خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے لوگوں کو ہراساں کرتا ہے، تفتیش کے نام پر جال بچھاتا ہے کہ کتنی مچھلیاں آئیں گی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اقلیتوں کے حقوق اور متروکہ وقف املاک سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی، چیف جسٹس گلزار احمد نے متروک وقف املاک اور ایف آئی اے حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایف آئی اے لوگوں کو ہراساں نا کرے، لوگوں کو ایف آئی اے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مجھے اٹھا کر لے جائیں گے، ایف آئی اے تفتیش کے نام پر جال بچھا دیتا ہے کہ کتنی مچھلیاں بیچ میں آئیں گی، پورا ملک ان حرکات کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ پیٹرن انچیف ہندوکونسل نے دوران سماعت کہا کہ فضل ٹائون کراچی میں دھرم شالا کی زمین پر کمرشل پلازا بنایا جا رہا ہے،جس پر چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ نے بتایا کہ دھرم شالہ قدیم تھا اور زمین متروکہ وقف کی ہے، اس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں۔ چیف جسٹس استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس طرح تمام پرانی عمارتیں گرانے کا حکم دے دیں؟1932میں قائم دھرم شالا آپ اصل حالت میں محفوظ نہیں کر سکے، چیئرمین صاحب آپ اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایف آئی حکام سے استفسار کیا کہ لاہور کے جین مندر اور نیلا گنبد پر کیا کارروائی کی ہے؟ ایف آئی اے لوگوں کو ہراساں نہ کرے، لوگوں کو ایف آئی اے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ انہیں اٹھا کر لے جائیں گے۔ اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے دوران سماعت کہا کہ کے پی کے کے سرکاری اسپتالوں میں اقلیتوں کے لیے کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کے پی کے کو پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی خیبرپختونخوا کے سرکاری اسپتالوں کا دورہ کیا ہے؟جس پر چیف سیکرٹری کے پی نے کہا کہ انہیں دفتر جوائن کیے کچھ عرصہ ہوا ہے،ایک اسپتال کا دورہ کیا جس میں تمام طبی سہولیات موجود تھیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کے لیے تو ہر جگہ سہولتیں موجود ہیں، لیکن اسپتالوں میں عام شہریوں کے لیے کوئی سہولت نہیں، مجھے خطرہ ہے کہ جلد خیبرپختونخواکے اسپتال فائیو اسٹار ہوٹل بن جائیں گے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کو صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں کی حالت زار پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ کےلیے ملتوی کردی۔
سانحہ مری کے حوالے سے دو روز قبل ایک عشائیہ میں ارکین قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعلی عثمان بزدار پرسخت سوالات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ خبررساں ادارے اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں 12 جنوری کی رات میں پنجاب حکومت کی جانب سے تحریک انصاف حکومت کے اراکین قومی اسمبلی کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا جس میں وزیراعلی عثمان بزدار نے بھی خصوصی شرکت کی۔ رپورٹ کے مطابق اس عشائیہ میں چند اراکین نے وزیراعلی سے سانحہ مری کے حوالے سے سخت سوالات کیے اور موقف اپنایا کہ سانحہ مری میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، مگر حکومت کی جانب سے کوئی فوری ایکشن نہیں لیا گیا، ذمہ داران کے خلاف فوری طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔ اراکین اسمبلی نے وزیراعلی سے کہا کہ اور کچھ نہیں تو ایک دو کو ہتھکڑیاں لگادیتے پھر بھی سمجھ لیتے کہ کچھ ہوا ہے، ذمہ داران کے خلاف واقعہ کے پہلے روز ہی ایکشن ہونا چاہیے تھا۔ وزیراعلی عثمان بزدار نے اراکین اسمبلی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس واقعہ پر کمیٹی قائم کردی ہے جو انکوائری کررہی ہے، انکوائری کے بعد کارروائی ہوگی، ذمہ داروں کو ہتھکڑیاں لگائیں گے۔ وزیراعلی کے جواب پر ایک رکن قومی اسمبلی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹیاں تو معاملے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔یادرہے کہ مری میں گزشتہ ہفتے برف کے طوفان کے نتیجے میں سیاحوں کی گاڑیاں پھنسنے اور شدید ٹھنڈ کے باعث 22 لوگوں کی ہلاکتوں کا سانحہ رونما ہوا تھا جس کے بعد پنجاب حکومت نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے آپریشنل عملے، ریسکیو 1122 اور محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں ، تاہم مزید تحقیقات جاری ہیں۔
ملک بھر میں کورونا کا زور تیزی پکڑنے لگا، شہرقائد میں بھی کورونا نے پنجے گاڑھنے شروع کردیے ہیں، جہاں مثبت کیسز کی شرح پینتیس فیصد سے تجاوز کرگئی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شہر قائد میں کورونا مثبت کیسز کی شرح 35.30 فیصد ریکارڈ کی گئی،کراچی میں گزشتہ روز 8063 ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 2846 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی۔ گذ شتہ صرف ایک روز میں آنیوالے کورونا کیسز میں 24 میں سے 23 کیسز میں اومی کرون کی تصدیق ہوئی،کراچی میں اومی کرون کیسز کی مجموعی تعداد 430 ہوچکی ہے،دوسری جانب کورونا کے بڑھتے کیسز پر سندھ ٹاسک فورس اجلاس میں اہم فیصلے کرلئے گئے ہیں۔ اجلاس میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا، اسپتالوں کاسروے بھی کیاجائےگا،شادی کی تقریبات میں کھاناباکس میں دینے کی ہدایت کردی گئی، مارکیٹس میں صرف ویکسی نیٹڈافراد کوداخلہ ملے گا، اجلاس میں سندھ میں تعلیمی ادارے کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں مزید فیصلہ کیا گیا کہ شادی کی تقریبات میں کھانا باکس میں دیئے جائیں گے،مارکیٹس میں ویکسی نیٹڈ افراد کو داخلے کی اجازت ہوگی،ماسک نہ پہننے پر سرکاری افسران کو جرمانہ ہوگا،ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کی تجویز دی گئی ہے،کراچی میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے حوالے سے کمشنر کراچی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وبا کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق متعدد فیصلے کیے گئے۔ ترجمان کمشنر کے مطابق اجلاس میں شادی ہالز میں کورونا ایس او پیز مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 1000 سے زائد مہمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی، بازاروں، ہوٹلوں اور شاپنگ مالز میں ماسک کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا،اسکولوں میں 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کی ویکسی نشن مکمل کرنے کا فیصلہ بھی ہوا اور کہا گیا کہ تعاون نہ کرنے والے اسکولوں کو بند کر دیا جائے گا۔ ملک میں کورونا مثبت کیسز کی شرح آٹھ اعشاریہ ایک چھ فیصد ہوگئی، چار مریض جان سے گئے،چار ہزار دو سو چھیاسی مریضوں میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔
ٹی20ورلڈکپ:بھارت کوشکست دینے پر قومی کھلاڑیوں پر فی کس 15لاکھ کا انعام ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پاکستان کے نام تو نہیں رہا لیکن بھارت کو بدترین شکست دے کر کھلاڑیوں نے سیریز میں شائقین کرکٹ کو بہت بڑی خوشی سے نوازا، یہ ہی وجہ ہے کہ ٹی20 ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں رسائی اور بھارت کو شکست دینے والی ٹیم کے اعزاز میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین پی سی بی رمیز راجا نے کھلاڑیوں کو فی کس 15 لاکھ روپے کا انعام دیا،ریزرو کھلاڑیوں کو ساڑھے 4 لاکھ روپے کے کیش پرائز دیئے گئے۔ نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں عشائیہ سے قبل چئیرمین پی سی بی رمیز راجا نے کھلاڑیوں سے ملاقات کی اور اہم مشورے بھی دئیے، انہوں نے کہا کہ ٹیم پر فخر ہےاور مزید بہتری کی ضرورت ہے،بہترین کارکردگی سے ٹیم نمبر ون بن سکتی ہے۔ قومی ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑی نوجوان ہیں اور ہمارا مستقبل بھی نوجوانوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ چیئرمین پی سی بی نے تقریب میں ہر کھلاڑی کو اسٹیج پر بلایا اور تبادلہ خیال کیا، انہوں نے کہا کہ آپ سب لوگوں نے میرے ہوتے گھبرانا نہیں ہے، گراس روٹ لیول پر زیادہ تر توجہ دے رہے ہیں تاکہ اچھا ٹیلنٹ سامنے آسکے۔ رمیز راجا نے کپتان بابراعظم سے سوال کیا کہ آپ نے ورلڈکپ جیسے میجر ٹورنامنٹ میں کپتانی کی ہے نروس تو نہیں ہوئے،کیسے لے کر چلتے رہے ٹیم کو؟ جس پر بابر نے کہا کہ ٹیم نے فیملی کیطرح ساتھ دیا ٹورنامنٹ میں محسوس نہیں ہوا کہ ورلڈ کپ میں کپتانی کررہے ہیں۔ چیئرمین پی سی بی نے پوچھا بابر آپ کے لئے ورلڈکپ کا سب سے یادگار لمحہ کیا تھا؟ جس پر قومی ٹیم کے کپتان نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ بھارت کو ورلڈ کپ میں شکست دوں اور بھارت کو شکست دینا میرے لئے یادگار لمحہ تھا۔ رمیز راجا نے نے شاہین آفریدی سے سوال کیا کہ آپ ہمارے سپر سٹار ہیں آپکی پرفارمنس بہترین ہے امید کرتا ہوں آئندہ آپکی پرفارمنس سے پاکستان میچز جیتتا رہے گا۔ رمیز راجا نے کہا کہ یہ کیش پرائز آپکی محنتوں کے نتیجے میں کم ہے لیکن پھر بھی یہ حوصلہ افزائی کرنا چاہتا تھا امید کرتا ہوں آپ آئندہ سیریز اور پی ایس ایل میں بہترین پرفارمنس دینگے۔ عشایئے کی تقریب میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، سرفراز احمد،عماد وسیم، شاہنواز دھانی، ساجد خان،عابد علی،ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور چیف سلیکٹر محمد وسیم سمیت دیگر نے شرکت کی،حسن علی، شاداب خان اور محمد حفیظ کراچی میں نجی مصروفیت کے سبب شریک نہیں ہوسکے۔
‏اپوزیشن سے قومی سلامتی پالیسی پر اتفاق رائےکی ضرورت نہیں،معید یوسف مشیر قومی سلامتی امور معیدیوسف کا کہنا ہے کہ پالیسی پر سول اورملٹری اتفاق رائے موجود ہے لیکن اپوزیشن ‏سے قومی سلامتی پالیسی پر اتفاق رائےکی ضرورت نہیں، اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ‏‏5سال کیلئے ہے ایک سال میں ساری چیزیں پوری نہیں ہوتیں،خطےکی صورتحال بھی بدلتی رہتی ہے قومی سلامتی ‏پالیسی پرہرسال نظرثانی کی جائےگی۔ پروگرام میں انہوں نے مزید بتایا کہ نئی آنے والی حکومت پالیسی میں تبدیلی کرسکتی ہے قومی سلامتی پالیسی پر تمام اسٹیک ‏ہولڈرز کو اعتمادمیں لیا گیا قومی سلامتی پالیسی پرسیاست یاتنقید نہیں کرنی چاہئے اگر کوئی بھی تجویز دینا ‏چاہتا ہےتو دے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی کا مقصد قومی سیکیورٹی سےجڑے مسائل کو حل کرنا ہے، اس پالیسی کے تحت قومی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کی جائے گی،انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بات طے ہے کہ حکومتی رٹ کوچیلنج نہیں ہونے دینا کسی سے مذاکرات کی ضرورت ‏ہوگی تومذاکرات ہوں گے۔ اے آر وائی کے پروگرام میں معید یوسف نے مزید واضح کیا کہ پالیسی پر سول اورملٹری اتفاق رائے موجود ہے لیکن اپوزیشن سے قومی سلامتی ‏پالیسی پر اتفاق رائےکی ضرورت نہیں اپوزیشن کوقومی سلامتی پالیسی پرمذاکرات کی دعوت دی تھی۔
کیا "نیاپاکستان صحت کارڈ" سے علاج کرانا مشکل ہے؟ جانیئے مریض کے لواحقین کی ایکسکلوزو آپ بیتی لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے اپنی مریضہ بچی سیدہ ہادیہ فاطمہ کا نجی ادارے فاروق اسپتال سے گردوں کا علاج (ڈائیلسز) کرایا۔ انہوں نے اس مہنگے علاج کی سہولت "نیاپاکستان صحت کارڈ" سے حاصل کی۔ سیاست ڈاٹ پی کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں بچی کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے محض شناختی کارڈ دیا اور بہت جلد ان کی بچی کا علاج ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں انہیں کسی قسم کے مسئلے یا لمبی لائن میں لگ کر انتظار نہیں کرنا پڑا بلکہ بہت جلد بلامعاوضہ اسٹیٹ آف دی آرٹ علاج کی سہولیات ملیں۔ نیاپاکستان صحت کارڈ موجودہ حکومت کا فلاحی ریاست کی جانب ایک اہم قدم ہے جس کے تحت ہر خاندان 10 لاکھ روپے تک کا مفت علاج منتخب نجی اسپتالوں سے کرا سکتا ہے۔ صحت کارڈ حکومتِ پاکستان کا ایسا اقدام ہے جو کم آمدنی والے افراد کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ یہ کارڈ اِس وقت خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور سندھ میں تھرپارکر کے شہریوں کے لئے صحت سہولت پروگرام کے تحت فراہم کیا جا رہا ہے۔ قومی صحت کارڈ آپ کو حکومتِ پاکستان سے منتخب شدہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے اہل بناتا ہے۔ آپ بنیادی صحت کی مختلف سہولیات یا حادثے اور طبی ایمرجنسی کی صورت میں قومی صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کروا سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ ذیابیطس، گردوں کی بیماریوں، ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی، امراض قلب اور ہر طرح کے کینسر کی صورت میں علاج کی مفت سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔ صحت کارڈ کے لئے وہ تمام پاکستانی شہری اہل ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، یہ کارڈ اِس وقت بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام / کفالت پروگرام میں شامل افراد کو فراہم کئے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا، بشمول سابق فاٹا سے ضم ہوئے اضلاع کے تمام رہائشی اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے واے افراد جن کا نادرہ کے ریکاڈ کے مطابق مستقل پتہ خیبر پختونخوا، پنجاب یا آزاد کشمیر کا ہے، آمدنی کی حیثیت سے قطع نظر قومی صحت کارڈ کے تحت دی جانے والی سہولیات کے اہل ہیں۔ اِس وقت ساہیوال اور ڈی جی خان کے 7 اضلاع اور لاہور ڈویژن کی آبادی صحت کارڈ کے لئے اہل ہے، جبکہ باقی 29 اضلاع میں غریب لوگ (بی آئی ایس پی/احساس کفالت پروگرام سروے کے مطابق)، معذور افراد اور خواجہ سرا کمیونٹی جو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ اہل ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے 31 مارچ تک اِس پروگرام میں پنجاب کے تمام شہریوں کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان فی الوقت صحت سہولت پروگرام کا دائرہ کار مزید بڑھانے پہ کام کررہی ہے۔ قومی صحت کارڈ مفت طبی سہولیات مہیا کرتا ہے جس میں سے کچھ درج ذیل شامل ہیں: ہسپتال میں بخار، فلو جیسی عام بیماریوں کے مفت علاج تک رسائی۔ حادثات میں زخمی ہونے والے افراد کے لئے علاج۔ ذیابیطس، امراض قلب، ٹی بی، ہیپاٹائٹس، کینسر، جیسے امراض کا مفت علاج۔ کورونا وائرس میں مبتلا لوگوں کے لئے علاج۔ حاملہ خواتین کے لئے صحت کی سہولیات۔ یاد رہے کہ صحت کارڈ ہولڈر سالانہ 7لاکھ20ہزار روپے تک کا علاج کروا سکتا/ سکتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر اِس رقم میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کارڈ ہولڈر یا اِس کے اہل خانہ کو کسی بڑی بیماری کا سامنا ہو تو انشورنس کی رقم ختم ہونے کی وجہ سے اِس علاج کو بند نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حکومت ہر سال فی خاندان مزید 3لاکھ 60ہزار روپے فراہم کرتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر علاج کے دوران مریض جاں بحق ہو جائے تو بھی تدفین کے لئے اہل خانہ کو 10ہزار روپے فراہم کئے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ چھوٹی اور عام چیزیں جو حکومت کو کرنی چاہیے وہ نہیں کررہی جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ پڑرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد میں سابق جسٹس شبر رضا زیدی کی کتاب کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں دیگر مہمانوں کے ہمراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ عوام کو مشکل حالات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، حکومت بنیادی ضروریات اور ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی اسی وجہ سے عدالتوں میں دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تقریب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج آصف سعید کھوسہ نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین نیب کی تعیناتی کرتے ہیں، یہ دونوں فریق ایک دوسرے پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہیں ایسی صورتحال میں ان کی تعیناتیوں پر عوام کا اعتماد کیسے قائم ہوگا اور جب تک ملک میں شفافیت اور احتساب نہیں ہوگا کوئی بھی حکومت سکون سے چل نہیں سکے گی۔ آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اپوزیشن ہر دور میں حکومت پر کرپشن کےالزامات لگاتی ہے، جب یہی اپوزیشن حکومت میں آتی ہےتو ان پر بھی وہی الزامات لگتے ہیں، کسی سیاستدان کے خلاف کیس ہو تو پوری جماعت دفاع کرتی ہے، ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ برادری کے ساتھ وفاداری اور میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے کہا تھا 'کسی ادارے کا دباؤ قبول نہیں ' ۔
سینئر تجزیہ کار اور صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے اعتراض اٹھایا کہ صحت کارڈ کے ذریعے جو علاج عام اسپتالوں میں کم پیسوں میں ہو سکتا ہے وہی مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں لاکھوں روپے میں ہوگا۔ اس پر اظہر مشوانی نے جواب دیتے ہوئے اسے پراپیگنڈہ قرار دیا اور ساتھ میں وضاحت بھی دے دی۔ تفصیلات کے مطابق رؤف کلاسرا نے ایک شخص یاسر ارشاد کی فیس بک پوسٹ شیئر کی جو کہ پیشہ ور ماہر امراض قلب ہیں، انہوں نے لکھا کہ جو علاج لاہور کے ڈاکٹرز اسپتال میں صحت کارڈ کے ذریعے 7 لاکھ روپے میں ہو رہا ہے وہ بہاولپور میں ان کے اسپتال میں محض 20 ہزار روپے میں ہو سکتا ہے۔ اس پر رؤف کلاسرا نے کہا کہ صحت کارڈ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ صحت کارڈ سے پرائیوئٹ ہسپتال اربوں کمائیں گے،انشورنس کمپنیوں کا پیٹ بھرا جائے گا اور سرکاری اسپتال پاس ادویات کے پیسے تک نہیں ہوں گے۔ رؤف کلاسرا کے ٹوئٹ اور اس میں شیئر کی گئی معلومات کو مسترد کرتے ہوئے اظہر مشوانی نے کہا کہ یہ پراپیگنڈہ کافی عرصے سے مختلف کہانیوں کی صورت میں پھیلایا جا رہا ہے جن کا کئی بار تفصیل سے جواب شئیر کیا جا چکا ہے۔ امید ہے آپ اپنے پلیٹ فارم سے حقائق پر مبنی یہ جوابات بھی شئیر کریں گے، کسی بھی علمی مباحثے کے لیے میں حاضر ہوں۔ انہوں نے اس کے ساتھ اٹھنے والے متعدد سوالوں کے تفصیلاً جوابات بھی دیئے جن میں کافی حدتک معاملے کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اظہر مشوانی کی وضاحتی ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے رؤف کلاسرا نے کہا کہ سر جی لوگوں کے اعتراضات کو سننا سمجھنا اور وضاحت کرنا حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ اچھا ہے بحث ہوتی ہے اور مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ ہر بات یا اعتراض کو پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کرنے سے خدشات دور نہیں ہوتے۔ اچھا ہے آپ وضاحت دیتے رہتے ہیں اور ہمیں دونوں اطراف کی بات سننے کو ملتی ہے۔ جس پر اظہر مشوانی نے پھر کہا کہ وہ ہر طرح کی وضاحت اور رہنمائی کیلئے موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے مری کے رہائشی حماد عباسی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ پوری ریاست مری میں ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا اور نا خدشے سے آگاہ کیا، انتظامیہ قصور وار ہے۔ ممبر این ڈی ایم اے پیش ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ان 22 لوگوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے؟ پارلیمنٹ نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون بنایا ہے 2010 سے اس پر عملدرآمد ہونا تھا ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی آج تک کبھی میٹنگ ہوئی ہے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ ایک میٹنگ 21 فروری 2013 کو ہوئی تھی اور دوسری میٹنگ 5 سال بعد 28 مارچ 2018 کو ہوئی۔ چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے ممبر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ میٹنگ ہوتی تیاری ہوتی تو قیمتی جانوں کا نقصان نا ہوتا، آپ ناکام ہوئے ہیں، آپ کی ذمہ داری تھی کہ میٹنگ بلاتے اس علاقے کے لیے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے، آپ نے اس قانون پر عمل درآمد کرانا تھا، اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نا ہوتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، صرف اس قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا، اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نا ہوتا جو کچھ ہوا سب لگے ہوئے ہیں مری کے لوگ اچھے نہیں ان کا کیا قصور ہے؟ بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہا کہ وزیراعظم آج ہی کمیشن کی میٹنگ بلائیں جو ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں ، این ڈی ایم اے نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ، گیارہ سال میں یہ نہیں بتا سکے کہ ڈسٹرکٹ پلان ہے یا نہیں ، کوئی ہوٹل والا روپیہ نہیں لے سکتا تھا جب ڈسٹرکٹ پلان نہ بنا ہوا ہوتا۔ عدالت نے کہا کہ ہم آرڈر کرتے ہیں وزیراعظم آئندہ ہفتے کمیشن کی میٹنگ بلائیں، کمیشن سے متعلقہ قانون پر عمل درآمد نا کرانے والوں کی ذمہ داری مقرر کریں، جو سانحے میں فوت ہوئے ان کے ذمہ داروں کا بھی تعین کیا جائے، خدانخواستہ اگر آپ کے بچے اس سانحے میں ہوتے تو آپ کیا کرتے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا کہ قانون میں واضح لکھا ہے کہ مرکزی صوبائی اور ڈسٹرکٹ لیول پر ذمہ داروں کا تعین موجود ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر این ڈی ایم اے سے کہا کہ پوری ریاست ان ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے، اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست ذمہ دار ہے، اگر نیشنل کمیشن کی میٹنگ 2018 کے بعد نہیں ہوئی تو آپ اس کے ذمہ دار ہیں۔ عدالت نے کہا آج آپ وزیراعظم کو لکھیں کہ وہ نیشنل کمیشن کی آئندہ ہفتے کے لیے میٹنگ بلائیں ، سارے طاقتور اس کمیشن میں موجود ہیں ، چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بھی اس کمیشن کے ممبر ہیں، اس سے اہم معاملہ کچھ ہو سکتا ہے 9 بچوں کا کیا کوئی قصور تھا؟ عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ وزیراعظم نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ بلانے کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، آج تک ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کے قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ میٹنگ کے سامنے رکھیں، میٹنگ میں مری واقعے کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا جائے، سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی۔
روزنامہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران مبینہ آڈیو کا فرانزک تجزیہ کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل سے غیر ملکی مستند فرانزک ایجنسیوں کے نام طلب کر لیے. چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اوریجنل آڈیو کلپ کا معلوم نہیں کہ وہ کہاں موجود ہے؟ درخواستگزار نے کہا کہ اس سے متعلق ہمیں بھی نہیں معلوم، سابق چیف جسٹس پاکستان کی مبینہ آڈیو گفتگو کی انکوائری کرائی جائے کہ وہ درست ہے یا غلط؟ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ معاملے کی انکوائری کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام چیزیں زیرِ التواء اپیل سے متعلق ہیں، جن کی اپیلیں ہیں انہوں نے انکوائری کا مطالبہ نہیں کیا، آپ کی پٹیشن میں الزام ہے کہ اس عدالت کے بینچز کسی دباؤ میں بنائے گئے۔ درخواستگزار نے کہا کہ ان کی پٹیشن میں یہ الزام نہیں یہ الزام رانا شمیم کے بیانِ حلفی میں لگایا گیا ہے۔ عدالت نے کہا تاریخ واقعی تلخ ہے، ججز نے ماضی میں چیزوں کو تسلیم کیا، یہاں معاملہ مختلف ہے، کیا کورٹ کمپرومائزڈ تھی اور بینچ پریشر میں بنایا گیا تھا؟ اس سے متعلق کوئی چھوٹا سا بھی ثبوت ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ انکوائری ہونی چاہیے تو وہ بینچ میں شامل ججز کی ہو گی، بینچ میں شامل ججز کے آرڈر سے کہاں ایسا ثابت ہوتا ہے؟ آرڈر تو اس کے برخلاف آیا۔ درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ میری پٹیشن میں بنیادی استدعا ثاقب نثار کے آڈیو کلپ کی انکوائری سے متعلق ہے، اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری طرف وہ کسی جج سے بات کر رہے ہیں، دیگر حوالہ جات مطمع نظر سمجھانے کے لیے پٹیشن میں شامل کیے۔ یہ مرحلہ نہیں آیا کہ ہم کسی کو قصور وار یا بے قصور قرار دیں، یہ بات قبل از وقت ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جس فرانزک ایجنسی کی رپورٹ آپ بتا رہے ہیں، انٹرنیٹ سے حاصل کی گئی اس رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، پاکستان بار کونسل اور اٹارنی جنرل مستند فرانزک ایجنسی کا نام بتائیں، ان سے اس متعلق رپورٹ لے لیتے ہیں، اگر اس آڈیو کلپ کا فرانزک کرائیں تو اس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزارتِ قانون اس کا خرچہ اٹھا سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل سے غیر ملکی مستند فرانزک ایجنسیوں کے نام طلب کر لیے اور پٹیشنر کو آڈیو کلپ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی۔
ایک سزا یافتہ مجرم کس طرح ملک سے باہر ہے، کیا واقعی ایک بار پھر شریف ڈاکٹرائن کام کرگیا، اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں میزبان ارشد شریف نے ماہر قانون اور سینئر سیاستدان اعتزاز احسن سے گفتگو کی اور ان سے رائے پوچھی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جی نواز شریف نے دوبار اس طرح شریف ڈاکٹرائن کا فائدہ اٹھایا ہے، انکا طریقہ یہ ہے کہ ادارے کو محسوس بھی نہ ہو کہ اسکے گرد کیسے گھیرا ڈالا ہے ، لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب کے ججز یوں ہی بدنام ہو رہے ہیں ، یہ جج کو کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بنا دیتے ہیں ، اب سپریم کورٹ کے جج کو کیا پتا کرکٹ کیا ہوتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جو ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں ان کو دو سال بعد سینیٹ لے جاتے ہیں،ان کو تو جانا نہیں چاہئے خود انکار کردینا چاہئے،اس کا تعلق نہیں ہے مسلم لیگ ن سے،ان کو سینیٹ میں لے جاتے ہیں،سینیٹر بنادیتے ہیں،یہ دکھاتے ہیں کہ ہم بڑے فیاض ہیں،شجاع نواز نے اپنی کتاب میں نواز شریف اور اس وقت کے آرمی جنرل آصف نواز کے حوالے سے انکشافات کئے،اور آج تک نواز حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میزبان نے سوال کیا کہ شریف ڈاکٹرائن میں جنرل پرویز مشرف کا بھی استعمال کیا گیا، اعتزاز احسن نے کہا کہ پرویز مشرف بہت بڑا اقبال جرم کرگئے، آرمی چیف آصف نواز نے تو اپنی زبان سے پیسوں کا اعتراف کیا،یہ اسی طرح ہیں جس طرح ہمارے وزیراعظم،وزیرخارجہ اور داخلہ اقامے رکھتے ہیں،اقامے ضروری نہیں تنخواہ لی جائے،اس سے آپ سوئس اکاؤنٹس کھول سکتے ہیں۔
کراچی:ایک ہفتے قبل شادی کے بندھن میں بندھنے والا شاہ رخ ابدی نیند سو گیا کراچی کے علاقے کشمیر روڈ پر پیش آیا دل دہلادینے والا ہولناک واقعہ،جہاں تین روز قبل ازدواجی زندگی کا آغاز کرنے والا شاہ رخ بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا،نوجوان کو گھر کے کی دہلیز فائرنگ کرکے ابدی نیند سلادیا گیا۔ کراچی کے علاقے کشمیر روڈ پر دو روز قبل شاہ رخ کو ڈکیتی مزاحمت پر ماں اور بہن کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا،شاہ رخ کی والدہ اور بہن اسپتال سے گھر واپس آرہی تھیں کہ موٹر سائیکل سوار پیچھا کرتا گھر تک آگیا اور لوٹ مار شروع کردی، اس دوران والدہ نے گھر کی بیل بجائی جس پر شاہ رخ باہر آیا اور صورتحال دیکھتے ہوئے آگے بڑھا جس پر ڈاکو نے شاہ رخ پر فوری فائرنگ کردی۔ مقتول کی ایک ہفتے قبل ہی شادی ہوئی تھی،شاہ رخ ایک ہفتے قبل دلہا بنا اور ڈاکو نے اسے کفن پہنا دیا، شاہ رخ کو طارق روڈ سے متصل قبرستان میں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ شاہ رخ کے بھائی جہانزیب کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جہانزیب کے مطابق فائرنگ سے شاہ رخ زخمی ہوا تو کسی نے اسپتال پہنچانے میں مدد نہیں کی،جبکہ سیکیورٹی گارڈ سامنے کھڑا تھا اس نے کچھ نہیں کیا اور جب سے فرار ہے۔ مقتول کے بھائی نے بتایا کہ شاہ رخ کی کسی سے دشمنی نہیں تھی ہنستا کھیلتا میرا بھائی دنیا سے چلا گیا،شاہ رخ 7 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور گھر والوں کا لاڈلہ تھا، کزن نے بتایا کہ وہ دوستوں کا دوست اور ملنسار تھا۔ شہرقائد میں ایک بار پھر اسٹریٹ کرائمز کی واردات میں اضافہ ہورہاہے، گزشتہ روز سے اب تک ڈکیتی مزاحمت پر 5 نوجوانوں کی زندگیاں چھین لی گئی ہیں، پولیس نے ٹیمیں تشکیل دے دیں لیکن ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں۔
لاہور میں لوکل سطح پر چلنے والے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام لاہور پوچھتا ہے میں میزبان نے سبز نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی کے ڈرائیور سے کہا کہ وہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھائے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میزبان کے اس سوال پر فرنٹ سیٹ پر براجمان سیکرٹری ایریگیشن پنجاب شیر عالم محسود سیخ پا ہو گئے اور رپورٹر سے کہا کہ وہ کس طرح کسی کا ڈرائیونگ لائسنس چیک کر سکتے ہیں؟ سیکرٹری ایریگیشن پنجاب نے کہا کہ کیا وہ کوئی پولیس والا ہے یا ٹریفک پولیس کا اہلکار ہے؟ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر کوئی ٹریفک پولیس والا ڈرائیونگ لائسنس مانگے گا تو اس کو لائسنس دکھایا جائے گا رپورٹر کس حیثیت میں لائسنس طلب کر سکتا ہے۔ سیکرٹری ایریگیشن کی جانب سے دھلائی ہونے کے بعد میزبان اپنا سا منہ لیکر کہنے لگا کہ یہ ہے شاہی رویہ اور وغیرہ وغیرہ۔ اس پروگرام کا یہ کلپ وائرل ہونے پر میزبان سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کے نشانے پر آگیا۔ صارفین کا کہنا ہے کہ سیکرٹری ایریگیشن نے باکل ٹھیک کیا ہے اور اس رپورٹر کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ مذکورہ پروگرام کی ویڈیو اسسٹنٹ کمشنر فضائل مدثر نے شیئر کی اور کہا کہ سیکرٹری نے بالکل درست کیا ہے۔ اس پروگرام کے میزبان کی نہ صرف عام سوشل میڈیا صارفین بلکہ صحافیوں نے بھی مذمت کی ثاقب بشیر نامی صحافی نے کہا کہ یہ کون ہے بدتمیز جو مائیک اٹھا کر لائسنس چیک کرنے چلا ہے۔ آفتاب نامی صارف نے کہا کہ اس عمل پر رپورٹر کو شرم آنی چاہیے۔ سرتاج نے کہا کہ صحافی کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ کسی کا لائسنس چیک کرے جس طرح ہمارے پاس اختیار نہیں کہ اس کی ڈگری چیک کریں۔ عامر رشید نے کہا کہ یہ غریبوں کا اقرارالحسن ہے۔ صحافی محمد فہیم نے کہا کہ جب آپ اداکار بننا چاہتے ہوں اور ملک میں فلم انڈسٹری کے زوال کے باعث آپ کو نیوز چینل میں کام کرنا پڑجائے۔ باسط اعجاز نے کہا کہ اس اینکر نما مخلوق کو پولیس کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ مائیک پکڑ کر کسی کو بھی ہراساں کرے گا؟ عام آدمی سے بھی یہ کیوں مانگے گا لائسنس؟ جاوید احمد نے کہا کہ سیکرٹری صاحب کو چاہیے تھا پولیس کو بلاکر اسے گرفتار کراتے یہ میڈیا کا کام بالکل نہیں ایسے بہروپیے پھرتے ہیں اور آوارہ طریقے سے دندناتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے کشمیر روڈ سمیت دیگر علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں چند گھنٹوں کے دوران تین افراد کو قتل کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق کشمیر روڈ پر ہونے والی ڈکیتی کی واردات میں اسٹریٹ کریمنل نے ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں خاتون کے سامنے اس کا بیٹا دم توڑ گیا۔ جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظرعام پر آگئی ہے۔ فوٹیج میں مسلح ملزم کو مقتول شاہ رخ پر فائرنگ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ملزم نے گھر کی دہلیز پر لوٹ مار کی، مقتول کی والدہ نے گھر کی بیل بجائی، شاہ رخ گیٹ کھولتے ہی ڈاکو پر لپکا جس پر ملزم نے فائرنگ کردی۔ ملزم فائرنگ کرنے کے بعد زیورات لوٹ کر موٹر سائیکل پر باآسانی فرار ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چند گھنٹوں میں اسٹریٹ کرائم کی مختلف وارداتوں میں تین شہری جان سے گئے ہیں، سچل میں بزرگ شہری کو قتل کیا گیا جبکہ کلفٹن میں نوجوان کو 70 لاکھ روپے لوٹ کر ڈکیتی مزاحمت پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ادھر ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شہرمیں ڈکیتی کی وارداتوں کا نوٹس لے لیا ہے، ڈکیتی واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔ جبکہ پولیس کو تمام وسائل بروئے کار لاکر ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے۔ حکام کی جانب سے تمام فیلڈ آفیسرز کو پیٹرولنگ کی مانیٹرنگ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سچل میں شہری کو قتل کرنے والے ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے، حالیہ واقعات میں ملوث ملزمان کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے ملکی وغیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے پر پابندی کے دعوئے بےمعنی ثابت ہوئے، حریم شاہ لاکھوں پاؤنڈز لیکر لندن پہنچ گئی ہیں۔ ٹک ٹاکر حریم شاہ نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں وہ نقدی پاؤنڈز پکڑے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس سے قبل بھی متنازع ٹک ٹاکر حریم شاہ نے ایسی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں جن میں انہوں نے پیسے کے ڈھیروں کو پراپس کے طور پر استعمال کیا ہے۔ تاہم اس بار حریم شاہ کے پاس اپنی ویڈیو میں نقد رقم شامل کرنے کی ایک معقول وجہ ہے۔ انہوں نے اپنے پاس بڑی رقم دکھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ حال ہی میں برطانیہ گئی ہیں حریم شاہ نے کہا آپ "اگر آپ پاکستان سے برطانیہ جا رہے ہیں تو ہوشیار رہیں، میرے خیال میں آپ تقریباً 2000 پاؤنڈ لے جا سکتے ہیں اور اگر آپ حد سے تجاوز کریں گے تو عملہ آپ کو پریشان کرے گا۔" ٹک ٹاکر حریم شاہ کا لندن پہنچنے پر کہنا تھا کہ میں تو اتنی بڑی رقم لے کر آرام سے لندن پہنچ گئی کسی نے روکا نہیں لیکن دوسروں کے لیے پریشانی ہو سکتی ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ پاکستانی کرنسی کی کوئی اہمیت نہیں چاہے لاکھوں کروڑوں میں بھی ہو جب چینج کرائیں تو تھوڑی سی رقم ملتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے محض دعوے کئے تھے کہ پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کرواؤں گا، کرنسی کی عزت ہو گی ۔ عمران خان نے صرف باتیں کیں اور کچھ نہیں کیا۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مری میں تھوری سی برف پڑی اور اتنے لوگ مر گئے برطانیہ میں اس سے کہیں زیادہ برفباری اور سردی ہے مگر یہاں کبھی کوئی نہیں مرتا۔ دوسری جانب فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کراچی نے متنازع ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کیخلاف منی لانڈرنگ اور غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی ملک سے باہر منتقلی کے الزام میں انکوائری شروع کردی ہے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی عامر فاروقی نے تصدیق کی کہ ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ کا اصل نام فضا حسین ہے، جو 10 جنوری 2022 کو غیر ملکی پرواز کے ذریعے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے برطانیہ گئی تھیں۔ عامر فاروقی نے کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر امیگریشن رابعہ قریشی انکوائری کریں گی جبکہ بین الاقوامی سرحدوں پر کرنسی کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے ذمہ دار کسٹمز اہلکار سے بھی تفتیش کی جائے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ایک مسافر کو 10 ہزار ڈالر یا اس کے مساوی رقم کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہے اس سے زائد نقد رقم کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تجزیہ کار مظہرعباس نے پروگرام رپورٹ کارڈ میں کہا کہ حماد اظہر کا پارلیمان میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ یہ سب پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے غیر مناسب ہے کیونکہ اگر اس حکومت کا قصور ہے تو انہوں نے اسے الیکشن میں ہار کر بھگت لیا۔ اب آپ جواب دیں کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ مزید ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد جب موجودہ حکومت بات کرے گی تو یہ نہیں کہہ سکتی کہ پچھلے 10 سالوں میں کیا ہوا انہیں اپنے 5 سالہ دور اقتدار کا جواب دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے طے کر لیں اس ملک میں مہنگائی ہے یا نہیں، فواد چودھری ایک بیان دیتے ہیں ، شوکت ترین دوسرا اور حماد اظہر تیسرا بیان دیتے ہیں، کہتے ہیں دیکھ لیں کتنی موٹر سائکل گاڑیاں خریدی گئیں۔ تجزیہ کار نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عام آدمی کا جینا مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ساڑھے 3 سال میں کوئی ریفارمز نہیں کیں۔ یہ سب نظر آرہا ہے۔ یہ بتائیں کہ وزیراعظم نے 2018 کے الیکشن سے قبل جو وعدے کیے تھے ان میں سے کتنے پورے کیے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں یہ چکر چلتا ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ یہ کہہ کر مہنگائی کرتی ہے کہ پچھلی حکومت نے یہ سب کیا نجانے ابھی اس سے نکلنے میں کتنے برس لگیں گے اور اسی طرح مہنگائی ہوتی رہتی ہے۔
سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان (ر) جسٹس افتخار چوہدری بدسلوکی کیس میں سابق کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی سزاؤں پر دائر نظرثانی درخواستیں خارج کر دیں۔ عدالت نے سابق چیف جسٹس سے بدسلوکی کے کیس میں سزائیں پانے والے سابق آئی جی، ایس پی و دیگر پولیس اہلکاروں کی التوا کی درخواستیں منظور کر لی ہیں۔سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ کوئی جج پیدل عدالت آنا چاہے تو اس کے ساتھ بدسلوکی توہین عدالت ہوگی۔ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ بدسلوکی کے معاملہ پر سزائیں پانے والے افسران کی سزائوں کیخلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی جج صاحب کے ساتھ پیدل نہ آنے کیلئے زبردستی نہیں کر سکتا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ایک جج صاحب روزانہ پیدل عدالت آتے ہیں، کوئی بھی جج صاحب کے ساتھ پیدل نہ آنے کیلئے زبردستی نہیں کر سکتا۔ کوئی خود اپنی جان پر رسک لینا چاہتا ہے تو اس کے ساتھ زبردستی نہیں ہو سکتی، آفس سے پیدل گھر کیلئے نکلوں تو کیا مجھے بھی زبردستی گاڑی میں ڈالیں گے؟
مری میں شدید سردی میں تیئیس افراد جان سے گئے، ایسے مشکل حالات میں ہوٹل انتظامیہ نے بے حسی کی انتہا کی، سیاحوں سے کمروں کے اضافی کرائے وصول کئے،اور اب قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد انتظامیہ کو ہوش آگیا۔ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے سیاحوں سے اوور چارج کرنے کی شکایات پر مری میں سترہ ہوٹل سیل کر دیے ہیں،ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایا کہ اوور چارجنگ کی شکایات سوشل میڈیا اور مری کنٹرول روم میں وصول ہوئی تھیں،ہوٹلز ابوظبی روڈ، گلڈنہ روڈ، اپر جھیکا گلی روڈ اور بینک روڈ پر قائم تھے۔ ترجمان ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ ہوٹلوں کو سیل کرنے کی کارروائی اسسٹنٹ کمشنرنے کی،پولیس نے مری کی سڑک پر برف بکھیر کر سیاحوں سے مدد کے بہانے رقم بٹورنے والے ملزم کو بھی گرفتار کرلیا،ثاقب عباسی ساتھیوں کے ساتھ مل کربے حسی سے سڑک پر برف بکھیرتا،سیاح کی گاڑی پھنستی تو ملزم جیپ سے ٹو کرکے نکالنے کا بھاری معاوضہ لیتا رہا۔ سی سی پی او ساجد کیانی نے کہا کہ ملزم کےدیگر ساتھیوں کوبھی گرفتار کیا جائے گا، سیاحوں کا تحفظ اور سہولت اولین ترجیح ہے،سیاحوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچیں گے۔ سیاح شدید برف باری کے دوران ٹریفک میں پھنس گئے اور گاڑیاں کے اندر بیٹھے ہوئے تیئیس سیاح وہی دم توڑ گئے تھے،سیاحوں کی جانب سے اسی دوران ہوٹلوں کی جانب سے مایوس کن رویے کی شکایت کی تھی،ہوٹل انتظامیہ نے موسم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاحوں سے زیادہ چارج کیا۔ پنجاب حکومت نے مری کی پہاڑیوں میں برفانی طوفان کے دوران تیئیس سیاحوں کی ہلاکت کی وجوہات اور غلطیوں کی تحقیقات کے لیے اعلان کردہ پانچ رکنی کمیٹی نے باقاعدہ طور پر اپنا کام شروع کر دیا،کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ظفر نصر اللہ کر رہے ہیں۔ معاونت صوبائی حکومت کے سیکریٹریز علی سرفراز اور اسد گیلانی کررہے ہیں،پنجاب پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل فاروق مظہر اور ایک منتخب رکن شامل ہیں اور اراکین تحقیقات کے لیے آئندہ 2 روز میں مری پہنچنے کا امکان ہے،کمیٹی کو 7 روز میں اپنی رپورٹ مکمل کرنے اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کا ٹاسک دیا گیا،مری میں اب بھی سیاحوں کے داخلے پر سترہ فروری تک پابندی برقرار ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے تقریباً ہر پاکستانی سموگ نامی آفت سے باخبر ہے۔ یہ دراصل پیلی یا کالی دھند ہے جو کہ انسانی صحت کیلئے مضر ہے۔ یہ فضا میں آلودگی کے باعث جنم لیتی ہے۔ سموگ باریک ذرات سے مل کر بنتی ہے جو کہ مٹی، پانی اور گیس کی مدد سے وجود اختیار کرتے ہیں۔ صنعتوں کے گاڑیوں اور کوڑا جلانے سے بھی سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کی بڑی مقدار بھی فضا میں شامل ہو جاتی ہے اور جب سورج کی کرنیں اس پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو مزید آلودہ کر دیتے ہیں۔ سن 1952 میں 5 سے 9 دسمبر تک دنیا کی تاریخ کے آلودہ ترین دن تھے جنہیں گریٹ سموگ آف لندن کے طور پر جانا جاتا ہے یہ پہلی بار تھا کہ سموگ دیکھنے میں آئی اور اس سے ہزاروں لوگ جانوں سے گئے۔ اس کے بعد پہلی بار دنیا نے کلائمیٹ چینج کو سنجیدہ طور پر لیا اور اس کے لیے قوانین بنائے گئے۔ ماہر ماحولیات مریم شبیر عباسی کا کہنا ہے کہ ریسرچ کے مطابق سموگ کے پیدا ہونے میں بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بی آر ٹی، میٹرو وغیرہ بہت کم ہیں تو زیادہ لوگ انفرادی سواری استعمال کرتے ہیں جس سے اسموگ بڑھتی ہے۔ مریم شبیر عباسی نے کہا کہ دوسرا نمبر صنعتوں کا ہے۔ ان پر درست طریقے سے چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے وہ بھی سموگ بڑھنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں اسموگ ہوتی ہے وہیں زیادہ تر صنعتیں ہوتی ہیں یہ بھی سموگ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بنتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر فصلوں کی باقیات جلائے جانے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ بھی ماحول کو مزید آلودہ کرنے میں کردار ادا کرتا ہے اور سموگ بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔ ماہر ماحولیات نے کہا کہ ویسٹ منیجمنٹ کے ذریعے جو کوڑا جلایا جاتا ہے وہ بھی اس میں بہت کردار ادا کرتا ہے حالانکہ اس سے متعلق ایسا نہیں سوچا جاتا مگر یہی حقیقت ہے۔ محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈاکٹر عامر فاروق کا کہنا ہے کہ جو فارمولا ہم استعمال کرتےہیں وہ یونیورسل فارمولا ہے امریکا سے ایشیا تک ہر جگہ یہی فارمولا استعمال ہوتا ہے۔ ماہر زراعت ڈاکٹر احمد سلیم اختر کا کہنا ہے کہ پہلے زراعت کے طریقہ کار مختلف تھے جن علاقوں میں چاول اگتا تھا وہاں گندم کم ہوتی تھی یا جس جگہ گندم ہوتی تھی وہاں لوگ چاول کم یا ایک آدھ فصل حاصل کرتے تھے مگر اب طریقہ کار بدلنے اور زراعت میں جدت آنے سے لوگ چاول کی فصل کاشت کرنے کے فوراً بعد گندم کی بوائی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کیلئے فصلوں کی باقیات کو جلا دیا جاتا ہے جو کہ فضائی آلودگی اور سموگ کا باعث بنتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ طریقہ بھارتی پنجاب سے شروع ہوا ہے اور اب پاکستانی پنجاب میں بھی اس طریقے کے ساتھ کاشتکاری کی جاتی ہے جو کہ غلط ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے بتایا کہ چاول کی فصل میں رہ جانے والے تنے کو تلف کرنے کیلئے ایک مشین تیار کی گئی ہے جس کو ہیپی سیڈر کر نام دیا گیا ہے۔ فی الحال 500 مشینیں تیار کر کے کسانوں کو دی گئی ہیں جو کہ آنے والے وقت میں 5000 کے قریب بنانے کا ارادہ ہے یہ مشینیں سبسڈی پر کسانوں کو فراہم کی جائیں گی۔ معاون خصوصی ملک امین اسلم نے کہا کہ اس مشین کی مدد سے چاول کی باقیات کو جلانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس مشین کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اس تنے کو دوبارہ زمین میں بو دیتی ہے جس سے پانی کا خرچہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس سے آرگینک فرٹیلائزر ملتا ہے جس سے پیداوار یقنی طور پر بڑھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں یورو2 کوالٹی کا فیول درآمد کیا جا رہا تھا جسے اپ ڈیٹ کر کے یورو5 تک لے گئے ہیں اب صرف یہی فیول درآمد کیا جا رہا ہے۔ ملک امین اسلم نے کہا کہ ہماری ریفائنریز ابھی بھی یورو2 بنا رہی ہیں ان سے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو یورو فائیو پر لے کر جائیں۔ ڈاکٹر شہریار خالد کا اس سے متعلق کہنا ہے کہ سموگ جب بنتی ہے تو لوگ بارش کیلئے دعائیں کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ بارش سے صورتحال بہتر ہو جاتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بارش ہونے سے یہی سموگ پانی کی صورت میں ہمارے پینے کے پانی تک پہنچ جاتی ہے یہی نہیں اس سے ہماری آبی مخلوق بھی متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان کی نوجوان صحافی حنا چودھری نے پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے بلین ٹری پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ ماحولیات سے متعلق موضوعات پر تفصیلی ڈاکیومنٹری بنانے کا آغاز کیا ہے۔ یہ پاکستان میں پہلی بار ہو رہا ہے حکومت ماحولیاتی تبدیلی پر اس طرح سے فوکس کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی گرین فنانسنگ انوویشنز پر ایک خصوصی تقریب کے دوران قوم کے قدرتی مستقبل کے دفاع کے لیے ایک ارب درخت لگانے کے مقصد کو مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے آئندہ نسلوں کے لیے ماحولیاتی تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، عوامی پارکوں کا قیام اور درخت لگانا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ مثبت بات ہے کہ لوگوں میں درخت لگانے کے بارے میں شعور بیدار ہونے لگ گیا ہے، اسکول کے بچے بھی اس کوشش میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں شہروں میں جنگلات لگانے اور اس کا سائز بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے چین جیسے طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ بے شک ہمارا ملک مجموعی طور پر کاربن کا صرف ایک فیصد سے بھی کم پیدا کر رہا ہے مگر یہ بھی گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کے ذریعے ماحول کو متاثر کرنے کیلئے کافی ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ شہبازشریف ‏نے نوازشریف کے جانے کیلئے حلف نامہ جمع کرایا تھا نوازشریف اب واپس نہیں آرہے یہ حلف نامے کی ‏خلاف ورزی ہو رہی ہے جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر کوئی عام شخص ‏ہوتا تو اب اس کو توہین عدالت کی سزا مل چکی ہوتی۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کو 4 ‏ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اب 2 سال ہونے والے ہیں حکومت ‏کے مطابق نوازشریف کی حالت ان کی بیماری سے مماثلت نہیں رکھتی حکومت نے کہا ہے نوازشریف ‏کی میڈیکل رپورٹس مہیا کی جائیں۔ خالد جاوید نے کہا ہے کہ نوازشریف کی پچھلی میڈیکل رپورٹس کا صحت ‏کے ماہرین جائزہ لیں گے لیکن میرے پاس ایسے شواہد نہیں ہیں کہ کہہ سکوں نوازشریف کی میڈیکل ‏رپورٹس جعلی تھیں، نوازشریف کی لندن میں سوشل اور فزیکل سرگرمیاں جاری ہیں ان کی بیماری ‏سے متعلق ایک آزدانہ کمیٹی بنائی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کے بھائی اور بیٹی کے بیانات کو بھی سامنے رکھا جائے شہبازشریف ‏نے نوازشریف کے جانے کیلئے حلف نامہ جمع کرایا تھا نوازشریف اب واپس نہیں آرہے یہ حلف نامے کی ‏خلاف ورزی ہو رہی ہے جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ اگرکوئی عام شخص ‏ہوتا تواب اس کو توہین عدالت کی سزا مل چکی ہوتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1999میں بھی نوازشریف اس طرح ہی چلے گئے تھے اس بار نوازشریف کی صحت ‏سے متعلق ماحول بنایا گیا ‏نوازشریف اور شہبازشریف دونوں نے حلف نامے کی خلاف ورزی کی، نوازشریف کےقریبی دوستوں کے ‏مطابق وہ پاکستان آنے کیلئے ٹھیک ہیں۔ ہائی کورٹ کے ذریعے نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ تک رسائی مل سکتی ہے ‏عدالت سے نوازشریف کی دوبارہ فزیکل میڈیکل رپورٹ مانگ سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ نوازشریف سفرکرنے کے قابل ہیں تو پاکستان نہ ‏آنے کی وجہ کیا ہے؟ میڈیکل رپورٹ کے جعلی ہونے سے متعلق ثبوتوں سے ہی معلوم ہوگا عدالت کے حکم پر ‏تحقیقات ہو سکتی ہیں میڈیکل رپورٹ جعلی تھی یااصل، نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ سے متعلق ‏ماہرین ہی صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں۔

Back
Top