کیا کالا باغ ڈیم اب بھی ہماری ضرورت نہیں؟

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
پھر تیری تربیت ہی ایسی ہے ،میں کیا کر سکتا ہوں ،عادتیں پختہ ہو جائیں اس عمر میں تو تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ، بس جاری رکھو تبدیلی کے نام پر

جیسی تیرے باپ کی تربیت ویسی میری بھی تربیت ، کیوں کہ تو میرا بھتیجا ہے
لیکن تیری تربیت میں بہت خرابی ہے ، منافقوں کی صحبت کا اثر ہے

کوئی نہی ، اللہ اچھا کرے گا



تو نے اصل جواب نہی دیا کہ مشرف کے دور میں تمہاری صوبائی حکومت نے یہ ڈیم کیوں نہی بنایا ؟؟؟
تجھے صرف گالیاں دینی آتی ہے بات کا جواب دینا نہی
 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
جیسی تیرے باپ کی تربیت ویسی میری بھی تربیت ، کیوں کہ تو میرا بھتیجا ہے
لیکن تیری تربیت میں بہت خرابی ہے ، منافقوں کی صحبت کا اثر ہے

کوئی نہی ، اللہ اچھا کرے گا



تو نے اصل جواب نہی دیا کہ مشرف کے دور میں تمہاری صوبائی حکومت نے یہ ڈیم کیوں نہی بنایا ؟؟؟
تجھے صرف گالیاں دینی آتی ہے بات کا جواب دینا نہی

پھر تو تیری عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے ہر وقت ،یہ مرکزی حکومت کا منصوبہ ہے، بات کرو یہ ہونا چاہئے یا نہیں ،تم اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہر وقت زہر اگلنا شروع کر دو . تبدیلی کے نام پر ، پھر آئی تبدیلی یا نہیں ؟؟ کوئی خبر سناؤ چاچا تبدیلی کی ،اگر یہ منصوبہ صوبائی حکومت کا ہوتا تو اب تک عمران خان نے کیوں نہیں کیا ؟؟ بس یہ زہر دیکھنا کسی وقت الٹا نہ ہو جائے تمہارے اوپر
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم

پھر تو تیری عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے ہر وقت ،یہ مرکزی حکومت کا منصوبہ ہے، بات کرو یہ ہونا چاہئے یا نہیں ،تم اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہر وقت زہر اگلنا شروع کر دو . تبدیلی کے نام پر ، پھر آئی تبدیلی یا نہیں ؟؟ کوئی خبر سناؤ چاچا تبدیلی کی ،اگر یہ منصوبہ صوبائی حکومت کا ہوتا تو اب تک عمران خان نے کیوں نہیں کیا ؟؟ بس یہ زہر دیکھنا کسی وقت الٹا نہ ہو جائے تمہارے اوپر


او جاہل آدمی ، مشرف تیار تھا کالاباغ بنانے پر ، صوبے میں تمہاری حکومت تھی ، لیکن اس وقت تم نے ساتھ نہی دیا
اس وقت تم نے کوئی مؤمنٹ نہی چلائی کہ کالا باغ بناؤ ، کیوں کہ تم تو نیٹو سپلائی پہنچنانے کے ذمہ دار تھے ، ترقی کے نہی

اب تمہیں کوئی بیغرت نا کہے تو کیا کہے
 

IhsanIlahi

Chief Minister (5k+ posts)
ZA Chaudry filhaal tumhari zaroorat KPK ki govt hai... is liye system bacha rahy ho...
ye din bhi any waly thy qazi saab k death k baad....
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
ZA Chaudry filhaal tumhari zaroorat KPK ki govt hai... is liye system bacha rahy ho...
ye din bhi any waly thy qazi saab k death k baad....

Bhai Jaan jaldi jaldi ilan kero alag hone ka, dair kis baat ki...........Imran Khan sahib se guzarish hai keh KPK main aa ker khud hakoomat ki nigrani karain, ziada zaroorat hai to assembly se istefa de dain, sub propeganda dam tor jaie ga.
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

او جاہل آدمی ، مشرف تیار تھا کالاباغ بنانے پر ، صوبے میں تمہاری حکومت تھی ، لیکن اس وقت تم نے ساتھ نہی دیا
اس وقت تم نے کوئی مؤمنٹ نہی چلائی کہ کالا باغ بناؤ ، کیوں کہ تم تو نیٹو سپلائی پہنچنانے کے ذمہ دار تھے ، ترقی کے نہی

اب تمہیں کوئی بیغرت نا کہے تو کیا کہے


اب مشرف کا نمائندہ تو ہے ، مجھے کوئی ثبوت دکھاؤ ،جس میں اس نے صوبائی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ڈیم بنائیں ،اور ان کے انکار کی وجہ بھی ،اب تم تسبی لیکر ہر وقت قوم کو گالیاں دیتے رہو ،تیرے کرتوتوں سے فورم واقف ہے، اور تیرا جھوٹا پروپیگنڈہ الٹا تیرا منہ چڑھا رہا ہے . اب تم بتاؤ بننا چاہئے یا نہیں ؟
ہر وقت لکیر کو پیٹنے کے لئے تیرے پاس وقت ہے عمل کے لئے کچھ نہیں ،اس عمر میں تو چڑچڑا ہو گیا ہے چاچا
 

monh zorr

Minister (2k+ posts)
ڈیم اور اسی طرح کی ترقیاتی اسکیموں کی دشمن قوتیں دراصل اس ملک کی دشمن قوتیں ہوتی ہیں
پاکستان میں بھی،تعمیر و ترقی کی مخالف قوتوں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے
قوم اس طرح آسانی سے اپنے دشمنوں کو پہچان سکتی ہے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم


اب مشرف کا نمائندہ تو ہے ، مجھے کوئی ثبوت دکھاؤ ،جس میں اس نے صوبائی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ڈیم بنائیں ،اور ان کے انکار کی وجہ بھی ،اب تم تسبی لیکر ہر وقت قوم کو گالیاں دیتے رہو ،تیرے کرتوتوں سے فورم واقف ہے، اور تیرا جھوٹا پروپیگنڈہ الٹا تیرا منہ چڑھا رہا ہے . اب تم بتاؤ بننا چاہئے یا نہیں ؟
ہر وقت لکیر کو پیٹنے کے لئے تیرے پاس وقت ہے عمل کے لئے کچھ نہیں ،اس عمر میں تو چڑچڑا ہو گیا ہے چاچا

صرف مجھے گالیاں دینا تیرا کام ہے ، اپنے کو نہی دیکھتے
کوئی بات نہی ناجایز بھتیجے ایسے ہی ہوتے ہیں

تم مجھے دیکھاو کہ جماعت نے ایک مرتبہ بھی کالا با غ ڈیم کا نام لیا ہو مشرف دور میں ؟؟؟جبکہ تم ھکومت میں تھے

جب کہ مشرف بنانا چاہتا تھا ، تم اپنا بیان دکھاؤ ؟؟؟
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

صرف مجھے گالیاں دینا تیرا کام ہے ، اپنے کو نہی دیکھتے
کوئی بات نہی ناجایز بھتیجے ایسے ہی ہوتے ہیں

تم مجھے دیکھاو کہ جماعت نے ایک مرتبہ بھی کالا با غ ڈیم کا نام لیا ہو مشرف دور میں ؟؟؟جبکہ تم ھکومت میں تھے

جب کہ مشرف بنانا چاہتا تھا ، تم اپنا بیان دکھاؤ ؟؟؟


کالاباغ ڈیم کی تعمیر۔۔۔مجرمانہ غفلت کہ مجبوری؟


پانی انسان کی اولین ضرورت ہے شاید اس لیے ربِ کائنات نے سب سے پہلے پانی کو پیدا کیا۔ اب بھی زمین کے تقریباً 27 فی صد حصے پر خشکی ہے 73 فی صد حصے پرپانی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ضرورت ہے اس کے بغیرزندگی ناممکن ہے بنی آدم نے بھی ہمیشہ پانی کے قریب اپنی رہائش اختیار کی۔ نظر آرہا ہے کہ قوموں میں پانی کی مناسب تقسیم کی وجہ سے آئندہ جنگیں ہونگی۔اس لےہر حکومت اپنے عوام کی ضرورت کے لیے پانی کا مناسب انتظام کرتی ہے۔پاکستان ہمالیہ کی ڈھلان پر واقع ہے اس لیے ہمالیہ کااس سمت کاپانی پاکستان مین مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہے پاکستان کی سرزمن میں پانچ دریا بہتے ہیں پنندی کے مقام پر آپس مں مل کر ایک ہو جاتے ہیں پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔


پاک بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کی طرف بہنے والے تن دریا،ستلج،راوی اور چناب کے پانی بھارت کو دے دیئے گئے اور پاکستان کے پاس جہلم اور سندھ دریا رہ گئے ۔ان تین دریاﺅں کا پانی بھارت کے پاس چلے جانے کی وجہ سے جہلم اور سندھ کے پانی کو بڑی بڑی نہریں بنا کر واپس ان دریاﺅں کے پاٹ مں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ ان کے زیرین علاقوں مں آبپاشی کے نظام کو پانی ملتا رہے۔پاکستان نے جہلم پر منگلا اور سندھ پر تربےلا ڈےم بنا کر اپنے پانی کو کنٹرول کرنے کا انتظام کاا ہوا ہے باقی بند اس کے علاوہ ہیں جو آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کے کام آتے ہیں ۔آبادی بڑھنے سے غذائی اور توانائی کی ضرورت کے تحت زمین پر زیادہ کاشتکاری کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ بجلی کی مانگ کے لئے ڈیم کی ضرورت ہے اس کے لے موجودہ پانی بہت ہی کم پڑتا ہے۔


سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے جہلم اور سندھ کا پانی بھی روکنا شروع کر دیا ہے بلکہ کافی حد تک روک کر اپنے علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے پاکستان نے بھارت کے خلاف بنے الاقوامی اداروں میں مقدمے قائم کئے ہوئے ہں ۔ان سب باتوں کے باوجود پاکستان میں بارشوں کے سیزن میں پانی ذخرہ کرنے کا انتظام نہ ہو تو پانی ضائع ہو جاتاہے دوسرا انسانی جانوں اور مالوں کا نقصان بھی ہوتا ہے جس کا مظاہرہ ہم 2010ءاور موجودہ سیلابی کیفیت کے دوران پہلے بھی دیکھ چکے ہں اب بھی دیکھ رہے ہںاباوجود براونی اور پاکستانی قوم کی امداد کے اب تک سیلاب کی تباہ کاریوں کا مداوہ نہیں ہو سکا۔ قومی ترقی آبپاشی اور بجلی پانی سے ممکن ہے اس لے وقت کی یہ مجبوری ہے اورکالاباغ ڈیم بہت ضروری ہے ویسے بھی کالا ڈیم پر ابتدائی طور پر دو ارب پچاس کروڑروپے خرچ کرنے کے بعد اس کی تعمری کواُدھورا چھوڑ دینا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ اس کے علاوہ آئے دن پانی کی قلت کی وجہ سے صوبوں میں لے دے ہوتی رہتی ہے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک مںو پر تشددہنگامے ہو رہے ہںن۔ہمارے کارخانے بند ہو گئے ہں ، ہماری زمںںائ بنجر ہو رہی ہںر کالا باغ ڈیم پن سے بجلی پدلا کرنے کا سستا منصوبہ ہے۔یہ کالا باغ کے مقام ضلع میاں والی پنجاب مں مٹی سے بند بنا کر بنانے کی تجویز ہے۔


ڈیم کا منصوبہ عالمی مالیاتی اور تحقیقاتی اداروں کی فزیبلٹی رپورٹس کے بعد شروع کیا گیا تھا ورلڈ بنک پہلے اور اب بھی فنڈ دینے پر آمادہ ہے ماہرین کے مطابق پاکستان مطلوبہ دنوں تک پانی کا ذخر ہ محفوظ کر سکتا جب کے دنیا کے کئی ممالک کئی سال تک کاپانی اسٹور کر سکتے ہیں ہمارا پڑوسی بھارت چھ ماہ سے ایک سال تک کا پانی اسٹور کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی259 فٹ تجویز کی گئی ہے۔61 ہزار فٹ ایریا مںو پانی اسٹور کرنے کا پروگرام ہے۔170 فٹ اونچائی سے پانی گرا کر 3600مگاتواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک کے مستقل ایڈوائزر جناب بشرو اے ملک کا کہنا ہے اگر ڈیم نہ بنا تو سندھ اور خبرم پختوخواہ کی زمین خشک ہو گی ۔ویسے بھی اس میں کوئی ٹیکنیکل رکاوٹ نہیں ملک کی پانی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کا اعلان 1984 ءمیں ورلڈ بنک کے تعاون سے کیا گیا تھا ۔جس نے پانچ سال کی قلیل مدت میں مکمل ہونا تھا۔ ماہرین کی رپورٹ کے مطابق اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8 ایکڑ فٹ اور قابل استعمال پانی کا ذخرمہ6 ملنپ ایکڑ فٹ ہوتا اگر بارشوں کے موسم میں پانی کو ذخیرہ کر لیا جائے اور ایسے ڈیم پاکستان میں جہاں جہاں ممکن ہوں بنا لئے جاتے تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے عوام کو بھی بچایا جا سکتاتھا یہی بات پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گلاڈنی صاحب نے بھی 2010ءکے سلا ب کے موقعے پر فرمائی تھی ڈیم سے 3600 مگاکواٹ بجلی اور سالانہ 1.6 ارب ڈالر کی سستی بجلی حاصل ہو سکے گی۔ جس سے ہمارے ملک کی غربت کا خاتمہ ،بے روز گاری اور معاشی ترقی صرف سستی بجلی سے ہی ممکن ہے۔


کاش! اگر ڈیم بن جاتا تو آج جو عوام بجلی کےلئے ترس رہے ہں ، فکٹرییاں جوبند ہو رہی ہیں جس سے باہر سے زرمبادلہ نہیں آ سکتا، عوام بے روزگار ہو رہے عوام اور خودکشی پر مجبور ہورہے ہںی ، مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے،ہسپتالوں کے اندر لوڈ شڈ نگ کی وجہ سے موت و زندگی مںر مبتلا مریضوں کے آپریشن نہیں ہو سکتے، لوگ کرب میں مبتلا ہیں ، پانی کی موٹریں نہں چل سکتیں جس سے شہروں مں پانی کی سپلائی مںم خلل پڑتاہے ، لوڈشڈکنگ کی وجہ سے بازاروں مں کاروبار نہں ہو سکتا، بچے امتحانوں کی تایری نہں کر سکتے ڈیم پر جو 8ارب ڈالر لاگت تخمینہ تھا وہ ڈیم اپنی لاگت 5سال مںگ پوری کر لے گا پھر سالانہ آمدنی1.6 ارب ڈالے کی آمدنی کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے دروازے پربار بار قرض کی بھکہ نہ مانگتا ڈیم سے کل 83000 افراد بے گھر ہو تےیہ کم از کم قربانی ہے دنیا میں قومی مفادات کے لےقومیں بڑی بڑی قربانایں دیتی آئی ہں تب جا کر قوموں کا وقار بلند ہوتا ہے۔ ڈیم سے سارا پاکستان مستفض ہوتا ۔جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے توڈیم سے پنجاب کے وہ علاقے جس میں پانی کی قلت ہے اور خصوصاً تھل ڈیولپمنٹ اتھارٹی والے علاقے سر۔اب ہوتے ۔ ڈیم سے صوبہ پختونخواہ مںہ دریا سے بلندی پر واقع 8 لاکھ ایکڑرقبہ زیرِکاشت آتا۔ڈیم سے صوبہ سندھ مںے خریف کی فصل کی کاشت کے لےپ ذخرںہ کات ہوا پانی دستاڈب ہو تا جس کی شدید قلت ہے۔ڈیم سے بلوچستان کے مداانی علاقے جو دریا سندھ کے قریب ہںں اور کچھی کےنال مںل پانی کی مقدار سے فائدہ اُٹھاتے ۔ ڈیم سے انڈس ڈیلٹا کی سم زدہ 20لاکھ ایکڑ زمنل قابل کاشت ہو جاتی جس سے ملک کی غذائی ضرورت پوری ہوتی بلکہ غلہ باہر ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جاتااور زرمبادلہ کمایا جا سکتا تھاملک مں غربت کم ہوتی لوگ خوشحال ہوتے۔پنجاب کے اندر آباد پختون بھائیوں کے لئے فائدہ مند ہے


اب اعتراضات کا جائزہ لتےہیں صوبہ سندھ کے صاحبان فرماتے ہں ہمار ے حصے کا پانی روک لا جائے گا۔ فالتو پانی بجائے کہ بارشوں کے موسم مں ضرورت کے لےتحت ذخر۔ہ کا جائے اسے سمندر مںل جانے دیں ورنہ ہمارے سمندر کے قریب زمںروک سمندر خراب کر دے گا۔ جب بارش نہںی ہو گی تو پانی نے ل کی طرف نہںل آئے گا اس سے ہماری جھلو ں مں پانی کم ہو جائے گا۔ پہلے ہی پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیم بن چکے، اب ان اعتراضات کا جائزہ لتے ہیں 1991 ءمیں پانی کی تقسیم کا تمام صوبوں سے منظور شدہ فارمولہ پہلے سے موجود ہے لہٰذا ایک دوسرے کاپانی کوئی بھی نہیں روک سکتا۔عقل کا تقاضہ ہے کہ ایک حد سے زیادہ پانی سمندر میں منتقل جانے دیا جائے بلکہ یہ آپ کی ہی ضرورت کے لےک ذخرئہ کر جائے گا اس سے تھر پارکر جسےہ خشک سالی کا شکار علاقے جوپانی کی بوند بوند کو ترستے ہں ان کے لےں ضروری ہے۔ کاے آپ کا پڑوسی بھارت درجن سے زائد میگا ڈیم بنا چکا ہے؟ جبکہ اس کے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا شمار ہی نہیں ۔


ہمارے دریاﺅں پر60 سے زیادہ ڈیم بند نہں بنا چکا! پاکستان کو اپنے دریاﺅں پر ضرورت کے مطابق ڈیم بند بنائے؟جھلو ں میں ذخیرہ جمع شدہ پانی کسی وقت بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔صوبہ خبر پختونخواہ کے صاحبان کا اعتراض ہے کہ ڈیم سے ہمارا نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا جبکہ اس کا جواب اس وقت کے واپڈا کے سابق سربراہ جن کا تعلق خبر پختونخواہ سے ہی ہے ٹیکنیکل ثبوت پیش کر چکے ہیں کہ پانی کی اونچائی اتنی تجویز کی گئی ہے کہ نوشہرہ شہر کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔اے این پی کے مرحوم لیڈر کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ڈیم بننے کی صورت مںپ اس پر بم گرا دیا جائے گا۔ ڈیم بننے سے جسے اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ خبر پختونخواہ کے 8 لاکھ ایکڑ رقبہ زیر کاشت لایاجا سکے گا اور بم تو جنگ کی شکل مںن دشمن پر گرایا جاتا ہے نہ اپنے ہی ڈیموں پر صوبہ بلوچستان کو ڈیم بننے سے فائدہ ہے کوئی نقصان نہیں لیکن سندھ اور خیبر پختونخواہ کی پنجاب مخالف لابی کی ہاں مں ہاں ملاتے ہوئے وہ صاحبان ڈیم پر اعتراضات کرتے ہیں


قارئن ! اب مجرمانہ غفلت کی بات کرتے ہںا۔ سب سے پہلے فوجی آمروں کی مجرمانہ غفلت ہے انہوں نے کئی بارقوم کو فتح کےا ور ساےہ سفدا کے مالک بن جانے کے بعد ڈیم بنا سکتے تھے مگر انہوں نے ڈیم نہںہ بنایا اس کے بعدان سامستدانوں،جن کو پارلمنٹ مںک ٹو تھرڈ مجارٹی ملنے کے باوجود وہ مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے قوم مںم اتفاق پد ا نہںا کر سکے اور ڈیم نہ بنا سکے کوئی مانے نہ مانے بھارت ہمارا ازلی دشمن ڈیم مخالف لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتا رہا ہے جس وجہ سے ڈیم نہ بن سکاپنجاب مںں جہاں ڈیم بننا ہے وہاں کے سا ست دانوں نے بھی مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے اور اپنا اپنا اقتدار بچانے کےلےو ڈیم کا صححا مقدمہ پشج نہںم کاے ان مںے سے صرف دو سانستدانوں کے بافن پشئ کرتے ہیں پی پی کے نمائندے اور اس وقت کے بجلی پانی کے وفاقی وزیر اور موجودہ وزیر اعظم صاحب نے فرمایا تھا کالا ڈیم نہںم بننا چاہیے۔ نواز شریف سابق وزیر اعظم پاکستان نے 1998 ءمں فرمایاتھا ڈیم بننے سے ملک کمزور ہو گا اسلامی ذہن،تعصب سے پاک، پاکستان کی ترقی کے خواہشمند پاکستانی عوام نے بھی کوئی بڑی تحریک ڈیم بننے کے لے برپا نہں کی کہ ڈیم بننے مںا مددگار ہوتی کالا باغ ڈیم پپلزخ پارٹی کے بانی جنا ب ذوالفقار علی بٹھو صاحب کا تجویز کردہ ہے اس لیے مرکز مںن موجوو حکمران جماعت کو اس معاملے کو پارلمنٹا کے اندر ڈیٹ ب کروا کے اتفاق رائے پدٹا کروانا چاہےا اس طرح پنجاب کی حکمران جماعت اپنے صوبے کے عوام کو لوڈ شڈ نگ سے نجات ا ور ان کی فلاح وبہبود کے پشڈ نظر ڈیم کے معاملے کو پنجاب اسمبلی مںا ڈیٹ ک کرواکر منظور کروائے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کی تمام سا سی پارٹوبں کے ممبران بھی عوام مںی ڈیم بنانے کے لیے مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ واپڈا نے پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ مںا داخل کےج گئے باان کے مطابق کہا ہے کہ
اگرمشترکہ مفادات کی کونسل اجازت دے تو ڈیم 2020ءتک بن سکتا ہے۔


صاحبو! ہم سب پاکستانی ہں جس جس سے کسی مجبوری کی وجہ سے کوتاہی ہوئی اللہ ان سب کو معاف کرے دشمن پاکستان کو تباہ کرنے کے منصوبے بناہ رہے ہںا اس لئے ہم پاکستانی عوام سے دردمندانہ درخواست کرتے ہیں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے فارمولے کے تحت کہ وہ اس کام مںا اپنا اپناحصہ ڈالیں ۔ مثل مدینہ اسلامی مملکت جمہوریہ پاکستان کی بقا ءاور آئندہ نسلوں کے لیے کالاباغ ڈیم بننا ضروری ہے ورنہ ہمارا ملک بنجر ہو جائے گا۔ کالا باغ ڈیم بنانے کے لے ایک شعوری مہم شروع کرنا چاہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، محب وطن این جی اوز،کالم نگار ، اخبارات کے مالکان ،ٹی وی کے مالکان اور مذہبی جماعتوں کے علماءجمعہ کے خطبات وغرمہ کے ذریعے شروع کرنی چاہےا تاکہ بزدل مقتدر لوگوں پر پریر بڑھے اور وہ ڈیم بنانے پر مجبور ہوں قابل قدر ہے روز نامہ امن فصلم آباد جس نے یہ کام شروع کیا ہوا ہے۔ یاد رکھیں اگر مصر کے عوام تحریر چوک بنا کر ایک آمر سے اپنے جائز مطالبات منوا سکتے ہں تو پاکستان کے عوام بھی یہ کام کر سکتے ہیں اللہ ہماری قوم کو صحح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


http://jamaat.org/ur/articledetail.php?id=2299
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

جب توانائی کے بحران کے مستقل حل کا سوچا جائے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سوا کوئی دوسرا مستقل حل قابل عمل اور کارآمد نظر نہیں آتا اس لئے جب ہمارے پاس اس بحران سے عہدہ برا ہونے کا مستقل اور پائیدار ایک ہی حل موجود ہے تو حکمران طبقہ اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر قومی ترقی و بقا کے اس منصوبے کو سیاست کی نذر کرنے پر کیوں تلا بیٹھا ہے اور کیوں اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے نہیں کیا جاتا۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر صرف توانائی کے ذرائع میں اضافہ کرنے کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ پاکستان کو خوراک و زرعی پیداوار میں خود کفالت کی منزل تک پہنچانے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کالا باغ ڈیم کی عدم تعمیر کے باعث 26.1ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی ہر سال سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو پھر بھی صرف 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ہی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے صوبہ سندھ کی8 لاکھ ایکڑ، سرحد کی 4 لاکھ 40 ہزار ایکڑ، بلوچستان کی5 لاکھ10 ہزار ایکڑ اور صوبہ پنجاب کی6 لاکھ80 ہزار ایکڑ اضافی زمین زیر کاشت آئیگی۔ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ کالا باغ ڈیم جیسے فقید المثال منصوبہ سے ملک میں زرعی انقلاب آجائیگا۔ زرعی مفادات کے علاوہ اس منصوبے سے 3600میگاواٹ سستی اضافی بجلی حاصل ہوگی۔ ایک اہم بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ تربیلا ڈیم سے اگر ایک لاکھ بیس ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے تو مکمل صلاحیت کے مطابق یہ ڈیم 3700میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے جبکہ اس سے صرف 1500میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کا ہمیشہ خدشہ موجود رہا ہے کہیں اس سے چھوڑا جانے والا اضافی پانی سمندر میں بہہ کر ضائع نہ ہو جائے۔ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے تو تربیلا ڈیم اور کالا باغ ڈیم کے مشترکہ عمل سے 5800میگاواٹ سستی اضافی بجلی حاصل ہوگی جو ملک میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔یہ حقیقت ہے کہ توانائی کے بحران پر صرف کالا باغ ڈیم تعمیر کرکے ہی قابو پایاجاسکتا ہے۔اس حقیقت کا ہمارے شاطر دشمن بھارت کو بھی بخوبی احساس و ادراک ہے اس لئے وہ بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو سبوتاژکرانے کیلئے اپنے وسائل اور سازشی ذہن بروئے کار لا رہا ہے جس نے بالخصوص سندھ میں اپنی سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ اس ڈیم کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کیلئے مبینہ طور پر سندھی قوم پرستوں کی مخصوص لابی کو بھارتی ایجنسی را کی جانب سے مالی طور پر نوازا رہا ہے چنانچہ اس لابی کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں سندھ کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس سرحد میں ہندتا کے فلسفہ کے پرچارک سرحدی گاندھی کے پیروکاروں کی جانب سے اسی بھارتی ایجنڈہ کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے اس دلیل کا سہارا لیا گیا کہ اس سے نوشہرہ اور سرحد کے کئی دوسرے شہر ڈوب جائیں گے۔پختون یا پٹھان، آبی ماہرین اور انجینئرز ان دونوں زہریلے پراپیگنڈوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ نااہل حکمرانوں کو شائید اس بات کا مکمل طور پر ادراک نہیں کہ توانائی کا بحران کسی بڑے طوفان پر منتج ہو سکتا ہے۔اس وقت کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اصولی طور پر تو قومی تعمیر و ترقی کے ضامن اس منصوبے پر شروع دن سے ہی اتفاق رائے قائم ہو جانا چاہئے تھا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں ہمیں کالاباغ ڈیم سمیت ہر چھوٹے بڑے ڈیم کو تعمیر کرلینا چاہئے تھا مگر ہماری حکومتیں اور سیاست دان ایک دوسرے پر محض سیاسی پوائنٹ سکور کرنے اور اپنے اپنے مفادات کے تحت کالاباغ ڈیم کے حق اور مخالفت میں آوازیں بلند کرنے میں ہی مصروف رہے کسی نے یہ نہ سوچا کہ کالاباغ ڈیم تعمیر نہیں ہو پائے گا تو ہم وقت کے تقاضوں کے مطابق بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت کیسے پوری کرینگے؟ اگر قومی تعمیر و ترقی کا جذبہ سیاست دانوں کے پیش نظر ہوتا تو نہ سرحد سے اس ڈیم کو بم مار کر اڑا دینے کے زہریلے نعرے لگتے اور نہ ہی سندھی قوم پرستوں کو اس ڈیم کی مخالفت میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملتا اور اب تک یہ ڈیم تعمیر ہو کر ملک میں توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے قومی معیشت کی ترقی و استحکام کی بنیاد رکھ چکا ہوتا۔مگر بدقسمتی سے جن فوجی اور سول حکمرانوں کو اپنے اپنے دور حکومت میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے قومی اتفاق رائے کی فضا قائم کرنے کا موقع ملا انہوں نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور اس ڈیم کو سیاست کی نذر ہونے دیا۔

http://mustafaji.blogspot.com.es/2013/05/blog-post.html​
 
Last edited:

Back
Top