خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
‏ مشیر داخلہ و احتساب شہزاداکبر نے ایک بار پھر مریم نواز پر شدید تنقید کردی، انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے آج سفیدجھوٹ بولا ہے ہائی کورٹ ‏سے متعلق ان کا بیان توہین عدالت ہے،اے آروائی نیوز کے پروگرام دی پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ عدالت نے ‏وکیل کو اسٹریچر پر لانےکا نہیں کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کے وکیل کو کورونا نہیں تھا کمرمیں تکلیف تھی ‏وکیل اس وقت عدالت میں موجود تھے عدالت نےکہا تھاآپ کھڑے نہیں ہوسکتےتوبیٹھ کردلائل ‏دےدیں ہائی کورٹ سےاستدعاکی مریم نوازکےمقدمات کی روزانہ سماعت کی جائے،مریم نواز کے وکیل کو کورونا بعد میں ہواتھا اس وقت نہیں ہمارےعدالتی نظام ‏کی کچھ مجبوریاں ہیں اورکچھ ہماری کوتاہیاں ہیں۔ شہزاد اکبر نے ترجمان ن لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے کہا کہ میری پیاری بہن مریم اورنگزیب کی چابی بھری جاتی ہے شہبازشریف ‏کےخلاف مقدمات توپاکستان میں ہیں جھوٹی خبرپراب تک شہبازشریف نےمجھ پرہتک عزت کاکیس ‏کیوں نہیں کیا،نوازشریف کی تاحیات نااہلی ختم کرنےکیلئے تحریک شروع ہو گئی تاحیات نااہلی ‏ختم کرنے کیلئے بہت پیسہ خرچ کیاجارہاہے ایک بارپھرتکنیکی انصاف کیلئےکوششیں کی جارہی ہیں ‏مریم نواز نے آج پھر اپنی آڈیو ہونے کا اعتراف کرلیا انہوں نے تو اپنی آڈیوکا فرانزک کابھی نہیں کہا۔ شہزاداکبر نے مزید کہا کہ تحریک انصاف اپنے احتساب کےمشن سے ‏پیچھےنہیں ہٹی، پی ٹی آئی دور حکومت میں 30احتساب عدالتوں کااضافہ ہوا، حکومت نے ‏احتساب عدالتوں میں ججزبھی تعینات کیے،تحریک انصاف تو احتساب کے گراؤنڈ پر کھڑی ہے شہبازشریف اورآصف زرداری ‏آپس میں ہی کھیل رہےہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گیس کی قلت کے معاملے پر بحث ہوئی تو وزرا پھٹ پڑے اور سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ وفاقی وزرا کی جانب سے کابینہ میں سوال اٹھایا گیا کہ اگر ایکسپورٹ انڈسٹری کو گیس کی فراہمی متاثر ہوئی تو اس سے پاکستانی برآمدات کم ہونے کا خدشہ ہے۔ وزرا کے خدشات کے پیش نظر وزیراعظم نے بہتری کیلئے اقدامات کی ہدایت کر دی۔ وزیراعظم نے انڈسٹری کو گیس کی فراہمی کیلئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں شوکت ترین، حماد اظہر اور عبدالرزاق داؤد شامل ہیں۔ دوسری جانب کراچی سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی نے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کے رویے کو انتہائی شرمناک قرار دیا۔ گیس بحران پر ایم این اے آفتاب صدیقی نے حماد اظہر کو خط لکھ دیا اور کہا کہ میرے حلقے این اے 247 کراچی میں گیس کی سپلائی بالکل نہیں ہے۔ رکن اسمبلی آفتاب صدیقی نے کہا کہ میرے حلقے میں اکتوبر سے گیس کا بحران چل رہا ہے، آپ کو بارہا میسیج بھی کیے، آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ کا رویہ انتہائی شرمناک ہے، یہی رویہ رہا تو بلدیاتی الیکشن میں کراچی میں بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ این اے 247 کے رہائشی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، میرے حلقے بالخصوص ڈی ایچ اے میں گیس کی قلت کا نوٹس لیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی چاہتی ہیں کہ کوئی تیسرا عمران خان کو ہٹادے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو خود ہی پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے کی کوشش کرنا ہوگی صرف بیانات سے حکومت نہیں جائے گی۔ انہوں نے آصف علی زرداری کی جانب سے دیئے گئے حالیہ بیانات سے متعلق کہا کہ یہ صرف سیاسی باتیں ہیں اور کچھ نہیں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ زرداری صاحب کی فارمولے سے متعلق باتیں معنی خیز ضرور ہیں مگر یہ محض سیاسی بیانات ہیں۔ کہ ان سے کسی نے رابطہ کیا اور کہا کہ حکومت کو گھر بھیجنے میں مدد کریں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ کوئی بھی اپوزیشن ہو اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ حکومت کو ہٹایا جائے وہ چاہے ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی ہو مگر یہاں ماحول مختلف ہے کیونکہ دونوں حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسے کوئی تیسرا ہٹا دے حالانکہ اگر ہٹانا ہے تو کوئی تیسرا اس کے لیے نہیں آئے گا خود ہی تیسرا بننا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دوسری جانب نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کی جا رہی ہیں اور ڈیل کے حالات موجود ہیں، سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جو دراڑ پڑی ہے اس کو ہٹانے کی کوشش تو بہت کی گئی ہے مگر یہ پوری طرح ختم نہیں کی جا سکی۔ اسی لیے یہ افواہیں پھیل رہی ہیں۔
پنجاب حکومت کا بڑا اقدام سامنے آگیا، اسکول جانے والے بچوں کو روزانہ مفت دودھ فراہم کرنے کے منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبے بھر میں بچوں میں غذائی قلت اور نشوونما کی کمی کو دور کرنے کے لئے حکومت نے اسکول جانے والے بچوں کو روزانہ مفت دودھ دینے کا اعلان کیا ہے، منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر شیخوپورہ اور اٹک کے 89 پرائمری اسکولز میں بچوں کو روزانہ مفت دودھ فراہم کیا جائے گا۔ لاہور میں اس بچوں کے لیے دودھ پروگرام کی لانچنگ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی وزیر لائیو اسٹاک سردار حسنین بہادر دریشک اور وزیر ہائرایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں نے بطورِ مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر لائیو اسٹاک سردار حسنین بہادر دریشک نے کہا کہ اسکول جانے والے بچوں کے لیے دودھ پروگرام اپنی طرز کا پہلا پروگرام ہے جس میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن، ویٹرنری یونیورسٹی اور فریزلینڈ کیمپینا کا اشتراک شامل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر 6 ماہ کے لیے شیخوپورہ اور اٹک کے 89 پرائمری اسکولز میں بچوں کو روزانہ مفت دودھ فراہم کیا جائے گا۔ سردار حسنین بہادر دریشک کا مزید کہنا تھا کہ دودھ ایک مکمل غذا ہے جو بچوں کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے، ملک میں بچوں میں غذائی قلت اور نشوونما کی کمی کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس اہم منصوبہ کی افادیت اور بچوں میں غذائی کمی کے نقصانات کے بارے میڈیا کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ افتتاحی تقریب میں ویٹرنری یونیورسٹی، ایجوکیشن یونیورسٹی اور فریزلینڈ کیمپینا کے مابین تعاون بارے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے اور مہمانان خصوصی نے منصوبےکا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے بچوں میں دودھ کے ڈبےبھی تقسیم کئے۔
جیو نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی معافی کو قبول کرلیا۔ الیکشن کمیشن میں اعظم سواتی کے ادارے پر الزامات کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں وفاقی وزیر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ ممبر کمیشن نے وزیر ریلوے سے سوال کیا کہ اعظم سواتی صاحب آپ مصروف آدمی ہیں پیش کیوں نہیں ہوتے؟ آپ پر ذمہ داری زیادہ ہے؟ الیکشن کمیشن سندھ کے ممبر نے کہا کہ تمام ادارے آپ کے ہیں، انہیں برا بھلا کہنا درست نہیں، اعظم سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانے کیلئے ہمیشہ آواز اٹھائی ۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے اعظم سواتی کی معافی کو قبول کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا کہ وہ اور فواد چوہدری آئندہ کیلئے محتاط ہو جائیں۔ یاد رہے کہ وزیر ریلوے اعظم سواتی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کیے تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے دونوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ قبل ازیں فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن سے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔
نوابشاہ میں آصف علی زرداری کی جانب سے رابطہ کرنے اور فارمولا تیار کرنے کی بات نے ہلچل مچائی ہوئی ہے، دفاعی تجزیہ کار بھی اس شخص کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں جس نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا۔ دی نیوز کی خبر کے مطابق ایک سینئر دفاعی ذریعے نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کو چاہئے کہ وہ اُس شخص کا نام بتائیں جس نے اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے رابطہ کیا اور مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ دی نیوز سے گفتگو میں دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ ہر بار غیر ذمہ دارانہ انداز سے بیانات دیے جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کے اشارے دیے جاتے ہیں، اور یہ بات بد قسمت ہے اور غیر ذمہ دارانہ ہے،اگر زرداری سچے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اُس شخص کا نام بتائیں جس نے اُن سے مدد مانگی۔ ذریعہ اہم عہدے پر فرائض انجام دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفاعی عہدیداروں کو ایسے سیاست دانوں کے ساتھ کسی بھی غیر ضروری بحث میں نہیں پڑنا چاہئے جو بے بنیاد اور عجیب بیانات دیتے ہیں،رہنماؤں اور ارکان پارلیمنٹ بالخصوص اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ’’ٹیلی فون کالز وصول کرنے‘‘ کے متعدد مرتبہ عائد کیے گئے الزامات کے حوالے سے ذریعے نے کہا کہ ان معاملات میں بھی سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ اُن افراد کا نام سامنے لائیں جو اُن سے رابطہ کرتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کرکے ملوث افراد کا نام نہ لینے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا چاہئے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے،پیر کو آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ہمیں مستقبل کا سوچنا ہوگا کیونکہ جن لوگوں کے پاس مائنس ون جیسے فارمولے تھے وہ مدد کی درخواست کر رہے ہیں۔ انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں لیا لیکن ان کے حوالوں سے واضح تھا کہ وہ کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان سے مدد مانگی گئی اور فارمولا پوچھا گیا لیکن میں نے ’’انہیں‘‘ بتا دیا ہے کہ پہلے اِس حکومت کو چلتا کریں اور اس کے بعد بات ہوگی،زرداری کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں 2018ء میں اپنے پہلے خطاب میں کہہ دیا تھا کہ ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ حکومت نہیں چلے گی۔
پاکستان کو فلاحی ریاست بننے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ ملک نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کی شکل میں فلاحی ریاست کے قیام کی جانب پہلا قدم اٹھایا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے میں اتنی جان ہے کہ یہ حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔ ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس منصوبے سے جڑے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر ہم عالمی سطح پر اس سسٹم کو فعال بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان ترقی پذیر ممالک میں سے پہلا ملک ہو گا جو کہ یونیورسل ہیلتھ کیئر حاصل اور اس کے فوائد اپنی عوام تک منتقل کر سکے گا۔ بہت سے منفی پہلوؤں کے درمیان آزاد رائے رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ صحت عامہ کے شعبے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کو پاکستان میں مثبت اور تکنیکی تبدیلی کا عکاس سمجھتے ہیں اور یہی نہیں وہ بھی غریب اور ضرورت مند بیمار شہریوں کیلئے اس سہولت کے جلد فعال ہونے کیلئے دعاگو ہیں۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے سے کسی کو نقصان نہیں بلکہ حکومت، عوام اور حتیٰ کے نجی شعبے کیلئے بھی ہر لحاظ سے اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ موجودہ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان متوقع عمر اور بچوں کی اموات کے لحاظ سے خطے میں دوسروں سے پیچھے ہے۔ لیکن ملک پولیو وائرس کے شکل میں ایک ایسی بیماری جس کا عالمی سطح پر طویل عرصے سے خاتمہ کیا جا چکا ہے کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے، یہاں صحت عامہ کا بنیادی ڈھانچہ ناکارہ ہے۔ نجی شعبے میں صحت سہولیات مہنگی اور بہت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے ابتدائی طور پر سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو ہیلتھ انشورنس کی پیشکش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور آہستہ آہستہ ہر ضرورت مند تک اس کو بڑھایا۔ اس منصوبے کو ترتیب دینے والوں کا کہنا ہے کہ ہم چاروں صوبوں کے شعبہ صحت کے حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں اس پر جلدی اور مؤثر فیصلہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ہیلتھ انشورنس کے اجرا اور اس کے لئے تکنیکی طور پر مدد کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ اس کیلئے مالی معاملات صوبوں کو خود ہی دیکھنے چاہییں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ چاروں صوبوں میں سے ہر ایک اپنے موجودہ صحت کے بجٹ کے اندر کسی بیرونی مدد کے بغیر بالکل ٹھیک طریقے سے یہ سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا نے 2020 میں مائیکرو ہیلتھ انشورنس اسکیم کا آغاز کیا اور 6لاکھ اہل خاندانوں میں صحت سہولت پلس کارڈز کی تقسیم شروع کی۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد، تھر، آزاد کشمیر، کے پی کے قبائلی علاقوں اور گلگت بلتستان کے مستحق افراد کے لیے ہیلتھ کارڈ سکیم بھی شروع کی۔ اس منصوبے کو ڈیزائن کرنے والے ایک سینئر سرکاری شخصیت نے انگیزی اخبار کو بتایا کہ اس کے بعد پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت نے بھی گزشتہ ہفتے ہیلتھ انشورنس سکیم کا آغاز کیا ہے اور توقع ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں ہیلتھ کارڈز کی تقسیم شروع کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بلوچستان میں بھی اتحادی جماعتوں کی مدد سے تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے پر کام کرنے کیلئے تیار ہے مگر سندھ مین پیپلزپارٹی کی حکومت اس سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کا صحت سہولت کارڈ پر عوامی موقف سیاسی ہے۔ یہ حکمران پی ٹی آئی کے خلاف ان کی مخالفت کی عکاسی کرتا ہے نہ کہ ان خاندانوں کے لیے صحت کی سہولیات تک مفت رسائی کے خیال سے جو اپنے بیمار اراکین کی دیکھ بھال کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کے پی کے لوگ جو سندھ میں مقیم ہیں وہ صوبے کے نامزد اسپتالوں میں مفت طبی نگہداشت کی سہولت حاصل کر رہے ہیں، اس سے سندھ حکومت پر مقامی لوگوں کو اسی طرح کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا پابند بنانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب کے ضلع خانیوال میں اسکول کے گارڈ نے نویں جماعت کی طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، واقعے کا علم ہوتے ہی پرنسپل نے معاملہ دبانے کیلئے والد پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ تفصیلات کے مطابق خانیوال کی تحصیل کبیروالا میں پیش آنےو الے افسوسناک واقعے میں ڈی پی او خانیوال کے نوٹس لیتے ہی پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کے والد کا کہنا ہے کہ میں بچی کے اسکول پہنچا تو چوکیدار نے بتایا وہ گھر جاچکی ہے، مگر وہ گھر بھی نہیں پہنچی تھی میں پریشان ہوکر دوبارہ راستے میں بچی کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا اسکول پہنچا تو چوکیدار میری بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنارہا تھا اور مجھے دیکھتے ہی موقع سے فرار ہوگیا۔ بچی کے والد نے مزید کہا کہ نے فوری طور پر اسکول کی میڈم کو شکایت کی تو انہوں نے مجھ پر معاملے کو دبانے کیلئے دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ خبرباہر نکلی تو بہت بدنامی ہوگی۔ بعد ازاں واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ڈی پی او خانیوال نے نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے اور بچی کو میڈیکل کیلئے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کردیا، انہوں نے کہا کہ میں واقعہ کی نگرانی خود کررہا ہوں۔ پولیس کے مطابق اسکول کے چوکیدار ایوب عالم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور اس سے تفتیش بھی شروع کردی گئی ہے۔
پیپپلز پارٹی کسی غیرآئینی،غیرقانونی طریقہ کار کے ساتھ نہیں، قمر زمان کائرہ سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ فارمولا بنا بنا کرملک کا بیڑا غرق کررہے ہیں، اب یہ عالم ہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ آکرہماری مددکریں کوئی ہم طریقہ بنائیں، فارمولہ بنائیں لیکن واب یہ ہے اب تم کرو اس کی چھٹی پھر کرو ہم سے بات۔ جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں میزبان نے پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ سے سوال کیا کہ کون زرداری صاحب سے کہہ رہا ہے کہ آئیں مدد کریں ،کوئی طریقہ بنائیں کوئی فارمولا بنائیں ؟ جس پر قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی جب بھی بات کرتی ہے وہ غلط کئے ہوئے کو کالعدم کرنے کی بات کرتی ہے،وہ ہم نے مارشل لا، مشرف دور اور موجودہ حکومت کو بھی کہی۔ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ ہم کہہ چکے ہیں ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تو ہم حاضر ہیں، ہم پہلے بھی یہ کام کرتے رہے ہیں،ملک میں مشکل ترین حالات ہیں، پر ہم ساتھ دینے کو تیار ہیں،شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ یہ تاثر تو ہے مختلف معاملات میں پاکستانی پیپلز پارٹی سے بھی رابطہ کیا گیا،پھر زرادری صاحب بھی ایسا کہہ رہے ہیں،پھر اس حکومت کو گھر بھیج کر کس فارمولے کیلئے پیپلز پارٹی سے رجوع کیا گیا ہے۔ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ اس بارے میں علم نہیں لیکن جب بھی ایسا مسئلہ ہوگا، ایک پارٹی سے مباحثہ ہوگا، لیکن یہ بات طے ہے کہ پیپپلز پارٹی کسی غیرآئینی،غیرقانونی طریقہ کار کے ساتھ نہیں ہے نہ کبھی سپورٹ کرے گی، نہ کبھی ایسا کیا شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ پیپلز پارٹی پھر یہ کہوں کہے گی انہیں گھر بھیجو پھر کرو ہم سے بات؟ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ گھر بھیجو سے مراد یہ ہے کہ ہم کیا کہہ رہے، مسلم لیگ کیا کہہ رہی؟بعض اوقات ہم اپنے قومی اداروں کے احترام میں کچھ نہیں کہ پاتے، لیکن پھر بھی پتا تو ہوتا ہے،اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پاکستان کے قومی اداروں کو نہ کہیں گے نہ کہنا چاہئے کہ ہمارا ساتھ دو، نہ ان کو ساتھ دینا چاہئے،ہم کہیں گے آپ اپنا کردار ادا کریں اور سیاست کو اپنا کردار ادا کرنے دیں،اپوزیشن کا کیا صرف باتیں کرتی رہیں گی،حکومت کے جو کام کرنے کے ہیں وہ کرنے سے قاصر ہے۔ نوابشاہ میں خطاب میں آصف زرداری کا کہنا تھاکہ میں نے ان کو پہلے دن کہا تھا کہ نیب چلے گی تو حکومت نہیں چلے گی، اب یہ نیب چلا رہے ہیں، حکومت نہیں چلا رہے،ان کے اپنے سیکرٹریز کسی بھی معاہدے پر سائن کرنے پر تیار نہیں ہیں، اب تو نیب میں ریلیکسیشن دی جا رہی ہے لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ڈالر 180 روپے کا ہو گیا ہے، ضرورت ہی نہیں تھی روپے کی قدر کم کرنے کی، یہ ڈی ولیوی ایشن کرنے والے جاہل ہیں،یہ جتنے بھی باہرسے آتے ہیں جاہل ہیں، ان کوسمجھ نہیں آئی اورہمارا قرض ڈبل ہوگیا ہے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کیلئے کوئی مسئلہ نہیں،ان کیلئے مسئلے ہیں،اب یہ عالم ہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ آکرہماری مددکریں کوئی ہم طریقہ بنائیں، فارمولہ بنائیں، میں نے کہا کوئی فارمولہ وارمولہ نہیں، تم نے یہ فارمولے بنا بنا کرملک کا خانہ خراب کردیا ہے۔
سینئر صحافی، اینکرپرسن و تجزیہ کار سلیم صافی نے کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے توقع سے زیادہ بہتر کم بیک کی وجہ یہ ہے کہ ان تین سالوں میں اگر کسی نے تحریک انصاف حکومت کی اصل اپوزیشن کی ہے تو وہ مولانا ہیں۔ تحریک انصاف کی اپنے ہوم گراؤنڈ پر اس شکست پر شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے کیا کارکردگی کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے جس پر سلیم صافی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں میں سے اے این پی بھی پیپلز پارٹی کی طرح اپوزیشن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں نہ صرف مہنگائی اور بیڈ گورننس وجہ ہے بلکہ بد ترین انتظامی نااہلی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ کے پی میں ایک نہیں بلکہ کئی وزرائے اعلیٰ ہیں، اگر حکومت اپنی کارکردگی پر اس قدر پر اعتماد تھی تو پھر پرویز خٹک کو ہی وزیر اعلیٰ رہنے دیتے مگر ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ ہیلتھ کارڈ اور پشاور بی آر ٹی کے باوجود ہار جانے سے متعلق انہوں نے کہا کہ میڈیا میں صرف بڑے شہروں کو ترجیح دی جاتی ہے مگر لیکن بد انتظامی اپنی جگہ موجود ہے۔ اگر یہ گیم چینجر منصوبے تھے تو پی ٹی آئی کیوں بلدیاتی انتخابات سے بھاگ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات تو عدالت کے حکم پر کروائے جا رہے ہیں۔ اپنی کارکردگی پر مان تھا تو حکومت کیوں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانا چاہتی تھی۔ سلیم صافی نے کہا کہ غلط بیانی کی جاتی رہی ہے کہ اتنے طلبا پرائیویٹ اسکولوں سے نکل کر سرکاری اسکولوں میں داخل ہوئے ہیں۔ اس پر میرا آج بھی چیلنج ہے کہ کسی ایک بچے سے متعلق حکومت ثابت کر دے کہ یہ بچہ پرائیویٹ ادارے سے نکل کر سرکاری اسکول میں داخل ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے دائر درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دی جس کے نتیجے میں اسحاق ڈار کی بطور سینیٹر ممبرشپ کا نوٹی فیکیشن روکنے کا حکم امتناع ختم ہوگیا۔ سپریم کورٹ میں اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے پیپلزپارٹی کے رہنما نوازش علی پیرزادہ کی درخواست پر سماعت ہوئی تو مدعی پیش نہ ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواست گزار نوازش پیرزادہ گزشتہ سماعت پر بھی پیش نہیں ہوئے تھے، اسحاق ڈار کو عدالت نے طلب کیا تھا لیکن وہ بھی پیش نہیں ہوئے۔ سابق وزیر خزانہ کے وکیل نے بتایا کہ اسحاق ڈار بیمار ہیں اور بیرون ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ آرڈیننس کے تحت دو ماہ حلف نہ اٹھانے والے کی نشست خالی تصور ہوگی، اسحاق ڈار کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا اس لئے ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے درخواست عدم پیروی پر خارج کر دی جس کے نتیجے میں اسحاق ڈار کی سینیٹ نشست خالی قرار دینے میں پیش رفت ہوگئی ہے۔ حکم امتناع ختم ہونے پر اسحاق ڈار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی اسحاق ڈار پر نئے آرڈیننس کا اطلاق ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ اسحاق ڈار نے پاکستان آ کر حلف نہ اٹھایا تو نشست سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کے مطابق افریقہ تک جانے والی فائبر آپٹک کیبل میں خرابی کے باعث ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار متاثر ہوئی ہے جس سے انٹرنیٹ صارفین کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سپیڈ کم ہو گئی ہے۔ ملک میں موجود انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد کو اس کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دفتری امور بھی اب اسی کے مرہون منت ہیں۔ سپیڈ میں کمی کی وجہ سے ملازمین اپنے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی کی بڑی وجہ ایم ایم فور کیبل ہے جو کٹ چکی ہے، اس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی سپیڈ میں ایک ٹیرابائٹ کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ رش کے اوقات میں پاکستانی صارفین کو انٹرنیٹ کی سپیڈ میں مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انٹرنیٹ کیبل سی ایم وی فور کی مرمت کا کام آئندہ ماہ جنوری 2022 میں مکمل ہوگا۔ تاہم پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی سی ایل) کی جانب سے انٹرنیٹ ٹریفک دیگر کیبلز پر منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گیس کا بحران،عوام پریشان، انجینیئرز نے حل نکال لیا ملک بھر کے عوام گیس کے بحران سے شدید پریشان ہیں، صبح ہو یا شام گیس پریشر نے کھانا پکانا مشکل کردیا ہے، جس کی وجہ سے عوام ہوٹلوں سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں، ایسے میں پاکستانی انجینیئرز نے گیس بحران سے نمٹنے کا حل نکال لیا، اے آر وائی نیوز کے مطابق دو پاکستانی انجینئرز ساجد مصطفیٰ اور ریحان طاہر نے ایک ایسا چولہا متعارف کرایا ہے جسے جلانے کے لیے گیس یا لکڑی کی نہیں بلکہ بائیو ماس فیول کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جدید چولہا چار سے چھ افراد کا کھانا بنانے کے ساتھ ساتھ توانائی کا صاف ستھرا ذریعہ ہے، یہ چولہا سردیوں کے موسم میں صارفین کے لیے ایک پورٹیبل اور ماحول دوست حل ہے کیونکہ اس سے دھواں نہیں نکلتا۔ انجینئر نے بتایا کہ یہ چولہا ان صارفین کے لیے بھی بہترین ہے جن کے پاس کوئی گیس نہیں ہے یا وہ ایل پی جی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں،جس خاندان کے ایل پی جی کے اخراجات 4 ہزار کے قریب ہیں،اس چولہے کے اخراجات دو ہزار سے بائیس سو روپے تک ہوتے ہیں۔ انجینئرز نے مزید بتایا کہ اس چولہے کو چلانے کے لیے بجلی کی نہیں صرف ’پاور بینک‘ کی ضرورت ہوتی ہے،اسے کمرشل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے،دوسرے انجینئر کا کہنا تھا کہ الحمدللہ بڑے شہروں میں ہمارا چولہا پہنچایا جارہا ہے، کچھ اداروں سے گفتگو جاری ہے، ہم چاہتے ہیں یہ چولہا گراس روٹ لیول تک پہنچایا جائے۔ کراچی، پشاور، لاہور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں گیس کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے،شہریوں کا کہنا ہے کہ دن میں 3 بار کھانا پکانے کیلئے گیس فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ گیس ایک وقت کیلئے بھی صحیح طرح نہیں ملتی۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ارب ڈالر تک جا پہنچا جس کی بڑی وجہ درآمدات میں اضافہ ہے،ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی 2018 میں ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی سطح پر تھا جس کے بعد گزشتہ ماہ نومبر میں یہ سب سے زیادہ ایک ارب 90 کروڑ ڈالر رہا۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال پانچ ماہ کے دوران 7 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران ایک ارب 64 کروڑ ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے بالکل برعکس ہے، ٹوئٹ میں اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اکتوبر کے ایک ارب 76 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر نومبر میں ایک ارب 91 کروڑ ڈالر ہو گیا کیونکہ درآمدات نے مضبوط برآمدات اور ترسیلات زر کو پیچھے چھوڑ دیا،درآمدات میں زیادہ تر اضافہ عالمی سطح پر اجناس کی بلند قیمتوں کے علاوہ مقامی معیشت کی مضبوط بحالی سے ہوا۔ 14 دسمبر کو مانیٹری پالیسی کے اعلان میں اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ رواں مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مجموعی ملکی پیداوار کا 4 فیصد رہے گا جبکہ پہلے 2 سے 3 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی،لیکن پانچ ماہ کا خسارہ پہلے ہی جی ڈی پی کے 5.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جس میں بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے دوران کمی کا کوئی امکان نہیں۔ نومبر کا درآمدی بل 6 ارب 42 کرور 30 لاکھ ڈالر تھا جو پاکستان ادارہ شماریات کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے نمایاں طور پر کم ہے جس کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نومبر میں 7 ارب 92 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی اشیا درآمد کی گئیں،مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مقابلے میں ادارہ شماریارت کا درآمدی بل جولائی میں 20 کروڑ 2 لاکھ ڈالر، اگست میں 57 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، ستمبر میں 54 کروڑ 20 لاکھ ڈالر، اکتوبر میں 35 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور نومبر میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالر زیادہ رہا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نومبر کے اعداد و شمار میں واضح فرق پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں،دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ فرق آئندہ ماہ ایڈجسٹ کرلیا جائے گا کیوں کہ اسٹیٹ بینک بینکوں سے ادائیگیوں کے بعد اعداد و شمار مرتب کرتا ہے۔
مکمل نتائج کے بعد پی ٹی آئی لیڈنگ پارٹی ہوگی،علی امین گنڈا پور کا دعویٰ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کو جیت ملی، پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس پر وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے بڑا دعویٰ کردیا کہا مکمل نتیجےکے بعد پی ٹی آئی ‏لیڈنگ پارٹی ہوگی،اےآروائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ مکمل ‏نتیجہ آجائے گا تو پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی جماعت ہوگی ‏جیتنے والے آزاد امیدوار بھی تحریک انصاف میں شامل ہوں گے۔ علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ کے پی بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کو ہرایا ہے، پشاور ‏میں پی ٹی آئی کی کامیابی کیلئے محنت نہیں کی گئی کچھ لوگوں کےمتنازع بیانات کی وجہ سے ‏بھی پی ٹی آئی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ جگہوں پرٹکٹوں کی تقسیم درست نہیں تھی ڈی آئی خان میں کہاتھاجےیوآئی ‏نہیں جیتےگی،ہم کامیاب ہوئے، اپنی بات پرقائم ہوں مخالف پارٹی کےتحصیل میئرکوفنڈزنہیں دوں گا ‏تحصیل میئر کےقانون کے مطابق فنڈز نہیں ہوتےمیں انہیں نہیں دوں گا۔ دوسری جانب پروگرام میں شریک جے یو آئے ف کے انفارمیشن سیکریٹری عبدالجلیل جان نے کہا کہ ‏‏25 تاریخ تک نتائج کی بات کی جارہی ہےارادے کیا ہیں، 20نشستیں جیت چکےہیں8نشستیں چھینی ‏جارہی ہیں،جبکہ پیپلزپارٹی کی رہنما روبینہ خالد نے کہا کہ قانون میں جس کےجوبھی فنڈز ہوں گے انہیں دیئے ‏جائیں گے علی امین گنڈاپور کسی کے فنڈز کیسےروک سکتےہیں۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو کئی مقامات پر اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا،جے یوآئی ف تحصیل کونسلوں میں کامیاب ہوئی ہے اور حکمراں جماعت پی ٹی آئی نے 9 تحصیل کونسلوں میں فتح حاصل کی جب کہ عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدوار 5،5 تحصیل کونسلوں پر کامیاب ہوئے۔
روزنامہ جنگ کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے مطابق پاکستان چینی کی پیداواری صلاحیت میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ ایکس ملز ریٹ 85سے 86روپے چالیس پیسے فی کلو تک پہنچ گئے، پاکستانی قوم کی چینی کی سالانہ ضرورت 64لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ موجودہ کرشنگ سیزن میں کم از کم 67لاکھ ٹن چینی ملک کی 82شوگر ملیں بنائیں گی۔شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سینئر ایگزیکٹو ممبر ماجد ملک سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے گنے کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دال مونگ کی پیداوار میں بھی پاکستان خود کفیل ہو چکا ہے۔ 22-2021 میں فصل کے پہلے اندازے کے مطابق دال کی پیداوار 2 لاکھ 53 ہزار ٹن تھی جبکہ ملکی ضرورت اس سے کم تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ٹن ہے۔ کچھ عرصہ قبل چینی بحران کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا ۔
جیو نیوز کے مطابق خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوران لوئر مہمند میں ساس اور بہو کے انتخابی دنگل میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی۔ بنوں میں خواتین کونسلر کی نشست پرخانہ بدوش شمشاد بیگم نے معرکہ جیت لیا۔ دوسری جانب غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کےمطابق دنیا بی بی کی بہو رابعہ بی بی کو الیکشن میں شکست ہوگئی جس میں وہ جماعت اسلامی کی امیدوار سے ہار گئیں۔ جب کہ خواتین کی نشست پر رابعہ کی ساس دنیا بی بی اور مخالف امیدوار کے ووٹ برابر نکل آئے جس کے بعد دونوں امیدواروں کی ہارجیت کا فیصلہ ٹاس پر ہوگا۔ بنوں سٹی میئر کی نشست پر جے یو آئی کے امیدوار عرفان اللّٰہ درانی نے پی ٹی آئی پر واضح برتری حاصل کرلی، عرفان اللّٰہ کے 37 ہزار 458 ووٹوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار اقبال خان جدون کے 23 ہزار 867 ووٹ ہیں۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو کئی مقامات پر اپ سیٹ شکست ہوئی ہے، انتخابات کے پہلے مرحلے میں اب تک جے یو آئی ایف 64 میں سے 19 تحصیلوں میں برتری حاصل کرکے سب سے آگے ہے، 4 میں سے 3 اہم شہروں پشاور، بنوں اور کوہاٹ میں جے یو آئی کا میئر کا امیدوار بھی آگے ہے جبکہ مردان میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سب سے آگے ہے۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں اب سے کچھ دیر پہلے تک تحریک انصاف 15 تحصیلوں میں آگے ہے، آزاد امیدواروں کو 12 اور عوامی نیشنل پارٹی کو 8تحصیلوں میں برتری حاصل ہے، جماعت اسلامی 3 ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک اصلاح پاکستان 2-2 تحصیلوں میں آگے ہیں۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت امن و عامہ کی صورتحال کو برقرار رکھنے کی بجائے کسی اور چیز پر توجہ مرکوز کیے بیٹھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات پورے صوبے میں نہیں بلکہ صرف 17 اضلاع میں تھے جس کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت کو پورے صوبے میں نہیں بلکہ صرف چند اضلاع میں لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا تھا مگر کے پی حکومت سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ انہوں نے شبلی فراز پر ہونے والے حملے اور درہ آدم خیل میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے پر کہا کہ یہی نہیں اس طرح کے اور بہت واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہجوم نے حملہ کر کے من مانیوں کی ہیں مگر حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔ اینکر پرسن و تجزیہ کار سلیم صافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صوبے میں ہیلتھ کارڈ دیئے ہیں تو ان کی سیاسی پوزیشن بہتر ہے یہ محض دعویٰ ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ بہت پہلے بلدیاتی انتخابات کراکر اپنا آپ منوا چکے ہوتے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات عدالت کی ہدایت پر کروائے جا رہے ہیں اور وہاں پر بھی حکومت کا غیر جماتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا موقف مسترد ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کورنگی انڈسٹریل ایریا کے علاقے مہران ٹاؤن سیکٹر 6 ایف میں ہفتہ کی شب فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 33 سالہ واصف ریاض ولد ریاض خان کے قتل کا مقدمہ کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے کے 3 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ اسی تھانے میں درج کر لیا گیا۔ مقدمہ مقتول کے بھائی کاشف ریاض کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مدعی نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا کہ مقتول مکان نمبر 51 مہران ٹاؤن سیکٹر 20 ایف کورنگی کا رہائشی تھا، مقتول گھگھر پھاٹک کے قریب نجی کمپنی میں ملازم تھا، کمپنی کی گاڑی کورنگی کراسنگ تک آتی ہے۔ کاشف ریاض نے کہا کہ ہفتے کی شب واصف کمپنی سے کام ختم کر کے کورنگی کراسنگ سے چنگ چی میں گھر آرہا تھا ، چنگ چی کے اسٹاپ سے اتر کو وہ جیسے ہی گھر کے قریب گلی کے کونے پر پہنچا تو دو موٹر سائیکلوں پر موجود اہلکاروں میں سے ایک نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں واصف زخمی ہو گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعے کے بعد ایک موٹرسائیکل پر سوار 2 اہلکار موقع سے فرار ہوگئے، اسی دوران کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے کی پولیس موبائل موقع پر پہنچ گئی، مشتعل افراد کو منتشر کر کے زخمی واصف اور تیسرے اہلکار کو اپنے ساتھ لے گئے۔ علاقہ مکین موبائل کے پیچھے گئے تو دیکھا کہ زخمی کو اسپتال لے جانے کے بجائے کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے میں لے گئے جس کی اطلاع ملنے پر علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی۔ اس کے بعد تھانے کا مرکزی دروازہ بند کر دیا گیا، شورشرابہ کرنے پر پولیس نے علاقہ مکینوں پر لاٹھی چارج کیا۔ طویل کوشش کے بعد پولیس نے رکن اسمبلی راجہ ریاض اور واصف کے بھائی کو تھانے میں داخلے کی اجازت دی جنہوں نے دیکھا کہ ایدھی ایمبولینس میں واصف کی خون میں لت پت لاش رکھی ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بھائی کو بروقت اسپتال لے جایا جاتا تو وہ بچ سکتا تھا۔ تفصیلات کے مطابق کورنگی مہران ٹائون میں جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے واصف ریاض ولد ریاض کا ایک ڈھائی سال کا بیٹا اور ایک تین ماہ کی بیٹی تھی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ایم ایل او ڈاکٹر کامران نے بتایا کہ واصف کے عقب میں پیٹ پر ایک گولی لگی تھی جو سینے سے باہر نکلی گولی زیادہ فاصلے سے نہیں ماری گئی اور نہ ہی نالی رکھ کر گولی ماری گئی ، عقب سے گولی لگنے پر واصف سامنے کے طرف گرا جس سے اس کی چہرے پر چوٹ لگی ، جسم پر تشدد کے کوئی نشانات موجود نہیں ہیں۔ پوسٹ مارٹم کے فوری بعد ایس ایس پی کورنگی آفس سے فارنزک آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے ٹیم پہنچ گئی جہاں کرائم ریکارڈ چیک کرنے کے لیے مقتول کے انگوٹھے کے نشانات لیے گئے ، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے نمائندے کے مطابق مقتول واصف کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر پر ہونے والی سٹہ بازی روکنے اور سٹہ بازوں کے خلاف شکنجہ کسنے کیلئے فارن ایکسچینج سے متعلقہ قوانین کو پہلے سے زیادہ سخت کر دیا، اب سے ڈالر کے خریداروں کو ایک دن میں 10 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ڈالر نہیں مل سکیں گے۔ مرکزی بینک نے تمام ایکسچینج کمپنیز کو ملا کر فی کس یومیہ حد مقرر کردی ہے۔ یہی نہیں نئے قوانین کے تحت کسی بھی فرد کے لیے ایک سال میں ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی خریداری کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی حد بھی مقرر کی گئی ہے۔ یومیہ اور سالانہ حد کا اطلاق نقد خریداری اور رقوم کی بیرون ملک منتقلی پر ہوگا۔ بیرون ملک علاج کے لیے فی انوائس 50 ہزار ڈالر مقرر کردی گئی ہے۔ جبکہ تعلیم کے لیے بیرون ملک رقوم کی سالانہ منتقلی کی حد 70 ہزار ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ مرکزی بینک نے ہدایت کی ہے کہ کمپنیاں ایک ہزار ڈالر کی فروخت کے لیے متعلقہ دستاویزات لازمی طلب کریں اور خریدار کو ایک ہزار ڈالر تک کی غیرملکی کرنسی کی خریداری کی صورت میں وجہ بھی بتانا ہوگی۔ کسی اتھارٹی لیٹر کے عوض دوسرے فرد کو کرنسی کی فراہمی نہیں کی جائے گی۔ ایکسچینج کمپنیاں صرف اپنے مجاز آؤٹ لیٹس سے غیرملکی کرنسی فروخت کریں گی۔ گھروں یا دفاتر تک غیر ملکی کرنسی کی ڈیلیوری پر پابندی ہوگی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق ان حدود سے زیادہ یا دیگر مقاصد کی خاطر رقم کی ترسیل کرنے کے لیے شہری اپنے بینک کے ذریعے ایس بی پی بی ایس سی کے فارن ایکسچینج آپریشنز ڈپارٹمنٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

Back
Top