سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیے جانے کے بعد پارٹی کی طرف سے ہونے والے احتجاج کے بعد سے پی ٹی آئی زیرعتاب ہے۔
ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں وکارکنوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جانب سے کریک ڈاؤن کیا گیا اور متعدد مقدمات درج کیے گئے۔
14 اگست 2024ء کو جشن آزادی کی رات بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے مری میں نواز شریف کی تصاویر پر پتھرائو کرنے کے واقعہ پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ملک اعجاز آصف کے روبرو آج اس مقدمہ کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جشن آزادی کی شب ایک سیاسی رہنمائوں کی تصاویر پر پتھرائو کرنے کے کیس میں شامل دہشت گردی دفعات کو خارج کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 9 کارکنوں کے جسمانی ریمانڈ دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
عدالت نے مقدمہ میں پی ٹی آئی کارکنوں پر درج مقدمے میں عائد کی گئی دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے خارج اور ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مقدمہ آئندہ سماعت کے لیے سول جج مری کی عدالت میں ٹرانسفر کر دیا ہے۔ کیس کی سماعت کے بعد مری پولیس تحریک انصاف کے گرفتار کیے گئے تمام 9 کارکنوں کو واپس مری لے گئی۔
واضح رہے کہ مری میں یوم آزادی کے موقع پر سیاحتی مقام مری کے جی پی او چوک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے قائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کی تصویر پر جوتے مارے تھے جس کے بعد ان پر دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ تھانہ مری میں سول ڈیفنس مری کے وارڈن محمد سہیل رشید کی مدعیت میں درج ہوا جس میں 11 افراد نامزد جبکہ 40 کو نامعلوم ظاہر کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھائے ہوئے متعدد افراد نے جشن آزادی کے موقع پر حکومت مخالف نعرے بازی کی اور نجی ہوٹل پر پتھرائو بھی کیا، روکنے پر مزاحمت اور کارسرکار میں مداخلت کی۔ ملزموں کے ڈنڈوں کے وار سے مقدمہ کے مدعی سمیت احسن اور احتشام زخمی ہوئے اور مدعی مقدمہ کی یونیفارم بھی پھاڑ دی جبکہ واقعے کی ویڈیو پی ٹی آئی رہنما لطاسب ستی کی طرف سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھی۔