خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں جی ایس ٹی صفر کر دیا ہے، پٹرول کی قیمت میں جی ایس ٹی کی شرح 1.43 فیصد تھی۔ حکومت کی جانب سے ڈیزل پر جی ایس ٹی میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے اس پر اب جی ایس ٹی 6.75 فیصد سے بڑھا کر 7.2 فیصد کردیا گیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا، پٹرول پر لیوی 9 روپے 62 پیسے فی لٹر جبکہ ڈیزل پر 9 روپے 14 پیسے فی لٹر برقرار ہے۔ اوگرا نے 16 نومبر سے پٹرول 2 روپے 68 پیسے فی لٹر مہنگا کرنے اور ڈیزل 60 پیسے فی لیٹر سستا کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس حوالے سے وزیر مملکت فرخ حبیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں پہلی بار پٹرول پر سیلز ٹیکس 17فیصد کی بجائے صفر کردیا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں عالمی سطح پر100 فیصد اضافے کے باوجود حکومت نے عوامی ریلیف کے لیے سینکڑوں ارب کی ٹیکس آمدن کا نقصان کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ عالمی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پٹرول پر زیادہ ٹیکس وصول کرتی تھی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کیلئے بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود آئندہ پندرہ روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزارت خزانہ کی طرف سے پیر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے 16 نومبرسے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے کی تجویز مسترد کر دی، وزارت خزانہ کے مطابق یہ فیصلہ مفاد عامہ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نیپال میں سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جن کی رسیوں سے بندھے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ ٹوئٹر پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نیپال میں موجود ہیں جہاں مقامی کوہ پیماؤں نے اُنہیں رسیوں سے باندھا ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نیپالی کوہِ پیماؤں نے پاسپورٹ کے ذریعے ساجد سدپارہ کی شناخت کی اور پاکستانی قونصل خانے سے رابطہ کیا گیا۔ ویڈیو وائرل ہوتے ہی ٹوئٹر پر اس وقت ہیش ٹیگ ساجد سدپارہ ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ صارفین یہ ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے حکومت سے اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال5 فروری کو سردیوں میں مہم جوئی کے دوران کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے 45 سالہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موت کی تصدیق اُن کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے کی تھی۔ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی میں مصروف تھے اور اس مہم جوئی میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔
ظام عدل پر اتنے شبہات اٹھیں تو یہ اس ملک کیلئے تباہی ہے،احسن اقبال ملک کی سیاست میں ہلچل ہی ہلچل، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کی نواز شریف سے لندن میں ملاقات ہوئی ؟ لندن سے ہی کیوں حلف نامہ جاری ہوا ؟ ارشد ملک کے بعد رانا شمیم کیا کسیز پر اثر انداز ہونے کی کوسش کی جا رہی ہے،مریم نواز کے کیس کی بھی سماعت ہونے سے پہلے یہ حلف نامہ آیا ؟ نواز شریف نے خود رانا شمیم کو چیف جج تعینات کروایا ، ؟ جیو نیوز کے پروگرام آج شازیب خانزادہ میں کے سیکریٹری جنرل ن لیگ احسن اقبال سے سخت سوالات پوچھے گئے۔ سیکریٹری جنرل مسلم ن احسن اقبال نے کہا کہ حکومت اس طرح کی باتیں اس حقیقت کو دھندلانے کیلئے کررہی ہے جو ان کے حلف نامے سے سامنے آئی ہے،یہ پہلا موقع نہیں ہے،سب سے پہلے جسٹس شوکت صدیقی صاحب نے حلف نامہ دیا پھر جج ارشد ملک نے ویڈیو کے ذریعے بتایا کہ کس طرح ان سے نواز شریف کیخلاف فیصلے حاصل کئے گئے، اور اب یہ تیسرا ثبوت سامنے آیا ہے۔ احسن اقبال نے کہا اب میں سمجھتا ہوں اب رفتہ رفتہ شواہد سامنے آرہے ہیں کہ ایک سازش کے تحت نواز شریف صاحب اور ن لیگ کی حکومت ختم کی گئی، اس کے بعد دھاندلی شدہ الیکشن کے ذریعے عمران خان صاحب برسر اقتدار آئے۔ شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ برطانیہ میں جا کر ایفی ڈیوڈ ہونا یعنی نواز شریف صاحب سے رانا شمیم کی ملاقات ہوئی ہے،جس پر احسن اقبال نے کہا کہ میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہے،ان تمام باتوں کی تحقیقات ہونی چاہئے، کیونکہ ہمارے نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے، اس لئے نظام عدل پر اتنے شبہات اٹھیں تو یہ اس ملک کیلئے تباہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سترہ نومبر کو مریم نواز کی ایک بہت اہم سماعت ہے، دس نومبر دو ہزار اکیس کو انہوں نے حلف نامے پر دستخط کئے ہیں،تو کیا سب کیس کی سماعت کو متاثر کرنے کیلئے کیا جارہاہے؟ احسن اقبال نے کہا کہ دونوں الگ الگ بات ہیں، ان کو ملایا نہ جائے، عدلیہ کو اس پر نوٹس لینا چاہئے،نوازشریف مریم نواز کو ہٹانے کیلئے غیرشفاف عمل چلایا گیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومت جو الزام لگارہی ہے مجھے نہیں لگتا کے اس کے شواہد قوم کے سامنے ہیں،ہاں اس بات کے شواہد ہیں ثاقب نثار صاحب پی ٹی آئی کے لوگ کے ساتھ غیرملکی دورے کرتے رہے، پی ٹی آئی نے ڈیمز فنڈ کیلئے برطانیہ میں فنڈ اکٹھا کیا، جسٹس ثاقب نثار اور پی ٹی آئی کے روابط تو مل جائیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج رانا شمیم کے الزامات پرتوہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،اسلام آبادکورٹ نے تمام فریقین میرشکیل،انصارعباسی،عامرغوری،راناشمیم کوشوکازنوٹسزجاری کردیئے ہیں،عدالت نے کیس کی سماعت 10 روز کیلئے ملتوی کردی۔
ای سی پی پر الزامات لگانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے نوٹس پر سماعت کی تو وفاقی وزیر فواد چودھری نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ لی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استدعا کی کہ نوٹس واپس لیا جائے۔ الیکشن کمیشن میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور ادارے پر الزام تراشی سے متعلق لیے جانے والے الیکشن کمیشن کے نوٹس پر سماعت ہوئی، فواد چودھری الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہوگئے جب کہ اعظم سواتی یا ان کے وکیل پیش نہیں ہوئے۔ اعظم سواتی کے وکیل نے اپنے معاون وکیل کو بھیجا جس نے بتایا کہ سینیٹ اجلاس چل رہا ہے اس لیے اعظم سواتی اور بیرسٹر علی ظفر نہیں آسکے، الیکشن کمیشن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے جواب جمع کرانے کا کہا تھا، اگلی سماعت پر اعظم سواتی کا جواب نہ آیا تو فرد جرم عائد کردیں گے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں خود ایک وکیل ہوں اور چیف الیکشن کمشنر کا بہت احترام کرتا ہوں، میں کاغذی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہتا، میں نے کسی کو گالی نہیں دی، میں تو کابینہ اور حکومت کا ماؤتھ پیس ہوں، بہت سے بیان میرے نہیں ہوتے، استدعا ہے کہ نوٹس واپس لیا جائے۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ میری معذرت قبول کریں، جس پر الیکشن کمیشن نے فواد چودھری کو ہدایت کی کہ آپ اپنی معذرت تحریری طور پر پیش کریں، وفاقی وزیر نے کہا کہ میں معافی نامہ جمع کرا دیتا ہوں۔ کیس کی مزید سماعت 3 دسمبر کو ہوگی۔ یاد رہے کہ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکشن (ترمیمی) ایکٹ 2021 میں مجوزہ ترامیم پر تبادلہ خیال کے دوران اعظم سواتی نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ہمیشہ دھاندلی میں ملوث رہا ہے اور ایسے اداروں کو آگ لگا دینی چاہیے۔ کمیٹی میں مجوزہ ترامیم پر ووٹنگ کے عمل سے قبل الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے اعظم سواتی نے الزام لگایا تھا کہ کمیشن نے رشوت لے کر انتخابات میں دھاندلی کی۔ جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے آلہ کار کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر انہیں سیاست کرنی ہے تو الیکشن کمیشن چھوڑ کر الیکشن لڑیں۔ الیکشن کمیشن کو اگر ٹیکنالوجی پر کوئی اعتراض ہے یا کسی چیز میں وہ بہتری لانا چاہتے ہیں تو وہ بتائیں، اگر چیف الیکشن کمشنر نے سیاست کرنی ہے جس کا انہیں آئینی حق حاصل ہے، تو ان کو دعوت دوں گا کہ الیکشن کمیشن کو چھوڑیں اور خود الیکشن میں امیدوار آ جائیں۔ فواد چودھری نے یہ بھی کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر نواز شریف وغیرہ سے قریبی رابطے میں رہے ہیں اور ان کی ذاتی ہمدردی بھی ہو سکتی ہے لیکن الیکشن کمیشن سمیت ہر ادارے کو پارلیمنٹ کو مان کر چلنا ہو گا، کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پارلیمان کو نیچا دکھائے اور کہے کہ ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے بلکہ اپنا نظام بنائیں گے۔ سماعت کے بعد فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تحریک انصاف الیکشن کمیشن کا احترام کرتی ہے، (ن) لیگ نےعدلیہ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے، اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، انتخابی اصلاحات پی ٹی آئی کا نہیں قومی ایجنڈا ہے،انتخابی اصلاحات کا بل اسمبلی سے پاس کروائیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے بیان حلفی سے متعلق کیس میں رانا شمیم سمیت دیگر فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے بیان حلفی پر خبر شائع کرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری، دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور اٹارنی جنرل خالد جاوید سمیت دیگر عدالت پیش ہوئے۔ عدالتی نوٹس کے باوجود سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم ان کا بیٹا عدالت میں پیش ہوا۔ رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ والد صاحب رات اسلام آباد پہنچے ہیں اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‏رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگی جسے مسترد کر دیا گیا۔ عدالت نے سماعت شروع کرتے ہی ایڈیٹر انچیف کو روسٹرم پر بلایا، اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیٹر انچیف سے مکالمہ کیا کہ بہت بھاری دل کے ساتھ آپ کو سمن جاری کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سوشل میڈیا اور نیوز پیپرز میں فرق ہوتا ہے، اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے، اس ہائیکورٹ کے جج سے متعلق بات کی گئی جو بلاخوف وخطر کام کرتی ہے۔ اگر میں اپنے ججز کے بارے میں پُراعتماد نا ہوتا تو یہ پروسیڈنگ شروع نا کرتا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرعوام کا عدلیہ پر اعتماد نا ہوتو پھرمعاشرے میں انتشار ہوگا۔ اگر ایک سابق چیف جج نے کوئی بیان حلفی دیا تو آپ وہ فرنٹ پیج پرچھاپیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا جیسا آپ سوچ رہے ہیں، مسلسل یہ بات کی جارہی ہے کہ کہا گیا الیکشن سے پہلے نواز شریف اور مریم کو نہ چھوڑا جائے، کم از کم آپ ہمارے رجسٹرار سے پوچھ لیتے۔ بظاہر یہ تاثر ہے کہ رانا شمیم سے منسوب بیان حلفی جھوٹ پر مبنی ہے یا جعلی ہے لیکن یہ سارا معاملہ میری عدالت سے متعلق ہے، اس لیے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کررہے ہیں۔ عدالت نے رانا شمیم سمیت تمام فریقین سے 7 روز میں جواب طلب کرلیا اور کیس کی سماعت 10 روز تک ملتوی کی ہے۔ عدالت نے کہا تمام لوگ 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ روسٹرم پر موجود صحافی انصار عباسی نے کہا کہ آپ میرے خلاف کارروائی کریں، میں نے یہ اسٹوری کی ہے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائی ہیں، رانا شمیم سے تصدیق کرکے اسٹوری کی گئی، میری اسٹوری میں جج صاحب یا عدالت کا نام نہیں تھا، میرا کام یہ تصدیق کرنا تھا کہ حلف نامہ اصل ہے یا نہیں، میں نے جج صاحب سے اس کی تصدیق کی وہ اپنے اس بیان پر قائم ہیں۔
جیو نیوز کے مطابق پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے اسموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اینٹی اسموگ اسکواڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ صنعتی آلودگی پر بھی کبھی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہماری حکومت اس معاملے پر بھی کام کر رہی ہے۔ جب کہ وزیر ماحولیات پنجاب کہ 23 فیصد آلودگی فصلوں اور 43 فیصد فیکٹریوں کی ہے، فصلوں کی باقیات محکمہ زراعت اور گاڑیاں محکمہ ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری ہے، 1997 میں ماحولیات کا محکمہ بنا مگر کوئی رولز نہیں بنائے گئے 3 سال قبل تمام محکموں کو گائیڈ لائن دی تھیں اور پلان بھی مانگا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنقید کرنے والے سن لیں کہ گزشتہ دو سال اسموگ نہیں تھی، گزشتہ دو سال ایک سیکنڈ بھی اسموگ نہ ہونے کی وجہ کورونا لاک ڈاون تھا، سچی بات تو ہے دو سال موسم بھی اچھا تھا اسکول دفاتر بند تھے۔ کسی جگہ راتوں رات تبدیلی کبھی نہیں آتی، جب تک معاشرہ ساتھ نہ دے حکومتیں آلودگی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یاد رہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں آلودگی کی وجہ سے ایئر کوالٹی انڈیکس کی حالت بہت خراب ہے آج بھی شہر کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی فضا میں زیادہ پرٹیکیولیٹ ہونے کے باعث اے کیو آئی 385 ریکارڈ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے صحافی انصار عباسی کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق دی گئی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حیرت انگیز سٹوری نظر سے گزری جس میں ایک گلگت کے جج صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ ثاقب نثار صاحب کے پاس چائے پینے بیٹھے تو جج صاحب نے فون پر ہائیکورٹ کے جج کو کہا کہ نواز شریف کی ضمانت الیکشنوں سے پہلے نہیں لینی۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کیسے کیسے لطیفے اس ملک میں نوازشریف کو مظلوم ثابت کرنے کی مہم چلا رہے ہیں، اندازہ لگائیں کے آپ کسی جج کے پاس چائے پینے جائیں وہ آگے سے فون ملا کر بیٹھا آپ کے سامنے ہی ایسی ہدایات جاری کرے کہ کسی ملزم کی ضمانت لینی ہے یا نہیں لینی، ملزم بھی کوئی عام آدمی نہیں ملک کا وزیر اعظم۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ یوقوفانہ کہانیاں اور سازشی تھیوریاں گھڑنے کی بجائے یہ بتا دیں نواز شریف نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جو بعد میں مریم نواز کی ملکیت میں دے دئیے گئے ان کے پیسے کہاں سےآئے؟ مریم نے کہا میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اب اربوں کی جائیداد سامنے آ چکی جواب اس کا دیں۔ یاد رہے کہ انصار عباسی نے ایک خبر دی ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔ انصار عباسی نے اپنی خبر میں کہا کہ گلگت بلتستان کے سینئر ترین جج نے پاکستان کے سینئر ترین جج کے حوالے سے اپنے حلفیہ بیان میں لکھا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنا چاہئیں۔ جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ منگوایا۔ دستاویز کے مطابق، شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا ہے۔ نوٹرائزڈ حلف نامے پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے دستخط اور ان کے شناختی کارڈ کی نقل منسلک ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے صحافی انصار عباسی کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا میرے متعلق رپورٹ خبر حقائق کے منافی ہے، سابق چیف جسٹس جی بی رانا شمیم کے سفید جھوٹ پر کیا جواب دوں۔ یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ اپنے خلاف چلنے والی خبروں کی وضاحتیں پیش کرتا پھروں۔ چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا کہ رانا شمیم بطور چیف جسٹس عہدے کی ایکسٹینشن مانگ رہے تھے ، میں نے توسیع منظور نہیں کی لیکن ایک بار رانا شمیم نے مجھ سے ایکسٹینشن نہ دینے کا شکوہ بھی کیا۔ سابق چیف جسٹس نے ایک اور نجی چینل سے گفتگو کے دوران کہا کہ میرے خلاف مہم کوئی نئی بات نہیں، آئے روز نئے نئے الزامات سننے کا عادی ہو چکا ہوں، مجھے نہیں معلوم کونسی پارٹی ان الزامات کے پیچھے ہے، اس سے پہلے جج ارشد ملک کا معاملہ اٹھایا گیا جو کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ثاقب نثار نے یہ بھی کہا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کا بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، رانا شمیم کو شائد ایکسٹینشن نا ملنے کا غصہ ہے، انہوں نے پاکستان کے دائرہ کار میں فعال کرنے والے کچھ فیصلے دیے تھے جنہیں میں نے اڑا دیا تھا، شاید یہ وجہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے اچھے تعلقات تھے، گلگت میں انکے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا تھا، ہم فیملیز کے ہمراہ روز رات کا کھانا ایک ساتھ کھاتے تھے۔
معروف تجزیہ کار ثنا بُچہ نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام پاکستان ٹونائٹ ود ثمر عباس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اتنے سالوں میں خود کو مستحکم کر پائے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پر یہ الزام کہ وہ حکومت کو ہٹانا ہی نہیں چاہتے یہ غلط ہے۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جن کو ڈی جی آئی ایس آئی کا فیض حاصل رہا ہے وہ اکثریت کے باوجود مخالفین کو ہراتے رہے ہیں۔ ثنا بُچہ نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ کیسے ارکان غیر حاضر ہو جاتے ہیں، اب پولنگ کو غائب کرنا پرانا ہو چکا ہے یہاں تو سینیٹر تک غائب ہو جاتے ہیں پوری پوری رات فون بند رکھتے ہیں اور الیکشن کے بعد سامنے آتے ہیں۔ ثنا بُچہ نے کہا کہ اپوزیشن کو اگر تحریک عدم اعتماد لانی پڑی تو ان کے ووٹ وہی لوگ پورے کریں گے جنہوں نے پہلے حکومت کو ووٹ دے کر ان کو جیتنے میں مدد دی تھی۔ انہوں نے کہا ن لیگ اپنے آپ کو بچانا بھی چاہتی اور چاہتی ہے کہ حکومت بھی گھر چلی جائے جبکہ پیپلز پارٹی یہ سوچ رہی ہے کہ جو10،12 ووٹ پہلے ہمیں نہیں ملے تھے اب کی بار وہ ہمیں مل کر ہی رہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب اگر اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اپوزیشن کچھ نہیں کرتی تو پھر سمجھ لیجیے کہ حزب اختلاف نے آئندہ 10 سال کیلئے اپنی قسمت لکھ دی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں تجزیہ کار نے کہا کہ حکومت کو اب گھر بھیجنا اپوزیشن کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ صرف حکومت نے ہی نہیں اپوزیشن نے بھی دوبارہ الیکشن لڑنے ہیں۔ ثنا بُچہ نے یہ بھی کہا کہ اگر پی ٹی آئی بطور حکومت ناکام ہو رہی ہے اور اپوزیشن اس کو ہٹانے کیلئے کچھ نہیں کر پا رہی تو اس میں ان کا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا کہ حکومت کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ناک کے نیچے سے تمام مافیاز این آر او لے اڑتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان (ر) جسٹس ثاقب نثار سے متعلق جو بیان جی بی کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے دیا اس کی روشنی میں سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد جج رانا شمیم پر تنقید کر رہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ رانا شمیم نے اتنے سال بعد اچانک سے یہ انکشاف کیونکر اور کس کے کہنے پر کیا ہے۔ اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ جج شمیم کواچانک خواب آنے کی وجہ مریم صفدر کی 17 تاریخ کو لگنے والی اپیل ہے جس میں وہ ہر صورت تاخیر کروانا چاہتی ہیں۔ سب سے پہلے تو جج شمیم پر ایف آئی آر ہونی چاہئیے کہ انہوں نے یہ راز اتنے سالوں تک چھپا کر کیوں رکھا؟ دوسرا رانا صاحب ساہیوال سے نکل کر گلگت میں جج کیسے اور کس حکومت میں لگے۔ تیسرا لگے ہاتھوں شمیم صاحب ایک کپ چائے نواز شریف اور مریم صاحبہ کے ساتھ پی کر یہ بھی بتا دیں لندن کے اپارٹمنٹس کے پیسے کہاں سے آئے، ابھی اور ڈرامے بھی ہوں گے عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر کے مریم بی بی کی اپیل کو رکوانے کے لئے۔ وڈیو بنانے سے خواب سنانے تک کی بجائے رسیدیں دیں۔ اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ جو عدلیہ دوسروں سے قرآن پر حلف لیتی ہے، اسکا اپنا حال یہ ہے کہ من پسند توسیع نہ ملےتو قومی مجرموں کےساتھ جا ملے۔ صحافی انور لودھی نے کہ پہلےسپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا نواز شریف کی نااہلی ختم کی جائے۔ اب ایک جج کہہ رہا ہے کہ نوازشریف کی ضمانت نہ لینے کا حکم ثاقب نثار نے دیا تھا۔ ایسے لگتا ہے جیسے نوازشریف کو اسی طرح "معصوم" ثابت کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے جیسے اسے "مریض" بنا کر باہر بھجوانے کی مہم چلائی گئی تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے صحافی انصار عباسی کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق دی گئی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حیرت انگیز سٹوری نظر سے گزری جس میں ایک گلگت کے جج صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ ثاقب نثار صاحب کے پاس چائے پینے بیٹھے تو جج صاحب نے فون پر ہائیکورٹ کے جج کو کہا کہ نواز شریف کی ضمانت الیکشنوں سے پہلے نہیں لینی۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کیسے کیسے لطیفے اس ملک میں نوازشریف کو مظلوم ثابت کرنے کی مہم چلا رہے ہیں، اندازہ لگائیں کے آپ کسی جج کے پاس چائے پینے جائیں وہ آگے سے فون ملا کر بیٹھا آپ کے سامنے ہی ایسی ہدایات جاری کرے کہ کسی ملزم کی ضمانت لینی ہے یا نہیں لینی، ملزم بھی کوئی عام آدمی نہیں ملک کا وزیر اعظم۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ یوقوفانہ کہانیاں اور سازشی تھیوریاں گھڑنے کی بجائے یہ بتا دیں نواز شریف نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جو بعد میں مریم نواز کی ملکیت میں دے دئیے گئے ان کے پیسے کہاں سےآئے؟ مریم نے کہا میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اب اربوں کی جائیداد سامنے آ چکی جواب اس کا دیں۔ عاصم اکرام نے کہا کہ بڑے لوگوں کے ضمیر کی سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ سالہا سال سونے کے بعد جاگتا ہے، بروقت بیدار ہو کر حالات اور اپنی نوکری خراب کرنے سے مکمل پرہیز کرتا ہے۔ اکبر نامی صارف نے کہا کہ شریف خاندان کو ضمانتیں ملنے یا نہ ملنے کے فیصلے اگر فون پر ہوتے ہیں تو پھر سزا یافتہ مجرم کو 50 روپے کے اشٹام پر بیرون ملک جانے کے لئے ضمانت اور سزا یافتہ مریم کو عورت ہونے پر ضمانت ملنے کے حیرت انگیز فیصلوں کی وجہ آج سمجھ آگئی. افیف حسن نے کہا کہ انصار عباسی نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا نام لے کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزامات لگائے ہیں۔ لیکن سابق جسٹس رانا شمیم صاحب یہ بھول گئے کہ کسی جرم کی شہادت کو چھپانا بھی جرم ہےٍ اگر یہ واقعہ حقیقت میں ہوا تھا تو جج صاحب 3 سال نشے میں دھت کیوں پڑے رہے؟ ایک صارف نے کہا کہ شریف خاندان شاید سب کو پٹواری سمجھ کرکبھی قطری خط ،کبھی گندی ویڈیو اور کبھی حلف نامہ سامنے لے آتا ہے حالانکہ ان سے صرف رسیدیں مانگی تھیں، جو وہ بالکل نہیں دے رہے اور اسی کی سزا انہیں ملی تھی۔ احمد ندیم نے کہا کہ آج لفافے اور پٹواری ثاقب نثار کو کوسیں گے، لیکن یہ یاد کروا دوں کہ نوازشریف کو نااہل قرار دینے یا JIT بنا کر تمام ثبوت اکٹھے کرنے والے بینچ میں ثاقب نثار خود شامل نہیں تھے۔ وہ تو الٹا عمران خان کے بنی گالا والے مکان کی منی ٹریل والا کیس کھول کر بیٹھ گئے تھے۔
خبر رساں چینل اے آر وائے کے مطابق وفاقی حکومت نے سردیوں کی آمد سے قبل عوام کو بڑے خدشے سے خبردار کردیا، اب دن میں تین بار گیس کی لوڈشیدنگ ہوگی۔ سینیٹ کے اجلاس سے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سردیوں کے موسم میں گھریلو صارفین کیلئے ایک دن میں 3 مرتبہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ صبح کے ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے وقت گیس دستیاب ہوگی، حماد اظہر نے کہا کہ ہفتے میں 3 دن گیس فراہمی کی اگر کہیں خبر چل بھی رہی ہے تو وہ درست نہیں۔ روس کے ساتھ گیس پائپ لائن کے حوالے سے معاملات پر مزید پیشرفت ہورہی ہے، روس کا ایک وفد چند دن قبل مذاکرات کے بعد پاکستان سے واپس گیا ہے۔ مذاکرات کے نئے دور کیلئے2سے3 روز میں روس کا وفد دوبارہ واپس آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایل این جی، پی ایل ایل بورڈ کےذریعے خریدا جاتا ہے۔ ایک یا دو کارگو کی خریداری پی ایس او بورڈ کے ذریعے ہوتی ہے بورڈ کی منظوری کے بغیر کوئی خریداری نہیں ہوتی۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ آج پاکستان میں 28 فیصد گھرانوں کو گیس ملتی ہے، 70فیصد سے زائد گھرانوں کو آج بھی گیس کی فراہمی نہیں ہو پاتی، گیس بحران کا تعلق ایل این جی سے نہیں ہے۔ گھریلو صارفین کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی کی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سوئی گیس سیکٹر میں نقصانات کی شرح11فیصد کے قریب رہ گئی ہے، اوگرا شرائط کے مطابق صرف ایک فیصد نقصانات باقی ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں گھریلو صارفین اور صنعتی اداروں دونوں سیکٹرز کو گیس کی فراہمی ہو۔
مشیر خزانہ شوکت ترین نے مہنگائی کے حوالے سے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوگا تو ہمیں بھی مزید مہنگا کرنا پڑے گا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پٹرولیم قیمتوں پر ہمارے پاس گنجائش نہیں، عالمی مارکیٹ میں پٹرول مہنگا ہوا تو پاکستان میں بھی قیمتیں بڑھیں گی۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا، کورونا کی وباء پھیلنے سے معیشت مزید متاثر ہوئی لیکن وزیراعظم عمران خان نے کورونا کی وباء کا خوب مقابلہ کیا، وزیراعظم عمران خان کو عام آدمی کا احساس ہے، عمران خان نے تعمیرات، زراعت اور برآمدی صنعتوں پر توجہ دی، جس طرح وزیراعظم نے کورونا صورتحال کا مقابلہ کیا اس کی پوری دنیا نے تعریف کی، ابھی 20 سے 30 سال تک مسلسل ترقی کی ضرورت ہے۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی کی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہوکر ڈیڑھ فیصد پر آگئی تھی تاہم ہماری حکمتِ عملی کی وجہ سے 2021-20 کی شرح نمو 4 فیصد پر آئی اور اب شرح نمو 5 اور 6 فیصد پر لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کے لیے فائدہ مند اور پائیدار بنیادوں پر ترقی چاہتے ہیں۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی میں سٹے کا ہاتھ موجود ہے، سٹے باز ڈالر افغانستان اسمگل کررہے ہیں تاہم آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہونے پر روپیہ مستحکم ہوجائے گا۔
حکومت اپنی نااہلی تسلیم کرے، ہمیں کوئی بڑا فیصلہ کرنا پڑے،خالد مقبول صدیقی حکومت قانون سازی کیلئے حکومتی اراکین اور اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں سے تعاون کی خواہاں ہے،ملکی موجود سیاسی صورتحال اور بڑھتی مہنگائی پر جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں ایم کیوایم کے کنوینیئر خالد مقبول صدیقی سے سوالات کئے گئے،اور الیکشن ترمیمی بل دوہزار اکیس سمیت مختلف بلوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مسائل تو بہت ہیں، اس کا اظہار حکومت سے کئی بار کرچکے ہیں، کچھ ہفتے پہلے بھی وزیراعظم سے بات کی تھی کے قانون سازی کرنی ہے تو اس پر اعتماد میں تو لیا جائے گا ہمیں دکھایا جائے کہ ہمیں اس پر کیا قدم اٹھانا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کوئی بھی بل اگر ہماری موجودگی میں آئے اور ہم ساتھ نہ دیں تو پھر ایک بڑی خبر ہے، قانون سازی کو کم ازکم ہمیں دکھائیں گے تو ناں، جس پر شاہزیب خانزادہ نے کہا ای وی ایم کے حوالے سے تو بریفنگ دی گئی تھی، جس پرخالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں کوئی بریفنگ نہیں دی گئی بلکہ ہم نے بریفنگ خود مانگی تھی،جس پر ایم کیوایم سمیت حکومتی جماعت اور اتحادیوں کو بہت سوالات ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارا سوال تھا کہ ای وی ایم مشین کس طرح شفاف الیکشن کی گارنٹی لے گی، کیونک دھاندلی کے معاملے پر سب سے زیادہ ہم ڈسے ہوئے ہیں تو شفاف الیکشن ہوجائیں گے تو سب سے زیادہ ہم مستفید ہونگے،ہم اس بات کے بھی خلاف نہیں کہ شفاف انتخابات کیلئے الیٹکرانک نظام استعمال نہ کیا جائے، لیکن آپ انجنیئرنگ کالج تو بھیجیں، کسی ضمنی انتخاب میں استعمال کرکے دیکھیں،یا جن کے ہاتھ میں یہ مشین ہوگی وہ اپنی مرضی سے چیزیں تو نہیں ڈال سکیں گے۔ خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ اگر ای وی مشین کو استعمال آئندہ انتخابات میں ہی کرنا ہے تو اس کی قانون سازی میں اتنی عجلے کیوں برتی جارہی ہے،کوئی بڑا اختلاف نہیں تھا لیکن ہم مطمئن نہیں تھے اس لئے اعتراض اٹھایا۔ شاہزیب خانزدہ نے خالد مقبول صدیقی سے پوچھا کہ آپ کو صرف قانون سازی پر اعتراض ہے یا کارکردگی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں،ایم کیوایم کنوینئر نے کہا کہ مہنگائی کا الزام اور بوجھ ہم پر نہیں آنا چاہئے،حالات کو دیکھتے ہوئے اب ہم گھبرا رہے ہیں،حکومت کو اپنی نااہلی کوتسلیم کرنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے ہمیں کوئی بڑا فیصلہ کرنا پڑے،عمران خان سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت نے دن میں تین ٹائم گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ، حکومت بتادے کہ کس وقت عوام ناشتہ کرے کب دوپہر کا کھانا کھائے اور رات کے کھانے کا ٹائم کیا ہوگا۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام سوال میں میزبان بیرسٹر احتشام نے شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا کہ حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں جو دو ایل این جی ٹرمنلز لگائے ان کا موجودہ حکومت کو یومیہ 8 کروڑ روپے کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ حماد اظہر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایل این جی ٹرمنلز لگانے کے جو معاہدے کیے ہیں ان میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی اور نہ ہی ان کے اتنے کرایے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے ان الزامات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے ایسےمعاہدے کیے ہیں تو میرے خلاف مقدمہ دائر کردیں، موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس حکومت میں ہر وزیر کو اپنی وزارت کے علاوہ ہر دوسری وزارت کے معاملات کا مکمل طور پر علم ہے، حماد اظہر صاحب وکیل ہیں انہیں بجائے وزارت قانون میں رکھنے کے پیٹرولیم میں کی منسٹری کا وزیر مقرر کیا ہوا ہے۔ لیگی رہنما نے کہا کہ میرا حماد اظہر سے سوال ہے کہ تین وقت گیس کے اوقات بھی بتادیں کہ ہم کب ناشتہ کریں ، کب دن کا کھانا اور کب رات کا کھانا کھاسکیں گے، تین سالہ دور حکومت میں ایک بھی ٹرمنل نہیں لگایا گیا، جب ہم نے حکومت چھوڑی اس وقت چار کمپنیاں پاکستان میں مرچنٹ ٹرمنل لگانے کیلئے تیار تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان چار میں سے 2 کمپنیاں بھاگ گئی ہیں کہ ان سے وزراء پیسے مانگتے ہیں 2 کمپنیاں موجود ہیں مگر وہ بھی تین سال میں ٹرمنل نہیں لگاسکیں، ہم ملک میں سرپلس گیس چھوڑ کر گئے، موجودہ حکومت اگر کمپنیوں سے پیسے نہ مانگتی تو دن میں تین ٹائم گیس کی فراہمی جیسے اقدامات نہ کرنا پڑتے۔
سپریم کورٹ میں جائیداد کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی،اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ججز کمزور لوگ ہوتے ہیں ان کے ہاتھ آئین و قانون نے باندھ رکھے ہیں،قانون کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال سکتے۔ جسٹس قاضی فائز مزید ریمارکس دیئے کہ ججز نے قانون پر عمل کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے، غیر قانونی چیزوں کو نظر انداز کرنے لگے تو نظام ختم ہو جائیگا، ججز قانون بناتے نہیں اس کی تشریح کرتے ہیں، وکلاء کا کام ہماری معاونت کرنا ہے،اپیل درخواست گزار کا حق اور نظرثانی جج کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ قومی اسمبلی کے سامنے پیش ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا، جس سے متعلق جاری کئے گئے بیان میں کہا تھا کہ رکن قومی اسمبلی اکرم چیمہ اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے یکطرفہ پریس کانفرنسز کرکے کہانیاں گھڑی ہیں، اس لئے یہ جواب دینے پر مجبور ہوگیا ہوں تاکہ سچائی آشکارا کر سکوں، بصورت دیگر میری خاموشی سے انکی جھوٹی کہانیوں کو تقویت ملے گی۔ یوم سیاہ کی ریلی کے موقع پر رکن قومی اسمبلی اکرم چیمہ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تھی اور غصے میں مغلظات بھی بکیں،جس پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی،جسٹس فائز عیسیٰ وہاں سے چلے گئے تھے۔
کیا کیچ چھوڑنے پر حسن علی کی اہلیہ کو دھمکیاں ملیں؟ حسن علی کیچ چھوڑنے جہاں پاکستانیوں کے دل توڑے وہیں اس کیچ سے حسن علی کی ذاتی زندگی بھی شدید متاثر ہورہی ہے،خبریں سرگرم ہیں کہ حسن علی کی اہلیہ سامعہ آرزو کو بھی دھمکایا جارہاہے۔ ٹوئٹر پر کرکٹر کی اہلیہ سامعہ آرزو کے نام سے منسوب اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے درخواست کی کہ پاکستان کے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے روکا جائے،انہیں دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ ٹوئٹس میں مزید لکھا کہ بہت سے پاکستانی مداح یہ سوچتے ہیں کہ میں بھارت کی ایجنٹ ہوں، میچ کے بعد ہمیں دبئی اور پاکستان میں دھمکیاں مل رہی ہیں،ہماری بیٹی کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، اگر ہماری حفاظت کیلئے اعلیٰ حکام کی جانب سے کچھ نہ کیا گیا تو میں اپنی بیٹی کے ہمراہ والدین کے پاس بھارتی شہر ہریانہ منتقل ہوجاؤں گی۔ قومی فاسٹ باؤلر حسن علی کی اہلیہ سامعہ آرزو نے پاکستانیوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کی افواہوں کی تردید کر دی،اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں حسن علی کی اہلیہ نے اس حوالے سے جاری ہونے والی ٹوئٹس کو جعلی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے نام سے منسوب جعلی ٹوئٹر اکاونٹ کو رپورٹ کرنے کی درخواست بھی کی،حسن علی کی اہلیہ نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں اپنے نام منسوب جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا،اُنہوں نے کہا کہ اس جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ مجھے، حسن علی اور ہماری بیٹی کو پاکستان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں جوکہ بالکل جھوٹی خبریں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستانیوں کی جانب سے دھمکیاں نہیں بلکہ حمایت مل رہی ہے،میرا ٹوئٹر پر کوئی اکاونٹ نہیں ہے اور یہ کہ ایسی خبروں پر یقین نہ کیا جائے،میرے نام سے منسوب جعلی اکاؤنٹ ہے۔
پنجاب کے علاقے کمالیہ میں 80 سالہ خاتون اور اوکاڑہ میں ڈکیتی کے دوران شادی شدہ خاتون کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نجی خبررساں ادارے اے آر وائی نیوز کی رپورٹ پنجاب کے 2 اضلاع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور اوکاڑہ میں 2 جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے ہیں ، ایک طرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے کمالیہ میں 80 سالہ بوڑھی خاتون کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اوکاڑہ کےعلاقے محلہ احمد شاہ میں ڈکیتی کے دوران ڈاکوؤں نے شادی شدہ خاتون کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ۔ پولیس کے مطابق اوکاڑہ میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں نے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور شادی شدہ خاتون کےساتھ اجتماعی زیادتی کی، متاثرہ خاتون کی مدعیت میں ڈکیتی اور اجتماعی زیادتی کی دفعات شامل کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ دوسری جانب کمالیہ کے نواحی گاؤں میں 80 سالہ خاتون کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے پولیس نے خاتون کی درخواست پر بلال نامی شخص کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق کھوکھراں والی میں بلال نے بے سہارا خاتون کو رات کی تاریکی میں درندگی کا نشانہ بنایا ہے، ملزم واقعے کے بعد سے فرار ہے جس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں، فیصل آباد کے ضلعی پولیس آفیسر نے واقعے کا نوٹس لیتے واقعے ک رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں گردش کررہی ہیں ، کیا واقعی اوگرا پیٹرول کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کرنے جارہی ہے؟ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے آئندہ ماہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی خبروں کی تردید کردی ہے اور کہا کہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ذرائع اوگرا کے مطابق 6 نومبر کو حکومت نے 85 ڈالر فی بیرل کی عالمی قیمت کے حساب سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کیا ، تاہم گزشتہ ہفتے عالمی منڈی میں یہ قیمت 76 ڈالر فی بیرل تک رہی۔ ذرائع اوگرا کے مطابق اوگرا نے16 نومبر سے یکم دسمبر تک ملک میں قیمتوں کے تعین کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے تاہم عالمی منڈی میں قیمتوں کو دیکھتے ہوئے ملک میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ قیمتوں میں اضافے کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے حکومت تمام ٹیکسز کی موجودہ شرح کو بھی برقرار رکھے تو بھی قیمتوں میں استحکام رکھا جاسکتا ہے، اور اگر حکومت عوام کو ریلیف دینے کا سوچے تو پیٹرولیم لیوی کو کم یا ختم کرکے فی لیٹر9 روپے تک کمی بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ حکومت اس وقت فی لیٹر پیٹرول پر 9روپے62 پیسے لیوی کی مد میں وصول کررہی ہے۔۔
کراچی میں ٹریفک پولیس کی لاٹری نکل گئی، شہریوں سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے،جی ہاں کراچی ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو شہر میں چالان کے لیے اہداف ملنے کی تصدیق ہوگئی ہے،اس طرح کراچی ٹریفک پولیس صرف وجوہات کی بنیاد پر یعنی صرف لائسنس اور گاڑی کے کاغذات کی بنیاد پر نہیں ہی چالان کرنا نہیں بلکہ اپنے اہداف کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچارہی ہے۔ اگر ٹریفک پولیس کی جانب سے ٹارگٹ پورا کرنے کی شکایات کا ذکر کیا جائے تو ماہانہ اوسطاً 27 ہزار سے زائد چالان کرکے شہریوں سے ساڑھے 6 کروڑ روپے کے قریب وصولی کی جاتہی ہے،کراچی میں ٹریفک پولیس کی نفری بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود چالان کی تعداد نفری سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ شہر میں ٹریفک پولیس عملے کی تعداد 6 ہزار 782 ہے جس میں 89 سیکشن آفیسر ہیں،اعلیٰ افسران کی جانب سے ایک سیکشن آفیسر کو روازانہ کم ازکم 40چالان کا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے،رواں سال اب تک 27 لاکھ 29 ہزار سے زائد چالان کیے گئے، جن کے ذریعے 64 کروڑ 23لاکھ 60 ہزار سے زائد روپے کی وصولی کی گئی۔ ایک ماہ میں 27 ہزار سے زائد چالان کیے جارہے ہیں جن سے 6 کروڑ 42 لاکھ سے زائد رقم وصول ہورہی ہے،یومیہ 9 ہزار سے زائد چالان کئے جارہے،جس سے روز 2 لاکھ 14 ہزار سے زائد رقم بن جاتی ہے،چالان سے 30 فیصد رقم ٹریفک پولیس جب کہ 70 فیصد سرکاری خزانے کو دیئے جاتے ہیں۔
موجودہ حکومت میں قرضوں میں مزید اضافہ ہوتا جارہاہے،وزرات خزانہ نے اعداد وشمار بتادیئے،وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے تین سال کے دوران پاکستان کے کل قرضوں میں 16 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا اور حکومت قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 7 ہزار 460ارب روپے ادا کر چکی ہے۔ سینیٹ میں ملکی و غیرملکی قرض کی تفصیلات پیش کردی گئیں،چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں وقفہ سوالات کے دوران گزشتہ 3 سال میں سود کی ادائیگیوں کی تفصیلات ایوان میں پیش کی گئیں، وزارت خارجہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق مقامی قرض میں تین سال میں دس ہزار ارب کا اضافہ ہوا،اگست دو ہزار اکیس تک مقامی قرض چھبیس ہزار ارب سے بڑھ گیا جبکہ جون دو ہزار اٹھارہ میں مقامی قرض سولا ہزار ارب تھا۔ وزرات خزانہ کے مطابق بیرونی قرض تین سال میں ساڑھے چھ ہزار ارب بڑھ گیا،حکومت قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 7 ہزار 460ارب روپے ادا کر چکی، تین سال میں سرکاری قرضوں میں 14 ہزار 906 ارب کا اضافہ ہوا اور سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی، وزارت خزانہ نے تحریری جواب میں کہا کہ سرکاری قرضوں میں واضح کمی آ رہی ہے، سال 2020-21 میں ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 4 فیصد کم ہوئی اور رواں مالی سال اس شرح میں 2 سے 3 فیصد کمی کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ نے مقامی وبیرونی قرضوں کی تفصیلات ایوان میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے کل قرضوں میں 16 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے،جون 2018 میں ملک پر کل قرض 25 ہزار ارب روپے تھا، جو اگست 2021 تک بڑھ کر 41 ہزار ارب تک پہنچ گیا، تین سال میں پاکستان کے اندرونی قرض میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 میں ملک کے اندرونی قرض 16 ہزار ارب تھے، جو اگست 2021 تک 26 ہزار ارب سے بڑھ گئے۔ جون 2018 میں بیرونی قرض ساڑھے 8 ہزار ارب تھا، جو اگست 2021 تک ساڑھے 14 ہزار ارب سے تجاوز کرگیا۔ اس طرح تین سال کے دوران ملک کے بیرونی قرض میں ساڑھے 6 ہزار ارب کا اضافہ ہوا،وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم سودی نظام سے باہر نہیں نکلے،کوشش کررہے ہیں کہ اپنی معیشت مضبوط کریں تاکہ سود سے چھٹکارا ملے۔ وزارت منصوبہ بندی نے تفصیلات ایوان میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2015-16 کے سروے کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی تھی۔ 2018-19 کے سروے کے مطابق پاکستان کی 21.9 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی، 2018-19 میں غربت کی شرح میں کمی آئی ہے،2021-22 کے سالانہ پلان میں توقع ظاہر کی ہے کہ احساس کفالت پروگرام کی وجہ سے غربت میں 2 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔

Back
Top