیں گی۔ ہنگامی بنیادوں پر کمیٹی نے بھرتیوں پر پابندی عائد کرنے اور وزارت کے کیش بیلنز پر وزارت خزانہ کی نگرانی میں دینے کی سفارش بھی کی۔ اجلاس میں 5 وفاقی وزارتوں میں اصلات بارے سفارشات پیش کی گئیں اور وزارت قومی صحت، صنعت وپیداوار، انفارمیشن ٹیکنالوجی وٹیلی کمیونیکیشن، سرحدی امو اور وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان میں اصلاحات پر بریفنگ دی گئی۔ وزارت سرحدی امور اور وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان کو ضم کرنے کی تجویز بھی اجلاس میں زیرغور آئی۔ 5 وزارت کے 28 اداروں کو مکمل طور پر بند کرنے، نجکاری یا دوسری وزارتوں / وفاقی اکائیوں کو منتقل کرنے جبکہ 12 اداروں کو 5 وزارتوں میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ مجوزہ اصلاحات وفاقی کابینہ سے منظور کروائی جائیں اور ان اصلاحات کے نفاذ کا جامع پلان بھی پیش کیا جائے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک، وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ، وزیر صنعت وپیداوار، وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان اور وزیراعظم کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر ملک مختار، بلال کیانی کے علاوہ متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران بھی شریک ہوئے۔
بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی خفیہ جیل ہائوس آف مرر میں 8 برس تک قید رہنے والے 40 سالہ بیرسٹر احمد بن قاسم نے خفیہ جیل میں گزارے گئے وقت کا احوال بتاتے ہوئے بہت سے انکشافات کیے ہیں ۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر احمد بن قاسم نے بتایا کہ انہیں ان کے والد اور رہنما جماعت اسلامی میر قاسم علی کی وجہ سے 8 برس پہلے اغوا کر لیا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے والد کا کیس لڑ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے اغوا کرنے کے بعد ہائوس آف مرر نامی خفیہ جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا جسے بنگلہ دیشی فوج کی زیرنگرانی چلایا جاتا ہے اور 4 دنوں بعد ہی میرے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ہائوس آف مرر میں کسی قیدی کی کسی بھی شخص سے ملاقات نہیں کروائی جاتی، جیل میں مجھے 8 برسوں تک قید تنہائی میں رکھا گیا جہاں میں نے بغیر کھڑکی والے سیل میں ہتھکڑیوں میں بندھے ہاتھوں کیساتھ وقت گزارا۔ احمد بن قاسم کا کہنا تھا کہ ہائوس آف مرر کے گارڈز کو قیدیوں کو یہ بتانے کی بھی اجازت نہیں تھی کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ میں ایک دیندار مسلمان ہوں جسے قید کے دوران نماز کے اوقات جاننے سے بھی دور رکھا گیا نہ ہی مجھے یہ پتا چلنے دیا گیا کہ جیل میں کتنا وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خفیہ جیل میں ہر وقت موسیقی چلتی رہتی تھی اور مجھے اذان کی آواز سننے کی اجازت بھی نہیں ملتی تھی، جب بھی کبھی موسیقی بند ہوتی تو مجھے درد سے کراہتے ہوئے قیدیوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مجھے محسوس ہوا کہ یہاں پر میں اکیلا قید نہیوں ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کے رونے، چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سنتا رہتا تھا۔ احمد بن قاسم کا کہنا تھا کہ میرے والد کو پھانسی دیئے جانے کا مجھے 3 سال بعد جیلر سے معلوم ہوا جس نے غیرارادی طو رپر مجھے بتایا، 5 اگست 2024ء کو 8 سال بعد حسینہ واجد کے معزول ہونے کے بعد مجھے 6 اگست کو آزادی ملی۔ میری رہائی ملک کے نوجوانوں کے احتجاج کی وجہ سے ممکن ہوئی جس کے بعد میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 8 سال بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہتھکڑیوں میں جب مجھے پہلی دفعہ ہائوس آف مرر سے باہر نکالا گیا تو میں نے پستول کی آواز سنی اور اپنی سانسیں روک لیں لیکن وہ مجھے ایک کار میں بٹھا کر ڈھاکہ کے مضافات میں زندہ اور آزاد پھینک گئے۔ میری اچانک سے رہائی کا باعث بننے والی قومی بغاوت بارے مجھے کوئی علم تھی تھا، 8 برس بعد مجھے پہلی دفعہ تازہ ہوا نصیب ہوئی حالانکہ مجھے لگتا تھا وہ مجھے مار ڈالیں گے۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ نوکریوں میں کوٹے کے خلاف احتجاج میں شیخ حسینہ واجد کی معزول حکومت کی طرف سے کیے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم قائم کی گئی تھی جو اگلے مہینے بنگلہ دیش کا دورہ کرے گی تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالےاقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی طرف سے ابتدائی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی مظاہروں کے دوران 600 سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 16 جولائی 2024ء سے 11 اگست کے دوران 600 سے زیادہ بنگلہ دیشی شہری جاں بحق ہوئے۔ 16 جولائی 2024ء سے 4 اگست کے درمیان 400 کے قریب شہری جبکہ 5 سے 6 اگست 2024ء کے درمیان مزید 250 شہری جاں بحق ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصے کے بعد انتقامی حملوں میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کی ہلاکتوں کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا تاہم 7 سے 11 اگست 2024ء کے دوران بھی بہت سے شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جاں بحق ہونے والے شہریوں میں وہ لوگ شامل تھے جو مظاہروں کے دوران مختلف واقعات میں زخمی ہوگئے اور ہسپتال میں دوران علاج جانبر نہ ہو سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جاں بحق ہونے والے شہریوں میں مظاہرین کے علاوہ راہگیر، واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہزاروں مظاہرین اور راہگیر مختلف واقعات میں زخمی ہوئے، انٹرنیٹ بندش، نقل وحرکت پر پابندی اور کرفیو کے باعث رپورٹ کیے گئے شہریوں کی تعداد رپورٹ کی گئی تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق عبوری حکومت نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اگلے ہفتے بنگلہ دیش کا دورہ کرے گی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیقات کرے گی۔ بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سربراہ وولکر ترک سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس میں مظاہرین پر تشدد کے ذمہ داران کا تعین کرنے کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ کیا ہوا۔
ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے والے صارفین کو شدید پریشانی کا سامنا ہے جس پر قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے پی ٹی آئی کو 2 ہفتوں میں مسئلہ حل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی پاکستان کی میزبانی میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آ چکے ہیں تاہم انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے انہیں بھی شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی پچھلے 4 دنوں سے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سیریز سے قبل ٹریننگ سیشنز میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سست انٹرنیٹ سپیڈ کے باعث انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا موقف ہے کہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ کی طرف سے سست انٹرنیٹ کی اب تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے بیان کے مطابق پچھلے چند ہفتے سے انٹرنیٹ کی رفتار میں 30 سے 40 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین 21 اگست سے راولپنڈی ٹیسٹ شیڈول ہے تاہم محکمہ موسمات کی طرف سے ان دنوں میں بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کی وجہ سے گرائونڈز مین اب تک پچ پر کام شروع نہیں کر سکے۔ ذرائع کے مطابقسکیورٹی کے پیش نظر سوشل میڈیا پر فائروال کا دوسرا ٹرائل کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے، اب متنازع مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے بچ نہیں سکیں گے۔ فائر وال کی انسٹالیشن کے بعد اب انٹرنیٹ سروسز آئندہ 2 سے 3 روز تک معمول تک آنے کا امکان ہے، جزوی طور پر انٹرنیٹ بحال ہو چکا ہے تاہم تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس معمول کے مطابق کام شروع کر دیں گی۔ علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ میں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواست فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے گئے ہیں کہ یہ مفادعامہ کا معاملہ ہے، عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفادعامہ کے معاملے پر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ مناسب معلومات ہی نہیں دی جا رہی ہیں، کیا پی ٹی اے انٹرنیٹ بندش پر وفاقی حکومت کا اعتماد میں نہیں لیتا۔
سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سہولت کاری کرنے کے معاملے پر محکمہ جیل خانہ جات پنجاب میں بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی طرف سے اسی سلسلے میں سابق آئی جی جیل خانہ جات شاہد سلیم بیگ کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے، وہ بانی پی ٹی آئی کے اڈیالہ جیل جانے سے پہلے ریٹائر ہو چکے تھے جبکہ اڈیالہ جیل کے 2 سابق افسر بھی پوچھ گچھ کیلئے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ دوسری طرف بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سہولت کاری کرنے کے الزام میں حراست میں لیے گئے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کو بازیاب کروانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست پر عدالت نے تھانہ صدر بیرونی پولیس راولپنڈی کو منگل کے لیے نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور جواب طلب کیا ہے۔ سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کو بازیاب کروانے کے لیے ان کی اہلیہ کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر جسٹس محمد رضا قریشی نے سماعت کی جبکہ ایڈووکیٹ ایمان مزاری درخواست گزار کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئیں۔ عدالت کو بتایا گیا بتایا گیا کہ 14 اگست 2024ء سے محمد اکرم سے متعلق کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں پر ہیں؟ درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے جسٹس محمد رضا قریشی کے روبرو ہونے والی سماعت میں موقف اختیار کیا کہ تھانہ صدر بیرونی پولیس راولپنڈی کو مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست دی تھی لیکن اب تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد تھانہ صدر بیرونی پولیس راولپنڈی کو منگل کے لیے نوٹس جاری کر دیا اور جواب طلب کر لیا۔ واضح رہے کہ سکیورٹی اداروں کی طرف سے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم اور سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل بلال کے علاوہ محمد اکرم کے اردلی، وارڈن اور ہیڈوارڈن کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آفس سپرنٹنڈنٹ ناظم شاہ سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے جبکہ ڈی آئی جی جیل راولپنڈی آفس کے ایک سپرنٹنڈنٹ کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
ملک بھر کے ساتھ ساتھ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی حوا کی بیٹیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے، ایک پراپرٹی ڈیلر نے مناواں کے علاقے میں خاتون سے مکان دکھانے کے بعد ایک جگہ پر لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا، واقعہ کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کا شکایت موصول ہوئی تھی کہ ایک پراپرٹی ڈیلر خاتون کو مکان دکھانے کے بہانے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا، اطلاع پر مناواں تھانے کی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ نعیم نامی ملزم کے خلاف خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اسے گرفتار کرنے کے لیے ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو مختلف علاقوں میں چھاپے مار رہی ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم نعیم خاتون کو مکان دکھانے کے بہانے ساتھ لے کر گیا اور زبردستی زیادتی کر کے موقع سے فرار ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والے عناصر کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، ملزم کو جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ واضح رہے کہ رواں برس لاہور میں 235 خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جن میں سے 50 فیصد مقدمات کے چالان مرتب کیے جا چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین مقدمہ کے اندراج سے انصاف حاصل کرنے تک شک کی نگاہوں کا سامنا کرتی ہیں اسی لیے بہت سی خواتین تفتیشی مراحل میں ہی انصاف کی امید چھوڑ دیتی ہے۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ خواتین کی عصمت کسی صورت پامال نہیں ہونے دیتی، انہیں فوری انصاف دینے کیلئے بروقت مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے آج ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی کی طرف سے کے الیکٹرک کی نمائندہ خاتون کے لباس پر اعتراض اٹھانے کے بعد ملک میں صنفی امتیاز کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کا اجلاس آج چیئرمین کمیٹی کی صدارت میں ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی اقبال آفریدی نے ایک خاتون کے لباس پر اعتراض اٹھا دیا۔ اقبال آفریدی نے چیئرمین کمیٹی محمد ادریس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ خاتون کا لباس ٹھیک نہیں ہے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں شرکت کے لیے لباس کا بھی کوئی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) ہونا چاہیے۔ اقبال آفریدی نے بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں بھی اس بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی مہذب معاشرے میں اسی طرح کے لوگ آئیں گے تو بچے کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی اجلاس میں ایک خاتون رکن اسمبلی بھی شریک تھیں، آپ نے ان کا لباس بھی دیکھا ہو گا، یہاں پر ایسے ڈراموں کے سین نہیں ہوتے جو معاشرے میں دکھائے جا رہے ہیں۔ اجلاس میں یہ جو خاتون آئی تھیں اس سے سسٹم، نظام یا معاشرہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے، میں کسی کے بارے میں عام طور پر بات نہیں کرتا تاہم ان کا لباس ٹھیک نہیں تھا۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پاور محمد ادریس نے بھی میڈیا سے اس معاملے پر گفتگو کی اور کہا کہ رکن قومی اسمبلی کی طرف سے خاتون کے لباس پر ایسے احتجاج کرنا مناسب نہیں، کمیٹی ممبر نے جو بھی کیا وہ غلط فہمی کی وجہ سے ہو گا۔ ہمارے گھروں میں ایسے نہیں ہوتا کہ کوئی بدتمیزی کرے یا اس طرح کی بات کرے، اگر اس طرح کا کچھ ہو بھی گیا ہے تو اس کے لیے میں معذرت کرتا ہوں۔ دوسری طرف حکومت سندھ کے ترجمان ارسلان اسلام شیخ نے معاملے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا : خواتین کو ہمارے معاشرے میں مکمل آزادی حاصل ہے، خاتون کے لباس میں اعتراض کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔ اقبال آفریدی کا اعتراض میری سمجھ سے باہر ہے، انہیں اپنی نگاہوں کا خیال رکھنا چاہیے اور مطالبہ کرتا ہوں کے وہ اپنے عمل پر خاتون سے معافی مانگیں۔ واضح رہے کہ آج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے آج ہونے والے اجلاس میں کے الیکٹرک کے امور سمیت بہت سے دیگر مسائل زیر بحث تھے، کے الیکٹرک حکام ایجنڈا مکمل کر کے اجلاس سے چلے گئے تو اقبال آفریدی کی طرف سے کے الیکٹرک کی نمائندہ خاتون کے لباس پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت نے آزاد تقسیم کار کمپنپیوں کو لگام ڈالنے کے لیے عمران خان کا فارمولہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پبلک سیکٹر پاور پلانٹس کی ایکویٹی پر شرح میں کمی، 4 روپے فی یونٹ تک کا ریلیف حاصل کرنے کے لیے 5 جینکو ز کو بند کرنے سمیت اور ٹیک اینڈ پے میکنزم کے لیے موجودہ معاہدوں پر بات چیت کرنا شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیم کے بعض ارکان نے پہلے ہی آئی پی پیز کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا ہے جس میں بجلی گھروں کا فزیکل معائنہ اور تصاویر شامل ہیں اور شیئر ہولڈرز کے نام بھی اکٹھے کیے گئے ہیں۔ عمران خان کی انتظامیہ نے جنرل فیض حمید کی قیادت میں آئی ایس آئی کی مدد کے ساتھ 1994، 2002، اور 2015 کی پالیسیوں کے تحت قائم کیے گئے آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں صرف 48 پیسے فی یونٹ کی کمی ہوئی تھی۔ شہباز شریف انتظامیہ کی ٹیم کے اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان کی حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ مناسب طریقے سے معاملات نہیں کیے، اور کہا کہ حکومت آئی پی پیز سے مزید رعایتیں حاصل کر سکتی تھی۔ حکومت کے اندر ایک بڑھتا ہوا تاثر ہے کہ آئی پی پیز کے منافع بہت زیادہ ہیں اور بجلی پیدا کرنے والوں کو غیر مناسب ادائیگیاں کی گئی ہیں، چاہے یہ پیدا کرنے والوں کی غلط رپورٹنگ کے ذریعے ہو یا کمزور ریگولیٹری نگرانی کے ذریعے۔ دیگر کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کو وہی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں جو اس وقت کی حکومتوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے مطابق ہیں اور اس کے لیے پاکستانی حکام ذمہ دار ہیں۔ وزیر خزانہ اور وزیر بجلی نے چین کا دورہ کیا اور چینی بجلی کے قرضوں کو مزید 8 سے10 سال تک ری پروفائل کرنے کی درخواست کی تاکہ حکومت کو بجلی کے بہت زیادہ نرخوں کو کم کرنے کے لیے مالی گنجائش مل سکے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ چین نے اسلام آباد کی تجویز پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے یا نہیں۔ چینی بجلی گھروں کی واجب الادا رقم اب تقریباً 400 ارب روپے ہے۔ آئی پی پیز کے مطابق ایس بی پی منافع کی ترسیل کے لیے ادائیگیاں اس وقت تک کلیئر نہیں کرے گا جب تک تمام متعلقہ فریقوں کے دستخط شدہ ٹی او آرز نہیں ہوتے۔ لندن میں ثالثی کی سماعت میں تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ پاور ڈویژن اور قانون کی وزارت نے نظرثانی شدہ ٹی او آرز کو عدالت میں جمع نہیں کیا ہے جو کہ 2021 کے آخر سے التوا کا شکار ہے۔ میاں منشاء کے گروپ کی نشات چونیاں پاور لمیٹڈ کو 8.35 ارب روپے کی ادائیگی نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو میں ایک کیس کی وجہ سے نہیں کی گئی۔ تاہم، نیب نے چند ماہ قبل کیس بند کر دیا اور کمپنی نے سی پی پی اے-جی سے روکی ہوئی ادائیگی کے لیے رجوع کیا ہے۔کابینہ کی توانائی کمیٹی جس کی قیادت اس وقت کے منصوبہ بندی وزیر اسد عمر کر رہے تھے، نے نیب کی تجویز پر تقریباً 52 ارب روپے کی وصولی کی سفارش کی تھی، جس میں سے 8.35 ارب روپے این سی پی ایل کے شامل تھے۔
بھارت میں خواتین غیرمحفوظ جہاں ایک بار پھر خاتون ڈاکٹر کو عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا, مودی سرکار ملزمان کو بچانے میں لگی ہوئی ہے, ریپ کا شکار زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کے قتل کے بعد شروع ہونے والا احتجاج متعدد شہروں میں پھیل گیا۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے حکومتی عہدیداروں پر ملزمان کو سزا دینے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کرنے کا الزام عائد کردیا,ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس اسٹاف نے بہتر اور محفوظ حالات کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ اجتماعی ریپ تھا اور پولیس حقائق کو بعض وجوہات کی وجہ سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہے۔ 9 اگست کو 31 سالہ زیر تربیت ڈاکٹر کو کولکتہ میں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا اور پولیس رضاکار کو جرم کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا اور پولیس نے عدالتی حکم کے بعد کیس وفاقی تفتیش کاروں کے حوالے کردیا,مشرقی بھارت میں ایک میڈیکل کالج کے کیمپس میں سینکڑوں لوگوں نے ہنگامہ آرائی کی، گاڑیوں پر حملہ کیا اور مریضوں کے وارڈوں میں توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی کے پیچھے کون تھا اس کی شناخت نہیں کی لیکن میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں,بھارت کے متعدد شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے علاوہ دیگر طبی سہولیات کی فراہمی کو معطل کردیا ہے کیونکہ مظاہرین نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک اجتماعی عصمت دری کا معاملہ تھا اور اس میں مزید لوگ ملوث تھے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں پولیس نے 2022 میں عصمت دری کے 31,516 کیس رپورٹ ہوئے جو 2021 کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے,گزشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں خواتین کے خلاف مظالم کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس کے خلاف غم و غصہ ہے، میں اس غم و غصے کو محسوس کر سکتا ہوں۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ ریاستی حکومت کے کچھ عہدیداروں کی طرف سے ملزمان کو سزا دینے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک غیر ملکی سیاح کو اغوا کے بعد کئی روز تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں بیلجیئم سے آئی ایک خاتون کو نامعلوم افراد نے اغوا کے بعد پانچ روز تک نامعلوم مقام پر قید کرکے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، جب خاتون کی حالت خراب ہوئی تو ملزمان نے انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر اسلام آباد کے علاقے جی سکس میں پھینک دیا ہے، ایک شہری نے خاتون کو دیکھ کر 15 پر پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس کے مطابق خاتون کا تعلق بیلجیئم سے ہے، خاتون کی ابتدائی بیان کے مطابق ملزمان نے پانچ دنوں تک اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، سلوانامی خاتون حال ہی میں پاکستان آئی تھی مگر وہ نامعلوم ملزمان کے ہاتھ چڑھ گئیں، حالت غیر ہونے پر ملزمان نے انہیں جی سکس ون تھری،صدر روڈ پر ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینک گئے۔ پولیس نے فوری طور پر واقعہ کا مقدمہ درج کرکے خاتون کو میڈیکل چیک اپ کیلئے پولی کلینک منتقل کردیا ہے اور تفتیش شروع کردی ہے۔ عائشہ علی بھٹہ نے متاثرہ خاتون کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ خدارا، پی ٹی آئی سے توجہ ہٹا کر ملکی امیج کی بہتری کیلئے بھی تھوڑا کام کیا جائے، ہمارا شمار تو اب بدنام زمانہ اقوام میں ہوتا ہے، کچھ تو رحم کریں۔
گورنر ہاؤس سندھ میں یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی تقریب شدید بدنظمی کا شکار ہوگئی، تقریب کے دوران منچلوں نے خواتین سے بدتمیزی کی، فیملیز شدید پریشانی کا شکار۔ تفصیلات کے مطابق یوم آزادی کے موقع پر کراچی میں گورنر ہاؤس میں عوام کیلئے تقریب منعقد کی گئی تھی تاہم تقریب اس وقت شدید بدنظمی کا شکار ہوگئی جب میوزیکل کانسرٹ کےد وران عوام کی بڑی تعداد نے اسٹیج پر چڑھنے کیلئے خاردار تاریں پھلانگنے کی کوشش کی، کچھ لوگ اس کوشش میں کامیاب ہوکر اسٹیج پر چڑھ گئے جس کے بعد تقریب کی انتطامیہ نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ لاٹھی چارج کے دوران بھگدڑ مچ گئی جس کے باعث کچھ افراد زخمی ہوئے، اس دوران کچھ لوگوں نے چھتیں اور دیواریں پھلانگنے کی کوشش کی، گورنر ہاؤس کے اندر اور باہر شدید رش کے باعث کچھ عورتوں اور بچوں کے اپنی فیملیز سے بچھڑنے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔ تقریب کےدوران منچلوں نے خواتین سے بدتمیزی بھی کی جس کی وجہ سے خواتین اور فیملیز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کو گرفتار کرلیا گیا ہے، محمد اکرم کا چند ہفتے پہلے اڈیالہ جیل سے تبادلہ کیا گیا تھا، اڈیالہ میں ڈیوٹی کے دوران محمد اکرم عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے اور واپس لے جانے سمیت دیگر ذمہ داریاں نبھا رہے تھے محمد اکرم پر یہ بھی الزامات لگے کہ وہ عمران خان کو جیل میں ان آفیشلی سہولیات مہیا کررہے ہیں تھے،ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پر خفیہ طور پر بانی پی ٹی آئی کےلیے پیغام رسانی کا بھی الزام ہے۔ صحافی محمد عمیر نے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کو بے اختیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپرٹینڈنٹ ایگزیکٹو اڈیالہ ملک محمد اکرم تقریبا اڑھائی ماہ سے عہدے پر نہیں تھے۔انکا جون میں تبادلہ ہوا تھا۔ملک اکرم نے نوکری کا زیادہ حصہ اڈیالہ جیل میں گزارا ہے۔ انکے مطابق عمران خان کو جیل کی سہولیات میں ملک اکرم کا اتنا ہی اثر و رسوخ تھا جتنا موجودہ حکومت میں شہباز شریف کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی ملاقات،سہولت سمیت ہر چیز وہاں منظوری کے بعد ہوتی تھی جہاں سے شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی منظوری ہوئی ہے۔ اڑھائی ماہ قبل بھی عمران خان کے پاس وہی کچھ تھا جو آج ہے۔ دنیا نیوز کے صحافی محمد عمران نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں قائم کمرہ عدالت میں سابق ڈپٹی سپریٹنڈنٹ محمد اکرم کے کنڈکٹ پر بات کی جائے تو وہ ہر لمحہ عمران خان کے اردگرد رہتے تھے،شاید یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل تھا کہ کوئی خان صاحب سے سرگوشی نہ کرپائے، جب خان صاحب میڈیا سے گفتگو کیلئے میڈیا باکس کے سامنے آتے تھے تو بھی محمد اکرم ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ جب صحافی زیادہ سوالات کرنے لگ جاتے تو وہ خان صاحب کو یہ کہہ کر گفتگو سے منع کردیتے تھے کہ سر جی بس کریں۔اور صحافیوں کو بھی مزید سوالات سے منع کرتے دکھائی دئیے
ملک بھر میں آج 77 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، آج دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21،21 توپوں کی سلامی سے ہوا جہاں پاکستان کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ پاکستان کی بقاء وسلامتی کیلئے پورے ملک کی مساجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی اور دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ شہدائے تحریک پاکستان کو خراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ دوسری طرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں باجا بجانے پر عائد کی گئی پابندی پر انتظامیہ عملدرآمد کروانے میں بری طرح ناکام رہی، سارا دن منچلے زوروشور سے باجوں کا استعمال کرتے رہے۔ باجوں کے استعمال سے جہاں شہری پریشان نظر آئے وہیں انتظامیہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کیے گئے باجوں پر پابندی کے احکامات پر عملدرآمد کروانے میں بے بس نظر آئی۔ پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی پر باجے کی خریدوفروخت کا سلسلہ دھڑا دھڑ جاری رہا اور اس کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے بجائے انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ باجوں کے شور سے جہاں شہری پریشان رہے وہیں پر کچھ جگہوں پر اس معاملے پر شہریوں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی پیش آئے۔ ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر پنوں عاقل میں بچوں کے باجا بجانے کے معاملے پر دو گروپوں کے درمیان تصادم ہو گیا جس میں فریقین نے ایک دوسرے پر تشدد کیا۔ فریقین کے تصادم میں 10 سے زیادہ شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پنوں عاقل میں باجا بجانے پر تصادم بارے پولیس کا کہنا تھا کہ تھانہ سٹی کی حدود غریب آباد میں بچوں کے باجا بجانے پر سمیجھو اور انڈھڑ برادری کے 2 گروہوں میں تصادم ہوا تھا جس میں 10 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کا مزید کہنا تھا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے شہریوں کو جب ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہاں پر بھی فریقین میں جھگڑا ہو گیا اور ہسپتال میدان جنگ بن گیا۔ پولیس فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچی اور صورت حال کو قابو میں کیا۔ واضح رہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے 8 اگست 2024ء کو وفاقی دارالحکومت میں باجا خریدنے اور فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ استعمال پر پابندی عائد کر کے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ انتظامیہ نہ تو باجوں کی خریدوفروخت کو روک سکی اور نہ ہی شہریوں کو باجا بجانے سے روک سکی۔
سندھ میں پانچ سال سے کم عمر کے 98 فیصد بچے کم از کم مناسب غذا نہیں پاتے، یونیسف ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق یونیسف کے نمائندے عبداللہ اے فاضل نے کہا سندھ میں بچوں کی ابتدائی عمر اور شیر خوار بچوں کی غذائی عادات غیر اطمینان بخش ہیں کیونکہ صوبے میں 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 98 فیصد بچے نشوونما اور ترقی کے لیے ضروری کم از کم مناسب غذا نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی دودھ پلانے کی شرح اور خصوصی دودھ پلانے کی شرح بالترتیب صرف 48 فیصد اور 52.3 فیصد ہے۔ ان کے مطابق 6 سے 23 ماہ کی عمر کے بچوں کے لیے کم از کم غذائی تنوع اور کم از کم مناسب غذا صرف 12.6 فیصد اور 2.2 فیصد ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمر کے گروپ میں سندھ کے 98 فیصد بچے نشوونما اور ترقی کے لیے سفارش کردہ کم از کم مناسب غذا نہیں پاتے۔ عبداللہ اے فاضل نے یہ گفتگو پورٹ قاسم کے گودام میں منعقدہ ایک پروگرام میں کی، جہاں امریکی سفیر نے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی موجودگی میں یونیسف کو 486 میٹرک ٹن زندگی بچانے والی غذائی امداد فراہم کی۔ حکام کے مطابق، ریڈی ٹو یوز تھراپیوٹک فوڈ (RUTF) جو کہ مونگ پھلی، چینی، دودھ کے پاؤڈر، تیل، وٹامنز، اور معدنیات سے بنی ہوئی غذائیت سے بھرپور پیسٹ ہے۔ یہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں شدید غذائی قلت کا شکار 29,000 سے زیادہ بچوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ تقریب میں بات کرتے ہوئے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ یہ عطیہ غذائی قلت اور اس کے طویل مدتی اثرات کو کم کرنے کے لیے امریکی حکومت کی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، "آج کا یہ عطیہ پاکستانی عوام، پاکستانی خواتین اور بچوں اور کمزور کمیونٹیز کے لیے امریکہ کے دیرپا عزم کا ایک طاقتور ثبوت ہے،" انہوں نے صحت کے بحران سے نمٹنے اور "پاکستانی بچوں کی ایک پوری نسل کی جانیں بچانے" کے لیے تیز رفتار کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔ بلوم نے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز، خواتین اور زچگی کی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں، سماجی خدمت فراہم کرنے والوں اور رضاکاروں کی تعریف کی اور صوبائی وزیر صحت، صحت کے محکمے، یونیسف اور دیگر شراکت داروں کے کام کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر، سندھ کے وزیر اعلیٰ نے صوبے میں غذائی قلت اور بچوں کی نشوونما کے مسئلے کے حل کے لیے صوبائی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا، جبکہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں بین الاقوامی شراکت داروں کے کردار کا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا، "یونیسف نے دودھ پلانے کے ایکٹ کے جائزے اور منظوری میں مدد کی ہے، انسانی ہمدردی اور کثیر الجہتی تعاون کو بڑھایا ہے اور مشکل علاقوں میں اہم غذائی خدمات فراہم کی ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ اس ایجنسی نے دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر غذائی قلت کے مسئلے کی جلد تشخیص اور علاج میں بھی مدد کی اور مائیکرونیوٹریئنٹ کی کمی کو دور کیا۔ وزیر اعلیٰ نے USAID کے وسیع تعاون کو بھی اجاگر کیا، خاص طور پر یونیسف کو صحت، غذائیت، پانی، صفائی اور صفائی ستھرائی (WASH) اور تحفظ کی خدمات کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کے حوالے سے۔ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے صوبے میں غذائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دودھ پلانے کے ایکٹ کے نفاذ، RUTF اور متعدد مائیکرونیوٹریئنٹ سپلیمنٹس کے لیے عوامی فنڈز مختص کرنے کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا، "حکومت نے غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے غذائی خدمات کو تمام اضلاع تک بڑھا دیا ہے، جس سے ان خدمات کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ضم کرنے کے عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔" تقریب کے دوران، مقررین نے سندھ حکومت کے کلیدی اقدامات کو اجاگر کیا، جن میں 2024-2025 کے لیے کثیر الجہتی غذائی مداخلتوں کے لیے 5.9 ارب روپے مختص کرنے، ابتدائی بچپن کی ترقی اور غذائیت کے لیے ایک کثیر الجہتی تعاون پلیٹ فارم کے قیام اور بینظیر نشونما پروگرام کا آغاز شامل ہیں۔ 2022 سے امریکی حمایت کو بھی تسلیم کیا گیا؛ اس ملک نے پاکستان کو غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تقریباً 100 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، جس میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے تقریباً 15 ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ شرکاء میں یو ایس ایڈ کے بیورو برائے انسانی امداد کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے علاقائی دفتر کی نمائندہ ایوانا ووکو، کراچی میں امریکی قونصل جنرل کونراڈ ٹریبل، یو ایس ایڈ مشن ڈائریکٹر وی. کیٹ سومونگسری اور سندھ کے سیکرٹری صحت ریحان بلوچ شامل تھے۔"
سابق سربراہ انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا تھا اور آئی ایس پی آر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے کورٹ آف انکوائری کی گئی جس میں پاک فوج نے فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستی پتا لگانے کے لیے کی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی طرف سے پاکستان آرمی ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیاں ثابت ہونے پر فوجی تحویل میں لیا گیا اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں اب ایک اور انکشاف سامنے آیا ہے کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) پشاور کی زمین مہنگی بیچنے کے الزام کی تحقیقات بھی شروع ہو چکی ہیں۔ کیپیٹل ٹاک میں سامنے لائی گئی تفصیلات کے مطابق فیض حمید نے مبینہ طور پر ڈی ایچ اے پشاور کو 72 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔ جنرل باجوہ کے ساتھ تحریک لبیک پشاور کے ایک رہنما شفیق امینی نے ڈیل کی لیکن شفیق امینی کی طرف سے فیض حمید سے فائدہ حاصل کرنے کی تردید کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ افواج پاکستان نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک کی درخواست پر ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے 29 نومبر 2022ء کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

Back
Top