Haideriam
Senator (1k+ posts)
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں
طبری اپنی کتاب، تاریخ الطبری، کے تعارف میں دستبرداری کلمات کے طور میں لکھتے ہیں: میری اس کتاب میں کچھ معلومات ہوسکتی ہیں ، جن کا تذکرہ میں نے ماضی کے کچھ افراد کی روایت کی بنا پر کیا ہے ، جس کو پڑھنے سے قاری اس سے غیر متفق ہو سکتا ہے اور سننے والے کے لئے ناقابل قبول ہو سکتی ہے ، کیوں کہ اسے اس میں کچھ صحیح نظر نہ آۓ اور نہ ہی کوئی حقیقی معنی۔ ایسے معاملات میں ، اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ میری غلطی نہیں ہے کہ میں اس طرح کی معلومات ان تک پہنچا نے کا باعث بنا ہوں بلکہ یہ غلطی اس فرد کی ہے جس نے یہ معلومات مجھ تک پہنچائی ۔ میں نے محض وہی کچھ بیان کیا جیسا کہ مجھے اس کی اطلاع دی گئی ہے۔
شیعہ اسلام کے دوسرے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوۓ مرکزی دھارے کے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے تاریخ طبری میں سے ضعیف روایتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ آخرکار ، سلمان رشدی ہی نے "شیطانی آیات" کی کہانی کو ثابت کرنے کے لئے تاریخ الطبری میں ہی سے روایت کا استعمال کیا۔ اور پھر بھی ، ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ یہ روایت تاریخ الطبری میں پائی جاتی ہے ، لیکن یہ غیر مصدقہ ہیں جیسا کہ ابن کثیر اور دیگر نے ذکر کیا ہے۔
ابن کثیر نے کہا: ان جلدوں میں طبری نے مختلف روایتوں کی اطلاع دی جیسے وہ اس تک منتقل ہوئی تھیں اور کس راوی کے ذریعہ. اس کی بحث قابل قدر اور بیکار ، مستند اور بے بنیاد معلومات کا ایک ملا ہوا ذخیرہ ہے۔ یہ بہت سارے محدث کے رواج کے مطابق ہے جو محض اپنے موضوع پر موجود معلومات کی اطلاع دیتے ہیں اور کیا صحیح ہے اور کیا ضعیف اس میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔
(ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ، جلد 5 ، صفحہ 208)
شیعہ حدیث کی اہم کتاب الکافی سے ایک عمدہ مثال وہ حدیث ہے جو "گدھے" کے ذریعہ اس کے والدین اور اس کے دادا ، پر دادا سے روایت کی گئی ہے
جلد 1 ، صفحہ 345 میں یہ روایت ہے
ترجمہ
روایت ہے کہ امیر المومنین (ع) نے کہا ہے ، "اس گدھا "عفیر" نے اللہ کے رسول ﷺ سے کہا ، اللہ میری روح اور والدین کی روح کو آپکی خدمت میں رکھے، میرے والد نے اپنے والد سے اپنے والد سے اپنے دادا باپ سے جو حضرت نوح عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کے ساتھ کشتی میں رہتے تھے میرے بارے میں کہا ۔ایک بار حضرت نوح عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ میرے پاس آیے اور میری پیٹھ پر کوڑا مار کر کہا ، "اس گدھے کی اولاد سے ایک گدھا آئے گا جس کی پشت پر آقا اور آخری نبی ﷺ سواری کریں گے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے وہ گدھا بنایا ہے