خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
عثمان مرزا،شاہ رخ کیس نظام انصاف کیلیےچیلنج ہے،فواد چوہدری عثمان مرزا لڑکا لڑکی ہراسانی کیس ، جی ٹی روڈ زیادتی اور شاہ رخ جتوئی کیس ہمارے نظام انصاف کیلیے چیلنج ہیں،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ پر تشویش کا اظہار کردی،انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ یہ کیسز روزانہ کی بنیاد پر کیوں نہیں چل رہے؟ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ایسے کیسز کو عمومی مقدموں کے طور پر کیوں لیا جارہا ہے؟پراسیکیوشن اور عدالت اپنی ذمہ داری نبھائیں،ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا ریاست کا فرض ہے۔ گزشتہ روز عثمان مرزا کیس میں متاثرہ لڑکی اپنے بیان سے مکر گئی تھی، اس نے عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو پہنچاننے سے انکار کیا اور کہا کہ پولیس والے مختلف اوقات میں سادہ کاغذوں پر اس سے دستخط اور انگوٹھے لگواتے رہے ہیں۔ متاثرہ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ کسی بھی ملزم کو نہیں جانتی اور نہ کیس کی پیروی کرنا چاہتی ہوں، کسی کو بھی تاوان کی رقم ادا نہیں کی ،ریحان سمیت کسی بھی ملزم نے زیادتی کی کوشش نہیں کی، میں ریحان کو نہیں جانتی اور نہ ہی وہ ویڈیو بنا رہا تھا۔ دو روز قبل شاہزیب قتل کیس کے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی کے متعلق انکشافات ہوئے کہ گزشتہ کئی مہینے سے جیل کے بجائے کراچی کے غیر معروف نجی اسپتال میں شاہانہ انداز میں رہ رہا تھا، گزار رہا تھا،نجی اسپتال شاہ رخ جتوئی کے خاندان نے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے شاہ رخ جتوئی کو پروکٹو اسکوپی کے لیے 5 مئی 2021 کو اسپتال جانے کی اجازت دی تھی، شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب خان کو دسمبر 2012 میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا اور جرم ثابت ہو نے پر عدالت نے 2019 میں شاہ رخ جتوئی سمیت 2 ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مری میں طوفانی برفباری کے دوران اداکارہ فضا علی بھی دیگر پھنسے ہوئےسیاحوں کی طرح وہاں موجود ہوٹل مالکان کے شرمناک رویے پر برس پڑیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی اداکارہ فضا علی بھی برفباری کے دوران مری میں پھنسی رہیں، اداکارہ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں ہوٹل والوں کی جانب سے دوگنے چوگنے پیسے وصول کئے جارہے ہیں لیکن کسی قسم کی سہولت نہیں دی جارہی۔ اداکارہ فضاعلی نے شدید برفباری کے دوران مری میں لیے جانے والے ہوٹل کے کمرے کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں لاہور میں موجود تھیں ، انہوں نے برفباری دیکھنے کے لیے مری جانے کا پلان بنایا۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ انہوں نےمری کے اروما کیفے نامی ہوٹل میں 20 ہزار روپے میں ایک رات کے لیے کمرا کرایے پر لیا جہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ تصویروں میں انتظامیہ کی جانب سے دکھائے گئے کمرے بالکل بھی ویسے نہیں تھے۔ فضا علی نےبتایا کہ ہوٹل کے کمروں کے واش روم میں پانی موجود نہیں تھا، جبکہ شکایت کرنے پر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ موٹر چلائی ہے پانی آجائے گا لیکن 4 گھنٹے گزرجانے کے باوجود پانی نہیں آیا، اس دوران ہم نے 3 کپ چائے آرڈر کی بوتل دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی کیوں کہ 3 کپ چائے ہمیں 2 ہزار روپے میں دی گئی۔ تاہم کئی گھنٹے گزر نے کے باوجود بھی جب پانی نہیں آیا تو ہم نے انتظامیہ کے ساتھ اس بدانتظامی پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا ،پھر ہم نے وہ ہوٹل چھوڑ دیا۔ اداکارہ فضا علی نے مزید کہا کہ سانحہ مری کے دوران عوام سے برے رویے ، ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے اور ان سے کرائے کی مد میں زیادہ رقم وصول کرنے والے ہوٹلوں کے نام لینے کی بھی درخواست کی ہے تاکہ ایسے ہوٹل مالکان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ مری میں ہوٹل مالکان میں صرف 10 فیصد افراد ایسے ہیں جن کا تعلق مری سے ہے، ورنہ زیادہ تری مری کے ہوٹلز کے مالکان بڑے بڑے سیاستدان، کاروباری شخصیات اور وزیر ہیں۔ واضح رہے کہ 7 جنوری کو رات گئے مری میں شدید برفباری اور سیاحوں کے رش کی وجہ سے صورتحال سنگین ہوگئی تھی جس سے 23 افراد گاڑیوں میں پھنسے رہنے کے باعث انتقال کرگئے تھے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق نیب ( قومی احتساب بیورو) نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز کی حوالگی کے لئے برطانوی حکومت کو باقاعدہ درخواست دے دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز کی حوالگی کے لئے برطانوی حکومت کو درخواست دے دی گئی۔ برطانوی حکومت کو خط نیب کی جانب سے لکھا گیا ، نیب نے 31 دسمبر 2021 کو برطانوی حکومت کو درخواست جمع کرائی۔ نیب نے برطانوی حکومت کو واضح طور پر بتایا ہے کہ سلیمان شہباز منی لانڈرنگ اور ٹی ٹی اسیکنڈل میں نیب کو مطلوب ہیں اور عدالت نے سلمان شہباز کو اشتہاری قرار دے رکھا ‌ ہے۔ واضح رہے کہ 2020 میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے منی لانڈرنگ کیس میں نامزد شہبازشریف کے صاحبزادے کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ شہباز شریف اور دونوں بیٹے (حمزہ اور سلیمان) کرپشن کیسز میں نامزد ہیں اور نیب کی جانب سے ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کے کیسز کی تحقیقات جاری ہیں۔ شہباز شریف نے لاہور، ایبٹ آباد اور ہری پور میں متعدد جائیدادیں اپنی بیگمات نصرت شہباز اور تہمینہ درانی کے نام پر حاصل کیں۔ ان تمام جائیدادوں کو اب منجمد کردیا گیا ہے جبکہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز نے بھی لاہور اور چنیوٹ میں کئی جائیدادیں خریدیں انہیں بھی نیب کی جانب سے منجمد کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مارگلہ نیشنل پارک میں قائم مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے اور نیوی گالف کورس کو آج ہی سی ڈی اے کو تحویل میں لینے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات کے خلاف کیس کی سماعت کی جس کے دوران سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع اور چیئرمین سی ڈی اے عدالت پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کورونا میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انوائرمنٹل کا آپ کو معلوم ہے؟ آپ نے اس فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا جس میں ریاستی زمین پر تجاوز کیا گیا، جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیران کن ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کورٹ آپ کو بلا کر بتاتی ہے، فیصلے دیتی ہے، اسلام آباد میں لاقانونیت ہے، یہ کورٹ بار بار فیصلے دے رہی ہے اور آپ کو بتا رہی ہے۔ عدالتِ نے اپنے حکم میں کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے علاقے میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ زمین وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، یہاں سے کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔ ۃعدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ یہاں کسی ایسی بات کا دفاع چاہتے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے؟ چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت 8000 ایکڑ زمین دی گئی؟ عدالت کی جانب سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں قائم مونال ریستوران کو آج ہی سربمہر کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ دوسری جانب عدالت نے نیوی گالف کورس کو آج ہی سی ڈی اے کے سپرد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری دفاع صاحب یقینی بنائیں کچھ ایسا نہ ہو بعد میں شرمندگی کا باعث بنے، آپ نے تسلیم کیا کہ گالف کورس غیرقانونی ہے اسے سربمہرکرکے انکوائری کریں۔ چیئرمن سی ڈی اے نے بتایا کہ ہم نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا نوٹس دے دیا ہے، اسلام آباد میں تقریباً تمام سرکاری اداروں نے تجاوز کیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین فورسز کے سیکٹرز میں بھی تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں، کیا عمل ہو رہا ہے؟ ایئر فورس نے جتنی تعمیرات کیں، کیا سی ڈی اے سے منظوری لی؟ ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ سیکورٹی تحفظات ہوں۔ عدالت نے کہا کہ سیکرٹری دفاع بھی موجود ہیں، ان کے تحفظات بھی سن لیں اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیں، اسلام آباد میں فورسز کے تین سیکٹرز میں خلاف قانونی تعمیرات نہیں ہونی چاہئیں، ‏اسلام آباد مارگلہ ہلز ملٹری فارمز کی ملکیت نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ملکیت ہے۔ عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کو آج ہی مونال کو سیل کرنے اور سی ڈی اے کو نیوی گالف کورس کو اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری دفاع اس پر ناجائز قبضے کے ذمے داران کیخلاف تحقیقات کرائیں، مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی پارلیمنٹ میں پیشی کے حوالے سے نیب پہلے خط سے دستبردار ہو گئی، نیب نے سیکریٹری قومی اسمبلی کو نیا خط لکھ دیا،جس میں خط وزیر اعظم عمران خان کو نہیں سیکریٹری اسمبلی کو لکھا گیا تھا،پہلے لکھے گئے خط کے حوالے میں وزیراعظم کا ذکرنا دانستہ اور حادثاتی ہے۔ جیونیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں وزیراعظم کے نام حادثاتی طور پر شامل ہونے پر سینیئر تجزیہ کارارشاد بھٹی نے بھی اس حوالے سے اظہار خیال کیا، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا نام استعمال کرنا اس سے بھی زیادہ آسان ہے، میں بھی وزیراعظم کا نام استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی خط بھیج سکتا ہوں، ارشاد بھٹی نے میزبان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ساتھی تجزیہ کاروں کیخلاف وزیراعظم کا نام استعمال کرتے ہوئے آپ کو ایک خط بھجوادوں گا۔ ارشاد بھٹی نے مزید کہا کہ رانا تنویر صاحب کا شکریہ کے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بھی پارلیمنٹ میں پیش ہوں،یہ وہ ہی عمران خان صاحب ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو لعنت دے دی ہے، یا کبھی رانا صاحب کو نواز شریف کے دور میں لگا کہ وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں،جو چھ چھ مہینے پارلیمنٹ نہیں آتے تھے، سینیٹ نہیں آتے تھے۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ رانا تنویر صاحب نے چیئرمین نیب کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے،ابھی وہ خوف تحقیقات کررہے ہیں،کہ کیا خط واقعی وزیراعظم آفس نے لکھا یا غلطی سے لکھا گیا،یا یہ خط چیئرمین نیب کے علم میں تھا،اگر سب کچھ ایسا ہی ہے تو پھر رانا تنویر کو ریفرنس دائر کرنے کیلئے پنلک اکاؤنٹ کمیٹی سے اجازت لینا ہوگی۔ ارشاد بھٹی نے کہا رانا تنویر نے سیکیریٹری کابینہ سے تین دن میں تفصیلات بھی مانگی ہے،لہذا ابھی یہ ابتدائی مرحلے میں ہے،اگر جیسا رانا تنویر سمجھ رہے ہیں ویسا ہو بھی جائے تب بھی چیئرمین نیب کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، کیونکہ اس ملک میں پیسے والے کیخلاف کارروائی ایک انہونی بات ہے۔ حسن نثار سے پوچھا گیا،حسن نثار نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس تو غلطی کا مارجن ہی مارجن ہے،اتنے سال ہوگئے ہیں اب تو سب کو عادی ہوجانا چاہئے۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی رانا تنویر حسین چیئرمین نیب جاوید اقبال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں،انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کو پی اے سی میں آنا پڑے گا، اُن کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے،پی اے سی کو وزیراعظم کے نام پر لکھےگئے خط کی انکوائری کررہے ہیں، ہم نے سیکرٹری کابینہ کو خط کے حوالے سے تین دن کے اندر تفصیلات فراہم کرنے کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تفصیل آنے کے بعد ہم وزیراعظم اور چیئرمین نیب کو لکھیں گے، وزیراعظم کا دفتر ملوث ہے تو ان سے پوچھا جائے گا، اگر کمیٹی کو خط چیئرمین نیب کے علم سے جاری ہوا ہے تو چیئرمین نیب کے خلاف ریفرنس دائر ہوسکتا ہے، خط کے حوالے سے معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے، اگر وزیراعظم کا دفتر ملوث ہے تو اس سے پوچھا جائے گا، اگر وہ ملوث نہیں تو جس نے نام استعمال کیا ہے تو اس کی ذمہ داری کا تعین کرکے کارروائی کی جائے گی۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام الیونتھ آور میں سابق چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا آخری سال 2018 پاکستانی معیشت کا بدترین سال تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ن لیگ کے آخری سال میں پیدا کیے گئے کئی بگاڑ ٹھیک کیے ہیں۔ شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان کا درآمدات اور برآمدات کا خسارہ 34 بلین ڈالر تھا جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسار15 بلین ڈالر تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب نظر آنے والی بہت سی خرابیوں کی وجہ مسلم لیگ ن کا وہ آخری سال ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعئل نے شبر زیدی کے جواب میں کہا کہ ان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ 2018 ملکی معیشت کا بدترین سال تھا کیونکہ پرویز مشرف کے دور میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 8 اعشاریہ 2 فیصد تھا جس کو مسلم لیگ ن 6 فیصد پر لائی۔ تو اس طرح ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے کہ 2018 ملکی معیشت کا بدترین سال تھا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کو جانچنے کیلئے کوئی ایک نئی بلکہ کئی اعشاریوں کو دیکھنا پڑتا ہے ہمارے دور میں جی ڈی پی 5 اعشایہ8 فیصد بڑھ رہی تھی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ تجارتی خسارہ 6 ماہ میں 25 ارب ڈالر مزید بڑھ گیا ہے۔ خدانخواستہ اسی سال کے دوران یہ 45 ارب ڈالر تک چلا جائے گا۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے دور میں کھانے پینے کی اشیار پر مہنگائی کی شرح 2 فیصد تھی۔ جبکہ مجموعی طور پر مہنگائی4 فیصد تھی۔ شبر زیدی نے مفتاح اسماعیل کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک انصاف کی حکومت بہت اچھی ہے مگر یہ دیکھیں کہ آپ نے جو خرابیاں پیدا کیں یہ حکومت اس کو ٹھیک کرنے میں لگی ہے۔
اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں زیادتی سے متعلق درج ہونے والے مقدمے سے یاسر شاہ کا نام بطور ملزم خارج کر دیا گیا۔ پولیس نے تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ قومی کرکٹر کا مبینہ زیادتی کے اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری جانب مدعیہ/ متاثرہ خاتون نے بھی پولیس کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یاسر شاہ کا نام مقدمے میں شامل کرنے کیلئے اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ اسلام آباد پولیس نے مقدمے کی ضمنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون نے خود بھی قومی کرکٹر یاسر شاہ کا نام مقدمے سے نکالنے کا کہا ہے۔ یاد رہے کہ قومی ٹیسٹ کرکٹر یاسر شاہ پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والی ایک 14 سالہ لڑکی کو ہراساں کیا اور زیادتی میں معاونت کی ہے۔ جس کے تحت تھانہ شالیمار میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ یاسرشاہ کے دوست فرحان نے گن پوائنٹ پرزیادتی کی، ویڈیو بھی بنائی اورہراساں کیا، فرحان اور یاسر شاہ نےدھمکی دی کہ کسی کو بتایا تو ویڈیو وائرل کر دیں گے اور جان سے بھی مار دیا جائے گا۔ خاتون نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ کرکٹر یاسرشاہ نے کہاکہ وہ انٹرنیشنل کرکٹر ہے بااثر ہے شکایت کی صورت میں الٹا خاتون کو ہی مقدمے میں پھنسا دے گا۔ واضح رہے کہ یاسر شاہ کی مذکورہ مقدمے میں نامزدگی کے بعد چیئرمین پی سی بی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے واقعات پاکستان کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی خبریں پاکستان کیلئے نیک نامی کا باعث نہیں بنتی۔ ہمیں بہترین ماحول پیدا کرنا چاہیے یہ تو سکون دہ اور مثبت احساسات پیدا کرنے کا وقت ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ یہ حکومت چلی جائے اور ایک قابل حکومت آجائے تو آئی ایم ایف سے ازسر نو معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ حکومت سے نجات کیلئے آئینی راستے اختیار کرنے کے حامی رہے ہیں۔ جب تک ہمیں حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ملنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک یہ کام نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں حکومت گرانے کیلئے عوامی دباؤ بڑھانا چاہئے، عوامی دباؤ سے حکومتی صفوں میں انتشار اور حلیف علیحدہ ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان ہاؤس تبدیلی کے سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ ابھی تک تحریک عدم اعتماد کی کوئی تجویز نہیں اور نہ ہی اس آپشن پر غور کیا جارہا ہے۔ اگر ہمیں حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ملنے کا یقین ہو گا تو ہی اس آپشن پر جا سکتے ہیں تب تک یہ کام نہیں ہوسکتا۔ سیاسی صورتحال سے متعلق انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ سے ہمیں کوئی نقصان نہیں بلکہ اس سے پولیٹیکل موبلائزیشن ہو گی جس سے آگے چل کر ہمارے مارچ کیلئے فائدہ ہی ہوگا۔ احسن اقبال نے کہا کہ یہ حکومت ہی کی نالائقی ہے کہ ہمارا گورنر سٹیٹ بینک یہاں آئی ایم ایف کا وائسرائے اور غیر منتخب مالیاتی وزیراعظم کی حیثیت سے بیٹھا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'رپورٹ کارڈ' میں سانحہ مری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں، یہ قوم کم اور انسانوں کا ہجوم زیادہ ہے، ہم بزدل بن گئے ہیں، طاقت اور پیسے کے پجاری بن گئے ہیں، یہ ساری خامیاں ہیں، لیکن مری کی تمام عوام پر واقعہ کےذمہ دار ہونے کا الزام عائد کرنا غلط ہے، پہلی بات تو یہ کہ مری میں جو ہوٹلز ہیں وہ سب مقامی لوگوں کے نہیں ہیں، اس میں اکثریت غیر مقامی لوگوں کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مری کی عوام کی اکثریت نے پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ایسے کارنامے انجام دئیے ہیں ، میں نے ایک ٹوئٹ دیکھی جس سے انصار مدینہ یاد آجاتے ہیں، اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر دوسرں کی جان بچائی، بہت سارے لوگوں نے برفباری میں پھنسی عوام کو اپنے گھروں میں رکھا ہو اہے، سب مری کے عوام کو اس واقعہ کا الزام دینا مناسب نہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ زیادہ تر یہ لوگ گلف ملکوں میں مزدوری کے لئے جاتے ہیں، وہاں نظام اچھا ہے، یہی لوگ وہاں نہ ہی نظام کی خلاف ورزی کرتے اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت کرتے ہیں تو اگر نظام ہو اور حکومت اپنی ڈیوٹی پوری کرے تو اس طرح کے واقعات نہیں ہو سکتے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ 5 جنوری کو جو محکمہ موسمیات نے جو وارننگ جاری کی ہے اس میں واضے طور پر لکھا ہے کہ 6 اور 7 جنوری کے دوران شدید برفباری کے باعث مری، گلیات، کاغان، ناران، دیر، سوات، چترال، استور، سکردو، ہنزہ، گلگت بلتستان، نیلم وادی، باغ اور حویلی کے اضلاع سےرابطہ سڑکیں بند ہو جانے کا خدشہ ہے، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس دوران کشمیر، گلگت بلتستان اور بالائی خیبر پختون خوا میں برفانی تودے اور لینڈ سلائڈنگ کا خطرہ، تمام متعلقہ اداروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی، اسی دن این ڈی ایم اے کی جانب سے ٹوئٹ بھی کی گئی، تو کیا حکومت نے اس کی تشہیر کی، یہ حکومت جس کے پاس درجنوں ترجمان ہیں، جس کی سارے توجہ میڈیا پر ہے،کیا یہ وارننگ عام تک پہنچی تھی، چلو مری میں تو ہو گیا، میڈیا اس کو سامنے لے آیا، سوات میں سڑکیں بند ہیں، وہاں ایسا ہوسکتا ہے، کالام میں ہو سکتا، مری واقعہ کے بعد لوگوں کا رخ سوات کی طرف ہو گیا ہے، وہاں سوات کے حوالے سے حکومت کی کوئی گائیڈ لائن نہیں، کوریا میں اگر کشتی الٹ جاتی ہیں تو وزیراعظم استعفی دیتا ہےریاست مدینہ کے امیر المومنین کہتے دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مر جائے تو ذمہ دار میں ہوں ، پچھلی خراب حکومتوں کے دور میں، پرانے پاکستان میں جو انتظامات کئے جاتے تھے وہ نہیں کئے گئے، جو اجلاس کیا جاتا تھا وہ نہیں کیا گیا، حکومت تو بس ایک ٹوئٹ کر دیتی ہے کہ آج اتنے لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں، نہ لوگوں کو روکا نہ ہی بروقت کوئی امدادی کارروائی کی گئی، اس کی سراسر ذمہ دار حکومت ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سانحہ مری کے دوران سڑکوں پر برف پھینک کر رکاوٹیں بنانے اور جان بوجھ کر پھسلن پیدا کرنے والے مقامی مفاد پرست نامعلوم افراد کے خلاف مری پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سیاحوں کے لئے خود ساختہ مشکلات پیدا کرنے والے مقامی مفاد پرستوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ دشوار گزار راستوں پر رات کی تاریکی میں خود برف پھیلانے والے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مقدمہ سیاحوں کو نکالنے میں مدد کے نام پر بلیک میل کرکے رقوم بٹورنے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔ مذکورہ مقدمہ پولیس کے اے ایس آئی محمد رمضان کی مدعیت میں درج ہوا۔ ایف آئی آر کے مطابق نامعلوم ملزمان بھوربن روڈ پر برف پھینک کر پھسلن پیدا کرتے تھے، پھر پھنس جانے والی گاڑی کو جیپ سے نکالتے تھے۔ ملزمان برف اور پھسلن میں پھنس جانے والوں سیاحوں سے 4 سے 5 ہزار وصول کرتے تھے۔ تاہم مری پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے لیکن تاحال کوئی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا۔ اس تمام صورتحال کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ایک سیاح کی جانب سے شیئر کی گئی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق بھوربن روڈ پر نیلے رنگ کی جیپ پر نامعلوم مقامی افراد نے از خود برف بکھیری۔ سیاحوں کی گاڑی برف میں پھنس جاتی ہے تو وہ افراد جیپ سے ٹو کر کے نکالنے کے پانچ ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ان نامعلوم ملزمان کی جانب سے سڑک پر پھیلائی گئی برف سے شاہراہ پر ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی جس سے کئی گاڑیوں سے پیسے لیے گئے اور ٹریفک حادثات کا خدشہ بھی بڑھ گیا۔
پی آئی اے میں گھوسٹ ملازمین بھرتیاں پی پی،ن لیگ دور میں ہوئی،ترجمان قومی ایئرلائن پی آئی اے میں گھوسٹ ملازمین اور جعلی ڈگری والوں کی بھرتیوں کا معاملہ تو چلتا رہتا ہے، لیکن اس بار ان ملازمین کو فارغ کرنے کی خبروں نے سب کی توجہ حاصل کی ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ملازمین کو بھرتی کس نے کیا۔ اس حوالے سے ترجمان پی آئی اے نے سما نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے میں گھوسٹ ملازمین اور جعلی ڈگری والوں کی بھرتیاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دور میں ہوئیں، یعنی گھوسٹ ملازمین کی زیادہ تر غلطیاں گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں ہوئی،دوہزار سات آٹھ سے گھوسٹ ملازمین کو رکھا گیا اور دوہزار سترہ تک ایسا چلتا رہا،اس طرح مجموعی طور پر اربوں روپے تنخواہیں گھوسٹ ملازمین کو ملتی رہیں۔ عبدالحفیظ نے بتایا کہ پی آئی اے میں ووٹ بینک بڑھانے کیلئے گھوسٹ ملازمین رکھے جاتے تھے،جو صرف ہرماہ تنخواہ لینے آتے تھے،بہت سے ملازمین کبھی آئے ہی نہیں،آہستہ آہستہ جب مزید انکوائری کی ،ایک ایک ملازم کو ٹارگٹ کیا، ٹیکنالوجی لے کر آئے بائیو میٹرک سسٹم آیا،انٹری کی جانے لگی تب جا کریہ گھوسٹ ملازمین سامنے آئے،گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کرنا مشکل تھا، کیونکہ ان کے تمام ڈاکیومنٹس مکمل ہوتے تھے، شناختی کارڈ کی کاپی بھی لگی ہوتی تھی،تنخواہیں بھی خود لے کر جایا کرتےتھے۔ عبدالحفیظ نے مزید بتایا کہ بہت سارے ملازمین ایسے بھی تھے جنہوں نے دس سال بارہ سال کام ہی نہیں کیا، لیکن جب بائیو میٹرک ہوا تو وہ فوراً سے پہلے حاضر ہوئے، پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ ان افراد کو تو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا،جس سے سارے گھوسٹ ملازمین بے نقاب ہوگئے،پی آئی اے میں فی طیارہ ملازمین کی تعداد بین الاقوامی تناسب کے برابر آگئی ہے۔ واضح رہے کہ ی آئی اے سے ایک ہزار گھوسٹ ملازمین، جعلی ڈگری والے 837 اور کرپشن سمیت نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر 1100 ملازمین فارغ کردیئے گئے،سال 2017 میں پی آئی اے کی فی طیارہ ملازمین کی تعداد 550 تھی جو کم ہوکر اب 260 پر آگئی۔ ترجمان پی آئی اے نے بتایا کہ سال 2022 میں مزید طیاروں کی پی آئی اے کے بیڑے میں آمد سے ملازمین کی فی طیارہ شرح 220 پر آجائے گی،ملازمین کی تعداد میں کمی رضاکارانہ علیحدگی اسکیم، جعلی ڈگری اور کرپشن سمیت نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والے ملازمین کی برطرفی سے ہوئی۔ ترجمان نے بتایا کہ 1900 ملازمین نے رضاکارانہ علحیدگی اسکیم سے استفادہ حاصل کیا، ایک ہزار کے قریب فرضی ملازمین موجودہ انتظامیہ نے برطرف کئے جبکہ 837 ملازمین جعلی ڈگریوں کی وجہ سے برطرف ہوئے، 1100 ملازمین کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کی وجہ کارروائی کی گئی،ملازمین کی تعداد کم کرنے سے پی آئی اے کو سالانہ 8 ارب روپے کی بچت بھی ہوگی۔
پولیس مری سے لوگوں کو واپس بھیج رہی تھی، کسی نے نہیں سنی، رابی پیرزادہ سانحہ مری پر ہر دل اداس اور ہر آنکھ اشکبار ہے، ایسے میں آرٹسٹ رابی پیرزادہ نے بھی آنکھوں دیکھا حال بتادیا، سما نیوز سے گفتگو میں رابی پیرزادہ نے بتایا کہ ان کا گھر مری میں ہے اور وہ اکثر وہاں جاتی ہیں، سانحے سےدو روز قبل بھی انہوں نے مری کی دلخراش ویڈیوز شیئر کی تھیں۔ رابی پیرزادہ نے کہا کہ پولیس لوگوں سے کہہ رہی تھی آپ واپس چلے جائیں آپکے ساتھ بچے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا تھا،میں نے پولیس کی التجا ریکارڈ بھی کی لیکن لوگ کھیلے جارہے تھے، کوئی ہولناکی پر توجہ نہیں دے رہاتھا۔ رابی پیرزادہ نے واضح کیا کہ موٹروے ، ہائی اور مری کی پولیس نے بہت کام کیا، میں چسم دید گواہ ہوں، وہ بہت محترم انداز میں عوام کو سمجھا رہے تھے، لیکن لوگوں کا رویہ بہت غلط تھا، وہ کہہ رہے تھے ہم کراچی،حیدرآباد اور دیگر شہروں سے آئے ہیں تو کیا بچوں کو مری دکھائے بغیر چلے جائیں۔ رابی پیرزادہ نے بتایا کہ ان کے ملازم نے انہیں بتایا کہ مری میں لوٹ مار چل رہی ہے، کرائے پچاس پچاس ہزار لئے جارہے ہیں، انڈا پانچ سو روپے کا دیا جارہاہے، لوگوں کا برا حال ہورہاہے،مری میں لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ مجبور ہیں تو جس حد تک ہوسکے ہم ان سے فائدہ اٹھاسکیں،کیونکہ یہ سیزن چل رہا ہوتا ہے۔ رابی پیرزادہ نے بتایا کہ یہ ہی وجہ ہے کہ جس جگہ کا کرایہ سات آٹھ ہزار تھا وہ تیس سے پچاس ہزار تک پہنچ گیا،کھانا تک مہنگا ہوگیا تھا،مری کا نظا، بہتر ہے جبکہ انتظامیہ کا رویہ بھی مثبت ہے، لیکن مری میں ایسے سائن بورڈز کی ضرورت ہے جس سے آگاہی دی جائے کہ برف میں گاڑی میں نہیں رک سکتے یا تو گیس سے مرجائیں گے یاسردی سے۔ دو روز قبل رابی پیرزادہ نے ایک ویڈیو میں بتایا تھا کہ برفباری میں لوگوں کو اموات کے دن تک سیاحتی مقام مری میں ہوٹل کا کرایہ 30 سے 50 ہزار روپے تھا جب کہ ایک انڈہ 500 روپے تک فروخت کیا جا رہا تھا۔ رابی پیرزادہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں مری کی دلخراش ویڈیوز شیئر کرنے سمیت وہاں کے مقامی لوگوں کے رویے بے نقاب کئے تھے،ویڈیو میں ٹریفک پولیس اہلکار مری میں حد سے زیادہ گاڑیاں داخل ہونے پر لوگوں کو وہاں سے نکل جانے کی منتیں کررہے تھے لیکن کسی نے نہیں سنی۔
وفاقی کابینہ نے وزرا کی دیگر ممالک کے پاکستان میں موجود سفیروں سے بلااجازت ملاقاتوں پر پابندی لگا دی ہے، یہی نہیں وزرا کی غیر ملکی سفراء سے ملاقات کو دفتر خارجہ کے قوائد ضوابط پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنانے کی بھی ہدایت کردی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دفتر خارجہ کے قوائد ضوابط کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بہت سے وفاقی وزرا نہ صرف دفتر خارجہ کے علم میں لائے بغیر غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں بلکہ ان کے نمائندگان سفارتی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں جو ملکی خارجہ پالیسی کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ وفاقی کابینہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی اور دفتر خارجہ کے قوائد و ضوابط کے مطابق تمام وزرا غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتوں اور سفارتی تقریبات میں شرکت سے قبل آگاہ کرنے اور ان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات سے متعلق ہدایات لینے کے پابند ہیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ایسی ملاقاتوں سے متعلق پیشگی اطلاع دی جانا لازمی ہے کیونکہ تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات کی نوعیت مختلف ہے، ان ملاقاتوں کو دفتر خارجہ کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ وفاقی کابینہ نے معاملے کی نشاندہی کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزرا کو سخت ہدایات جاری کیں اور غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی، وزارت خارجہ کو وفاقی وزرا کی سفیروں سے ملاقاتوں سے متعلق اپنے قوائد و ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنائے کی سخت احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔
پاکستانی سیاست کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطوں میں بڑی پیشرفت،ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہوں تو اِن ہاؤس تبدیلی مشکل نہیں، تبدیلی کیلئے پلان ترتیب دینے کی ہدایت جاری کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے اپنی جماعت کو ان ہاؤس تبدیلی کاگرین سگنل دے دیا۔ انِ ‏ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے ن لیگ کے اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم نے عمران خان کو غیرآئینی طریقے سے ہٹانے کا کبھی نہیں کہا، ہم آئینی طریقہ اپنانےکےحامی ہیں جو ان ہاؤس ‏تبدیلی ہے۔ لیگی رہنماؤں کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک ہوں تو انِ ہاؤس تبدیلی میں مشکل درپیش نہیں ہو گی، دونوں پارٹیوں میں اس ‏وقت نئی حکومت کی مدت پر بات چیت جاری ہے امیدہے آئندہ انتخابات کے معاملے پر بھی اتفاق رائے جلد ہو ‏گا۔ واضح رہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان پسِ پردہ ابطوں کا سلسلے جاری ہے جس میں مسلم لیگ ن کی جانب سے پی پی پی کے ساتھ اہم ‏سیاسی امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اپنے دورمیں اوسطاً سالانہ 9.174ارب ڈالر سود اور قرضے کی مد میں ادا کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے 5سالہ دور اقتدار میں اوسطاً سالانہ 5.414ارب ڈالر سود اور قرضے کی مد میں ادا کئے۔ تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے اگست 2018 سے گزشتہ برس اکتوبر تک 38.8 ارب ڈالر غیر ملکی قرضہ لیا جبکہ اسی عرصہ کے دوران موجودہ حکومت نے 29.815ارب ڈالر غیر ملکی قرضے واپس بھی کیے۔ دستاویز کے مطابق اگست 2018سے اکتوبر2021تک 39مہینوں میں وفاقی حکومت نے 29.815ارب ڈالر اصل زر اور سود کی مد میں(اوسطاً9.174ارب ڈالر سالانہ) ادائیگیاں کیں۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ جولائی2013 سے جون 2018تک 5سال کے دوران مسلم لیگ (ن) نے 49.762ارب ڈالر غیر ملکی قرضے لئے جبکہ پانچ سالوں میں 27.071ارب ڈالر غیر ملکی قرضہ واپس کیا۔ جب کہ پانچ سالوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 22.691ارب ڈالر خالص قرضہ حاصل کیا۔
مری میں ہونے والی حالیہ برفباری میں جہاں متعدد افراد گاڑیوں میں بیٹھے ہی لقمہ اجل بن گئے وہیں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس میں ایک بچی کو برف میں دب جانے کے بعد کافی کوششوں کے بعد زندہ نکال لیا گیا ہے۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے پر اپوزیشن اور حکومت مخالف حلقوں کو حکومتی نااہلی اور بدانتظامی و بے حسی پر ایک بار پھر سے کھل کر بولنے کا موقع مل گیا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ویڈیو مری کی نہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کے یہ پاکستان ہی کی نہیں ہے۔ مذکورہ ویڈیو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے علاقے کی ہے جہاں شدید برفباری کے باعث ایک بچی کئی گھنٹے تک بے سدھ بے یارومددگار برف میں دبی رہی جسے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت برف سے نکال لیا تھا۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس واقعے کو رپورٹ کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ یہ ویڈیو جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی ہے۔ اس ویڈیو کو نجی میڈیا ہاؤس جیو و دیگر چینلز کی جانب سے بھی رپورٹ کیا گیا جو کہ حقیقت نہیں ہے جیو نے اس پر کہا کہ مقامی رضاکاروں کو برف کے کئی فٹ نیچے دھنسی ایک لڑکی ملی جسے انہوں نے زندہ نکال لیا۔ اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پہلے لڑکی کا دوپٹا نکالا گیا اور پھر برف ہٹا کر خوش قسمت لڑکی کو باہر نکالا گیا۔ بلکہ اس کو بنیاد بنا کر کچھ حکومت کے سخت ناقد صحافی اور لیگی رہنما بھی حکومت کے خلاف بات کر رہے ہیں۔
سانحہ مری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ یہ جو سانحہ تھا اس سے بھی بڑا حادثہ یہ ہوا ہے کہ لوگ اتنا سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی رکے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری اب ان پر ہے جو اسے ٹھیک کرنے جا رہے ہیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ بنیادی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے اتنےسالوں سے ادارے بنے ہوئے ہیں، ان کو مشینری اور دیگر سہولیات دی گئیں ہیں۔ مگر کوئی کام نہیں کرتا، میزبان نے کہا کہ یہ ادارے بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں اور پھر فوج کو بلا لیا جاتا ہے۔ میزبان عمران ریاض کے اس اعتراض پر مظہر عباس نے کہاکہ یہ کوئی عجیب یا نئی بات نہیں ہے دنیا بھر میں جب کوئی ایمرجنسی صورتحال ہوتی ہے تو فوج کو ہی بلایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اموات طوفان سے نہیں بلکہ بدانتظامی اور بدنظمی سے ہوئی ہیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ سب سے پہلے تو حکومت پنجاب کو اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور پھر مری کی انتظامیہ کو تبدیل کر دینا چاہیے جن کی نااہلی سے یہ سب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب کہا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ گاڑیاں وہاں چلی گئیں حالانکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے وہاں پہنچنے پر تو حکومت خوش ہو رہی تھی۔ مظہر عباس نے کہا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ بغلیں بجا رہے تھے کہ دیکھیں اتنی مالی خوشحالی ہے لوگوں میں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ سیاحت کیلئے مری پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال پر شہریوں کو خبردار کرنے کی بجائے اس پر جشن منایا جا رہا تھا۔
نجی خبر رساں چینل سماء نیوز کے مطابق لاہور کے میو اسپتال میں لگنے والی آگ لگی نہیں تھی بلکہ لگائی گئی تھی اور اس آتشزدگی کے واقعہ میں مبینہ طور پر اسپتال کے ملازمین ہی ملوث ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح میواسپتال کے ریکارڈ روم میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس میں کوئی جانی نقصان یا کسی مریض کو تو پریشانی نہیں ہوئی البتہ اس واقعہ میں اسپتال کا اہم ریکارڈ جل کا خاکستر ہو گیا ہے۔ آگ لگنے کے واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی ہے جس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ صبح 10 بج کر 32 منٹ پر اسپتال کے 2 ملازمین وارڈ بوائے ذیشان اور ذوالفقار ریکارڈ روم میں داخل ہوئے اور مبینہ طور پر آگ لگا کر باہر نکل آئے۔ اس آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے ریکارڈ روم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جلد ہی کھڑکیوں اور روشندانوں سے سیاہ دھویں کے بادل اٹھنے لگے۔ اسپتال کی تیسری منزل پر دھواں ہونے کے باعث مریضوں کو دوسرے وارڈز میں منتقل کیا گیا اور افراتفری کی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فائربریگیڈ کے عملے نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا مگر اہم ریکارڈ جل گیا، ادھر ایم ایس میواسپتال کے مطابق مبینہ طور پر آگ لگانے والے دونوں ملازمین کے خلاف کرپشن کی انکوائری چل رہی ہے۔ ایم ایس نے بتایا کہ اسپتال انتظامیہ نےدونوں ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کے لیے تھانے میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ جبکہ تحقیقات پر مبنی ابتدائی رپورٹ صوبائی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی پیش کردی ہے۔
جنوبی افریقہ کےسینٹرل کانٹریکٹ رکھنے والے کھلاڑیوں کو پاکستان سپر لیگ کھیلنے کیلئے این او سی جاری نہیں کیا گیا، یہ وہی کھلاڑی ہیں جنہیں پاکستان سے سیریز کے دوران انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے ساتویں سیزن کیلئے جنوبی افریقہ کے سینٹرل کانٹریکٹ رکنے والا کوئی ایک بھی کھلاڑی ڈرافٹ میں شامل نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ ان کھلاڑیوں کو بورڈ کی جانب سے این او سی نہ جاری کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے دائریکٹر اور سابق کپتان گریم سمتھ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ سینٹرل کانٹریکٹ رکھنے والے کھلاڑیوں کی انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک مصروفیات پہلی ترجیح ہیں اسی لیے کھلاڑیوں کو پی ایس ایل کیلئے این او سی جاری نہیں کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھلاڑیوں کیلئے آئندہ آنے والے دوروں سمیت بین الاقوامی مقابلوں کیلئے دستیاب اور فٹ ہونا ضروری ہے، تاہم ڈومیسٹک فرنچائز کرکٹ لیگز کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اسی لیے مستقبل میں اگر کسی لیگ میں شرکت کا وقت آیا اور کھلاڑی بین الاقوامی یا ڈومیسٹک مصروفیات سے فارغ ہوئے انہیں بخوشی این او سی جاری کیے جائیں گے۔ یادرہے کہ اسی کرکٹ ساؤتھ افریقہ نے اپنی ٹیم کے سینٹرل کانٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کو اس وقت انڈین پریمئر لیگ کھیلنے کی اجازت دی تھی جب جنوبی افریقہ اور پاکستان کے درمیان سیریز جاری تھی۔ دوسری جانب 12 دسمبر کو پی ایس ایل سیزن 7 کے ڈرافٹ میں جنوبی افریقہ کے کھلاڑی رئیلی روسو، عمران طاہر اور مرچنٹ ڈی لینگے شامل کیے گئے تھے کیونکہ یہ کھلاڑی جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کا سینٹرل کانٹریکٹ نہیں رکھتے لہذا ان کو بورڈ کے این او سی کی ضرورت نہیں تھی۔
مری ہوٹل ایسوسی ایشن نے برفانی طوفان میں گاڑیوں میں پھنسے افراد کی ہلاکت کے معاملے پر انتظامیہ کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ خبررساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مری ہوٹل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری راجہ یاسر نے دعویٰ کیا کہ جس وقت مری میں شدید برفباری شروع ہوئی اس وقت انتظامیہ کے اہلکار اپنی سیلفیز بنانے میں مصروف تھے، بہتر منصوبہ بندی کی جاتی تو خراب موسم کے باوجود لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ راجا یاسر نے مری واقعہ کو مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ جس وقت مری کو سیاحوں کیلئے بند کیے جانے کا اعلان کیا گیا اس وقت لوگ آدھے راستوں سے واپس چلے گئے حالانکہ اس وقت مری کے آدھے سے زیادہ ہوٹل خالی پڑے تھے۔ واضح رہے کہ برفباری کا موسم شروع ہوتے ہی ملک بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے مری کا رخ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے مری میں سیاحوں اور مری کی طرف جانے والی سڑکوں پر گاڑیوں کا شدید دباؤ پیدا ہوگیا تھا، گزشتہ رات ایسی ہی صورتحال میں شدید برفانی طوفان آیا جس میں سڑکوں پر موجود گاڑیاں پھنس گئی ، اندر موجود لوگوں نے سردی سے بچنے کیلئے ہیٹرز آن کیے جس کے باعث اب تک 21 افراد کے دم گھٹنے سے اموات کی اطلاعات ہیں۔ واقعہ کے بعد سول و ملٹری ریسکیو ٹیموں نے فوری طور پر برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے، پنجاب حکومت نے تمام سرکاری ہوٹلز اور ریسٹ ہاؤسز عوام کیلئے کھول دیئے ہیں ، تاہم اب تک بھی سینکڑوں گاڑیاں برف میں پھنسی ہوئی ہیں جنہیں نکالنے کیلئے ریسکیو کا عمل جاری ہے۔

Back
Top