خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے معروف ٹک ٹاکر نایاب کے قتل کیس کا ڈراپ سین ہو گیا ہے، قاتل کوئی اور نہیں بلکہ نایاب کا چھوٹا بھائی نکلا ہے۔ ملزم نے باپ کے سامنے اعتراف جرم بھی کر لیا اور پولیس کو بتایا کہ اس نے حسد کے باعث بھائی کو مار ڈالا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 18روز قبل 15 سالہ ٹک ٹاکر کے قتل کا کیس پولیس کے سامنے آیا، تفتیش میں قتل پر تحقیقات کی گئیں تو ملزم کوئی اور نہیں بلکہ مقتول کا چھوٹا بھائی نکلا ہے۔ پولیس کے مطابق نایاب کو اس کا چھوٹا بھائی تیمور10 نومبر کو ساتھ لے کر نکلا، بعد ازاں چھری کے وار سے بہن کا گلا کاٹ دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم تیمور نے ابتدائی بیان میں خود پر تشدد کا ڈرامہ رچایا تھا اور اس واقعہ کی ذمہ داری5 لوگوں پر ڈالی تھی۔ تاہم 18 روز کی تحقیقات سے پتہ چلا کے ملزم کے بیانات میں تضاد ہے۔ پولیس نے ملزم کے بیانات کا موازنہ کیا تو تیمور نے اعتراف جرم کر لیا۔ قاتل تیمور نے والد کے سامنے تسلیم کیا کہ وہ بڑی بہن کی مقبولیت سے حسد کرتا تھا اس لیے اس نے نایاب کا قتل کیا ہے۔ تاہم ملزم نے عدالت سے عبوری ضمانت کرا لی ہے۔
وفاقی حکومت نے سابق دور حکومت میں شروع کردہ صحت کارڈ کی سہولت کو مخصوص طبقے تک محدود رکھنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے روزنامہ جنگ کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحت انصاف کارڈ کو گزشتہ حکومت کا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ قراردیا اور کہا کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں امیر و غریب پر بلا تفریق 200 ارب روپے خرچ کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم صحت کارڈ کی سہولت کو صرف مستحقین اور غریبوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا اربوں روپے کے سرکاری وسائل سے ایک مرسڈیز والا شہری ایک سائیکل والے مستحق شہری کی سہولت سے فائدہ اٹھائے، لہذا ہم نے وسائل کو حقیقی مستحقین تک پہنچانے کیلئے صحت کارڈ کی سہولت کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کیلئے مختص کرنے کی سفارش کی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کے غریبوں کیلئے شروع کی گئی اسکیم میں کروڑ پتی اور ارب پتی افراد کو شامل نہیں کیا جاسکتا،، دنیا کے طاقتور ترین ممالک بھی معاشی طور پر ایسے منصوبوں کو برداشت نہیں کرسکتے، جس انداز سے عوام میں صحت کارڈ بانٹے گئےاس سے کرپشن کے نئے دروازے کھل گئے ہیں اور ملک دیوالیہ ہونے قریب پہنچا ہے۔
400 سے زائد حلقوں ضمنی انتخابات میں ہوں گے جن پر کم سے کم ساڑھے 22 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل سما نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترجمان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہوئی تو جتنے صوبائی حلقوں کی نشستیں خالی ہوں گی ان حلقوں میں 60 دنوں کے اندر اندر ضمنی انتخابات کروا دیئے جائینگے، عام انتخابات نہیں ہونگے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کسی بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے میں ضمنی انتخابات پر تقریباً 5 سے 7 کروڑ روپے خرچ آتا ہو گا، دونوں صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 400 سے زائد حلقوں میں ہوں گے جن پر کم سے کم ساڑھے 22 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔ ترجمان الیکشن کمیشن سے سوال کیا گیا کہ کیا ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل نہیں ہو گا؟ جواب ملا کہ حلقہ بندیاں اور بلدیاتی انتخابات بھی مشکل کام تھا جو ہم کروا کر دکھا چکے ہیں۔ کا کہنا تھا کہ 400 سے زائد حلقوں پر ضمنی انتخابات میں 22 ارب روپے کا خرچ آئے گا۔ دریں اثنا ترجمان الیکشن کمیشن کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے رہنما تحریک انصاف فواد احمد چودھری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ:الیکشن کمیشن رانا ثنااللہ کا ترجمان ادارہ بن چکا ہے؟ نااہل الیکشن کمشنر اور افسران سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں، صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر 90 دنوں میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اپنی تیاری کریں بیانات جاری کرنا آپ کا کام نہیں! یاد رہے کہ سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے راولپنڈی میں تحریک انصاف کے آزادی مارچ میں اعلان کیا تھا کہ ہم اس نظام کا حصہ نہیں رہیں گے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ساری اسمبلیوں سے استعفے دے دیں گے۔
آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا جس میں پی ٹی آئی نے میدان مارتے ہوئے تمام مقابل جماعتوں کو شکست دے دی۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے اتوار کو آزاد کشمیر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضلع کونسل کی 33 نشستیں جیت لیں۔ آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں تین دہائیوں کے وقفے کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ضلع کونسل کی 23 نشستیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہی جب کہ مسلم لیگ ن نے 16 نشستیں حاصل کیں۔ وادی نیلم میں تحریک انصاف نے 7 جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 3،3 نشستیں حاصل کیں جبکہ 2 نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں۔ ادھر تحریک انصاف نے وادی جہلم میں 10 نشستیں حاصل کیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے حصے میں 5 اور پیپلز پارٹی کے حصے میں 3 نشستیں آئیں۔ مظفرآباد میونسپل کارپوریشن کے تمام 36 وارڈز میں پاکستان مسلم لیگ ن 12 نشستیں حاصل کر کے سر فہرست رہی۔ جب کہ پیپلزپارٹی 8 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی، پاکستان تحریک انصاف نے 7 نشستیں حاصل کیں اور آزاد امیدواروں نے بھی 7 نشستیں ہی حاصل کیں، علاقائی جماعت مسلم کانفرنس کو صرف 2 نشستیں مل سکیں۔ مظفرآباد میں پیپلز پارٹی نے 17 نشستیں جیت کر پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑا تو تحریک انصاف 16 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی جبکہ مسلم کانفرنس نے تین اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے دو نشستیں حاصل کیں۔ مظفر آباد میں دو نشستوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک اور علاقائی جماعت جے کے پی پی نے ایک نشست حاصل کی۔
تفصیلات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر نو منتخب آرمی چیف کو آرمی کی کمان سونپیں گے، اس کیلئے وہ آرمی کمان کی علامت "ملاکا اسٹک" جنرل عاصم منیر کے سپرد کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق آرمی میں کمان کی تبدیلی کا یہ عمل پروقار عسکری تقریب جی ایچ کیو میں منعقد کی جائے گی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کی کمان جنرل عاصم منیر کو سونپیں گے اور اپنی رہائش گاہ چلے جائیں گے۔ آرمی کی کمان کی علامت ملاکات اسٹک ایک آرمی چیف اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے پر نئے آنے والے آرمی چیف کو سونپ دیتے ہیں ، یہ چھڑی درآصل انگریزوں کے دور سے فوج کے پاس بطور آرمی کمان کی ایک روایت کے چلی آرہی ہے۔ ملاکا اسٹک 1 اسٹار فوجی افسر یعنی بریگیڈیئر رینک کے عہدے کے فوجی کو سونپی جاتی ہے، نئے بریگیڈیئر بننے والے فوجی افسر کو یہ اسٹک اپنے پرانے افسر کی جانب سے ملتی ہے، پراناافسر اپنی چھڑی نئے آنے والے افسر کو سونپ کر خود ترقی کی سیڑھی چڑھتا ہوا اگلے عہدے پرچلا جاتا ہے اور اس عہدے پر موجود افسر سے چھڑی وصول کرلیتا ہے، یہ سلسلہ اسی طرح فور اسٹار جنرل اور پھر آرمی چیف تک جاتا ہے۔ درحقیقت اہمیت اس چھڑی کی نہیں بلکہ عہدے اور اس سے منسلک ذمہ داریوں کی ہے، یہ اسٹک سنگاپور کے ایک جزیرے ملاکا کی ایک خاص لکڑی سے بنائی جاتی ہے، یہ لکڑی انڈونیشیامیں سماٹرا کے ساحل پائے جانے والے رتن پام کی قسم کے ایک پودے سے حاصل کی جاتی ہے، اس درخت کے تنے لمبے ، پتلے اور سیدھے ہوتے ہیں ، اسی لیے یہ لکڑی واکنگ ملاکا اسٹکس بنانے کیلئے سب سے موزوں سمجھی جانے والی لکڑی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ٹی وی پر گفتگو میں کہا کہ پرویزالہٰی کی اپنی حیثیت کیا ہے کہ وہ آدھے منٹ میں اسمبلی توڑنے کی بات کر رہے ہیں؟ انہوں ںے کہا کہ عمران خان کا اعلان غیر منطقی ہے، عمران خان نےغصے میں آکر اسمبلیاں توڑنے کی بات کی۔ ہم نیوزکے پروگرام "پاکستان ٹونائٹ" میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا پرویزالہٰی کے پاس جو اختیار ہے اس کو کیسے روکنا ہے یہ ہمیں پتہ ہے، پرویزالہٰی بطور وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی نہیں توڑ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ کرپٹ سسٹم سے باہر جا رہے ہیں، اگر سسٹم سے مسئلہ ہے تو پھرانقلاب لائیں وگرنہ الیکشن کے بعد آپ اسی سسٹم میں آئیں گے، پیپلزپارٹی نے جب الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو اس کے بعد سے آج تک پنجاب میں داخل نہیں ہوسکی۔ رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ ہمیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کی میٹنگزمیں کیا باتیں ہوتی ہیں۔ اگرہم نے آج تک ان کو روکا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی کچھ جانتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی سے 15 سے 20 لوگ ہمیں دستیاب ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ احمقانہ ہے اس کے ساتھ لوگ کھڑے نہیں ہوں گے، پنجاب میں مقابلہ پی ٹی آئی اورن لیگ کے درمیان ہے۔ اگر دونوں اسمبلیاں توڑدی جاتی ہیں پھر بھی میری تجویزیہی ہے کہ صرف وہاں الیکشن کرائیں، کیونکہ پیپلزپارٹی کسی صورت ابھی سندھ میں الیکشن نہیں چاہے گی، اسی طرح مولانا چاہیں گے کہ وفاقی حکومت رہے اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلے الیکشن میں نوازشریف کا پارٹی کو لیڈ کرنا بہت ضروری ہے، لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے ہمیں 4 سے 6 مہینے درکارہوں گے، ابھی تو ہم نے لوگوں کو تڑپا کے رکھ دیا ہے، ہم نے سیاسی نقصان اٹھایا ہے لیکن ہم نے ریاست کو بچا لیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ 6 مہینے بعد ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پنجاب میں الیکشن جیت سکیں، اگر 2 صوبوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور ہماری پوزیشن بہترہوتی ہے تو وفاق میں مدت بڑھا بھی سکتے ہیں۔ جب یہ حکومت سے نکلیں گے تو ان کو لگ پتہ جائے گا کہ اپوزیشن ہوتی کیا ہے؟ آٹے، دال کا بھاؤ کیا ہے۔ ن لیگ کے مرکزی رہنما نے کہا کہ مفتاح اسماعیل دو ماہ پہلے خود کہہ رہے تھے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ہے، اعظم سواتی کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو باتیں اعظم سواتی نے کیں کیا وہ کرنے والی ہیں؟
اینکرپرسن کامران خان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کو چند مہینے اقتدار سے چمٹے رہنے سے زیادہ ملک سے متعلق سوچنا چاہیے۔ انہوں نے مفتاح اسماعیل کے معیشت سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا۔ معروف تجزیہ کار و اینکر پرسن کامران خان کا کہنا ہے کہ دیکھیں یہ کون کہہ رہا ہے یہ مفتاح اسماعیل ہیں عمران خان نہیں اگر وہ بھی معیشت سے متعلق خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں تو پھر سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل نے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے۔ کامران خان نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کوئی اور نہیں بلکہ 2 بار مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کو اپنے چند مہینوں کے اقتدار سے زیادہ پاکستان سے متعلق سوچنا چاہیے۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جانے کا دعویٰ کرکے اپنی ہی حکومت کی لنکا ڈھا دی ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے ایک مضمون میں موجودہ وزیر اسحاق ڈار کے معیشت کے حوالے سے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اب حکومت کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دسمبر کے بانڈز کی ادائیگی کے بعد بھی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ختم نہیں ہوگا۔ حکومت صحیح کام نہ کرسکی تو اسے پی ٹی آئی یا کسی اور پر تنقید کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے اپنے مضمون میں ملکی معیشت میں روپے کی قدر میں کمی کو بڑا مسئلہ قرار دیا اور لکھا کہ آج اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ایکسچینج ریٹ کے درمیان بڑا اور مستقل فرق ہے۔ یہ ہماری برآمدات اور ترسیلات زر کیلیے نقصان دہ اور درآمدات کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
حکومتی صفوں میں ماتم کی صورتحال ہے ، 2 مسلم لیگ کے رہنمائوں سے بات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہماری تو سیاست ہی دفن کر دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل جی این این نیوز کے پروگرام خبر ہے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے کہا کہ عمران خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان نے تمام اتحادیوں جماعتوں کی سیاست کو دفن کر دیا ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں بلند وبانگ دعوے کرتی رہیں کہ عمران خان اگر دلیر ہے تو اسمبلیاں توڑے، آج عمران خان نے اعلان کر کے ان کے ناک توڑ دیئے ہیں۔ حکومتی صفوں میں ماتم کی صورتحال ہے ، 2 مسلم لیگ کے رہنمائوں سے بات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہماری تو سیاست ہی دفن کر دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماوں کا خیال تھا کہ عمران خان راولپنڈی جائیں گے اس لیے چپ رہے، وہاں سے اسلام آباد جاتے تو ہم نے کنٹینر کھڑے کر رکھے تھے اور مبینہ طور پر شوٹر بھی وہاں تھے، ان کا خیال تھا کہ ادارے اور عمران خان کے درمیان تصادم ہو گا تو ہمیں موقع مل جائے گا یا تیسری طاقت آ جائے گی لیکن جب عمران خان نے راولپنڈی سے اسلام آباد جانے کے بجائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تو قائد مسلم لیگ نے کہا کہ تم نے میری سیاست ختم کروادی! عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ بعض آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد بھی چودھری پرویز الٰہی ہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے۔ مسلم لیگ ن کے 10 ایم پی ایز نے اسد عمر کے ذریعے سے سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے رابطے کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں اس گند سے باہر نکالیں۔ اگر طاقتور حلقے جیسے کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے تو پھر مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بن سکتا ہے، اس حوالے سے ایک خفیہ میٹنگ ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ عدم اعتماد لائینگے جبکہ اگر یہ اپنے لوگوں کی ہی سنبھال لیں تو بڑی بات ہو گی، دوسری بات یہ کہ عمران خان نے ترپ کا ایک اور پتا رکھا ہوا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان عمران خان کا آخری ترپ کا پتا تھا، ایسا نہیں وہ ان کا ترپ کا آخری پتا بڑا خوفناک ہے، اس کا وزن کوئی نہیں اٹھا سکے گاعمران خان کے پاس ابھی بہت سے چیزیں ہیں، جس کی اسمبلی میں اکثریت ہو گی آئین وقانون کے مطابق وہی اقتدار میں رہے گا، ماورائے آئین کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ اس وقت پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری ہے لہذا ایسے وقت میں وفاقی حکومت صوبے میں گورنر راج بھی نافذ نہیں کرسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے لاہور میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کی، وفد میں ایسوسی ایشن کے صدر میر شکیل الرحمان، جنرل سیکرٹری میاں عامر محمود سمیت مختلف چینل مالکان نے شامل تھے۔ اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ اپوزیشن پنجاب اسمبلی میں اقلیت میں ہے اور وہ اقلیت میں ہی رہے گی، عدم اعتماد لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے،اپوزیشن والے صرف نعرے بازی کرسکتے ہیں، جسے عدم اعتما د لانے کا شوق ہے وہ یہ شوق پورا کرلے، ان سیشن اسمبلی اجلاس کے دوران تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور نا ہی اس دوران گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو صرف مانگنا آتا ہے اور وہ یہ کام اچھے طریقے سے کرسکتے ہیں، بھکاری ایک در پر بار بار بھیک مانگے تو گھر والے دروازے بند کرلیتے ہیں، وفاقی حکومت نے معیشت کا برا حال کردیا ہے ، عوام اب پی ڈی ایم کی حکومت کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دےرہے ہیں، شہباز شریف نے پنجاب کے سیلاب متاثرین کیلئے ایک پائی بھی نہیں دی ، ہم نے اپنے وسائل سے سیلاب متاثرین کی آبادکاری اور بحالی کا کام کیا ہے۔ چوہدری پرویزالہیٰ نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، جب بھی عمران خان کہیں گے پنجاب اسمبلی تحلیل کردیں گے، ہم اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں ، ہمیں اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، ہمارے پاس 191 اراکین کی حمایت موجود ہے۔
برطانیہ میں ویزے توسیع نہ ملنے پر میاں محمد نوازشریف اپنے خاندان کے ہمراہ لندن سے یورپ چلے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن کے برطانیہ میں قیام کے لیے ویزے میں توسیع برطانیہ چھوڑے بغیر نہ ملنے پر خاندان سمیت سیر کیلئے یورپ چلے گئے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف نے برطانیہ چھوڑے بغیر برطانیہ میں قیام میں توسیع کی درخواست ہوم آفس سے مسترد ہونے کے بعد فیصلے کیخلاف اپیل دائر کر رکھی تھی جو انہوں نے واپس لے لی ہے، ان کی اپیل برطانوی ہوم آفس میں زیرالتوا تھی، اپیل ابھی تک سنی نہیں گئی تھی اور تاریخ دی جا رہی تھیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، حسین نواز، مریم نوازشریف اور ان کا بیٹا جنید صفدر لندن سے یورپ 10 دن کے لیے چلے گئے ہیں جہاں وہ 5 یورپی ممالک کا دورہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق میاں محمد نوازشریف علاج کیلئے امریکہ بھی جائیں گے جہاں ان کا آپریشن ہو گا اور بعد میں وطن واپسی کا ٹائم فریم دیا جائے گا، وہ اپنے خاندان کے ہمراہ آج یورپ کے لیے روانہ ہوئے ہیں، سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف 20 نومبر 2019ء کو علاج کی غرض سے لاہور سے لندن روانہ ہوئے تھے جہاں ان کچھ ہی دن پہلے سفارتی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ میاں محمد نوازشریف 3 سال بعد لندن سے باہر پہلی بار کسی اور ملک گئے ہیں، مریم نوازشریف اور خاندان کے دیگر افراد بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو پاکستان واپسی سے قبل امریکہ میں علاج مکمل کرانے کی تجویز دی گئی تھی، میاں محمد نوازشریف کی شریانوں کا علاج امریکہ ہو گا جس کے لیے امریکہ روانگی کیلئے خاندان کی طرف سے سفارتخانے سے رابطے کیے گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پارٹی رہنمائوں کو شیڈول سے آگاہ کیا ہے۔ میاں محمد نوازشریف کو سفارتی پاسپورٹ ملنے کے بعد امریکہ جانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ سے واپسی پر برطانیہ میں بھی ان کا ایک آپریشن ہونا ہے جس کے بعد وہ پاکستان واپسی کا ٹائم فریم دینگے، مریم نوازشریف بھی ان کے ہمراہ واپس آئیں گے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بینچ مارک "کے ایس ای 100 انڈیکس" میں کاروبار کے دوران 800 پوائنٹس سے زیادہ کمی دیکھی گئی جب کہ شدید گراوٹ کی وجہ مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس بڑھانے کے حیران کن اقدام کو قرار دیا گیا۔ کاروبار کے آغاز پر ہی بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 865 پوائنٹس یا 2.02 فیصد کمی کے بعد 42 ہزار 71 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔ انٹر مارکیٹ سیکیورٹیز سے منسلک ریسرچ ہیڈ رضا جعفری نے کہا کہ مارکیٹ میں منفی رجحان کی وجہ شرح سود میں اضافہ اور عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی دھمکی کے بعد ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال میں بہتری آسکتی ہے کیونکہ پاکستان اپنے میچور ہونے والے سکوک بانڈز کی ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور لانگ مارچ ختم ہوگیا جس کی وجہ سڑکوں پر تصادم کا خطرہ تھا۔ فرسٹ نیشنل ایکویٹیز لمیٹڈ کے ڈائریکٹر عامر شہزاد نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کے "غیر متوقع" اضافے کی وجہ سے مارکیٹ دباؤ کا شکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی ریٹ میں اضافہ عالمی مالیاتی فنڈ دباؤ پر کیا گیا، اب آئی ایم ایف کی جانب سے اگلی قسط کا اجرا آسان ہو جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کے انفلو میں اضافہ متوقع ہے اور سیاسی معاملات بھی طے پا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی۔ یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا تھا کہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے سبب تحریک مل رہی ہے، جس سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال وسط مدتی نمو کو متاثر کرسکتی ہے، جس کے سبب لاگتی مہنگائی نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور زری پالیسی کے ذریعے ردعمل ضروری ہو جاتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ یہ لوگ وفاقی حکومت گرانے کیلئے راولپنڈی آئے تھے اور اپنی ہی حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں سیاسی مخالف عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نظام سے نکلنے کا اعلان کرنے والے اسی نظام سے استعفے دینے کے باوجود تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، ہم کیوں وقت سےپہلے الیکشن کروائیں صرف اس لیے کہ عمران خان کااقتدار ختم ہوچکا ہے؟ اب عمران خان پاکستان کی سیاست میں غیر متعلقہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں تاریخی قرض،مہنگائی اور معاشی و خارجہ تعلقات کی تباہی عمران خان کی ہی باقیات ہیں، یہ راولپنڈی میں وفاقی حکومت گرانے کیلئے آئے تھے اور اپنی حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے اندرونی و بیرونی دنیا پر قومی ترجیحات واضح کردی ہیں، موجودہ حکومت کی توجہ صرف و صرف عوام کو درپیش مسائل پر مرکوز ہے اور ہم پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے واضح ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
سابق سینیٹر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنے ایک بیان میں مختلف واقعات کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ ملک میں حکمران کوئی اور ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ چاہے علی وزیر کی بندش ہو یا محسن داوڑ کے اوپر عائد کردہ سفری پابندیاں، مریم نواز شریف کے کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوجانا ہو یا فریال تالپور کو ہسپتال سے گھسیٹ کر جیل میں پھینک دینا ہو یا آج کے دور میں سیاسی مخالفین پر تشدد کے واقعات ہوں۔ انہوں نےان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ذومعنی جملے کا استعمال کیا اور کہا کہ "حکمران کوئی اور ہیں، ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں"۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی پر دوران حراست ہونے والے تشدد سمیت متعدد معاملات پر اصولی موقف رکھنے والے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر سے پیپلزپارٹی نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ لے لیا تھا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پنجاب میں عدم اعتماد آ بھی جائے تو ہمیں فرق نہیں پڑتا ، ہم اس تحریک کو اٹھاکر باہر پھینک دیں گے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے، یہ تو جوتے اٹھا کر الیکشن سے بھاگ گئےہیں، ہم جانتے ہیں یہ الیکشن تک نہیں جائیں گے تاہم ہم انہیں گھسیٹ کر انتخابات تک لے کر جائیں گے، ہمارے استعفوں سے64 فیصد نشستیں خالی ہوجائیں گی، اگر عام انتخابات نہیں ہوتے تو ان 64 فیصد نشستوں پر ضمنی الیکشن کروانے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں اگر ان کے پاس 186 ارکان ہوتے تو آج یہ حکومت میں ہوتے، رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب عوام میں نہیں جاسکتے، یہ عوام میں گئے تو لوگ انہیں انڈے ماریں گے، ہمارا موقف ہے کہ انتخابات کے علاوہ کسی معاملے پر کوئی بات نہیں ہوگی، اب فیصلہ عوام ہی کریں گے اور عوام یہ جانتے ہیں کہ مسائل کا حل صرف عمران خان کے پاس ہے۔ پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اس بار انہیں سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ سندھ میں کیا ہوا ہے، پیپلزپارٹی کے اپنے لوگ آزادحیثیت میں لڑنے کو ترجیح دیں گے ، آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اپنی حکومت نہیں بناسکے گی کیونکہ سندھ کے لوگوں کو ان کےشہروں سے بھی نفرت ہوچکی ہے، سندھ حکومت کا پیسہ لوٹ کر ارکان اسمبلی خرید و فروخت پر استعمال ہوتا ہے۔
(ن) لیگ کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اکٹریتی ارکان اسمبلی ایوان میں واپس آنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے ہر طرف دوست موجود ہیں جو بتاتے ہیں سوائے عمران خان اور کچھ تین چار لوگوں کے باقی سب ہاؤس میں آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنا بھی چاہیے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ کہا جائے کہ پہلے الیکشن کا اعلان کرو گے تو ہی بات کریں گے اس طرح تو حکومت بھی کہہ سکتی ہے کہ پہلے اسمبلی آؤ گے تو ہی بات کی جائے گی مگر یہ کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی جلد الیکشن کا مطالبہ کررہی ہے مگر حکومت انتخابات کرانے میں چھ ماہ کی تاخیر بھی کرسکتی ہے۔ حکومت کے پاس یہ کارڈ بھی ہے کہ اگر ملک میں معاشی ایمرجنسی کی صورتِ حال ہو تو الیکشن میں 6 ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے۔ ایاز صادق نے کہا کہ بلیک میل ہو کر مذاکرات نہیں ہو سکتے بیٹھ کر دوستوں اور کولیگز کی طرح بات کریں پاکستان کو کئی بلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اس کا اعتراف عالمی ادارے کر رہے ہیں تو جب تک بیٹھ کر بات نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں 15 سے16 ہزار افراد شریک ہیں، اگر راولپنڈی میں دھرنا دیا گیاتو مغرب کے بعد 5 سے 7 ہزار افراد باقی رہ جائیں گے۔ وفاقی وزیرداخلہ نے یہ بیان نجی ٹی وی چینل سےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ عوام نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا بائیکاٹ کردیا ہے، اس وقت راولپنڈی کے جلسہ گاہ میں تقریبا 7 سے 8 ہزار افراد موجود ہیں، تقریبا اتنے ہی لوگ راستے میں ہی ہیں، میرا نہیں خیال اتنی تھوڑی سے تعداد کے بعد یہ لوگ اسلام آباد کا رخ کرنے کا سوچیں گے بھی، تاہم اگر انہوں نے ایسا کچھ کیا بھی تو ہمارا پورا انتظام ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ دارالحکومت میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پوری طرح متحرک ہے جس کے ذریعے اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں کی نگرانی کی جارہی ہے، اس نگرانی میں کیمروں کی مدد بھی لی جارہی ہے جبکہ مانیٹرنگ روم میں ہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے انتظامات جاری ہیں، محاذ آرائی کی سیاست سے عمران خان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ وزیرداخلہ نے لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہوتا کہ انہوں نے اتنے سے لوگ ہی راولپنڈی لانے ہیں تو ہم 16ہزار اہلکاروں کو سول کپڑوں میں بٹھادیتے، پی ٹی آئی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ دھرنا دے سکے، انہوں نے اگر دھرنا دیا تو مغرب کے بعد 5سے 7 ہزار افراد ہی باقی رہ جائیں گے، پندرہ ہزار افراد کیلئے ہم نے 26 ہزار اہلکاروں کی نفری تعینات کی ہوئی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سے ہی یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس نے بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام جی ایچ کیو کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجے گئے سینئر ترین افسران میں شامل تھا۔ ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل اظہرعباس 27 اپریل 2023 کو ریٹائرڈ ہو رہے تھے۔ کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی اب قبل از وقت ریٹائرڈ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ 30 اپریل 2023 کو ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پی ایم اے لانگ کورس سے ہیں۔ جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کے لیے سمری چھ مختلف لیفٹیننٹ جنرلز کے ناموں پر مشتمل تھی۔ اس فہرست مین شامل باقی چار لیفٹیننٹ جنرل بھی پی ایم اے لانگ کورس سے ہی تھے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ بلوم برگ نے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو 10فیصد کی کم ترین سطح پر رکھا، آئندہ ایک سال میں دیوالیہ کےامکانات کو کم ترین سطح پر رکھا گیا ہے،یہ اس رپورٹ کے بالکل الٹ ہے جو ہمارے ایک سیاسی رہنما نے بتایا تھا۔ اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پاکستان اپنے تمام مالیاتی وعدوں کی پاسداری جاری رکھے گا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی رہنما نے ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کو93 فیصد پیش کیا جو کہ درست نہیں ہے، پاکستان اپنی ادائيگیوں کی تکمیل بروقت مکمل کرے گا۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ ڈیڑھ ماہ کے لئے زری پالیسی کی منظوری دی گئی، اجلاس میں شرح سود 100 بیسس پوائنٹس یعنی ایک فیصد بڑھا کر 16 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد یہ دوسری مانیٹری پالیسی ہے، اس سے قبل بڑھتی مہنگائی کے پیش نطر مانیٹری پالیسی مسلسل سخت کی جارہی تھی اور اس پالیسی کے تحت رواں سال اب تک شرح سود میں 625 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
سارے منصوبے کا گرفتار کیے گئے افراد کے لیپ ٹاپس، موبائل فونز کے فرانزک کروانے کے بعد پتہ چلا۔ تفصیلات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور خاندان کے افراد کے انکم ٹیکس گوشواروں کی دستاویزات لیک ہونے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آئی) کے 13 جبکہ ڈپٹی کمشنر ان لیڈ ریونیو کے 2 افسران کوسے پوچھ گچھ کے بعد انکوائری کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے مزید 3 افسران کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ انکم ٹیکس گوشوارے لیک کرنے پر ابتدائی انکوائری کے بعد گرفتار کیے گئے افراد میں انسپکٹر صابر، ارسلان، شعیب، سپراوائزر شہزاد نیاز، فرحان گلزار، محمد شہزاد، کلرک وقاص، عاشق اور منیر شامل ہیں جنہیں ابتدائی انکوائری کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق سارے منصوبے کا گرفتار کیے گئے افراد کے لیپ ٹاپس، موبائل فونز کے فرانزک کروانے کے بعد پتہ چلا، گرفتار کیے گئے افسران میں ڈپٹی کمشنر ظہور احمد اور عاطف وڑائچ بھی شامل ہیں۔ آرمی چیف وخاندان کے دیگر افراد کے انکم ٹیکس گوشواروں کی تصاویر کارپوریٹ ٹیکس آفس لاہور کے ڈپٹی کمشنر کا اکائونٹ لاگ ان کرنے کے بعد کمپیوٹر سے حاصل کی گئیں۔ کمشنر، چیف کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر لاہور سے بھی مزید تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد ان افسران کو بھی اپنے عہدے سے ہٹایا جائے گا کیونکہ ٹیکس گوشوارے لیک ہونے کی ذمہ داری ان افسران پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گرفتار کیے گئے افسران و اہلکاروں سے اسلام آباد ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں تحقیقات کی جا رہی ہیں اور آئی ٹی ماہرین کی معاونت سے ایف بی آر کی تحقیقاتی ٹیم ڈیٹا بیس کا بھی جائزہ لے رہی ہے جبکہ ایف بی آر نے کارپوریٹ ٹیکس آفس لاہور کے ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو عاطف وڑائچ اور ظہور احمد کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے، ان سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ مبینہ طور پر ان کے لاگ ان اور پاس ورڈ کو استعمال کر کے ڈیٹا لیک کیا گیا ہے۔ تحقیقات انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 198 اور 216 کے تحت ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور خاندان کے افراد کے انکم ٹیکس گوشواروں کی دستاویزات ایک ویب سائٹ پر شائع کی گئ تھیں جس کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نوٹس لیتے ہوئے معاون خصوصی وزیر خزانہ طارق پاشا کو ذمہ داروں کا تعین کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین اور قانون انکم ٹیکس معلومات کی مکمل رازداری کا حق دیتا ہے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ نامزد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوج کی کھوئی ساکھ بحال کرنا ہوگا اور اس کیلئے انہیں زبان زد عام و خاص سیاست دانوں کیلئے جی ایچ کیو کا گیٹ نمبر چار بند کرنا ہوگا۔ سینئر تحقیقاتی صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ آرمی چیف کا اپنے ادارے کو سیاست سے دور رکھنا وہ اقدام ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے کیونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلتیں ناکام رہی ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان کی صورتحال بد سے بد تر ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا مختلف سیاسی پروجیکٹ شروع کیے گئے اور ان میں تازہ ترین عمران خان پروجیکٹ تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی منصوبہ بھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا جبکہ تازہ ترین منصوبہ تو ایسا ناکام ہوا کہ جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ ان کا ماننا ہے کہ ان ناکامیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ماضی میں چال چلتے ہوئے پسپائی اختیار کی گئی لیکن ملک میں ایسا کوئی پائیدار فیصلہ کبھی نہیں ہوا کہ جس سے ادارہ سیاست سے دُور رہ سکے۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے غلطیوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ مثبت اقدام کے ساتھ اپنا کیریئر ختم کر رہے ہیں۔ انہوں نے خود حال ہی میں اعلان کیا کہ فوج نے گزشتہ سال فروری میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ سیاست میں مداخلت، سیاسی جماعتوں کو بنانے یا توڑنے اور سویلین حکومتوں کے خاتمے کی ماضی کی روش ختم کرے گی۔ حالیہ مہینوں کے دوران عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے موجودہ حکومت ختم کرنے اور جلد الیکشن کرانے کیلئے دباؤ ڈالنے کے باوجود جنرل باجوہ کے تحت اسٹیبلشمنٹ نے متعدد مرتبہ اصرار کیا کہ ادارہ غیر سیاسی ہو چکا ہے اور کسی صورت ماضی کی غلطی کو نہیں دہرائے گا۔ انصار عباسی کے مطابق اب حالات کا انحصار جنرل عاصم منیر پر ہے جو 29 نومبر کو ادارے کی کمان سنبھالیں گے۔ بحیثیت آرمی چیف ان کے عہدے کی مدت تین سال ہے اور اس طرح ان کے پاس زبردست موقع ہے کہ وہ ادارے کے اُس فیصلے پر سختی سے عمل کرائیں جو اس نے خود حال ہی میں کیا ہے۔ ان کا اپنے تجزیے میں کہنا ہے کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ آرمی چیف کی تبدیلی سے فوج کی سمت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے معاملات سیاست زدہ ہوتے ہیں اور پورے سسٹم کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہائیوں پرانی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے یقیناً کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوگی لیکن آرمی چیف کا کردار بہت اہم ہے اور وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ آئین کی حکمرانی ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ انصار عباسی نے کہا فوجی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی طاقتور رہی ہے کیونکہ اس کے پاس پاک فوج کے ادارے کی طاقت ہے۔ ماضی میں اس طاقت کی وجہ سے آرمی چیفس ڈگمگا گئے جس سے فوج نے بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت کی اور ہر ایک کا انجام ناکامی کی صورت میں سامنے آیا اور آج اسی وجہ سے پاکستان کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر سیاسی جوڑ توڑ کرنا دونوں، نہ صرف سسٹم، ادارے اور آئینی بالادستی کیلئے نقصان دہ ہیں بلکہ ملک کیلئے بھی نقصان دہ ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ماضی کی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائی جائیں۔