کپتان نیازی ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے . جیسے جیسے دھرنا اسلامآباد کے نزدیک پہنچ رہا ہے کپتان نیازی کے خوف میں اضافہ ہو رہا ہے . دھرنے کا مقابلہ کرنے کے لیے دو پیکٹ پاوڈر وہ پہلے سے منگوا چکا ہے لیکن اسے اس بات کا خوف کھاتا جا رہا ہے اقتدار کے بعد اس کا انجام کیا ہو گا . کیا اس کی اور اس کے خاندان کی باقی زندگی جیل میں گزرے گی کیا اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جاۓ گا جو اس نے دھرنے میں سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی یا پھر اسے جو اشتہاری قرار دیا گیا ہے اس میں اسے سزا ہو گی . آخر وہ اپنی باقی زندگی کس کال کوٹھری میں گزارے گا
پرائی شادی میں عبدللہ بیگانہ کی طرح کپتان کو کیا خبر باہر کیا ہو رہا ہے . آخر نواز شریف کے ساتھ کون ڈیل کر رہا ہے . کیوں اس کی ضمانتوں کے ٹوکن ہو رہے ہیں . کپتان جب ایسے مناظر ٹی وی پر دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو نکل جاتے ہیں . وہ سوچتا ہے کیا وہ ایک ڈونکی مطلب کھوتا ہے جس کے سامنے طاقتور حلقے اپنا کھیل کھیل رہے اور وہ بس ڈھینچو ڈھینچو کر رہا پھر اس کی پنکی اسے بتاتی ہے میرے کپتان تم کھوتے نہیں بلکہ میرے کروڑوں موکلات کے بادشاہ ہو . کیا ہوا جو تمہیں اس ملک پر اختیار نہیں تم میرے طلسم ہوشربا کے دیوتا ہو . کپتان خوف میں تسبیح کے دانے گھماتا ہے لیکن اب اس کی تقدیر کا پہیہ بھی گھوم چکا ہے
یہ سارا جال طاقتور حلقوں نے کپتان ڈونکی کے گرد اسی لیے باندھا تھا کہ وہ اس قوم کو ایک کھوتا دکھا کر خود شیر بننا چاہتے تھے . کپتان نے کھوتا بننا منظور کیا اور کرسی کے لالچ میں اتنا گرا اتنا گرا کہ زمیں بوس ہو گیا .وہ یہ ہی چاہتے تھے کہ ملک میں انارکی پھیلے اور اقتدار ملے اسی لیے اھلا و سھلا مولانا کے نعرے اسلامآباد میں لگاۓ جا رہے . ایک جم غفیر جو کپتان نیازی کا راج تاراج کرنے کے لیے بس ایک بہانہ ہے اور کپتان کی کہانی ختم اب وہ جیل کی کال کوٹھڑیوں سے ایک کتاب لکھے گا جس میں وہ اپنی زندگی کا نچوڑ مطلب خواتین سے ڈیلنگ کے کامیاب طریقے لکھے گا . آخر کیسے اس نے ایک باپردہ پیرنی کو بھی نہ چھوڑا وہ تمام راز کی باتیں ایک دن اگلے گا جسے حاصل کر کے اس کی قوم یوتھ اسے اپنا مسیحا مانے گی اور اس کی یہ کتاب ان کے لیے مشعل راہ ہو گی
پرائی شادی میں عبدللہ بیگانہ کی طرح کپتان کو کیا خبر باہر کیا ہو رہا ہے . آخر نواز شریف کے ساتھ کون ڈیل کر رہا ہے . کیوں اس کی ضمانتوں کے ٹوکن ہو رہے ہیں . کپتان جب ایسے مناظر ٹی وی پر دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو نکل جاتے ہیں . وہ سوچتا ہے کیا وہ ایک ڈونکی مطلب کھوتا ہے جس کے سامنے طاقتور حلقے اپنا کھیل کھیل رہے اور وہ بس ڈھینچو ڈھینچو کر رہا پھر اس کی پنکی اسے بتاتی ہے میرے کپتان تم کھوتے نہیں بلکہ میرے کروڑوں موکلات کے بادشاہ ہو . کیا ہوا جو تمہیں اس ملک پر اختیار نہیں تم میرے طلسم ہوشربا کے دیوتا ہو . کپتان خوف میں تسبیح کے دانے گھماتا ہے لیکن اب اس کی تقدیر کا پہیہ بھی گھوم چکا ہے
یہ سارا جال طاقتور حلقوں نے کپتان ڈونکی کے گرد اسی لیے باندھا تھا کہ وہ اس قوم کو ایک کھوتا دکھا کر خود شیر بننا چاہتے تھے . کپتان نے کھوتا بننا منظور کیا اور کرسی کے لالچ میں اتنا گرا اتنا گرا کہ زمیں بوس ہو گیا .وہ یہ ہی چاہتے تھے کہ ملک میں انارکی پھیلے اور اقتدار ملے اسی لیے اھلا و سھلا مولانا کے نعرے اسلامآباد میں لگاۓ جا رہے . ایک جم غفیر جو کپتان نیازی کا راج تاراج کرنے کے لیے بس ایک بہانہ ہے اور کپتان کی کہانی ختم اب وہ جیل کی کال کوٹھڑیوں سے ایک کتاب لکھے گا جس میں وہ اپنی زندگی کا نچوڑ مطلب خواتین سے ڈیلنگ کے کامیاب طریقے لکھے گا . آخر کیسے اس نے ایک باپردہ پیرنی کو بھی نہ چھوڑا وہ تمام راز کی باتیں ایک دن اگلے گا جسے حاصل کر کے اس کی قوم یوتھ اسے اپنا مسیحا مانے گی اور اس کی یہ کتاب ان کے لیے مشعل راہ ہو گی