Reply to Mushahidullah - by RAUF KULASRA

umair ahmed

MPA (400+ posts)
آخر کیوں؟ہارون الرشید میرے وہ واحد دوست ہیں جن کے خیالات سے میں سو فیصد تو نہیں لیکن ننانوے فیصد ضرور اختلاف کرتا ہوں۔ ہارون صاحب کا ذکر چلا ہے تو بتاتا چلوں کہ زندگی بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ ایسی چیزیں ہوتی ہیں اور ایسے لوگ ملتے ہیں جو آپ کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
میں ڈگری کالج لیہ میں 1990-91ء میں بی اے کا طالبعلم تھا کہ ہارون الرشید کی کتاب ’’فاتح‘‘ کا چرچا سنا۔ اتنے پیسے نہیں تھے کہ خرید سکتا ۔ اپنے مہربان ہاسٹل وارڈن پروفیسر ظفر حسین ظفر کی سفارشی چٹ لیکر اپنے کالج کے لائبریرین کے بیٹے کی کالج روڈ پر واقع کتابوں کی دکان ’’دارلکتاب‘‘ گیا اور محض اس وعدے پر وہ کتاب مستعار لے آیا کہ رات کو پڑھ کر صبح واپس کرنی ہوگی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے ساری رات جاگ کر وہ کتاب پڑھی اور ہارون الرشید کی تحریر سے آشنا ہوا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی گئی اس کتاب نے ہمارے معاشرے میں جہاد کے کلچر کو پروموٹ کیا اور ایسے رومانوی کردار تخلیق کیے گئے جنہوں نے کچے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہارون صاحب کو اس طرح کا ایک رومانوی کردار تخلیق کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
ایک دفعہ پھر میرے گھر پر بیٹھے ہارون صاحب سے بہت شدید بحث ہوگئی۔ جب میں نے کہا کہ ہارون صاحب آپ ایسے کردار تخلیق کرتے رہتے ہیں اور خوب دل جمعی کے ساتھ ان کی کہانیاں اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو یوں لگتا ہے کہ خدا کے بعد اگر کوئی اس دنیا کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ وہی صاحب ہیں۔ ہارون صاحب نے مختصراً پوچھا مثلاً؟ میں نے جواب دیا کہ آپ کچھ عرصے بعد اپنے ہی کردار سے بور ہو جاتے ہیں اور نئے کردار کی تلاش میں پھر مگن۔ ہارون صاحب کو میں نے ان کے تخلیق کردہ انسانی بتوں کی تفصیل بتانا شروع کی۔ میں نے کہا آپ نے گلبدین حکمت یار کو ایک ایسا وار لارڈ بنا کر پیش کیا کہ لگتا تھا کہ وہ اکیلا اس دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس کی ایسی ایسی کہانیاں ہمیں سنائیں کہ ہم بڑے عرصے تک تو سنبھل ہی نہ سکے۔ اب برسوں ہوئے ان کا ذکر بھی آپ کے کالموں میں نہیں آتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد آپ نے جنرل حمید گل کی وہ کہانیاں ہمیں سنائیں کہ الامان۔ اب جنرل حمید گل اور آپ کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ شعیب سڈل سے لیکر ذوالفقار چیمہ اور اب عمران خان تک ایسے کرداروں کی فہرست بڑی لمبی ہے جن سے ایک مرحلے پر آپ خود بھی تھک جاتے ہیں۔
میں بولتا رہا اور وہ چپ کر کے سنتے رہے۔ میرا خیال تھا کہ اس کے جواب میں مجھے خاصی ڈوز سننے کو ملے گی۔ انہوں نے مختصراً اتنا کہا کہ یہ تمہاری سوچ ہے تم جو چاہو سوچتے رہو اور ساتھ ہی میری بیوی کو آواز لگائی کہ ذرا اچھی سی چائے بھجواؤ۔
اس بیک گراونڈ میں جب روزنامہ جنگ میں 16 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف اخبار کے آدھے صفحے پر پھیلے حملے نے مجھے مجبور کیا ہے کہ کچھ اس پر بھی اظہار خیال کیا جائے۔ اگرچہ آج بروز اتوار ہارون الرشید نے اپنے کالم ’’ناتمام‘‘ میں ان اعتراضات اور حملوں کا جواب دیا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ ہارون الرشید کا جواب پڑھ کر میں نے بھی سیکھا ہے کہ کیسے بعض دفعہ اپنے اوپر ہونے والے شدید حملوں کے باوجود ایک لکھاری کو کیسے اپنے ذاتی غصے کو ایک طرف رکھ کر محض پروفیشنل انداز میں جواب دینا چاہیے۔ شاید میرے جیسا کوئی اناڑی ہوتا تو کالم میں دلیل کے بجائے غصہ زیادہ جھلکتا۔ یہی بات ہارون الرشید کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ جارحانہ مزاج اور اپنی سخت پسند ناپسند کا خیال رکھنے کے باوجود ایسے موقعوں پر ایک پروفیشنل صحافی بن جاتے ہیں۔ صحافت کے کسی بھی طالبعلم کیلئے مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف لکھا گیا کالم اور اس کے جواب میں ہارون الرشید کا کالم ایک دلچسپ سٹڈی کے برابر ہے۔
میں ہارون صاحب کو 12 سال سے جانتا ہوں۔ وہ دوست کم اور فیملی ممبر زیادہ ہیں۔ ان برسوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ کونسا روز ہوگا جس دن میری ان سے ان کے بعض خیالات اور تحریروں پر تلخی کی حد تک بحث نہ ہوئی ہو۔ مجال ہے کہ بعض دفعہ میری گستاخی کے باوجود اس تعلق میں کوئی تھوڑی سی دراڑ بھی آئی ہو۔ بعض دفعہ تو گھر پر بیٹھے ہماری اونچی آوازیں سن کر میری اپنی بیوی پریشان ہو کر گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں جھانک کر لوٹ جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد کسی لطیفے پر ہمارے قہقہے سن کر وہ پھر یہ دیکھنے آتی ہے کہ یہ اچانک لڑائی جھگڑے کے دوران ایسا کونسا واقعہ ہو گیا تھا کہ دونوں صاحبان بیٹھے اب کسی بات پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
عمران خان کو انہوں نے کالموں میں پروموٹ کرنا شروع کیا تو بھی میں نے ان سے بحث کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ حضور آپ خود بھی کالم لکھتے ہیں اگر آپ کو عمران خان کی پالیسیاں پسند نہیں ہیں تو آپ خود تکلیف کیوں نہیں دیتے۔ میں مسکرا پڑا اور کہا ہارون صاحب عمران خان سے بہت سے اختلافات کے باوجود میرے پاس اس کے خلاف نہ لکھنے کی تین وجوہات ہیں۔
ہارون صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ جناب یہ معجزہ کب سے ہوا کہ کسی کی پالیسیوں کو آپ ناپسند بھی کرتے ہوں اور پھر بھی آپ کے پاس ایسی وجوہات ہیں کہ اس کے خلاف لکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پہلی وجہ میرا دس سال کا چھوٹا بیٹا ہے جس نے کبھی عمران کو کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا لیکن وہ پچھلے ایک سال سے مجھے مسلسل کہہ رہا ہے کہ بابا مجھے عمران خان کی پارٹی کا ممبر بنوا دیں۔ سو میں اپنے بیٹے کے ہیرو کے خلاف لکھ کر خود شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔
دوسری وجہ ہارون صاحب آپ ہیں۔ آپ عمران کے خیر خواہ ہیں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ کو اس سے کوئی ذاتی لالچ یا کام نہیں ہے۔ عمران کے خلاف لکھنے والے اور میں نے لکھ بھی دیا تو اس سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ عمران کے خلاف نہ لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس ملک پر سیاسی جماعتوں سے لیکر فوج اور مذہبی گروپوں نے حکومت کی ہے اور سب نے اسے پہلے سے ذیادہ تباہ کیا۔ ایک موقع عمران کو بھی ملنا چاہیے ہو سکتا ہے بہت سارے معاملات پر کنفیویژن کے باوجود وہ محض اپنے اوپر طاری اوور کانفیڈنس کی وجہ سے میرے دس سالہ بیٹے جیسے نوجوانوں کو شاید نئی راہ دکھا سکے۔ میں ان تمام نوجوانوں کے خواب نہیں توڑنا چاہتا اگر وہ عمران سے مایوس ہونا چاہتے ہیں تو وہ اپنے تجربے کے بعد مایوس ہوں نہ کہ میری تحریریں پڑھ کر۔
ہارون الرشید کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے اس وقت آیا جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے لندن سے اسلام آباد آئے۔ میں ابھی اس تاریخی فلائیٹ کا حصہ تھا۔ جو کچھ نواز شریف کے ساتھ جنرل مشرف کی حکومت اور سعودیوں نے کیا وہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایئر پورٹ پر دیکھا اور اس کا پورا احوال اپنی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں بڑی تفصیل سے دیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جب میں ایئر پورٹ سے باہر نکلوں گا تو پورا پاکستانی میڈیا نواز شریف کے ساتھ اس برے سلوک کی کہانیاں سنا رہا ہوگا اور سعودی عرب کے اس رول پر تنقید ہو رہی ہوگی۔ جب میں ایئر پورٹ پر تین چار گھنٹوں کی لڑائی کے بعد گھر پہنچا اور ٹی وی آن کیا تو میں حیرانی سے بیہوش ہونے والا تھا کہ وہ سارے صحافی جنہیں میاں صاحب اپنے خرچے پر لندن سے ساتھ لائے تھے ٹی وی چینلز پر الٹا ان پر تنقید کر رہے تھے۔ کہیں بھی سعودیوں کا ذکر نہیں تھا۔
اگلے دن میں دی نیوز اور جنگ کیلئے سٹوری لکھی کہ کیسے نواز شریف کو سعودیوں نے اغوا کیا تھا۔ اسی دن نواز شریف کے حق اور جنرل مشرف اور سعودیوں کے خلاف میری سٹوری سے بھی زیادہ سخت کالم ہارون الرشید نے لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اس پر بس نہیں کیا اور اس موضوع پر سعودیوں کے خلاف ایک پاکستانی لیڈر کو یوں پاکستانی سرزمین سے زبردستی لے جانے پر ایک مہم شروع کی اور یوں جب مسلم لیگ نواز کے وہ بڑے بڑے لیڈر جو آج ہارون الرشید پر حملے کر رہے ہیں اپنے گھروں میں دبکے اور جنرل مشرف کے خوف سے گونگے بنے بیٹھے تھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک سچے اور بہادر صحافی کی طرح ہارون الرشید نے سعودیوں کے خلاف لکھا جن کے خلاف بولنا یا لکھنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا ۔ اور تو اور مسلم لیگ نواز کے اپنے حامی صحافی اور کالم نگار بھی سعودیوں کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ روایت بھی ہارون الرشید کے حصے میں آنی تھی جو آج اس سینیٹر کے حملوں کی زد میں ہیں جنہیں سینیٹ کا ٹکٹ بھی لندن میں واقع ریسٹورنٹ کے ایک مالک ریاض کے مرہون منت ہے جو شریف برادران اور ان کے سیاسی لیڈروں ورکروں اور ہمارے جیسے صحافیوں کے کھانے پینے کا خیال رکھتا تھا۔ میاں صاحب ریاض کے کھلائے گئے کھانوں اور وہ بھی مفت، سے بڑے خوش تھے۔ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے جلالی انداز میں پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس شریف النفس ریاض نے جسے میں نے لندن کے دنوں میں ایک اچھا انسان پایا تھا صرف اتنا بولا حضور مجھے خدا نے بہت کچھ دیا ہے اور میں لندن میں بہت خوش ہوں۔ آپ مناسب سمجھیں تو میرے دوست کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیں۔ یوں ریسٹورنٹ کے دو سال کے کھانوں کا بل سینٹ کا ٹکٹ دیکر ادا کر دیا گیا۔
میرا تو اس دن شریف برادران سے دل بھر گیا تھا یا ایک طرح سے ایمان اٹھ گیا تھا جس دن مکہ اور مدینے میں قسمیں کھانے اور لندن میں مجھے لمبے لمبے بھاشن کہ جنرل مشرف کے کسی وزیر یا ساتھی کو پارٹی میں واپس نہیں آنے دیں گے، کے باوجود بھی پاکستان پہنچتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ جنرل مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔ یہ وہی زاہد حامد تھے جو 10 ستمبر 2007ء کو تمام ٹی وی چینلز پر میاں صاحب کے وہ دستاویزی معاہدے اور معافی نامے دکھا رہے تھے جو انہوں نے جنرل مشرف کے نام لکھے تھے۔
تاہم ہارون صاحب کا میاں صاحبان کے ساتھ رومانس جاری رہا۔ ہارون صاحب کے پاس کسی کے خلاف یا حق میں لکھنے کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہارون صاحب سے میرا زیادہ بحث و مباحثہ اس بات پر ہوتا رہتا ہے کہ ان کے دل میں اچانک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی محبت پتہ نہیں کہاں سے امڈ کر آتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر موقع پر جب بھی شہباز شریف پنجاب میں اپنی یا اپنے حواریوں کی وجہ سے کسی بحران میں گھرے تو ہارون صاحب نے سب سے پہلے ان کے حق میں کالم لکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھا۔ گورنر راج لگا تو وہ ایک طرح سے ان شریفوں کے ترجمان بن گئے۔ دانش سکولوں کے پراجیکٹ پر اربوں روپے ضائع ہونے لگے تو وہ اس طیارے میں سوار تھے جو عوام کے ٹیکسوں سے اسلام آباد ایئر پورٹ سے اڑا اور انہیں رحیم یار خان لے گیا۔ میں نے کہا ہارون صاحب یہ دکھاوے کا کام ہے۔ یہ سیاستدان بڑے سیانے ہیں یہ صحافیوں کو جہاز کی سیر، اپنے ساتھ چائے پانی اور تھوڑا سا مصنوعی احترام دکھا کر استعمال کرتے ہیں۔ میرے جیسے دیہاتوں سے آئے ہوئے لوئر مڈل کلاس کے صحافی جنہیں اگر کوئی دیہات میں سپاہی بھی سلام کر لے تو وہ کئی دنوں تک اپنا ہاتھ نہیں دھوتے اچانک جب شہروں میں آ کر صحافی بنتے ہیں اور ان کا میل جول صدر، وزیر اعظم، وزیروں اور بڑے بڑے بیورو کریٹس سے ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے گوتم بدھ کی طرح برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ کر نروان پا لیا اور پھر پوری عمر ان سیاستدانوں کے طبلے بجانے میں گزر جاتی ہے۔ بڑا صحافی وہ سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کے دربار میں اٹھتا بیٹھتا ہو اور اگلے دن ان کی شان میں قصیدے لکھے نہ کہ بڑا صحافی وہ ہوتا ہے جو بڑی خبر لائے اور عوام کے ساتھ کھڑا رہے۔ اگر حکمران اچھا کام کرتے ہیں تو کونسا احسان کرتے ہیں کہ اچھا کام کرنے کیلئے ہی تو وہ ہمارے اربوں روپے کے ٹیکسوں پر عیاشی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھا کام بھی ایک احسان کے طور پر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنا فرض جان کر۔
ہارون صاحب نے میرا یہ طویل وعظ سنا اور مختصراً بولے کہ بھائی یہ تمہارا پوائنٹ آف ویو ہے۔ میں تو جاؤں گا اور وہ گئے اور واپسی پر شہباز شریف کی شان میں کالم بھی لکھا۔
ہارون صاحب نے نواز شریف، شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کی شان میں کئی دفعہ ایسی تحریریں بھی لکھیں جن سے مجھے خاصا اختلاف تھا مثلاً جو حشر چوہدری نثار علی خان نے روالپنڈی کا کیا ہوا ہے اور جتنی رعونت اور تکبر میں نے اس انسان میں دیکھا ہے اور جیسے اس کے دل میں عام انسانوں کیلئے نفرت آنکھوں سے چھلکتی پائی ہے، اس کے باوجود بھی ہارون الرشید کے کالم میں اس کی شان میں لکھا گیا ایک فقرہ بھی چھبتا ہے۔
میرے اعتراضات سن کر ہارون صاحب ہمیشہ کہتے کہ تمہیں یہ پتہ ہے کہ میں کسی کے خلاف یا حق میں کوئی ذاتی لالچ کی وجہ سے نہیں لکھتا ہو سکتا ہے کہ میری ججمنٹ میں غلطی ہو نیت میں نہیں۔
کئی دفعہ ان سے بحث ہوئی کہ سیاستدان صحافیوں کو استعمال کرنا جانتے ہیں۔ جب یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو آپ کے نام کے ساتھ فوری طور پر بھائی کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ سے بڑا انٹی اسٹیبلشمنٹ، بہادر، دلیر اور ایماندار صحافی اور کالم نگار کوئی نہیں ہوتا۔ جونہی یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو پھر اپنی پارٹی کی صفوں میں موجود مشاہد اللہ جیسے کرداروں سے آپ پر حملے کراتے ہیں۔ میرا ایمان تو ان سیاستدانوں سے بہت پہلے سے اٹھ گیا تھا۔ اب تو نہ میں ان کی تعریف سے متاثر ہوتا ہوں اور نہ ان کی تنقید مجھے پریشان کرتی ہے کہ ہمارا تعلق گھوڑے اور گھاس والا ہے اگر دونوں دوستی کریں گے تو پھر صحافی بھوکا مرے گا۔
میری اس پر بھی ہارون صاحب سے بڑی بحث ہوئی کہ آپ ابھی تک جنرل ضیاء کی امریکیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑی گئی جنگ کو تو جہاد سمجھتے رہے ہیں جس نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جب ہارون صاحب نے یہ سمجھا کہ وہی جنگجو مذہبی عناصر جن کے حق میں وہ کبھی لکھتے تھے اس ملک کیلئے شدید خطرہ بن چکے تھے تو میرا خیال ہے کہ وہ پہلے کالم نگار تھے جنہوں نے طالبان کے خلاف اس وقت پوری شدت کے ساتھ لکھنا اور بولنا شروع کیا جب کسی کو ایک لفظ بولنے کی بھی جرات نہیں ہوتی تھی۔
بہت سارے لوگ ان کی اس لائن بدلنے پر حیران بھی ہوئے اور دشمن بھی بنے۔ اور تو اور ایک دفعہ میرے دوست حسن نثار نے مجھ سے حیرانی سے پوچھا کہ یار استاد ہارون الرشید میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ ذہین لوگ اپنی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سامنے اپنے خیالات کے خلاف نئی دلیلیں دیکھ کر اپنی سوچ بدل لیتے ہیں اور یہ کام صرف ایک ذہین اور پڑھا لکھا شخص کر سکتا ہے۔ جاہل لوگ ساری عمر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ آج بھی اسی بات پر قائم تھے جو انہوں نے تیس برس پہلے کی تھی۔
مشاہد اللہ کا ہارون صاحب کے بارے میں یہ طعنہ پڑھ کرکہ وہ اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں، مجھے اورینہ فلاسی کی شہرہ آفاق کتاب “An interview with history” میں بھٹو صاحب سے پوچھا گیا اسی سے ملتا جلتا ایک سوال یاد آ گیا۔
اورینہ فلاسی نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ اندرا گاندھی کہتی تھی کہ وہ ایک غیر متوازن شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ بھٹو صاحب ایک دن ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے دن دوسری۔ ان کے بارے میں کسی کو کوئی پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ اپنے بارے میں اندرا گاندھی کا یہ تبصرہ سن کر بھٹو صاحب نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ واقعی انہوں نے یہ بات کی تھی۔
بھٹو صاحب بولے کہ ’’مجھے مشہور فلاسفر لاک کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے کہ Consistency is a virtue of small minds۔
بھٹو صاحب نے بتایا کہ آپ کا کوئی بنیادی اصول اور تصور ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے اندر بھی تبدیلی کی گنجائش رکھنی چاہیے آپ کبھی ایک پول پر چلے جائیں تو کبھی دوسرے پر۔ ایک دانشور کو صرف ایک خیال کے ساتھ چمٹ کر نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے خیالات میں لچک ہونی چاہیے ورنہ اس کے خیالات کسی ڈرامے یا فلم کے کردار کی ایک لمبی تقریر جیسے ہی ہوں گے۔ یہ بات ایک سیاستدان پر بھی صادق آتی ہے۔ سیاست بھی ایک تحریک کی طرح ہوتی ہے اور ایک سیاستدان کو بھی موبائل رہنا چاہیے اسے کبھی رائٹ تو کبھی لیفٹ کی طرف گھومنا چاہیے تو کبھی اس کے اندر کے تضادات اور شکوک بھی ابھرنے چاہیں۔ اسے مسلسل اپنے آپ کو بدلتے رہنا چاہیے اور چیزوں کو ٹیسٹ کرتے رہنا چاہیے۔ اس شخص پر ترس کھانا چاہیے جو ہر وقت اپنے بنیادی خیالات سے چمٹا رہے۔ ایک غیر مستقل مزاجی کسی بھی ذہین شخص اور منجھے ہوئے انسان کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ بات اندرا گاندھی کو سمجھ نہیں آتی تو پھر وہ اپنے سیاسی پیشے کی اس خوبصورتی سے ناآشنا ہے۔ یہ بات بہرحال مسز گاندھی کے والد نہرو کو اچھی طرح پتہ تھی۔‘‘
اس لیے ہارون صاحب کو یہ طعنہ نہیں بلکہ تھپکی ملنی چاہیے کہ وہ ایک جگہ رکے ہوئے پانی کی طرح نہیں جس سے بو آنا شروع ہو جاتی ہے بلکہ ان کے اندر نئے نئے خیالات کو جذب کر کے اپنے پرانے اور فرسودہ نظریات اور سوچ کو بدلنے کی اہلیت ہے جو پاکستان میں بہت کم دانشور اور لکھاریوں میں ہے کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑا انسان وہ سمجھا جاتا ہے جو اپنی تیس سال پہلے کی گئی کسی بات اور خیال پر قائم رہے اور اس پر اتراتا پھرے۔
مجھے بہت ساری ذاتی باتوں کا پتہ ہے کہ ہارون صاحب نے جنرل کیانی سے اچھا تعلق ہونے کے باوجود بھی ان سے بعض ملاقاتوں میں کتنی سخت باتیں کی ہیں۔ میں ابھی بھی ان کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستانیوں کو امریکہ یا امریکی سفیر سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہیں تھیں یا ہمیں ہر وقت اپنی ہر برائی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ڈھونڈنا چاہیے۔
جہاں عمران خان کے ساتھ دوستی کی بات ہے تو اس پر اتنی تنقید کی کہ ہمارے دوست حامد میرکو کہنا پڑ گیا کہ وہ زیادتی کر رہے تھے۔ ایک دو دفعہ تو عمران خان ان سے اتنے ناراض ہوئے کہ کئی دن رابطہ نہ رہا تو بھی پروا نہیں کی۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ طالبان بھی دشمن تھے، ان کے حامی اخبار نویس بھی، فوجی اعلیٰ قیادت بھی ناراض، عمران خان سے بول چال بند اور اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے قتل کی دھمکیاں لیکن پھر بھی میں نے انہیں کبھی پریشان نہیں دیکھا۔
ہارون الرشید نے مشاہد اللہ کے لیڈروں کی طرح نہ جنرل پرویز مشرف سے ملک چھوڑنے کی ڈیلیں کیں اور نہ ہی معافی نامے لکھ کر دیئے۔ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور جنرل مشرف کے دور میں اپنی پوری قوت سے اس وقت لکھا جب پی ایم ایل نواز کے بڑے بڑے لیڈر جنرل مشرف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈر کے مارے نام لینے کے بجائے اپنا ہاتھ کندھوں پر لے جاتے جس سے یہ تاثر دینا ہوتا تھا کہ وہ فوجیوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو بینظیر ملک چھوڑ جاتی ہیں،چوہدری اور عمران خان جنرل مشرف کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں اور نواز شریف صاحب معافی نامے لکھ کر اس قوم، صحافیوں اور دیگر اداروں کو اکیلا چھوڑ کر خود سرور پیلس اور لندن کے مزے لیتے ہیں۔ جب ان کی عدم موجودگی میں بڑی مشکلوں اور محنتوں سے جمہوریت واپس آتی ہے تو ہمارے یہ لیڈران لوٹ آتے ہیں اور پہلی گالی ہارون الرشید جیسے صحافیوں کو ملتی ہے۔
مجھے سینیٹر مشاہد اللہ کا یہ وعظ پڑھ کر وہ دن یاد آ رہا ہے جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف کو ان کے حواریوں نے یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا استقبال آیت اللہ خمینی کی طرح کیا جائے گا اور ابھی جہاز اسلام آباد کی فضا میں ہی تھا اور میاں صاحب مسلسل اپنے سیٹلائٹ فون سے اپنے لیڈروں کے فون ملا رہے تھے اور سب کے فون بند تھے۔ میاں صاحب کی کہانی فضا میں ہی ختم ہو گئی تھی اور پتہ نہیں اس وقت ٹی وی چینلز پر چنگھاڑتے اور منہ سے جھاگیں اڑانے والے پی ایم ایل نواز کے لیڈران کہاں تھے جو آج ہارون الرشید پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
ہارون صاحب نے ایک بار خود مجھے کہا کہ جتنا انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف لکھا اور بولا ہے اور جنرل ضیاء تک کی تعریفیں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے پی ایم ایل نواز پر اس طرح کبھی تنقید نہیں کی بلکہ کئی بار ان کے حق میں لکھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا تھا کہ انہوں نے کبھی ان کی تنقید پر انہیں گالی نہیں دی اور ان کے بقول پیپلز پارٹی میں برداشت مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
میں مسکرا پڑا اور صرف ان سے اتنا کہا کہ ہارون صاحب میں اسی چیز پر تو آپ سے بحث کرتا رہا ہوں کہ اب نواز شریف، شہباز شریف اور باقی سیاسی لیڈروں کے حق میں نہ لکھا کریں کہ اپوزیشن کے دنوں میں آپ جیسے لکھاری ان کے ہیرو ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد پہلی گالی آپ کو پڑتی ہے۔ اندر سے یہ سب ڈکٹیڑ ہیں کیونکہ ڈکٹیڑوں سے ہی سیاست سیکھی ہے۔
بھلا ہارون صاحب پہلے کب میری بات سنتے تھے کہ اب سنیں گے !
 
Last edited by a moderator:

Farooq Khan London

Politcal Worker (100+ posts)
Re: rply to mushahidullah by RAUF KULASRA

kya koi sahab bata sakte hain keh aaj kal raf kalasra kis newspaper mein apna colmn likhtey hain....thnx
 

fahid_asif

Senator (1k+ posts)
Re: rply to mushahidullah by RAUF KULASRA


آخر کیوں؟
ہارون الرشید میرے وہ واحد دوست ہیں جن کے خیالات سے میں سو فیصد تو نہیں لیکن ننانوے فیصد ضرور اختلاف کرتا ہوں۔ ہارون صاحب کا ذکر چلا ہے تو بتاتا چلوں کہ زندگی بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ ایسی چیزیں ہوتی ہیں اور ایسے لوگ ملتے ہیں جو آپ کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
میں ڈگری کالج لیہ میں 1990-91ء میں بی اے کا طالبعلم تھا کہ ہارون الرشید کی کتاب ’’فاتح‘‘ کا چرچا سنا۔ اتنے پیسے نہیں تھے کہ خرید سکتا ۔ اپنے مہربان ہاسٹل وارڈن پروفیسر ظفر حسین ظفر کی سفارشی چٹ لیکر اپنے کالج کے لائبریرین کے بیٹے کی کالج روڈ پر واقع کتابوں کی دکان ’’دارلکتاب‘‘ گیا اور محض اس وعدے پر وہ کتاب مستعار لے آیا کہ رات کو پڑھ کر صبح واپس کرنی ہوگی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میں نے ساری رات جاگ کر وہ کتاب پڑھی اور ہارون الرشید کی تحریر سے آشنا ہوا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی گئی اس کتاب نے ہمارے معاشرے میں جہاد کے کلچر کو پروموٹ کیا اور ایسے رومانوی کردار تخلیق کیے گئے جنہوں نے کچے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر ہارون صاحب کو اس طرح کا ایک رومانوی کردار تخلیق کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
ایک دفعہ پھر میرے گھر پر بیٹھے ہارون صاحب سے بہت شدید بحث ہوگئی۔ جب میں نے کہا کہ ہارون صاحب آپ ایسے کردار تخلیق کرتے رہتے ہیں اور خوب دل جمعی کے ساتھ ان کی کہانیاں اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو یوں لگتا ہے کہ خدا کے بعد اگر کوئی اس دنیا کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ وہی صاحب ہیں۔ ہارون صاحب نے مختصراً پوچھا مثلاً؟ میں نے جواب دیا کہ آپ کچھ عرصے بعد اپنے ہی کردار سے بور ہو جاتے ہیں اور نئے کردار کی تلاش میں پھر مگن۔ ہارون صاحب کو میں نے ان کے تخلیق کردہ انسانی بتوں کی تفصیل بتانا شروع کی۔ میں نے کہا آپ نے گلبدین حکمت یار کو ایک ایسا وار لارڈ بنا کر پیش کیا کہ لگتا تھا کہ وہ اکیلا اس دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس کی ایسی ایسی کہانیاں ہمیں سنائیں کہ ہم بڑے عرصے تک تو سنبھل ہی نہ سکے۔ اب برسوں ہوئے ان کا ذکر بھی آپ کے کالموں میں نہیں آتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد آپ نے جنرل حمید گل کی وہ کہانیاں ہمیں سنائیں کہ الامان۔ اب جنرل حمید گل اور آپ کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ شعیب سڈل سے لیکر ذوالفقار چیمہ اور اب عمران خان تک ایسے کرداروں کی فہرست بڑی لمبی ہے جن سے ایک مرحلے پر آپ خود بھی تھک جاتے ہیں۔
میں بولتا رہا اور وہ چپ کر کے سنتے رہے۔ میرا خیال تھا کہ اس کے جواب میں مجھے خاصی ڈوز سننے کو ملے گی۔ انہوں نے مختصراً اتنا کہا کہ یہ تمہاری سوچ ہے تم جو چاہو سوچتے رہو اور ساتھ ہی میری بیوی کو آواز لگائی کہ ذرا اچھی سی چائے بھجواؤ۔
اس بیک گراونڈ میں جب روزنامہ جنگ میں 16 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف اخبار کے آدھے صفحے پر پھیلے حملے نے مجھے مجبور کیا ہے کہ کچھ اس پر بھی اظہار خیال کیا جائے۔ اگرچہ آج بروز اتوار ہارون الرشید نے اپنے کالم ’’ناتمام‘‘ میں ان اعتراضات اور حملوں کا جواب دیا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ ہارون الرشید کا جواب پڑھ کر میں نے بھی سیکھا ہے کہ کیسے بعض دفعہ اپنے اوپر ہونے والے شدید حملوں کے باوجود ایک لکھاری کو کیسے اپنے ذاتی غصے کو ایک طرف رکھ کر محض پروفیشنل انداز میں جواب دینا چاہیے۔ شاید میرے جیسا کوئی اناڑی ہوتا تو کالم میں دلیل کے بجائے غصہ زیادہ جھلکتا۔ یہی بات ہارون الرشید کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ جارحانہ مزاج اور اپنی سخت پسند ناپسند کا خیال رکھنے کے باوجود ایسے موقعوں پر ایک پروفیشنل صحافی بن جاتے ہیں۔ صحافت کے کسی بھی طالبعلم کیلئے مشاہد اللہ کا ہارون الرشید کے خلاف لکھا گیا کالم اور اس کے جواب میں ہارون الرشید کا کالم ایک دلچسپ سٹڈی کے برابر ہے۔
میں ہارون صاحب کو 12 سال سے جانتا ہوں۔ وہ دوست کم اور فیملی ممبر زیادہ ہیں۔ ان برسوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ کونسا روز ہوگا جس دن میری ان سے ان کے بعض خیالات اور تحریروں پر تلخی کی حد تک بحث نہ ہوئی ہو۔ مجال ہے کہ بعض دفعہ میری گستاخی کے باوجود اس تعلق میں کوئی تھوڑی سی دراڑ بھی آئی ہو۔ بعض دفعہ تو گھر پر بیٹھے ہماری اونچی آوازیں سن کر میری اپنی بیوی پریشان ہو کر گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں جھانک کر لوٹ جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد کسی لطیفے پر ہمارے قہقہے سن کر وہ پھر یہ دیکھنے آتی ہے کہ یہ اچانک لڑائی جھگڑے کے دوران ایسا کونسا واقعہ ہو گیا تھا کہ دونوں صاحبان بیٹھے اب کسی بات پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
عمران خان کو انہوں نے کالموں میں پروموٹ کرنا شروع کیا تو بھی میں نے ان سے بحث کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ حضور آپ خود بھی کالم لکھتے ہیں اگر آپ کو عمران خان کی پالیسیاں پسند نہیں ہیں تو آپ خود تکلیف کیوں نہیں دیتے۔ میں مسکرا پڑا اور کہا ہارون صاحب عمران خان سے بہت سے اختلافات کے باوجود میرے پاس اس کے خلاف نہ لکھنے کی تین وجوہات ہیں۔
ہارون صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ جناب یہ معجزہ کب سے ہوا کہ کسی کی پالیسیوں کو آپ ناپسند بھی کرتے ہوں اور پھر بھی آپ کے پاس ایسی وجوہات ہیں کہ اس کے خلاف لکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پہلی وجہ میرا دس سال کا چھوٹا بیٹا ہے جس نے کبھی عمران کو کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا لیکن وہ پچھلے ایک سال سے مجھے مسلسل کہہ رہا ہے کہ بابا مجھے عمران خان کی پارٹی کا ممبر بنوا دیں۔ سو میں اپنے بیٹے کے ہیرو کے خلاف لکھ کر خود شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔
دوسری وجہ ہارون صاحب آپ ہیں۔ آپ عمران کے خیر خواہ ہیں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ کو اس سے کوئی ذاتی لالچ یا کام نہیں ہے۔ عمران کے خلاف لکھنے والے اور میں نے لکھ بھی دیا تو اس سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ عمران کے خلاف نہ لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس ملک پر سیاسی جماعتوں سے لیکر فوج اور مذہبی گروپوں نے حکومت کی ہے اور سب نے اسے پہلے سے ذیادہ تباہ کیا۔ ایک موقع عمران کو بھی ملنا چاہیے ہو سکتا ہے بہت سارے معاملات پر کنفیویژن کے باوجود وہ محض اپنے اوپر طاری اوور کانفیڈنس کی وجہ سے میرے دس سالہ بیٹے جیسے نوجوانوں کو شاید نئی راہ دکھا سکے۔ میں ان تمام نوجوانوں کے خواب نہیں توڑنا چاہتا اگر وہ عمران سے مایوس ہونا چاہتے ہیں تو وہ اپنے تجربے کے بعد مایوس ہوں نہ کہ میری تحریریں پڑھ کر۔
ہارون الرشید کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے اس وقت آیا جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے لندن سے اسلام آباد آئے۔ میں ابھی اس تاریخی فلائیٹ کا حصہ تھا۔ جو کچھ نواز شریف کے ساتھ جنرل مشرف کی حکومت اور سعودیوں نے کیا وہ میں نے اپنی آنکھوں سے ایئر پورٹ پر دیکھا اور اس کا پورا احوال اپنی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں بڑی تفصیل سے دیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جب میں ایئر پورٹ سے باہر نکلوں گا تو پورا پاکستانی میڈیا نواز شریف کے ساتھ اس برے سلوک کی کہانیاں سنا رہا ہوگا اور سعودی عرب کے اس رول پر تنقید ہو رہی ہوگی۔ جب میں ایئر پورٹ پر تین چار گھنٹوں کی لڑائی کے بعد گھر پہنچا اور ٹی وی آن کیا تو میں حیرانی سے بیہوش ہونے والا تھا کہ وہ سارے صحافی جنہیں میاں صاحب اپنے خرچے پر لندن سے ساتھ لائے تھے ٹی وی چینلز پر الٹا ان پر تنقید کر رہے تھے۔ کہیں بھی سعودیوں کا ذکر نہیں تھا۔
اگلے دن میں دی نیوز اور جنگ کیلئے سٹوری لکھی کہ کیسے نواز شریف کو سعودیوں نے اغوا کیا تھا۔ اسی دن نواز شریف کے حق اور جنرل مشرف اور سعودیوں کے خلاف میری سٹوری سے بھی زیادہ سخت کالم ہارون الرشید نے لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اس پر بس نہیں کیا اور اس موضوع پر سعودیوں کے خلاف ایک پاکستانی لیڈر کو یوں پاکستانی سرزمین سے زبردستی لے جانے پر ایک مہم شروع کی اور یوں جب مسلم لیگ نواز کے وہ بڑے بڑے لیڈر جو آج ہارون الرشید پر حملے کر رہے ہیں اپنے گھروں میں دبکے اور جنرل مشرف کے خوف سے گونگے بنے بیٹھے تھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک سچے اور بہادر صحافی کی طرح ہارون الرشید نے سعودیوں کے خلاف لکھا جن کے خلاف بولنا یا لکھنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا ۔ اور تو اور مسلم لیگ نواز کے اپنے حامی صحافی اور کالم نگار بھی سعودیوں کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ روایت بھی ہارون الرشید کے حصے میں آنی تھی جو آج اس سینیٹر کے حملوں کی زد میں ہیں جنہیں سینیٹ کا ٹکٹ بھی لندن میں واقع ریسٹورنٹ کے ایک مالک ریاض کے مرہون منت ہے جو شریف برادران اور ان کے سیاسی لیڈروں ورکروں اور ہمارے جیسے صحافیوں کے کھانے پینے کا خیال رکھتا تھا۔ میاں صاحب ریاض کے کھلائے گئے کھانوں اور وہ بھی مفت، سے بڑے خوش تھے۔ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے جلالی انداز میں پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس شریف النفس ریاض نے جسے میں نے لندن کے دنوں میں ایک اچھا انسان پایا تھا صرف اتنا بولا حضور مجھے خدا نے بہت کچھ دیا ہے اور میں لندن میں بہت خوش ہوں۔ آپ مناسب سمجھیں تو میرے دوست کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیں۔ یوں ریسٹورنٹ کے دو سال کے کھانوں کا بل سینٹ کا ٹکٹ دیکر ادا کر دیا گیا۔
میرا تو اس دن شریف برادران سے دل بھر گیا تھا یا ایک طرح سے ایمان اٹھ گیا تھا جس دن مکہ اور مدینے میں قسمیں کھانے اور لندن میں مجھے لمبے لمبے بھاشن کہ جنرل مشرف کے کسی وزیر یا ساتھی کو پارٹی میں واپس نہیں آنے دیں گے، کے باوجود بھی پاکستان پہنچتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ جنرل مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔ یہ وہی زاہد حامد تھے جو 10 ستمبر 2007ء کو تمام ٹی وی چینلز پر میاں صاحب کے وہ دستاویزی معاہدے اور معافی نامے دکھا رہے تھے جو انہوں نے جنرل مشرف کے نام لکھے تھے۔
تاہم ہارون صاحب کا میاں صاحبان کے ساتھ رومانس جاری رہا۔ ہارون صاحب کے پاس کسی کے خلاف یا حق میں لکھنے کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہارون صاحب سے میرا زیادہ بحث و مباحثہ اس بات پر ہوتا رہتا ہے کہ ان کے دل میں اچانک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی محبت پتہ نہیں کہاں سے امڈ کر آتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر موقع پر جب بھی شہباز شریف پنجاب میں اپنی یا اپنے حواریوں کی وجہ سے کسی بحران میں گھرے تو ہارون صاحب نے سب سے پہلے ان کے حق میں کالم لکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھا۔ گورنر راج لگا تو وہ ایک طرح سے ان شریفوں کے ترجمان بن گئے۔ دانش سکولوں کے پراجیکٹ پر اربوں روپے ضائع ہونے لگے تو وہ اس طیارے میں سوار تھے جو عوام کے ٹیکسوں سے اسلام آباد ایئر پورٹ سے اڑا اور انہیں رحیم یار خان لے گیا۔ میں نے کہا ہارون صاحب یہ دکھاوے کا کام ہے۔ یہ سیاستدان بڑے سیانے ہیں یہ صحافیوں کو جہاز کی سیر، اپنے ساتھ چائے پانی اور تھوڑا سا مصنوعی احترام دکھا کر استعمال کرتے ہیں۔ میرے جیسے دیہاتوں سے آئے ہوئے لوئر مڈل کلاس کے صحافی جنہیں اگر کوئی دیہات میں سپاہی بھی سلام کر لے تو وہ کئی دنوں تک اپنا ہاتھ نہیں دھوتے اچانک جب شہروں میں آ کر صحافی بنتے ہیں اور ان کا میل جول صدر، وزیر اعظم، وزیروں اور بڑے بڑے بیورو کریٹس سے ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے گوتم بدھ کی طرح برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ کر نروان پا لیا اور پھر پوری عمر ان سیاستدانوں کے طبلے بجانے میں گزر جاتی ہے۔ بڑا صحافی وہ سمجھا جاتا ہے جو حکمرانوں کے دربار میں اٹھتا بیٹھتا ہو اور اگلے دن ان کی شان میں قصیدے لکھے نہ کہ بڑا صحافی وہ ہوتا ہے جو بڑی خبر لائے اور عوام کے ساتھ کھڑا رہے۔ اگر حکمران اچھا کام کرتے ہیں تو کونسا احسان کرتے ہیں کہ اچھا کام کرنے کیلئے ہی تو وہ ہمارے اربوں روپے کے ٹیکسوں پر عیاشی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھا کام بھی ایک احسان کے طور پر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنا فرض جان کر۔
ہارون صاحب نے میرا یہ طویل وعظ سنا اور مختصراً بولے کہ بھائی یہ تمہارا پوائنٹ آف ویو ہے۔ میں تو جاؤں گا اور وہ گئے اور واپسی پر شہباز شریف کی شان میں کالم بھی لکھا۔
ہارون صاحب نے نواز شریف، شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کی شان میں کئی دفعہ ایسی تحریریں بھی لکھیں جن سے مجھے خاصا اختلاف تھا مثلاً جو حشر چوہدری نثار علی خان نے روالپنڈی کا کیا ہوا ہے اور جتنی رعونت اور تکبر میں نے اس انسان میں دیکھا ہے اور جیسے اس کے دل میں عام انسانوں کیلئے نفرت آنکھوں سے چھلکتی پائی ہے، اس کے باوجود بھی ہارون الرشید کے کالم میں اس کی شان میں لکھا گیا ایک فقرہ بھی چھبتا ہے۔
میرے اعتراضات سن کر ہارون صاحب ہمیشہ کہتے کہ تمہیں یہ پتہ ہے کہ میں کسی کے خلاف یا حق میں کوئی ذاتی لالچ کی وجہ سے نہیں لکھتا ہو سکتا ہے کہ میری ججمنٹ میں غلطی ہو نیت میں نہیں۔
کئی دفعہ ان سے بحث ہوئی کہ سیاستدان صحافیوں کو استعمال کرنا جانتے ہیں۔ جب یہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو آپ کے نام کے ساتھ فوری طور پر بھائی کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ سے بڑا انٹی اسٹیبلشمنٹ، بہادر، دلیر اور ایماندار صحافی اور کالم نگار کوئی نہیں ہوتا۔ جونہی یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو پھر اپنی پارٹی کی صفوں میں موجود مشاہد اللہ جیسے کرداروں سے آپ پر حملے کراتے ہیں۔ میرا ایمان تو ان سیاستدانوں سے بہت پہلے سے اٹھ گیا تھا۔ اب تو نہ میں ان کی تعریف سے متاثر ہوتا ہوں اور نہ ان کی تنقید مجھے پریشان کرتی ہے کہ ہمارا تعلق گھوڑے اور گھاس والا ہے اگر دونوں دوستی کریں گے تو پھر صحافی بھوکا مرے گا۔
میری اس پر بھی ہارون صاحب سے بڑی بحث ہوئی کہ آپ ابھی تک جنرل ضیاء کی امریکیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑی گئی جنگ کو تو جہاد سمجھتے رہے ہیں جس نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جب ہارون صاحب نے یہ سمجھا کہ وہی جنگجو مذہبی عناصر جن کے حق میں وہ کبھی لکھتے تھے اس ملک کیلئے شدید خطرہ بن چکے تھے تو میرا خیال ہے کہ وہ پہلے کالم نگار تھے جنہوں نے طالبان کے خلاف اس وقت پوری شدت کے ساتھ لکھنا اور بولنا شروع کیا جب کسی کو ایک لفظ بولنے کی بھی جرات نہیں ہوتی تھی۔
بہت سارے لوگ ان کی اس لائن بدلنے پر حیران بھی ہوئے اور دشمن بھی بنے۔ اور تو اور ایک دفعہ میرے دوست حسن نثار نے مجھ سے حیرانی سے پوچھا کہ یار استاد ہارون الرشید میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ ذہین لوگ اپنی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سامنے اپنے خیالات کے خلاف نئی دلیلیں دیکھ کر اپنی سوچ بدل لیتے ہیں اور یہ کام صرف ایک ذہین اور پڑھا لکھا شخص کر سکتا ہے۔ جاہل لوگ ساری عمر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ آج بھی اسی بات پر قائم تھے جو انہوں نے تیس برس پہلے کی تھی۔
مشاہد اللہ کا ہارون صاحب کے بارے میں یہ طعنہ پڑھ کرکہ وہ اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں، مجھے اورینہ فلاسی کی شہرہ آفاق کتاب “An interview with history” میں بھٹو صاحب سے پوچھا گیا اسی سے ملتا جلتا ایک سوال یاد آ گیا۔
اورینہ فلاسی نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ اندرا گاندھی کہتی تھی کہ وہ ایک غیر متوازن شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ بھٹو صاحب ایک دن ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے دن دوسری۔ ان کے بارے میں کسی کو کوئی پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ اپنے بارے میں اندرا گاندھی کا یہ تبصرہ سن کر بھٹو صاحب نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ واقعی انہوں نے یہ بات کی تھی۔
بھٹو صاحب بولے کہ ’’مجھے مشہور فلاسفر لاک کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے کہ Consistency is a virtue of small minds۔
بھٹو صاحب نے بتایا کہ آپ کا کوئی بنیادی اصول اور تصور ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے اندر بھی تبدیلی کی گنجائش رکھنی چاہیے آپ کبھی ایک پول پر چلے جائیں تو کبھی دوسرے پر۔ ایک دانشور کو صرف ایک خیال کے ساتھ چمٹ کر نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے خیالات میں لچک ہونی چاہیے ورنہ اس کے خیالات کسی ڈرامے یا فلم کے کردار کی ایک لمبی تقریر جیسے ہی ہوں گے۔ یہ بات ایک سیاستدان پر بھی صادق آتی ہے۔ سیاست بھی ایک تحریک کی طرح ہوتی ہے اور ایک سیاستدان کو بھی موبائل رہنا چاہیے اسے کبھی رائٹ تو کبھی لیفٹ کی طرف گھومنا چاہیے تو کبھی اس کے اندر کے تضادات اور شکوک بھی ابھرنے چاہیں۔ اسے مسلسل اپنے آپ کو بدلتے رہنا چاہیے اور چیزوں کو ٹیسٹ کرتے رہنا چاہیے۔ اس شخص پر ترس کھانا چاہیے جو ہر وقت اپنے بنیادی خیالات سے چمٹا رہے۔ ایک غیر مستقل مزاجی کسی بھی ذہین شخص اور منجھے ہوئے انسان کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ بات اندرا گاندھی کو سمجھ نہیں آتی تو پھر وہ اپنے سیاسی پیشے کی اس خوبصورتی سے ناآشنا ہے۔ یہ بات بہرحال مسز گاندھی کے والد نہرو کو اچھی طرح پتہ تھی۔‘‘
اس لیے ہارون صاحب کو یہ طعنہ نہیں بلکہ تھپکی ملنی چاہیے کہ وہ ایک جگہ رکے ہوئے پانی کی طرح نہیں جس سے بو آنا شروع ہو جاتی ہے بلکہ ان کے اندر نئے نئے خیالات کو جذب کر کے اپنے پرانے اور فرسودہ نظریات اور سوچ کو بدلنے کی اہلیت ہے جو پاکستان میں بہت کم دانشور اور لکھاریوں میں ہے کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑا انسان وہ سمجھا جاتا ہے جو اپنی تیس سال پہلے کی گئی کسی بات اور خیال پر قائم رہے اور اس پر اتراتا پھرے۔
مجھے بہت ساری ذاتی باتوں کا پتہ ہے کہ ہارون صاحب نے جنرل کیانی سے اچھا تعلق ہونے کے باوجود بھی ان سے بعض ملاقاتوں میں کتنی سخت باتیں کی ہیں۔ میں ابھی بھی ان کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستانیوں کو امریکہ یا امریکی سفیر سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہیں تھیں یا ہمیں ہر وقت اپنی ہر برائی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ڈھونڈنا چاہیے۔
جہاں عمران خان کے ساتھ دوستی کی بات ہے تو اس پر اتنی تنقید کی کہ ہمارے دوست حامد میرکو کہنا پڑ گیا کہ وہ زیادتی کر رہے تھے۔ ایک دو دفعہ تو عمران خان ان سے اتنے ناراض ہوئے کہ کئی دن رابطہ نہ رہا تو بھی پروا نہیں کی۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ طالبان بھی دشمن تھے، ان کے حامی اخبار نویس بھی، فوجی اعلیٰ قیادت بھی ناراض، عمران خان سے بول چال بند اور اسلام آباد کے پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے قتل کی دھمکیاں لیکن پھر بھی میں نے انہیں کبھی پریشان نہیں دیکھا۔
ہارون الرشید نے مشاہد اللہ کے لیڈروں کی طرح نہ جنرل پرویز مشرف سے ملک چھوڑنے کی ڈیلیں کیں اور نہ ہی معافی نامے لکھ کر دیئے۔ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور جنرل مشرف کے دور میں اپنی پوری قوت سے اس وقت لکھا جب پی ایم ایل نواز کے بڑے بڑے لیڈر جنرل مشرف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈر کے مارے نام لینے کے بجائے اپنا ہاتھ کندھوں پر لے جاتے جس سے یہ تاثر دینا ہوتا تھا کہ وہ فوجیوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو بینظیر ملک چھوڑ جاتی ہیں،چوہدری اور عمران خان جنرل مشرف کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں اور نواز شریف صاحب معافی نامے لکھ کر اس قوم، صحافیوں اور دیگر اداروں کو اکیلا چھوڑ کر خود سرور پیلس اور لندن کے مزے لیتے ہیں۔ جب ان کی عدم موجودگی میں بڑی مشکلوں اور محنتوں سے جمہوریت واپس آتی ہے تو ہمارے یہ لیڈران لوٹ آتے ہیں اور پہلی گالی ہارون الرشید جیسے صحافیوں کو ملتی ہے۔
مجھے سینیٹر مشاہد اللہ کا یہ وعظ پڑھ کر وہ دن یاد آ رہا ہے جب 10 ستمبر 2007ء کو نواز شریف کو ان کے حواریوں نے یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ان کا استقبال آیت اللہ خمینی کی طرح کیا جائے گا اور ابھی جہاز اسلام آباد کی فضا میں ہی تھا اور میاں صاحب مسلسل اپنے سیٹلائٹ فون سے اپنے لیڈروں کے فون ملا رہے تھے اور سب کے فون بند تھے۔ میاں صاحب کی کہانی فضا میں ہی ختم ہو گئی تھی اور پتہ نہیں اس وقت ٹی وی چینلز پر چنگھاڑتے اور منہ سے جھاگیں اڑانے والے پی ایم ایل نواز کے لیڈران کہاں تھے جو آج ہارون الرشید پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
ہارون صاحب نے ایک بار خود مجھے کہا کہ جتنا انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف لکھا اور بولا ہے اور جنرل ضیاء تک کی تعریفیں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے پی ایم ایل نواز پر اس طرح کبھی تنقید نہیں کی بلکہ کئی بار ان کے حق میں لکھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا تھا کہ انہوں نے کبھی ان کی تنقید پر انہیں گالی نہیں دی اور ان کے بقول پیپلز پارٹی میں برداشت مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
میں مسکرا پڑا اور صرف ان سے اتنا کہا کہ ہارون صاحب میں اسی چیز پر تو آپ سے بحث کرتا رہا ہوں کہ اب نواز شریف، شہباز شریف اور باقی سیاسی لیڈروں کے حق میں نہ لکھا کریں کہ اپوزیشن کے دنوں میں آپ جیسے لکھاری ان کے ہیرو ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد پہلی گالی آپ کو پڑتی ہے۔ اندر سے یہ سب ڈکٹیڑ ہیں کیونکہ ڈکٹیڑوں سے ہی سیاست سیکھی ہے۔
بھلا ہارون صاحب پہلے کب میری بات سنتے تھے کہ اب سنیں گے !
 

enigma_1357

MPA (400+ posts)
Re: rply to mushahidullah by RAUF KULASRA

Rauf klasar! tum nein journalism ka haq ada kar dia :).

ALLAH tumhein khosh rakhey. Ameen