یوتھیا لیڈرشپ کے چہروں پر سراسیمگی اور ہوائیاں اب نمایاں ہونے لگی ہیں۔ بارودی سرنگیں بچھانے کے دعویدار ملک دشمن یوتھیوں نے آی ایم ایف سے چار سال تک جان نہیں چھڑوای حالانکہ دعوے خودکشی کے تھے بلکہ آی ایم ایف سے ایک مہنگے ترین قرض کا معاہدہ کیا گیا جس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اسٹیبلشمینٹ نے ان کی سپورٹ چھوڑ دی شہباز کو ہم جو مرضی کہیں مگر اس نے اسٹیبلشمینٹ کی مرضی پر چوں چراں کئے بغیر من و عن عمل کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط کر لیا ہے
اب یوتھیوں کے پاس آخری پناہ گاہ کے پی کا صوبہ ہے جہاں ایک احمق سا وزیراعلی (بزدار کی کاپی) بیٹھا عجیب باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس نے تہتر کروڑ یوتھیا پروپیگنڈہ کرنے کیلئے مختص کردیا ہے حالانکہ ایبٹ آباد سے لے کر کاغان تک کوی ہسپتال نہیں اس رقم سے ہر پچاس کلومیٹر پر ایک چھوٹا سا ہسپتال اور ہر سو میل پر ایک تمام میجر سہولیات سے مزین بڑا ہسپتال بن سکتا تھا جس سے ٹورسٹس کو سہولت رہتی۔ اس سے قبل جو رقم (ترانوے کروڑ) لانگ مارچ پر پھونک دی گئی اس سے سارے صوبے اور ٹورسٹ ایریا کی سڑکیں نئی ہوسکتی تھیں اور اس قدم سے بھی ٹورازم کو فروغ ملتا
اس احمق شخص نے پچھلے دنوں یہ بیان دیا کہ پاکستان میں رہنے سے اچھا ہے ہم افغانستان ہجرت کرجائیں
میں ایک تاریخی سبق یاد کرواتا جاوں کہ افغانستان کی طرف ہجرت ایک بار پہلے بھی کی گئی تھی۔ اس وقت مذہبی عناصر اس ہجرت کے پیچھے تھے اور ان کا یہ بیانیہ تھا کہ انگریز کو خالی گھروں پر حکومت کرنے دو ہم اسلامی سلطنت میں جاکر رہتے ہیں جب لاکھوں پیروکار ہجرت کرکے افغانستان گئے تو وہاں کے بادشاہ نے انہیں جوتے مار کے واپس بھجوا دیا بلکہ ان سے مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ واپسی پر بہت سارے بھوک اور افلاس سے مر گئے اور بہت سارے پاگل ہوگئے جو واپس پنہچ سکے انہیں جیلوں میں دھکیل دیا گیا غرض پوری مسلمان برادری کو اس احمقانہ ہجرت نے ہلا کررکھ دیا تھا۔
کے پی کا احمق وزیراعلی اپنے یوتھیوں سمیت افغاستان ضرور دفعان ہوجاے (خس کم جہاں پاک) مگر یاد رکھنا پھر واپسی کے راستے بند ہوں گے
میں وزیرداخلہ سے درخواست کروں گا کہ ان سب دھشت گرد یوتھیا وزیروں کے خلاف سخت ترین کاروای کی جاے جنہوں نے خودکش حملے کے بیانات داغ کر ملک دشمن تنظیم ٹی ٹی پی کے ایجنڈے کو سپورٹ کیا تھا ( یعنی اپنے مطالبات منوانے کیلئے خودکش حملے کرکے بے گناہ پاکستانیوں کو مارو)۔ ان ملک دشمنوں کا ٹھکانہ جیل ہونی چاہئے ناکہ پارلیمینٹ لاجز
راقم
ببر شیر
سپورٹر پاک فوج
اب یوتھیوں کے پاس آخری پناہ گاہ کے پی کا صوبہ ہے جہاں ایک احمق سا وزیراعلی (بزدار کی کاپی) بیٹھا عجیب باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس نے تہتر کروڑ یوتھیا پروپیگنڈہ کرنے کیلئے مختص کردیا ہے حالانکہ ایبٹ آباد سے لے کر کاغان تک کوی ہسپتال نہیں اس رقم سے ہر پچاس کلومیٹر پر ایک چھوٹا سا ہسپتال اور ہر سو میل پر ایک تمام میجر سہولیات سے مزین بڑا ہسپتال بن سکتا تھا جس سے ٹورسٹس کو سہولت رہتی۔ اس سے قبل جو رقم (ترانوے کروڑ) لانگ مارچ پر پھونک دی گئی اس سے سارے صوبے اور ٹورسٹ ایریا کی سڑکیں نئی ہوسکتی تھیں اور اس قدم سے بھی ٹورازم کو فروغ ملتا
اس احمق شخص نے پچھلے دنوں یہ بیان دیا کہ پاکستان میں رہنے سے اچھا ہے ہم افغانستان ہجرت کرجائیں
میں ایک تاریخی سبق یاد کرواتا جاوں کہ افغانستان کی طرف ہجرت ایک بار پہلے بھی کی گئی تھی۔ اس وقت مذہبی عناصر اس ہجرت کے پیچھے تھے اور ان کا یہ بیانیہ تھا کہ انگریز کو خالی گھروں پر حکومت کرنے دو ہم اسلامی سلطنت میں جاکر رہتے ہیں جب لاکھوں پیروکار ہجرت کرکے افغانستان گئے تو وہاں کے بادشاہ نے انہیں جوتے مار کے واپس بھجوا دیا بلکہ ان سے مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ واپسی پر بہت سارے بھوک اور افلاس سے مر گئے اور بہت سارے پاگل ہوگئے جو واپس پنہچ سکے انہیں جیلوں میں دھکیل دیا گیا غرض پوری مسلمان برادری کو اس احمقانہ ہجرت نے ہلا کررکھ دیا تھا۔
کے پی کا احمق وزیراعلی اپنے یوتھیوں سمیت افغاستان ضرور دفعان ہوجاے (خس کم جہاں پاک) مگر یاد رکھنا پھر واپسی کے راستے بند ہوں گے
میں وزیرداخلہ سے درخواست کروں گا کہ ان سب دھشت گرد یوتھیا وزیروں کے خلاف سخت ترین کاروای کی جاے جنہوں نے خودکش حملے کے بیانات داغ کر ملک دشمن تنظیم ٹی ٹی پی کے ایجنڈے کو سپورٹ کیا تھا ( یعنی اپنے مطالبات منوانے کیلئے خودکش حملے کرکے بے گناہ پاکستانیوں کو مارو)۔ ان ملک دشمنوں کا ٹھکانہ جیل ہونی چاہئے ناکہ پارلیمینٹ لاجز
راقم
ببر شیر
سپورٹر پاک فوج