karachiwala
Prime Minister (20k+ posts)
تیسرےمزعومہ معصوم امام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی لعنت اپنے اور اپنے والد کے شیعوں پر؛
بروایت دیگر آنحضرت در خطبہ فرمود حمد میکنم خداوند راکہ دیناراآفرید وخانہ فنا ونیستی گردانید واہلش را تبغیر احوال ممتحن ساخت پس فریب خوردہ کسی است کہ از آں باز می خوردہ بدبخت کیست کہ مفتون آں گردد پس فریب نہ دہد شماراایں غدار بدرستیکہ قطع میکند امید امیدواران خود الخ
جلاء العیون ج 2 ص 556 مطبوعہ تہران
بروایت دیگر امام حسین نے ( میدان کربلا میں ) خطبہ ارشاد فرمایا، میں اس خداکی حمد کرتا ہوں ، جس نے دنیا کو پیدا کیا ، اور خانۂ فنا ونیستی بنایا ، اور اہالیان دنیا کا بتغیر احوال امتحان کیا، واضح ہو ، کہ فریب خوردہ وہی شخص ہے ، جس نے دنیا سے فریب کھایا ، اور بدبخت وہی ہے ، جو دنیا کا مفتون وگرویدہ ہوا ، اے گروہ اشرار تم کو غدار دنیا فریب نہ دے ، بتحقیق دنیا اپنے امیدواروں کی امید کو قطع اور اپنے طمع کرنے والوں کو ناامید کرتی ہے ، میں تم کو دیکھ رہا ہوں ، کہ تم اس کام کے لئے جمع ہوئے ہو ، کہ خدا کو تم نے اپنے اوپر غضب ناک کیا ہے ، اور اس کی رحمت سے محروم ہوئے ہو، واضح ہو ، کہ ہمارا پروردگار نیکو کار ہے ، اور تم اس کے خراب اور بدکار بندے ہو ، پہلے تم نے اس کی فرمانبرداری کا اقرار کیا، اور بظاہر اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ، اور آپ ہی اس پیغمبر کی ذریت اور عترت کو قتل کرنے پر جمع ہوئے ہو، شیطان تم پر غالب ہوا ہے ، اور اس نے یاد خدا تمہارے دلوں سے محو کردی ہے ، تم پر اور تمہارے ارادوں پر لعنت ہو ، اے بے وفایان جفاکاراں خدا کی تم پر لعنت ہو ، تم نے اپنی اضطراب و اضطرار کی حالت میں اپنی مدد کے لئے مجھے بلایا ، اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا ، تمہاری مدد وہدایت کے لئے آیا، اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی۔
تبصرہ؛
میدان کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب ان بلانے والےشیعوں ( کوفیوں ) کی بد عہدی اور بے وفائی دیکھی ، تو انہیں اتمام حجت کی خاطر خطاب کیا،اور انہیں وہ سب خطوط اور وعدے یاد دلائے ، جس کی بناء پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ عازم کوفہ ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا ، غدارو ، تم نے ہمیں بُلایا ، اور جب میں تمہارے بُلاوے پر تمہاری مدد اور ہدایت کو آیا ، تو اب تمہارا یہ سلوک ؟ اللہ کی تم پر پھٹکار ہو ، اور تمہارے ارادوں پر اس کی لعنت ، قاتلان حسین رضی اللہ عنہ و دیگر اہل بیت یہی مردود لعنتی شیعہ تھے ، جو اس وقت اپنے آپکو شیعان علی ( رضی اللہ عنہ ) کہتے تھے ، یہ وہی تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرتد کا فتوی لگایا تھا، کوفہ انہی کا گڑھ اور مرکز تھا ( شھادت حسین رضی اللہ عنہ پر جب بات ہوگی ، تو تفصیل سے یہ وضاحت بھی کی جائے گی ، کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو مکہ سے کوفہ کے لئے نکلے تھے ، اور مکہ سے کوفہ کے راستہ میں کربلا نام کا کوئی مقام نہیں آتا، شھادت حسین بلا شک و شبہ میدان کربلا میں ہوئی ، لیکن آپ کوفہ جاتے جاتے کوفہ سے بلکل متضاد مقام کربلا میں کیسے پہنچ گئے، جہاں یہ مندرجہ بالا خطاب فرمایا ، اور پھر اپنے اور اپنے والد رضی اللہ عنہ کے شیعوں کے ہاتھوں شھید ہو گئے ، شھید ہونے والے خاندان اہل بیت کے نام کیا کیا تھے ، اور قاتلین خانوادۂ اہل بیت کے نام کیا کیا تھے ، اور انکا خاندان اہل بیت سے تعلق ورشتہ کیا کیا تھا ، شھادت کے بعد آپ کے بیٹے علی بن حسین ، آپکی ہمشیرہ محترمہ سیدہ زینب بنت علی ، آپکی دوسری ہمشیرہ سیدہ ام کلثوم بنت علی ، آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنھم ، وغیرہ کی طرف سے نام نہاد محبین اہل بیت ، شیعان علی ، قاتلین خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لعنت و ملامت ، اور ان کے لئے وہ بد دعائیں ، جنکی قبولیت آج چودہ سو سال گذرنے کے باوجود روز روشن کی طرح عیاں ہے، یہ سب شھادت حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں آئے گا انشاءاللہ )
شیعہ شر البریہ کے بنیادی عقیدۂ امامت کی بحث یہاں ختم کی جاتی ہے ، ابتدائی اقساط میں شر البریہ کے بانی و جد امجد عبد اللہ بن سبا یہودی کا تعارف و تذکرہ کروایا گیا تھا ، اگلی اقساط میں شر البریہ کی اصل نقاب کُشائی ، کہ انہوں نے اپنے عقائد واقعتاً یہودیوں سے لئے ، یا یہ ان پر فقط اتہام ہے ،
بروایت دیگر آنحضرت در خطبہ فرمود حمد میکنم خداوند راکہ دیناراآفرید وخانہ فنا ونیستی گردانید واہلش را تبغیر احوال ممتحن ساخت پس فریب خوردہ کسی است کہ از آں باز می خوردہ بدبخت کیست کہ مفتون آں گردد پس فریب نہ دہد شماراایں غدار بدرستیکہ قطع میکند امید امیدواران خود الخ
جلاء العیون ج 2 ص 556 مطبوعہ تہران
بروایت دیگر امام حسین نے ( میدان کربلا میں ) خطبہ ارشاد فرمایا، میں اس خداکی حمد کرتا ہوں ، جس نے دنیا کو پیدا کیا ، اور خانۂ فنا ونیستی بنایا ، اور اہالیان دنیا کا بتغیر احوال امتحان کیا، واضح ہو ، کہ فریب خوردہ وہی شخص ہے ، جس نے دنیا سے فریب کھایا ، اور بدبخت وہی ہے ، جو دنیا کا مفتون وگرویدہ ہوا ، اے گروہ اشرار تم کو غدار دنیا فریب نہ دے ، بتحقیق دنیا اپنے امیدواروں کی امید کو قطع اور اپنے طمع کرنے والوں کو ناامید کرتی ہے ، میں تم کو دیکھ رہا ہوں ، کہ تم اس کام کے لئے جمع ہوئے ہو ، کہ خدا کو تم نے اپنے اوپر غضب ناک کیا ہے ، اور اس کی رحمت سے محروم ہوئے ہو، واضح ہو ، کہ ہمارا پروردگار نیکو کار ہے ، اور تم اس کے خراب اور بدکار بندے ہو ، پہلے تم نے اس کی فرمانبرداری کا اقرار کیا، اور بظاہر اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ، اور آپ ہی اس پیغمبر کی ذریت اور عترت کو قتل کرنے پر جمع ہوئے ہو، شیطان تم پر غالب ہوا ہے ، اور اس نے یاد خدا تمہارے دلوں سے محو کردی ہے ، تم پر اور تمہارے ارادوں پر لعنت ہو ، اے بے وفایان جفاکاراں خدا کی تم پر لعنت ہو ، تم نے اپنی اضطراب و اضطرار کی حالت میں اپنی مدد کے لئے مجھے بلایا ، اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا ، تمہاری مدد وہدایت کے لئے آیا، اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی۔
تبصرہ؛
میدان کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب ان بلانے والےشیعوں ( کوفیوں ) کی بد عہدی اور بے وفائی دیکھی ، تو انہیں اتمام حجت کی خاطر خطاب کیا،اور انہیں وہ سب خطوط اور وعدے یاد دلائے ، جس کی بناء پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ عازم کوفہ ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا ، غدارو ، تم نے ہمیں بُلایا ، اور جب میں تمہارے بُلاوے پر تمہاری مدد اور ہدایت کو آیا ، تو اب تمہارا یہ سلوک ؟ اللہ کی تم پر پھٹکار ہو ، اور تمہارے ارادوں پر اس کی لعنت ، قاتلان حسین رضی اللہ عنہ و دیگر اہل بیت یہی مردود لعنتی شیعہ تھے ، جو اس وقت اپنے آپکو شیعان علی ( رضی اللہ عنہ ) کہتے تھے ، یہ وہی تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرتد کا فتوی لگایا تھا، کوفہ انہی کا گڑھ اور مرکز تھا ( شھادت حسین رضی اللہ عنہ پر جب بات ہوگی ، تو تفصیل سے یہ وضاحت بھی کی جائے گی ، کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو مکہ سے کوفہ کے لئے نکلے تھے ، اور مکہ سے کوفہ کے راستہ میں کربلا نام کا کوئی مقام نہیں آتا، شھادت حسین بلا شک و شبہ میدان کربلا میں ہوئی ، لیکن آپ کوفہ جاتے جاتے کوفہ سے بلکل متضاد مقام کربلا میں کیسے پہنچ گئے، جہاں یہ مندرجہ بالا خطاب فرمایا ، اور پھر اپنے اور اپنے والد رضی اللہ عنہ کے شیعوں کے ہاتھوں شھید ہو گئے ، شھید ہونے والے خاندان اہل بیت کے نام کیا کیا تھے ، اور قاتلین خانوادۂ اہل بیت کے نام کیا کیا تھے ، اور انکا خاندان اہل بیت سے تعلق ورشتہ کیا کیا تھا ، شھادت کے بعد آپ کے بیٹے علی بن حسین ، آپکی ہمشیرہ محترمہ سیدہ زینب بنت علی ، آپکی دوسری ہمشیرہ سیدہ ام کلثوم بنت علی ، آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنھم ، وغیرہ کی طرف سے نام نہاد محبین اہل بیت ، شیعان علی ، قاتلین خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لعنت و ملامت ، اور ان کے لئے وہ بد دعائیں ، جنکی قبولیت آج چودہ سو سال گذرنے کے باوجود روز روشن کی طرح عیاں ہے، یہ سب شھادت حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں آئے گا انشاءاللہ )
شیعہ شر البریہ کے بنیادی عقیدۂ امامت کی بحث یہاں ختم کی جاتی ہے ، ابتدائی اقساط میں شر البریہ کے بانی و جد امجد عبد اللہ بن سبا یہودی کا تعارف و تذکرہ کروایا گیا تھا ، اگلی اقساط میں شر البریہ کی اصل نقاب کُشائی ، کہ انہوں نے اپنے عقائد واقعتاً یہودیوں سے لئے ، یا یہ ان پر فقط اتہام ہے ،